ڈاکٹر
عبدالرحمن بجنوری: ایک نابغۂ روزگار شخصیت
آفاق حسین صدیقی
ڈاکٹرعبدالرحمن بجنوری ہماری علمی وادبی تاریخ کاایک معتبر اور محترم نام ہے وہ بیک وقت ایک باریک بیں محقق، نکتہ رَس، ناقد، اعلیٰ مفکر، بے مثال مدبر، ماہرقانون داں، ماہرتعلیم، شعلہ بیان مقرر، بلندپایہ مترجم، صاحب طرز نثرنگار اور جدت پسند شاعرتھے۔ انھوں نے اگرچہ مختصرعمرپائی لیکن قلیل مدت میں علم وادب کے مختلف میدانوں میں اپنی فہم وفراست کے روشن نقوش یادگار چھوڑے ہیں۔
عبدالرحمن بجنوری سیوہارہ ضلع بجنور میں آباد ایک معززخاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ اس خاندان کے بزرگ سرزمین عرب سے ہجرت کرکے ایران آذربائیجان میںآباد ہوئے تھے۔ پھراسی خاندان کے ایک بزرگ ہندوستان آئے۔ بجنوری کے خاندان کے بارے میں ان کے فرزند فاتح فرخ نے لکھا ہے :
’’محمدابن ابوبکر کی اولاد ہیں۔ ابتدائے اسلام میں اس خاندان کی ایک شاخ زنجان صوبۂ آذر بائیجان ملک ایران میں مقیم ہوئی۔ بعدازاں ہندوستان میں بہ عہدۂ قضا ممتاز ہوکر ایک صاحب اس خاندان کے آئے جن کی نسل اب تک سیوہارہ ضلع بجنور میں آباد ہے۔‘‘1
بجنوری کی تاریخ پیدائش کے مستند شواہد دستیاب نہ ہونے کی بناپران کی تاریخ پیدائش کے سلسلہ میں محققین کے درمیان اختلافات ملتے ہیں۔محمدفاتح فرخ نے ’یادگار بجنوری‘ میں ان کی پیدائش 1885 درج کی ہے اور لکھا ہے کہ صحیح تاریخ معلوم نہیں۔2 ڈاکٹرشہزاد بانودہلوی نے ’اردو ادب کے خالق‘ میں ان کی تاریخ پیدائش 10جون 1885 درج کی ہے۔3 اس سلسلہ میں انھوں نے کوئی حوالہ نہیں دیا ہے جب کہ مشہور محقق ڈاکٹر سید حامدحسین نے ریاست بھوپال کے قدیم سرکاری ریکارڈ کے حوالے سے ان کی تاریخ پیدائش 10جون 1887 تحریر کی ہے۔4
بجنوری کی ابتدائی تعلیم وتربیت مشرقی انداز میں گھر پران کی والدہ کی نگرانی میں ہوئی ان کی والدہ آمنہ خاتون اپنے زمانے کے جید عالم دین مولوی ریاض الدین کی بیٹی تھیں اور دینی علوم سے گہری واقفیت رکھتی تھیں انھوں نے بچوں کو قرآن شریف پڑھانے کے لیے سہارنپور کے قاری حافظ نیازصاحب کومقررکیاتھا۔ بعدمیں جب بجنوری کے والد قاضی نورالاسلام برٹش حکومت کی ملازمت کے سلسلے میں کوئٹہ گئے تو بجنوری بھی حصول تعلیم کی غرض سے ان کے ہمراہ کوئٹہ چلے گئے۔ بجنوری کے والدمشرقی علوم کے ساتھ انگریزی کی اچھی استعداد رکھتے تھے اوراپنی صلاحیتوں کی بناپر برٹش حکومت کے اعلیٰ عہدوں پرفائز رہے اور’خان بہادر‘ کے اعزاز سے سرفراز ہوئے تھے۔ بجنوری نے 1902 میں کوئٹہ ہائی اسکول سے دسویں جماعت کاامتحان پاس کیا۔ اس کے بعد مزیدتعلیم کے لیے وہ علی گڑھ گئے اور محمڈن اینگلو اورینٹل کالج میں داخلہ حاصل کیا۔ یہاں سے 1904 میں انھوں نے الہ آباد یونیورسٹی سے انٹر اور 1906 میں بی۔اے کے امتحانات پاس کیے۔اس کے بعد اسی کالج سے انھوں نے 1909 میں ایل ایل بی کاامتحان پاس کیا۔
بجنوری بچپن سے ہی انتہائی ذہین،متین اور غوروفکر کرنے والے انسان تھے۔ ابتداء سے ہی وہ وطنی محبت کے جذبے سے سرشار وغیرملکی اقتدار سے بیزار، مشرقی علوم وحکمت کے پرستار اور اپنی مادری زبان اردو کے شیدائی اور اس کے علمی وادبی ذخیرے کی اہمیت و وقعت کے قائل تھے۔ علی گڑھ کے قیام کے دوران میں ہی جہاں ان کی ذہنی وفکری صلاحیتوں کوبھرپور طورپر ابھرنے کاموقع ملا وہیں یہاں کی فضا اور ماحول نے ان کے جذبات واحساسات میں شدت اور استحکام پیدا کیا اورخیالات میں پختگی اور غور وفکر میں سنجیدگی اورمتانت پیدا ہوگئی جس کی بناپر تعلیم کے دوران میں بہت جلد ہی انھیں محمڈن کالج میں غیرمعمولی مقبولیت اور اہمیت حاصل ہوگئی اوراپنے ہمعصروں میں قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھے جانے لگے۔اسی کانتیجہ تھا کہ محمڈن اورینٹل کالج میں 1907 میں انگریزوں کے خلاف جواسٹرائک ہوئی تھی اورپانچ ماہ تک جاری رہی تھی، بجنوری اس کے رہنماتھے اسی کے بعد 21اور 22جنوری 1908 کو جب یونین کلب کا الیکشن ہوا تو بجنوری بلامقابلہ نائب صدر منتخب کیے گئے۔ انھوں نے یونین کے نائب صدر کی حیثیت سے نہ صرف اپنی ذمے داریوں کوبحسن خوبی انجام دیا بلکہ نائب صدر کی حیثیت سے نئی نئی سرگرمیوں کاآغاز کرکے اورتقریروتحریر کے نئے مقابلے اور اہم موضوعات پر سمینار اور مباحثوں کاانعقاد کرکے اورکالج کی دوسری ضروریات پرتوجہ دے کراس عہدہ کے وقار میں بڑااضافہ کردیا۔ کالج کی تعلیم کے دوران میں انھیں کئی اعزازات سے بھی سرفراز کیاگیا۔ جس میں سے ایک ’کیمبرج اسپیکنگ پرائز‘ خاص طورپر قابلِ ذکر ہے۔5۔ (یہ انعام 1888) میں کالج کے پروفیسر ہیرالڈ کاکس (Horoldcox) نے قائم کیاتھا۔یہ ہرسال اس طالب کودیاجاتھا جو یونین کے مباحثوں کے دوران میں انگریزی زبان میں بہترین تقاریر کرتاتھا۔
محمڈن کالج کے دوران میں ہی بجنوری نے کالج کے اندرونی علمی وتعلیمی اورانتظامی معاملات میں دلچسپی لینے کے ساتھ ملکی اورقومی معاملات میں بھی دلچسپی لینا شروع کردیاتھا اورجیسا کہ ذکرکیاگیا کہ ابتداسے ہی وطنی محبت کاجذبہ ان میں موجزن تھا۔ چنانچہ انھوں نے تصدق احمدشروانی،سیدمحمود اور عبدالرحمن صدیقی کے ساتھ مل کر ’اخوان الصفا‘ کے نام سے ایک خفیہ جماعت کی تشکیل کی تھی اس جماعت کامقصد طلبا کوانگریزوں کی مرعوبیت سے نجات دلانا، ان میں وطنی محبت کے جذبات کوفروغ دینا اور غلامی سے نجات حاصل کرنے کی تحریک پیدا کرنا تھا۔ اس جماعت کے سلسلہ میں ڈاکٹر سیدمحمود نے ایک خط میں لکھاتھا:
’’مقالے پڑھے جاتے تھے کہ انگریزوں کو کیسے ملک سے نکالا جائے، ایک بارہم لوگوں نے مل کرسرسید کے مزار پرعہدوپیمان کیا کہ جب تک ہم انگریزوں کو ملک سے نکال نہ دیں گے دم نہ لیں گے اور ملک کو غلامی سے آزادی دلانا ہماری زندگی کامقصدہوگا۔‘‘6
بجنوری 1909 میں علی گڑھ کالج سے قانو ن کی ڈگری لینے کے بعد قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے اکتوبر 1910 میں انگلستان گئے وہاں انھوں نے لنکز اِن (Lincoln'sinn)میں بیرسٹری کی تعلیم کے لیے 24اکتوبر 1910 کو داخلہ لیا ساتھ ہی جرمنی میں ریسرچ کرنے کے اپنے منصوبے کے تحت فرائی برش (باون) کی یونیورسٹی میں بھی داخلہ حاصل کرلیا دسمبر 1913 میں انھوں نے بیرسٹری کاامتحان پاس کیا اور 26 جنوری 1914 کوانھیں بیرسٹر بنادیاگیا۔ 7
بجنوری نے جرمنی میں’اسلامی قانون کے ماخذات‘ پرتحقیقی مقالہ پیش کیاتھا اُنھیں 1913 میں اس پر ڈی.جے کی ڈگری تفویض کی گئی تھی۔ جرمنی زبان میں لکھے گئے اس مقالے کو جولائی 1914 میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیاتھا۔ 8
بجنوری نے اعلیٰ تعلیم کے دوران انگلستان اور جرمنی اورفرانس کے مختلف مقامات کی سیاحت کے مواقع بھی نکالے انھوں نے جنوبی یوروپ اور جنوب مشرقی ممالک کی سیاحت میں خاص دلچسپی لی اور وہاں کے رہنماؤں اوردانشوروں سے ملاقاتیں کیں انھوں نے ترکی کی سیاحت میں خاصا وقت گزارا اورمسلم دانشوروں سے مل کروہاں کے سیاسی وسماجی وتہذیبی معاملات ومسائل سے واقفیت حاصل کی۔ ’باقیات بجنوری‘ میں شامل ان کے خطوط اورمضامین ’خواب‘ اور ’بلغاریہ میں اسلام‘ وغیرہ سے اس کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
بجنوری 1914 میں ہندوستان واپس آئے تو قانون کی اعلیٰ ڈگری ہونے کے باوجود وہ وکالت کاپیشہ اختیار کرنے کے بجائے کسی ایسے میدان میں اپنی صلاحیتوں کواستعمال کرنا چاہتے تھے جس سے ملک وقوم کو فائدہ پہنچ سکے لیکن باوجود کوششوں کے ان کو ان کے مزاج اور خواہش کے مطابق کوئی عہدہ نہیں مل سکا چنانچہ مجبوراً انھوں نے مرادآباد میں وکالت شروع کردی اوراپنی افتاد طبع کے تحت ملّی اورعلمی کاموں میں بھی حصہ لیتے رہے اسی دوران جب بجنوری مراد آباد میں تھے اور اپنی خواہشات کے برخلاف وہاں وکالت کررہے تھے 16اپریل 1916 کو نواب زادہ حمیداللہ خاں نے ریاست بھوپال کے چیف سیکریٹری کاعہدہ سنبھالا۔ وہ محمڈن اینگلواورینٹل کالج کے طالب علم رہے تھے انھوں نے 1915 میں وہاں سے بی اے کیاتھا اورمسلم یونیورسٹی کے سلسلہ میں مختلف کمیٹیوں میں شامل تھے اورمسلم یونیورسٹی کے قواعد وضوابط وغیرہ کے سلسلہ میں بجنوری کی صلاحیتوں سے بخوبی واقف بھی تھے اوران کے معترف بھی۔چنانچہ ریاست بھوپال میں ایک مفید اورمعتبرنظام تعلیم کی ترتیب وتشکیل کے لیے انھوں نے بجنوری سے ریاست بھوپال میں مشیرتعلیم کے عہدہ پر آنے کی پیش کش کی۔ بجنوری نے اِسے قبول کرلیا اوروہ چھ ماہ کے لیے 500 روپے ماہوار مشاہرے پریکم اکتوبر 1916 کو بھوپال آگئے بعد میں ہرچھ ماہ بعد ان کی ملازمت کی توسیع ہوتی رہی۔ 9
ریاست بھوپال کی ملازمت کے دوران بجنوری کو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے وسیع مواقع ملے۔ سب سے پہلے انھوں نے افسران بالا کے ساتھ ریاست کے اضلاع اورمواضعات کے دورے کرکے یہاں کی تعلیمی سرگرمیوں کی صورتحال کا جائزہ لیا اس کے بعد غوروفکر کرکے ایک مفید اور مناسب نظامِ تعلیم مرتب کیا اور ’قانون تعلیم جبریہ شہربھوپال‘ کامسودہ تیارکیا۔ ’قانون تعلیم جبریہ شہربھوپال‘ کے نام سے یکم جنوری 1918 کو سلطان جہاں نے منظور کیا اورسرکاری گزٹ میں شائع کیاگیا۔ بھوپال میں بجنوری کادوسرا اہم کام ایک ایسا کالج قائم کرنے کی تجویز تھی جس میں متوسط طبقے کے طلبا کم خرچ پراعلیٰ تعلیم حاصل کرسکیں۔ اس اسکیم پر نواب زادہ حمیداللہ خاں، عمادالملک سیدحسین بلگرامی، حکیم اجمل خاں، مفتی محمدانوارالحق، جسٹس عبدالرحیم، بیرسٹر محمدنسیم (پروفیسر محمدمجیب کے والد) اورسید علی امام اور عبدالرحمن بجنوری نے تائید میں دستخط کیے تھے۔ اس کالج کانام سلطانیہ کالج تجویز کیاگیاتھا۔ یہ دہرہ دون میں قائم ہوناتھا اس کے لیے نواب سلطان جہاں نے 4 لاکھ روپے دینے کی منظوری دی تھی۔ بجنوری نے اس کالج کے قیام کے اغراض ومقاصد پرتفصیلی بحث کے ساتھ منشور کامسودہ مرتب کیا اوربجٹ تیارکردیاتھا لیکن برٹش حکومت کے حکام بالا کی تائید حاصل نہ ہونے کی بناپرکالج کامنصوبہ پورا نہ ہوسکا۔
بجنوری بھوپال میں قیام کے دوران میں ریاست کے تعلیمی معاملات میں مصروف رہنے کے ساتھ مجوزہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام کی کوششوں سے بھی وابستہ رہے۔ تعلیمی مسائل سے بجنوری کی دلچسپی کاآغاز ان کے ایم او کالج کے طالب علمی کے زمانے سے ہی ہوچکا تھا۔ 1906 میں جب لکھنؤ میں تعلیمی کانفرنس منعقد ہوئی تھی تو کالج کے ٹرسٹیوں اوراسٹاف ممبران کے ساتھ بجنوری بھی لکھنؤ گئے تھے۔ اس کے بعد وہ یونیورسٹی کے قیام کی کوششوں میں اوراس کے کانسٹی ٹیوشن کی تیاری کے سلسلہ میں برابرحصہ لیتے رہے تھے اس کے پیش نظر جب 1912 میں یونیورسٹی کے قواعد وضوابط تیارکیے گئے تو ڈاکٹر ضیاء الدین نے اس کامسودہ اظہار رائے کے لیے بجنوری کو جرمنی بھیجاتھا۔10 بجنوری نے اس پر غور وخوض کرکے اس پرتبصرہ کرکے مجوزہ یونیورسٹی کے اراکین کو بھیجاتھا لیکن ان کی تجاویز پر بحث نہیں ہوسکی بعدمیں جب بجنوری ہندوستان واپس آئے تو نواب وقارالملک نے بجنوری کواسے شائع کرنے کا مشورہ دیا چنانچہ بجنوری نے اسے ٹائٹل پردرج ذیل عبارت کے ساتھ شائع کیاتھا۔
’’مجوزہ مسلم یونیورسٹی کے مسودہ ایکٹ، اسٹیٹیوز، ریگولیشن وغیرہ پرمفصل بحث جس کوچہل ممبران کانسٹی ٹیوشن کمیٹی وجملہ ممبران مسلم یونیورسٹی ایسوسی ایشن کے خاص غوروملاحظہ کے واسطے اور ٹرسٹیان مدرسۃ العلوم علی گڑھ ورہبران قوم کی توجہ کے لیے عبدالرحمن، ممبرمسلم یونیورسٹی ایسوسی ایشن منجانب اولڈبوائز شائع کیا۔11
بجنوری کا یہ تبصرہ نواب وقارالملک کے دیباچہ کے ساتھ ’مجوزہ مسلم یونیورسٹی‘ کے عنوان سے شمس المطابع مرادآباد 1915 میں طبع ہوکر فاؤنڈیشن کمیٹی کے چالیس ممبران مدرسۃ العلوم کے ٹرسٹیوں اوردوسرے رہنماؤں کواظہاررائے کے لیے بھیجاگیاتھا اس کے علاوہ جب ہندویونیورسٹی کے قیام کامعاملہ بھی شروع ہواتواس سلسلہ میں بجنوری نے ہندو یونیورسٹی ایکٹ سے بہت سی باتوں میں اختلاف کااظہار کیا اوراس سلسلہ میں ’ہندویونیورسٹی ایکٹ اور مجوزہ مسلم یونیورسٹی‘ کے عنوان سے ایک رسالہ شائع کیا جو 1916 میں مطبع مفید عام آگرہ سے شائع ہواتھا اس میں انھوں نے مجوزہ مسلم یونیورسٹی کے ایکٹ کے سلسلے میں سیرحاصل بحث کی اورہندویونیورسٹی ایکٹ کی تقلید نہ کرنے کے اسباب پر روشنی ڈالی تھی۔ اس کے بعد مسلم یونیورسٹی کے قیام اوراس کے ریگولیشن کے سلسلہ میں طویل مباحث کاسلسلہ شروع ہواتھا۔ بعد میں ڈاکٹر انصاری کے ایماپر 8اپریل 1917 کوعلی گڑھ میں پرنس حمیداللہ خاں کے زیرصدارت فاؤنڈیشن کمیٹی کے اجلاس میں یونیورسٹی کوفی الحال قبول کرنے کی تجویز منظور کرلی گئی تو نئے حالات کے تحت یونیورسٹی ایکٹ اور ریگولیشن تیارکرنے کے لیے ڈاکٹر ولی محمدکے ساتھ بجنوری کو ذمے داری دی گئی تھی۔12
اس سلسلہ میں ممبرتعلیم سرسنکرن نائر سے ملاقات کے لیے بجنوری 22اگست 1917 کوشملہ گئے وہاں 16 دن کے قیام میں کئی میٹنگیں ہوئیں اوربہت سی اصلاحات اورترمیمات ہوئیں کانفرنس کے بعد 10ستمبر کوبجنوری دہلی پہنچے تھے مجوزہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام اور ایکٹ ریگولیشن وغیرہ کے سلسلہ میں بجنوری کی خدمات کاجائزہ تفصیلی بحث کاموضوع ہے اس سلسلہ میں ان کی غیرمعمولی کوششوں اور خدمات کااندازہ ڈاکٹر انصاری کے درج ذیل الفاظ سے بخوبی ہوتا ہے جوانھوں نے بجنوری کوخراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہے تھے انھوں نے کہاتھا ’’مجوزہ مسلم یونیورسٹی جب کبھی عالم وجود میں آئے گی تواس کے اندرمرحوم کے دماغ اور قلم کے نقوش ہمیشہ صاف نظر آتے رہیں گے۔13
قیامِ بھوپال کے دوران میں بجنوری نے انجمن ترقی اردو کو ایک مفید اورکارآمد ادارہ بنانے کے سلسلہ میں بھی غیرمعمولی دلچسپی دکھائی اوراردو زبان کے فروغ اور اردو کے علمی وادبی سرمایہ میں اضافہ کرنے کی غرض سے کئی تجاویز پیش کیں اوراس ذیل میں برابر مولوی عبدالحق کو تعاون دیتے رہے جس کااعتراف مولوی صاحب نے انجمن کی 1916 کی رپورٹ میں کیا ہے۔14
اس سلسلہ میں بجنوری نے انجمن ترقی اردو کے لیے دیوان غالب کاایک مستند اوردلکش نسخہ ترتیب دینے کاآغاز کیا۔اس سلسلہ میں غالب کے دیوان کے مختلف مطبوعہ نسخوں اوردیگراشعار وغیرہ کی تلاش وجستجو کے کام کے ساتھ انھوں نے مجوزہ نسخے کے لیے ایک مفصل اور مبسوط مقدمہ بھی لکھنا شروع کیا جس کی تکمیل میں تقریباً ایک سال کاعرصہ لگا۔ مقدمہ مکمل ہوگیاتھا اور دیوان بھی ترتیب کی منزلوں سے گزرچکاتھا کہ بھوپال میں اگست 1918 کونواب فوجدارمحمدخاں کے کتب خانہ میں غالب کے دیوان کاایک ایسا قدیم نسخہ دستیاب ہوا جس میں غالب کا نوعمری کے زمانے کابہت سے حذف شدہ کلام بھی شامل تھا۔ چنانچہ بجنوری نے انجمن کے دیوان کو نودریافت دیوان کے ساتھ مرتب کرکے شائع کرنے کا فیصلہ کیا لیکن چندماہ بعد ہی 1918 میں سارے ہندوستان کواپنی گرفت میں لینے والے مہلک مرض انفلوانزا جسے اردو اخبارات نے ’جنگی بخار‘ کانام دیاتھا اس نے بجنوری اوران کی اہلیہ پرحملہ کردیا۔ علاج معالجہ کی تمام کوششیں کی گئیں لیکن کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ پہلے ان کی اہلیہ جمیلہ بی کی وفات ہوئی اس کے چاردن بعد پنجشنبہ 7نومبر کو بجنوری نے بھی داعی اجل کو لبیک کہا اوربھوپال میں ہی لال گھاٹی پرواقع قبرستان میں سپرد خاک ہوئے۔
بجنوری کی وفات کے بعد دیوان غالب کے لیے لکھاگیا ان کامقدمہ انجمن ترقی اردو کے رسالے ’اردو‘ کے پہلے شمارے جنوری 1921 میں’ محاسن کلامِ غالب‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔اسی سال انجمن نے اسے علاحدہ سے ’محاسن کلام غالب‘ کتابی شکل میں شائع کیا۔ 1921 میں ہی بھوپال سے جب دیوان غالب کانسخۂ حمیدیہ مرتبہ مفتی انوارالحق شائع ہوا تواس میں بھی اس مقدمہ کو شامل کیاگیا۔ مقدمہ (محاسن کلام غالب) میں بجنوری نے غالب کے کلام کابڑی گہرائی اورباریک بینی سے جائزہ لے کراردو شاعری میں نہ صرف غالب کی شاعری کی انفرادی وامتیازی خصوصیات کی وضاحت کی ہے بلکہ اپنی غیرمعمولی علمی ادبی معلومات اورفکر انگیزی سے مغربی مفکرین، دانشوروں اور فنکاروں کے افکار وخیالات اورفنی کاوشوں کے تناظر میں غالب کی فکرانگیزی، سوچ وفکر، فلسفیانہ موشگافیوں اوربے مثال فن کاری کاجائزہ لے کر غالب کو دنیائے ادب کا بے مثل فن کار ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اورغالب کو ’رب النوع‘ اور’دیوانِ غالب‘ کو ’الہامی کتاب‘ قرار دیا ہے۔
بجنوری کو علم وادب کاذوق اور شوق ورثے میں ملا تھا۔ ان کی ذہانت،فطانت، گہرے اوروسیع مطالعہ اور فلسفیانہ سوچ وفکر نے اس ذوق وشوق کی بہترین تر بیت کی اس کے علاوہ علی گڑھ کے بمبوق کلب سے وابستہ رہے بعدمیں اردوزبان کے فروغ کے لیے تشکیل دی گئی ’انجمن اردوئے معلی‘ سے وابستہ ہوکر اس کی سرگرمیوں میں شریک رہے اورعلی گڑھ کالج کے بہترین مقررین میں ان کا شمارہونے لگا۔ مولانا محمدعلی کے قول کے مطابق ’’وہ ایک قابلِ فخر مقرر تھے۔ 15
جہاں تک ان کی تحریری کاوشوں کی ابتدا کاپتہ چلتا ہے ان کی نگارشات کی ابتدا ترجموں سے ہوئی تھی ان کاپہلا مضمون ’بیوی کاانتخاب‘ایک انگریزی مضمون کا ترجمہ تھا جو ’مخزن‘ کے ماہ مئی 1904 کے شمارے میں شامل ہواتھا۔ جون 1904 کے مخزن کے شمارے میں ایک اور ترجمہ ’تحائف زندگی‘ کے عنوان سے شائع ہواتھا۔ ان کا طبعزاد مضمون ’بڈھا مصور‘کے عنوان سے فروری 1905 کے مخزن میں شائع ہواتھا اس کے بعد مولانا حالی پر تنقیدی مضمون رسالہ’زمانہ‘ کانپور کے جنوری 1907 کے شمارے میں شائع ہوا۔ علمی موضوعات پران کے مقالات کاسلسلہ ’انجمن اردوئے معلّٰی‘ کی نشستوں میں پیش کیے گئے۔ مقالے کا سلسلہ’مسئلہ ارتقا اورمسئلہ کون‘ سے شروع ہواتھا۔ یہ مقالہ بعدمیں علی گڑھ منتھلی میں شائع ہواتھا علمی موضوع پر ان کادوسرا مضمون جس میں نظام عصبی اور مذہب کے رشتے کوواضح کیاگیاتھاماخذمذہب کی تحقیق کے عنوان سے علی گڑھ منتھلی میں شامل ہواتھا۔ دراصل بجنوری اردوزبان کے عاشق اوراس کے ادبی سرمایے کے معتقد تھے لیکن انھیں اردو زبان میں علمی وسائنسی نوعیت کے ذخیرے کی کمی کااحساس تھا وہ اس کمی کا تدارک کرنے کے خواہش مندتھے تاکہ زبان علمی اور سائنسی معلومات سے بھی مالامال ہوسکے اس کے لیے انھوں نے صرف مشورے نہیں دیے بلکہ خودعلمی موضوعات پرمقالات تحریر کرکے دوسروں کو اس طرف متوجہ کرنے کی سعی کی اردومیں علمی موضوعات کے اضافہ کے سلسلہ میں انھوں نے مسئلۂ ارتقا پرایک تصنیف مرتب کرنے کا بھی ارادہ کیاتھا جس کا پتہ مولوی عبدالحق کے درج ذیل بیان سے چلتا ہے۔
لکھنے سے پہلے انھوں نے کتاب کاایک خاکہ کھینچا تھا............یہ کتاب لکھنی شروع کی تھی .......16
اردو میں علمی ذخیرہ کے اضافہ کے ذیل میں بجنوری ترجمہ کے حامی تھے انھوں نے اپنی تحریری سرگرمیوں کی ابتدا ترجموں سے ہی کی تھی۔ 1907 کے آخر میں جب علی گڑھ میں مولوی حمیدالدین اورمولوی وحیدالدین سلیم کی سرکردگی میں ’انجمن مترجمین‘ کے نام سے ایک انجمن کاقیا م عمل میں آیاتھا تو بجنوری نے اس کی پُرزور حمایت کی تھی اوراس میں شامل ہوگئے تھے۔ بعدمیں بھی وہ انجمن ترقی اردو کے کاموں کے سلسلہ میں برابرترجمہ کی اہمیت وافادیت اورضرورت پرزوردیتے رہے اورخودبھی اس سلسلہ میں عملی قدم اٹھائے۔ جس کااندازہ ان کے ٹیگور کی گیتانجلی کے بعض حصوں کے ترجموں سے ہوتا ہے۔17
بجنوری کی اردو زبان کی بقا اورترقی کی شدید خواہش کی بناپر وہ انجمن ترقی اردو کی سرگرمیوں سے غیرمعمولی دلچسپی لیتے تھے چنانچہ اس سلسلہ میں وہ مولوی عبدالحق سے برابر رابطہ قائم کرتے رہتے تھے مولوی صاحب بھی ان کی آرا، مشوروں کااحترام کرتے اوران کی غیرمعمولی صلاحیتوں کے معترف تھے اس سلسلہ میں ان کے مضامین ’وضع اصطلاحات علمیہ‘ اور’اردوکی ترقی کے لیے چند خیالات ‘ قابلِ ذکر ہیں جوانھوں نے انجمن ترقی اردو کے اجلاسوں میں پڑھنے کے لیے تحریر کیے تھے لیکن بعض غیرمعمولی مصروفیات کی بناپر وہ اجلاسوں میں شرکت نہیں کرسکے تھے لیکن انھوں نے مقالات بھیج دیے تھے یہ مقالات ان کی وفات کے بعد رسالہ اردو میں شامل کیے گئے۔ پہلا مضمون وضع اصطلاحات علمیہ‘‘ رسالہ اردو کے جولائی 1923 کے شمارے میں صفحہ 325 تا 340 میں اور دوسرا جولائی 1921 کے شمارے میں شامل کیاگیاتھا۔ ان کے علاوہ بجنوری نے دوسرے بہت سے اہم موضوعات پر بھی خامہ فرسائی کی ان میں سے ’علم ومذہب‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھنؤ کے رسالہ ’معلومات‘ کے اکتوبر و نومبر 1915 کے شمارے میں شامل کیاگیا تھا اور فرانسیسی فلسفی برگسان کاخواب پرلکچرکاترجمہ ’خواب ‘کے عنوان سے انجمن ترقی اردو کے رسالے ’سائنس‘ کے جنوری 1926 کے شمارے میں شائع ہواتھا۔
بجنوری کی مختلف علمی،ادبی، تحقیقی، وتنقیدی اور معلوماتی نگارشات اوران کے اہم مکاتیب بالخصوص جو انھوں نے قیام یورپ کے دوران میں اپنے اعزّہ کو لکھے تھے ان کے فرزند فاتح فرخ نے باقیات بجنوری اوریادگار بجنوری میں جمع کردیے ہیں۔’باقیات بجنوری‘ 1940 میں مکتبہ جامعہ نئی دہلی سے، پروفیسررشید احمدصدیقی کے تعارف کے ساتھ شائع ہواتھا اس مجموعہ میں تین مضامین،17 مکاتیب، اور14 مکمل منظومات شامل ہیں۔ مضامین کے عنوانات (1) گیتانجلی (2) وضع اصطلاحات علمیہ اور(4) سیر لکھنؤ ہیں۔
دوسرا مجموعہ ’یادگاربجنوری‘ بھی ان کے فرزندنے ہی مرتب کیاتھا لیکن یہ محمدفاتح فرخ کی وفات کے بعد شائع ہوا..............اس میں محمدفاتح فرخ کامقدمہ شامل ہے جس پر 2اپریل 1946 کی تاریخ درج ہے۔ یادگار بجنوری میں مولوی عبدالحق کاتعارف بھی شامل ہے۔ یہ مجموعہ سول اینڈ ملٹری پریس کراچی سے شائع ہوا تھا۔ اندازہ ہے کہ یہ 1951 میں منظرعام پرآیا۔
یادگار بجنوری میں دس مضامین،11مکاتیب،تین نظمیں اور گیتانجلی عنوان کے تحت کچھ اشعار اورمولوی عبدالحق کے نام ایک خط شامل ہے۔ ’یادگاربجنوری‘میں شامل دس نگارشات کے عنوانات حسب ذیل ہیں:
(1) اردو زبان کی ترقی کے متعلق چندخیالات (2) بیوی کاانتخاب (3) بڈھا مصور (4) مسئلہ ارتقااورمسئلہ کون (5) خواب (6)حالی (7) میل جول(8) لندن(9) مآخذ مذہب کی تحقیق (10) تحائف زندگی۔
اس طرح’باقیات بجنوری‘اور ’یادگاربجنوری ‘ میں بجنوری کی نگارشات اورتخلیقات کازیادہ تر سرمایہ محفوظ کردیاگیا ہے۔صرف تین تحریریں ایسی ہیں جوان مجموعوں میں شامل نہیں ہیں مکاتیب ان کے علاوہ ہیں تحریر یں درج ذیل ہیں:
(1) ’سرویا میں اسلام‘ مطبوعہ ہمدرد دہلی (محمدعلی کے اخبار) 11،و 13 ؍جون 1913
(2) ’بلغاریہ میں اسلام‘ مطبوعہ ہمدرد،22،24، و 28؍ جون 1913
(3) ’مذہب وعلم‘ مطبوعہ رسالہ ’معلومات‘ لکھنؤ شمارہ اکتوبر نومبر 1915
بجنوری نے اردو زبان کے علاوہ انگریزی اور جرمنی زبانوں میں بھی اپنی نگارشات یادگار چھوڑی ہیں ان کی زبان دانی کے بارے میں ڈاکٹر خورشیدالاسلام لکھتے ہیں:
’’وہ جدیدعلوم سے غیرمعمولی شغف اوران میں سے چندمیں غیرمعمولی دستگاہ رکھتے تھے اورعربی وفارسی کے علاوہ ترکی زبان وادب سے بھی آشناتھے۔ انگریزی پر زبردست قدرت رکھتے تھے۔ فرانسیسی،اطالوی اورجرمنی جانتے تھے۔’’18
بجنوری کی جرمنی زبان پر دسترس کاثبوت اگران کے ڈاکٹریٹ کے لیے جرمنی میں لکھے گئے ان کے مقالے ’اسلامی قانون کے ماخذات‘ سے ملتا ہے توان کے انگریزی زبان پر عبور کااندازہ ٹیگور کی ’گیتانجلی‘ کے تبصرہ اوران کی نظموں کے تراجم اوراقبال کی مثنویات پرانگریزی میں تحریر کیے گئے مقالے سے ملتا ہے۔ مثنویات اقبال پر ان کا فکر انگیز مقالہ ڈاکٹرنکلسن کے اسرارِخودی کے ترجمے سے پہلے انگریزی رسالے ’ایسٹ اینڈویسٹ‘ بمبئی کی اگست 1918 کی اشاعت میں شائع ہواتھا۔ بعدمیں اس کااردو میں ترجمہ مالک رام صاحب نے کیاجو ’مثنویات اقبال اسرارورموز‘ عنوان سے ’نیرنگ خیال‘ لاہور کے اقبال نمبر ستمبرواکتوبر 1932 میں شائع ہوا۔ اس کے پیش نظر ڈاکٹر خورشید الاسلام نے صحیح لکھا ہے:
’’واقعہ یہ ہے کہ اقبال کو یورپ سے اور ٹیگورکو اردو سے روشناس کرانے کاکام بجنوری نے ہی انجام دیا۔ 19
بجنوری کی نگارشات کا ذخیرہ اگرچہ کم ہے لیکن اس کا سرسری جائزہ لینے پر بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ بجنوری نے اپنی تحریروں میں صرف شعروادب کوموضوع نہیں بنایا بلکہ فلسفہ، مذہب، سیاست، سائنس، تعلیم، اخلاقیات، زبان اوراصطلاح سازی وغیرہ پرفکرانگیز افکار وخیالات کااظہار کیا ہے۔
بجنوری کامزاج فلسفیانہ تھا ان کامطالعہ وسیع، مشاہدہ گہرا اور نگاہ دوررَس تھی انھوں نے جس موضوع پر بھی قلم اُٹھایا اس کی تمامترجزئیات اورباریکیوں پران کی گہری نگاہ اورسنجیدہ وفلسفیانہ غوروفکر نے اس کے تمام پہلوؤں کااحاطہ کرکے ایک طرح سے اس کاحق ادا کردیا ہے جہاں تک بجنوری کی تنقیدنگاری کاتعلق ہے ان کی تنقیدنگاری کاآغاز حالی پران کے مضمون سے ہواتھا۔اس کے بعدمثنویات اقبال پران کا تبصرہ،ٹیگور کی گیتانجلی پر اظہارِ خیالات، محاسن کلام غالب اوربیرسٹر آصف علی کی تخلیقات پر ان کے تبصرے ان کے تنقیدی نظریات کے غماز ہیں۔
بجنوری نے اپنی غیرمعمولی ذہانت، فکرانگیز ی اور علم وادب کے گہرے ادراک وآگہی سے تنقید میں بھی اپنی انفرادیت کاثبوت دیا ہے۔ انھوں نے فن پاروں یافنی کاوشوں کاجائزہ لیتے ہوئے محض اظہار بیان کے معاملات ومسائل تک خود کو محدود نہ رکھتے ہوئے ایک وسیع نقطۂ نظراختیارکیا ہے اور تخلیق کار کے نظریہ حیات کے ساتھ نفس مضمون کے فکری وفلسفیانہ پہلوؤں پر زیادہ زوردیا ہے اورکسی بھی فن پارے کی قدروقیمت کاتعین ایک مخصوص فکری، تہذیبی اورفنی سیاق وسباق میں کرنے کی کوششیں کی ہیں اس کے علاوہ جمالیات کے اصولوں کو بھی پیش نظر رکھا ہے جس کی بناپر ان کی تنقیدی نوعیت کی تحریروں میں بڑی دلکشی اور اثرانگیزی پیدا ہوگئی ہے۔ ان کی تنقید کے بارے میں ڈاکٹرحدیقہ بیگم لکھتی ہیں :
’’بجنوری نے تنقید ادب کی سرحدیں فلسفہ حیات اور عالمی تہذیبی تاریخ سے ملانے کی ابتدا کی۔ بجنوری نے ادب کو تہذیبی وحدت کی حیثیت سے سمجھا، اورتنقید کوفلسفے کی گیرائی اورگہرائی سے ہمکنار کیا۔ انھوں نے اردوتنقید کورسمی اصطلاحات کے شکنجے اورروایتی فکرکی سطحیت سے نجات دلاکر ایک ’فکری حجم‘ سے روشناس کرایا۔ انھوں نے تنقید میں فکرواظہار کی جامعیت کاجورجحان پیدا کیاوہ آج بھی اردوتنقید کاایک اہم اسلوب ہے ‘‘20
بجنوری نے نثرنگاری کے علاوہ نظم گوئی کے میدان میں بھی اپنے جوہر دکھائے۔ بجنوری کی نظم گوئی کاآغاز اگرچہ طالب علمی کے زمانے سے ہی ہوگیاتھا ان کی نظم ’قانون فنا‘ مخزن مارچ 1907 میں شائع ہوئی تھی لیکن ان کی شاعرانہ حیثیت ان کی وفات کے بعدسامنے آئی جب مولوی عبدالحق اورآصف علی نے اس سلسلہ میں پیش رفت کی۔ بیرسٹر آصف علی نے ان کے ایک مضمون ’اوج سخن‘ میں بجنوری کی پانچ نظمیں (1) ناہید (2) ہندوستان(3) موسیقی(4) مجذوب(5) شمع وپروانہ سے بحث کی۔ یہ مضمون ’نقیب‘ بدایوں کے اگست 1920 کے شمارے میں شائع ہواتھا۔ اس کے بعد مولوی عبدالحق رسالہ ’اردو‘ میں ان کی نظمیں شائع کرتے رہے۔ ’نٹ راجا‘ جنوری 1924 کے شمارے میں ’صبح بنارس‘ اپریل 1925 کے شمارے میں ’معلم الملکوت‘ جولائی 1926 کے شمارے میں اور ’اجنبی‘ جولائی 1928 کے شمارے میں شائع ہوئیں۔ ان کے علاوہ ’دعا‘ اگست 1927 ’یادگل‘ عیدنمبر 1927 اور ’داعیِ اجل‘ جوٹیگور کی تخلیق کا ترجمہ ہے۔ عید نمبر 1928کے ’نیرنگ خیال‘ لاہور میں شامل کی گئیں۔
ان میں سے ناہید، ہندوستان، موسیقی، مجذوب، شمع وپروانہ، صبح بنارس، معلم الملکوت،اجنبی، دعا اور یادگل باقیا ت بجنوری میں شامل کی گئی ہیں۔ اورنٹ راجا باقیات بجنور ی میں شامل ہے۔ ’داعی اجل‘ دونوں مجموعوں میں نہیں ہے۔ ان منظومات کے علاوہ ’باقیات بجنور ی‘ میں4 نظمیں اور تین شعراورشامل ہیں۔ نظموں کے عنوانات ہیں (1) بچے اور بڑے (2) ڈارون (3) بندے ماترم(4) ترکی قومی گیت، باقیات بجنوری میں مذکورہ نظموں کے علاوہ ایک قطعہ ’رنگ مانند بشب‘ ٹیگور کی گیتانجلی کے ترجمہ پرمشتمل چندشعر (جوگیتانجلی کے تبصرے میں شامل کیے گئے ہیں) اوربائیس اشعار اورایک مصرع اور شامل کیاگیاہے۔
بجنوری کے مقالات اورمنظومات کے علاوہ ان کے مکاتیب خصوصاً وہ مکاتیب جوانھوں نے اعلیٰ تعلیم کے دوران میں بیرون ممالک سے ان کے والد محترم اور احباب کوتحریر کیے ادبی اہمیت کے حامل ہیں۔خطوط کے مطالعہ سے بجنوری کی باریک بینی، غیرمعمولی قوت مشاہدہ، وسعت النظری اورگہرے غوروفکر کے علاوہ ان کی مذہبی، تہذیبی،سماجی، سیاسی بصیرت کااندازہ ہوتا ہے اوربیرون ممالک کے سیاسی، تمدنی اورثقافتی معاملات اورحالات سے ان کی غیرمعمولی آگہی کاپتہ چلتا ہے۔
ان کے علاوہ ہندوستان میں رہ کرانھوں نے علمی وادبی ہستیوں خصوصاً مولوی عبدالحق اورآصف علی وغیرہ کو جو خطوط لکھے ہیں وہ بھی ان کی علم وادب اورزبان کے مختلف معاملات پر گہرے اورسنجیدہ غوروفکر کے غماز ہیں۔ ان کے بیشتر خطوط باقیات بجنوری اور یادگار بجنوری میں شامل ہیں۔ لیکن ڈاکٹرسید حامدحسین کے قول کے مطابق ابھی بہت سے خطوط غیرمطبوعہ ہیں۔ 21
بجنوری نے اپنی مختصرزندگی میں علم وادب کے میدان میں جوکارہائے نمایاں انجام دیے ہیں ان کے پیش نظربلاخوف تردید کہاجاسکتا ہے کہ وہ ہماری ادبی تاریخ کی ایک ایسی دانشور ہستی تھی جس کی نظیر اگرمعدوم نہیں تو دشوار ضرورہے۔
حواشی:
(1,2) یادگار بجنوری از فاتح فرخ،ص 6
(3) اردوادب کے خالق، از ڈاکٹر شہزاد بانو دہلوی،مطبوعہ یوپی اردو اکادمی، 2012
(4) عبدالرحمن بجنوری مشمولہ ’تحریر‘ جنوری۔مارچ 1973،ص 49
(5) محمڈن کالج ڈائریکٹری 1907
(6) منقولہ ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری کاقومی شعور(مکتوب ڈاکٹر سیدمحمود بنام محمدقاسم صدیقی) از ڈاکٹر سید حامدحسین ’غبارخاطر‘ اورنگ آباد جنوری 1975ص 177
(7) ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری،از ڈاکٹرسیدحامدحسین،تحریر دہلی، جنوری ۔مارچ 1973،ص 50
(8) رسالہ تحریردہلی،از ڈاکٹرحامدحسین، جنوری۔مارچ 1973، ص55
(9) یادگار بجنوری،از فاتح فرخ، ص 18
(10) عبدالرحمن بجنوری۔مجوزہ مسلم یونیورسٹی مراد آباد،1915، ص 4
(11) عبدالرحمن بجنوری، مجوزہ مسلم یونیورسٹی،ص 3
(12) علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ 16مئی 1917، ص2
(13) تقریرڈاکٹر مختاراحمدانصاری،صدرجماعت استقبالیہ آل انڈیا مسلم لیگ اجلاس یازدہم دہلی، 30دسمبر 1918،ص 4
(14) رپورٹ اجلاس سی ام آل انڈیا محمڈن اینگلواورینٹل ایجوکیشنل کانفرنس،ص93
(15) روئداد نمبر65،اجلاس ٹرسٹیاں مدرسۃ العلوم علی گڑھ منعقدہ 30جنوری 1916
(16) رپورٹ اجلاس انجمن ترقی اردو منعقدہ ماہ دسمبر 1918،ص 120
(17) اس سلسلہ کے شواہد آصف علی کے مضمون گیتانجلی۔تمدن جولائی 1916، ص 42
(18) ڈاکٹرعبدالرحمن بجنوری، از ڈاکٹرخورشید اسلام مشمولی، تنقید کے بنیادی مسائل،مرتبہ پروفیسر آل احمدسرور، ص 250-51
(19) ڈاکٹرعبدالرحمن بجنوری مشمولہ ’تنقید کے بنیادی مسائل‘ مرتبہ پروفیسر آل احمدسرور، ص 268
(20) نقد بجنوری،از ڈاکٹر حدیقہ بیگم صفحہ150
(21) ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری کی تحریرات، مشمولہ شاعر،بمبئی نومبر 1973
D-136, Firdos Nagar
P.G.B.T.College Road, D.I.G. Benlow
Bhopal - 462038 (M.P.)
Mob: 09229673388
قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں