ارو
زبان میں سائنسی صحافت
(صورتِ حال، تقاضے اور امکانات)
ہندوستانی اخبارات و جرائدمیں مختلف موضوعات کا خزینہ ہوتا ہے۔بعض اخبارات میں موضوعات مختص رکھے جاتے ہیں۔ان اخبارات میں قومی اور بین الاقوامی سیاسی خبریں،انسانی زندگی سے متعلق تمام خبریں، سیاست، تہذیب وتمدن، اداریے،تعلیم،ملازمت،پیدائش و موت، تقریب یوم پیدائش، جرائم، کارٹون، اشتہارات، مضامین، سیاسی، سماجی اورمعاشی خبریں،ادبی و مذہبی مضامین،طب،سائنس،ٹکنالوجی،فلموں اور کھیلوں کی خبریں،شہروں اور مختلف اضلاع کی سرگرمیاں،زرعی خبریں، سمینار، جلسے، موسم کے حالات، تجارت اور صنعت و حرفت کی خبریں وغیرہ شائع ہوتی ہیں۔غرض کہ اخبارات میں زندگی کے تمام شعبوں اور گوشوں کا ذکر ملتا ہے۔لیکن اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ اردو صحافت وہ چاہے اخباری صحافت ہو یا مجلاتی صحافت،میں سائنسی موضوعات کی کمی شدت سے محسوس کی جاتی رہی ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ اردو صحافت سائنسی مضامین سے یکسر خالی ہے۔سائنسی موضوع کوعلمِ ریاضی کی طرح خشک موضوع سمجھا جاتا ہے اس لیے شاید سائنسی موضوع میں کم دلچسپی کی یہ بھی ایک وجہ رہی ہو۔تاہم اخبارات میں شاذ و نادر ہی سہی سائنسی مضامین شائع کیے جاتے ہیں۔سائنسی مضامین جن ہندوستانی اخبارات میں نظر سے گزرتے رہتے ہیں ان میں انقلاب،راشٹریہ سہارا،کشمیر عظمیٰ،میرا وطن، قومی تنظیم، ہمارا سماج، نیا نظریہ، اخبار مشرق، سیاست، منصف، صحافی دکن، اودھ نامہ، آگ، صحافت، تاثیر، سیاسی تقدیر وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ راقم الحروف کے مشاہدے میں آیا ہے کہ بیرونی ممالک میں سائنس کے حوالے سے جو تحقیق ہوتی رہی ہے اُ س کی رپورٹیں بعد میں اُن ممالک کے سفارت خانوں کے توسط سے یو این آئی،آر این آئی اور دیگر نیوز ایجنسیوں کے ذریعے ہندوستانی اردو اخبارات میں ترجمے کے ساتھ شائع ہوتی آئی ہیں۔اس کے علاوہ ماحول،صحت، جغرافیۂ طبعی، غذا، امراض، آلودگی، شکاریات، جنگلاتی وسائل، توانائی، آب و ہوا، آبی ذخائر، سائنسی ایجادات، کیمیات، طبعیات، حیاتیات، نباتات، ریاضی، قدرتی فلسفہ اور دوسری کارآمد سائنسی معلومات وغیرہ سے متعلق مضامین بھی اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں۔اب بعض اخبارات نے دیگر موضوعات کی طرح سائنسی موضوع کے لیے بھی اخبار کا ایک صفحہ مختص کر لیا ہے۔
اردو میں سائنسی صحافت کے حوالے سے بات کی جائے تو یہاں بھی صورتِ حال زیادہ بہتر نہیں ہے۔البتہ کچھ مخصوص رسالے سائنس کے حوالے سے شائع ہوتے ہیں جن سے سائنسی صحافت کو فروغ ملا اور سائنسی میدان سے تعلق رکھنے والے ادیبوں اور قلم کاروں کو سائنس کے مختلف النوع موضوعات پر لکھنے کی ترغیب ملی۔اس قسم کے رسائل و جرائد میں انجمن ترقی اردو (ہند)دہلی کا ماہ نامہ سائنس،سائنس کی دنیا،اسلم پرویز کی ادارت میں شائع ہورہا رسالہ سائنس،ہمدرد صحت،رسالہ ہندوستانی، رسالہ خدنگِ نظر، روحانی سائنس، سائنس کی کائنات، رسالہ طبعی سائنس،رسالہ خاتون،رسالہ کمیکل سوسائٹی، طبیہ کالج میگزین،رسالہ حیوانیات(شعبہ حیوانیات علی گڑھ مسلم یونی ورٹی)،سائنس اور کائنات ٹائمز،سائنس اور کائنات،آیات وغیرہ شامل ہیں۔
ہندوستان کے وہ قدیم اردو رسائل جن میں سب سے پہلے سائنسی مضامین شائع کیے جاتے تھے اور ترجیح دی جاتی تھی اس میں پندرہ روزہ رسالہ’ فوائدالناظرین‘ بھی قابل ذکر ہے جس کے ایڈیٹر دہلی کالج کے استاذ اورعلم ریاضی کے امام ماسٹر رام چندر تھے۔’فوائد الناظرین ‘ میں علمی،تاریخی اور سائنسی مضامین شائع ہوتے تھے۔اس میں سلسلہ مضامین طبیعات،بیان پن چکی کا،علم ہئیت، بیانات حیوانات کا،انسان کی عقل کا بیان،حال جانوروں عجیب کا،معرفت طبعی،مقناطیس بنانے کی ترکیب، حال ستارہ مشتری کا،مریخ ستاروں کا بیان،وجود کیڑوں کا پانی میں وغیرہ جیسے عنوانات کے تحت مضامین کی اشاعت ہوتی رہتی تھی۔رسالہ’’ خیرخواہ ہند اور محب ہند‘‘کو بھی ابتدائی رسائل میں سائنسی صحافت کے حوالے سے اولیت حاصل ہے۔ اس کے ایڈیٹر ماسٹر رام چندر ہی تھے۔ ’محب ہند‘ میں بھی سیاسی، تاریخی اور سائنسی معلومات کے علاوہ ہم عصر شعرا اور اساتذہ کا منتخب کلام ملتا ہے۔
اردو کی ادبی صحافت ہویا سائنسی صحافت سرسید احمد خاں کے نام کے بغیر نامکمل ہے۔سرسید احمد خان کا نام اردو کی سائنسی صحافت کے بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے ’تہذیب الاخلاق‘ کے ذریعے سائنس جیسے سنجیدہ اور بہت ہی مفید موضوع کو عام کیا۔یہ رسالہ دسمبر 1870کو جاری ہوا۔ ’تہذیب الاخلاق ‘میں علمی، مذہبی، اخلاقی، تمدنی،سائنسی نیز دیگر مضامین کے شائع ہونے سے اردو صحافت میں انقلاب پیدا ہوا۔اس رسالے میں سائنسی علوم و فنون پر مضامین کو اہمیت کے ساتھ جگہ دی گئی اور اس موضوع پر لکھنے والوں میں شمس العلماء مولوی ذکاء اللہ،عنایت اللہ،محمد ابوالحسن وغیرہ شامل تھے۔یکم ربیع الثانی سنہ 1312ھ کے شمارے میں عنایت اللہ کا سائنسی موضوع پرلکھا گیا ایک مضمون بعنوان ’نیچرل سینٹر کے عجائبات‘ کے تحت شائع ہوا۔جس کاایک اقتباس پیش خدمت ہے:
’’ہم اپنی دور بینوں کے ذریعہ سے جو اب کمال کے درجے کو پہنچ گئی ہیں چاند کی مفصل کیفیت اپنی آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں اور اس کا ایسا امتحان کر سکتے ہیں جیسے زمین پر کسی دور کی چیز کو دیکھیں۔اس لیے ہم ایک خاص حد تک اس کی طبعی کیفیت کو بخوبی معلوم کر سکتے ہیں۔‘‘1
’تہذیب الاخلاق‘ کے سائنسی موضوعات اور مواد کے حوالے سے پروفیسر شافع قدوائی لکھتے ہیں:
’’تہذیب الاخلاق کا اجرا مسلمانوں کی جدید سائنس کی جانب بے رغبتی کو ختم کرنے کے لیے ہوا اور اس نے سائنسی اصولوں اور نئی دریافتوں سے متعارف کروایا۔ اس کا سائنسی دریافتوں پر اصرار لمبے وقفے تک مسلمانوں میں سائنس و ٹکنالوجی کے تئیں رغبت پیدا کرنے میں مدد گار ثابت ہوا۔ تہذیب الاخلاق کے مطابق سائنسی علوم سے روشناسی تعلیمی،تہذیبی اور دانشوری کو نئی زندگی عطا کرنے میں مرکزی کردار کی حیثیت رکھتی ہے۔‘‘2
سرسید کی کاوشوں اور سائنس کے تئیں ان کی عملی جستجو سے تہذیب الاخلاق باضابطہ طور پر پہلا رسالہ بنا جس میں سائنسی تعلیم اور سائنس سے متعلق کئی اہم موضوعات پر مضامین شائع ہونے لگے۔ہندوستان کے سربرآوردہ اردو شاعر اور معروف سائنسی صحافی پنڈت گلزارزتشی دہلوی اپنے ایک تحریر کردہ مضمون ’اردو سائنسی صحافت ایک سرسری جائزہ‘ میں سرسیدکی سائنسی صحافتی خدمات کا اعتراف نہایت ہی نفیس اور شائستہ الفاظ میں کرتے ہیں:
’’آخر ’مردے از غیب بروں آمد‘ کی مِصداق سرسید احمد خاں‘ اس بسیط صحرائے ادب میں نخلستانِ سائنس کی دریافت کو نکل کھڑے ہوئے اور انھوں نے اس ضمن میں اُس دور کے حالات و وسائل اور اقدار و روایات، عقیدے اور نظریوں کے موجود ہجوم میں اور توہم پرستی کے دور میں ایک سائنٹفک سوسائٹی قائم کی۔کچھ کتابیں سائنسی علوم پر تصنیف و تالیف کرائیں۔کچھ تراجم ہوئے،چند سائنسی مضامین لکھے گئے اور ا ن کے رسالے ’تہذیب الاخلاق‘ میں سائنسی موضوعات و علوم پر کچھ قلم آزمائی کی گئی۔اس طرح سید احمد خاں نے اردو والوں کو ایک نئی ڈگر پر ڈالا اور سائنسی تحریروں پر کچھ توجہ کرنے کی بسم اللہ ہوئی۔‘‘3
گلزار دہلوی نے اس مضمون میں ماقبل آزادی اور بعد از آزادہندوستان کی سائنسی صحافت کے بارے میں ہرممکن تحقیقی جانکاری فراہم کردی ہے جو کسی بھی محقق کے لیے بہت معاون و مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔انھوں نے دونوں وقتوں میں ہندوستان میں سائنسی صحافت کی صورتِ حال سے مکمل طور پر آگہی دلائی ہے۔انھوں نے لکھا ہے کہ 1917سے لے کر1947تک سائنسی صحافت کے تعلق سے نظام حیدر آباد کے ایماء پر دارالترجمہ اور دارالاشاعت‘حیدر آباد فرخندہ باد سے ایک منظم، اعلیٰ پیمانے اور بلند معیار کی ایک اہم پہل ہوئی۔جہاں زبان و فلسفہ کے علمی و ادبی،عالی دماغ جمع کیے گئے،وہیں اِس کے ساتھ ساتھ سائنسی علوم و کتب کا ترجمہ اور اصطلاحاتِ سائنس کا ترجمہ بڑے پیمانے پر عمل پذیر ہوا۔کیمیا، طبیعات، نباتات، ادویات، نجوم، ہیئت، ریاضی، حساب و ہندسہ، جغرافیہ، علم الارض، علم الحیوانات، انجینئرنگ وغیرہ بے شمار علوم کے نصابی ترجمے کیے گئے اوراصطلاح سازی ہوئی۔آٹھویں سے ایم۔اے تک بلکہ پی۔ایچ۔ڈی تک اردو ذریعہ تعلیم کا کامیاب ترجمہ کیا گیا۔ یہاں تک کہ مختلف اخبارات ا ور رسائل میں سائنسی مضامین لکھے جانے کی روایت کا آغاز ہوا اور ملک کو اور اردو معاشرے کو اردو سائنسی صحافت اور اردو سائنسی ذریعۂ تعلیم و مطالعہ کی طرف راغب کیا گیا۔
ماسٹر رام چندر،سرسید اور نظام حیدر آباد کے بعد سائنسی صحافت کو فروغ دینے میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کی خدمات کو بھی قطعی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی کے ساتھ مشترکہ اور غیر منقسم ہندوستان میں پہلے اورنگ آباد اور حیدر آباد اورپھر1938-1939سے 1947تک انجمن ترقی اردو (ہند) دلّی سے اردو میں سائنس کا کام کیا اور ایک خالص سائنسی رسالہ’سائنس‘ شائع کیا۔جس کے ذریعے بہت عرصے تک سائنسی مضامین شائع کیے گئے اور دیگر سائنسی علمی و ادبی سرگرمیوں کی اشاعت و تشہیرہوتی رہی۔ آزاد ہندوستان میں اردو سائنسی صحافت کی باقاعدہ شروعات مجلہ ’سائنس کی دنیا‘سے ہوئی۔جس کا پہلا شمارہ 20 / جون 1975میں شائع ہوا اورراشٹر پتی بھون میں اس وقت کے صدر جمہوریہ ہند کے بدست اس کا اجراء عمل میں آیا۔ ’سائنس کی دنیا‘سہ ماہی رسالہ ہے جس کے پہلے مدیر پنڈت زتشی گلزار دہلوی تھے۔یہ ایک سائنسی رسالہ ہے جس میں اردو داں عوام و طلبہ کے لیے مفید عوامی اور دلچسپ سائنسی معلومات،سائنس و تکنیکی ترقیاں،نئی نئی ایجادوں، عام طالب علموں اور جستجو کاروں کے لیے بہترین مضامین شائع ہوتے ہیں۔سائنسی خبریں،عوام کی سائنس،سائنسی مشغلے،جرائم اور سائنس،سائنسی کہانیاں، سائنسی ادارے وغیرہ اس کے موضوعات ہوتے ہیں۔ اس کے لکھنے والوں میں بہترین سائنس داں،دانشور،ماہر تعلیم،ریسرچ کرنے والے اور سائنسی فکر کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ یہ مجلہ آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ شائع ہوتا ہے۔
ماہنامہ’سائنس‘دہلی سے اسلم پرویز کی ادارت میں شائع ہوتا ہے۔اس رسالے نے جو سائنسی خدمات انجام دی ہیں وہ ناقابل فراموش ہے۔ڈاکٹر اسلم پرویز اس سائنسی جریدے کے بانی و مدیر ہیں اور یہ رسالہ انہی کی فکر اور سوچ کا نتیجہ ہے جو اتنے برسوں تک بغیر کسی سرکاری معاونت کے شائع ہورہا ہے۔اس جریدے میں ہر قسم کے سائنسی مضامین شائع ہوتے ہیں۔اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اردو سائنسی صحافتی سرگرمی کو برقراررکھنے اور اسے جاودانی عطا کرنے میں ماہنامہ’سائنس‘ایک اہم رول ادا کر رہا ہے۔ڈاکٹر محمداسلم پرویز نے’سائنس‘کے پچیس سال مکمل ہوتے ہی ڈاکٹر محمد کاظم کی کتاب ’اشاریہ ماہنامہ سائنس‘ کے اجرا کے موقعے پر غالب اکادمی، دہلی میں رسالے کے اغراض و مقاصد کے حوالے سے کہا تھا کہ یہ ایک ماہنامہ ہی نہیں بلکہ اردو میں سائنس کو فروغ دینے کی ایک اہم تحریک ہے جس کا مقصد مکمل علم اور دین کی دعوت دینا ہے۔اُنھوں نے مسلمانوں کی سائنسی علوم سے دوری پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ قرآن کی چند آیتوں ہی کو مکمل اسلام سمجھے ہوئے ہیں۔ جب کہ قرآن مسلمانوں کو کائنات میں غوروفکر کی دعوت دیتا ہے۔جب قانون دین میں شامل ہے تو قانونِ فطرت علم دین سے الگ کیسے ہوسکتا ہے؟۔ڈاکٹر عزیر اسرائیل نے ’اشاریہ ماہنامہ سائنس‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد کاظم کا اقتباس نقل کیا ہے جس سے قارئین ’سائنس‘کے موضوعات و مشمولات سے آگاہ ہوسکتے ہیں:
’’سائنس اور ماحولیات سے متعلق ایسے کون سے موضوعات ہیں جن پر یہاں مضامین شامل اشاعت نہیں ہوئے۔بلکہ روزمرہ میں پیش آنے والی بیماریوں کی وجوہات اور ان کا علاج، ہمارے ماحول کا بدلتا مزاج اور اس کے اثرات، سائنس خبرنامہ، سائنس کوئز، ستاروں کی دنیا، روشنی کی باتیں، روشنی کا جھکاؤ، روشنی کی واپسی، روشنی کی نظر بندی، زمین کے اسرار، سفیران سائنس، عظیم ایجادات، سمندری حیات، مچھلیوں کی دلچسپ باتیں، جانوروں کی دلچسپ کہانیاں،جانوروں کی عادات و اطوار،بلیک ہول،قرآن اورسائنس، نفسیاتی مسائل ورک شاپ، وزن کے مسائل، انسانی حس اور اس کا اظہار، مشینوں کی بغاوت، صفر سے سو تک، علم کیمیا کیا ہے؟علم نجوم، غذا میں چکنائی، غذا کی اہمیت، ہمارا جسم، طب، ریاضیات، پانی، زراعت، معلومات عامہ، کمپیوٹر، مقناطیسیت، کیا آپ جانتے ہیں؟کب کیوں اور کیسے؟سوال و جواب اور اس طرح کے بہت سارے موضوعات اور مسائل پر نہ صرف ایک سے زیادہ مضامین اور اندراجات موجود ہیں بلکہ وقفے وقفے سے ان موضوعات پر سلسلہ وار مضامین شائع ہوتے رہیں گے۔‘‘4
اس اقتباس سے اردو کے عہد ساز ماہنامہ ’سائنس‘ کے مزاج و منہاج کا اندازہ بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے۔مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اِس رسالے کی سائنسی صحافتی خدمات کو تاریخ کے سنہرے پنوں میں مرقوم و محفوظ کیا جا سکتا ہے۔اردو میں اس کے علاوہ متعدد ادبی و نیم ادبی رسالے ہیں جن میں بسا اوقات سائنسی مضامین وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے ہیں۔ان میں ماہنامہ آجکل،اردو دنیا، بچوں کی دنیا،ماہنامہ امنگ،نیا کھلونا،تعمیر فکر،ذہن جدید وغیرہ خاص طور پرقابل ذکر ہیں۔ ماہنامہ’آجکل‘ ایک معیاری اور مستند رسالہ مانا جاتا ہے۔اس میں سائنسی مضامین کے شائع ہونے کی روایت سے متعلق مشہور محمد خلیل ایک مضمون’آجکل میں سائنسی ادب‘کے حوالے سے یوں رقمطراز ہیں:
’’ اس مشہور رسالہ کے بارے میں مجھے سب سے پہلے مرحوم چچا جان(پروفیسر محمد شفیع عالمی شہرت یافتہ جغرافیہ داں) نے بتایا اور اس میں مجھے سائنس پر لکھنے کی توجہ دلائی۔ اُس زمانہ میں اردو کے کئی رسالے کھلونا، پیام تعلیم، گل بوٹے کئی اور بچوں کے مشہور رسالے تھے۔ جب کہ ’آجکل‘،’ یوجنا‘، ’نیا دور‘، ’سب رس‘، کتاب نما‘، ’قومی راج‘بڑوں کے لیے تھے۔ لیکن اُن میں کبھی کبھی کوئی مضمون سائنس پر بھی ہوتا تھا۔ اس طرح سائنس کے مواد کو آجکل اردو نے شروع سے ترجیح دی ہے۔اسی زمانہ میں مدیر شہباز صاحب کی ادارت میں اکتوبر۔نومبر 1978کا خصوصی شمارہ ’جنگلی جانوروں‘پر شائع ہوا تھا جو رمیش بیدی،ڈاکٹر سالم علی، نند کشور وکرم، ریحان احمد عباسی اور کئی دوسری شخصیات کے مضامین سے آراستہ تھا۔جسے اردو قارئین نے بے حد سراہا تھا۔‘‘ 5
محمد خلیل کے مضمون سے لیا گیا درج بالا اقتباس اس بات کا ثبوت ہے کہ آجکل میں بھی سائنسی مضامین کی اشاعت کی روایت رہی ہے۔یہ بھی کہ آجکل میں ایک اہم سائنسی موضوع جنگلی جانوروں کے بعنوان خصوصی شمارہ بھی شائع ہوا تھا۔آجکل کے ڈائمنڈ جوبلی نمبر میں محمد خلیل کا مضمون ’آجکل میں سائنسی ادب‘ میں مذکورہ خصوصی شمارے کے تقریبا تمام مضامین کا بے حد عمدگی اور شائستگی سے تجزیہ کیا گیا ہے۔
جس کثرت سے اردو اخبارات اور رسائل و جرائد میں دیگر علمی و ادبی اور سیاسی و سماجی موضوعات پر مضامین شائع ہوتے ہیں یا بحث و مباحثے ہوتے ہیں،برعکس اس کے سائنسی میدان میں فی الوقت تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔ سائنس،ٹکنالوجی، انجینئرنگ، ریاضی،کیمیا، خلائی سائنس، نیوکلیر اینرجی،بعض مہلک بیماریوں اور آلودگیوں وغیرہ سے متعلق ہمارے یہاں کتب کی عدم دستیابی پریشانی کا ایک بڑا سبب ہے۔اس لیے ہندوستان کے سائنس دانوں اور سائنسی علوم کے ماہرین کو اس ضمن میں پیش قدمی کرنی چاہیے تاکہ اس شعبے میں موجود خلا کو دور کیا جا سکے۔ راقم الحروف نے اس مضمون میں جن سائنسی رسائل کا نام لیا ہے۔ ان میں بیشترکی مدتِ اشاعت زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی۔
اردو کی سائنسی صحافت کا اہم اور قابلِ ذکر پڑاؤ برقی صحافت کا ہے۔جس میں ریڈیواور ٹیلی ویژن ایک ناقابلِ فراموش کردار ادا کر رہا ہے۔ان دونوں نشریاتی اداروں کے ذریعے مختلف موضوعات پراردو کے سائنسی پروگرام ٹیلی کاسٹ کیے جاتے ہیں۔جس سے سائنس کی معلومات سماج کے ہر فرد تک بذریعہ ٹی۔وی اور ریڈیو کے مختلف چینلوں اور اسٹیشنوں کی وساطت سے پہنچ جاتی ہے۔ان دونوں کے توسط سے صحت، معاش، زراعت، ٹکنالوجی اور سائنس کے مختلف شعبہ ہائے جات سے متعلق آگہی اور معلومات کی ترسیل عام و خاص دونوں طبقوں تک بہ آسانی ہوجاتی ہے۔مزیدان دونوں مذکورہ نشریاتی اداروں سے ڈاکٹرآن لائن،کرشی درشن،ڈسکوری چینل، ماہرین کے مختلف سائنسی موضوعات پر لیکچرس، صحت اور امراض سے متعلق مختلف پروگرامزوغیرہ براڈ کاسٹ کیے جاتے ہیں۔یہ تمام پروگرام اردو میں بھی ہوتے ہیں اور دوسری زبانوں میں بھی۔اس طرح ان تمام کے ذریعے سائنسی پیغامات اور سائنسی جانکاری کی کامیاب ترسیل ممکن ہوپاتی ہے۔
اردو کے جن سائنسی صحافیوں نے سائنسی معلومات کو عام کیا اور اپنی زندگی سائنس کی تشہیر و تبلیغ میں گزار دی اور اس کی ترقی و ترویج کے لیے اپنی زندگی وقف کردی ان میں ماسٹر رام چندر،سرسید احمد خاں،مولانا ابولکلام آزاد، گلزار دہلوی، ڈاکٹر اسلم پرویز، محمد خلیل، منظو الامین، پروفیسر عبد المعز شمس، ڈاکٹر عبید الرحمان، اسعد فیصل فاروقی، احمد علی برقی اعظمی (سائنسی نظمیں)،انیس الحسن صدیقی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
حوالہ جات
(1) بحوالہ:علی گڑھ کے جرائد کا تاریخی اور صحافتی مطالعہ از اسعد فیصل فاروقی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی،طبع دوم 2017، ص 39
(2) ایضاً
(3) اردو صحافت از مرتب انوار دہلوی،مشمولہ اردو کی سائنسی صحافت از گلزار زتشی دہلوی،اردو اکادمی دہلی،طبع چہارم 2009، ص285
(4) بحوالہ:اردو ریسرچ جرنل،جلد 3،شمارہ 10،جنوری تا جون 2017،ص 67
(5) بحوالہ ماہنامہ آجکل،ڈائمنڈ جوبلی نمبر،جلد 75، شمارہ12، جولائی 2017،ص24۔
Ghulam Nabi Kumar
Kumar Mohalla, Charari Sharief, Budgam-191112 (J&K)
Mob: 7053562468
قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں