25/2/19

پطرس کی مزاح نگاری مضمون نگار:۔ مسعود جامی



پطرس کی مزاح نگاری

مسعود جامی
پطرس ارد وکے ان خوش نصیب ادیبوں میں ہیں جنھوں نے اپنے محدود تخلیقی سرمایے کے باوجودنمایاں مقام حاصل کیا۔ پطرس کی تخلیقی کاوشیں صرف چند مضامین کا احاطہ کرتی ہیں اور انہی پر ان کی شہرت کا تمام تر دارومدار ہے۔ وہ بلاشبہ اردو میں مزاح نگاری کے سب سے بڑے بلکہ تنہا علم بردار ہیں، اس فن میں ان کا کوئی مدمقابل نہیں۔ سوال اٹھتا ہے کہ آخر پطرس کا سبب امتیاز کیا ہے ؟ اس سوال کے جواب میں ان کے مضامین سے براہِ راست رجوع کرنا ناگزیر ہے۔لیکن اس سے بھی پیشتر یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ فن مزاح نگاری کی نمائندہ خصوصیات کی حد بندی کردی جائے تاکہ مضامین کے جائزے کے لیے ایک پس منظر فراہم ہوسکے۔
بہ قول اسٹیفین پی کاک ’’مزاح کیا ہے؟ یہ زندگی کی ناہمواریوں کے اس ہمدردانہ شعور کا نام ہے جس کا فن کارانہ اظہار ہوجائے ‘‘ انسان زندگی کے راست پہلوؤں کو دیکھنے کا عادی ہے جب اسے زندگی یا ماحول میں کجی اور بے اعتدالی نظر آتی ہے تو اس کی توقعات متأثر ہوتی ہیں اور اس کی فطرت میں احتجاج پیدا ہوتا ہے۔نتیجے کے طور پر اس کے اندر دو طرح کے جذبے سر ابھارتے ہیں ۔۔۔ ایک نفرت اور دوسرا ترحم کا جذبہ۔ یہی جذبے جب الفاظ کے سانچے میں ڈھلتے ہیں تو طرزِ اظہار کے دو رخ سامنے آتے ہیں یعنی طنزیہ اور مزاحیہ۔طنزیہ اظہار ناہمواریوں سے نفرت کا نتیجہ ہے جب کہ مزاحیہ اظہار ان سے انسیت اور شیفتگی کا مظہر۔اول الذکر میں تلخی،برہمی، نفرت اور نشتریت کی لَے تیز ہوتی ہے، جب کہ مؤخرالذکر میں پیار، محبت،خلوص اور ہمدردی کی ہلکی اور دھیمی لہریں اٹھتی ہیں۔ گویا طنز نگار ایک جراح ہوتا ہے جو سماج اور زندگی کے ناسوروں کے فصد کو بے رحمی کے ساتھ کھولتا ہے اور مزاح نگار ایک مرہم جو ہوتا ہے جو بغیر تکلیف وآزار کے ناسوروں کا علاج پیار ومحبت کے ساتھ کرتا ہے۔ طنز ومزاح میں فرق محض ردعمل اورطرزِ اظہارکاہوتا ہے ورنہ دونوں کا نصب العین یکساں ہوتا ہے۔ دونوں ہی زندگی کی بے اعتدالی،کجی اور بے ڈھنگے پن کو اُبھارکر اعتدال اور راستی کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ طنز ومزاح کے فرق کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر وزیر آغا نے لکھا ہے کہ ’’ہمارے یہاں طنز ومزاح کے فرق کو پوری طرح ملحوظ نہیں رکھا گیا ہے۔ طنز زندگی اور ماحول سے برہمی کا نتیجہ ہے اور اس میں غالب عنصر نشتریت کا ہوتا ہے۔ طنز نگار جس چیز پر ہنستا ہے اس سے نفرت کرتا اور اسے تبدیل کردینے کا خواہاں ہوتا ہے۔ اس کے برعکس مزاح زندگی اور ماحول سے مفاہمت کی پیداوار ہے اور مزاح نگار جس چیز پر ہنستا ہے اس سے محبت کرتا اور اسے اپنے سینے سے چمٹا لینا چاہتا ہے۔ طنز نگار توڑتا ہے اور توڑنے کے دوران فاتحانہ قہقہہ لگاتا ہے۔ چنانچہ طنز میں جذبۂ افتخار کسی نہ کسی صور ت میں ضرور موجود ہوتا ہے۔ دوسری طرف مزاح نگار اپنی ہنسی سے ٹوٹے ہوئے تار کو جوڑتا ہے اور بڑے پیار سے ناہمواریوں کو تھپکنے لگتا ہے چنانچہ مزاح میں غالب عنصر ہمدردی کا ہوتا ہے۔‘‘
زندگی اور ماحو ل کے بے ڈھنگے پن پر برہمی کا اظہار کرنا قدرے آسان ہے، لیکن ناہمواریوں پر شفقت ومحبت کا ہاتھ پھیرنا بہت مشکل۔ یہ ہرکس وناکس کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لیے ایک مخصوص قسم کی شخصیت درکار ہوتی ہے.....ایسی شخصیت جو اعلیٰ حوصلگی،خلوص اور ہمدردی کی مظہر ہو۔ اور جسے خود رورو کر دوسروں کو ہنسانے کا طریقہ آتا ہو۔ غالب کو یہ فن اچھی طرح آتا تھا۔ ان کے مکتوبات اس حقیقت کی گواہی دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں پطر س کا نام بھی بڑے شوق سے لیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے اپنے عہد کی زندگی کو پیار بھری نظروں سے دیکھا اور اپنی کشادہ دلی اور وسعت نظر کے تحت زندگی کی ناہمواریوں سے محظوظ ہوئے۔ انھوں نے زندگی کے مضحک پہلوؤں کی نقاب کشائی کرتے وقت یا کردار کی بوالعجبیوں یا واقعہ کی بے اعتدالیوں کو اجاگر کرتے وقت ہمدردانہ اندازِ نظر کا مظاہرہ کیا، جو ان کے مزاح کی صحت مندی کی دلیل ہے۔ میرے خیال میں پطرس نے اپنے طریقۂ کار کی نشان دہی اپنے دیباچہ میں اشارۃً کردی ہے۔ لکھتے ہیں:
’’ اگر یہ کتاب آپ کو کسی نے مفت بھیجی ہے تو مجھ پر احسان کیا ہے۔ اگر آپ نے کہیں سے چرائی ہے تو میں آپ کے ذوق کی داد دیتا ہوں۔اگر آپ نے پیسوں سے خریدی ہے تو مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔ اب بہتر یہی ہے کہ اس کتاب کو اچھی سمجھ کر اپنی حماقت کو حق بہ جانب ثابت کریں۔‘‘
یہاں کتاب خواں طبقے سے مزاح نگار کی ہمدردی، احسان مندی اور دل دہی کو محسوس کیا جاسکتاہے۔ کتب بینی کے سلسلے میں لوگوں میں مذکورہ تینوں رویے عام رہے ہیں۔ یعنی مفت حاصل کرکے،چُرا کر اور خرید کر پڑھنے کا لوگوں کا شیوہ رہا ہے۔ ظاہر ہے یہ سب کے سب طریقے راست نہیں ہوسکتے ان میں کجی بھی ہے۔ لیکن پطرس انھیں ہدفِ ملامت نہیں قرار دیتے۔ اس کے برعکس وہ ان سے ہمدردی جتاتے اور احسان مندی کا اظہار کرتے ہیں۔
مزاح نگاری ہی کے قبیلے سے تعلق رکھنے والی ذکاوت (Wit)بھی ہے جس میں لفظی الٹ پھیر سے سامانِ ظرافت فراہم کیا جاتا ہے۔ غالب کو اس فن میں کمال حاصل تھا انھیں لفظوں کے الٹ پھیر سے ظرافت پیدا کرنے کا سلیقہ خوب آتا تھا۔پطرس کے یہاں بھی ذکاوت کی مثالیں ملتی ہیں،لیکن یہ ان کا طرزِ عام نہیں۔ انھوں نے اپنی مزاح نگاری کی عمارت کو صورتِ واقعہ کی اساس پر استوار کیا ہے،وہ کسی مضحک کیفیت کو ابھارنے کے لیے صورتِ واقعہ کو ایک خاص سلیقے سے اس طرح ترتیب دیتے ہیں کہ وہ کسی شعوری کاوش کا نتیجہ نہیں معلوم ہوتی۔ بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حالات وواقعات کی تہہ سے مزاح کے سوتے از خود پھوٹ رہے ہیں۔ہاسٹل میں پڑھنا، سویرے جب کل آنکھ میری کھلی، مرید پور کا پیر، سنیما کا عشق، میں ایک میاں ہوں، مرحوم کی یاد میں، انجام بخیر،یبل اور میں،یہ تمام کے تمام مضامین واقعات کی فن کارانہ ترتیب ہی کا نتیجہ ہیں۔ہاسٹل میں پڑھنا، میں ایک طالب علم کی ناآسودہ خواہش اور بزرگوں کے محتاط رویے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔متمول گھرانے کا یہ طالب علم بہت کم نمبروں سے پاس ہوجاتا ہے، والدین کی آرزو ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرے۔ چنانچہ اس کا داخلہ لاہور یونیورسٹی میں ہوجاتا ہے،لیکن اس کے چاہنے کے باوجود اسے ہاسٹل میں رہنے کی اجازت نہیں ملتی، نتیجہ کے طور پر اس کے ذہن میں تصادم جنم لیتا ہے۔ پطرس نے طالب علم کی ذہنی کشمکش اور نفسی کیفیت کی جو تصویر کھینچی ہے و ہ نہایت عمدہ اور پرلطف ہے۔ طالب علم ہاسٹل میں رہنے کی اجازت حاصل کرنے کے لیے نت نئے حربے استعمال کرتا ہے۔ والدین کو رضامند کرنے کے لیے طرح طرح کے دلائل پیش کرتا ہے، لیکن سب لاحاصل اور بے سود۔جب وہ سات سال تک متواترامتحان میں ناکام ہوتا ہے تو اس کے والدین کچھ اس کی تعلیم سے مایوس اور کچھ اس کے کیرئیر سے ناامید ہوکر اسے ہاسٹل میں رہنے کی اجازت دیدیتے ہیں۔لیکن سوئے اتفاق وہ اس سال پاس ہوجاتا ہے اور اس طرح اس کی ہاسٹل میں رہنے کی خواہش دل کی دل ہی میں رہ جاتی ہے۔
’’سویرے جو کل آنکھ میری کھلی ‘‘میں وہی طالب علم نہایت عیش کوش اور تساہل شعار نظر آتا ہے۔ سوکر دس بجے اٹھنا اس کا معمول ہے۔ امتحان جب سر پر آجاتا ہے تو وہ مطالعہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ نظام الاوقات میں تبدیلی لاتا ہے۔ کتابوں کو آراستہ کرتا ہے اور صبح کو جگادینے کی ذمہ داری اپنے پڑوسی لالہ کے سپرد کرتا ہے۔ لالہ جی علی الصباح اسے جگابھی دیتے ہیں لیکن اس کی ازلی تساہل پسندی اس پر غالب آجاتی ہے اور وہ پھر لمبی تان کر سوجاتا ہے۔ دن میں لالہ جی کے استفسار پر بہانے بنادیتا ہے کہ نماز میں مشغول تھا۔ یہاں مزاح نگار نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ انسانی عادات جب جڑ پکڑ لیتی ہیں تو بہت طاقتور ہوجاتی ہیں۔ خارجی پابندیوں سے اس کی اصلاح نہیں کی جاسکتی۔ اور اگر اس کا کبھی موقع بھی آجائے تو وہ اپنے فطری بہاؤ کے لیے بہانے تراش لیتی ہیں۔پطرس نے باتوں ہی باتوں میں انسانی نفسیات کے ایک اہم نکتے کو پیش کردیا ہے۔انھوں نے طالب علم کے جاگنے اور لحاف کے ناک سے کان اور پھر کان سے سر تک سرکنے کا جو منظر پیش کیاہے اس کی کیفیت کو صرف محسوس کیا جاسکتا ہے۔مثلاً:
’’صبح لالہ جی کی پہلی دستک کے ساتھ جھٹ آنکھ کھل گئی۔ نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ لحاف کی ایک کھڑکی میں سے منہ نکالا، ان کو گڈ مارننگ کہا اور نہایت بے دردانہ لہجے میں کھانسا۔ لالہ جی مطمئن ہوکر باہر چلے گئے، ہم نے اپنی ہمت اور اولوالعزمی کو بہت سراہا کہ ہم آج فوراً ہی جاگ اٹھے تھے۔دل سے کہا ’دل بھیا ! صبح اٹھنا تومحض ذراسی بات ہے ‘ہم تو یونہی اس سے ڈرا کرتے تھے۔ دل نے کہا اور کیا ’’تمہارے تو یونہی اوسان خطا ہوجایا کرتے تھے۔‘‘ہم نے کہا ’’سچ کہتے ہویعنی ہم سستی اور کسالت کو خود اپنے قریب نہ آنے دیں تو ان کی کیا مجال ہے کہ ہمارے قریب سے گزر جائیں ..... ناک کو ذرا سی سردی محسوس ہوئی تو اس کو ذرا یوں ہی لحاف کی اوٹ میں کردیا اور پھر سوچنے لگے ’’خوب ہم آج کیا وقت پر جاگے ہیں بس ذرا اس کی عادت ہوجائے تو آئندہ قرآن مجید کی تلاوت اورفجرکی نماز بھی شروع کردیں گے۔ آخر مذہب سب سے مقدم ہے۔ ہم بھی کیا روز روز الحاد کی طرف مائل ہوتے جارہے ہیں۔ نہ خدا کاڈر نہ رسول کا خوف۔ سمجھتے ہیں کہ بس اپنی محنت سے امتحان پاس کرلیں گے۔اکبر بے چارہ یہ کہتا کہتا مرگیا لیکن ہمارے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ لحاف کانوں پر سرک آیا..... تو گویا آج ہم لوگوں سے پہلے جاگے ہیں ..... بہت ہی پہلے.....یعنی کالج شروع ہونے سے بھی چار گھنٹے پہلے کی بات ہے۔خداوندا! یہ کالج والے بھی کس قدر سست ہیں۔ ہر ایک مستعد انسان کو چھ بجے تک قطعی جاگ اٹھنا چاہئے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کالج سات بجے کیوں نہ شروع ہوجایا کرے۔
(لحاف سر پر ) بات یہ ہے کہ تہذیبِ جدید ہماری تمام اعلیٰ قوتوں کی بیخ کنی کررہی ہے .....‘‘
اقتباس قدرے طویل ہوگیا۔لیکن اپنی بات کی وضاحت اور طالب علم کی ذہنی اور نفسی کیفیات اور اس کی حرکا ت وسکنا ت کا لطف دکھانے کے لیے یہ ضروری تھا۔ اس اقتباس میں خود کلامی کی تکنیک سے جو کام لیا گیا ہے وہ کردار کی داخلی کیفیت کو ابھارنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ مزیدبرآں اس میں شعور کی رو کی تکنیک کی جھلکیاں بھی دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔ یہی صورتِ حال ان کے تمام مضامین میں پائی جاتی ہے۔ 
مزاح نگاری کے لیے صورتِ واقعہ پر فن کارانہ گرفت ناگزیر ہے۔ پطرس اس فن سے بہ خوبی واقف ہیں۔ وہ واقعہ میں دل چسپی پیدا کر نے کے لیے ایک مخصوص فضا کی تخلیق کرتے ہیں جس کے تحت قاری کے اندر توقعات اور تجسس جنم لیتے ہیں۔پھر ایسا ہوتا ہے کہ مزاح نگار کا قلم خط مستقیم پر چلتے چلتے اچانک ایک نیا موڑ اختیار کرلیتا ہے اور مضمون کا خاتمہ بڑا ہی اتفاقی اور ناگہانی ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قاری کی قائم کردہ توقعات ٹوٹ کر بکھر جاتی ہیں۔ توقعات کے قائم ہونے اور اس کے ریزہ ریزہ ہوکر بکھرنے سے ایک ایسی مضحک صورتِ حال جنم لیتی ہے جو قاری کو ابتسام پر مجبور کرتی ہے۔یہ کیفیت مرید پور کا پیر، ہاسٹل میں پڑھنا، یبل اور میں،میں نمایاں طور پر ابھری ہے۔مرید پور کا پیر، ایک خودساختہ اور نقال لیڈر کی پر لطف داستان ہے۔ یہ لیڈر عملی زندگی سے دور ہے، اس کے پاس اپنی کوئی فکر نہیں، وہ فن خطابت سے بھی نابلد ہے۔ مانگے تانگے کے الفاظ اور جملوں سے وہ اپنی تقریر کا تانا بانا بنتا ہے۔ لیکن عین موقع پر اس کا ذہن ماؤف ہوجاتا ہے۔ الفاظ اور جملے یاد نہیں آتے۔ بوکھلاہٹ میں دورانِ خطاب اس کی زبان سے جو فقرے ادا ہوتے ہیں وہ انتہائی بے ربط اور مضحکہ خیز ہوتے ہیں۔ یہاں مزاح نگار نے لیڈر موصوف کی مضحک صورتِ حال کو منظر عام پر لاکر مزاح کا رنگ پیدا کیا ہے۔ انھوں نے اس عمل کی جانب بھی اشارہ کیا ہے کہ خیالی اور عملی زندگی میں بہت فرق ہے نیز یہ بھی کہ لیڈری کے لیے کچھ خلقی صفات ہوتی ہیں جو سب کو ودیعت نہیں ہوتیں۔
پطرس کی مزاح نگاری میں موضوعات کی عمومیت کا بھی بڑا دخل ہے۔ انھوں نے اپنے مضمون کے لیے کسی وقتی یا ہنگامی مسائل کا انتخاب نہیں کیا۔ بلکہ ایسے موضوعات لیے جن سے روز ہی ہم دوچار ہوتے ہیں۔ پطرس کا مشاہدہ وسیع اور عمیق ہے۔ انھوں نے ایک حقیقی فن کار کی طرح زندگی کے معمولی سے معمولی پہلوؤں کو بھی بڑی باریک بینی اور خلوص اور ہمدردی کے ساتھ دیکھا، اس کی ناہمواریوں کو محسوس کیا اور اپنے جادو نگار قلم سے انھیں منظر عام پر لایا۔ مذکورہ مضامین کے موضوعات بھی عمومی نوعیت کے حامل ہیں۔ طالب علم کی زندگی اور لیڈروں کی مضحکہ خیزیاں بلاتخصیص وقت اور مقام دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جو ہمہ دم تازہ اور نیا ہے۔ ’سنیما کا عشق‘ میں بھی ایک ایسے ہی موضوع کو برتا گیا ہے۔ اس میں پطرس نے اپنے دوست مرزا صاحب کی غفلت شعاری اور تساہل پسندی کو بے نقاب کیا ہے۔ ہر چند مزاح نگار نے کوشش کی کہ مرزا صاحب کے رویے میں فرق آجائے لیکن سب بے سود اور وہ جب بھی سنیما گئے تو لیٹ ہی پہنچے۔ ’مرحوم کی یاد میں‘ یہی مرزا اپنی عیاری اور ہشیاری سے اپنی شناخت کرواتے ہیں اور وہ اپنے دوست کے ہاتھوں ایک از کاررفتہ سائیکل بیج کر رقم اینٹھ لیتے ہیں۔ظاہر ہے یہ واقعات ایسے ہیں جو آئے دن ہمارے مشاہدے میں آتے رہتے ہیں۔ دھوکہ بازی، عیاری، مکاری، غفلت شعاری کا چلن کم از کم ہمارے معاشرے میں تو عام ہے۔ پطرس نے انھیں ایک واقعہ کی صورت عطاکی ہے۔
’یبل اور میں ‘ اور ’ میں ایک میاں ہوں‘ میں مزاح نگار نے عورت اور مرد کی نفسیات پر روشنی ڈالی ہے اور مضمون کی صورت میں ایک ایسا آئینہ پیش کردیا ہے جس میں عورتیں اور مرد اپنے ذاتی خصائص اور داخلی کیفیات کا عکس دیکھ سکتے ہیں۔ یبل اور واحد متکلم دونوں ایک ہی یونیورسٹی کے طالب ہوتے ہیں۔ دونوں کتابیں خریدتے ہیں خود پڑھتے اور ایک دوسرے کو پڑھواتے ہیں۔ بعد ازاں اس پر رائے زنی کرتے ہیں۔ اس رائے زنی میں دونوں کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کی آواز زیادہ بلند اور زیادہ پائیدار ہو۔ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی یہ خواہش ان کی صنفی برتری کے احساس کی زائیدہ ہوتی ہے۔ ’مَیں‘ ایک بار بیمار پڑجاتا ہے۔ یبل جب اُس کی عیادت کو آتی ہے تو وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرتا ہے کہ اس نے تمام کتابوں پر بغیر پڑھے ہی تبصرہ کیا تھا۔ ’یبل‘ زیر لب مسکراتی ہے۔ اس کی مسکراہٹوں میں بھی ایک راز پوشیدہ ہے۔ اس رازکی نقاب کشائی اس وقت ہوتی ہے جب واحد متکلم کتاب کھولتا ہے تو اس کے اوراق جڑے ہوئے پاتا ہے۔اس کامطلب یہ ہے کہ یبل بھی اسی غلطی کا ارتکاب کرتی رہی تھی۔اس مضمون کو ایسے مبصروں کے طنز پر محمول کیا ہے جو بغیر کتاب پڑھے ہی رائے زنی کے عادی ہیں۔ لیکن یہ خیال درست نہیں اور طنز ومزاح کے فرق کو ملحوظ نہ رکھنے کے نتیجے میں ہے۔ اس مضمون میں کہیں بھی طنز کی نشتریت اور لہجے کی تلخی کا اندازہ نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کے برعکس پطرس کے لہجے میں ہمدردی اور انسیت کی جھلک ملتی ہے جو اسے خالص مزاح کے زمرے میں لے جاتی ہے۔پطرس کے معرکہ آرا مضمون ’کتے ‘ کے سلسلے میں بھی اسی طرح کا خیال ظاہر کیا جاتا رہا ہے کہ پطرس نے کتوں کے ہنگامے کو مشاعروں سے موازنہ کرکے مشاعرہ کا مذاق اڑایاہے۔ لیکن وزیر آغا نے اس خیال کی بھی تردید کی ہے وہ لکھتے ہیں ’’ پطرس کے مضمون کتے کے بارے میں بعض لوگو ں کا خیال ہے کہ مشاعروں کو کتے کے ہنگامے سے تشبیہ دے کر پطرس نے مشاعرے پر طنز کی ہے۔یہ بات درست نہیں۔ اول تو پطرس کا سارا لہجہ ہی ہمدردی اور توازن سے مملو ہے۔ دوسرے اس میں نشتریت کا عمل ناپید ہے۔ تیسرے طنز کا طرۂ امتیاز کہ طنز نگار خود کو اس ناہمواری سے بلند وبالاتر تصور کرتا ہے جسے وہ نشانۂ طنز بناتا ہے..... اس تشبیہ میں موجود نہیں۔ پطرس کا یہ کہنا کہ ہم نے کھڑکی میں سے کئی بار آرڈر آرڈ ر پکارا لیکن ایسے موقعے پر پردھان کی بھی کوئی نہیں سنتا اس بات پر دال ہے کہ مصنف نے اس موازنے میں اپنی ذات کوشامل کرکے طنز کو پوری طرح کند کردیا ہے۔
پطرس نے کوئی مثالی کردار ایسا پیدا نہیں کیا جو میاں خوجی،آزاد، یااسی قسم کے کرداروں کا ثانی قراردیا جاسکے۔ ہاں انھوں نے واحد متکلم کا ایک کردار ضرور پیش کیا ہے جو اپنی ناہمواریوں اور خامیوں کی وجہ سے ظرافت کا سامان پیدا کرتا ہے۔ لیکن اسے زندہ جاوید ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ سچ تو یہ ہے کہ پطرس کے یہاں کردار نگاری ایک ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ اور وہ اپنی تمام تر توجہ واقعہ نگاری پر صرف کرتے ہیں۔
پطرس بلاشبہ ایک بلند پایہ مزاح نگار ہیں۔ ان کی مزاح نگاری اکتسابی نہیں بلکہ عطیۂ غیبی ہے۔ ان کا مشاہدہ وسیع اور عمیق ہے۔ وہ انسانی نفسیات کے بھی بڑے راز داں ہیں۔ ہماری کمزوریاں ان کی نظروں میں مترشح ہوتی ہیں۔ لیکن وہ ان پر طنز کا وار نہیں کرتے بلکہ انھیں تراش خراش کر ایک آئینہ کی شکل میں ہمارے سامنے پیش کردیتے ہیں جس میں ہم خود اپنی حماقتوں کے عکس دیکھ کر قہقہے لگاتے ہیں۔ وہ اپنے مزاح کے لیے کسی وقتی یا ہنگامی موضوعات کا انتخاب نہیں کرتے بلکہ روز مرہ کے مسائل کولے کر اپنی فن کارانہ مہارت سے انھیں زندہ جاوید بنادیتے ہیں۔ ان کی ظرافت لفظوں کی ظرافت نہیں بلکہ واقعات کی ظرافت ہے۔ ان کے یہاں مزاح کے سوتے واقعات کی سرزمین ہی سے پھوٹتے ہیں اور اہلِ ذوق کی تشنگی کو سیراب کرتے ہیں۔فضا آفرینی کا سلیقہ انھیں خوب آتا ہے اور اس سے وہ مضمون میں دل چسپی پیدا کرنے میں بڑا کام لیتے ہیں۔ پطر س کی زبان سادہ اور پرکار ہوتی ہے۔ جملے مختصر اور جامع ہوتے ہیں۔ ان میں شگفتگی اور سلاست بھی ہوتی ہے۔ وہ خواہ مخواہ اَدق اصطلاحی الفاظ کا استعمال کرکے اپنی علمیت کی دھونس نہیں جماتے بلکہ سیدھے سادے اور روز مرہ کے الفاظ میں ہی پتے کی بات کہہ جاتے ہیں۔ رشید احمد صدیقی نے پطرس بخاری کے سلسلے میں بجا طور پر کہا ہے کہ ’’ اگر ہم ذہن میں کسی ایسی محفل کا نقشہ جمائیں جہاں تمام ملکوں کے مشاہیر اپنے اپنے شعروادب کا تعارف کرانے کے لیے جمع ہوں تو اردو کی طرف سے بہ اتفاق آرا کس کو اپنا نمائندہ منتخب کریں گے ؟یقیناًبخاری کو۔ بخاری نے اس قسم کے انتخاب کے معیار کو اتنا اونچا کردیا ہے کہ نمائندوں کا حلقہ مختصر ہوتے ہوتے معدوم ہونے لگا ہے۔یہ بات وثوق سے ایسے شخص کے بارے میں کہہ رہا ہوں جس نے اردو میں سب سے کم سرمایہ چھوڑا ہے لیکن کتنا اونچا مقام پایا ہے۔‘‘

Masood Jami
Jami Enclave, C-1, Jamia Nagar
Ranchi - (Jharkhand)
Mob: 9504969822







قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں