5/12/17

مضمون ۔ شفاف اسلوب کا شاعر: شہریار از ساجد حسین انصاری



شفاف اسلوب کا شاعر: شہریار


جدید غزل یا جدید نظم پر گفتگوکرتے وقت ہم ان شعراء کو نظرانداز نہیں کرسکتے جن کا تعلق ترقی پسند تحریک سے تھا کیوں کہ اس تحریک سے متعلق شعرا نے غزل اور نظم دونوں کو جدید اسلوب، جدید طرزِ احساس اور جدید موضوعات سے روشناس کرایا۔ فراق، جذبی، مجروح اور جانثار اختر کا نام غزلیہ شاعری میں لیاجاسکتاہے تو نظم میں فیض، ن۔م۔راشد، میراجی اور اخترالایمان کا نام خاص طورپر آتاہے ان شعراء میں ن۔م۔ راشد اور میراجی کا تعلق حلقۂ ارباب ذوق سے تھا جو ترقی پسندی کے مقابلے میں متوازی اسالیب کی پروردہ ادیبوں کی ایک ایسی جماعت تھی جنھوں نے داخلی کیفیات اور نفسیاتی سنجیدگیوں کو اپنی نظموں میں جگہ دی تھی۔ ان شعرا نے ترقی پسند ادب کی اجتماعیت اور منصوبہ بند شاعری سے انحراف کیا۔

حسرت موہانی کو اردو کی غزلیہ شاعری میں اس لیے اہمیت حاصل ہے کیوں کہ انھوں نے جدید غزل کا احیاء کیا۔ حسرت موہانی کے علاوہ جگر اور فراق نے بھی جدید غزل کے گیسو سنوارنے میں بڑی محنت اور سلیقہ مندی کا ثبوت دیا۔ ترقی پسند تحریک سے متعلق شعرا جانثاراختر، جذبی اور مجروح نے اردو غزل کو ترقی پسند رجحانات سے روشناس کرایا۔ اس کے موضوعات میں تنوع پیداکیا۔

مذکورہ شعرا بھی آزادی کے بعد کے شعری افق پر چھائے رہے لیکن ان کے علاوہ ایک نئی نسل نے نئے انداز اور نئے اسلوب کے ساتھ اردو شاعری میں اپنی جگہ بنالی۔ اس نئی نسل کے شعرا میں نوعمر شعرا جوش وجوانی اور آزادی کے جذبے کے تحت اِس تحریک سے وابستہ تھے آہستہ آہستہ اس سے بیزار ہونے لگے اور نتیجتاً انفرادی جذبات اور داخلی موضوعات کو قلم بند کرنا شروع کردیا جو ترقی پسند تحریک سے مختلف رویہ تھا۔ ان نئے شعرا کی شاعری میں ترقی پسند شاعری کا اثر نہیں تھا بلکہ اِن شعرا نے دوربینی اور خودکلامی کو اپنا مقصد بنایا۔ ان شعرا میں خلیل الرحمن اعظمی، باقر مہدی، بلراج کومل، مصطفیٰ زیدی، ابن انشا، وحیداختر کے نام قابل ذکر ہیں۔ دوسری طرف وہ شعرا بھی تھے جن کی ذہنی تربیت حلقہ ارباب ذوق کے زیراثر ہوئی ان میں منیرنیازی، مجید امجد، وزیر آغا اور ضیاء جالندھری وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان دونوں قبیل کے شعراء کے علاوہ ایک بڑا حلقہ ان شعرا کا تھاجو ہر رویہ اور ہرجذبے کو اپناتے رہتے تھے۔  ان شعرا میں اخترالایمان، عمیق حنفی، زبیر رضوی، حمیدالماس، محمدعلوی، عادل  منصوری، مخمور سعیدی، کمارپاشی، ندافاضلی، مظہرامام، شاذ تمکنت کے علاوہ ایک اہم نام شہریار کا ہے۔

 شہریار نے  1959 سے باقاعدہ شعرکہنا شروع کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ترقی پسند تحریک اپنا تاریخی رول اداکرچکی تھی اور بطور تحریک تقریباً ختم ہوچکی تھی لیکن ترقی پسندانہ خیالات زندہ تھے شہریار نے اپنی شاعری پر کوئی ٹھپایا نشان نہیں لگایا لیکن وہ ایک مدت تک ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے اس کے بعد وہ جنوادی تحریک سے بھی منسلک رہے لیکن ان کے اندر کا شاعر ہمیشہ کشمکش میں رہا اور ان کی تخلیقی صلاحیت ہمیشہ انھیں ذہنی آزادی کی نئی راہیں تلاش کرنے کے لیے مہمیز کرتی رہی اسی کوشش نے انھیں شخصی واردات اور ذاتی تاثرات کو پیش کرنے کی طرف متوجہ کیا۔ ان کی نظمیں اور غزلیں سبھی داخلیت سے مملو ہیں۔

شہریارکی تربیت ایک مذہبی خاندان میں ہوئی۔ ان کے والد محکمہ پولس میں ملازم ہونے کے باوجود صوم وصلوٰۃ کے پابند تھے اس لیے شہریار کے یہاں باوجود آزاد خیالی کے مذہب کا احترام ملتاہے۔ انھوں نے اپنی نظموں کے تعلق سے نہایت دردمندانہ انداز اختیارکیاہے اور زندگی کے حالات اور مختلف واقعات کی بہتر ترجمانی کی ہے شہریار کے پہلے مجموعۂ کلام ’اسم اعظم‘ میں شامل نظموں سے ان کے تخلیقی سفر کی ابتدائی منزلوں، اس کے محرکات اور مذاقِ فن کے تمام زاویوں کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ان نظموںمیں اجتماعی اور انفرادی تجربوں کی وہ داستانیں پوشیدہ ہیں جن سے عصری تہذیب اور حسّیت کا اندازہ لگایاجاسکتاہے۔ شہریار کے یہاں اکثر وہی موضوعات ان کے قلم سے نکلے جو ان کے ذہن اور زندگی پر اثرانداز ہوئے۔ زندگی سے اثراندازی اس بات کی کھلی ہوئی دلیل ہے کہ وہ سچے شاعر ہیں اسی لیے انھوں نے احساسات اور جذبات کی ترجمانی کی جو ان کے دل کو چھوتے اور ان کے جذبات کو متاثر کرتے ہیں۔ان کی شاعری لسانی افراط سے پاک ہے ساتھ ہی جذباتی خودمختاری میں مافی الضمیر کوادا کرنے پر قادربھی۔ بقول شمیم حنفی:
’’ شہریار کا سب سے بڑا کمال ان کی لسانی کفایت شعاری اور جذباتی خودمختاری میں مضمر ہے۔ وہ اپنی آواز کو، اپنے تجربے کو، اپنے شدید ترین رد عمل کو اور ان سب کا احاطہ کرنے والے بے حد شفاف اور شخصی اسلوب کو پل بھر کے لیے بھی بے حجاب نہیں ہونے دیتے۔ خواب اور حقیقت کی ایک ازلی اور ابد ی Dialecticsایک گہرے باطنی تصادم اور پیکار کی حصار بندی میں اپنی حسیات کی تمام تر شمولیت کے ساتھ بھی شہریار اپنے تجربے کا وقار قائم رکھتے ہیں۔اسے کبھی بے قابو نہیں ہونے دیتے۔ ایک سوچی سمجھی سطح سے اوپر نہیں جانے دیتے۔ جذبے کا اسراف اور لفظوںکا اسراف جو شہریارکے بیشتر معاصرین کے ساتھ پرچھائیں کی طرح لگاہواہے، شہریارکی شاعری میں اس کی گنجائش کبھی نہیں نکلتی۔‘‘
شہریارکی شاعری میں یہ وصف ان کی بنیادی سچائی کی وجہ سے پیداہوئی اور یہ وصف ہراچھے شاعر کے لیے ضروری بھی ہے۔ سچائی سے میرا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی مخصوص رنگ یا کسی مخصوص مکتب خیال کے پابند نہیں رہے اور نہ ہی انھوں نے خود کو کسی دائرے میں محدود ہونے دیا بلکہ جیسے جیسے ان کی شخصیت میں تبدیلیاں پیداہوتی گئیں وہ ان کا اظہار کرتے رہے۔شہریار کی شاعری کا دور ایک عبوری دور تھا جس میں اقدار کی پامالی کی وجہ سے انسان کسی بھی نظریے اور کسی خیال کا پابند نہیں ہوپاتا تھا۔

 انھوں نے جہاں اپنے زمانے سے اثرات قبول کیے ہیں وہیں روایت سے بھی اپنا رشتہ برقرار رکھاہے جس کی بدولت ان کی شاعری کو وہ خاص کیفیت بھی حاصل ہوئی جس کو ہم تغزل سے عبارت کرتے ہیں۔ بقول شمس الرحمان فاروقی:
’’ شہریار ہمارے زمانے کے ان چند شعرا میں سے ہیں (او ر ان میں بھی ممتاز ہیں)جن کے یہاں جدید فکر ایک ایسے اسلوب میں ظاہرہوئی ہے جو اوپر تو مختلف معلوم ہوتاہے لیکن جس میں روایت کے تسلسل کا احساس ہے یہ روایت بہت سے دوسرے شعرا کے علی الرغم) ماضی قریب سے اتنی زیادہ منسلک نہیں جتنی اس اصل روایت سے جڑی ہوئی ہے جس کو فیشن کی تبدیلی اور مغربی فکر کوسمجھنے میں غلطی کرنے(یعنی حالی)یا مشرقی فکر کو سمجھنے میں غلطی کرنے کے باعث ہم لوگ ایک عرصہ سے بھولے ہوئے تھے اسی لیے انھوں نے نظم اور غزل دونوں میں ایک ہم آہنگی بھی دریافت کرلی ہے ( یہ معاملہ بہت سے جدید شعراء کو پریشان کرتارہاہے کہ نظم کو غزل سے مختلف رکھیں یا مماثل بنائیں، اگر مماثل بنائیں تو دونوں میں سے ایک غیرحاضر ضروری ہوجاتی ہے اور اگر مختلف رکھیں تو اس اختلاف کی بنیاد کیاہو؟) شہریارنے مماثل یا مخالف کے بجائے ہم آہنگی کا راستہ اختیارکرکے اس مشکل کو جس طرح حل کیاہے وہ انھیں کا حصہ ہے۔‘‘ 

روایت کے شعورنے ان کی شاعری میں پختگی اور تازگی پیداکردی ہے اس کے علاوہ اس رشتے کی توسیع کا عمل بھی ان کے یہاں نظرآتاہے چند شعر ملاحظہ فرمائیں:
غم زدہ وہ بھی ہیں دشوار  ہے مرنا  جن کو
وہ بھی شاکی ہیں جنھیں جینے کی آسانی ہے
اس  نتیجے  پہ  پہنچتے  ہیں  سبھی  آخر  میں
حاصلِ سیرِجہاں  کچھ نہیں ویرانی ہے
مذکورہ بالااشعار شہریارکے آخری مجموعہ ’ شام ہونے والی ہے ‘ سے لیے گئے ہیں۔ اس مجموعے کی بیش تر غزلیں اور نظمیں روایت پرستی اور تغزل کی جیتی جاگتی تصویریں ہیں۔ ان میں وہی موضوعات ہیں جو کلاسیکی شعراء کے یہاں عام طورسے ملتے ہیں۔ ان میں واردات عشق کی مختلف کیفیات ہیں اور ہر کیفیت کو نہایت سادگی اور خلوص کے ساتھ بیان کیاگیاہے ساتھ ہی زمانے کی تلخ حقیقتوں کو انتہائی مؤثر انداز میں پیش کیاگیاہے اسی لیے شہریار کی شاعری جدید ہونے کے باوجود قدیم شعری روایات کی پاسداری کی بدولت بے رنگ ہونے سے بچ گئی ہے اور اس میں ایک خاص قسم کی رنگارنگی پیداہوگئی ہے۔شہریارکی غزلوں کے یہی بنیادی موضوعات ہیں جن کے تعلق سے انھوں نے حیات وکائنات کے راز، دنیا کی پیچیدگی اور عصر حاضر کے انسانوں کی لامحفوظیت اور بے چہرگی کو بیان کیاہے۔ شہریار نے زندگی سے بڑی حد تک محبت کی ہے ان کی شاعری میں جو دکھ درد کی مدھم آنچ روشن ہے،وہ دراصل دنیا سے محبت کاہی نتیجہ ہے جس نے انھیں دنیا سے لاتعلقی اختیارکرنے سے بچائے رکھا۔ شہریار کی شاعری ان کے ذاتی تجربے کی ترجمان ہونے کے ساتھ ساتھ دوسروں کے تجربوں کو اپناکر خود اپنی ذات کا حصہ بنتی ہوئی نظرآتی ہے۔ وہ اپنی ذات کوآئینہ بنانے کے ساتھ ساتھ دوسرے آئینوں میں بھی اپنی صورت دیکھنے کا ہنر جانتے ہیں اور اسی ہنرمندی نے انھیں اچھا اور کامیاب شاعر بنایا۔ شہریار کی شاعری میں اپنا دکھ زمانے کا دکھ اور زمانے کا درد اپنا دردبن کر ابھرتاہے اور یہی وہ خاصیت ہے جو شہریار کو اپنے ہم عصر شعرا میں ممتاز کرتی ہے۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کی شاعری چاہے غزل کی ہو یا نظم کی جدید رجحانات کی بہترین عکاسی کرتی ہے اور غزل کے سلسلے میں تویہ حقیقت ہے کہ انھوں نے جدید غزل کو سنوارنے اور سجانے میں بڑا اہم کام کیاہے جس طرح ترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر فیض، جذبی، سردار جعفری، جاں نثار اختر اور مجروح سلطانپوری پیش پیش رہے۔ اسی طرح جدید شاعری کے اہم اور نمائندہ شعراء میں شہریار کی شاعرانہ عظمت مسلّم ہے، ان کی شاعری کو فراموش نہیں کیاجاسکتا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں