تبصرہ
کلیاتِ سلیم واحد سیلم
مغیث احمد علیگ
یوں تو ترقی پسند شاعروں کی
ایک لمبی فہرست ہےلیکن وہ شعرا جو
اپنی سرگرمی اور فعالیت کی وجہ سے نہ صرف مشہور ہوئے بلکہ اہل اقتدار کی آمریت کے
سامنے آہنی چٹان بن کر کھڑے ہونے کی جرأت کی اور ان کے عتاب کا شکار بھی ہوئے ان
ہی عظیم شخصیات میں سے ایک نام ڈاکٹر سلیم واحد سلیم کا ہے، افسوس ہے کہ ہم عام
آدمی تو دور، ادب نواز حلقہ بھی اپنے پیش روؤں سے بے اعتنائی کا شکار ہے۔ ڈاکٹر
سلیم واحد سلیم کا نام اگرچہ نیا نہیں مگر ادبی حلقوں نے انھیں اس طرح فراموش
کردیا جیسے ہمارے لیے کوئی نیا نام ہو۔
’کلیات سلیم واحد‘ ڈاکٹر سلیم واحد سلیم کی آزاد و پابند
نظموں اور موضوعاتی غزلوں، قطعات، متفرقات، فارسی کلام اوررباعیات خیام کا ’خیام
نو‘ کے نام سے منظوم اردو ترجمے کا مجموعہ ہے جس میں عمرخیام کی رباعیوں کو بڑی
مہارت سے اردو کی منظوم لڑی میں پرویاگیا ہے۔
یہ کتاب جہاں شاعر مرحوم کے
انقلابی ذہن کی عکاس ہے، وہیں ان کے تخلیقی و علمی کمالات کی ترجمان بھی ہے، جسے
شاعر مرحوم کے صاحبزادے اور عہد حاضر کے معروف شاعر مسلم سلیم نے ترتیب دےکر ایک
فرزند ارجمند اور لائق سپوت ہونے کا ثبوت دیا ہے۔اس کلیات کا آغاز ’مدح سرور
کونین‘ سے ہوتا ہے:
بزم امکاں
میں ہے ہر سمت اجالا تجھ سے رونق محفل ہستی ہے دوبالا تجھ سے
کتاب کے ہر مصرعے سے ادبیت
ٹپکتی ہے، حتی کہ نظموں اور موضوعاتی غزلوں کے عنوان میں بھی ادبیت کی چاشنی نظر
آتی ہے جیسے دختران چین، دیوانے کی بڑ، اندھا سفر، نافرستادہ جواب، بے وفا کی وفا،
تار نفس، بولتی ہوئی آنکھیں، لاشعور، یاد لاحاصل، فتح سحر ہونے تک، الہام سے خود
تک، شکست یاس، نوائے فراق، خدایان جمہور کا فرمان، آہنی عزم، خود فراموشی، حرف ہاے
گفتنی، تیرونشتر، روداد غم، جلوہ زار، عرفان حال، طوفان درد، کوشش پیہم، صبح شام
الم، احساسات کیف و سرور وغیرہ۔
اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس
بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں عمرخیام کی تقریباً 176 رباعیات کا منظوم اردو ترجمہ موجود ہے جو
اپنے آپ میں ایک غیرمعمولی کارنامہ ہے۔ خیام کی رباعیات پر بہت کام ہواہے، دنیابھر
میں اس کے بہت سے تراجم ہوئے، اردو میں بھی اس کے کئی منظوم و منثور تراجم ہوئے
ہیں، لیکن ڈاکٹر مرحوم کے ترجمے میں جو بات ہے وہ اردو کے بہت کم ہی تراجم میں
دیکھنے کو ملتی ہے۔ بحرطویل میں لکھے گئے اس منظوم ترجمہ میں معانی کی مفصل
ادائیگی، لفظیات کی روح تک رسائی اور نغمگی پائی جاتی ہے جو انھیں دیگر مترجمین سے
ممتاز کرتا ہے۔
رباعیات کے اس ترجمہ کے بارے
میں پروفیسر افتخار احمد لکھتے ہیں:
”تجزیاتی نقطۂ نظر سے اسلوب کی شگفتہ کاری اپنے موضوع کو
سربلندی اور ارتقائی پرواز بخشتی چلی جاتی ہے جس میں ایک قسم کی کشش اور جاذبیت
پنہاں ہے۔ الفاظ کا مناسب چناؤ موضوع کو واضح کرتا چلاجاتاہے اور اس کی گرہیں خود بخود یکے بعد دیگرے
کھلتی چلی جاتی ہیں۔ ہم کسی الجھن یا مبہم استادیت کے شکار نہیں ہوپاتے کہ خود
شاعر کی پختہ کاری اور فنی چابکدستی نے موضوع کو بڑی عمدگی سے نبھایاہے جو اس کی
شاعرانہ عظمت اور فنی شعور کا غماز ہے۔“آپ بھی ان کے
تراجم کے چند نمونے ملاحظہ کریں:
آمد سحری ندا ز میخانہ ما کہ اے رند خراباتی و دیوانہ ما
برخیز و پرکنید پیمانہ ز می زان پیش کہ پرکنند پیمانہ ما
یعنی ایک صبح ہمارے میخانے سے
آواز آئی کہ اے رند خراباتی اور میرے مستانے اٹھ اور اپنے پیمانے کوجام سے بھرلے
قبل اس کے کہ ہمارا پیمانہ بھردیا جائے۔ اب ذرا اس کا منظوم ترجمہ ملاحظہ کریں:
جب رات گئی تو وقت سحر، گونجی
یہ صدا میخانے میں
کیا رند میں کوئی جان نہیں،
کیا ہوش نہیں دیوانے میں
اٹھ جام کو بھر اور جھوم کے
پی، ہے سرپہ وہ وقت نازک بھی
جب موت کی مے چپکے سے بھرے، بے
رحم قضا پیمانے میں
اسی طرح خیام کی دوسری رباعی
ملاحظہ کریں:
گرمی نہ خوری طعنہ مزن مستان
را
گردست دھد توبہ کنم یزدان را
تو فخر بدین کنی کہ من می
نخورم
صد کار کنی کہ می غلام است آن
را
اس شعر کا مختصر مفہوم یہ ہے کہ اگرتم شراب نوشی نہیں
کرتے تو مستوں کو طعن و تشنیع کا شکار نہ بناو، اگر موقع مل جائے تو میں بھی توبہ
کرنے کو تیار ہوں، تمھیں اس بات پر فخر ہے کہ میں شراب نہیں پیتا، جب کہ سیکڑوں
ایسے کام ہیں جس کا شراب غلام ہے(یعنی جو شراب نوشی سے بھی بدتر ہیں)۔ اب ذرا
ڈاکٹر موصوف کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:
تقوی کے تفاخر رہنے دے اور زعم
نہ بادہ پینے کا
اپنا بھی ارادہ رہتا ہے توبہ
کے جہاں میں جینے کا
اے خون بشر کے متوالے، بے رحم
غلام حرص و ہوس
یہ بادہ کشی تو رستہ ہے معصوم
خوشی کے دفینے کا
کتاب کا سرورق سادہ ہونے کے
باوجود پرکشش ہے، پروف ریڈنگ کی خامیاں تقریباً 'نا' کے برابر ہیں، منجملہ خصوصیات
اور محتویات کو دیکھ کر یہ بات بجا طور پر کہی جاسکتی ہے کہ یہ کتاب بشمول اردوو
فارسی کے طلبا و اساتذہ کے لیے علم بخش ہے۔
کتاب: کلیاتِ سلیم واحد سلیم
مرتبہ: مسلم سلیم
صفحات: 432
قیمت: 150 روپے
ناشر: قومی کونسل برائے فروغ
اردو زبان، نئی دہلی
مبصر: مغیث احمد علیگ ، جامعہ نگر، نئی دہلی
ناقدری سے شناسائی بنے نارسائی"""
جواب دیںحذف کریںناقدری سے شناسائی بنے نارسائی"""
جواب دیںحذف کریں