14/5/18

مضمون’’ مجنوں گورکھ پوری کی افسانہ نگاری۔ مضمون نگار: ڈاکٹر ثاقب عمران







احمد صدیق مجنوں گورکھپوری 10مئی 1904کو مشرقی یوپی کے ضلع بستی، تحصیل خلیل آباد میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنے مضمون ’’مجھے نسبت کہاں سے ہے‘‘ میں اس سلسلے میں خامہ فرسائی کی ہے۔ یہ مضمون پہلے پہل رسالہ نقوش لاہور1964کے شخصیات نمبر میں شائع ہوا، بعد ازاں ’ادب اور زندگی‘ میں بھی اسے شامل کر لیا گیا۔ مجنوں گورکھپوری نے شاعری بھی کی اور افسانے بھی لکھے ، لیکن اردو ادب میں ان کی بنیادی پہچان ترقی پسند نقاد کی حیثیت سے نمایاں ہے۔ ان کی تنقید نگاری کے سلسلے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن بطور افسانہ نگار وہ ناقدین کی توجہ کم ہی مبذول کرا سکے۔ مجنوں گورکھپوری کے زیادہ تر افسانے 1925سے 1935کے درمیان شائع ہوئے۔ جس میں سے بیشتر افسانے انھوں نے 1929 تک لکھ لیے تھے۔ 1935 کے بعد ترقی پسند تحریک کا دور شروع ہوتا ہے۔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہونے کے بعد مجنوں گورکھپوری نے مضامین اور تنقیدیں تو لکھیں لیکن ان کے افسانے خال خال ہی نظر آتے ہیں۔

میری تحقیق کے مطابق مجنوں گورکھپوری کے صرف تین افسانوی مجموعے منظر عام پر آئے ہیں۔ ان میں سے پہلے دو مجموعے ’خواب و خیال‘ اور ’سمن پوش‘ کی اشاعت مجنوں گورکھپوری کی نگرانی میں ہی ’ایوان اشاعت‘ گورکھپور سے ہو چکی تھی۔ تیسرا افسانوی مجموعہ ’مجنوں کے افسانے‘ کے عنوان سے ان کے علی گڑھ تشریف لانے کے بعد شائع ہوا۔ یہ مجموعہ چند افسانوں کا انتخاب ہے جسے مجنوں گورکھپوری نے حالی پبلشنگ ہاؤس، دہلی کے روح رواں جناب اظہر عباس صاحب کی خواہش پر کیا تھا۔ انھوں نے اس انتخاب پر جو مقدمہ لکھا تھا اس پر 5؍اکتوبر 1935کی تاریخ درج ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مجموعہ پہلی مرتبہ 1935کے آخری مہینوں میں شائع ہوا تھا۔ میرے اس مضمون کا محرک ان کا یہی تیسرا افسانوی مجموعہ ہے۔اس کتاب کی شان نزول کے بارے میں مجنوں گورکھپوری لکھتے ہیں:
’’۔۔۔حالی پبلشنگ ہاؤس،دہلی کے کارفرما جناب خواجہ اظہر عباس صاحب بی اے (علیگ) نے مجھ سے یہ فرمائش کی کہ میں ان کو اپنی کوئی کتاب شائع کرنے کے لیے دوں۔ میں نے فوراً اپنے ضخیم مجموعے سے کل مختصر افسانے علیحدہ کر کے ان کے حوالے کر دیے۔ نہ صرف اس لیے کہ اس طرح مجھے کچھ رقم مل گئی بلکہ بالخصوص اس لیے کہ ایک حوصلہ مند نوجوان کا ادبی حوصلہ پورا ہو رہا ہے، اور میرے بعض افسانوں کی اشاعت ہوئی جاتی ہے۔ یہ ہے اس مجموعے کی شان نزول۔‘‘1
کسی کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے مجنوں گورکھپوری کی ایک تحریر پر نظر پڑی تھی جس میں انھوں نے اپنے افسانوں کا ذکر کیا تھا۔ انھوں نے لکھا تھا کہ1930کے آس پاس وہ بحیثیت افسانہ نگار مشہور تھے۔ ان کے اس جملے نے مجھے جامعہ ملیہ اسلامیہ اور دہلی کی دیگر لائبریریوں کے چکر بھی لگوائے لیکن مجنوں گورکھپوری سے متعلق افسانوں کا سرا ہاتھ نہیں آ رہا تھا۔ اس واقعے کے کچھ وقت بعد عالمی کتاب میلہ 2014 دہلی میں منعقد ہوا۔ وہاں پر مجھے عالمی میڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ کے اسٹال پر ’مجنوں کے افسانے‘ کے عنوان سے ایک پاکٹ سائز کتاب نظر آئی۔ میں نے اسے شوق سے اٹھایا تو یہ مجنوں گورکھپوری کا تیسرا افسانوی مجموعہ تھا۔ اس افسانوی مجموعے کے مل جانے کے بعد میں نے ایک مرتبہ پھر سے مجنوں گورکھپوری کے افسانوں کو تلاش کرنے کا ارادہ کیا اور پہلی مرتبہ یہ دیکھنے کی کوشش کی کہ ان پر کیا کچھ کام ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر شاہین فردوس کی ایک کتاب ’مجنوں گورکھپوری: حیات اور ادبی کارنامے‘ کے عنوان سے ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ نے 2001میں شائع کی ہے۔ یہ کتاب شاہین فردوس کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے۔ مقالے کا ایک حصہ جو تقریباً 73صفحات کو محیط ہے ، مجنوں گورکھپوری کی افسانہ نگاری کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ اس حصے کا مطالعہ کرنے کے بعد اندازہ ہوا کہ شاہین فردوس کی رسائی پہلے دو مجموعوں یعنی ’’خواب و خیال‘‘ اور ’’سمن پوش‘‘ تک تو ہو گئی تھی لیکن تیسرا افسانوی مجموعہ ان کی دسترس سے باہر تھا۔ ممکن ہے کہ ان کے علم میں نہیں رہا ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تلاش و جستجو کے بعد بھی تیسرے مجموعے تک رسائی نہ ہو سکی ہو۔ اس مجموعے میں کل آٹھ افسانے شامل ہیں۔ (1) ہتیا (2)گہنا (3) حسنین کا انجام (4) مراد (5)جشن عروسی (6)بڑھاپا (7) کلثوم (8) محبت کا دم واپسیں۔ ان آٹھ افسانوں میں سے ابتدائی چار افسانوں کا ذکر تو شاہین فردوس نے بھی اپنے مقالے میں کیا ہے جو غالباً پہلے دونوں افسانوی مجموعوں میں شامل رہے ہوں گے لیکن آخر کے چار افسانوں کا ذکر ان کے مقالے میں نہیں ملتا اور نہ ہی انھوں نے اپنے مقالے میں تیسرے افسانوی مجموعے کا کہیں ذکر کیا ہے۔ پہلے چار افسانوں کے تعلق سے میں نے لکھا ہے کہ ’غالباً‘ یہ افسانے پہلے دو مجموعوں یعنی ’خواب و خیال‘ اور ’سمن پوش‘ میں شامل ہوں گے۔ ’غالباً‘ اس لیے لکھا کہ ابھی تک میری رسائی ان مجموعوں تک نہیں ہو سکی ہے لیکن شاہین فردوس کے مقالے میں ابتدائی چار افسانوں کا ذکر میری بات کو قوی بناتا ہے۔ خیر جب بات ڈاکٹر شاہین فردوس کے تحقیقی مقالے پر آہی گئی ہے تو صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ ان کے اس تحقیقی کام کے بعد بھی مجنوں گورکھپوری کی افسانہ نگاری پر ایک اچھے اور بھرپور کام کی ضرورت باقی ہے۔ جیسا کہ میں نے اس سے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ یہ شاہین فردوس کا پی ایچ ڈی کا مقالہ تھا اور پی ایچ ڈی یا دیگر مقالے جو کسی خاص بندھے ٹکے اصول کے تحت لکھے جاتے ہیں ان میں مقالہ نگار کو بعض اوقات آزادی سے کام کرنے کا موقع نہیں ملتا اور اس کے لیے اصول و ضوابط کی پابندی لازمی ہوتی ہے۔ بہرحال شاہین فردوس کے مقالے پر مزید گفتگو نہ کرتے ہوئے ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔
مجنوں گورکھپوری نے ’مجنوں کے افسانے‘ میں ’شان نزول‘ کے عنوان سے مقدمہ بھی لکھا ہے۔ مقدمہ میں وہ اپنے افسانوں کے متعلق لکھتے ہیں:
’’ مجھے ارمان تھا اور میں اس کا اہتمام بھی کر رہا تھا کہ اب میرے جتنے مختصر اور طویل افسانے مختلف رسائل میں منتشر پڑے رہ گئے ہیں، ان کو بڑی تقطیع پر، یکجا کرکے شائع کر دیا جائے۔ یہ کتاب اگر وجود میں آتی تو 800صفحات سے کم ضخیم نہ ہوتی۔ لیکن ضعیف البنیان انسان کا ارادہ ہی کیا؟ سوچتا کچھ ہے اور ہوتا کچھ ہے۔‘‘2
مجنوں گورکھپوری کے درج بالا اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے مختصر سی مدت میں کتنی کثیر تعداد میں افسانے لکھے ہیں۔ بہرحال ان کے تمام افسانے ابھی رسائل تک ہی محدود ہیں جن کو کتابی صورت میں شائع کرنے کا عمل ابھی باقی ہے۔ ایسا کیوں ہوا کہ اپنے جن افسانوں کو یکجا کرنے کی ابتدا مجنوں گورکھپوری نے کی تھی اور کتابی صورت میں شائع کرنے کا ارادہ رکھتے تھے وہ مرحلہ طے نہ ہو سکا۔ اس سلسلے میں وہ اپنے مقد مہ میں لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ میرے اس ضخیم مجموعہ کی کتابت شروع ہو چکی تھی اور ڈیڑھ سو صفحات لکھے جا چکے تھے کہ وہ بے درد و سفاک قوت جس کو عرف عام میں ’آب و دانہ‘ کہتے ہیں خلاف توقع مجھے کشاں کشاں کر کے علی گڑھ لے آئی اور اس طرح میں اپنے ارادوں کو ارادہ کے ساتھ ملتوی بھی نہ کرسکا۔ اس کی مہلت بھی نہ ملی کہ ’ایوان‘ اور ’ایوان اشاعت‘ کے التوا کا اعلان کر سکتا۔ چنانچہ اکثر احباب کو اس کی مطلق خبر نہیں ؂
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے3
درج بالا اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ ’ایوان اشاعت‘ جہاں سے ان کے پہلے دو مجموعے اشاعت پذیر ہوئے وہ مجنوں گورکھپوری کا ہی ادارہ تھا۔ ساتھ ہی مجنوں اس ادارے سے ’ایوان‘ رسالہ بھی شائع کرتے تھے جس کے مدیر وہ خود تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں اشاعت کے التوا کا اعلان نہ کرنے کا قلق تھا۔ رزق کے لیے گورکھپور چھوڑنا ان کے لیے تکلیف دہ عمل تھا۔ وہ اپنے وطن سے حد درجہ محبت کرتے تھے۔ اس لیے وہ گورکھپور واپس جانے کے خواہش مند بھی رہتے تھے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ مجھے گورکھپور چھوڑنا پڑا اور گورکھپور سے الگ ہو کر میں کوئی ایسی سنجیدہ زندگی بسر نہیں کر سکتا جس کو شعر و ادب کی زندگی کہتے ہیں اور جس کو ایک نقاد شعر ایک ’لطیف دیوانگی‘ بتاتا ہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرا یہ ادبی جمود ہمیشہ قائم رہے گا اس لیے کہ گورکھپور واپس جانے کی آرزو میرے اندر اسی قدر موجود ہے جس قدر کہ ہارڈی کے مشہور ناول "The Return of the Native" کے ہیرو Clym اور خود میرے افسانے ’بازگشت‘ کے ہیرو ادریس کے اندر موجود تھی اور بہت ممکن ہے کہ میں ان ہی دونوں کی طرح پھر گورکھپور واپس جاؤں، چاہے وہ مٹ جانے کے لیے ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن فی الحال تو میں گورکھپور میں نہیں ہوں اور ’ایوان‘ اور ’ایوان اشاعت‘ کا کاروبار بند ہے۔‘‘ 4؂
مجنوں گورکھپوری کی افسانہ نگاری کی جانب مائل ہونے کی وجہ بھی دلچسپ ہے۔ دراصل نیاز فتحپوری کا ایک افسانہ ’شہاب کی سرگزشت‘ رسالہ نگار میں قسط وار شائع ہو رہاتھا۔ مہدی افادی کی صاحب زادی جمیلہ بیگم کو یہ افسانہ حد درجہ پسند تھا لیکن مجنوں گورکھپوری کو افسانے میں کوئی افادیت کا پہلو نظر نہیں آیا اس لیے ان کی رائے اس افسانے کے متعلق اچھی نہیں تھی۔ ایک ملاقات میں ’شہاب کی سرگزشت‘ پر گفتگو شروع ہوئی تومجنوں گورکھپوری نے اپنی رائے کا اظہار جمیلہ بیگم کے سامنے بھی کر دیا۔ ردعمل میں جمیلہ بیگم نے طنزاً کہا کہ ’یہ سب تو نہ لکھ سکنے کی تاویلیں ہیں، میں جب جانوں کہ جب آپ بھی کوئی ایسا ہی بے نتیجہ افسانہ لکھ دیں۔‘ نتیجتاً مجنوں گورکھپوری نے اسی رات اپنا پہلا افسانہ ’زیدی کا حشر‘ کا کچھ حصہ لکھ ڈالا اور اگلے روز جمیلہ بیگم کے سامنے پیش کر دیا۔ ان ہی دنوں نیاز فتح پوری گورکھپور تشریف لائے ہوئے تھے۔ انھوں نے مجنوں گورکھپوری کا ادھورا افسانہ پڑھا تو ان سے افسانہ مکمل کرنے کی درخواست کی اور مسودہ اپنے ساتھ کانپور لے آئے جسے انھوں نے رسالہ ’نگار‘ میں بالاقساط شائع کیا۔ 5
مجنوں گورکھپوری کا یہ پہلا افسانہ تھا۔ اس کے بعد انھوں نے نیاز فتح پوری کی تحریک پر بہت سے افسانے قلم بند کیے۔ اس سلسلے میں لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ میں نے اول اول اپنی زندگی کا نصب العین کچھ اور بنایا تھا، لیکن انسان اپنی قسمت سے مجبور ہے۔ نیاز صاحب نے تحریک کی اور میں نے افسانہ نگاری شروع کردی اور آج صرف افسانہ نگار مشہور ہوں۔‘‘6
مجنوں گورکھپوری کے افسانوں میں مغربی افسانوں کی جھلک بہت ملتی ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے مغربی افسانوں کا وسیع مطالعہ کیا تھا۔ ان کے ایسے افسانوں کی تعداد بھی زیادہ ہے جو کسی نہ کسی سطح پر مغربی افسانوں سے ماخوذ ہیں۔ اس کا اعتراف مجنوں گورکھپوری بھی کرتے تھے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ان کے ایسے تمام افسانے مغربی افسانوں کا ترجمہ ہیں۔ اس مجموعے میں شامل افسانہ ’جشن عروسی‘ بائرن کے افسانے "The Bride of Abydos" کا آزاد ترجمہ ہے۔ اس کے علاوہ دیگر افسانوں کے متعلق خود مجنوں گورکھپوری نے ’شان نزول‘ میں تحریر کیا ہے کہ وہ کسی نہ کسی سطح پر مغربی افسانوں کے اثرات لیے ہوئے ہیں اور اگر ان کا کوئی افسانہ طبع زاد بھی ہے تو اس کے متعلق لکھتے ہیں کہ :
’’۔۔۔ دعوے کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس میں میرے مطالعے کی کوئی آمیزش نہیں ہے۔‘‘7
’شان نزول‘ میں مجنوں گورکھپوری نے ’مجنوں کے افسانے‘ میں شامل تمام افسانوں پر تھوڑی تھوڑی خامہ فرسائی بھی کی ہے۔ اس کتاب میں شامل افسانوں میں تین کے علاوہ دیگر افسانے 1929سے پہلے قلم بند کیے گئے تھے۔ دراصل 1929کے بعد مجنوں گورکھپوری نے افسانے لکھنے کم کر دیے تھے۔ انھوں نے اس کی کوئی خاص وجہ تو نہیں بیان کی ہے ، بس ایسا لگتا ہے جیسے ان کا جی افسانہ خلق کرنے پر مائل نہ ہو اور اپنا آپ ظاہر کرنے کے لیے کسی دوسری صنف کی تلاش میں بھٹک رہا ہو۔ وہ لکھتے ہیں:
’’اس مجموعے میں جتنے افسانے شامل ہیں ان میں سے تین کو چھوڑ کر باقی سب 1929سے پہلے کے لکھے ہوئے ہیں اور ایسے زمانے کی یادگار ہیں جب کہ میرا ادبی نشہ عروج پر تھا، جب کہ میرے قویٰ میں اضمحلال کی کوئی علامت نمودار نہیں ہوئی تھی جو 1929کے بعد دھیرے دھیرے مجھ پر چھاتا گیا۔ اب میں اپنے اندر وہ کیف و نشاط نہیں پاتا جس کو اب سے چند سال پیشتر میں اپنی دولت لازوال سمجھ رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اب جو کام کرتا ہوں اس میں ایک قسم کی بے دلی اور بے حوصلگی پائی جاتی ہے۔ میرے بعض پڑھنے والوں کو مجھ سے شکایت ہے جو ایک لحاظ سے بجا ہے۔ یعنی اب میرے افسانے اتنے ولولہ خیز اور ذوق انگیز نہیں ہوتے جتنا کہ پہلے ہوتے تھے۔ یہ کہنا بڑی حد تک صحیح ہے کہ اب میں جو کچھ لکھتا ہوں اس میں وہ پختگی جس قدر بھی ہو ، جو محض عمر اور مشق کے تجربہ سے پیدا ہو جاتی ہے لیکن اس ’حسن خیال‘ اور اس شوخی تحریر کا دور تک پتہ نہیں جو صرف جوانی کی روحانیت اور شوریدہ سری کا تقاضا ہوا کرتی ہے۔ یہ انحطاط بھی ہے اور ارتقا بھی۔‘‘8
طبیعت میں تبدیلی کا واقع ہونا فطری بات ہے۔ عموماً قلم رکنے کے بعد جب طبیعت پھر سے بحال ہوتی ہے تو مصنف اسی ادب پارے یا فن پارے میں لوٹنا چاہتا ہے جس میں وہ طبع آزمائی کرتا رہا ہے۔ لیکن یہاں معاملہ اس کے برعکس نظر آتا ہے۔ مجنوں گورکھپوری نے جب تک افسانہ نگاری کو اپنا بنائے رکھا تب تک انھوں نے خوب افسانے لکھے لیکن پانچ سال کے اندر ہی اس صنف سے ان کی دلی وابستگی برقرار نہیں رہی۔ ویسے بھی وہ ابتداً افسانہ نگار نہیں بننا چاہتے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کا ذہن دھیرے دھیرے اس صنف سے دوری بناتا گیا اور آخر کار انھوں نے افسانہ نگاری کو چھوڑ کر تنقید کو اپنا میدان خاص بنا لیا۔ شاید ان کی طبیعت کے لیے تنقید کا میدان ہی موزوں تھا۔ فراق گورکھپوری اور ان کے بعض دیگر دوستوں نے بھی انھیں تنقید کوہی اولیت دینے کا مشورہ دیا۔ طبیعت کی موزونیت اور دوستوں کے مشورے ہی تھے کہ آج ہم مجنوں گورکھپوری کو بطور افسانہ نگار نہیں بلکہ ایک نقاد کی صورت میں جانتے اور پہچانتے ہیں۔ مجنوں گورکھپوری اس سلسلے میں رقم طراز ہیں:
’’گذشتہ چند سال سے میں تنقیدیں زیادہ لکھ رہا ہوں اور افسانہ نگاری کی طرف میلان کم رہا ہے، یہ کوئی اضطراری حرکت نہیں تھی بلکہ اس کے مختلف اسباب تھے جس کی تفصیل و تشریح بے کار ہی ثابت ہوگی۔ اس ذکر کو چھیڑنے سے میرا ایک خاص مقصد تھا۔ میرے بعض احباب نے جن میں بابو رگھوپتی سہائے کا نام خاص طور پر قابل ذکر ہے حال میں میرے متعلق اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ تنقید ہی میرا غیر فانی ادبی کارنامہ ہے۔۔۔ ان لوگوں کی رائے میں جو چیز میرا نام زندہ رکھے گی وہ تنقید ہی ہوگی۔‘‘9
انسان کی فطرت میں شامل ہے کہ وہ ان ہی چیزوں کے مشورے دیتا ہے جس میں اسے امکانات نظر آتے ہیں۔ فراق اور دیگر احباب کے مشورے اپنی جگہ لیکن بہت سے احباب ایسے بھی تھے جنھوں نے مجنوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ افسانے کے علاوہ کچھ نہ لکھیں۔ دوستوں کے ان دو گروہوں کے درمیان کون صحیح ہے اور کون غلط، مجنوں گورکھپوری نے اس کا فیصلہ نہیں کیا ہے اور انھیں کرنا بھی نہیں چاہیے تھا۔ لیکن انھوں نے افسانہ نگاری اور تنقید نگاری کے ضمن میں ایک اہم بات کی جانب اشارہ کیا ہے۔ وہ دونوں کے مابین افسانہ نگاری کو بہتر خیال کرتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں:
’’مجھے صرف اس قدر عرض کرنا ہے کہ اگر چہ افسانہ لکھنامیری زندگی کا اولین مقصد نہیں تھا، تاہم مجھے اس قدر تو ماننا ہی پڑتا ہے کہ جب میں تنقیدیں لکھتا ہوں تو ان کی تمام تر بنیاد مطالعہ اور فکر و تخیل پر ہوتی ہے۔ برخلاف اس کے جب افسانے لکھتا ہوں تو ان میں میرے مطالعے اور مشاہدے دونوں آ جاتے ہیں اور تجربات و تخیلات مل کر ایک تخئیلی کل کی صورت اختیار کر لیتے ہیں یعنی میرے افسانوں میں ادب اور زندگی دونوں عناصر شامل ہوتے ہیں، جس کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ میرے افسانے میری زیادہ مکمل نمائندگی کرتے ہیں۔‘‘10
ماخذ:
1۔ مجنوں گورکھپوری، شان نزول، مجنوں کے افسانے،عالمی میڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ، دہلی، 2014، ص ج
2۔ ایضاً، ص ب
3۔ ایضاً، ص ب،ج
4۔ ایضاً ،ص ج
5۔ شاہین فردوس، مجنوں گورکھپوری:حیات اور ادبی کارنامے، ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ، 2001، ص96
6۔ مجنوں گورکھپوری، شان نزول، مجنوں کے افسانے،عالمی میڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ، دہلی، 2014، ص د
7۔ ایضاً، ص ذ
8۔ ایضاً، ص د ،ہ
9۔ ایضاً ، ص ذ
10۔ ایضاً، ص ح
n
Dr. Saqib Imran
Guest Teacher, Dept of Urdu
Jamia Millia Islamia
New Delhi - 110025
   اگر آپ رسالے کا آن لائن مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے لنک پر کلک کیجیے:۔



قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

1 تبصرہ:

  1. مجنوں گورکھپوری نے ’پردیسی کے خطوط‘ (مکتبہ جامعہ نئی دہلی 2011ء) میں لکھا ہے کہ مکتوبات اور روزنامچوں کی صورت میں اردو میں سب سے پہلے افسانے مَیں نے لکھے تھے۔ (ص 9)۔
    ڈاکٹر ثاقب عمران اس سلسلے میں کیا فرماتے ہیں؟

    جواب دیںحذف کریں