17/5/18

مضمون: لوک ادب: تحفظ اور بازیافت۔ مضمون نگار:۔ ڈاکٹر یوسف رام پوری






مضمون: لوک ادب تحفظ اور بازیافت
مضمون نگار: ڈاکٹر یوسف رام پوری

لوک ادب کسی بھی قوم کا عظیم سرمایہ ہوتا ہے۔ کیونکہ لوک ادب کے دامن میں اُس قوم کے گزشتہ ادوار، روایات، تہذیبی و معاشرتی اقداراورلسانی وادبی سلسلے آباد ہوتے ہیں۔ جو قوم اپنے تہذیبی، سماجی،ادبی اور لسانی ورثے کو محفوظ رکھتی ہے اور اس سے وابستہ رہتی ہے، اس قوم کے لیے ماضی و حال کے آئینے میں اپنے مستقبل کا لائحۂ عمل طے کرنا آسان ہوتا ہے۔اس کے برعکس جو قوم اپنے ماضی سے کٹ جاتی ہے، اس کی جڑیں کھوکھلی ہوجاتی ہیں اور اسے اپنے مستقبل کی تصویر دھندلی نظرآتی ہے۔ اسی لیے زندہ قومیں اورملتیں حال کے سفر کو طے کرتے ہوئے عہدِ رفتہ کی مشعلوں کو ہاتھ میں اٹھائے اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہتی ہیں۔

زندگی کے سفرمیں جدید تقاضوں اور نئے مطالبوں کو بروئے کار لانے کے لیے عہدِ رفتہ کی روشنی میں اپنی منزل کے نشانات کی تلاش وجستجو کے لیے ضروری ہے کہ ماضی کی کئی پرتوں کو کریدا جائے۔ کیونکہ ماضی وہ بھی ہے جو ابھی گزرا ہے، ماضی وہ بھی ہے جو چند دہائیوں اور صدیوں قبل گزرا تھا اور ماضی وہ بھی ہے جو ہزاروں سال پہلے گزرچکا ہے۔ انسان اپنے ان بیتے ہوئے زمانی ابعاد اور فاصلوں سے اسی طرح وابستہ ہے جس طرح گزرے ہوئے کل یااس پَل سے، جو ابھی گزرا ہے۔انسان کاوہ وجودجو آج ہے اُس وجود کاتسلسل ہے جو ہزاروں سال پہلے تھا۔

یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ آج کی ترقیات صرف دورِ حاضرکے انسان کی رہین منت نہیں بلکہ گزشتہ کئی ادوار کے اسلاف کی جہدِمسلسل کا بھی نتیجہ ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض لوگوں کی نگاہیں محض حال و مستقبل کی جانب مرکوز ہیں اوروہ ماضی کو کالعدم یا فرسودہ خیال کرکے اسے لائقِ اعتنا نہیں سمجھتے۔غالباً یہی وجہ ہے کہ انسانی زندگی کے نئے افق پر عہدِرفتہ کے بہت سے گراں قدرنقوش دھندلے دھندلے سے دکھائی دے رہے ہیںیا آنکھوں سے اوجھل ہوتے جارہے ہیں۔

زندگی کو دیکھنے کے نئے زایوں نے اگرچہ بہت سے ایسے پہلوؤں کو اُجاگر کیا ہے، جو اب تک گمنامی کے دھندلکوں میں روپوش تھے،تاہم انسانی زندگی کے کئی پہلوایسے بھی ہیں جوآج کے منظرنامے سے تیزی کے ساتھ اوجھل ہوتے جارہے ہیں۔ جیساکہ قدیم روایتیں، تہذیبی، اخلاقی اور معاشرتی قدریں، پرانی زبانیں، بولیاں، قصّے کہانیاں وغیرہ۔نئے زمانے میں تیزی کے ساتھ پردۂ گمنامی میں جانے والی اشیا کی فہرست میں لوک ادب بھی شامل ہے۔ وہ لوک ادب جس کی جڑیں بیتی ہوئی صدیوں سے گزرتی ہوئی نامعلوم زمانوں تک پہنچتی ہیں۔جی ہاں، وہی لو ک ادب جس کے آنگن میں کتنی ہی کہانیاں نسل درنسل سنائی جاتی رہی ہیں۔کتنی ہی پہیلیاں زبان درزبان کہی جاتی رہی ہیں اور کتنے ہی گیتوں کی نغمگی فضامیں تحلیل ہوکرمختلف ادوار کے انسان کے ذہن ودل کے نہاں خانوں میں گونجتی رہی ہے۔
لوک ادب کو ماضی کا آئینہ کہا جاسکتاہے جس میں ہم اپنے عہدِ رفتہ کو دیکھ بھی سکتے ہیں اور اس کی بازیافت بھی کرسکتے ہیں۔ہماری پچھلی نسلوں کے افکاروخیالات کے دائرے کیا تھے،ان کے سماجی وتہذیبی عناصر کیا تھے، وہ کس طرح کی زبانیں اور بولیاں بولتے تھے،جب خوش ہوتے تو فرحت وانبساط کااظہار کس طرح کرتے اور جب مغموم ہوتے تو ان کے یہاں غم کے اظہارکی کیا نوعیت ہوتی۔ ان کے یہاں تقریبات، رسوم وروایات، باہمی تعلقات اور عشق ومحبت کے انداز کیا تھے۔ ان سب چیزوں کی دریافت لوک ادب کے توسط سے بآسانی کی جاسکتی ہے۔ گزشتہ ادوار کے جو حالات ہم لوک ادب کے ذریعے جان سکتے ہیں، اس کی توقع ہم تاریخی کتب سے بھی نہیں کرسکتے۔کیونکہ تاریخی موادکے حوالے سے استناد اورمعتبریت کا سوال ہمیشہ قائم رہتاہے۔ 
لوک کہانیوں، لوک گیتوں اورلوک پہیلیوں کا سلسلہ سینہ بہ سینہ چلتا رہتاہے۔ گواس بات کا علم نہ ہوکہ ان کہانیوں، گیتوں،پہیلیوں کے تخلیق کار کون تھے،لیکن بہرحال یہ اپنی جگہ سچ ہے کہ وہ گیت، کہانیاں،پہیلیاں مختلف نسلوں کے جذبات کی ترجمان وآئینہ دار رہی ہیں، تبھی تو ان کہانیوں کوعہدبہ عہد عوام الناس دہراتے رہے ہیں۔ لوک ادب کوانسانی زندگی سے قریب اس لیے بھی ماناجاسکتاہے کہ وہ عوام الناس سے جڑا ہواہوتا ہے۔ وہ دیہی، قصباتی زندگی کی ترجمانی زیادہ کرتا ہے،کسی حد تک شہری زندگی کی بھی عکاسی لوک ادب کے ذریعے ہوتی ہے۔ زیادہ ترانسانی آبادی کا تعلق چھوٹی چھوٹی بستیوں، گاؤں اور قصبوں سے رہا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ فی زمانہ دنیابھر میں بڑی بڑی آبادیوں والے بڑی تعداد میں شہر آباد ہوگئے ہیں، لیکن گزشتہ ادوار میں یہ صورت حال نہ تھی۔اس لیے گزرے ہوئے زمانوں میں لوک ادب عوامی زندگی کی عکاسی کا موثروسیلہ تھا۔ اس بابت پروفیسر قمر رئیس رقمطرازہیں:
’’لوک ادب اور لوک گیتوں کی چند مابہ الامتیاز خصوصیات کی طرف اشارہ کیا جاسکتاہے۔مثلاً یہ کہ ان کا مصنف گمنام ہوتاہے۔یہ گیت زیادہ تر اجتماعی اور کم تر انفرادی جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں۔اکثر یہ گیت محنت کش عوام کی اجتماعی تخلیقی محنت کے عمل میں خلق ہوتے اور گائے جاتے ہیں، ان کا آہنگ کسی عروضی قاعدے کے بجائے، عوام کے احساس موسیقی کا تابع ہوتا ہے۔ عوامی قصوں کے مآخذ بھی یا تو عوام کے تلخ وشیریں تجربات ہوتے ہیں یا پھر مصائب حیات سے نجات پانے کی ازلی خواہش اور ایک بہترزندگی کے خواب ہوتے ہیں۔
لوک ادب المیہ اور حزنیہ بھی ہوتا ہے اور طربیہ بھی۔ یہ عوام کی ذہانت کا تخلیقی اظہار بھی ہوتا ہے اور ان کی تفریح و تفنن کا ذریعہ بھی۔اس میں ہنسی مذاق، ٹھٹھول، طنزوتعریض، مذہبی عقیدت، دشمنوں سے نفرت، وطن دوستی، مظاہرِ فطرت سے محبت، جنسی جبلّت، ا لغرض ہر طرح کے جذبات، احساسات اور واردات کا اظہار ہوتا ہے۔‘‘ (اردومیں لوک ادب، ص8، مرتب : پروفیسر قمر رئیس)
لوک ادب سے عوامی رشتے کی گہرائی اور مضبوطی کے بارے میں پروفیسر محمد حسن نے مزید وضاحت کے ساتھ لکھا ہے:
’’عوامی ادب سے مراد وہ ادب ہے جس کو عوام نے جنم دیا ہو۔کوچہ وبازار میں، قریے اور دیہات میں، کھیت اور کھلیان میں اور عام طورپر اس ادب کا جنم داتا کوئی ایک شخص نہیں ہوتا، پورا معاشرہ ہوتا ہے۔کبھی کبھی اس قسم کا ادب کسی ایک شخص سے منسوب بھی ہوگیا ہے۔ بعد میں تحقیق نے پتہ چلایاکہ یا تو یہ شخص ہی فرضی تھا یا پھر اس سے اس پورے کے پورے ادب کو منسوب کرنا غلط یا مشتبہ تھا۔...وہ کہانیاں جو نانی دادی سناتی ہیں، وہ گیت جو جانے اَن جانے آپ کے ہونٹ گنگنانے لگتے ہیں، وہ بول جنھیں آپ کچھ سمجھتے ہیں کچھ نہیں سمجھتے مگر کھیل کود میں دہراتے ہیں، یہ سب معاشرے کی دین ہیں اوران کا خالق کوئی ایک فرد نہیں ہے اور اگر ہے تو گم نام ہے۔‘‘
(اردومیں عوامی ادب ایک روایت، از پروفیسر محمد حسن، اردومیں لوک ادب، ص25)
گزشتہ ادوار کی سادہ اور فطری زندگی میں لوگوں کی زبانوں سے اگرایسا کچھ نکل جاتا جس سے عوام الناس کے جذبات کی تسکین ہوتی یا اس میں ان کی زندگی جھلکتی ہوئی محسوس ہوتی یا کوئی تفریحی پہلو پنہاں ہوتا تو وہ سینہ بہ سینہ دور دور تک پھیل جاتا۔ اس عوامی ادب میں اتنی طاقت ہوتی کہ وہ ترسیل واِبلاغ کے وسائل و ذرائع کے فقدان کے باوجودزمانی اور مکانی ابعاد اور فاصلوں کو طے کرتے ہوئے دوسرے ملکوں تک چلاجاتا اور اگلی صدیوں میں داخل ہوجاتا۔
ادوارِرفتہ میں لوک ادب کی مقبولیت کا راز یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت عوام الناس کے لیے نہ اتنے تفریحی سامان تھے، جتنے کہ اس دورمیں ہیں، نہ زندگی کے اتنے پہلو تھے، نہ رنگ رنگ کے واقعات،نہ ناول، نہ افسانے، نہ اخبارات ورسائل، نہ کتب،نہ ریڈیواور نہ ٹی وی چینل،نہ کمپیوٹر، نہ انٹر نیٹ،نہ موبائل،نہ فیس بُک، نہ واٹس ایپ،نہ نوع بہ نوع کاروباروصنعتیں، نہ ملازمتیں، نہ مصروفیتیں۔ان کے پاس فرصت کے اوقات تھے، کہانیاں کہنے اور سننے کا، پہلیاں تخلیق کرنے اور حل کرنے کا ان کے پاس وقت تھا،گیت گانے کے لیے خواتین کے پاس فرصت بھی تھی اور ماحول وفضا بھی۔ کھیت کھلیان، بدلتے موسموں کے نظارے، اور ان سے بھرپورلطف لینے کے مواقع بھی ان کے پاس تھے۔ اگرکسی کے یہاں شادی کا موقع آجاتا تو ایک مہینے پہلے سے اس گھر میں عورتیں جمع ہوکر گیت گاتیں، وہی گیت جو کبھی ان کی دادیاں اور نانیاں گایا کرتیں۔ بہاراور برسات کے موسموں میں متعدد خواتین اکٹھی ہوکر باغوں میں چلی جاتیں، پیڑوں میں جھولے ڈال لیتیں، جھولتیں اور گیت بھی گاتی جاتیں، ہاں وہی گیت جو لوک ادب کا قیمتی سرمایہ تھے اور ہیں۔بوڑھی عورتیں اپنے پوتوں، پوتیوں، نواسوں، نواسیوں کو کہانیاں سناتیں، بچے بڑے انہماک سے سنتے۔ پھر جب وہ بڑے ہوجاتے، جوانی سے گزرکر دادا، دادی،نانا نانی بن جاتے تو وہ بھی اپنے گھر کے بچوں کو اکٹھاکرکے وہی کہانیاں دوہراتے جو انھوں نے اپنے دادادادی، نانا، نانی وغیرہ سے اپنے بچپن میں سنی تھیں، اس طرح ان کا وقت بھی گزرجاتا، قصے کہانیوں میں بچے نصیحت کی باتیں بھی سیکھ لیتے تھے۔جوان چوپالوں میں جمع ہوجاتے اور پھر طویل قصے چھیڑ دیے جاتے۔ بعض اوقات وہ قصے اتنے طویل ہوجاتے کہ ہفتوں ہفتوں تک ختم نہ ہوتے، داستان گو قصے کے مناظر یہاں تک کہ جزئیات کو بھی بڑی خوبی سے بیان کرتا۔ یہ قصے لکھے ہوئے نہ ہوتے تھے،چنانچہ داستان گوکے لیے ان میں اپنی طرف سے بھی کچھ اضافہ کرنے کی گنجائش ہوتی۔بعض اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی تخلیقی صلاحیت کا استعمال کرتے اور بعض چیزوں اورپہلوؤں کو جوڑکراان قصوں کو مزید طویل اور دلچسپ بنادیتے۔ اس طرح سامعین کے لیے مزید سامانِ تفریح وتفنن بھی جمع ہوجاتا۔ ان کا وقت گزرجاتا،مختلف علاقوں، زمانوں اور طبقوں کی تہذیب وثقافت کا بھی علم ہوجاتا اور کچھ عبرت کی باتیں بھی سیکھنے کو مل جاتیں۔ 
لوک کہانیوں، پہیلیوں وغیرہ سے ہر دور کے بچے بھی وابستہ رہے ہیں۔ وہ اپنے بزرگوں سے قصے کہانیاں سنتے تھے، ساتھ ہی خود بھی بعض ایسی باتیں یا نظمیں دہراتے تھے جن سے انھیں خوشی ملتی، گاتے،مچلتے اور فطری زندگی کامزہ لوٹتے۔ دراصل اس نوع کی باتوں سے ان کا واسطہ ماں کی گود سے ہی پڑنا شروع ہوجاتا۔ ماں بچے کو لوریاں سناتی ہوئی کہتی :
چندا ماموں دور کے 
بڑے پکائیں بوٗر کے 
آپ کھائیں تھالی میں
اوروں کو دیں پیالی میں 
پیالی گئی ٹوٹ
چندا ماموں گئے روٹھ
جب بچہ ذرا ہوش سنبھالتا تھا، بولنا سیکھتا، بچوں کے درمیان کھیلتا تو سنتا،’’ اکڑ بکڑ بمبے بو‘‘ اور پھر خود بھی گانے لگتاہے :
اکڑ بکڑ بمبے بو
اسّی نوّے پورے سو
سو میں لگ گا تاگا
چور نکل کے بھاگا
اس طرح کے بول بولتے ہوئے بچوں کو کھیل کود میں بڑامزہ آتا تھا۔ کوئی پہیلی کہتا اور دوسرے اس کو حل کرنے میں دماغ صرف کرتے۔بعض پہیلیاں نہ جانے کب سے چلی آرہی ہوتیں اور بعض پہیلیاں کچھ ذہین بچے غور وفکر کرکے خود ایجاد کرلیتے، لیکن اب ان پہیلیوں، لوریوں اور بچوں کے درمیان معروف مذکورہ مرتب لفظوں کا تحفظ مشکل نظرآرہا ہے۔ کیونکہ موجودہ زمانے میں ان کا سلسلہ ٹوٹتا دکھائی دے رہا ہے۔آج بچے ذرا ہوش سنبھالتے ہیں تو ان کے سامنے ٹی وی کی اسکرین ہوتی ہے یا موبائل اور موبائل پر انواع واقسام کے گیمز ہوتے ہیں۔بچے ان گیموں کو دیکھنے اور کھیلنے میں دلچسپی لینے لگتے ہیں، ان گیموں میں موٹر گاڑیاں، ٹرینیں، ہوائی جہاز اور نئے آلات دکھائے جاتے ہیں۔ بچے خواہی نہ خواہی اس طرح ان سے وابستہ ہوجاتے ہیں۔
بچپن سے ہی ٹیکنکل آلات سے جڑجانے کی وجہ سے بچوں کاذہن بھی ٹیکنکل ہوتا چلا جارہاہے، اور تخلیقی سطح پر وہ کمزور ہوتے جارہے ہیں۔ جو داستانیں کبھی بچوں کو سنائی جاتیں، آج ٹی وی پر دکھائی جاتی ہیں۔داستانیں خواہ وہی یا ایک جیسی کیوں نہ ہوں لیکن دونوں کے اثرات جداگانہ ظاہرہوتے ہیں۔بچے جو کہانیاں سنتے ہیں،ا ن کے کرداروں، ان کے راستوں، پگڈنڈیوں،پہاڑوں، ندیوں، پرانی حویلیوں، شادی بیاہ کے ہنگاموں، سب کی تصویریں خود بخود ان کے ذہن میں بنتی چلی جاتی ہیں، یعنی ان کے ذہن کی تخلیقی صلاحیت کو جلاملتی ہے، لیکن جب انھیں کہانیوں اور قصوں کوفلماکر بچوں کو دکھایا جاتا ہے تو وہ ان سے محظوظ تو ہوسکتے ہیں، مگر ان کے ا ذہان خودکردار وں کے حلیے، ان کی حرکات وسکنات، خوبصورت جھیلیں، آبشاروں کی تصویریں اور گزرگاہیں خلق نہیں کرتے، اس طرح ان کی تخلیقی قوت زنگ آلود ہوتی چلی جاتی ہے۔ جیسے ہی بچے بڑے ہوتے ہیں، جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں یا رکھنے والے ہوتے ہیں، ان کے ذہن یا تو اسکولوں کے نصابات کی کوٹھریوں میں قید ہوجاتے ہیں یا پھر وہ کچھ کمانے کی تگ ودومیں دنیا کے جمگھٹوں میں الجھ جاتے ہیں اور ایسے مصروف ہوجاتے ہیں کہ پھر کبھی زندگی بھر انھیں فرصت کے لمحات میسر نہیں آتے۔ اگر کچھ وقت بچتا ہے تو ٹی وی آن کرلیتے ہیں، اور فلمی، تفریحی،خبری چینلوں کودیکھتے اور بدلتے رہتے ہیں۔بچوں کو کہانیاں سنانے،پہیلیاں کہنے اورلوک گیت گانے کی نوبت ہی نہیں آتی۔
لوگ گیتوں سے خواتین کا گہرا تعلق رہا ہے،خواہ وہ تعلق شادی کے موقع پر گائے جانے والے گیتوں کی شکل میں ہو، یا بارہ ماسہ کی شکل میں ہو، یا پھر خوشی وغم کے دیگر مواقع کی صورت پرگائے جانے روایتی لفظوں کی شکل میں ہوں، لیکن موجودہ زمانے میں خواتین کا ان گیتوں سے رشتہ کمزورہوتاجارہا ہے، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ آج فلمی گانوں کا چلن زیادہ ہے، جنھیں بڑے بڑے فنکار موسیقی کے ساتھ گاتے ہیں، چنانچہ خواتین ان فلمی گیتوں کو زیادہ سنتی اورگاتی دکھائی دیتی ہیں۔ یہی فلمی گیت اب ان کی زبان پر آتے ہیں نہ کہ وہ پرانے گیت ونغمے جو ان کی دادیوں اور نانیوں نے گائے تھے۔اس کے علاوہ ٹی وی کی طرف مائل ہونے کی وجہ سے خواتین اب سیریلوں میں مگن دکھائی دیتی ہیں۔ سیریلوں میں ان کی بڑھتی دلچسپی نے قدیم روایتوں سے ان کے رشتے کو منقطع یا کمزور کردیا ہے۔چنانچہ اب انھیں شادی کے مواقع پر گیت گانے میں بھی کوئی خاص دلچسپی نظرنہیں آتی۔ جو گیت اب سے کچھ دہائیوں پہلے ساری عورتوں کو یاد ہوتے تھے، اب چندفیصد عورتوں کو بھی یاد نہیں ہیں۔ایسی صورت میں لوک گیتوں کا تحفظ یقیناًدشوار ترین مرحلہ ہے۔یہ ممکن ہے کہ ان گیتوں کو لکھ کر کتابوں میں محفوظ کردیاجائے، جیسا کہ کیا بھی گیا ہے اور کیا بھی جارہا ہے،۔ اس طرح کچھ چیزوں کو کاغذوں میں توضرور محفوظ کیاجاسکتاہے،مگر سینوں میں نہیں۔ جب سینوں میں لوک گیت محفوظ نہیں ہوں گے، زبانوں پر نہیں آئیں گے تو قدیم لوک ادب کی زندگی وفنا کا سوال تواٹھے گا ہی۔
قدیم لوک ادب کی بازیافت اورجولوک ادب ہنوز زندہ ہے، اس کے تحفظ کا مسئلہ میرے خیال سے ادب کا ایک ایسا مسئلہ ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اورنہ ہی کیا جانا چاہئے۔یہ مسئلہ اردولوک ادب کاہی نہیں بلکہ اس جہانِ رنگ وبو کے ساتھ بدلتے حالات وتغیرات میں تمام دنیا کی زبانوں کے لوک ادب کا ہے۔ہر زبان اپنے قدیم عوامی ادب کو گم کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ عہدِ حاضر میں کتنی ہی زبانیں، بولیاں اپنا وجود معدوم کرچکی ہیں۔جس کے سبب بہت سی قیمتی قدریں، روایتیں، تہذیبیں مٹ چکی ہیں اور مٹ رہی ہیں۔ اگر دورِ حاضر کی قومیں حال ومستقبل کے ساتھ اپنے ماضی،اپنے سماج اور تہذیب سے جڑے رہنا چاہتی ہیں تو انھیں اپنی زبانوں اور ان کے ادبی سرمایوں کی حفاظت کرنے اورزندہ رکھنے کی راہیں تلاش کرنی ہوں گی۔ 
جہاں تک اردوزبان وادب کے لوک ادب کا سوال ہے تو لوک ادب سے اردوکا رشتہ اتنا ہی قدیم ہے جتنی کہ خود اردو زبان۔اس کا ایک ثبوت تو یہ ہے کہ اردو کا خمیر ہندوستان کے مختلف علاقوں کی جن بولیوں سے مل کرتیار ہوا ہے، ان میں لوک گیت، لوک کہانیاں اور لوک پہیلیاں پہلے سے موجود ہیں۔جب اردو وجود میں آئی توان بولیوں کا لوک سرمایہ اردومیں منتقل ہوگیا۔ کھڑی بولی، قنوجی، ہریانوی، پنجابی اوردکنی بولیوں اور زبانوں کے لوک ادب کا خاصا بڑا ذخیرہ آج اردو ادب کاحصہ ہے۔امیر خسرو کے ہندوی کلام اس حصّے کو جوپہیلیوں اور گیتوں پر مشتمل ہے، اردو لوک ادب کاقیمتی اور قدیم ذخیرہ کہا جاسکتاہے۔ایسے ہی بہت سے صوفی سنتوں کی حکایتیں اور دوہے بھی اردو کے لوک ادب میں شامل ہیں۔دہلی اوراس کے مضافاتی علاقوں،نیزشمال اور دکن کے مختلف اضلاع میں جو عوامی گیت گائے جاتے رہے ہیں، یا جو پہیلیاں زبان زد عام رہی ہیںیا جو داستانیں عوام کے درمیان سنی سنائی جاتی رہی ہیں، وہ بھی اردو لوک ادب کا سرمایہ ہیں۔اس اعتبار سے دیکھاجائے تو اردو لوک ادب کا دائرہ کافی وسیع ہے۔یہ الگ بات ہے کہ امتدادِ زمانہ کے باعث یا نئے تقاضوں اور مطالبوں کے سبب اردو لوک ادب کا بہت بڑا حصہ محفوظ نہیں رہ سکاہے۔
اردو لوک ادب کے سرمایہ کی حفاظت اور اس کی اشاعت سے عدم دلچسپی یا کم توجہی کے باعث بھی اردو لوک ادب کی کمیابی کامسئلہ کھڑا ہوا۔دراصل اردو زبان نے بہت جلددرباروں تک رسائی حاصل کرلی اور شرفا ورؤسانے اسے اپنا لیا۔وقت کے اہم ادبا وشعرا بھی اس کی طرف متوجہ ہوئے، اس لیے اعلیٰ زبان بولنے اور اعلیٰ شاعری کرنے کی طرف زیادہ توجہ دی گئی۔ میر، سودا، بہادرشاہ ظفر،ذوق، غالب، داغ،مومن، انشا، مصحفی اوراقبال جیسے شاعروں نے اردو شاعری کے لیے جوراہ ہموار کی اس پر لوک گیتوں اور دوہو ں کو کمترخیال کیا گیا۔ اس کے باوجود یہ کہنا کسی بھی طورمناسب نہ ہوگا کہ اردوکے پاس لوک ادب کا سرمایہ نہیں ہے۔بلاشک وشبہ اردو کا انسلاک شاہوں، رئیسوں اور درباروں سے رہاہے لیکن یہ عوامی زبان بھی رہی ہے۔اگر عوامی نہ ہوتی اور صرف درباروںیاشاہوں تک ہی اس کا دائرہ محدود ہوتا تورجواڑو ں کی تباہی کے ساتھ اس کی بساط بھی الٹ جاتی اور آج اس کا زندہ وتابندہ رہنا تو دورکی بات اس کے آثار کو ڈھونڈ پانا بھی مشکل ہوتا،لیکن اردو نہ صرف یہ کہ ہنوز زندہ ہے بلکہ وقت کے ساتھ اس کا دائرہ پھیلتا جارہا ہے اور اسے عوام کے درمیان شوق کے ساتھ بولا اور سمجھا جارہاہے۔
اردو میں ضرب الامثال اور کہاوتوں کاایک جہان آباد ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اردو کی جڑوں میں لوک ادب موجود رہاہے۔ کیونکہ عوام کے بغیر نہ زبان پوری طرح وجود میں آسکتی ہے، نہ وہ دور تک پھیل سکتی ہے اور نہ دیر تک قائم رہ سکتی ہے۔ظاہرہے کہ اردو کئی زمانوں اور صدیوں پر محیط ہے اور اس کامکانی کینوس بھی کئی ملکوں اور براعظموں تک پھیلاہوا ہے، اس لیے اردو کی تہوں میں لوک ادب کی شمولیت خود بخود ثابت ہوجاتی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو والے اپنے لوک ادب کی بازیافت کریں اور اسے زبانی اور تحریری طورپر محفوظ کرنے کے لیے امکانی اور عملی کوششیں کریں۔
n
Mohammad Yousuf
Research Scholar, University of Delhi
Delhi - 110007

 اگر آپ رسالے کا آن لائن مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے لنک پر کلک کیجیے:۔



قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

بیتال پچیسی اور سنگھاسن بتیسی، مضمون نگار: یاسمین رشیدی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 بیتال پچیسی کو 1803/1805 میں مظہر علی خاں ولا نے اردو میں منتقل کیا تھا۔ اس سے پہلے یہ کہانیاں راجا جے سنگھ سوائی...