23/5/18

مضمون۔ جنوبی ہند کے عصری اردو ادب میں علاقائی اثرات از مہ نور زمانی بیگم






جنوبی ہند کے عصری اردو ادب میں علاقائی اثرات

مہ نور زمانی بیگم




ادب میں علاقائی اثرات زبان اورمواددونوں میں ملتے ہیں۔ جہاں تک زبان پر پائے جانے والے علاقائی اثرات کا سوال ہے ان ریاستوں میں کنڑ، تلگو، تمل اور ملیالم ہی نہیں بلکہ مرہٹی زبانوں کے اثرات شروع سے ہی اردو زبان کے ڈھانچے پر اس طرح سے اثر انداز رہے ہیں کہ یہاں بولی جانے والی اردو زبان’دکنی‘ کے مخصوص نام سے جانی جاتی ہے۔ اس حقیقت سے قطع نظریہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 1985سے بہت پہلے ہی جنوبی ہند کے کئی ادباء و شعرا نے معیاری اردو کے استعمال پر پوری قدرت حاصل کرلی تھی۔ چنانچہ پچاسی تا حال کے جنوبی ہندکے اردو ادب میں علاقائی اثرات کی تلاش یہاں کے شعری اور تنقیدی سر مایے میں بے سود ہے۔اس دورتک کر ناٹک اور حیدر آبادمیں محمودایاز، خالد عرفان، مغنی تبسم، سلیمان اطہر جاوید، ڈاکٹر سیدہ جعفر وغیرہ کئی احباب کی ادبی تنقیدوں نے شمالی ہند اور پاکستان سے شائع ہونے والے موقر رسائل میں جگہ بنا لی تھی لیکن فکشن میںآج بھی علاقائی اثرات کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔اگر ہم یہاں کے فکشن کا جائزہ لیں تو نہایت خوش کُن نتائج سامنے آتے ہیں اور ادب میں علاقائیت کی تلاش کا عمل معتبر محسوس ہونے لگتا ہے۔ 

در حقیقت علاقائی اثرات ہر ادیب کا اٹوٹ حصہ ہوتے ہیں کیو نکہ ادیب معاشرے کا حساس،د رد منداور دوربین فرد ہوتا ہے۔ ادیب و شاعر کا بچپن جس علاقے میں بسر ہوتا ہے اور وہ زندگی بھر جس علاقے میں رہتا بستا ہے وہاں کی زبان اور تہذیب و ثقافت کے اثرات اس کے لاشعور میں اس طرح مر تسم ہوجا تے ہیں کہ اس کی تخلیقات میں کہیں نہ کہیں ان کی جھلک نمایاں ہو جاتی ہے۔ لہٰذا ادب میں علاقائی اثرات کا وجود ایک ایسا وصف ہے جو اپنے تخلیق کار کے، کسی مخصوص علاقے سے وابستہ ہونے کا ثبوت پیش کرتا ہے۔ 
تو آئیے میں بات شروع کرتی ہوں شمالی کرناٹک کے شہر ہبلی کے ایک مشہور افسانہ نگار ملّاعبدالغنی کے ناولٹ ’ نقشی کٹورا‘ سے! یہ ایک ایسا ناولٹ ہے جس میں مصنف نے انتہائی فنکاری کے ساتھ زبان اور مواد دونوں کے اعتبار سے علاقائیت کی جیتی جاگتی تصویریں پیش کردی ہیں۔ا س میں بظاہر ایک ایسی پاگل عورت کی کہانی ہے جس کے تنے ہوئے خد و خال، چَڑھی ہوئی بھوئیں اورلال لال آنکھیں دیکھ کر کوئی بھی عام آدمی اس کے قریب تک نہ پھٹکتا تھا، اورخود اس کے اپنے بچے اس کی جنگجو یانہ اورخونخوار اضطراری حرکتوں کا سامنا کر نے سے کتراتے تھے۔ملّاعبدالغنی نے اس ناولٹ کے پردے میں بیجاپور، ہبلی اور دھارواڑکی علاقائی معاشرت، زندگی کے شب و روز، تہذیب و ثقافت، غربت، عظمت، توہم پرستی،زبان، روز مرہ، کہاوتوں اور چٹکلوں سب کو قلمبند کردیا ہے۔
وہاں پر استاد کو ’جناب‘ کہا جاتا ہے جیسے کہ ناولٹ میں جناب چھوٹے شاہ، جناب چھوٹے گدگ وغیرہ ہیں، تایا کو’ بڑے باپ ‘کہا جاتا ہے جو کہ کنڑ ’ دوڈاپّا‘ کاہو بہو اردوترجمہ ہے۔ جب ’ہاں‘ کہنا ہو ’ھوئے ‘ کہا جاتا ہے۔ ’ذ ‘ اور’ ز ‘ کی آواز کو’ج ‘کی آواز سے اداکیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی اور قسم کی لسانی خصوصیات یہاں کی مخصوص دکنی اردو کے مزاج کا حصہ ہیں۔ لہذا شمالی کرناٹک کی اردو زبان کے مخصوص علاقائی اثرات سے مملواس ناولٹ کے چند اقتباسات ہیں : 
’’اللہ کاں بسریاچنگا ماں اِسے، برس پہلے پکتے ہوئے کھانے میں کنکر مٹی ڈالی، دو برس پچھے بڑے باپ کے نوے اِجار جامے کو جلا ئی، تب بڑے باپ کیتّی عاجزی سے پاؤں پکڑ کو بولے تھے ایسا کرو نکو ماں کر کو، اِنے چھوڑی تو بول۔ ‘‘ (ص72)
’’ وھئے۔۔۔مجے معلوم۔۔۔ مچھی کے بچے کو تیرنا شکانا کیا۔۔۔‘‘ (ص42) 
’’میں بلا لے کو جاتوں تمنا کل سال کو۔۔۔ بولو بھی،نیں تو دیکھو حجرت بھینساں چرانے لگاتیں کتے۔‘‘ 
’’ اجی خالہ اسے جرا دودھ پلاؤ جی، کل سے دودھ نیں پئے جی‘‘ (ص14)
ملّا عبدالغنی نے شمالی کر ناٹک کی زبان کے اس طرح کے جیتے جاگتے نقوش کے علاوہ جو معاشرتی تصویریں ’نقشی کٹورا‘ میں پیش کی ہیں اُن کا شائبہ آج بھی دھارواڈ، بیلگام اور بیجاپور کے علاقوں میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ اس ناولٹ میں تعویز، فلیتے، پیروں، شہدوں، حکیموں اور ڈاکٹروں کے آستانوں پر سر جھکانے کا تذکرہ، بھوت پریت اتارنے والوں کا کہا ماننے کے واقعات، نئے رہن سہن کو اپنانے کی طرٖ ف بڑھائے جانے والے بے ہنگم اقدامات،اس علاقے میں پائے جانے والے پیشوں کی اونچ نیچ و غیرہ باتوں کونہایت دلچسپی اور فنکاری کے ساتھ بیان کردیاگیا ہے۔محرم میں ادا کی جانے والی رسومات کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھتے ہیں’’ لوگ اپنے ہر دکھ کا علاج حضرت بی بی فاطمہ کی عودی کو مانتے تھے۔ چوکی کے سامنے ماتھا ٹیکتے، شِرسٹانگ نمسکار کرتے، عودی کی ایک چٹکی جیبھ پر ڈالتے، گلے پر لگاتے،ماتھے پر ٹیکہ لگاتے، دعائیں دی جاتیں،منتیں مانی جاتیں اور فاتحہ پڑھی جاتی۔۔۔ .بکرے ذبح کرکے کندوری کی جاتی، ہُدّے (ڈھائی سیر گڑ ڈھائی سیر مونگ پھلی کا تیل حضرت امام حسین کے نام نذر و نیاز کرنا) دئے جاتے۔ ‘‘ پھر یہ کہ ’’روایت کے مطابق تقریباً ہر مسلمان کے گھر میں پانچویں کو شربت، گھی کے بگھار کی مونگ کی کھچڑی اور سارے بیگن کا سوکھا سالن، تور کی دال یا گوشت کا سالن پکتا،ساتویں کو گھوڑے (ایک میٹھا پکوان) اور گوشت کا سالن اور گھی سے بگھارے چاول اور ’ قتل ‘ (یعنی محرم کی نویں تاریخ) کو ملیدہ اور بریانی،نیز نویں کو خاص طور سے مہندر گڑھ کے تقریباً ہر ہندو گھر انے میں محرم کا تہوار منایا جاتا۔دن بھر روزہ رکھ کر نہا دھو کر لنگایتوں اور برہمنوں، چھتریوں کے ہاں بھاجی،بیگن، روٹی،پھیکے چاول اور ملیدہ شربت تیار کرکے مغرب کے بعد بی بی فاطمہ کے نام عاشور خانے آکر فاتحہ نہ دلائی جاتی توان کے منہ میں کھیل تک اڑ کر نہ جاتی۔ دَھیڑوں، چماروں، دھوبیوں کے گھر کندوریاں ہوتیں، بکرے کٹتے اور ان کی عورتیں نہا دھو کر دھلے دھلائے کپڑوں میں ملبوس ایک جگہ جمع ہوکر صبح ہی صبح رونا بین کرنا شروع کر تیں،بکرے کو بھی نہلا دھلا کر اس کے پاؤں میں صندل لگایا جاتا،پیشانی پر کُم کُم کی انگلیاں بٹھائی جاتیں اور گلے میں پھولوں کے ہار پہنائے جاتے۔۔۔ ‘‘ (ص 61-62)۔ جنوب میں برسوں سے چلی آرہی قومی یکجہتی کی مستحکم روایات کو مٹانے کی جو کوششیں ہوتی رہی ہیں انھیں بھی ملّاعبدالغنی نے بڑی دانشوری کے ساتھ اس ناولٹ میں سمیٹ لیا ہے (صفحہ 145 )۔ 
اسی طرح ہبلی کے ایک اور مشہو ر افسانہ نگار انل ٹھکر کے ہاں بھی علاقائیت کی بہت ساری مثالیں مل جاتی ہیں۔ ان کے ایک ڈرامے’چوتھی دیوار‘ میں انھوں نے ایک پسماندہ ذات، اس کی بیوی اور اس کے ایک مسلمان دوست کے درمیان گفتگو کو پیش کرتے ہوئے جس زبان کا عکس پیش کیا ہے اس میں علاقائی اثرات کی نو عیت اس طرح ہے : 
کملی : لوگن کی نیت جب خراب ہوئی تب ہوئی، مجھے توہار نیت اچھی ناہیں لاگے ہے۔ 
کالو : کیوں کافرک دِکھے ہے تیرے کو؟
رمجو : (باہر سے ) کالو بھیا ....(داخل ہوکر) کا بتیارے ہو ہمارا بھاوج سنگ؟ 
کالو : رمجو آ بھئی آ۔ بیٹھ ادھر ..... رمجو، ایک بات بتا۔۔۔ تو ہار جات کا ہے؟ وغیرہ 
اوپر جو حوالے میں نے پیش کیے ہیں ان میں زبان کے اعتبار سے توفنکاروں نے جان بوجھ کر اپنے اطراف و اکناف کے علاقائی نقوش ابھارے ہیں لیکن جہاں تک ان کے بیانیہ میں ان کی اپنی زبان کا سوال ہے اس میں بھی کرناٹک کے اکثرفکشن نگاروں کے ہاں علاقائی اثرات کی دلیل کے طور پر کبھی جملوں کی ساخت میں صحت کی کمی نظر آتی ہے تو کہیں پر ’نے‘ کے استعمال کی خامیاں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً ’’ انھوں نے اپنے بیٹے کو قریبی محلے کی اسکول کو لے گئے اور داخلہ کرادیا‘‘ اور ’’اُس نے ملّا گیری کو چھوڑ بیٹھا تھا‘‘ وغیرہ۔
ریاست کرناٹک کے ایک افسانہ نگار منظر قدوسی نے اپنے افسانوں کے مجموعے ’برگ آوارہ ‘(2010 ) میں کرناٹک کے علاقے شیموگہ کے ایک دیہات کی معاشرتی زندگی کے دلچسپ مرقعے پیش کیے ہیں۔ ان کا افسانہ ’چاوڑی کا درخت ‘‘یہاں کی اوہام پرستی کی عمدہ مثال ہے۔ اس میں بتا یا گیا ہے کہ بچے ’کٹّے‘ تالاب کے آگے والے چاوڑی کے نہایت خوشبو دار پھول توڑ لاتے تو عورتیں انھیں پہنتی نہیں تھیں بلکہ پتہ چل جاے تو دور سے ہی بھگا دیتی تھیں کیونکہ یہ خیال عام تھا کہ ہر پھول کی خوشبو سے ایک چڑیل لپٹی ہوتی ہے، چونڈے میں پھول لگاتے ہی وہ چڑیل جسم پر سوار ہو جائے گی۔ اس کے بعد کیا ہوگا اس کے تصور سے ہی عورتیں کانپ جاتی تھیں۔ (ص37) 
چاوڑ کیا تھا ؟ اس کی بھی تصویر انھوں نے اس میں نہایت خوبی سے کھینچ دی ہے۔ یہ چاوڑ دراصل ایک میدان میں بنی ہوئی چار دیواری کے اندر نصب کیا ہوا سانپ کی مورت والا ایک پتھر تھا، اس گاؤں کے غیر مسلم اسے چاوڑی کہتے تھے۔ اس کے بازو میں جو درخت تھا اس میں سفید پھول لگتے تھے، وہی چاوڑی کے پھول تھے جن کی خوشبو سے سارا ماحول معطر ہو جاتا تھا۔اک مر تبہ جب راوی کا دوست وزیر،دوستوں کے ساتھ کھڑی دوپہر کے وقت درخت پر چڑھتا ہے اور اتفاقاً نیچے گر پڑتا ہے تو اُس کے گھر پہنچنے کے بعد اس کی ماں یقین کے ساتھ کہتی ہے کہ شیطانوں کے ناچنے کے وقت تم لوگ چاوڑی کے پاس گئے تھے، شیطان نے ہی وزیر کو گرایا ہے۔ وہ پھر اپنے شوہر سے کہتی ہے کہ چلو جاکر چاوڑی کو کُم کُم لگا آئیں ورنہ سانپ رات بھر کو اِسے ستائے گا (ص38)۔ برس میں ایک مرتبہ یہاں جاترا لگتا، بکرے کٹتے، ڈھول پیٹے جاتے، شنکھ پھونکے جاتے، کھانا پکتا اور خوب دھوم دھڑاکا ہوتا۔ یہ ایک ایسی سچائی ہے جو آج بھی کئی دیہاتوں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ ہر سال ایک مقررہ دن میں’اُورُو ہبّا‘ یعنی ’گاؤں کا میلہ‘ دھوم دھام سے منایا جاتا ہے اور شہروں میں کام کرنے والے اِن دیہاتوں کے افراد دفتروں میں چھُٹی لگا کر اس میں شریک ہوتے ہیں۔ غرض کہ ’چاوڑی کا درخت ‘ افسانے میں علاقائیت کے مرقع خوبی کے ساتھ منعکس کردیے گئے ہیں۔اس میں اندھی عقیدت کوصالح روایت میں بدلنے کا سامان بھی موجود ہے۔ افسانہ نگارنے سماج کی پامال ہوتی ہوئی انسانی قدروں کو نئے راستوں پر ڈالنے کے لیے بھی اس افسانے میں اپنے فن کا استعمال کیاہے۔
یہ تو رہیں خالص علاقائیت کی مثالیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی فکشن نگاروں کے ہاں جن کی تعداد بیسیوں تک پہنچتی ہے حوالوں اور اشاروں کی صورت میں علاقائی اثرات کی چھاپ صاف نظر آتی ہے۔ وہ اپنے مختصر افسانوں میں بنگلور کے پس منظر میں یا کسی اور شہر میں نظر آنے والی معاشرتی قدروں کی پامالی کااحاطہ کرکے قاری کی فکر کو مہمیزکرتے ہیں۔
فرحت کمال،ضیا میر، فیاض قریشی، انیس الحق،حسنیٰ سرور،یحییٰ نسیم، اثر سعید،ضیا کرناٹکی اور فریدہ رحمت اللہ وغیرہ کے افسانوں میں ہمیں کر ناٹک کے شہر بنگلورکے یا کسی اور مقام کے پس منظر میں علاقائی اثرات کی اچھی خاصی جھلکیاں مل جاتی ہیں جیسے کہ فرحت کمال کے افسانے’اجالے کہاں ہیں‘ اور ’چٹھی پیار کی!‘ میں سٹی مارکیٹ، شیواجی نگر، گوشہ ہسپتال، ودھان سودھا وغیرہ جانے پہچانے مقامات سے بسیں گزرتی ہیں اور افسانہ نگار ان سے وابستہ مسائل کا نقشہ افسانے کہانی کی شکل میں پیش کرتا جاتا ہے۔ اسی طرح قاضی انیس الحق کے افسانوں میں ہری مسجد اور ہوٹل کوشس کی رنگیں شامیں وغیرہ کئی باتوں کا ذکر نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ کیا گیا ہے۔ 
علاقائی اثرات فنکارکی تخلیقی قوتوں کو نئی منزلوں کی طرف رواں دواں کر دیتے ہیں۔ ہر ادیب اپنے اپنے علاقائی اثرات کو اپنے فن میں سمیٹ کر آگے قدم بڑھاتے ہوئے آفاقیت کی منزل پرپہنچ جاتا ہے۔لہٰذا موضوع اور مواد کے اعتبار سے کئی ادب پاروں میں علاقائیت کا عمل دخل اس طرح سے نظر آتا ہے کہ یہ ادب پارے علاقائی اثرات کی منہ بولتی تصویریں ثابت ہونے کے علاوہ عمدہ معیاری ادب پاروں کے زمرے میں بھی شامل ہوجاتے ہیں۔لہٰذا علاقائیت کی حسین فضاؤں میں گذربسر کرتے ہوئے اگر ایک ادیب یا شاعر غروب آفتاب کی پھولی ہوئی شفق کو سورج کے قتل کی گواہی سے تعبیر کرتا ہے تو اس کی ادبی تخلیق کے ڈانڈے جدیدیت اور آفاقیت سے مل جاتے ہیں اورقاری واہ کہنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ اکثر ہوتا یہی ہے کہ ادباء وشعراء علاقائیت کے نشیب و فراز سے گزر کر آفاقی سوچ کی ضیا سے آسمانوں کی بلندیوں پر اڑانیں بھرنے لگتے ہیں تو شاہکار ادب پارے وجود میں آ جاتے ہیں۔
گلبرگہ کے ایک مشہور افسانہ نگار اکرام باگ کے افسانے اس بات کے مظہر ہیں کہ انھوں نے زندگی کی تصویر وں میں علاقائی رنگ بھر کر حیات و کائنات کی صداقتوں کو اخذ کرنے کی ایسی کوشش کی ہے کہ ان کے قلم نے آفاقیت کی منزل کو چھو لیا ہے۔اکرام باگ کا افسانہ ’حیات‘ ایسا ہی ایک افسا نہ ہے۔ اس کا راوی اپنے محلے کے گلیاروں میں بسنے والے معذور اور اپاہج افراد کے مشاہدے سے انسان کی جینے کی ہوس کا اندازہ لگاتا ہے اور یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ اس کی جینے کی ہوس نے ہی شاید روح کی عظمت کا فلسفہ ایجاد کیا ہوگا۔(ص13، افسانوں کا مجموعہ کُوچ )۔ ایک کوڑھی کو پانچ سال سے گھسٹ گھسٹ کر جیتے ہوئے دیکھنے تک جوکہانی علاقائیت کی حدود میںآگے بڑھ رہی ہوتی ہے،آگے چل کر آفاقیت کی طرف کُوچ کر جاتی ہے۔ کئی حسی علامتوں کی مدد سے اِکرام باگ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ زندگی کے راز نہ تو سماجیات کا پروفیسر جان سکتا ہے، نہ کوئی مذہبی عالم انھیں کھول سکتا ہے، نہ ہی سیاست میں ہر بات کو جائز سمجھنے والا سیاست دان انھیں پہچان سکتا ہے، نہ ہی کوئی سائنس دان ان کی حقیقت معلوم کر سکتا ہے اور نہ ہی یہ کسی مجنوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں، حیات تو ننگی دیواروں، خالی کمروں، کھلی چھت اور سُونے فرش والے خالی کمرے کی طرح ہے۔چنانچہ اکرام باگ کے افسانے اس بات کے مظہر ہیں کہ ادیب زندگی کی تصویروں کو علاقائی رنگوں میں ابھار کرحیات و کائنات کی سچائیاں عیاں کر دیتا ہے اور اپنے ادب پاروں کوآفاقیت کے شاہکار تسلیم کروالیتا ہے۔ ان کے افسانے علاقائیت سے گذر کر فلسفیانہ سوچ و فکر کی آئینہ داری کرتے ہیں،ان میں افسانہ نگار علاقائیت کے نشیب و فراز سے گزر کر آفاقیت کی ضیا حاصل کر لیتا ہے اورآسمانوں کی بلندیوں پر اڑانیں بھرکر عا لمی قدروں کا نگار خانہ تخلیق کر دیتا ہے۔ علاقائیت کا یہ عمل صرف اکرام باگ کے ہاں ہی نہیں بلکہ پورے ترقی پسند، جدید، مابعد جدید ہر قسم کے ادب میں کسی نہ کسی نہج پر اپناچہرہ دکھاتا ہے۔ چنانچہ جد ید نظموں کی شاعرہ شائستہ یوسف بھی قطب شاہ کے قلعے کے کھنڈروں کا نظارہ کرتی ہیں تو تنہائی کی لذت و کرب کے تجربہ سے گزرتی ہیں اور اسے ’’قطب شاہی قلعے کے کھنڈرات کی ایک شام ‘‘ کے بطور نظم قلم بند کر نے میں سکون محسوس کرتی ہیں۔ 
اسی طرح کرناٹک کے مشہور شاعرماہر منصورکی نظم ’’کمرشیل اسٹریٹ کی ایک شام‘‘ میں ہمیں علاقائیت سے آفاقیت اور خارج سے باطن کی طرف سفر کرتا ہوافنکار ملتا ہے۔ نظم ہے : 
ہوا ہے قتل ابھی آفتابِ تیرہ شکن/ بکھرگئی ہیں ہر یک سمت خون کی لہریں / یہ رہ گزر ہے یا بہتا ہے نور کا دریا / ادھر اُدھر سے گزرتی ہوئی حسینوں کے / گداز جسموں سے اٹھتی ہیں بھینی خوشبوئیں / ہر ایک سمت سے آتا ہوایہ جمِ غفیر / نئی تراش کے ملبوس میں حسیں جوڑے / چمکتی کاروں میں آ آ کے یوں اترتے ہیں / نوازتے ہوں۔۔۔ قدم رکھ کے۔۔۔جیسے دھرتی کو /۔۔۔ ہر ایک دل میں مچلتا ہے آرزوکا لہو / ٹھہر گیا ہے سبک گام کارواںِ حیات / پڑی ہے پاؤں میں زنجیر دلفریبی کی / ابھی گلی سے نکلنے کی دیر تھی ماہر / میرے ضمیر نے چپکے سے یہ کہا مجھ سے / اسی گلی میں کہیں کھو گیا ہوں۔۔۔ میں ۔۔۔ ڈھونڈو۔ (ص38 مجموعہ فاصلہ، ماہر منصور)
جنوب میں گلبرگہ اور حیدر آبادایسے علاقے ہیں جہاں 1948 میں پولیس ایکشن نے بے انتہا تباہی و بربادی مچائی تھی۔ اس کے اثرات یہاں کے اکثرفکشن نگاروں کے ذہن پر اس طرح چھائے ہوئے ہیں کہ ان کی تخلیقات میں وقفہ بہ وقفہ ان اثرات کے سائے منڈ لاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔کبھی مالی حالات کے بگاڑ کی صورت میں تو کبھی ’رسی جل گئی پر بل نہیں گیا‘ کے مصداق احساس برتری کی پیچیدہ بھول بھلیوں میں ان کا عکس ہمیں نظر آ جاتا ہے۔ ڈاکٹر بیگ احساس کے افسانے’ نجات‘ اور’ کھائی‘ ان اثرات کی نمایاں مثالیں ہیں۔ جیلانی بانوکے افسانوں میں بھی ہمیں ان اثرات کے مختلف روپ نظر آتے ہیں۔ جیلانی بانو کے دورِ حاضر کے افسانے حیدر آباد کے جدید تر معاشرتی مسائل کا انتہائی فنکاری کے ساتھ احاطہ کرتے ہیں اور اس احاطے میں وہاں کے علاقائی اثرات کی دھوپ چھاؤں آنکھ مچولی کھیلتی نظر آتی ہے۔ ان کے ایک افسانے ’جنت کی تلاش‘ میں ایک ایسے مولوی صاحب کو پیش کیا گیا ہے جو سڑکوں پر بھیک مانگنے والے اور جھونپڑیوں میں رہنے والے بے سہارا بچوں کو مسجد کے آنگن میں بٹھا کر مذہبی تعلیم دیتے ہیں۔ ایک دن جب وہ ان بچوں کو دوزخ کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ دوزخ آسمان پر ہے، وہاں اندھیرا ہوگا، بھوک لگے گی،مگر کھانا نہیں ملے گا،پینے کو پانی نہیں ہوگا، سانپ اور بچھو کاٹنے کو آئیں گے،بچھانے کو بستر ملے گا نہ اوڑھنے کو چادر ملے گی تو ایک بچی اپنی ساتھی رضیہ سے کہتی ہے کہ مولوی صاحب کو معلوم نہیں ہے کہ دوزخ آسمان پر نہیں ہے۔ اس بات پر مولوی صاحب کی ڈانٹ پھٹکار کے بعد مولوی صاحب کی ناراضگی سے ڈر کر وہ بچی روتے ہوئے دونوں کانوں پر ہاتھ رکھ کر کہتی ہے ’’ میں جھوٹ نہیں بول رہی ہوں مولوی صاحب، جنگم بستی میں ہماری جھونپڑی دوزخ میں ہے۔ رات کو جب ہمارا باوا سیندھی پی کر آتا ہے، اماں کو مارتا ہے تو اماں روتے روتے بولتی ہے ’ یہ گھر تو دوزخ میں ہے‘‘ اس کے بعد ایک دوسرا بچہ کہتا ہے ’’ ہو مولوی صاحب، ہمارا گھر بھی دوزخ میں ہے،آپ بولے نادوزخ میں اندھیرا ہوگا، کھانا پانی نہیں ملے گا!ہمارے گھر میں لائٹ نہیں ہے۔ چراغ میں تیل نہیں ہوتا تو اندھیرا ہو جاتا ہے۔‘‘ اسی طرح ایک اور بچہ کہتا ہے’’اور بارش ہوتی ہے تو ہماری جھونپڑی میں پانی آجا تا ہے، رات سانپ بھی نکلا تھا۔‘‘ وغیرہ، وغیرہ۔ یہ سب سن کر مولوی صاحب کا سر جھک جاتا ہے اور وہ سوچتے ہیں کہ اب کون سا عذاب ہے جس سے ان بچوں کو ڈراؤں۔ غرض کہ یہ افسانہ بڑی خوبی کے ساتھ، کئی علاقائی حقائق کے علاوہ نہ صرف حیدر آباد کی اس حقیقت کی بھی عکاسی کرتا ہے کہ آج وہاں پرایک طرف دولت کی ریل پیل نظر آتی ہے تو دوسری طرف ایسے مسلمان خاندان بھی بستے ہیں جن کی زندگی دوزخ کا نمو نہ پیش کرتی ہے بلکہ پوری دنیا کے غریبوں کے رستے ہوئے زخموں کا جیتا جاگتا نقشہ پیش کر دیتا ہے۔ اسی طرح جیلانی بانو کی کئی تخلیقات ایسی ہیں جن میں آندھرا پردیش کی علاقائیت کو نہایت سلیقے کے ساتھ منعکس کیا گیا ہے۔ افسانہ بعنوان ’’ کل رات ہمارے گھر مرزا غالب اور عصمت چغتائی آئے تھے ‘‘ میں جیلانی بانو نے بڑے تیکھے انداز میں وہاں کے علاقائی پکوان’’ کھٹی دال اور چاول ‘‘ کا مذاق اڑایا ہے۔ اس کے علاوہ مرزا غالب عصمت چغتائی کو ’’ عصمت بی بی! ‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں تو خواتین کے لیے حیدر آباد اور گلبرگہ والوں کا روایتی طرز تخاطب سامنے آجاتا ہے۔ 
جنوبی ہند کے اردو ادب کو یہاں کے جغرافیائی حالات نے بھی علاقائیت کے اثرات کا ایک انمول نگار خانہ بنانے میں بڑی مدد کی ہے۔چنانچہ حیدر آباد کی افسانہ نگار فیعہ منظور الامین اور تمل ناڈو کے علیم صبا نویدی ایسے فنکار ہیں جن کے افسانوں میں جغرافیائی حالات کے ا ثرات کے نادر نادر نمو نے ملتے ہیں، نادر اس لیے کہ ان فنکاروں نے اپنے دیکھے بھالے مناظر کواپنے تخیل کی مدد سے ایک نئی حسیت عطا کرکے زبان و بیان کو نیا رنگ و روپ عطا کیا ہے۔اس کے علاوہ رفیعہ منظور الامین کے افسانوں میں تلنگانہ کے معاشرتی حالات کا احاطہ اس طرح کیا گیا ہے کہ وہاں کے مناظر،اُن کی خوبصورتی، زبان،عوام کے گذرِ معاش سب کی دلکش عکاسی ملتی ہے۔ مثلاً ایک اقتباس ہے: ’’ اس چھوٹے سے گاؤں کے تقریباً سارے ہی باغیچے کندنا کے باپ ہلّپا کے تھے۔پان کے باغیچے جہاں ......چھوٹے بڑے کلی دار پانوں کے پتے کسی بھارت ناٹیم رقاصہ کی خوبصورت ہتھیلیوں کی طرح ہلکی ہوا میں تھرکتے جاتے۔ جب کامگار اپنی انگلیوں میں لوہے کے تیز ناخن پہنے ان پانوں کو ڈنڈی سے کاٹ کر جمع کرتے تو ہمیشہ گیلی رہنے والی زمین میں اُن کے پیر دھنستے جاتے، باغیچے کے اندر گہرے زمردی سائے میں دوسرے ہر رنگ کا احساس مٹ جاتا۔ ......... پان کے ان باغیچوں کے کناروں پر سپاری کے اکہرے پتلے بانس نما پیڑ تھے جو ایک دوسرے سے کافی دور، شیو جی کے لمبے ترشول کی طرح ایستادہ اور سیدھے تھے۔ یہ پتلے بنسی نما لمبے لمبے پیڑ اپنے سروں پر سپاری کے اکہرے ٹوکرے اٹھائے کسے کسائے برسوں سے یوں ہی کھڑے تھے۔ ..... ’’ یلّی گے ہوگتی؟ ‘‘ (کہاں جا رہی ہو ؟) کندنا نے مینڈھ پر کھڑے کھڑے پوچھا۔ وہ ٹوکری میں بڑے بڑے چیکو جمع کر رہی تھی۔۔۔ وہ کرناٹک کی سانولی سحر تھی، جس میں کولار کے سونے کا رنگ گھلاتھا۔‘‘ (دستک سی درِ دل پر ص 78-79)۔
اسی طرح تامل ناڈو کے ادیب و شاعر علیم صبا نویدی کے افسانے بھی وہاں کے جغرافیائی اثرات کی ایک بہتریں مثال ہیں۔مدراس کی نمایاں خصو صیات یہ ہیں کہ وہاں پرانگارے برساتی ہوئی تمازتِ آفتاب، لہریں مارتے ہوئے خوشنما سمندر اور سیاہ فام عوام سے ہمارا سامنا ہوتا ہے۔ اس علاقے کے پروردہ ادیب و شاعر علیم صبا نویدی کے شعور کوان علاقائی خصوصیات نے اس طرح متاثر کیا ہے کہ انھوں نے ان سب کو انتہائی خوبی کے ساتھ بے شمار استعاروں اور تلازموں میں ڈھال دیا ہے۔وہ آفتاب کی تمازت کو جذبات و احساس کی تمازت کا پیکر عطا کرتے ہیں اور ٹھاٹیں مارتے ہوئے سمندر کے وجود کا احساس ان کے شعور پر اس طرح طاری ہے کہ انھوں نے اس کے زیر اثر ریت کا سمندر، دھوپ کا کھولتا ہوا سمندر، چیخوں کا بے کراں سمندر، زندگی کا بے کراں سمندر، اجالوں کا اتھاہ سمندر، وجود کا سمندر اورآکاشی سمندر جیسے استعارے وجود میں لا کرنہ صرف دلچسپی اور جاذبیت کے پہلو پیدا کر دیے ہیں بلکہ سمندر کے تصور کو نئی جہتیں عطا کرکے نئی حسیت کو جنم دیا ہے،یہاں تک کہ وہ ریت کے سمندر کو گرم گرم سانسیں لیتاہوا محسوس کرتے ہیں۔
ان کے افسانے’جسموں کی دیوار‘ کا ایک اقتباس ہے ’’ ہر طرف دھوپ ہی دھوپ تھی، تیز دھوپ، کڑکتی ہوئی دھوپ، دور دور تک دھوپ کا کھولتا ہوا سمندر ٹھاٹیں مار رہا تھا۔‘‘ (ص24،مجمو عہ اجلی مسکراہٹ) 
علیم صبا نویدی کے ایک اور افسانے کی ابتدا اس طرح ہوتی ہے ’’ چاروں طرف پُوندا ملّی (موگرے) کی خوشبوسے ساحل مدراس کی فضا معطر تھی۔۔۔ ساحل سے دور،بہت دور افق کے کناروں پر بچھی ہوئی سرخ چادریں سورج کے قتل کی گواہی دے رہی تھیں۔۔۔‘‘
(افسانہ شناخت ص60 مجموعہ ہذا )۔ 
جنوبی ہند کے ادب میں علاقائی اثرات کی جھلکیاں پیپل کے درخت سے وابستہ عقیدت، اس کی چھاؤں، اس کی چھاؤں میں لگائی ہوئی مورتیوں کی پوجا (اکثر فیاض قریشی کے افسانوں میں)وغیرہ کے ذکر میں بھی ملتی ہیں۔ کبھی کبھی تخلیق کار ایسی معلومات بھی فراہم کر دیتے ہیں جو قاری کی واقفیت کے خزانے میں اضافہ کرتی ہیں۔ رفیعہ منظور الامین کا افسانہ ’ تنگا منی‘ (مشمولہ مجموعہ دستک سی درِ دل پر ) اسی نوعیت کا افسانہ ہے. اس کے ذریعے کوچین کے ساحل پر بسنے والے مچھیروں کے نشیب و فرازسامنے آتے ہیں تو اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ کوچین کے چھ سو سال پرانے کلیسا میں پُرتگیزی سیاح اور جہازراں واسکوڈی گاما کو دفن کیا گیا تھا اور دفنانے کے صدیوں بعد اس کے تابوت کو قبر سے نکال کرپرتگال پہنچا دیا گیا تھا ( ص 15 مجموعہ ہذا)۔ انھوں نے بھی علاقائی مناظر کے زیر اثر بعض نادر تشبیہیں اور سحر انگیز زبان استعمال کی ہے جیسے کہ ’’ طوفانی سمندر اژدھے کی طرح پھنکار رہا تھا ‘‘ یا یہ کہ ’’ ...... اس کی سسکیوں کی آواز جھونپڑے کے باہر تہس نہس کرتی ہوا کے تانڈو رقص میں گم ہو کر رہ گئی ‘‘ یاپھر ’’ گِنی چُنی مچھلیاں اس کے جال میں دیدے چمکا رہی ہوتیں ‘‘ وغیرہ۔کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ علاقائی رسوم و رواج اور عقائدکے پردے ہٹائے جاتے ہیں تو علاقائیت کو جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے ساتھ جوڑ کر تخلیق کی قدروقیمت بڑھانے کی کوشش نمایاں نظرآتی ہے (مثلاًآبگینہ، ادھورا پہیہ۔ اکرام باگ )۔ محمد مظہر الزماں خاں اور مجتبیٰ حسین جیسے عا لمی شہرت یافتہ فنکاروں نے علاقائیت سے کام لے کر زندگی کے تلخ حقائق کوبہت ہی پیارے اور شگفتہ سے اسلوب میں اس طرح سجا دیا ہے جیسے کہ کونین کی کڑوی گولیوں کو شکر کی چاشنی میں لپیٹ کر پیش کیا جاتاہے۔ غرض یہ کہ ادب اور علاقائیت میں ایک اٹوٹ سا رشتہ پایا جاتا ہے اورتنقید کی ریڈیائی لہریں جب ادب پاروں کے باطن کو تلاش کرتی ہیں توایک ایسا لمحہء فکریہ بھی جنم لیتا ہے جسے جد ید اور آفاقی تخلیقات کے اندر بھی کہیں نہ کہیں علاقائیت کے سوتے ابلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ 

Dr. Mahnoor Zamani Begum
No.15, Golden Castle Appt.
Flat No.206, Ganesha Block 
Sultanpalya Main Road,3rd Main 
Sultanpalya, Bangalore- 560032 (Karnataka)
اگر آپ رسالے کا آن لائن مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے لنک پر کلک کیجیے:۔



قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

3 تبصرے: