4/6/18

مضمون: جدید اردو شاعری کی خاتون اول: ادا جعفری۔ مضمون نگار محی بخش قادری








جدید اردو شاعری کی خاتونِ اوّل :ادا جعفری
محی بخش قادری


اردو شعر و ادب کی آبیاری میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کا بھی اہم کردار رہا ہے۔ جب ہم اس حوالے سے اردو ادب کا مطالعہ کرتے ہیں تو تین ایسی خواتین کا نام نمایاں نظر آتا ہے جنھوں نے اپنی انفرادیت کی بنا پر افسانہ، شاعری، اور تنقید میں اپنا منفرد شناخت نامہ مرتب کیا ہے۔ افسانوی ادب میں عصمت چغتائی، دنیائے نقد میں ممتاز شیریں اور شاعری کی دنیا میں ’ادا جعفری‘ مؤخرالذکر کو اردو شاعری کی خاتون اول بھی کہا جاتا ہے۔ ان کا شمار بہ اعتبار طویل مشق سخن اور ریاضت فن کے صف اوّل کی معتبر شاعرات میں ہوتا ہے۔ ان کی شاعری کا دورانیہ کم و بیش 75 برس پر محیط ہے جس میں انھوں نے گاہے گاہے یا بطرزِ تفریح طبع نہیں بلکہ تواتر و کمال احتیاط کے ساتھ شاعری کی ہے اور جو کچھ کہا وہ شعورِ حیات اور دل آویزی فن کے سائے میں کہا۔ حرف و صوت کی شگفتگی اور فکر و خیال کی تازگی کے ساتھ کہا۔ فکر و جذبے کے اس ارتعاش کے ساتھ کہا جس کی بدولت ان کا شعر ان کی شخصیت کی شناخت بن گیا
ادا جعفری کی پیدائش اترپردیش کے اس بدایوں ضلع میں ہوئی جو اپنی علمی، تہذیبی، ثقافتی اور تاریخی اہمیت رکھتا ہے۔ روایات کے مطابق اس شہر کو بدھ نام کے ایک راجہ نے بسایا تھا اور شروع میں اس کا نام بدھ مؤیابیداد مؤ تھا جو بعد میں مسلمان سلاطین کے زمانے میں بدایوں ہوگیا۔
ادا کی پیدائش 22 اگست 1924 کو ہوئی۔ خاندانی نام عزیز جہاں ہے جب تین سال کی تھیں کہ والد مولوی بدرالحسن کا انتقال ہوگیا۔ پرورش ننھیال میں ہوئی۔ والدہ نے پڑھنے لکھنے کی طرف راغب کیا۔ گھر (بڑی حویلی) میں ہی ایک کتب خانہ تھا جس میں ڈھیروں اردو فارسی اور انگریزی کتابیں تھیں اور جہاں سب کو جانے کی اجازت نہ تھی لیکن چپکے چپکے ادا نے اس کتب خانے سے استفادہ کرنا شروع کردیا۔ اسی زمانے میں محض نو برس کی عمر میں ادا نے پہلا شعر کہا۔ بقول ادا جعفری انھوں نے ابتدائی نظموں پر اثر لکھنوی سے اصلاح لی لیکن یہ سلسلہ بہت مختصر رہا۔ اس کے بعد کسی سے مشورۂ سخن نہیں کیا۔ اگرچہ بعض لوگوں نے اختر شیرانی کو بھی ان کا استاذ کہا ہے۔
عزیز جہاں نے تیرہ برس کی عمر میں باقاعدہ شاعری شروع کردی تھی۔ وہ ’ادا بدایونی‘ کے نام سے شعر کہتی تھیں جو اختر ’رومان‘ شاہکار اور ’ادب لطیف‘ میں شائع ہوتا رہا۔ ان کی شادی 1947 میں نورالحسن جعفری (لکھنؤ) سے انجام پائی۔ شادی کے بعد ادا جعفری کے نام سے لکھنے لگیں۔ تقسیم ہند کے بعد ادا اپنے شوہر کے ساتھ کراچی منتقل ہوگئیں۔ ان کے شعری مجموعے شہر درد کو 1968 میں آدم جی ادبی انعام ملا۔ شاعری کے بہت سے مجموعہ جات کے علاوہ جو رہی سو بے خبری رہی کے نام سے اپنی خودنوشت سوانح عمری بھی 1995 میں لکھی۔ 1991 میں حکومت پاکستان نے ادبی خدمات کے اعتراف میں تمغہ امتیاز سے نوازا۔
ادا جعفری کے شعری سفر کا آغاز ترقی پسند تحریک کے عروج کے وقت ہوا۔ اس وقت دوسری جنگ عظیم کی ہنگامہ خیز فضا اور پاک و ہند کی تحریک آزادی کا پرآشوب ماحول تھا۔ یہ فضا بیسویں صدی کی پانچویں دہائی یعنی 1940 اور 1950 کے درمیانی عرصے سے خاص تعلق رکھتی ہے۔ یہ دہائی سیاسی اور سماجی اور شعری و ادبی، ہر لحاظ سے پرشور و ہنگامہ خیز دہائی تھی۔ تاج برطانیہ ہندوستان سے اپنا بستر بوریا سمیٹ رہا تھااور نئی بساط سیاست بچھ رہی تھی۔ پاکستان اور ہندوستان کے نام سے دو آزاد مملکتیں وجود میں آئیں۔ ایسے حالات میں ان کی شاعری دلوں پر اثر کرتی تھی اور ضمیر کو جھنجھوڑ دیتی تھی۔ ان کا باقاعدہ شعری سفر 1937 سے 2015 تک جاری رہا۔ ان کی تصانیف یہ ہیں:
میں ساز ڈھونڈتی رہی1950 (شاعری)، شہر درد 1967 (شاعری)، غزالاں تم تو واقف ہو 1947 (شاعری)، ساز سخن بہانہ ہے 1982 (ہائکو)، حرف شناسائی (شاعری)، موسم موسم (کلیات 2002)، جورہی سو بے خبری رہی 1995 (خودنوشت)، غزل نما (تنقید و ترتیب)
پہلا مجموعہ ’میں ساز ڈھونڈھتی رہی‘ 1950 میں منصۂ شہود پر آیا۔ حالانکہ یہ 1947 میں مرتب ہوچکا تھا لیکن تقسیم ہند کی وجہ سے بعد میں شائع ہوا۔ یہ ادا کی اپنی پہچان کا پہلا لمحہ تھااور کچھ نقادوں کی نظر میں اردو ادب میں اپنی نوعیت کی پہلی جرأت اظہار۔ نظم ’میں ساز ڈھونڈتی رہی‘ کا آخری ٹکڑا کچھ یوں ہے:
میں ساز ڈھونڈتی رہی
کہ سن رہے ہیں چشم و دل نظام نو کی آہٹیں
بہار بیت ہی چکی، خزاں بھی بیت جائے گی
مگر میں ایک سوچ میں پڑی ہوئی ہوں آج بھی
وہ میری آرزو کی ناؤ کھے سکے گا یا نہیں
نظام نو بھی مجھ کو ساز دے سکے گا یا نہیں؟؟
اس شعری اسلوب کو ادا جعفری کے ناقدین نے جدید شاعری کی سمت ادا جعفری کا پہلا قدم تسلیم کیا ہے۔ ممتاز ادیب قاضی عبدالغفار نے ادا جعفری کے پہلے شعری مجموعے ’میں ساز ڈھونڈتی رہی‘ کے دیباچے میں اس عہد کی ادبی اور فکری صورت حال کے تفصیلی تجزیے کے ساتھ ساتھ ادا جعفری (جو اس وقت ادا بدایونی کے نام سے معروف تھیں) کی شعری شخصیت پر اثرانداز ہونے والے تمام عوامل کا بڑی تفصیل سے جائزہ لیا ہے اور ہندوستان کی مختلف زبانوں میں لکھنے والی دیگر باشعور اہل قلم خواتین کے ساتھ ادا بدایونی کو بھی عہد جدید کے ان قلم کاروں میں شمار کیا ہے جو اپنی تحریروں کے ذریعے مطالبۂ حقوق انسانیت کے لیے آواز بلند کررہی ہے۔ لکھتے ہیں:
’’جدید اردو ادب و شعر کے معماروں کی صف اوّل میں ادابدایونی کا اور کلام بہت نمایاں ہے۔ ان کے کلام میں قدیم اور فرسودہ نظام زندگی کے خلاف بغاوت کا ایک بے پناہ جذبہ کارفرما ہے۔ ان کی آواز سراپا طلب اور احتجاج ہے۔ ان کے انداز بیان سے ایک ایسی قوت ارادی مترشح ہے جس کے بغیر جدید ادب کے کسی معمار کا پیام موثر نہیں ہوسکتا۔‘‘
جس دور میں ’میں ساز ڈھونڈھتی رہی‘ منظر عام پر آیا وہ دور ادب میں ترقی پسند تحریک کے عروج اور ’حلقہ ارباب ذوق‘ جو آگے چل کر جدیدیت میں تبدیل ہوگیا کے متضاد رجحانات کا دور تھا۔ ترقی پسند تحریک کا جھکاؤ اشتراکیت کی طرف تھا۔ یعنی یہ کہ ادب کو سیاسی اور سماجی نظام کے تابع ہونا چاہیے۔ انتہاپسند اور اعتدال پسند ادیبوں اور شاعروں کے دو واضح گروپ سامنے آئے تھے۔ ن م راشد اور میراجی کا جدید شعری اسلوب، جوش کی سیاہی، اختر شیرانی کی رومانی، احسان دانش کی سماجی اور حفیظ جالندھری کی اسلامی اور تاریخی نظمیں مختلف حلقوں میں مقبول و معروف تھیں۔ فراق، فیض، اختر الایمان، مجید امجد، مجروح سلطان پوری، ساغر، عدم، مجاز، جذبی، احمد ندیم قاسمی، ساحر لدھیانوی، علی سردار جعفری یہ سارے نام شعری افق پر اپنی تمام تر آب و تاب کے ساتھ دمک رہے تھے۔ ایک تیسرا اسلوب فکر علامہ اقبال کے شعری سرمائے کی شکل میں موجود تھا۔ شاعری اپنی بھرپور اسلامی روح اور شکوہ بیان کے ساتھ، دلوں کو فتح کرچکی تھی۔ ناقدین نے یہ مانا کہ ان تینوں شعری اسالیب اور نظریات حیات کے درمیان ادا جعفری کے لیے کسی خاص رنگ پر نگاہیں ٹھہرانا آسان نہ تھا۔ ’میں ساز ڈھونڈتی رہی‘ میں شامل شاعری میں زندگی کے جمالیاتی رُخ کی کشش اور رومان کی دنیا سے فطری لگاؤ کے باوجود، تخیل اور محسوسات کے رنگ تو نمایاں ہوئے ہیں مگر ان کا اپنا شعری لہجہ متعین نہیں ہوپایا ہے۔
1968 میں ان کا دوسرا مجموعہ کلام ’شہر درد‘ شائع ہوا۔
’شہر درد‘ میں نظمیں بھی ہیں اور غزلیں بھی۔ ان کی مشہورزمانہ غزل بھی اسی مجموعے میں شامل ہے جسے پٹیالہ گھرانے کے نامور گائیک امانت علی خاں مرحوم نے گایا ہے:
ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے
آئے تو سہی، برسر الزام ہی آئے
لمحات مسرت ہیں تصور سے گریزاں
یاد آئے ہیں جب بھی غم و آلام ہی آئے
کیا راہ بدلنے کا گلہ ہمسفروں سے
جس رہ سے چلے تیرے در و بام ہی آئے
تھک ہار کے بیٹھے ہیں سرکوئے تمنا
کام آئے تو پھر جذبہ ناکام ہی آئے
ادا جعفری کی شاعری میں کچھ ایسے الفاظ بھی جابہ جا ملتے ہیں جو موجودہ زبان و اسلوب میں شامل نہیں سمجھے جاتے جیسے پوچھو ہو، چلے ہے لگے ہے، کہیو وغیرہ۔ یہ الفاظ ان کے ثقافتی پس منظر اور ان کے داخلی آہنگ کی ابتدائی صورت گری کے دیر پا اثرات کی نشان دہی کرتے ہیں۔ یہ اشعار ملاحظہ ہوں ؂
اک وحشت جاں ہے کبھی صحرا کبھی زنداں
اک عالم دل ہے کہ بہاراں سا لگے ہے
دل کے لیے بس آنکھ کا معیار بہت ہے
جو سکہ جاں ہے سربازار چلے ہے
ادا جعفری پر گفتگو کرتے ہوئے عالمی تناظر میں کہی گئی ان کی مشہور نظم ’مسجد اقصیٰ‘ کا ذکر ناگزیر ہے۔ تاریخ شاعری میں دو مسجدوں پر شاہکار نظمیں کہی گئی ہیں۔ ایک اقبال کی نظم ’مسجد قرطبہ‘ اور دوسری ادا جعفری کی نظم ’مسجد اقصیٰ‘، ڈاکٹر اسلم فرخی، ادا جعفری کے شعر ی اظہار کے تعلق سے اپنی ایک تحریر میں رقم طراز ہیں:
1967 میں وہ یادگار نظم ’مسجد اقصیٰ‘ شائع ہوئی جس نے دلوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ اردو ادب میں مسجدوں کے حوالے سے دو شعری شہ کار وجود میں آئے ہیں۔ علامہ اقبال کی نظم ’مسجد قرطبہ‘ فلسفیانہ اساس میں ڈوبی ہوئی، زمان و مکاں کے اسرار ہویدا کرنے والی، سطوت ماضی کی بازیافت اور مستقبل کا ایک خوف ناک نظارہ پیش کرتی ہوئی۔ مگر ’مسجد اقصیٰ‘ ذاتی جذبات، واردات سے لبریز وہ فریاد ہے جسے سن کر عرش سے خاک نشینوں کو سلام آتے ہیں۔ ایسی پراثر اور سراپا آرزو نظمیں ہمارے ادب میں خال خال ہیں جن میں فریاد، آرزو، تقاضا سبھی کچھ موجود ہو۔ ادا جعفری کے یہاں جس نسائی حسیت کی جھلک ابتدا سے ملتی ہے وہ اس نظم میں اپنے عروج پر آگئی ہے۔‘‘
اس نظم میں مسلمانوں سے تخاطب کا انداز یہ ہے:
تم تو خورشید بکف تھے سربازار وفا
کیوں حریف نگہ چشم تماشا نہ ہوئے
کس کی جانب نگراں تھے کہ لگی ہے ٹھوکر
تم تو خود اپنے مقدر کی عناں تھامے تھے
اس صحیفے میں ندامت کہیں مفہوم نہ تھی
اس خریطے میں ہزیمت کہیں مرقوم نہ تھی
محترم ہے مجھے اس خاک کا ذرّہ ذرّہ
ہے یہاں سرور کونین کے سجدے کا نشاں
اور پھر نظم کے آخری حصے میں کہتی ہیں:
تم نے کچھ قبلہ اول کے نگہباں سنا؟
حرمت سجدہ گہ شاہ کا فرمان سنا؟
زندگی مرگ عزیزاں کو تو سہ جاتی ہے
مرگ ناموس مگر ہے وہ دہکتی بھٹی
جس میں جل جائے تو خاکستر دل بھی نہ ملے
اس نظم میں جس طرح ادا جعفری نے ’مرگ ناموس‘ کو ملت کی زبوں حالی کا اصل سبب قرار دیا ہے یقیناًاسی ادراک کو ڈاکٹر اسلم فرخی نے ادا کے نسائی شعور کا نقطہ عروج قرار دیا ہے۔
ادا جعفری کی کلیات ’موسم موسم‘ جس میں ان کے پانچ شعری مجموعے اور غیرمطبوعہ کلام پر مشتمل حصہ بہ عنوان ’سفر باقی ہے‘ شامل ہے کے مطالعے کے بعد یہ صاف ہوجاتا ہے کہ ان کی شاعری مدھم مدھم سرگوشی اور خودکلامی کی کیفیات اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ ان کے بیانیہ لہجے میں قدیم و جدید لفظیات کے امتزاج سے ایک ایسا شعری اسلوب وجود میں آیا ہے جس کی جھلک اس وقت کی شاعرات میں صرف زہرہ نگاہ کے یہاں ملتی ہے۔ یہی اسلوب ادا جعفری کی شناخت ہے۔ اس شناخت کو انھوں نے اپنے طویل شعری سفر میں مستقل برقرار رکھا ہے۔ یہ آسان نہیں تھا۔ جتنا مشکل شناخت قائم کرنا ہے اس سے کہیں مشکل شناخت کو برقرار رکھنا ہے۔ ’میں ساز ڈھونڈتی رہی‘ سے ’حرف شناسائی‘ اور ’سفر باقی ہے‘تک تمام شعری پیرایوں میں ان کا لہجہ، غم ذات اور غم کائنات سے مانوس و آشنا اور زندگی کے جمالیاتی رنگوں سے مسرتیں کشید کرنے کے باوجود پرسوز نظر آتا ہے۔
1987 میں شائع ہونے والی کتاب ’غزل نما‘ اور ان کی سوانح ’جو رہی سو بے خبری رہی‘ کو ان کے نثری اظہار کا بے مثل نمونہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ ’غزل نما‘ اردو غزل کے قدیم اساتذہ کے مختصر حالات زندگی اور انتخاب کلام پر مشتمل مضامین کا مجموعہ ہے جو انجمن ترقی اردو کے ماہنامے قومی زبان کے لیے قلم بند کیے گئے تھے اور دسمبر 1983 سے ہر ماہ تواتر کے ساتھ 137 اشاعتوں تک شائع ہوتے رہے۔ قدیم غزل گو شعرا کے حالات زندگی کے بنیادی نکات رقم کرتے ہوئے اور ان کے نمونہ ہائے کلام کو منتخب کرتے ہوئے ادا جعفری نے بحیثیت ایک تخلیق کار اور شاعرہ، جن معیارات کو پیش نظررکھا ہے اس سے خود ان کے ذوق شعری کا اندازہ ہوتا ہے۔ جولائی 1995 میں شائع ہونے والی ادا جعفری کی خودنوشت ’جو رہی سو بے خبری رہی‘ ایسی تحریر ہے جو اردو زبان میں معیاری نثر کی تازہ تر لطافتوں اور دلکشی کے ساتھ سپرد قلم کی گئی ہے۔ اور ایک خاص زمانے کی تہذیب، طرز فکر اور طرزِ معاشرت کی عکاس ہے۔ تقسیم ہند سے قبل کے مسلمان معاشرے کی دیرینہ روایات کے ساتھ پروان چڑھنے والی ادا جعفری سفر در سفر، مختلف معاشروں کے تنوع اور رنگارنگی کا مشاہدہ کرتے ہوئے زندگی کی حرارتیں کشید کرتی رہی ہیں۔ اس کتاب کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ زندگی کے تجربات نے کس کس طرح ان کی شاعرانہ حسیت کی تشکیل کی۔ شاعری میں انھیں غزل اور نظم دونوں پر یکساں قدرت حاصل تھی لیکن اس کے باوصف انھوں نے زیادہ تر نظموں کو اپنا وسیلۂ اظہار بنایا۔ ادا نے اردو اصناف کے علاوہ جاپانی صنف سخن ہائیکو پر بھی طبع آزمائی کی ہے۔ ان ہائیکو کا مجموعہ ’سازِ سخن‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس میں بھی ادا جعفری نے حیات وکائنات کو موضوع بنایا ہے۔ او رکامیابی سے اردو ہائیکو کہا۔ ان کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ انہی کی رہنمائی و پیش قدمی نے نئی آنے والی پود کو حوصلہ دیا ہے اور نئی منزلوں کا پتہ بتایا ہے بلاشبہ وہ اردو شاعری میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ادا جعفری کی شخصیت میں کتابوں بچوں اور مظاہر فطرت سے محبت اور قربت کا احساس بچپن ہی سے شامل رہا ہے۔ زندگی کی انھیں خوشیوں کو ترتیب دے کر وہ اپنے اداس دل کے بہلاوے کی صورتیں پیداکرلیتی تھیں۔ ابتدا میں انھوں نے کاغذ اور قلم تھام کر ہرگزرنے والے لمحے کا حساب درج کرنا شروع کردیا وہ بڑی باقاعدگی سے روزنامچہ لکھا کرتی تھیں۔ اپنی ڈائری میں اپنے روز و شب کا احوال لکھتے ہوئے وہ اپنے جذبے کی کہانیاں رقم کیا کرتی تھیں۔ یہ ڈائری اگر آج دستیاب ہوتی تو اندازہ کیا جاسکتا تھا کہ وہ ابتدائی زندگی میں وہ کن کن جذبات و احساسات سے دوچار رہی تھیں۔ مگر 1947 کے فسادات میں یہ ڈائری کہیں گم ہوگئی اور یوں ادا جعفری کے اظہار کے اوّلین مراحل سے شناسائی کا ایک در ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔ ادا کی شاعری کا مجموعی مطالعہ اس نتیجے پر پہنچاتا ہے کہ ان کی شاعری میں جو تصویریں ہیں وہ نہ کسی چوپالی ہیں اور نہ کسی محل سرا کی۔ جو ترقی پسندی کی خاص پہچان ہے بلکہ یہ دلوں کے اندر کی، ذات کے نہاں خانوں کی تصویریں ہیں جو جدیدیت کی پہچان ہیں لیکن پھر بھی یہ زندگی کے خاکے ہیں۔ کچھ ان کے انفرادی اور کچھ انسان کی اجتماعی زندگی کے ، کچھ دکھ سکھ ان کے اپنے ہیں اور کچھ سماج کے۔ مجموعی حیثیت سے یہ کہنا درست ہوگا کہ ادا جعفری کا شمار ان شاعرات میں نہیں کیا جاسکتا جو نسائیت کے اظہار کے لیے نمائش اور نعرہ بازی کی حد تک اتر آتی ہیں اور ’کیا ہے شعر کو پردہ سخن کا‘ کے پردے اور حجاب سے بے نیاز ہوجاتی ہیں جو شاعری کی روح کہلاتا ہے۔ وہ جدید شاعرہ ہونے کے باوجود اس جدیدیت‘ سے دور ہیں جس کا چیستانی عمل جدیدیت کو لے ڈوبا۔ ان کا شمار اردو کے ان شعرا و شاعرات میں ہوتا ہے جنھوں نے ترقی پسند تحریک کے ساتھ باقاعدہ وابستگی نہ رکھتے ہوئے بھی ترقی پسند شاعری کی۔ ان کی شاعری میں نسائی تشخص کی بازیافت بھی کلاسیکی روایتوں کے احترام کے ساتھ بدرجہ اتم موجود ہے۔ ادا جعفری نے بحیثیت ایک نسوانی وجود، جن دو متضاد زمانوں کو دیکھا، برتا اور جھیلا ہے ان کے اہم تجربات کو بہت سی تفصیلات اور جزئیات کے ساتھ اپنی شاعری میں کامیابی کے ساتھ پیش کیا۔ ادا جعفری کا امتیاز یہ ہے کہ انھوں نے ترقی پسند موضوعات اور نظم کے پیرائے کو اپنا کر شاعری کے جدید تجربات کی طرف خواتین کو متوجہ کرنے کا کام کیا۔ مضمون کو جناب سحر انصاری کے اقتباس پر سمیٹتا ہوں انھوں نے اپنے مضمون ’ادا جعفری: ایک مطالعہ‘ میں اظہار خیال کیا ہے:
’’ادا جعفری کی شاعری مجموعی طور پر اقدار حیات اور انسان دوستی کی شاعری ہے اور ان کے پہلے شعری مجموعے سے لے کر ’سازِ سخن بہانہ ہے‘ تک ان کے اس مسلک شاعری میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ وہ زندگی کی صداقتوں کو شعری پیکروں میں ڈھالنے کا ہنر جانتی ہیں اور اس ضمن میں ا نتہا پسندی کا شکار کبھی نہیں ہوئیں۔ ادا کی شاعری میں زندگی کے کئی روپ اور ازویے ہیں جن میں بنیادی حیثیت انسان کو حاصل ہے۔‘‘
12 مارچ 2015 کو مختصر علالت کے بعد 90 برس کی عمرمیں ادا جعفری کا کراچی پاکستان میں انتقال ہوگیا۔
ابھی تو خواب چہرے سب دعا کی رہ گزر میں تھے
کہانی ختم کیسے ہوگئی آغاز سے پہلے
n
Mohi Bakhsh Qadri
6/48, Veneet Khand, Gomti Nagar
Lucknow - 226010 (UP)
Mob.: 09839018959
mohibaksh@gmail.com
 اگر آپ رسالے کا آن لائن مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے لنک پر کلک کیجیے:۔




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں