5/6/18

مضمون : لغت نویسی میں شعری استناد۔ سلیم شہزاد



لغت میں معنی بیان کرنے کا ایک مخصوص طریقِ کار ہوتا ہے۔ اس کے تفاعل سے اندراج کردہ متن کی جو ساخت نمو پاتی ہے ، اس میں پہلے وہ لسانی ؍ لفظی ساختیہ ہوتا ہے جس کے معنی بیان کیے جاتے ہیں۔ یہ گویا بیج ہے جس سے معنی بیانی کے طریق کار کی مختلف شاخیں پھوٹتی ہیں یعنی لفظ کا تلفظ ، املا ، وضاحت ، ایک یا زائد مترادف ، لسانی اصل کا تعارف ، قواعدی حیثیت اور معنی کی سند وغیرہ۔زیر نظر تحریر میں اسی آخری مذکورہ لغوی مظہر سے سروکار رکھا گیا ہے۔ ’ معانی کے شواہد‘ کے مسئلے پر وفیسر نذیر احمد نے اپنے مقالے بہ عنوان ’ اردو لغت نویسی کے مسائل‘ میں لکھا ہے کہ :
’’اردو لغت نگار ی کا یہ پہلو بہت کمزور ہے اس لیے کہ بعض لغات شواہد سے خالی ہیں اور جن میں شواہد آئے ہیں ، وہ اکثر الفاظ و فقرات کے ہیں جن کی شعری شہادت موجود نہیں۔نثری ادب یا کسی اور طرح کی تحریر کی مثالیں شاذ ہی ملتی ہیں۔اکثر کہا جاتا ہے کہ ہمارے لغت شعری لغت ہیں۔‘‘
عصری معنوں میں’ شعری لغات ‘ وہ نہیں ہیں جن کا تصور ڈاکٹر موصوف کے اقتباس سے ظاہر ہے۔ شعری لغات تو وہ نصاب نامے بھی نہیں تھے جو عروضی آہنگ کو بروئے کار لاکر مثنوی کی ہیئت میں لکھے جاتے تھے۔ لغات میں اشعار کی بھر مار دیکھ کر البتہ کہا جاسکتا ہے کہ لغت نویس نے مجرد لفظوں اور فقروں وغیرہ کے معانی کے استناد کے لیے ایسا مواد پیش کیا ہے جو لغت میں درج لفظ کے معنی سے زیادہ معنوں کا حامل ہوتا ہے اور یہ زائد معنی دیے گئے لفظ کے معنی پر اثر انداز ہوتے ہیں یعنی ایسا ہوسکتا ہے کہ زائد معنی سند میں نہ ہوں تو اندراج کا لفظ وہ معنی ہی افشا نہ کرے جو لغت نویس بیان کر رہا ہے۔کسی لفظ کے لغوی معنی کا شعر میں پائے جانے والے (اسی لفظ کے) مجازی معنی سے کوئی خاص تعلق نہیں ہوتا۔ لفظ کے لغوی معنی اکہرے ہو سکتے ہیں جب کہ شعر میں مستعمل اسی لفظ کے معنی اکہرے نہیں ہوتے۔
لغت نویسی افسانہ نویسی کی طرح کوئی ادبی تخیلاتی سرگرمی نہیں ہے، علم اللسان ؍ لسانیات کے معنیاتی شعبے سے اس کا تعلق ہے۔ اگرچہ ادب کی طرح لغت بھی زبان کا ایک مظہر ہے اور ادبی لسانی اظہار جہاں ایک منظم ساخت کا متقاضی ہے ، وہیں لغوی مخاطبے کی بھی اپنی مخصو ص ساخت ہوتی ہے جو ادبی ساخت کی طرح منظم نہیں ہوتی ۔اس ساخت میں شعری استناد کے طور پر لائے جانے والے اشعار وہ فنی قدر نہیں رکھتے جو لغت کے باہر رہ کر انھیں حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح سند کے لیے دیے گئے نثر پاروں کی معنویت اپنی کلیت سے جدا ہوجانے کی وجہ سے اب لغت میں دیے گئے اندراج کی معنویت سے ہم رشتہ ہوجاتی ہے اس لیے ایک طرح سے محدود ہوتی ہے۔شاید اسی لیے ’ فرہنگ آصفیہ‘ کے دیباچے میں اس کے مؤلف مولوی سید احمد دہلوی شعری استناد پر اس طرح اعتراض کر تے ہیں :
’’اگر کوئی شاعر اپنے شعر میں کوئی فقرہ اظہار مضمون کے واسطے موزوں کرلے تو اس کے یہ معنی نہیں ہوسکتے کہ وہ فقرہ، محاورہ یا اصطلاح بن گیا ۔اس طرح تو شعر کاہر ٹکڑا محاورہ یا اصطلاح خیال کیا جاسکتا ہے۔‘‘
اپنی تالیف کے الف سے یے تک کے اندراجات میں مؤلف موصوف نے لفظوں، فقروں، محاوروں اور اصطلاحوں کے معنوی استناد کے لیے لاتعداد اشعار شامل کر لیے ہیں۔ محولہ بالا اقتباس میں اپنی بات کے خلاف مؤلف کے اس عمل کو لیکن اردو لغت نویسی کی ایک اہم روایت قرار دیا جاسکتا ہے جس کا آغاز نصاب ناموں سے ہوا۔امیر خسرو سے مرزا غالب تک کے لکھے ہوئے نصاب نامے منظوم ہیں ۔ کثیر لسانی لفظی مترادفات کی تعلیم و تدریس کے ان وسائل کو مثنوی کی ہیئت میں اصطلاحی لغت کی ایسی ابتدائی مثالیں کہنا چاہیے جن کا تعلق قدیم علوم کی منظوم ضبط کاری سے تھا یعنی جب تاریخ ، فلسفہ ، اخلاقیات اور مذاہب وغیرہ کی تعلیم نظم میں دی جاتی تھی۔
نصاب نامے کی روایت سے انحراف اور اس کی لغت میں قلب ماہیت کی اولین مثال ملا عبدالواسع ہانسوی کی تالیف ’ غرائب اللغات‘ کو قرار دیا جا سکتا ہے جو گیارہویں صدی ہجری کے اواخر یا بارہویں صدی ہجری کے اوائل میں مدوّن کی گئی ۔ اسی زمانے (یعنی 1792 ) میں مرزا جان طپش دہلوی نے مختصر لغت’ شمس البیان فی مصطلحات ہندوستان‘ تالیف کی جس کا تعارف در علمِ لغت مشتمل بر لغات و محاوراتِ اردو و با سندِ اشعارِ فصحا و بلغاے ہندوستان کے اشتہار سے کیا گیا۔اس لغت میں شعری استناد کی شمولیت کو نصاب نامے کی منظوم روایت کی تقلید سمجھنا چاہیے۔ لفظ یا فقرے کے اندراج کے بعد مؤلف اس کا وضاحتی تلفظ بتا کر مندرج لفظ یا فقرے کا مترادف بتائے بغیر اس کی معنوی وضاحت کرتے اور سند میں شعر دیتے ہوئے کہتے ہیں :
استادی و مولائی حضرت درد می فرماید 
مرزا علی تقی محشر گوید 
میر تقی میر گوید 
وغیرہ۔اس کے بعد ڈاکٹر ایس ڈبلیو فیلن کی ’ ہندوستانی انگلش ڈکشنری ‘ (1879) میں معانی کی سند کے لیے لوک گیت ، دوہے او ر کبت وغیر ہ بھی شامل نظر آتے ہیں۔ بعد کی لغتی تالیفات میں شعری استناد کی روایت کو مزید استحکام حاصل ہوا۔امیر مینائی کی ’ امیر اللغات‘ (1890/92)میں شعری تراکیب کی بہتات ملتی ہے جو ایک شاعر کی تالیف ہونے کا نتیجہ ہے۔اردو لغات کے زیادہ تر شعری استناد کا حامل ہونے کے لیے اس زمانے کے ادبی ماحول کو ذمہ دار کہا جاسکتا ہے۔
اٹھارہویں اور انیسویں صدی کا زمانہ اردو شاعری کے عروج کا زمانہ تھا۔اردو نثر مذہبی مسائل کو مخصوص فقہی ؍ اخلاقی ؍ صوفیانہ وغیرہ لفظیات کے توسط سے بیان کر رہی تھی اس لیے اس میں عام لسانی اظہار کے خواص مفقود تھے ۔ نثر کا ادبی اسلوب داستان طرازی تک محدود تھا اور اگرچہ داستانی نثر بیانیے کے متعدد رنگوں کی حامل تھی لیکن اس نثر کو بھی لسانی عمومیت سے بڑی حد تک عاری ہی سمجھنا چاہیے۔اس زمانے میں بعض شعرا و ادبا نے اردو زبان کے ذخیرۂ الفاظ کو ابجدی وغیرہ ترتیب میں مرتب کرکے لغت نویسی کا آغاز کیا ۔معنوی استنا دکے لیے ان کے سامنے شعری سرمایہ وافر مقدار میں موجود تھا۔ پھر لفظوں کی قواعدی ، املائی ، اشتقاقی اور تلفیظی سند بھی شعرا کے کلام ہی میں تلاش کرنے کی روایت زبان کے استعمال کی بڑی روایت تھی اس لیے لغت نویسوں کے لیے شعر سے استناد کرنے کے سوا چارہ نہ تھا۔بھولے بھٹکے نثری تعملات سے کوئی سندلائی بھی جاتی تھی تو ایسی نثر کا شعریت سے مملو ہونا ناگزیر تھا۔ چنانچہ معنی بیانی میں اشعار کے استناد کی وجہ سے اردو لغت نویسی پر شعری اثرات غالب آگئے پھر لغوی اندراجات کے معانی کے طور پر دیے گئے مترادفات بھی ایک طرح سے شعری نوعیت کے یعنی شعری لفظیات ہی ہوا کرتے تھے۔لغت نویسی کا مقصد عام طور پر ’ مصطلحاتِ شعرا‘ کو یکجا کرنا تھا۔ محاورات وغیرہ پر مشتمل جو لغات ابتدا میں مرتب کیے گئے ،زبان کے عام استعمال کی توضیح و تشریح سے زیادہ ان کا مقصد بھی خاص یعنی شاعرانہ استعمال اور استناد ہوا کرتا تھا۔ آگے چل کر جب انگریز زبان دانوں اور معلّموں نے تعلیمی ، مذہبی اور سیاسی مقاصد کے پیش نظر لغات مرتب کیے تو ان کی تقلید میں اردو لغت نویسوں نے زبان کے ذخیرۂ الفاظ کی تاریخ ، تدوین اور تعریف کو مدنظر رکھا ، اگرچہ استناد کے لیے اب بھی وہ شعراو فصحا کے کلام کی طرف دیکھ رہے تھے اور اب بھی زبان کے معنی اور فصاحت کی شہادت کے لیے شعرا کا کلام ہی ان کے لیے معیار تھا۔
دنیا کی کلاسک زبانوں میں لغت نویسی کا آغاز لسانی شعور رکھنے والے زبان کے پنڈتوں نے کیا۔ سنسکرت ، یونانی،عربی،فارسی اور چینی وغیرہ زبانوں میں مذہبی لفظیات و اصطلاحات کے معانی و مفاہیم کے تحفظ کے مقصد سے ایسی لسانی ضبط کاری کی گئی جو آگے چل کر لغت نویسی کے علم وہنر میں تبدیل ہوگئی۔مخصوص الہٰیاتی اور مذہبی لفظیات کو اس طرح زبان کے دیگر مخاطبوں سے الگ محفوظ کرنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ زبان کے عمومی ، بازاری ، فحش اور مقامی مخاطبے مقدس اظہارات میں سرایت نہ کر جائیںیعنی زبان اپنی تلفیظ و تقریر ، ترسیل و تحریر اور افہام و تفہیم میں ایک علو اور معیار حاصل کرلے اور اسے قائم رکھے۔زبان کی علوئیت اور معیار پسندی کی وجہ سے اردو لغات پر شعریت کا اثر زیادہ نظر آتا ہے۔
’لغت‘ کے لفظی معنی ’ زبان‘ ہے مگر لغت میں کوئی زبان اپنی اس ہیئت میں نہیں ہوتی جس میں کہ وہ شعر ، نثر، فقرے ، محاورے یا روز مرہ وغیرہ کی لسانی ساختوں میں ہوتی ہے۔لغت کی ظاہری ابجدی ترتیب سے اگرچہ اس کے متن کا ایک نظام ضرور بنتا ہے مگر اس نظام کی وجہ سے لغت میں داخل زبان کسی معنوی وحدت کی حامل بھی نہیں بنتی۔ایک مثال سے لغت کی ہیئت کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ کسی شعر میں آنے والے الفاظ اپنے عروضی آہنگ کے سبب ایک مخصوص نحو کے پابند ہوجاتے ہیں لیکن لغت میں اسی شعر کے الفاظ آہنگ کے بغیر اور ابجدی ترتیب کے تحت ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے بے ربط مقامیت رکھنے والے ہوتے ہیں جیسے شعر :
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
کے الفاظ لغت میں اس ترتیب سے آئیں گے :
آدمی، آساں ، انساں؍بسکہ ، بھی؍ دشوار ؍کا ،کام،کو؍میسر؍نہیں؍ہر،ہونا(ہے)
لغت کے متن میں شامل ہونے پر یہی صورت کسی نثر پارے میں مستعمل الفاظ کی بھی ہوگی :
رحمت اور برکت کے لیے میرا رسالہ حمدیہ نعتیہ کلام سے بھی مزین ہوتا رہے گا۔
اس جملے کے الفاظ ذیل کی ترتیب سے لغت میں جگہ پائیں گے :
اور ؍برکت، بھی؍ حمدیہ؍رحمت، رسالہ، رہنا(رہے گا)،سے؍کلام،کے لیے ؍مزین،میرا؍
نعتیہ؍ ہونا(ہوتا)۔
یہ شعر و نثر کا ساختی استرداد ہے جس کے بعد شعر اور نثر پارے کے لفظوں کے وہ معنی ہرگز نہیں رہتے جو شعر یا نثر پارے میں رہنے پر ہوتے ہیں۔ (لغت میں بعض لفظوں کی صورتیں بھی بدل جاتی ہیں:ہونا؍ رہنا:ہے، ہوتا؍ رہے گا وغیرہ)گویا لغت کا متن بے صنف ہوتا ہے۔ صنف میں رہ کر لفظ کے معنی شعر و نثر کے فرق کے لحاظ سے شعریت اور نثریت کے حامل ہوتے ہیں۔ لغوی اور مجازی معانی کا تصور بھی اسی لیے پید ا ہوتا ہے کہ لغت کے متن میں لفظ کے جو معنی ہوتے ہیں (لغوی معنی )وہ لفظ کے کسی صنف میں شامل ہونے پر اکثر بدل جاتے ہیں(مجازی معنی)اسی بناپر لغت میں شعری استناد کی روایت کو زبان کی افہام و تفہیم کے لیے ایک مسئلہ سمجھنا محل نظر نہیں ۔
لغت میں معنی بیانی کا مخصوص طریق کار لفظ کی قواعدی ، املائی اور اشتقاقی وغیرہ صورتوں کو شعری استناد کے ذریعے پوری طرح واضح نہیں کرسکتا اور اگر کر بھی سکتا ہے تو لغت نویس کے مقرر کردہ اصول کو واحد معیار تسلیم کرنا ہر ایک کے لیے ممکن نہیں مثلاً اردو لغت نویس لفظ ’ بلبل ‘ کو قواعدی نکتے سے مذکر و مؤنث دونوں صورتوں میں پیش کرتے رہے ہیں۔ایک لفظ کے دو تلفظ (مثلاًگھایل؍گھائل)بھی ملتے ہیں۔ اسی طرح ’ شکل ؍ شکیل،شاکر؍مشکور،شکر گزار؍گذار‘وغیرہ لفظوں کے اشتقاق میں بحث ہے ۔ گویاکوئی واحد معیار مقرر نہیں جو شعری استناد کا ٹھوس جواز بن سکے ۔تلفظ کی ذیل میں رشید حسن خاں اپنے مقالے ’ لغت اور عام استعمال ‘ میں کہتے ہیں :
’’شعرمیں لفظ کی حرکت کا تعین بالعموم قافیے میں کیا جاتا ہے۔ ساکن و متحرک حروف کا تعین تو بعض اوقات شعر میں قافیے کے علاوہ ہوسکتا ہے مگر زبر زیر کا تعین نہیں ہوپاتا۔ قافیے میں روی و ما قبل روی کی حرکات محسوب ہوتی ہیں۔اسی طرح جو لفظ سہ حرفی و چہار حرفی ہوتے ہیں ،ان کے حروف اولین کی حرکات کا تعین شعر میں نہیں ہوپاتا۔چوں کہ لغت میں عموماً اسناد میں شعر پیش کیے جاتے رہے ہیں اور الفاظ کی حرکات کا بھی اکثر تعین ان کے واسطے سے ہوتا رہا ہے اس لیے اولین حروف کا تعین مشکل تھا مثلاً شعر کی مدد سے لفظ ’عیاں‘ اور’ عیال‘ کی عین کی حرکت کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
ان تکنیکی باتوں کا حاصل صرف یہ ہے کہ قافیے کے حرف روی اور حرف ماقبل روی کی حرکات ہی سے تلفظ کی نشان دہی ہوتی ہے۔ کبھی کبھی شعر میں قافیے کے علاوہ مقام پر آنے والے لفظ کا صحیح تلفظ بھی شعر سے واضح ہوجاتا ہے مگر اکثر ایسا ممکن نہیں۔’ قاتل، بسمل، منزل‘وغیرہ قافیوں میں لفظ’گھاءِل‘کا تلفظ ہمزہ مکسور(ہمزہ پر زیر)سے ہوگا اور ’ بادل، ہلچل، ململ‘ وغیرہ کے ساتھ اسی لفظ کا تلفظ یاے مفتوح (یے پر زبر) سے ہوگا اور یہاں صرف تلفظ کے نہیں ،املا کے فرق کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
لغت میں لفظ کے معنی لفظ سے بتائے جاتے ہیں گویا جس لفظ کے معنی بتائے جاتے ہیں،وہ معنی کے طور پربتائے گئے لفظ سے معنوی ترادف رکھتا ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ ہر دو پہلو کے لفظ ایک دوسرے کے (کسی قدر)مترادف ہوتے ہیں مگر ان لفظوں کے ترادف کے لیے جب کوئی شعر سند میں لایا جاتا ہے تو اکثر لغت نویس یہ بھول جاتا ہے کہ وہ اندرا ج کے قلیل صرفی یا کثیر صرفی لفظ کو شعر کی ایک نحوی معنوی ساخت میں پیش کررہا ہے۔شعر میں آنے والا یہ لفظ اپنے آپ میں مجرد معنی افشائی نہیں کرتا بلکہ اپنے اس تعمل کے لیے وہ شعر میں مستعمل دوسرے لفظوں کے معانی سے بھی لازمی طور پر متلازم ہوتا ہے مثلاًغالب کے محولہ شعر میں ’ آدمی ؍ انسان‘ کی معنویت شعر میں رہنے ہی پر افشا ہوتی ہے۔ شعر سے باہر یعنی لغت کے کالم میں دو نوں لفظ کچھ اور ہی معنی رکھتے ہیں۔دیکھیے’فرہنگ آصفیہ‘ میں اسی لفظ کے ساتھ مؤلف نے کیا سلوک کیا ہے :
آدمی : اسم مذکر (۱)(بفتحِ دال صحیح وبسکون دال مستعمل ہے)
آدم کی اولاد، آدم سے تعلق رکھنے والا، آدم کی نسل جو آدم سے نسبت رکھے، 
شخص ، بشر، فرد، کس،متنفس، انسان ، مانس، منش
ان مترادفات میں فقرے’ آدم کی اولاد ؍ آدم کی نسل‘ اور ’ آدم سے تعلق رکھنے والا؍جو آدم سے نسبت رکھے‘ وضاحت کی تکرار کے شکار ہوگئے ہیں۔ استناد کے لیے درج ذیل اشعار دیے گئے ہیں:
اصل کو بھی غور کرلے آدمی
کون تھا،کس چیز سے کیا ہوگیا
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پرناحق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا
کچھ نیک و بد کی تم کو نہیں عشق میں تمیز
حیوان بن گئے ، نہیں آپ آدمی رہے
کام کیا نکلے کسی تدبیر سے 
آدمی مجبور ہے تقدیر سے
آکے عدم سے، یوں ہوئے دنیا میں بے خبر
جوں سو رہے، تھکا ہوا منزل کا آدمی
تو حور ہے، پری ہے کہ سارے جہان میں
دیکھا نہ تیری شکل و شمائل کا آدمی
لائے جاکر اسے پرستاں سے
آدمی کیا ہیں، اک بلا ہیں ہم
کہتے ہیں، آج ذوق جہاں سے گزر گیا 
کیا خوب آدمی تھا، خدا مغفرت کرے
غالب کے شعر میں لفظ’ آدمی‘اکیلا استعمال نہیں کیا گیا ہے بلکہ یہ’ آدمی کوئی ہمارا‘ ایک فقرہ ہے (جسے آج کل کی شعریات میں ’ شعری لفظیات ‘میں شمار کیا جاتا ہے)جس کی معنویت شعر کے دوسرے لفظوں سے متلازم ہے۔ ’ آدمی‘ اس شعر میں بے معنی ہے(لالتا پرشاد شفق نے اپنی ’فرہنگ شفق‘میں غالب کا یہی شعر’ آدمی‘بمعنی ’ چاکر، معتمد، خدمت گار‘ کے لیے دیا ہے اور یہ معنی بھی غلط ہیں۔)
تیسرے شعر میں (تم ؍ آپ کے شترگربہ سے قطع نظر)آدمی کے جو معنی ہیں،وہ اندراج کی وضاحت میں دیے ہی نہیں گئے ہیں۔ ’حیوان‘آدمی کی ضد ضرور ہے لیکن ’ عشق میں نیک و بد‘ کی تمیز کا مضمون ’ آدمی‘ کو حیوان کی ضد نہیں بناتا کہ عشق اخلاق سے ہم رشتہ ہے اور حیوان اس تصور سے مبرا ہے۔باقی اشعار میں’ آدمی‘ کے معنی ’ انسان‘ کے ظاہر ہوتے ہیں اس لیے وضاحت میں دیے گئے دیگر مترادفات (بشر ، فرد وغیرہ)غیر ضروری ہوگئے ہیں۔ان کے معنی زبان کے استعمالات میں ’ آدمی‘ کے ہوسکتے ہیں جن کے لیے مؤلف نے سندفراہم نہیں کی۔
اشعار کے بعد ایک فقرہ نظر آتا ہے :
(فقرہ)آدمی اناج کا کیڑا ہے
اس فقرے میں بھی آدمی کے وضاحتی معنی مفقود ہیں۔لسانی ساخت ’ اناج کا کیڑا‘یا صرف لفظ ’کیڑا‘ کے استعارے سے مثال کے آدمی کی جگہ’بشر ، فرد، متنفس‘وغیرہ لفظ رکھے جائیں تو بے معنویت کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔
اسمیہ معنی کے علاوہ ’ آدمی‘ کے دوسرے قواعدی معنی ’ صفت‘ کے طور پر یوں بتائے گئے ہیں :
(2) صفت:جوان ، پورے قد کا ، بالغ،بڑا
اور مثال میں ایک فقرہ دیا ہے :
(فقرہ) بچہ تو کیوں، اچھا خاصا آدمی تھا۔
دی گئی صفات میں’ جوان ، بالغ، بڑا‘ میں ترادف نہیں ، تکرار ہے۔ ان لفظوں کو مثال کے لفظ ’آدمی‘ کی جگہ رکھیں تو بامعنی جملے ضرور ہاتھ آئیں گے لیکن صفت ’پورے قد کا‘ کے استعمال سے وہ بات نہ بنے گی کیوں کہ صرف ’ جوان، بالغ، بڑا‘ پورے قد کا آدمی نہیں ہوتا، بچہ بھی پورے قد کا ہوتا ہے۔
لفظ’آدمی ‘کے تیسرے معنی بھی صفت کے ذریعے بتائے گئے ہیں :
(3) صفت: تمیزدار ، صاحب سلیقہ، عقل مند،عاقل، لائق، دانا،لئیق، 
مہذب،تہذیب یافتہ
ان لفظوں میں’ دانا‘کو’ عاقل‘ کے بعداور’ لئیق‘ کو’لائق‘ کے بعدرکھ دیں تو مترادف لفظو ں کے جو چار گروہ حاصل ہوں گے ، ان کی اشتقاقی خاصیت مشترک ہوگی۔ان لفظوں کے لیے جو اشعار سند میں دیے گئے ہیں، وہ بھی ملاحظہ کیجیے :
کہوں میں حالِ دل اس غیرت پری سے کیا
جو دو گھڑی نہ ٹکے پاس، آدمی کی طرح
فخر کیا اس کا، کسی نے یاں جو زر پیدا کیا
آدمی وہ ہے کہ جس نے کچھ ہنر پیدا کیا
ہم نے یہ مانا کہ واعظ ہے ملک 
آدمی ہونا بہت مشکل ہے یاں
ہیں بہائم بصورت انساں
آدمی اٹھ گئے زمانے سے
قد کشی کرتا نہ اس غیرت شمشاد سے یوں
آدمی تو اگر، اے سروِگلستاں ہوتا
مثال کے پہلے شعر میں ’ غیرت پری ‘ کی ضد اور دوسرے مصرع کا ’ آدمی‘ (3)میں دی گئی کسی صفت سے میل نہیں کھاتا۔دوسرے شعر کے ’ آدمی‘ کے معنی عقل مند؍ عاقل؍ دانا تو ہوسکتے ہیں مگر یہ صفتی معنی نہیں ، تشبیہی معنی ہیں۔تیسرے شعرکا ’ آدمی‘(1)کا ’ انسان ‘ ہے، (3) کی صفات سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ بعد کی مثال میں ’بہائم‘ میں’ انسان؍ آدمی‘ کا ربط محض رسمی ہے(پہلے مثال گزر چکی ہے:حیوان بن گئے، نہیںآپ آدمی رہے)اوپر دی گئی کوئی صفت اس ’آدمی‘ پر چسپاں نہیں ہوتی۔ آخری شعر کا آدمی دوسرے شعر کے ’آدمی‘ سے مماثل ہے اس لیے زائد اور غیر ضروری ہے۔
’ آدمی‘ کے چوتھے معنی :
(4) دیانت دار ، امانت دار، متدین، امین
یہ بھی صفات ہیں ۔ ان کے لیے دی گئی مثل کے فقرے کی سند 
آدمیوں کا کال ہے ،آدمی ہیں مگر آدمی نہیں
ان کے لیے بیکار ہے کیوں کہ یہ صفتی معنی سیاق و سباق کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتے۔
پانچویں معنی اسمائے فاعل کے ذریعے بتائے گئے ہیں مگر یہ بھی ایک طرح کی صفات ہی ہیں :
(5) نوکر، چاکر،ملازم، خادم، خدمت گار، ملازم خاص
لفظ’چاکر‘ اردو میں تنہا مستعمل نہیں ۔ یہ لفظ ’نوکر‘ کے تابع کے طور پر آتا ہے ’ ملازم ؍ ملازم خاص‘ اور ’خادم ؍ خدمت گار‘ تکراری معنی ہیں اور فضول ہیں۔ مثال میں ایک ’فقرۂ مذاق‘ دیا گیا ہے :
بابا،کچھ فقیروں کو بھی دلوا
سائیں، آدمی آئے تو دے
بابا، دو گھڑی کے لیے توہی آدمی بن جا
یہاں پہلے آدمی کے معنی ’ نوکر ؍ ملازم‘ بڑے تکلف کے معنی ہیں اور دوسرے ’ آدمی‘ کے معنی’ انسان‘ کے ہوتے ہیں،’نوکر‘ کے نہیں(یہ ایہام ہے جو معنی کو واضح نہیں کرتا ، انھیں مزید الجھاتا ہے)
(6) قاصد ، پیغامبر، پیک، دوت، ایلچی، سفیر
ان معنوں کے لیے اشعار 

بلا سے آپ نہ آئیں پر آدمی ان کا
تسلی، آکے مجھے، وقت اضطراب تو دے
(’ فرہنگ شفق‘ میں یہ شعر بھی ’ آدمی‘ بمعنی ’چاکر، معتمد، خدمت گار‘ کے لیے دیا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ ’ آصفیہ‘ کی طرح غلط نہیں یعنی ’ قاصد ، پیغامبر‘ وغیرہ)
وہ ، خدا جانے کہ ہوگا کیسا بے رحمی شعار
نا خدا ترس اس قدر ہیں جس صنم کے آدمی
جو اس پری سے کہوں ، کوئی آدمی بھیجوں
کہے کہ دخل نہیں یاں فرشتہ خاں کے لیے
خبر میری ، کل ان کے آدمی نے آکے جو پوچھی
کہا میں نے کہ شاید عقل سے بہرہ تجھے کم ہے
’ آدمی‘کے یہ چھٹے معنی دور ازکار ہیں۔ مثالوں کے اشعار میں البتہ اس لفظ کے معنی ’ نوکر ؍ ملازم‘ کے ظاہر ہوتے ہیں(’قاصد؍ پیغامبر‘ اگر عاشق ؍ معشوق کے ملازم ہوں تو یہ معنی ’ آدمی ‘ کے ہوسکتے ہیں۔)
ساتویں معنی ’ لشکری ‘ہیں *
آشنا ،خواہ مرد ہو، خواہ عورت، آپس میں ایک دوسرے کا آدمی کہلاتا ہے
رنڈی، بشنی، یار، دوست 
ان معنوں کے لیے کوئی مثال نہیں دی گئی ہے البتہ دو فقرے یہ لکھے ہیں:
یہ اس کا آدمی ہے
آج رسالدار کے آدمی پر خوب آوازے کسے 
------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
*’فرہنگ آصفیہ‘ میں اس لفظ کے معنی :’بازاری، وہ لوگ جن کی قوم، زبان وغیرہ ٹھیک نہ ہو‘
ایک اندراج ’ لشکری بولی‘ کا ہے بمعنی’’ وہ غیر معتبر ، بے قاعدہ، غلط سلط زبان جو اہل لشکر بولتے ہیں۔‘‘
ان مثالوں کے ’ آدمی‘کے معنی ’ لشکری معنی‘ سے کوئی تعلق نہیں رکھتے نظر آتے(البتہ’ ملازم ؍ خادم‘ کے معنی ان سے ضرور واضح ہیں۔)
(8) خاوند، خصم، دھنی، پرش، لڑکے بالے، جورو، اہلیہ
(ادنیٰ قوموں میں بولا جاتا ہے۔)
بولی میں ’ آدمی‘بمعنی ’ خاوند‘ عام ہے مگر ’ لڑکے بالے، جورو، اہلیہ‘ سے اس ’ آدمی‘کو کچھ لینا دینا نہیں۔مثال میں دو فقرے دیے ہیں :
(فقرے:ہندو عورت)جی جی ، تیرا آدمی کیا آج گھروں نہیں ہے۔
’ آدمی‘ بمعنی ’ خاوند ‘ کو اوپر بازاری کہا پھر مثال میں ’ ہندو عورتوں کی زبان‘ سے اس کا ٹانکا جوڑ دیا۔ یہاں ’ آدمی‘بمعنی ’خاوند‘ بالکل صحیح دیے گئے ہیں البتہ بعد کی مثال
تمھارے گھر کے آدمی کہاں گئے ہیں
میں ’ آدمی‘ بمعنی’ مرد‘ کے ملتے ہیں اور یہ معنی مؤلف نے کہیں نہیں دیے۔
(9)باشندے ، رہنے والے، ساکن(جمع کے ساتھ بولا جاتا ہے)
ان معنوں کے لیے فقرہ :
’’ اس شہر کے آدمی برے ہیں ‘‘
دیا ہے جب کہ اس فقرے سے ’ آدمی‘کے معنی’ باشندے یا ساکن‘ سے زیادہ’ لوگ‘ کے اجاگر ہیں۔
آخری دسویں معنی :نالائق ، بدتمیز
اور مثال کے فقرے 
ارے میاں، تو کیسا آدمی ہے
تم بھی کیا آدمی ہو
دیے ہیں۔ان جملوں میں’ آدمی‘ کے معنی ’ نالائق ؍ بد تمیز‘ کے ہر گز نہیں ہیں(جب کہ اسی لفظ کے بالکل متضاد معنی ’ تمیز دار، صاحب سلیقہ، مہذب‘ وغیرہ بھی مؤلف نے دیے ہیں[3])دسویں معنی کے لیے دیے گئے جملوں کے استعمال کے سیاق و سباق ؍ موقع و محل وغیرہ سے واقفیت ضروری ہے، تبھی ’آدمی‘کے کچھ معنی ظاہر ہوں گے۔
سترہ شعروں کے ذریعے ایک لفظ کے معنی بتانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ معنی کی شہادت کے لیے ہمارے لغت نویس شعری استناد پر زیادہ تکیہ کرتے تھے بلکہ ان کی کوشش ہوا کرتی تھی کہ شعر کے توسط سے زیادہ سے زیادہ معانی اجاگر کریں۔ لفظ (مثال کے طور پر یہی لفظ ’ آدمی‘) کثیر معنوی تو ہے لیکن اس معنوی کثر ت کی تفہیم کے لیے اکثر لسانی تعمل کے بہت سے شخصی ، سماجی، طبعی ، نفسی اورعلمی وغیرہ کوائف سے واقفیت لازمی ہوتی ہے۔لغت نویس اس علمی حقیقت کی زیادہ پروا نہیں کرتے تھے۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ جس لفظ ’ آدمی‘ کے معانی مؤلف نے طرح طرح سے بتائے ہیں ، اسی لفظ کے قریبی مترادف ’ انسان‘ کے معنی وغیرہ بتانے میں انھوں نے ایک شعر بھی سنانے کی زحمت نہیں اٹھائی ہے ، بس ’ آدمی‘ کے جو مترادفات لکھے تھے ، انھی کو دہرا دیا ہے یعنی ’آدمی ،منش ، پرش، لائق، شائستہ، مہذب‘ وغیرہ۔ یہاں لفظ ’ انسان‘ کے ایک معنی ’ آنکھ کی پتلی‘ البتہ حیران کن ہیں۔ اس فقرے کے معنوں میں لفظ’ انسان‘ کا استعمال نہیں ملتا۔ ’اُنس‘ بمعنی’ محبت؍ میل ملاپ‘ اور’ نسی‘ بمعنی ’ بھول‘ کو ’ انسان‘ کی لفظ اصل بتایا ہے۔اس میں پہلی مثال تو صحیح ہو سکتی ہے لیکن دوسری غلط محض ہے۔(’فرہنگ شفق‘میں یہ لفظ نہیں پایا جاتا۔)
اس جائزے سے واضح ہوتا ہے کہ لغت کے اندراجات،ان کی مختلف معنوی سطحوں کی شناختوں اور معنوی شہادتوں کا ایک نظام ہے۔ اس نظام کی تفہیم میں شعری استناد پر انحصار کرنے سے لسانی ؍ معنوی خلفشار پیدا ہوسکتا ہے۔’ فرہنگ آصفیہ‘ کے حوالے سے لفظ ’ آدمی‘ کے جائزے میں دیکھا گیا کہ اس لفظ کے اسمیہ معنی کی وضاحتوں کے لیے دیے گئے آٹھ میں سے چھے اشعار میں منتخب لفظ کے تعلق سے لغوی ؍ مجازی معنوی فرق نہیں پایا جاتا ۔تیسرے صفاتی معنوں میں اسمیہ معنوں کی سی کیفیت حاوی ہے اور چھٹے اسمیہ ؍ صفاتی معنی پانچویں معنوں سے مشابہت رکھتے ہیں۔اس بنا پر نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اشعار کی بھر مار کے سبب لفظ کی کثیر معنویت ابہام کا شکار ہوگئی ہے اور غیر شعری استناد کی مثالیں بھی مبہم ، گنجلک اور معانی کی ترسیل میں ناکام ہیں۔
’ فرہنگ آصفیہ‘ کی طرح ’ نوراللغات‘ (مؤلفہ : نورالحسن نیرکاکوروی:1924-31) کو اردو کی دوسری اہم لغت کہنا بے جا نہیں۔ لفظ’ آدمی؍انسان‘ کی شعری اسناد پر بحث میں یہ لغت صرف چار اشعار پیش کرتی ہے، ’ آصفیہ‘ کے سترہ شعروں میں جن پر اظہار خیال کیا جاچکا ہے۔ لفظ’ آدمی‘ کے اندراج کے تحت اس میں لکھا ہے :
آدمی(فارسی بسکون دوم)مذکر ، (۱)جنس انسان انسان
سند میں ذوق کا شعر (کہتے ہیں ، ذوق ۔۔۔)ملتا ہے جس کے توسط سے آدمی کے معنی ’ انسان‘ کے بتائے ہیں اور غلط نہیں بتائے۔دوسرے معنی انسانی اخلاق والا، سمجھ دار ، تمیز دار دے کر شعر :
ہیں بہائم بصورت انساں
آدمی اٹھ گئے زمانے سے
نقل کیا گیا ہے۔ اس میں ’آدمی‘ کے معنی’ انسانی اخلاق والا‘ مبہم ہیں اور دوسرے معنی بھی شعر سے واضح نہیں ہوتے۔ شعر میں’ انسان ؍آدمی‘کا تقابل ’ بہائم‘ سے کیا گیا ہے مگر بہائم کے لیے صفتی تقسیم درست نہیں۔تقابل دو مظاہر کے بیچ کیا جاتا ہے جب کہ یہاں تین مظاہر تقابل میں لائے گئے ہیں جس سے معنی مبہم ہوگئے ہیں۔
تیسرے معنی’ نوکر، چاکر، قاصد‘ میں ’ آصفیہ‘ کے پانچویں اور چھٹے معنی کو یکجا کردیا ہے (اگرچہ مترادفات کم کردیے ہیں۔) سند میں ذوق کے شعر (بلا سے آپ نہ آئیں۔۔۔)کا ’آدمی‘معنوں میں ’ملازم‘سے ترادف رکھتا ہے، ’ قاصد‘ سے نہیں۔اسی طرح آخری معنی’ معتمد‘دے کر غالب کا شعر (پکڑے جاتے ہیں ۔۔۔)نقل کیا ہے۔ اس میں ’ آدمی کوئی ہمارا‘ کو ’ معتمد‘مان لیا جائے تو معنی درست ہوں گے، صرف لفظ ’آدمی‘معتمد کے معنی کے لیے مناسب نہ ہوگا۔ ’آدمی‘کے پانچویں ’ عم‘ (یعنی عمومی) معنی ’جورو، خاوند، آشنا‘ کے بتائے ہیں جن کے لیے’ آصفیہ ‘ کی طرح ’ نور‘ میں بھی کوئی سند نہیں دی گئی ہے۔
لفظ ’ انسان‘ کے اندراج میں مؤلف کہتے ہیں کہ :
’’اس کے اشتقاق میں اقوال مختلف ہیں‘‘
پھر(’آصفیہ‘کی طرح)’ اُنس‘ اور’ نسیاں‘ لفظوں کو ’ انسان‘ کی لفظ اصل بتا کر معنوی وضاحت کرتے اور بتائے گئے معنوں کے لیے تین شعروں سے استناد کرتے ہیں۔
(1) مذکر: بنی آدم، آدمی 
بحر،یہ کیا حال ہے، کیا شکل ہے
عشق میں انساں سے حیواں ہوگئے
(2) مہذب،اخلاق اور صفات انسانی سے موصوف 
رندانِ بے ریا کی ہے صحبت کسے نصیب
زاہد بھی ہم میں بیٹھ کے انسان ہوگیا
(3) آنکھ کی پتلی 
چاہیے، انساں جگہ پیدا کرے
دیدۂ مردم میں انساں کی طرح
یہاں پہلے دو اشعار میں لفظ ’ انسان‘ بتائے گئے معنوں سے متلازم ہے مگر تیسرے شعر سے معنوی الجھاؤ ظاہر ہے۔معنی ’آنکھ کی پتلی‘ کاتعلق دوسرے مصرع کے لفظ ’انساں‘ سے ہے، ترکیب ’ دیدۂ مردم‘جس کے مفہوم کے آڑے آرہی ہے کہ اس ترکیب کے معنی خود ’ آنکھ کی پتلی‘کے ہوتے ہیں۔ (اگرچہ یہاں ’ مردم‘ کے ایہامی معنی ’ انسان‘ ہیں)شعر کی نثر کریں تو
انسان کو چاہیے (کہ)دیدۂ مردم میں جگہ پیدا کرے
پر بات ختم ہوجاتی اور دوسرے مصرع کا فقرہ ’ انساں کی طرح‘ حشو بن جاتا ہے چنانچہ شعر کی سندمیں’ آنکھ کی پتلی‘ کے معنی کی گنجائش نہیں نکلتی۔
’ مہذب اللغات‘ (مؤلفۂ مہذب لکھنوی1975-85)چودہ جلدوں پر مشتمل لغت نویسی کا ایک کارنامہ ہے۔ اس میں ’ آدمی‘ کے معنی کے استناد کے لیے تین شعر اور ایک نثری جملہ دیا گیا ہے۔ 
آدمی : آدم سے نسبت رکھنے والا، انسان، فارسی، فصیح، رائج
فقرہ ’ آدم سے نسبت رکھنے والا‘ ’ فرہنگ آصفیہ ‘ سے منقول ہے اور ’ آدمی ‘بطور صفت نسبتی یہ فقرہ اس لفظ کے بالکل صحیح معنی بتا رہا ہے ۔ دوسرا مترادف’ انسان‘دیا گیا ہے جسے ’ فصیح؍ رائج‘ بتایا ہے۔سند میں مرزا شوق کے شعر
جی بچے تجھ سے تو خدائی ہے
آدمی کاہے کو، قصائی ہے
میں آدمی دیے گئے معنوں سے میل نہیں رکھتا۔
دوسرے معنی’قول فیصل‘ کے تحت لکھے ہیں یعنی صفات انسانی جس میں پائے جائیں۔سند کا شعر
ہیں بہائم بصورت انساں
آدمی اٹھ گئے زمانے سے
’ آصفیہ ‘ اور ’ نور‘ سے نقل کرلیا گیا ہے۔ یہاں بھی ’ آدمی ‘ کے معنی (مؤلف کے قول فیصل کے مطابق)’ صفات انسانی جس میں پائے جائیں‘ شعرکے حوالے سے اندراج سے میل نہیں کھاتے۔
(اس شعر پر اوپر باتیں ہوچکی ہیں)
تیسرے معنی اس طرح دیے ہیں کہ 
نوکر اور ملازم کے لیے بھی کہتے ہیں
اور یہ لغت میں معنی بتانے کا طریقہ نہیں۔سند کا شعر کسی ’ الف لیلیٰ‘ کے حوالے سے آیا ہے
(’ لیلیٰ‘ املا غلط ہے،’ لیلہ‘صحیح) 
کوئی اس طرح سے بے رحم ہوکر
خفا ہوتا ہے اپنے آدمی سے
اگر یہ شعر کسی مثنوی کا ہے تو اس کا ’ آدمی ‘ ’ نوکر؍غلام‘کا مترادف نہیں۔ان معنوں کے لیے سیاق و سباق کی ضرورت تھی جس پر مؤلف نے توجہ نہیں دی(سیاق کے بغیرآدمی کے معنی اس شعر میں’شوہر ‘ کے واضح ہورہے ہیں )
آخری معنوی بیان :
دیہاتی عورتیں اپنے شوہر کو بھی آدمی کہتی ہیں جیسے 
بابو جی ، جب سے ہمارا آدمی باہر گیا ہے، نہ خط بھیجتا ہے ،نہ خرچ کے لیے روپیہ۔
یہ ’ آدمی‘ بمعنی ’ شوہر ‘ بالکل صحیح ہے اور اس سے ثابت ہے کہ لغت میں معنی کے استنا د کے لیے شعر کی طرح نثر بھی ایک موزوں ذریعہ ہوسکتی ہے۔
’ مہذب ‘کے مؤلف لفظ’ انسان‘ کے تحت لکھتے ہیں :
(1) بالکسر:بنی آدم، آدمی، عربی، مذکر،فصیح، رائج
’ انسان ؍ آدمی‘ دونوں واحد ہیں جب کہ ان لفظوں کے معنی ’ بنی آدم‘میں جمع کا تصور پایا جاتا ہے۔اگر سند کے شعر میں ’ انسان‘ کے معنی ’ بنی آدم‘ سمجھے جائیں تو معنوی الجھاؤ پیدا ہوتا ہے ۔ 
میرے مالک نے مرے حق میں یہ احسان کیا
خاک ناچیز تھا میں، سو مجھے انسان کیا
آگے قول فیصل میں مؤلف لفظ ’انسان‘ کے اشتقاق پر بحث کرتے ہیں مگر یہ وہیں باتیں ہیں جو ’آصفیہ ‘اور ’نور‘ کے مؤلفین نے کہی ہیں۔
انسان کے دوسرے معنی :
(مجازاً)با اخلاق آدمی، مہذب اور صفات انسانی سے متصف
یہ معنی ’ نور‘ سے نقل کردیے ہیں اور سند میں شعر بھی وہیں سے اٹھا لیا ہے(رندان بے ریا کی ہے صحبت۔۔۔)انسان کے سلسلے میں ’ مہذب‘ کا قول فیصل امیر مینائی کی ’ امیراللغات‘ میں اس لفظ کے مندرج معنی ’ آنکھ کی پتلی‘ پر تنقید ہے کہ اس لفظ کے معنی کو امیر نے 
نظم ، نیز،شاعرانہ نظم و نثر سے مخصوص کیا ہے 
مثال کا شعر وہی ہے جو ’نور‘ میں ہے یعنی ترکیب ’ دیدۂ مردم‘والا۔شعر دے کر مہذب کہتے ہیں کہ 
یہ معنی پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتے
’مردم‘بمعنی’ آنکھ کی پتلی‘ تو عام زبان میں ہے لیکن ’ انسان‘(آدمی کا مترادف ہونے کے باوجود)آنکھ کی پتلی کے معنوں میں مستعمل نہیں ۔
اردو لغات میں لفظی اندراج کی افہام و تفہیم کا اسلوب عام طور پر ایسا ہی نقل در نقل اور لفظی و معنوی تکرار نظر آتا ہے۔استناد کے لیے دیے گئے اشعار بھی ورق در ورق ایک لغت سے دوسرے لغت میں شامل کرلیے جانے کی بڑی روایت نمایاں ملتی ہے اور مؤلف کی ذاتی لفظ فہمی اور معنی بیانی کی مثالیں شاذ ہیں۔’ قول فیصل‘ جیسی بھاری بھرکم اصطلاح اگرچہ لفظ کے عام استعمال اور لفظ کے رائج معنوں کے پیش نظر لغوی معنی کے تصور کو مستحکم کرتی ہے لیکن فصاحت اور علو پر علاقائی لسانی جبر کے گہرے اثر سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا یعنی ایک لغت نگار کے لیے لکھنوی لفظ و معنی مستند ہیں تو دوسرے کے لیے دہلوی وغیرہ۔تنہا شعری استناد لفظ کے مختلف معنوں کی وضاحت کرنے میں ہر جگہ کامیاب نہیں اسی لیے مالک رام نے اپنے مقالے’لغت نویسی کے مسائل‘ میں کہا ہے کہ :
’’اردو میں یہ روایت رہی ہے کہ الفاظ کے معانی کی سند میں شعرا کا کلام پیش کیا جاتا رہا ہے۔یہ طریقہ ناکافی اور ناقص تھا۔زبان میں ہزارہا ایسے الفاظ ہیں جو شعرا نے اپنے کلام میں استعما ل نہیں کیے۔کیا اس سے ان کی صحت مشکوک ہوگئی؟کیا اس سے ان کے مفہوم یا معنی کے تعین میں کوئی دشواری پیش آئی؟دونوں سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔ بارے اب یہ احساس ہوچلا ہے کہ اسناد میں شعرا کے علاوہ نثر نگاروں کا کلام بھی پیش کرنا چاہیے۔‘‘
چونکہ لغت کی زبان صرف شعرا کی یا صرف نثر نگاروں کی زبان نہیں ہوتی ، یہ عالموں اور جاہلوں دونوں کی زبان ہوتی ہے اس لیے لغت میں معنی کے استنا دکے لیے مالک رام کے قول کے مطابق صرف شعرا کے کلام سے سند پیش کرنا مناسب نہیں۔نثر نگار بھی زبان کا استعما ل کرتے ہیں، ان کی زبان پر بھی بھروساکرکے اسے لغت میں شامل کیا جانا چاہیے۔’ فرہنگِ آصفیہ‘اور ’ نوراللغات‘ وغیرہ کے اندراج’ آدمی‘ کے استناد پر گفتگو کرتے ہوئے بہت سی نثری مثالیں بھی سامنے آتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ لغت نگار نے ایسی مثالوں سے استناد کرتے ہوئے استعمال زبان کے سیاق و سباق اور معنی افشائی میں معاونت کرنے والے متعدد عوامل سے اکثر صرف نظر کیا ہے جس کے سبب ان کا استناد صحیح معنوں میں استناد نہیں بن سکا ہے۔

Salim Shahzad
323, Mangalwar Ward 
Malegaon-423203 (Maharashtra)
Mob : 9890331137
اگر آپ رسالے کا آن لائن مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے لنک پر کلک کیجیے:۔



قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

سماجی شعور: تعارف اور اہمیت، مضمون نگار: عرفان احمد گنائی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 انسان طبعاًمعاشرت پسند اور سماجی واقع ہوا ہے۔ گرہوں اور ٹولیوں میں رہنے کی یہ خصلت ازل سے ہی اس کی گھٹی میں پڑی ہ...