5/6/18

مضمون : کتاب نورس : شاعری، مصوری اور موسیقی کا حسین امتزاج۔ سید یحییٰ نشیط






کتاب نورس : شاعری، مصوری اور موسیقی کا حسین امتزاج

سید یحییٰ نشیط
جنوبی ہند میں بہمنی سلطنت کا زوال پانچ نئی خود مختارحکومتوں کی تشکیل کی وجہ بنا۔ ان نئی ریاستوں میں ،قطب شاہی، عادل شاہی ، عماد شاہی ، برید شاہی اور نظام شاہی کا شمار ہوتا ہے ۔دہلی کی مغلیہ حکومت سے مقابلہ کرنے کی سکت ان ریاستوں میں صرف قطب شاہی اور عادل شاہیوں میں تھی لیکن یہاں کے سلطانوں نے جنگ کے مقابلے میں فلاح عامہ کی طرف توجہ دی اس لیے ان ریاستوں میں خوش حالی پھیلی ہوئی تھی اورہر طرف امن و اماں تھا ۔ 
سولھویں صدی کے بھارت کے سماجی حالات کا جائزہ لینے پر پتہ چلتا ہے کہ شمال میں اکبری اور جنوب میں قطب شاہی اور عادل شاہی حکومتوں میں چین و سکون کی وجہ سے عوام الناس فارغ البال تھے اور سامان نشاط کی طرف مائل تھے ۔درباروں میں مختلف فنون کے مظاہرے روزانہ کے معمولات میں داخل تھے اور بادشاہوں کے پسندیدہ علوم وفنون کو شاہی سرپر ستی حاصل تھی ۔یہی وجہ ہے کہ ان درباروں میں اس زمانے کے بیرونی ممالک کے فنکار جمع ہونے لگے تھے۔ خطاط عبدالرشید،، ظہوری، سنجر کاشی، ابراہیمی، ملک قمی ،ابو طالب کلیم ، رفیع الدین شیرازی ، فرشتہ وغیرہ اس کی بہترین مثالیں پیش کرتے ہیں۔یہی حال قطب شاہی دربار کا بھی تھا ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ فن و ادب کا شوق ان دونوں حکومتوں میں بام عروج پر پہنچ چکا تھا۔
اکبر اور محمد قلی قطب شاہ کا ہم عصر ،عادل شاہی حکومت کا وارث ابراہیم عادل شاہِ جگت گرو 1571 میں پیدا ہوا تھا۔علی عادل شاہ اول کو کوئی اولاد نہ تھی اس لیے اس نے اپنے بھائی شاہ تہماسپ کے بچوں کو اپنی اولاد کی طرح پالا پوسا اور ان کی پرورش و پرداخت کی ۔اس نے اپنی حیات ہی میں ابراہیم کو اپنا وارث بنا لیا۔علی عادل شاہ اول کے فوت ہوجانے کے بعدابراہیم عادل شاہ ثانی عادل شاہی حکومت کا 1580 میں بادشاہ بنا ۔اس وقت ا س کی عمر صرف نو برس تھی ۔اپنی سلطنت کا وارث بنالینے کی وجہ سے عادل شاہ اول نے ابراہیم کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی تھی ۔خود ابراہیم بھی نہایت ذہین تھا۔ ’بساطین السلا طین‘ اور’ تاریخ فرشتہ ‘میں ابراہیم کی ذہانت اور تعلیم سے اس کی دلچسپی کے متعلق لکھا ہے کہ وہ بچپن ہی سے کھیلوں میں مصروف رہنے کی بجائے پڑھائی میں مشغول رہتا تھااور دوسرے بچوں کی طرح اسے کھیل میں کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔بچپن ہی میں وہ حافظ قرآن ہوگیا تھا۔اسے زمانۂ طفلی ہی سے مصوری ،موسیقی اور دست کاری سے لگاؤ تھا۔ علی عادل شاہ اول کے انتقال کے بعد اس کی ملکہ چاند بی بی (ابراہیم عادل شاہ کی چچی )نے بھی اس کی تربیت کا خاص خیال رکھا کیونکہ ابراہیم اسے اپنی اولاد کی طرح عزیز تھا۔ 
ابراہیم عادل شاہ کے کمسن ہونے کی وجہ سے سلطنت کے کام وزراء کے ذمے دے دیے گئے تھے۔ ان میں کامل خاں ،کشور خاں اور دلاور خاں شامل تھے ۔ان کی بدعنوانیوں کا ابراہیم کو برسوں سامنا کرنا پڑا ۔1590 میں ان لوگوں سے ابراہیم کو چھٹکارا نصیب ہوا اور ابراہیم اب خود حکومت کے کاموں میں توجہ دینے لگا۔
عادل شاہی اور قطب شاہی سلطنتیں اگرچہ دو مختلف حکومتیں تھیں،پھر بھی انھوں نے ایک دوسرے سے تعلقات استوار کرنے کے لیے خاندانی رشتوں کو بڑھاوا دینے کی کوشش کی۔ علی عادل شاہ اول نے اپنی لڑکی کا نکاح سلطان محمد قلی قطب شاہ سے کیا تھا۔
(حدیقۃالسلاطین :مترجم خواجہ محمد سرور ،طبع اول 1985 ص۔103) 
اسی طرح سلطان محمد قطب شاہ کی لڑکی کا نکاح ابراہیم عادل شاہ سے ہوا تھا۔ابراہیم کی یہی بیوی چاند سلطانہ کہلائی ۔
ابراہیم عادل شاہ صرف فن کا قدر داں ہی نہیں بلکہ فن کا پارکھی بھی تھا۔اس کے درباری شاعر عبدل نے اپنی تصنیف’’ابراہیم نامہ ‘‘میں ابراہیم کے متعلق جو خامہ فرسائی کی ہے اس سے ادبیات اور لسانیات کے متعلق ابراہیم عادل شاہ کی فہم و فراست کا علم ہوتا ہے ۔عصر حاضر میں مابعد جدیدیت (Post Structurlism) کے نظریے میں لفظ ومعنی کی بحث کے دوران ژیک دریدا کا نام سامنے لایا جاتا ہے مگر لفظ و معنی کے اس نظریے کو سولھو یں صد ی میں ابراہیم عادل شاہ نے تفصیل سے بیان کر دیا تھا۔عبدل نے اس کا ذکر اپنے ابراہیم نامہ میں اس طرح کیا ہے 
سو توں شعر ہر ایک زباں بول یوں 
بھرے جوت معنی رتن تول جیوں
ارتھ بھید مہکار خوش بوئی باس 
ہو یوں شعر مجلس بچن کے الاس 
لجا عارفوں کی دکھا نظر ہاٹ 
ہر ایک جوت معنی بھرے کونہہ گھاٹ
ولے او رتن تو پتھر کھان جان 
امولک بچن نکلے دل درمیاں 
(عبدل[مرتبہ ،مسعود حسین خاں ]’ابراہیم نامہ ‘ علی گڑھ 1969 ص۔20-22) 
یعنی تو ہر زبان میں شعر کہہ لیکن ان کے ہر لفظ میں معنی کے موتی رولے ہوئے ہوں۔کیونکہ معنی الفاظ کے پھولوں کی خوشبو ہوتی ہے۔اس کی وجہ سے محفل ادب معطر ہو جاتی ہے ۔تو یہ اشعار کسی صاحب فن کو بتا ،تب تجھے علم ہوگا کہ ان میں معنی کا ظہور کیسے ہوا ہے ۔تجھے یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ ہیرے پتھر کی کان سے اور الفاظ دل سے نکلتے ہیں۔عبدل ابراہیم عادل شاہ ثانی کا درباری شاعر تھا۔اس کے علاوہ اس کے دربار میں ظہور ی ،باقر کاشی ،ملک قمی جیسے غیر ملکی فنکار بھی تھے ۔عبدل کو ابراہیم نے اپنے دربار کا ملک الشعراء قرار دیا تھا۔
ابراہیم عادل شاہ نے سنہ 1580سے سنہ 1627 تک یعنی سینتالیس برس حکومت کی ۔اس کے دور حکومت میں ہر طرف خوش حالی اور امن و سکون تھا۔وہ خود ادب نواز اور موسیقی کو پسند کرتا تھا۔اس نے بیجاپور کا نام بدل کر ’بدیا پور ‘ کر دیا تھا ۔اس نے ’نورس پور ‘ نام کا ایک شہر بھی بسایا تھا۔اس میں ایک محلہ صرف موسیقاروں کے لیے مختص تھا۔ اس محلے میں کم و بیش ایک ہزار فنکار اپنے مراتب کے لحاظ سے آباد تھے۔ ان میں کوئی ’گنی جنی ‘تھا توکوئی ’ڈھاڑی‘اور کوئی ’عطائی ‘تھا۔ ابراہیم نے انھیں بھی نئے نام عطا کیے جو موسیقار سلطان کا استاد ہوتا اسے ’حضوری‘ ،جو دربار میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتا اسے’درباری‘ اور جو موسیقار دربار کے باہر شہر میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتا وہ ’شہری ‘ کہلاتا تھا۔ 
ابراہیم عادل شاہ کو موسیقی سے بڑا لگاؤ تھا ۔اسد بیگ نے اپنی کتاب میں ابراہیم کی اس دلچسپی کا ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ ’ایک دن بادشاہ موسیقی کی نسبت ایک گفتگو میں اس قدر محو تھا کہ کسی کے پوچھے گئے سوال کا جواب دینے کا اسے خیال تک نہیں رہا۔اس نے اکبر اعظم کے درباری موسیقار تان سین کے متعلق ایک بار یہ دریافت کروایا کہ وہ کیسا گاتا ہے ،کھڑا رہ کر یا بیٹھ کر۔ جب اسے اس سوال کا جواب دیا گیا کہ تان سین صبح کے وقت دربار میں کھڑا رہ کر گاتا ہے اور شام میں یا عید تہوار کے موقعوں پر بیٹھ کر گاتا ہے ۔یہ جواب سن کر عادل شاہ نے کہا کہ ’موسیقی کی سماعت کے لیے وقت مقرر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں،نغموں کا لطف کبھی بھی لیا جا سکتا ہے ۔کھڑے رہ کر نغمہ سرائی کرنے کی بجائے بیٹھ کر کرنے میں نغمہ گو کی تعظیم ملحوظ رہتی ہے ۔کیونکہ اسے بھی عزت ملنی چاہیے۔اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ابراہیم عادل شاہ ثانی موسیقی کے میدان میں باریک باریک باتوں کا خیال رکھتا تھا۔ 
’نورس‘ ابراہیم عادل شاہ ثانی کا پسندیدہ لفظ ہے یہ لفظ اسے اتنا پیار ا تھا کہ اس نے کئی اشیا کے نام ا س لفظ سے جوڑ دیے تھے ۔مثلاّ’کتاب نورس‘ ، ’شراب نورس‘،’نورس علم ‘ ، ’نورس پیکر ہاتھی‘ ،’نورس مہر‘ ، ’نورس محل‘ ،’لشکر نورس‘ وغیرہ ۔’کتابِ نورس‘ فن موسیقی کی کتاب ہے ۔اس میں مختلف راگوں میں گائے ہوئے ابراہیم کے 59 گیت ہیں ۔راگ بھوپالی میں 2 ،رام کری میں2، بھیروراگ میں 6 ، ہجز میں 1 ، مارو راگ میں 2 ، آساوری میں 2 ،دیسی راگ میں2، پوریا میں 1، براری میں1، ٹو ڈی میں4، ملھار راگ میں5، گوری میں2 ، کلیان راگ میں4، دھناسری میں2، کنڑا یا کرناٹی میں19، اور کیدار راگ میں 4 ۔ نورس کے ہر گیت کو انترا، بین اور آبھوگ سرخیوں کے تحت علاحدہ علاحدہ کیا گیا ہے ۔ گیت کے ہر حصے میں دو، تین یا چار مصارع ہیں۔ فن موسیقی کی رو سے ہر گیت چار حصوں میں تقسیم ہوتا ہے ۔ اِستھائی، انَترا، سنچاری اورآبھوگ ۔آسانی کے لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ا ستھائی یعنی گیت کا اول حصہ ، انترا دوسرا ،سنچاری تیسرا اور آبھوگ چوتھا حصہ ۔لیکن کتاب نورس میں صرف گیت کے تین حصوں کا ہی ذکر ہے ۔اس میں گیت کے اول حصے کا کہیں ذکر نہیں ملتا ۔ ابراہیم نے سنچاری کی جگہ ’بین ‘ کا استعمال کیا ہے ۔فن موسیقی میں یہ اس کی اصلاح یا ایجاد تسلیم کی جاتی ہے ۔مغل بادشاہ جہانگیر نے اسے موسیقی میں نئی ایجاد سے تعبیر کیا ہے ۔
’دھرو پد ‘ ،گانے کے فن میں استھائی ،انترا ،سنچاری اور آبھوگ ان چاروں حصوں کا خیال رکھا جاتا ہے ۔لیکن فی زمانہ ’خیال ‘ گاتے وقت استھائی اور انترا ہی پر توجہ دی جاتی ہے ۔’ خیال‘ ایرانی فن موسیقی کی اصطلاح ہے جسے ہندوستانی موسیقی نے قبول کر لیا ہے ۔ابرہیم نے دھرو پد اور خیال کے درمیان کے صرف تین حصوں انترا ،بین اور آبھوگ ہی کواپنے گیتوں میں استعمال کیا ہے۔
(بحوالہ: ’کتابِ نورس‘ ،پروفیسر للیتا کرولکر ،مشمولۂ سہ ماہی [مراٹھی ،اکشر وانگمیہ]جنوری تا مارچ2017 ص122-123)
مصوری اور فن موسیقی کا امتزاج 
کتاب نورس میں مصوری اور فن موسیقی کا حسین امتزاج بھی پایا جاتا ہے ۔سترھویں صدی میں ایک بڑے فنکار پنڈت ویکن مکھی نے علم موسیقی پر ایک کتاب بعنوان ’چتور دنڈی پر کاشیکا‘ لکھی تھی اس کتاب اور ’انڈین مینی ایچرس‘ کے حوالے سے پروفیسر للیتا کرولکر اپنے مضمون میں لکھتی ہیں کہ ’پندرہویں صدی کے نصف ا ول تک موسیقی کے راگوں کو تصویروں میں مجسم کیا جاتا تھا۔ انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ مذکورہ کتابوں میں قدیم زمانے میں گائے گئے ’شلوک ‘اور اشعار کی تصویریں انڈین مینی ا یچر س میں درج ہیں۔ ‘ گزشتہ صدی کے ربع آخر میں صادقین مرحوم نے اقبال کے اشعار کو جس طرح تصویروں میں ڈھالا تھا ،وہ بھی اسی قدیم فن کی مثال ہے ۔بہر حال اس فن کو ابراہیم نے نہایت سلیقے سے استعمال کیا ہے ۔بیکانیر کے عجائب گھر میں محفوظ ’راگ مالا ‘ تصویریں دراصل دکنی راگ مالا ہی ہیں۔ اس کی تصدیق مشہور مورخ موتی چند اور کھنڈیل وال نے کی ہے ۔’راگ مالا‘ کی بارہ تصویروں میں دو ’کامود‘ اور’ دھناسری‘راگ کی ہیں اس کے علاوہ ’بسنت‘ اور’کانڈا‘ راگوں کو بھی متشکّل کیا گیا ہے ۔ موتی چند اور کھنڈیل وال ان دونوں مورخین کا یہ بھی کہنا ہے کہ’عادل شاہ ثانی یہ اکیلا بادشاہ ہوا ہے جس نے راگوں کو تصویروں میں ڈھالنے کے خیال کوعملی صورت بخشی اور موسیقی کی لے اور آہنگ کو مصوری کے رنگ ا ور خطوط عطا کیے ۔ ’سہ نثرظہوری‘ کے مصنف ظہوری نے بھی لکھا ہے کہ ’عادل شاہ خود بہترین مصور تھا ۔ اس نے کتابِ نورس میں بعض راگوں کی لفظی تصویریں کھینچی ہیں ۔ مثلاًبھیرو راگ کی وہ یوں تصویر کشی کرتا ہے : 
.1 بھیرو راگ 
بھَیرَو کَر پور گُورا بھال تلک چندرا
تِری نِیترا جٹا مکٹ گنگا دھرا
بین
ایک ہست رُنڈ نرا تری سول جُگل کرا
باہن بلی ورد سیت جات گسائیں ایشورا 
کاس کُرت کُنجر پرشٹھ چرم ویاگَرا
آبھوگ 
سرپ سنگار ٹشٹھن پرچھائیں کلپ ترا
رمنی داون مردنگ دھام کیلاس تدوپرا
ابراہیم اُ کھّت لچّھن راگ بھیرو مہا اُتم سندرا
(ابراہیم عادل شاہ ثانی [مرتبہ :پروفیسر نذیر احمد ]’کتابِ نو رس‘ ،کرناٹک اردو اکادمی بنگلور 1998 ص۔70-71 )
بھیروراگ کی علامتوں کی وضاحت کرتے ہوئے ابراہیم عادل شاہ شنکر دیوتا کی خوبیاں بیان کرنے لگتا ہے ۔دراصل بھیرو شنکر ہی کا ایک توصیفی نام ہے اور اس سے منسوب جو راگ ہے اسے بھیرو راگ کہا جاتا ہے ۔اس راگ کی لفظی تصویر گویا شنکر کی لفظی تصویر ہی ہے ۔شاعر کہہ رہا ہے کہ بھیرو (شنکر) کافور کے رنگ کے ہیں ان کی پیشانی پر تیسری آنکھ اور چاند ہیں ۔ان کے بالوں کی لٹوں میں گنگا ہے ۔ ان کے ایک ہاتھ میں انسان کا سر اور دوسرے ہاتھ میں ترشول ہے ۔وہ سفید راکھ بدن پر ملے ہوئے ہے ۔بیل ان کی سواری ہے اور وہ ہاتھی اور شیر کی کھال اوڑھے ہوئے ہیں۔سانپ ان کے گلے کا ہار ہے ۔وہ کلپ ترو کے نیچے شیر کے چمڑے پر بیٹھے ہیں ۔کیلاش پہاڑ پر شنکر کے پیچھے ایک خوبصورت حسینہ رقص میں مصروف ہے ۔ راگ بھیرو کی ایسی تصویر کشی قدیم کتابوں میں ملتی ہے لیکن میں نے اسے نئے انداز سے پیش کیا ہے ۔‘
.2 اساوری راگ
ابراہیم عادل شاہ ثانی اساوری راگ کو ایک حسین عورت سمجھ کر اس کی ستائش کرتا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ 
اساوری استری گوری چنپک سار
رگت پتنبر کنچلی نیلی سرو سنگار 
جینتی جینتی ہنس بولت پی پیں چوپر پھانسے ڈار
انیچت وستر نر کر دھر نار
چنچل چپل چکھ پیترم کو اینک پیار
یو لچھن آکھیں ابراہیم کَوِت کار
( ایضاً:کتاب نو رس ص۔83)
یعنی عادل شاہ کو یہ راگ اساوری ایک حسین عورت محسوس ہوا ۔یاسمین جیسی رنگت والی ،زعفرانی لباس اور مختلف قسم کے زیورات پہن کر وہ اپنے عاشق کا دل موہ رہی ہے ۔وہ اپنے چنچل نینوں کا جال اپنے عاشق پر ڈال رہی ہے ۔ابراہیم کو اساوری راگ ایک یوگنی سا محسوس ہورہا ہے ۔اس طرح اساوری راگ کو ابراہیم نے مجسم کردیا ہے اور مصوری و موسیقی کا خوب صورت امتزاج اپنے اس گیت میں کر دیا ہے ۔
.3 رام کری راگ 
’راگ ساگر‘ علم موسیقی کی اس قدیم کتاب میں رام کری راگ کو عورت کی شکل میں نہایت شجیع بتایا گیا ہے ۔اس کی تصویر میں اس کے ایک ہاتھ میں تیر و کمان ہے اور وہ جنگ کے لیے آمادہ دکھائی دے رہی ہے ۔وہ اپنے محبوب کی راہ تک رہی غصے میں بیٹھی ہے ۔تیور یہ بتارہے ہیں کہ وہ عاشق کی کسی بات کو نہیں مانے گی۔ ابراہیم عادل شاہ نے بھی رام کری راگ کی کچھ اسی قسم کی لفظی تصویر اپنے گیت میں کھینچی ہے وہ کہتا ہے کہ :
رامکری بنا آیو سیج سنگرام چت چاہیو مچونپ چلی چنچل چپلا
سکھیاں سنگت سندری ہست کھیلت چہاڈ پَیترم آنوکھی ٹھگلا
آبھوگ
مَگُتا بھوشن بھوشیتا سیت رکتا سَر چَتَگ چھبیلا 
ابراہیم رامکری راگنی کستوری شیام سُکیش کیسے دھمّلا
یعنی رامکری نے سیج (تخت عروسی) کو میدان کارزار بنا دیا ہے ۔وہ بجلی کی طرح چنچل ہے ۔وہ اپنے عاشق کو نہایت عیاری کے ساتھ دھوکہ دے کر اپنی سہیلیوں کے ساتھ مسکرارہی ہے ۔اس نے سرخ کپڑوں کا جوڑا پہنا ہے اور زیورات سے اپنے بدن کو سجایا ہے ۔اس نے اپنے بالوں میں مشک بھرکر جوڑا باندھا ہے ۔ ابراہیم نے رام کری کی جو یہ تصویر بنائی ہے ،وہ مصوری کے فن کی اعلیٰ مثال ہے ۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشیں رہے کہ رام کری راگ نہیں، راگنی ہے ۔اس لیے شاعر نے اس کے نسائی اوصاف ہی کو تصویر میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے ۔ 
.4 کانڑا راگ 
ابراہیم عادل شاہ نے اس راگنی کی تصویر کشی روایت سے ہٹ کر کی ہے ۔ابراہیم کہتا ہے کہ یہ راگنی کیوڑے کی طرح ہے ۔اس نے نیلی ساڑی اور پیلے رنگ کی چولی پہنی ہے ۔اس کے ہاتھ میں سفید کمل کا پھول ہے ۔کمل جیسی خوبصورت اس کی آنکھیں ہیں۔وہ اپنے عاشق کی راہ تک رہی ہے ۔البتہ فن موسیقی میں کانڑا راگنی کو ایک دلیر عورت بتایا گیا ہے ۔اس کی آنکھیں شعلہ نما ہیں۔سفید کپڑے پہنے اس عورت کے ہاتھ میں تلوار ہے ۔کنڑا راگنی کی اس ر وایتی تصویر میں اس کے چاروں طرف آگ کا ہالہ ہے۔ ابراہیم نے اس روایت سے ہٹ کر کانڑا راگ کی تصویر کشی مختلف انداز میں کی ہے ۔وہ کہتا ہے 
کرناٹی گوری مانو کیتکی بیچ سیت پتر 
انترا
ساری نیلی کُنچلی پیلی کَمُد کر کمل نِیتر 
آبھوگ
کوئل کو کے کرڑا کرت وسنتی مولے کلپ ترُ 
ابراہیم منائے بِرہے گھیری اب آئیں لال کھچونڈر
.5 کیدار راگ
ابراہیم نے اس راگ کی بھی قلمی تصویر کھینچی ہے ۔اپنے محبوب کے فراق میں نہایت کمزور ہوئی یہ محبوبہ سفید رنگت لیے ہوئے ہے ۔اس نے سفید لباس ہی زیب تن کیا ہے ۔اس نے اپنے جسم پر صندل کا لیپ کیا ہے مارے شرم کے اس کی نگاہیں زمین پر ٹکی ہوئی ہیں اور اپنے ناخنوں کے ذریعہ وہ زمین میں نقش بنا رہی ہے ۔شاعر کہتا ہے کہ 
کیداری بالی برِہنی اتِ سندر کپول کر دھر 
انترا
کِروشا نِگی کُٹِل کیس پانڈو گال چمر سیت دَسُر
آبھوگ
چندن رس پور سنِچمانا نوشٹا کمد پتر گوری ہِمکر
ابراہیم اُکھّت لکھنتی نکھ سمیت چِتر مہی تدو پر 
یعنی کیداری ایک نوجوان خوب صورت عورت ہے ۔وہ ہاتھوں پر اپنے رخسار ٹکائے ہوئے ہے۔وہ بہت دبلی پتلی ہے ۔اس کے بال گھنگریالے ہیں۔اس کے چہرے کا رنگ سفید ہے اور اس کا لباس بھی سفید رنگ کا ہے ۔وہ صندل اپنے بدن پر مل رہی ہے وہ کمل کی پنکھڑی کی طرح نازک اورچاند کی طرح روشن ہے ۔وہ زمین پر اپنے ناخنوں سے تصویر بنا رہی ہے ۔ان پانچ راگوں کی قلمی تصویریں ابراہیم عادل شاہ نے اپنے گیتو ں میں کھینچی ہیں ۔اس گیت کے بعد ہی ایک دوہرہ ہے اس میں کلیانی راگ کی تصویر کشی کی گئی ہے مگر علم موسیقی میں دوہروں میں راگوں کی تصویر کشی کی روایت نہیں ملتی ۔مگر بقول پروفیسر نذیر احمد مسٹر گیانی اسے بھی کلیا ن راگ کی مصوری قرار دیتے ہیں۔ 
(ایضاً:کتابِ نورس ص۔131)
اس طرح کتاب نورس میں ان پانچ راگوں کو اشعار کے سہارے متشکل کیا گیا ہے ۔یہاں ایک امر ضرور کھٹکتا ہے کہ ابراہیم عادل شاہ نے اپنی اس کتاب میں سترہ راگوں میں 59 گیت لکھے ہیں مگر صرف پانچ راگوں کی قلمی تصویر کھینچی ہے ۔کتاب نورس میں اس کے علاوہ بھی قلمی مرقعے موجود ہیں ۔ ان میں دیوی دیوتاؤں کی ان کے اوصاف کے مطابق تجسیم کاری کی گئی ہے ۔ مثلاً ابراہیم نے سرسوتی دیوی کی مرقع نگاری میں بہت زیادہ توجہ دی ہے ۔اور ہندو اسطوری فکر کو اس میں روا رکھا گیا ہے۔ سرسوتی کی لفظی تصویر وہ گیت نمبر 53 میں اس طرح پیش کرتا ہے 
سرستی مہا سندری آچھے گوری سیت دستر بھج چتر
انترا
ایک ہست سنگِت پُستک دوجے پانڑی پھَٹِک سمرن
تیجے شیہ سیت سُوا چوتھے انبج کر 
آبھوگ
تن منجھن نین انجن موتِن اَبھرن گنچن پینجن چکرنگ باہن 
سمن سہاسن وسنتی (دھاپی) کُمد تر
ابر اہیم سرو دیو دیوی تھاڈے بھگت کرت نگر کوٹ
رانڑی سیس چھتر 
یعنی سرسوتی نہایت خوب صورت ہے اور سفید لباس پہنے ہوئے ہے ۔اس کے چار ہاتھ ہیں ایک ہاتھ میں کتابِ موسیقی ہے ۔دوسرے ہاتھ میں سفید موتیوں کی مالا(تسبیح) ہے۔ اس کے تیسرے ہاتھ میں سفید طوطا (سوا) اور چوتھے ہاتھ میں کمل ہے ۔پروفیسر نذیر احمد نے اس گیت کی وضاحت کرتے ہوئے یہ نوٹ لگایا ہے کہ ’سوا طوطے کو کہتے ہیں اور (اس کتاب کے )آخری دوہرے میں سرسوتی کے تیسرے ہاتھ میں (بھی)شکہ بتایا گیا ہے ۔شک بھی طوطے کو کہتے ہیں۔لیکن سرسوتی کوطوطے سے کوئی مناسبت نہیں معلوم ہوتی۔ البتہ اس کے ہاتھ میں بین ہے لیکن ان دونوں لفظوں میں سے کسی کے معنی یہ نہیں ہے ۔‘ 
(ایضاً:کتاب نو رس، مرتبہ :پروفیسر نذیر احمد ص۔128)
اس سلسلے میں میں نے مراٹھی کے پروفیسر جناب ڈاکٹر پربھونے سے رجوع کیا ۔ہندو اساطیر اور سنسکرت ادب پر ان کی بڑی گہری نظر ہے ۔انھوں نے سرسوتی وندنا پر ایک سنسکرت شلوک اس کے مراٹھی معنی کے ساتھ مجھے بھیجا ۔اس میں سرسوتی کے ہاتھ میں طوطے کا ذکر ہے ۔انھوں بتایا ہے کہ :
(مراٹھی کا اردو ترجمہ )’’ سرسوتی کے متعلق بعض (سنسکرت) اشعار یا تصویروں میں وہ موسیقی کی دیوی ہونے کے ناطے اس کے ہاتھ میں طنبورا بتایا جاتا ہے پھر بھی سنسکرت کی قدیم روایتی شاعری میں اس کے ہاتھ میں طوطا بھی بتایا گیاہے ۔
Dorbhiryukta chaturbhi sphatikmaninibhairakshmalanddhana
Hastenaiken Padm Sitampi cha Shunkam pustakam charepan
اس استوتر(شعر) میں سرسوتی کے ایک ہاتھ میں موتیوں کی مالا ،دوسرے ہاتھ میں سفید کمل کا پھول تیسرے ہاتھ میں طوطا اور چوتھے ہاتھ میں کتاب ہونے کی تفصیل ہے۔ آج بھی گائے جانے والے اس استوتر میں سرسوتی کی جو لفظی تصویر دکھائی دیتی ہے وہ شاید ابراہیم کے پیش نظر رہی ہوگی ۔ ایساہمیں محسو س ہوتا ہے۔پروفیسر پربھونے یہ بھی کہتے ہیں کہ شاید یہی سنسکرت استوترابراہیم عادل شاہ کے سامنے رہا ہو ،کیونکہ 53واں گیت مذکورہ استوتر کا ہوبہو دکنی ترجمہ ہے ۔انھوں نے لفظ ’شک‘ کی معنوی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ شک اس سنسکرت لفظ کے معنی طوطا ہوتے ہیں۔یہ لفظ شک منی کی جانب بھی اشارہ کرتا ہے ۔شک منی گرو ویاس کے نہایت ہوشیار فرزند تھے ۔ انھوں نے ویاس گرو کی پڑھائی ہوئی بھاگوت گیتا پریکشت راجا کو سنائی تھی۔شری مد بھاگوت کے متعلق کہا گیا ہے کہ یہ ویدنما درخت کا پکا ہوا پھل ہے ۔طوطا ہر میٹھے پھل ہی پر چونچ مارتا ہے ۔اس بھاگوت نما پھل کو بھی شک منی نے چکھاہے کیونکہ وہ میٹھا ہے ۔یہاں ’شک ‘ علم ودانش کا استعارہ ہے اور سرسوتی دیوی بھی علم کی دیوی کے روپ میں پوجی جاتی ہے ۔‘‘
(مشمولۂ ’اکشر وانگمیہ ‘جنوری ۔مارچ 2017 ص۔55-56)
کولکتا ریویو جولائی 1901 میںBird Mythology کے عنوان سے ایک مضمون شائع ہوا ہے ، اس میں طوطے کے متعلق ہندو اسطور کی وضاحت کی گئی ہے ۔اس مضمون میں درج ہے کہ ۔
In the hindu scriptures, a very high place is assigned to the Parrot, saraswati, theMinerva of Hindu pantheon, having assumed the form of this bird for the purpose of narating the Puranas 
[Bird Mythology, calcutta Review volume cx3, July1901, P.74]
مصوری اور شاعری کا امتزاج 
ابراہیم عادل شاہ کی کتابِ نورس میں قارئین کو جگہ جگہ مصوری اور شاعری کا حسین امتزاج بھی نظر آئے گا۔ دراصل ابراہیم جتنا موسیقی کا دلدادہ تھا اتنا ہی سخن دان و سخن شناس بھی تھا ۔ کتابِ نو رس کے گیت شاعری کا حسین مرقع ہیں ۔ان میں شعریت کمال پر پہنچی ہوئی ہے ۔ مضمون و معنی آفرینی کا حسین سنگم شاید ہی کہیں اور اتنے منظم طریقے سے دکھائی دے ۔ابراہیم نے اپنے گھوڑے کی تعریف کی ہے ، اپنے طنبو رے کا ذکر کیا ہے ،اپنی چچی کی تعریف و تحسین کی ہے اور شاعری کے لیے ایسے غیر مانوس مضامین میں بھی اپنے خلاق تخیل سے ایسی پچی کاری کی ہے کہ ان مضامین کے حسین مرقعے ہمارے سامنے آجاتے ہیں ۔ ابراہیم نے واردات عشق کی باتوں میں تو بلا کا جادو جگایا ہے ۔آج دکنی سے ہماری دلچسپی دانستاً یا نا دانستاًکم ہوگئی ہے ورنہ ابراہیم کی کتابِ نورس میں شعری تنقید سے دلچسپی رکھنے والوں کے تفننِ طبع کا بہت ساسامان محفوظ ہے۔کوئی آئے اور اس دشت کی بھی سیاحی کرے ۔ذرا اس لفظی تصویر پر بھی غور فرمایئے : 
پنم نِس بِرہنی لاگت سوم آوت مومناون
موُ بِرہی اگن جل دیکھت آوت مُو ہیم کرن 
اب گرمی بھیدی اِندوُ کیا روپ لچّھن
روِی ہو پرگٹ دسے ساریاں کیرے لوچن 
ابراہیم سوُ اُس لگن بھول پُرے بَہُو پَرَان
سُور پُوج سیِوا کیِجی آوت جگا جوت پتی بھان 
(ایضاً: کتابِ نورس ص۔133) 
در مقام کیدارا نورس اس گیت میں شاعر اپنی فراق زدگی کو بیان کرتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ ’چودھویں رات میں مجھے آتش فراق میں جلتا ہوا دیکھ کر ازراہ ہمدردی چاند نے چاہا کہ میری جلن دور کردے مگر میرے فراق کی آگ میں اتنی تپش تھی کہ چاند کی ماہیت بدل گئی اور چاند گویا آفتاب بن کر صبح نمودار ہوا ۔اسی دن سے لوگ آفتاب کی پرستش کرنے لگے۔‘‘ یعنی بنی نوع انسان کی ر اہِ عشق کے پہلے مرحلے ہی سے آفتاب پرستی کا رواج عام ہوا۔ یہاں شاعری میں معنی آفرینی تلاش کرنے والے آئیں اور ابراہیم عادل شاہ کی پیش کردہ اس قلمی تصویر کو چوم لیں ۔ فطرت کے حسن کی یہ قلمی تصویر بھی ملاحظہ کیجیے :
سوم دور سیت مُد سیام مانو نین سندری روپ لچّھن
بادر آنچر تا پر مرت لا گے کب گُپت کب پَرگٹ دسے بدن 
(ایضاً ص۔72) 
یعنی مہتاب اپنی روشنی کی وجہ سے ایک خوب صورت عورت کے چہرے کی طرح دکھائی دے رہا ہے۔بادل چاند کے چہرے پر ایسے دکھائی دے رہے ہیں جیسے کسی حسینہ کے چہرے کا آنچل ، کہ ہوا کی وجہ سے کبھی چہرہ چھپ جاتا ہے تو کبھی کھل جاتا ہے ۔ یہاں بادلوں کی آڑ میں چاند کے چھپنے اور نکلنے کی کیفیت کو بڑے مؤثر انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک خوب صورت تصویر سامنے آجاتی ہے ۔
گزشتہ سطور میں بتایا گیا کہ ابراہیم نے گھوڑے اور اپنے طنبو رے کا بھی ذکر اپنے گیتوں میں کیا ہے لیکن اس میں بھی شعریت اور مصوری کا خاص خیال رکھا ہے ۔ذیل کا شعر بطور مثال پیش ہے 
موتی خاں ساگر اپما پور
تا پر تنت کَلول لَھو گُو ر
یُو مَگُتا سمدر وُ جل ساری
یے جل میٹھ وُ جل کھاری 
وُ پور جھک دادر یو پور گنی جن
ایک جل جِیو ایک بِدّیا من
مُو بِدّیا اَدَک کِرپا کی پروردگار
گر ابراہیم تنبور کار
ان اشعار میں ابراہیم کے شاہی طنبو رے موتی خاں کا ذکر ہے ۔شاعر کہتا ہے کہ ، ’ موتی خاں (شاہی طنبورہ )متموج سمندر کی طرح ہے ،جس کی صدائے زیر بم سمندر کی اٹھتی بیٹھتی لہروں کی مانند ہے۔موسیقی کی لَے کے زیر و بم کوفن موسیقی میں لگھو گرو کہتے ہیں۔اس لگھو گرو کو شاعر نے سمندر میں اٹھنے والی موجوں سے تشبیہہ دی ہے ۔اس کے بعد شاعر سمندر اور طنبورے کا موازنہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ دنیا کے سمندر میں صرف پانی ہی پانی ہے جبکہ طنبورے میں راگ کے موتی بھرے ہیں۔سمندر کا پانی کھاری ہے اور اس میں مچھلیاں اور مینڈک پائے جاتے ہیں جبکہ طنبورے میں موسیقی بھری رہتی ہے ۔سمندر میں جانور پائے جاتے ہیں اوراس میں موسیقی کا علم ۔اے خدا تو اپنے کرم سے ابراہیم کی طنبورہ نوازی کے علم کو فزوں تر کر دے ۔
اوپر کی تمام مثالوں سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ ابراہیم عادل شاہ ثانی کے گیتوں میں جہاں موسیقی اور شاعری کا امتزاج ہوا ہے وہاں اس کی شاعری میں محاکاتی عنصر عود کر آیا ہے ۔اس نے فطرتِ انسانی اور مظاہرِ قدرت کی ایسی زبردست تصویر کشی کی ہے کہ ایک زندہ شے مجسم نظر آتی ہے ۔صنعت تجسیم کی ایسی کئی مثالیں ہم ان گیتوں میں بآسانی تلاش کر سکتے ہیں۔ابراہیم کی اس کتاب کو بالعموم موسیقی کی کتاب ماناجاتا ہے مگر اس میں شعریت کے عنصر کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ابراہیم نے امور سلطنت کے ساتھ ساتھ فن موسیقی ،مصوری اور شاعری تینوں پر اس گہرائی سے نظر ڈالی ہے کہ استادان فن میں اس کا شمار ہوتا ہے ۔
کتابِ نورس کا شعری مرتبہ 
کتابِ نورس اگرچہ فن موسیقی کی کتاب مانی جاتی ہے مگر ابراہیم عادل شاہ ثانی نے اس میں شاعری کے جواہر بھی جمع کر لیے ہیں۔اس میں نہ صرف یہ کہ صنعتوں کا منظم نظام پایا جاتا ہے بلکہ مضمون آفرینی ،خیال آفرینی اور معنی آفرینی کا ایسا خزینہ بھی اس میں جمع ہے جس کی بعض مثالیں شاید اردو شاعری میں بھی نہ مل سکیں ۔اس کے قلزمِ شاعری میں وسعت نہیں تعمق ہے اس لیے معنی کے گوہر آبدار اس میں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔اس کے گیت نما راگوں کی زبان اگرچہ غیر مانوس اور قدیم اردو کانمونہ ہونے کی وجہ سے سمجھنے میں دشوار ہے لیکن اس کی تہہ میں اتر کر ہم شاعری کے فن کی اعلیٰ مثالیں تلاش کر سکتے ہیں۔ 
کتابِ نو رس کے تمام 59گیت مضامین کے اعتبار سے مختلف ہیں۔ہر گیت دوسرے سے علاحدہ ہے ۔لیکن ان میں نازک خیالی اور عشقیہ جذبات کی عکاسی میں جو نرم اور ملائم احساس کی ترجمانی ہوئی ہے وہ ہر پر امنگ دل کو مسحور کرنے والی اور تخیل کے دریچے وا کرنے والی ہے ۔سلطنتی امور کو پورا کرتے ہوئے شاعری کے لیے وقت نکالنا اگرچہ ممکنات میں سے نہیں ،مگر ابراہیم نے ان حالات میں بھی ایسی شاعری کی ہے کہ اس میں سیاسی افکار کا نام و نشان تک دکھائی نہیں دیتا ۔ اس کی شاعری کی فضا میں بادصرصر وسموم کا نہیں بادصباکا احساس ہوتا ہے اسی لیے موسیقی کی دھن میں یہ گیت گائے جاتے ہیں تو دل پر ایک کیف پرور اثر طاری ہو جاتا ہے ۔چنانچہ بادشاہ جہانگیر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ’ وہ جب اجمیر میں 1613 میں قیام پذیر تھا تو اس نے اختر خان موسیقار کو ابراہیم عادل شاہ کی کتابِ نورس کے گیتوں کے دھرو پد گانے کا حکم دیا تھا ۔اختر خان نے اس وقت یہ بھی کہا تھا کہ ابراہیم کے یہ دھرو پد اسی کے ایجاد کردہ ہیں ‘‘۔
(کتابِ نو رس [مرتبہ نرملا جوشی ،انگریزی ترجمہ ] بھارتیہ کلا کیندر نئی دہلی 1956، ص۔48)
کتابِ نورس کی ادبی حیثیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ خود ظہوری نے اپنی کتاب سہ نثر ظہوری میں اس کے فارسی ترجموں کی نشاندہی کی ہے ۔ 
کتاب نورس کی شاعری (گیتوں )کو ہم مضامین کے لحاظ سے چارحصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ (1)ہندو دیو مالا سے متعلق اسطوری فکر کے حامل گیت (2) نعتیہ اور منقبتی گیت (3) ذاتی اور خاندانی پس منظر کے حامل گیت اور(4)واردات حسن و عشق کے حامل گیت ۔ذیل میں ان کا تفصیلی جائزہ مقصود ہے ۔
الف) ہندو دیو مالا 
ابراہیم عادل شاہ ثانی نے اپنی کتابِ نورس کی ابتدا سرسوتی وندنایا اس کی توصیف بیانی سے کی ہے ۔پو ری کتاب میں اس نے تین گیتوں میں اس دیوی کے اوصاف نہایت عقیدت کے ساتھ بیان کئے ہیں۔اس کے علاوہ اس نے مختلف گیتوں میں ہندوؤں کے دیگر دیوتاؤں کا بھی ذکر کیاہے ۔ان دیوتاؤں کی اوصاف بیانی میں اس نے ہندو اسطوری فکر کا برابر خیا ل رکھا ہے بلکہ اس سے سرِ مو بھی انحراف نہیں کیا۔دیو مالا سے متعلق ان گیتوں میں سرسوتی ،شنکر ،پاربتی ،گنیش،اندر وغیرہ کا عقیدت مندانہ انداز میں ذکر ہوا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ عقدت کی شاعری شعریت سے عاری رہتی ہے لیکن ابراہیم کے گیتوں میں عقیدت پر شعریت کا ملمع دکھائی دیتا ہے ۔یہاں چند مثالین پیش ہیں ۔
گنپتی مورت ہست میگھ مد بر کھت پانی 
دنت دامنی گھنٹ گھور گھورمنڈان بھال بدھو بانی 
سروتی پوتّر سوانت گھن جل کیسیں جی جانی 
ابراہیم نورس نگُتا نکست یا کارن نَہچیِں مانی 
یہ گیت ملار راگ میں گانے کے لیے لکھا گیا ہے ۔یہ راگ بالعموم بارش کے موسم میں گایا جاتا ہے اور گنپتی اتسو بھی بارش ہی میں منایا جاتا ہے۔ اسی مناسبت سے اس گیت میں گنپتی یعنی گنیش کے اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔ہندو کلینڈر کے مطابق برسات کے موسم کے چارماہ کوآٹھ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ہر حصے کو نکشتر کہتے ہیں ان میں ایک نکشتر کا نام ’ہست ‘ یعنی ہاتھی ہے ۔شاعر کہتا ہے کہ ہست نکشتر ،جس کی شکل ہاتھی یعنی گنیش جیسی ہے ، میں بادل مستی میں جھوم جھوم کر برستے ہیں۔اس نکشتر میں کڑکنے والی بجلی گویا گنیش ہاتھی کے دانت ہیں بادلوں کی گرج گنیش کے گھنٹے کی آواز ہے اور آسمان میں دکھائی دینے والی قوس قزح سرسوتی کی پیشانی ہے۔سرسوتی ابر نیساں (سواتی) کے پانی کی مانند ہے ،جس پانی سے موتی پیدا ہوتے ہیں۔اسی لیے ابراہیم کے دل نے اسے تسلیم کر لیا ہے ۔یہاں موسم برسات کی عکاسی میں دیوتاؤں کی توصیف بیانی کا امتزاج قابل تعریف ہے۔عقدت اورحسن فطرت کا ایساامتزاج اردو شاعری میں شاذہی دکھائی دیتا ہے۔

ب) منقبتی گیت 
ابراہیم عادل شاہ نے ہندو دیوی دیوتاؤں کے ساتھ ہی اولیائے کرام کی ثناگستری میں بھی نغمے آلاپے ہیں۔گیت نمبر گیار ہ میں وہ خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کی تعریف اس طرح کرتا ہے :
من ساگر دان مَگُتا چکرنگ جگ پور سرس 
سید محمد پیر مدت یو روشنائی
اے ! سید محمد (حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز )آپ کا دل سمندر ہے آپ کی سخاوت موتی ہے اور دنیا ہنس ہے (جو ان موتیوں کو چگ رہی ہے یعنی آپ کے فیض سخاوت سے متمتع ہو رہی ہے ) ایک اور گیت میں اس نے حضرت گیسو دراز کی قبر کو سیپ ،صاحبِ قبر کو موتی، دریا کوقبر کا غلاف اور آسمان کو آپ کے مقبرے کے گنبد سے تعبیر کیا ہے ۔عقیدت کی شاعری میں تشبیہات اور استعارات فطرت سے چن لینا نہایت مشکل امر ہوتا ہے لیکن ابراہیم نے انھیں نہایت فنکارانہ انداز میں اپنے گیتوں میں استعمال کیا ہے ۔اسی طرح گیت نمبر اٹھائیس میں ابراہیم نے حضرت بندہ نواز گیسو دراز کی وصف بیانی میں صنعت تشبیہ کانہایت عمدگی سے استعمال کیا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ ’’سید محمد(حضرت گیسودراز) کا نام میرے دل پر ایسانقش ہوا ہے جیسے آنحضرت رسول اللہ ﷺ کا نام عرش اعظم پر ہے ۔ خواجہ گیسو دراز کے مقبرے کا گنبد گویا چھوٹا مدینہ ہے ۔آپ کی قبر کے غلاف میں ایسے موتی ٹنکے ہوئے ہیں جو چراغ کی روشنی میں بڑے چمکدار ہیروں کی مانند دکھائی دیتے ہیں۔مقبرے کے صحن میں عود عنبر بکھرا ہوا ہے حضرت محمد گیسو دراز آپ ﷺ کے ایسے فرزند ہیں (تمام اولیاء کرام اپنے نسبی سلسلے کو بالعموم حضرت علیؓاور حضرت فاطمہؓ سے جوڑتے ہیں ،اس لیے شاعر نے حضرت گیسو دراز کو حضرت محمدﷺ کا فرزند کہا ہے )جن کے قدموں کی برکت سے یہ زمین کیمیا ہو گئی ۔جس طرح چاند اپنی تاریکی دور کرنے کے لیے سورج کی روشنی سے کسب فیض کرتا ہے ،اسی طرح اے گیسو دراز آپ اپنے کرم سے اس گنہ گار کے گناہوں کو بخشوا دیجیے۔ان منقبتی اشعار میں کیا آپ کو شعریت کا فقدان نظر آتا ہے ؟یقیناً جواب نفی میں ہوگا ۔ایک گیت(نمبر52) میں حضرت گیسو دراز کی تعریف میں ابراہیم نے مبالغہ آرائی سے بھی کام لیا ہے ۔وہ کہتا ہے کہ حضرت گیسو دراز کی تعریف کرنے کے لیے سو زبانیں بھی ہوتی تب بھی آپ کی تعریف مکمل نہیں ہو سکتی ۔جس طرح چاند کو تاروں پر فوقیت حاصل ہے مگر سورج نکلتے ہی اس کاوقار ختم ہو جاتا ہے اسی طرح آپ سب اولیاء کرام پر فوقیت رکھتے ہیں،حتیٰ کہ سورج بھی آپ سے فیض کا طالب رہتا ہے ۔
ج)ذاتی اور خاندانی حالات کے حامل گیت 
ابراہیم عادل شاہ نے اپنے ذاتی حالات بھی اپنے گیتوں میں منظوم کیے ہیں۔ایک گیت میں وہ کہتا ہے :
ایک کر دنڈی داون دوجے پانڑی پستک پیکھت نو رس گاوت اتپتی 
کیسر وستر دسن سیام نکھ للائی مہدی گنی پرتی
کنٹھ ڈھال پھٹِک جپ مال نگر بدّیا پور ی باہن ہتی
ابراہیم کو گوت پتا دیو گرُ گنپتی ماتا پوتر سرستی
(ایضاً،ص۔132)
یعنی ابراہیم کے ایک ہاتھ میں ساز ،دوسرے میں (مو سیقی) کی کتاب ہے جسے دیکھ کر نورس کے گیت گاتا ہے ۔اس کا لباس زعفرانی ہے (پان کھانے کی وجہ سے ) اس کے دانت کالے ہیں اور اس کے ناخن پر مہدی لگی ہے ۔اس کے گلے میں بلور کی مالا پڑی ہے اور اس کا شہر بدیاپور ہے ۔اس کی سواری ہاتھی ہے ۔اس ہاتھی کانام اس نے آتش خاں رکھا تھا ۔ یہ ہاتھی اسے بہت عزیز تھا۔ ایک د لدل میں پھنس جانے کی وجہ سے اس ہاتھی کی موت واقع ہوگئی تھی ۔اس حادثہ کا ابراہیم عادل شاہ کو بڑا رنج تھا اس کے فراق میں ابراہیم نے چند گیت لکھے ہیں۔ایک جگہ ابراہیم اپنے غم کا اظہار اس طرح کرتا ہے ؂
آتش خاں کے برہےِ کیسی برسے آ گ
آخرت سو منگل بھئی کون کنشٹ کیرے بھاگ
دھایا آپ کون اگِن بیری جل جان
تلاؤ بیچ ڈاریا ڈینگ گرب آن 
جگ جل بُڑ بُڑا کیوں کر تھارے نابوجھوں سبحان
(کتابِ نورس ص۔77)
یعنی آتش خاں کی جدائی میں جوآگ برس رہی ہے ،قیامت کی آگ اس کے مقابلے میں برداشت کے قابل ہو جائے گی ۔آتش خاں کی یہ جدائی کس کی بدبختی کا نتیجہ ہے ۔وہ (آتش خاں) پانی کو آگ کا دشمن سمجھ کر دوڑ پڑا اور نہایت غصے اور مستی کے عالم میں تالاب (دلدل) میں کود پڑا۔اس اندوہ ناک واقعے کی ترجمانی کرنے کے بعد وہ کہتا کہ یہ بے ثبات ہے پانی کے بلبلے کی مانند اس کا قیام ہے اس لیے اسے دوام کیسے نصیب ہوگا۔ابراہیم نے اپنے طنبورے موتی خاں کی اوصاف بیانی میں بھی چند گیت لکھے ہیں ۔گیت نمبر 27 میں وہ طنبورے کے متعلق کہتا ہے :
جھنن جھنن موتی خاں کی تانت گاجے
تال بردنگ بھید سوں نورس باجے 
گزشتہ صفحات میں موتی خاں کی وصف بیانی میں ابراہیم نے کیے ہوئے شعری تلامذات کے استعمال کا ذکر ہو چکا ہے ۔ابراہیم نے ایک گیت میں موتی خاں کے فراق کا بھی ذکر کیاہے اورخدا سے دعا کی ہے کہ اسے طنبورے سے جلد ملا دے ۔طنبورے سے اس دوری کی وجہ شاید جنگی محاذ کی مصروفیات رہی ہوں گی ۔ابراہیم چاہتا ہے کہ ان مصروفیات سے جلدی سبک دوشی نصیب ہو اور موتی خاں کی ہمرہی حاصل ہو جائے ۔
ابراہیم عادل شاہ ثانی نے اپنی چچی اور خاندان کے بعض افراد کے متعلق بھی گیت لکھے ہیں۔اسے اپنی چچی سے بڑی انسیت اور عقیدت تھی ۔اس کا اظہار بھی اس نے اپنے گیتوں میں کیا ہے ۔ ایک جگہ وہ کہتا ہے کہ بڑی صاحبہ آپ کاسایہ ہمارے سروں پر ہمیشہ رہے ۔آپ کی قسمت کا ستارہ بلند رہے اور آپ کو ہمیشہ مسرت و شادمانی نصیب ہو۔ آپ کی سلطنت ہمیشہ باقی رہے یہی تمنا ابراہیم کی ہے ۔
ابراہیم نے اپنی بیو ی چاند سلطانہ کی بھی تعریف کی ہے وہ اپنی بیوی کے حسن کو لاثانی سمجھتا ہے ۔ گیت نمبر 21 اور 22 میں وہ کہتا ہے 
دھنی بی بی چاند سلطان ملکی جہاں
اتم سندر ناری ایسی ہے کہاں 
ابراہیم سب سندری دیکھیا یو لچھن ہے کہاں
جات چاند سلطان نانو بی بی ملکی جہاں
ذاتی ز ندگی اور خاندانی کوائف والے ان اشعار میں بھی جگہ جگہ شعریت کے ساتھ ساتھ مصوری کے نقوش بہ آسانی دیکھے جا سکتے ہیں۔ابراہیم نے ا پنے ذاتی حالات اور اپنے خاندان کے کوائف کے شعری اظہار میں صداقت و تخیل کو ایسا برتا کہ دونوں یک جاں ویک قالب دکھائی دیتے ہیں۔ خیال آرائی اور سچائی کے ایسے نمونے شاعری میں کبھی کبھی دکھائی دیتے ہیں۔
د) عشقیہ مضامین والے گیت
کتابِ نو رس میں گیتوں کی عام فضا عشقیہ ہے ۔ہمارے یہاں غزل کا جو مزاج ہے اس کی پیروی ابراہیم نے اپنے گیتوں میں کی ہے ۔مگر اس کے گیتوں میں تکدر کی فضا نہیں پائی جاتی ۔ لمسیاتی کیفیات سے اس کے گیت یکسر پاک ہیں ۔وہ نسائی حسن کے پیکر تراشتا ضرور ہے مگر اس کی برہنگی ستر پردوں میں چھپی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔اس کے یہاں حسن کے بصری پیکر ہیں جو چھونے سے میلے ہو جاتے ہیں۔ ایک جگہ شاعر نہایت خوب صورتی سے اپنے معشوق سے اظہار الفت کرنا چاہتا ہے 
تیری اپماں سدھا نو شو لچھن چاہے امرت دکھائی
موچکھ چکور پرچت اپنی آدھ سگائی
ابراہیم مرچھن بھئے یو ریجھے سندر تائی
ادھر امرت چکھا بھور جلائی
(ایضاً ،ص ۔67)
ان اشعار کا مطلب یہ ہے کہ اے محبوب ! تجھے سدھا نوشو یعنی (سدھا ۔آب حیات اور نوشو ۔ کرن) چاند سے تشبیہہ دی جاتی ہے ابراہیم تیرے فراق میں بے چین ہوگیا ہے اس لیے تو اپنے لبوں کا آب حیات اس کے منہ سے لگا دے تاکہ وہ ہوش میں آجائے اوراس کی بے چینی دور ہوجائے ۔حسن طلب کی اس سے عمدہ مثال شاید ہی اور کہیں مل سکے ۔ایک گیت میں وہ چاند سے یوں مخاطب ہے کہ اے چاند ہم دونوں فراق ز دگی کی وجہ سے دن میں غمزدہ رہتے ہیں۔ اس لیے اب دل پسند رات آگئی ہے تو ہمیں خوش ہونا چاہیے۔وہ اپنی محبوبہ سے کہتا ہے کہ چلو چراغ بجھادیں کہ کہیں گھر کایہ جاسوس شب وصال کی تمام تر کیفیتوں سے سورج کو آگاہ نہ کردے ۔ اے ابراہیم ! یہ وقت سونے کا نہیں ایسا دوست پھر کہاں ملے گا۔ تو اپنی شام کو پوری طرح آراستہ کرلے تا کہ محبوب تیری طرف متوجہ ہو سکے ۔ رات اب تھوڑی باقی ہے اور عشق کی آگ ابھی تیز ہے، افسوس کہ اب محبوب بہت جلد رخصت ہو جائے گا ایک اور گیت میں وہ اپنے محبوب کی غفلت شعاری کا یوں رونا روتا ہے ۔وہ عورت جو میرے سامنے کھڑی ہے اس کا چہرہ چودھویں کے چاند کی مانند دمک رہا ہے ۔(اس کی اڑتی ہوئی زلفوں کی وجہ سے ) اس کا چہرہ کبھی دکھائی دیتا ہے اور کبھی چھپ جاتا ہے ۔یا وہ بجلی ہے جو برسات میں چمکتی ہے ۔مانی بھی اس کی تصویر بنانے سے قاصر ہے ۔ابراہیم اپنی پیشانی اس کے قدموں پر رکھنا چاہتا ہے ۔ 
ابراہیم عادل شاہ ثانی کی عشقیہ شاعری میں وارفتگیِ شوق نت نئے رنگ بدلتی ہے ۔اس کے یہاں یک طرفہ عشق کی کیفیات کچھ زیادہ ہی ہیں بلکہ واردات عشق کادوسرا پہلو اس کی شاعری میں دکھائی نہیں دیتا۔ اس لیے ابراہیم نے عشق کے تلازمے کی خاطر جو تشبیہات واستعارات استعمال کیے ہیں ، وہ بھی یک طر فہ عشق ہی کی نشان دہی کرتے ہیں ۔مثلاً ابراہیم نے اپنی ذات کے لیے لفظ’چکور ‘کا اکثر استعمال کیا ہے ،جوچاند کے ساتھ یک طر فہ عشق کی علامت ہے ۔ کوئل کی کوک بھی یک طرفہ عشق کی ر وداد سنا تی ہے ۔ابراہیم نے اس کا ذکر بھی بارہا کیا ہے ۔ شاید ابراہیم کے یک طرفہ عشق کی بنیاد پر ہی ان تشبیہات کا اس نے دانستہ طور پر استعمال کیا ہے ۔ 
کتابِ نو رس کا تشبیہاتی نظام 
تشبیہات و استعارات کا استعمال شاعری میں ایک فن کی صورت میں تسلیم کیا گیا ہے ۔صنائع و بدائع میں اس کی اساسی حیثیت ہے ۔یہ ایک ایسا فن ہے جو شعر میں لفظی اور معنوی حسن پیدا کرنے میں معاونت کرتا ہے ۔یہ صنعت اگر طبعی طور پر شعر میں در آئے تو شعر کا حسن بھی فطری محسوس ہوتا ہے ، مگر التزاماًاسے برتا جائے تو شعر کا حسن غارت ہو جاتا ہے اور آمد کی جگہ آورد کا شائبہ اس میں پیدا ہوجاتا ہے ۔صنعتِ تشبیہہ کے دونوں عنصر مشبّہ اور مشبہ بہ میں ربط باہمی کا عین فطری ہونا بھی ضروری ہے ،ورنہ تشبیہہ نہایت بھونڈی محسوس ہوتی ہے ۔مثلاً میر کا شعر :
نازکی ان کے لب کی کیا کہیے 
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے 
اس شعر میں گلاب کی پنکھڑی اور محبوب کے لب میں نازکی کے وصف کی جس لمسیاتی کیفیت کا اظہار ہوا ہے،اسے فطری طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے ۔اس امر کا احساس کرنے کے لیے تخیلات کی دنیا سجانے کی ضرورت نہیں بلکہ وہ از خود ہمارے محسوسات کا جزو بن جاتی ہے اور شعر سن کرہی نازکی کے احساس کی نفسیاتی گرہیں ذہن میں کھلنے لگتی ہیں۔اس کے برعکس وہ شعر جس میں تشبیہہ کے مشبّہ اور مشبّہ بہ دونوں کا ربط غیر فطری ہوتا ہے ایسی تشبیہہ اثر آفرینی میں کمزور ہوتی ہے ۔مثلاً حسین چہرے کو چاند کے مشابہ کہنے میں بصری حس ان دونوں میں ربط قائم کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے اور نہ ہی اس احساس کو قبول کرنے میں قوت حس کی ذہنی گرہیں کھلتی ہیں۔مشرقی شعریات میں تشبیہہ و استعارے کے اس عمل میں نفسیات کے حواسی پہلو ؤں کا خاص خیال رکھا جاتا ہے ۔
ابراہیم سنسکرت ا ورفارسی شعریات سے کماحقہ واقف تھا۔ہندو دیوی دیوتاؤں کی وصف بیانی میں سنسکرت ادبیات سے استفادے کی مثالیں اس کی کتاب نورس میں ملتی ہیں۔اشعار کی توضیحات میں اس کا ذکر سطور بالا میں ہوا ہے ۔ ابراہیم کی اپنی کتاب ،کتاب نو رس میں مشبّہاتی نظام بڑا مضبوط و منضبط ہے ۔اس نے تشبیہہ و استعارے کا استعمال حواسِ خمسہ کے دا ئرے ہی میں کیا ہے ۔ یعنی اس کی تشبیہہ کے عمل سے حسی پیکر ایسا تخلیق پاتا ہے کہ اسے ہمارے حواس محسوس کر سکتے ہیں۔ ذہن میں حسی موج کا طول قوت مدرکہ کو فعال بنانے میں معاون ثابت ہوتا ہے اور ہم اس شے کے غیر مرئی وصف کا ادراک کرلیتے ہیں۔ ابراہیم عادل شاہ نے تشبیہہ کے استعمال میں حواس خمسہ کا خاص خیال رکھا ہے ۔ مثلاً گیت نمبر37 میں سرسوتی دیوی کے مجسمے کو ہاتھی دانت کی طرح سفید بتایاگیا ہے ۔در اصل رنگوں میں سفید رنگ کی سفیدی کا معیار ہاتھی دانت کی سفید رنگت کو تسلیم کیا جاتا ہے ۔اس لیے ابراہیم نے سرسوتی کے مجسمے کی سفید رنگت کو ہاتھ دانت کی سفیدی سے تشبیہہ دی ہے ۔یاد رہے کہ سرسوتی کی مورتی سفید رنگ کی ہی بنائی جاتی ہے ۔ابراہیم کہتا ہے کہ ’سرسوتی دیوی کی رنگت ہاتھی دانت کی طرح سفید ہے۔ ہاتھی دانت کی بنی ہوئی سرسوتی کی مورتی کو کس سنگ تراش نے تراشا ہے اسی لیے گنپتی (گنیش) نے اپنے چہرے کو ہاتھی دانت کی طرح سفید بنا لیا ہے ۔مگر جب ابرہیم کو خیال آجاتا ہے کہ سرسوتی دیوی کی نا زکی اور ہاتھی دانت کی سختی کو یکجا نہیں کیاجا سکتا۔اس فنی نقص کاخیال آتے ہی اس نے اس تشبیہہ کے بالمقابل اس مورتی کی سفیدی کوچنبیلی کے پھول کی سفیدی سے تشبیہہ دی اور کہا کہ سرسوتی کا رنگ چنبیلی کے پھول کی طرح سفید ہے ۔اس تشبیہہ میں مشبہ اور مشبہ بہ دونوں کے وصف باہمی میں بصری حس طول تموج احساس و ادراک کے ذہنی مرکز کو متحرک کرنے میں معاونت کرتانظر آتا ہے ۔ اس اعتبار سے شعر میں تشبیہہ کا یہ عمل مشبہ اور مشبہ بہ کے اوصاف باہمی کو ایک نقطے پر مرتکز کر دیتا ہے اور سرعت خیالی سے متعلقہ وصف ہماری سمجھ میں آجاتا ہے ۔
چنبیلی کے پھول کی اس تشبیہہ میں بصری حس ہی متحرک نہیں ہوتی بلکہ اس کی بھینی بھینی خوشبو کا احساس قوت شامّہ کو بھی متحرک کردیتا ہے اور پھول کی نازکی کے احساس سے لمسیاتی قوت بھی بیدار ہوجا تی ہے۔غرض کہ ابراہیم کا یہ تشبیہاتی نظام قاری کے قلب و ذہن میں احساس اور قوت متخیلہ کو گدگدانے کا کام کرتا ہے جس سے قاری محظو ظ ہوتا ہے ، اس کے احساس کی دنیا آباد ہو جاتی ہے اورشعر کی تفہیم اس کے لیے آسان ہو جاتی ہے ۔گیت نمبر 24 در مقام ملہار راگ میں بھی اس کے یہاں صنعت تشبیہہ میں تمام حواس خمسہ فعال ہو جاتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ ’ ’ہست نکشتر(موسم برسات کا آخری نصف مہینہ )کی شکل ہاتھی (گنیش دیوتا) کی طرح ہوتی ہے ۔اس نکشتر میں بادلوں کے دل کے دل ہاتھیوں کے جھنڈ کی طرح گھر گھر آتے ہیں اور خوب برستے ہیں۔شاعر کہتا ہے کہ ا س کی بجلی ہاتھی کے دانت کی طرح ہے بادلوں کی گڑگڑاہٹ ہاتھی کے گھنٹے کی آواز کی مانند ہے اس کی قوس قزح سر سوتی کی پیشانی کی طرح روشن ہے ۔اس کے بعد شاعر تشبیہہ کے عمل سے ہٹ کر استعارے کا سہارا لیتا ہے وہ کہتا ہے کہ سرسوتی ابر نیساں کا پانی ہے جس سے موتی پیدا ہوتے ہیں ۔اسی لیے اے ابراہیم سرسوتی کو ابر نیساں کا پانی سمجھنے میں کسی قباحت کی ضرورت نہیں۔‘‘ اس گیت میں ابراہیم عادل شاہ نے تشبیہات کو برتنے کا جو التزام کیا ہے وہ اس کے فن شاعری پر مضبو ط گرفت کی دلیل ہے ۔اس گیت میں تشبیہہ اور استعارے کا عمل قاری کے حواسِ خمسہ کو متحرک کر دیتا ہے ۔بجلی کی چمک بصارت پر اثر ڈالتی ہے تو بادلوں کی گڑگڑاہٹ کانوں کو متأثر کرتی ہے ۔ بارش کا پانی قوت لامسہ کو برماتا ہے ۔ان تشبیہات کے استعمال کرنے میں ابراہیم کے تخیل سے زیادہ اس کی فکر کو دخل ہے ۔اس نے اپنے گیتوں میں اکثر ہاتھی کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ اسے آتش خاں ہاتھی سے بڑی انسیت تھی ۔ہاتھی کے اچانک مر جانے کی وجہ سے اس کی یادیں ابراہیم کے ذہن میں رچ بس گئی تھیں۔اپنے اشعار میں انھیں یادوں کو اس نے زندہ کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کے لیے تشبیہات کا سہارا لیا ہے ۔
کتاب نو رس میں صنعت تشبیہہ کے مکمل نظام کو ابراہیم نے اس طرح منضبط کیا ہے کہ تخیلاتی دنیا کے ساتھ حقیقی دنیاکے مناظر بھی نظروں کے سامنے آجاتے ہیں۔ اس کے یہاں سمعی اور بصری احساس کا حسین سنگم قلب و ذہن میں ہلچل پیدا کر دیتا ہے ۔ابراہیم کو اپنے طنبورے پر بڑا ناز تھا۔ اس نے فرط محبت میں اس کا نام موتی خاں رکھا تھا۔ وہ موسیقی کا ریاض ہمیشہ اسی طنبورے پر کرتا تھا۔ایک گیت میں وہ اس کے اوصاف بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ،’ موتی خاں متموج سمندر کی طرح ہے ۔اس کے سروں کا زیر و بم سمندر کی ا ٹھتی ،بیٹھتی موجوں کی طرح ہے ۔(سروں کے زیر و بم کو موسیقی اصطلاح میں لگھو گرو کہتے ہیں۔لگھو نچلی سطح پر اور گرو بلند سطح پر نکلتے ہیں) شاعرنے اسی بنیاد پر ان سروں کو سمندر کی موجیں کہا ہے ۔ یہی تشبیہہ جب استعارے میں بدل جاتی ہے تو شاعر طنبورے کو سمندر کہنے لگتا ہے۔ اس سمندر میں راگ اورُ سر موتی ہیں ۔پھر شاعر سمندر اور طنبورے کا موازنہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ سمندر میں جانور ہوتے ہیں مینڈک ہوتے ہیں لیکن طنبورے میں راگ کے موتی ہیں۔سمندر میں کھاری پانی ہوتا ہے جبکہ طنبورے میں راگ بھرے ہوتے ہیں۔ایک جگہ وہ کہتا ہے کہ طنبورے کی جھنن جھنن سے راگ نکلتے ہیں۔دنیا میں اگر ایک طنبورا اور ایک حسین عورت مل جائے تو بس غنیمت ہے ۔وہ خود سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ اے ابراہیم !یہ دو چیزیں اگر تجھے میسر ہیں تو پھر بہشت یا آب حیات کی تجھے کیا ضرورت ؟
ملھار نو رس گیت نمبر26 میں ابراہیم نے حسین عورت کو برسات سے تشبیہہ دی ہے ۔وہ کہتا ہے کہ حسین عورت کو برسات سے تشبیہہ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔اس کے دانتوں کی سفیدی دنیا کو روشن کر دینے والی بجلی کی طرح ہے ۔اس کے جسم کا رنگ برنگی لباس بادلوں کی مانند ہے اور اس کا پسینا گھنگور گھٹا کی طرح برس رہا ہے اس کے جسم کا رواں رواں پودا ہے اور اس کا سینہ گویا پھل ہے۔ ملھار راگ کا گیت بادل کی گرج کی طرح ہے ابراہیم اس پر فدا ہو کر مور کی طرح ناچ رہا ہے ۔
ابراہیم عادل شاہ ثانی جگت گرو کی شاعری میں محاکاتی عنصر کی فراوانی دکھائی دیتی ہے ۔اس نے فطرت سے جڑی اشیاء کی تجسیم کاری کی ہے کہ ان کے حسین پیکر نظروں کے سامنے آجاتے ہیں۔کبھی وہ گنگا جمناکو ہولی کھیلتے ہوئے دکھاتا ہے ،کبھی چاند کا خوب صورت پیکر تراشتا ہے ۔ ایک دوہے میں وہ کہتا ہے :
دُنیاں گھڑا بھرے چندنا دُود
اُوپر نرمل مسکا سو چاند سود
یا چکرنگ چندر چندنا راس موتی
یا اندرا اندو چندنا ایراوت ہتی 
یا وِیدھا وِدھو چندنا جل بھاگرتی
یا کپالی چندر چندنا منڈل ویبھوتی
یا بدن چھائی چندر چندنا آرسی جوتی
یُو کَوِیت آکہیں ابراہیم سَونسار گُر پتی
یعنی دنیا گھڑا ہے جس میں چاندنی کا دودھ بھرا ہے ۔چاند مسکا ہے جو گھڑے کے منہ پر ہے ۔ چاند ہنس ہے اور چاندنی موتی کا ڈھیر ۔چاند اندر ہے جو چاندنی کے سفید ہاتھی ایراوت پر سوار ہے ۔ چاند برہمن ہے جو چاندنی کی گنگا میں نہا رہا ہے ۔ یا چاند جوگی ہے چاندنی کی سفید راکھ بدن پر ملے ہوئے ہے ،یا چاند جسم کا عکس ہے اور چاندنی ،روشنی کا آئینہ ۔ یہ اشعار دنیا جہاں کا مالک ابراہیم نظم کر رہا ہے ۔ (در مقام بھیرو نورس :کتاب نورس، گیت نمبر6 ص72 )در مقام ’مارو ‘نو رس ،گیت نمبر 12 میں شاعر نے چاند کو لوگوں کی نظروں سے بچنے کے لیے جھک کر چلنے والا شخص کہا ہے ۔وہ کہہ رہا ہے کہ ’روشن چاند جیسے ہی نمودار ہوا ،اس نے خود اپنی کرنوں کا جال تیار کرلیا ۔پھر بڑی چال سے اس نے کرنوں کے جال سے خلاصی حاصل کرلی ۔اور لوگوں کی نظروں سے بچنے کے لیے جھک جھک کر پھر رہا ہے ۔ اس نے لاتعداد ستاروں کو اپنی گود میں بھر لیا ہے ۔اس گیت میں چاند کا جو پیکر تراشا گیا ہے وہ ہلال کا اصل قیافہ ہے کہ چاند رات کو اس کی شکل جھکی ہوئی سی دکھائی دیتی ہے ۔اس شکل سے شاعر کا ذہن جھک جھک کر چھپنے والے شخص کی طرف منعطف ہوتا ہے ۔ ان اشعار میں چاند دیکھنے کی ہندوستانی روایت کو شاعر نے بڑے مؤثر انداز میں بیان کیا ہے ۔چاند دیکھنے کے لیے لوگ باگ اتاولے ہوئے جاتے ہیں ۔مگر چاند اتنا باریک ہوتا ہے کہ وہ جلد دکھائی نہیں دیتا ،گویا وہ لوگوں کی نظروں سے بچنے کے لیے قصداً چھپا جارہا ہے ،جھکا جا رہا ہے ۔ حسنِ تعلیل کی یہ عمدہ مثال ہے ۔ شب ہلال میں چاند کا صرف ایک بٹا چودھواں حصہ ہی روشن ہوتا ہے اس لیے چاندنی ماند پڑجا تی ہے ۔ایسے میں آسمان میں تارے روشن دکھائی دیتے ہیں۔ شاعر کے نزدیک یہ منظر گویا چاند کا ستاروں کو اپنی گود میں سمالینے جیسا ہے ۔ چاند دیکھنے کی ہماری ثقافتی روایت اور نجومی ضابطے کو شاعر نے یہاں یکجا کر دیا ہے ۔ ابراہیم نے ہولی کے تہوار سے متعلق ایک گیت میں کہا ہے :
ابراہیم بسنت کھیلیں سمدر گنہ
بھانو بسنت بنِتی کریں ارُن رنگ منگ 
یہاں بھی سمندر ،گنگا اور سورج کے ہولی کھیلنے کا بیان ہے۔سورج ہولی کھلنے کے لیے ارُن (زعفرانی مائل سرخ )رنگ مانگ رہا ہے ۔سورج کا ایک نام ارن بھی ہے کیونکہ شفق کی لالی اسی کے دم سے نمو دار ہوتی ہے ۔ ابراہیم کا یہ شعرقدرتی منظر کی پیکر سازی کی اچھی مثال ہے ۔
کتابِ نو رس میں خیال آفرینی 
خیال آفرینی ،مضمون آفرینی اور معنی آفرینی شاعری کے بنیادی عناصر مانے جاتے ہیں ۔شعر میں ان کا وجود حسن شعر کو بڑھاتا ہے اور اس کی اثر آفرینی میں اضافہ کرتا ہے ۔خیال جتنا بلند ،جتنا وسیع ،جتنا انوکھا اورجتنا حیرت خیز ہوگا،شعر اسی قدر حسین ہوگا ۔ہماری اردو شاعری کا بیشتر حصہ فارسی کا منت پذیر رہا ہے البتہ دکنی شاعری سنسکرت شعریات کے تابع رہی ہے ۔ولی تک یہ سلسلہ انفصال کا شکار نہیں ہوا اور متواتر سنسکرت اور ہندی شاعری سے خوشہ چینی کرتا رہا ۔چاہے وہ قلی قطب شاہ ہو یا عادل شاہ ، ہاشمی ہو یا نظامی ۔ایسے تمام دکنی شعرا کے یہاں مقامی اثرات پائے جاتے ہیں۔ابراہیم عادل شاہ کے یہاں ان کی کثرت ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اس کے یہاں خیالات میں ایک طرح کا نیا پن اور شعری روش میں علاحدگی پسندی کا شائبہ ہوتا ہے ۔اس کے یہاں بیشتر خیالات چونکا دینے والے ہوتے ہیں جو اچھی شاعر ی کا وصف ہے ۔ مثلاً ایک گیت میں ابراہیم نے چاند سلطانہ کے حسن کی تعریف اس طرح کی ہے ، ’خدا نے چاند سے نور کے ایک حصے کو الگ کر لیا ،جس کی وجہ سے چاند میں داغ پڑ گیا۔ اس نور سے اس نے ایک حسین چہرہ بنایا ۔اس کے حسن کو دیکھ کر حوریں شرمندہ ہو کر آسمان میں اور پریاں پاتال میں چھپ گئیں۔ ‘ پریوں اور حوروں کے پاتال اور آسمانوں میں چھپنے کا خیال اردو شاعری میں نیا ہے اگرچہ ان کرداروں کا ذکر بار بار ہوا ہے اور ہماری مثنویاں ان کے ذکر سے بھری پڑی ہیں ،مگر انسانی حسن کو دیکھ کر ان کا شرمندہ ہو جانا ایک نیا خیال ہے ۔ دوسری جگہ ملکہ جہاں کی وصف بیانی میں شاعر نے کہا ہے کہ ،’’ مصور جتنا ہوشیار ہے اس کی بنائی ہوئی تصویراتنی ہی خوب صورت ہے ۔آسمان اس کے لیے کاغذبنا اور چاندنے اس پر مہر تصدیق ثبت کردی ۔سورج نے مصور کے موئے قلم کے لیے سونا گھول دیا اور ستارے چمکنے لگے ۔خدا نے خوب صورت سمندر سے آپ کی آرائش کا سامان کیا ۔یہاں سمندر سے آرائش سے مراد موتیوں کا بہم پہنچانا ہے کہ موتیوں کے ہار آرائش و زیبائش کے لوازمات میں شامل ہیں۔ یہ خیال بھی اردو شاعری میں شاید ہی کہیں آیا ہوگا ۔
آتش فراق کا ذکر اردو شاعری میں بہت ہوا ہے ۔اس کی گرمی اور شعلہ زنی پر بھی مختلف انداز میں خامہ فرسائی کی گئی ہے مگر ابراہیم نے مبالغے کی شدت کے بغیر آتشِ فراق کی التہابی کیفیت کو کچھ اس انداز میں بیان کیا ہے ۔وہ کہتا ہے کہ ، ’’ اے ہوا ان کے پاس سے مت گزر جو آتش فراق میں جل رہے ہیں۔ مجھے اس کا خوف نہیں کہ میں جل جاؤں گا ،بلکہ مجھے ڈر ہے کہ جو آگ ان کے دل میں سلگ رہی ہے اس سے ساری دنیا نہ جل جائے ‘‘۔اردو شاعری میں آتش فراق کی شدت کے اظہار کے لیے مبالغے کو غلو کی حد تک بڑھا یا گیا ہے مگر ابراہیم نے سیدھے سپاٹ انداز میں اس کی شدت کا اظہار کر دیا ہے ۔ 
ایک گیت میں ابراہیم نے محبوب کی بے وفائی پر صبر کرنے کی نئی ترکیب نکالی ہے ۔وہ کہتا ہے کہ ، ’میں جس سے محبت کرتا تھا وہ کسی اور کا ہو گیا۔ اس کی بے وفائی سے میرادل ٹکڑے ٹکڑے ہوگیاہے ۔ میں نے ان ٹکڑوں سے تسبیح بنالی ہے اور اس کے نام کا ورد کرنے لگا ہوں اس بے وفائی کا زخم اتنا گہرا ہے کہ میں مر جانا چاہتا ہوں مگر مجھے موت کیسے آئے گی کہ اس کی یاد جو میں اس تسبیح پر کر رہا ہوں وہ میرے لیے آب حیات بہم پہنچا رہی ہے اسے پی کر تو میں مر نہیں سکتا۔‘ محبوب کی بے وفائی کی اس الم ناکی کا اظہار اردو شاعری میں شاید اتنی شدت سے نہیں ہوا ہے ۔یہ خیال بھی نیا اور انوکھا پن لیے ہوئے ہے ۔
ایک جگہ ابراہیم کہتا ہے کہ ،’ چودھویں رات میں مجھے فراق میں جلتا ہوا دیکھ کر چاند ہمدردی جتانے میرے پاس آیا مگر میرے فراق کی گرمی نے اس کی ماہیت ہی بدل ڈالی اور وہ سورج میں تبدیل ہو گیا۔ اس وقت سے لوگ سورج کی پرستش کر نے لگے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کی ابراہیم کا یہ خیال اردو شاعری کے لیے بالکل نیا اور حیرت زا ہے ۔ ابراہیم کے ایک دوہے میں ایک نہایت حسین خیال باندھا گیا ہے۔ شاعر کہتا ہے :
لوئن بیچ پرچھائی پیو کی مورت اچرج چمتکار
ابراہیم مہا سندر یوسف پَوِتّر بھیا کوپ دیجے ڈار
(کتابِ نو رس دوہا نمبر سات۔ ص۔73)
میری آنکھ کی پتلی میں میرے محبوب کا عکس ایسا دکھائی دے رہا ہے جیسے حضرت یوسف ، جنھیں ان کے بھائیوں نے انھیں اندھے کنویں میں ڈال دیا تھا۔ اس دوہے میں تلمیح ہے ،تشبیہہ ہے اور بڑی بات یہ کہ اس میں شاعر کی خیال آرائی کا نیا پن صاف جھلکتا ہے ۔آنکھ کی پتلی کو سیاہ خشک کنویں سے تشبیہہ دی گئی ہے اور محبوب کے عکس کو حضرت یوسف سے۔ محبوب ایسا ہی خوب صورت ہے جیسے حضر ت یوسف خوب صورت تھے اور آنکھ کی پتلی ویسی ہی سیاہ ہے جیسے سوکھا کنواں ،جس میں حضر ت یوسف کو ان کے بھائیوں نے پھینکا تھا۔ ابراہیم کے علاوہ شاید اس تشبیہہ کو کسی نے بھی استعمال نہیں کیا ۔ ابراہیم نے کتابِ نو رس کے ساتویں گیت میں خیال آفرینی میں زمین آسمان کے قلابے ملانے کی کوشش کی ہے ۔وہ اپنے ہاتھی آتش خاں کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ 
سونڈ اُچاَوے نفیری بجاوے جگ رجھاوے ویل 
ابراہیم انبر لوک اب پرائی راکھیں میل 
یو گج نانو تج کیوں ساجے اسرافیل 
( ایضاً کتاب نو رس ۔ ص۔75) 
شاعر صورِ اسرافیل اور ہاتھی کی چنگھاڑ میں اشتراک کا پہلو کھوج رہا ہے ۔وہ کہتا ہے کہ ہاتھی (آتش خاں) اپنی سونڈ اوپر اٹھا کر چنگھاڑتا ہے تو سب کے دل خوشی سے جھومنے لگتے ہیں۔اے ابراہیم ! آسمانی مخلوق (فرشتے ) اب دنیا والوں سے رفاقت کرنا چاہتی ہے ،اسی لیے تو اسرافیل ہاتھی کے چنگھاڑنے کا عمل کرنے لگا ہے ۔یہاں ابراہیم نے چنگھاڑنے اور صور پھونکنے کے عمل میں قدرے اشتراک تلاش کرلی ہے ۔وہ کہتا ہے کہ اے اسرافیل! تیرا یہ عمل تو ہاتھی جیسا ہے ا س لیے تجھے زیبا نہیں دیتا۔ تشبیہہ کے عمل میں ایک صفت کے ذریعے دوچیزوں میں اتصال کی کیفیت پیدا کی جاتی ہے ،مگر ابراہیم نے باوجود اتصالی کیفیت پیدا کرنے کے اس میں انفصال کی حالت بھی پیدا کی ہے ۔صنعت تشبیہہ کا یہ نیا انداز شاید علم بدیع میں انوکھا رہاہو۔ اس کتاب میں ایسی بیسیوں مثالیں مل سکتی ہیں۔
تجسیم کاری کا عمل کتاب نو رس میں 
ابراہیم عادل شاہ نے اپنے گیتوں میں تجسیم کاری کے عمل کو تخیل کے سلاسل سے جوڑنے کی کوشش کی ہے ۔اس کے یہاں پیکر سازی کے عمل میں ہندوستانی روایت کا خاص طور پر لحاظ رکھا گیا ہے ۔چاہے دیوی دیوتاؤں کے پیکر تراشے گئے ہوں یا اپنی محبوبہ کی تصویر کشی کی گئی ہو یا مناظر قدرت کو زیرِ موئے قلم لایا گیا ہو ،ہر جگہ ۱ س نے ہندوستانی رو ایتوں کی پاس داری کی ہے اور اپنے اثر سے ان میں جان ڈالنے کی کوشش کی ہے ۔ابراہیم خود ایک اچھا مصور بھی تھا اس لیے اس کے شعری پیکر اس کی مصوری میں مہارت کابہتر نمونہ پیش کرتے ہیں۔مثلاًوہ اپنے ہاتھی کا پیکر یوں تراشتا ہے کہ، ’اس کی آنکھیں نشیلی ہیں۔اس کے سامنے علم ہے ۔اسے دیکھ کر وہ خود مسرور ہو رہا ہے اس کے ماتھے پر سندور کی لالی ایسی محسوس ہو رہی ہے جیسے آفتاب طلوع ہو رہا ہو۔اندر کا سفید ہاتھی اندراوت اس کے سامنے ہیچ ہے ۔اس کے دونوں دانت نوک دار نیزے کی طرح ہیں۔ اس کی دم سرمے کا خط ہے یا لوہے کی زنجیر، اس کی پلکیں نیزے کی نوکیں ہیں۔ اس کی بھویں آنکس کی طرح ہیں اور اس کی آنکھوں سے آنسوں بہہ رہے ہیں۔‘ایک جگہ وہ کنڑا راگ کا پیکر یوں تراشتا ہے ،’ وہ ایک گوری حسین عورت ہے ، جو کیوڑے کے پھول کی مانند سفید ہے اس کی ساڑی نیلی اور چالی پیلی ہے ۔اس کے ہاتھ کُمد کی طرح نرم اورآنکھیں کمل کی طرح دلکش ہیں۔اس کے دانتوں کے درمیان پان کی سرخی یاقوت کے ہیرے کی مانند ہے ۔اس کے ہونٹ سیپ کی طرح ہیں جس سے وہ سخن کے موتی رولتی ہے اس کا چہرہ زہرہ ومشتری کی طرح روشن اور جسم چاند کی طرح سفید ہے ‘۔اس نے کیداری راگ کا ایسا پیکر تراشا ہے ،’وہ ایک نوجوان عورت ہے جو بہت حسین ہے اورہتھیلیوں میں اپنا رخسار رکھے ہوئے بیٹھی ہے ۔وہ بہت دبلی پتلی ہے ۔اس کے بال گھنگھریالے ہیں۔وہ سفید کپڑوں میں ملبوس ہے اور اس کے چہرے کا رنگ بھی سفید ہی ہے ۔اس کاسینہ سخت اور ابھرا ہوا ہے اور کمر نازک ہے ۔وہ بیٹھی ہوئی اپنے جسم پر سفوف مل رہی ہے ۔وہ کمل کی پنکھڑی کی طرح نرم اور چاند کی طرح روشن ہے ۔وہ زمین پر اپنے ناخن سے کرید رہی ہے ۔ابراہیم کے اس گیت کو پڑھ کر مجھے رسالہ ’آج کل ‘ کے کسی قدیم شمارے میں چھپا ایک مضمون یاد آگیا۔ اس میں سنسکرت کے کسی شاعر کا ذکر تھا کہ وہ اپنے محبوب کی پتلی کمر کے متعلق سوچتے ہوئے کہتا ہے کہ جب اسے تراشا گیا ہوگا تو اس کی کمر کے دونوں قوسین کی مٹی خالق نے کہاں پھینکی ہوگی ،اس وقت محبوبہ جواب دیتی ہے کہ وہ مٹی پھینکی نہیں گئی بلکہ اس عورت کے سینے پر لگا دی گئی ۔ شاعر اپنے محبوب کی اس حاضر جوابی پر بہت مسرور ہوا ۔مذکورہ گیت میں وہی کیفیت گھل مل گئی ہے ۔ 
ابراہیم کبھی کبھی ایسی لفظی تصویر بناتا ہے کہ اس کی پیکر تراشی مشکل ہو جاتی ہے ۔مثلاً وہ اپنے سامنے کھڑ ی ایک عورت کا حلیہ یوں بیان کرتا ہے ،’سامنے کھڑی عورت چودھویں کا چاند معلوم ہوتی ہے ۔جس کا چہرہ کبھی دکھائی دیتا ہے اور کبھی چھپ جاتا ہے ۔یا وہ بجلی ہے جو برسات میں چمکتی ہے ۔ مانی جیسا کامیاب مصور اس کی تصویر نہیں کھینچ سکتا ۔بس یوں سمجھیے کہ موجیں مارتا ہوا شفاف پانی ہے ۔ وہ معلوم نہیں برہمن ہے یا شیخ ۔وہ طرح طرح کے کھیل کھیل رہی ہے ۔کبھی وہ مرد بن جاتی ہے تو کبھی عورت کا روپ دھار کر دلوں کو للچاتی ہے ۔ابراہیم کا تراشا ہوا یہ ایسا پیکر ہے جس کی تصویر کشی مشکل ہے۔ ابراہیم نے ان پیکروں کے علاوہ سرسوتی دیوی کا بھی پیکر تراشا ہے ۔اس پیکر تراشی میں اس نے سنسکرت شعریات اور ہندوئی روایات کا بھر پور سہارا لیا ہے ۔وہ کہتا ہے 
سرستی مہا سندری آچھے گوری سیت دستر بھوج چتُر
ایک ہست سنگت پستک دوجے پانڑی پھٹک سمرن 
تیجے شیہ سیت سوا چوتھے انبج کر
تن منجھن نین انجن موتن ابھرن گنچن پنیجن چکرجگ باہن 
سمن سہاسن وسنتی (دھاپھی) کمد تر 
اس گیت کا مطلب یہ ہے کہ سرسوتی بہت خوب صورت ہے ۔اس کا لباس سفید ہے اور اس کے چار ہاتھ ہیں۔ایک ہاتھ میں گانے کی کتاب ہے ۔دوسرے ہاتھ میں بلور کی مالا تیسرے ہاتھ میں سفید طاطا اور چوتھے ہاتھ میں کملہے ۔اس کا جسم آراستہ ہے اور آنکھوں میں کاجل ہے ۔( گلے ) میں موتیوں کا زیور ہے پاؤں میں سونے کے پازیب ہیں۔ہنس اس کی سواری ہے اور وہ پھولوں کے تخت پر بیٹھی ہے۔ سرسوتی کا یہ پیکر سنسکرت کے ایک استوتر کے عین مطابق ہے ۔گزشتہ صفحات میں اس پر مفصل لکھا جا چکا ہے ۔ابراہیم نے خود اپنا حلیہ بھی ایک گیت میں بیان کیا ہے ،وہ کہتا ہے کہ اس کے ایک ہاتھ میں ساز ہے ،دوسرے ہاتھ میں کتاب ہے جس میں درج گیت وہ گاتا ہے ۔اس کا لباس زعفرانی ہے دانت (پان کھانے کی وجہ سے ) کالے اور اس کے ناخن پر مہندی لگی ہے ۔اس کے گلے میں بلور کی مالا پڑی ہے ۔ابراہیم کا یہ حلیہ اس کے درباری مصور فرخ حسین نے بنائی ہوئی ابراہیم عادل شاہ کی تصویر سے کلی مناسبت رکھتی ہے ۔یہ تصویر بیکانیر کے میوزیم کے آرٹ آف بیکانیر پلیٹ نمبر8 پر موجود ہے ۔ ان پیکروں کے علاوہ اس نے شنکر دیوتا کا بھی پیکر نظم کیا ہے اور ان کے حلیے کو ہوبہو اسی طرح تراشا ہے جیسا کہ روایتی انداز میں ان کی تصویر پائی جاتی ہے ۔
ہمارے اردو ادب میں مصوری ،موسیقی اورشاعری کا ایسا حسین سنگم دکھائی نہیں دیتا ۔ابراہیم نے اپنے گیتوں میں انھیں اس انداز سے یکجا کر دیا ہے کہ ان گیتوں سے انھیں علاحدہ کرنا ممکن دکھائی نہیں دیتا ۔دکنی شاعری کے اس عدیم المثال کارنامے پر نئے سرے سے تنقیدی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے ،تاکہ کتابِ نو رس کو اس کا اپنا صحیح مقام حاصل ہو سکے ۔ 
v
Syed Yahya Nasheet
24, Kashana, KALGAON
Distt. Yawatmal-445203
Mob : 09421771417


فکر و تحقیق۔ اپریل تا جون ۲۰۱۸

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں