اردو کی تین جدید مثنویاں : ایک تجزیاتی مطالعہ
منظر اعجاز
اردو مثنوی نگاری کی تاریخ کم و بیش چھ سو برسوں پر مشتمل ہے۔ جب کہ تین سو برسوں کا سفرخطۂ دکن کے دائرے میں محدود ہے اور بعد کے تین سو برسوں میں شمال اورشمال مشرقی علاقے شامل ہیں۔ اس دوران مختلف اور متعدد موضوعات و مسائل پر اردو مثنویاں معرض تخلیق و تحریر میں آئیں۔ تنوع، رنگا رنگی اور بوقلمونی پیدا ہوئی۔ لیکن اردو مثنویوں کے اس طویل سفر میں اقبال کو ایک اہم موڑ قرار دیا گیا۔ جواز کے طور پر’ساقی نامہ‘ کو بطور خاص پیش کیا جاتا ہے۔ اقبال نے اس کے 99اشعار کو سات بندوں میں تقسیم کیا ہے اور ہر بند کے اخیر میں ٹیپ کا شعر دے کر ترکیب بند کی صورت عطا کردی ہے۔ اس کا شمار نہ صرف اقبال کی بلکہ اردو کی شاہکار نظموں میں ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اقبال کے نظامِ فکر میں خودی کا فلسفہ جو کلیدی حیثیت و اہمیت کا حامل ہے اور اسرار و رموز میں تفصیل کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، وہی اختصار و جامعیت’ کے ساتھ’ ساقی نامہ‘ میں بھی آگیا ہے۔ فکری تعمیر اور فنی و صوری تشکیل کے لحاظ سے بھی یہ نظم اقبال کی جدت طراز یوں کا مظہر ہے۔ اقبال کی ادبی و شعری شخصیت کا امتیازی پہلو یہ بھی ہے کہ ان کے اثرات متاخرین پر کسی نہ کسی جہت سے ضرور مرتب ہوئے۔ اس سلسلے میں جمیل مظہری کے علاوہ ان کے کئی معاصرین کے نام بھی آتے ہیں۔ جمیل مظہری کی نظم نگاری کے حوالے سے اظہارخیال کرتے ہوئے مظہر امام رقم طراز ہیں :’’ جمیل مظہری کا شمار اردو نظم کے بڑے شاعروں میں ہوتا ہے۔ اقبال کے بعد اردو نظم نگاری کے افق پر جوش ملیح آبادی، سیماب اکبر آبادی، حفیظ جالندھری، اختر شیرانی، احسان دانش، ساغر نظامی، روش صدیقی وغیرہ نے اپنی روشنی بکھیری، یہ سب جمیل مظہری کے ہم عصر ہیں اور وہ ان اکابر کی صف میں نہ صرف شامل ہیں، بلکہ اپنی فکری صلابت اور فنی بالیدگی کے اعتبار سے اپنے کئی ہم عصروں میں ممتاز ہیں۔ ان تمام نظم گو شعرا کے یہاں اقبال کا اثر کسی نہ کسی لحاظ سے موجود ہے۔ جمیل مظہری کے یہاں بھی یہ تاثر پذیری ملتی ہے۔ اقبال کو انھوں نے اپنا’مرشد فن‘ کہا ہے۔ لیکن اس تاثر پذیری کے باوجود انھوں نے ہر جگہ اپنی انفرادیت برقرار رکھی ہے۔ ان کی فکر اپنی ہے، ان کا لب و لہجہ اپنا ہے۔‘ ‘
( جمیل مظہری، ہندوستانی ادب کے معمار،ساہتیہ اکادمی۔ ص :47)
مظہر امام نے اقبال کے بعد کے جن نظم گو شعرا پر اقبال کے اثرات کا مجموعی طور پر تذکرہ کیا ہے ان میں اکثر و بیشتر نے مثنویاں لکھی ہیں۔ جمیل مظہری نے بھی دو مثنویاں لکھیں۔ ’آب و سراب‘ اور ’جہنم سے‘ لیکن میں یہاں آب وسراب کے سلسلے میں ہی گفتگو کروں گا۔ میں نے بہار کی جن تین مثنویوں کا انتخاب کیا ہے، ان میں آب و سراب سرِ فہرست ہے۔ اور میرے خیال میں اقبال کی’ساقی نامہ‘ اور جمیل مظہری کی آب و سراب مقاصد و نتائج کے اعتبار سے بہت حد تک یکسانیت رکھتی ہیں۔ لیکن سر دست میرا مقصد ان دونوں کا موازنہ اور تقابلی تجزیہ نہیں۔ البتہ یہ ضرور ہے کسی نہ کسی جہت سے جمیل مظہری کے یہاں اقبال کی تاثر پذیری ملتی ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جمیل نے اپنی انفرادیت برقراررکھی ہے اور اپنے ہم عصر ومتعاقب نسل کو بھی متاثر کیا ہے۔ عبد الحمید شمس کی مثنوی’حیات و کائنات‘ اور مرتضیٰ اظہار رضوی کی مثنوی’خور و خواب‘ جمیل مظہری کی تاثر پذیری کا نتیجہ ہی نہیں، یہ دونوں مثنویاں باز گشت کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مثنوی کی جو روایتی صورت صدیوں سے اپنی مستحکم شناخت رکھتی ہے، وہ یہاں بھی برقرار ہے۔ جمیل مظہری سے تاثر پذیری کا اظہار و اعتراف خود ان کے تخلیق کاروں نے بھی کیا ہے۔
عبد المجید شمس معترف ہیں کہ :
آیا جو خیال مثنوی کا
احسان ہے جمیل مظہری کا
کچھ مجھ پہ کھلے سرّ باریک
یہ آب و سراب کی ہے تحریک
تاہم آب و سراب اور حیات و کائنات میں فرق ہے۔ آب و سراب میں جو جذباتی و وجدانی کیفیت اور جمالیاتی شعور کی کارفرمائی ہے، وہ حیات و کائنات میں نہیں۔ حیات و کائنات کا بنیادی فکری نظام جغرافیائی اور حکیمانہ ہے۔ بلکہ چارلس ڈارون کے نظریۂ ارتقا پر اس کا گہرا اثر ہے جس نے مادیت پسندی کے میلان کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ گویا دونوں میں فرق زاویۂ نظر کا ہے جب کہ تخلیق و تکوین کانظریہ دونوں میں قدرِ مشترک کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن زاویۂ نظر کے اس فرق کی وجہ سے دونوں کے اسلوب اور شدت تاثیر میں نمایاں فرق پیدا ہوگیا ہے۔ ان دونوں کے امتیازی پہلوؤں کی وضاحت، کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد ابراہیم نے لکھا ہے کہ :
’’ مثنوی آب و سراب اگر ہمیں خود شناسی کی تعلیم دیتی ہے تو مثنوی حیات و کائنات ہمیں فطری، اخلاقی اور تمدنی ارتقا کے مسائل سے روشناس کراتی ہے اور ہمیں حیات و کائنات کے رموز کی آگہی بخشتی ہے۔‘‘ (اردو مثنوی کا سفر ص:171)
میرے خیال میں حیات و کائنات کا موضوع بھی خشک ہے اور شعری بیان میں بھی حسن و اثر کی کمی ہے اور بہ ظاہر اس کی ایک لائق اعتنا وجہ بھی ہے۔ آب وسراب میں ہبوط آدم کا پس منظر ایک فسانۂ رنگیں کی حیثیت رکھتا ہے حالانکہ جمیل مظہری نے اس روایتی قصّے سے اتفاق نہیں کیا ہے۔
بہر حال حیات و کائنات کی زبان سادہ و شستہ ہے اور اس وجہ سے فکر و فلسفے کی گرانی محسوس نہیں ہوتی۔ حیات و کائنات کا شاعر ابتدا ہی میں تنبیہ و تاکید کرتا ہے:
سائنس کا کلیّہ رہے یاد
ہوتی نہیں کوئی شے برباد
صورت ہر آن نئی ہے
جوہر وہی، مادہ وہی ہے
گرمی سے دباؤ سے نمی سے
خلط اجزا سے روشنی سے
ہر آن بدل رہی ہے ہر شے
قدرت کا نظام ہی یہی ہے
کوئلا جو ہوا بدل کے ہیرا
ہوجاتی ہے اس سے آنکھ خیرا
چونے سے صدف، صدف سے موتی
تبدیلیِ شکل یوں ہے ہوتی
اب ارتقا کا سائنسی نظریہ بھی شاعر پیش کرتا ہے لیکن اس کی آگہی بردار بصیرت سے قدرت کا نظام اوجھل نہیں ہوتا، روایتی تصورات اور تہذیبی محرکات کے اثرات بھی اکثر اپنی جھلک دکھاتے ہیں اور ان سے فکر و فلسفے کی بھی آنچ آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ شاعر کے تخیل کی پرواز متوجہ کرتی ہے:
پانی جو برس کے کھل گیا تھا
گردوں میں دھنک کا تھا تماشا
سورج کی کرن کے سات جلوے
تھے رنگ برنگ کے اکٹھے
ہر شام شفق کی رنگ سازی
نارنجی، سرخ اور پیازی
تاروں کی بہ وقت شب وہ محفل
وہ نرم خرام ماہ کامل
تھا سب کا گماں یہ کہکشاں پر
ہے نور کی نہر آسماں پر
آسمان کے حسن و جمال کے ان پیکروں کی تشکیل کے ساتھ ساتھ، دو شعر زمین کی جلوہ سامانیوں کے سلسلے میں بھی دیکھیں
تھی مثل فلک زمیں بھی شاداں
اور حسن و ادا پہ اپنے نازاں
گو بزم جماد سج گئی تھی
حیوان و نبات کی کمی تھی
یعنی کائنات کی تخلیق ہوچکی تھی۔ بارش کے بعد موسم سہانا لگ رہا تھا رات کی تاریک فضاؤں میں آسمان نے اپنی مانگ میں ماہ و انجم کی افشاں بھرلی تھی۔ کہکشاں سے آسمان کا آنچل زرنگار اور زیب نگاہ تھا۔ لگتا تھا کہ آسمان پر نور کی ندی محوِ خرام ہے۔ آسمان کی جلوہ سامانیوں نے زمین کے سینے میں بھی جذبات کی لہروں کو جگادیا تھا۔ چنانچہ وہ بھی آسمان ہی کی طرح شاداں تھی۔ آسمان کے نور سے زمین کے حسن کا ظہور تھا اور اس حسن پر زمین بھی نازاں تھی۔ حالانکہ زمین کا یہ حسن مکمل نہیں تھا کیونکہ ابھی تک اس کی آغوش حیوانات و جمادات کی تخلیق سے محروم تھی۔ زمین کو شاید پانی کی اہمیت کا احساس نہ تھا جو برس کے کھل گیا تھا اور شاید وہ سطحِ آب پر حیات کے نزول سے باخبر نہ تھی اور ہو تی بھی تو کیسے؟ ابھی حیات کے آثار مشاہدے میں آئے ہی نہیں تھے۔ وہ نمو پذیری کے مرحلے سے گزر رہے تھے:
آخر ہونے لگا ہویدا
پانی میں وجود زندگی کا
یہ راز ابھی نہیں کھلا ہے
تخم شجر حیات کیا ہے
دو شاخیں حیات کی ہیں معلوم
جو الگا ایمیبا سے ہیں موسوم
دونوں تھے الگ الگ خلیے
حیوانات و نباتات جن سے پھیلے
سب کچھ تھا مگر کہاں تھا انساں
تخلیق کا گوہر درخشاں
یہ زیب جہاں، جمال ہستی!
یہ معجزہ و کمال ہستی
یعنی ارتقا کے سلسلے کی اہم ترین تخلیق انسان جو تخلیق کا گوہر درخشاں، زیب جہاں اور جمال ہستی بلکہ معجزہ اور ہستی کا کمال، بزم حیات کا مرکز و محور انسان اب تک معرض وجود میں نہیں آیا تھا جسے از روئے اسلام اس روئے زمیں پر خلافت و نیابت الٰہی کا جلیل القدر منصب عطا ہونے والا تھا۔
مذاہب عالم کے علاوہ فلسفے نے بھی وجود کے مظاہر میں انسان کو مرکزی حیثیت و اہمیت کا حامل قرار دیا ہے۔ قدیم یونانی فلسفی فیثاغورث نے انسان کو تمام عقائد و تصورات کی کسوٹی مانا ہے اور خود شناسی کی تلقین کی ہے۔
"Man is measure of all know thyself"
لیکن تہذیب کے مادیت پسند مفکرین بالخصوص ڈارون نے انسانی وجود کی آفرینش کے سلسلے میں جو نظریہ پیش کیا اور جس کی وجہ سے روایتی عقائد و تصورات پر جو ضرب پڑی اس کی گونج ابھی تک سنائی دیتی ہے۔ اس کے خیال میں اس روئے زمین پر بندر کی صورت میں انسان معرض وجود میں آیا۔ اس سلسلے میں اکبر الہ آبادی کا شاعرانہ رد عمل نئی تہذیب کی تکذیب و تردید پر مشتمل ہے۔ ان کا نہایت ہی مشہور شعر ہے:
نئی تہذیب کو کیا واسطہ ہے آدمیت سے
جناب ڈارون کو حضرت آدم سے کیا مطلب
عبدالمجید شمس نے ڈارون کے خیال کو بھی پیش نظر رکھا ہے۔ کہتے ہیں
مانیں جو اصول ڈارون کے
انسان بنا ہے ارتقا سے
بندر کے سے چلن تھے اس کے
چلتا تھا زمیں پہ دست و پا سے
آزاد ہوئے جو دست و بازو
چوپایوں پہ پاگیا یہ قابو
یہ ماجرا بھی ہے اب پرانا
ہے لاکھوں برس کا یہ فسانہ
گویا حیوان سے انسان بننے میں صدیاں بیت گئیں۔ اس دوران وحشت کم ہوئی اور جب وحشت کم ہوئی تو گھر بھی بنے اور سماج کی بھی بنیاد پڑی۔ پھر تعداد بھی بڑھنے لگی۔ اسی کے ساتھ مسائل بھی بڑھے اور قدرتی وسائل میں کمی آتی گئی جس کے نتیجے میں خود غرضی، بے وفائی اور کج ادائی آئی تب اس کائنات کے خالق کو کچھ خیال آیا۔ اس مسئلے پر اس نے سوچا :
سوچا، انھیں راستے پر لائے
ایماں کا مرتبہ بتائے
چین و ہندوستان و ایراں
شام و عرب و عراق و یوناں
آنے لگے ہر جگہ پیمبر
لانے لگے سب کو راہِ حق پر
ہر دور میں اک امام آیا
ہر قرن میں اک پیام آیا
ا س طرح فیضانِ سماوی سے عقلِ انسانی تجلّی ریز ہونے لگی اور فروغِ تجلّی سے ظلمت کے پردے چاک ہونے لگے۔ نمود سحر کے آثار و امکان کے ساتھ قافلۂ زندگی کی پیش رفت شروع ہونے لگی۔ حیات کی تگ و دو، کشمکش اور جد و جہد کے ساتھ ہی تہذیب کی داستان کا آغاز ہوا، علم و ہنر کا چرچہ عام ہونے لگا، عقل و شعور کی رسائی بڑھنے لگی۔ مسائل حیات سے نبرد آزمائی کے لیے حیات میں قوت، حوصلے میں شدّت اور بصیرت میں تیزی آئی۔ کمزوروں میں طاقت پیدا ہوئی اور مجبوروں کی جرأت بڑھی۔ حالات بدلے۔ ماحول اور معاشرہ بدلا۔ اور اس طرح انسان نے ارتقا کے، کئی مراحل طے کیے ، اس کی سمت و رفتار میں تنوع پیدا ہوا، رنگا رنگی آئی، بوقلمونی پیدا ہوئی یہ سفر اور سلسلہ اب بھی جاری ہے:
اخلاق و تمدن و حکومت
تہذیب و فنون و علم و حکمت
سب مائل ارتقا ہیں ہر آن
قدرت کا یہ بیکراں ہے احسان
فطرت کا ہے ارتقا سبک رو
اور عقل کی ہے تیز تگ و دو
پوشیدہ جو عقل میں ہے اک نظم
اور فطرت آدمی میں اک عزم
انسان کی اسی سے ہے بلندی
تہذیب میں جس سے ہے ترقی
فطرت کا ہے ہم سے یہ تقاضا
جاری رہے ارتقا ہمیشہ!
اس لیے کہ :
معراج یہ ارتقائی ہوگی
بندے میں صفت خدا کی ہوگی
مثنوی حیات و کائنات کا گویا اصل موضوع انسانی زندگی کے’ آدم سے ایں دم تک‘ سفر کی تاریخ ہے۔ آب و گل کی یہ دنیا قدرت کے ارتقائی عمل سے وجود پذیر ہوئی ہے، اور اسی کے ذریعے ہستی کے مدارج طے ہوئے ہیں۔ انسان بھی تہذیب و تمدن اور ماحول کے زیر اثر ارتقائے شعور کے تحت ان مراحل و منازل کو طے کرتا ہواجان جوکھم میں ڈالتا ہوا، موجودہ منزل تک پہنچا ہے۔ فکر کے نئے نئے تناظر اور عمل کی نئی نئی حرکتوں نے اس سفر کی روداد کو نہ صرف رنگا رنگی اور بوقلمونی بخشی ہے بلکہ اسے تمام تر دلچسپ اور دلفریب بنادیا ہے۔
دلچسپی کے لحاظ سے ڈاکٹر مرتضیٰ اظہر رضوی کی مثنوی’خور و خواب‘ بھی کم نہیں بلکہ حیات و کائنات سے فزوں تر ہے۔ مرتضیٰ اظہر رضوی بڑے ہی باغ و بہار اور شگفتہ مزاج انسان تھے۔ شاد کے بعد دبستانِ عظیم آباد میں شاعروں کی جو تثلیث قراردی جاتی ہے اس کے تین زاویے علامہ جمیل مظہری ، پرویز شاہدی اور اجتبیٰ حسین رضوی تسلیم کیے جاتے ہیں۔ ان تینوں کے فکری و فنی مزاج و مذاق میں زمین، آسمان کا فرق تھا لیکن یہ تینوں گہرے دوست تھے ڈاکٹر مرتضیٰ اظہررضوی موخر الذکر کے صاحبزادے تھے۔ شاعری کا ذوق وراثت میں ملا تھا۔غیر شعوری طور پر اشعار موزوں ہونے لگے تھے۔ میں نے تقریباً چار دہائی پہلے پہلی بار انھیں دیکھا تھا۔ تعلقات و مراسم قائم ہوئے تو دو طرفہ کیفیت اس انگریزی جملے’’Keep me in touch’’ کے مطابق رہی۔ اور یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہا۔ میں انھیں پندرہ برسوں تک قریب سے دیکھتا رہا اور ان سے سیکھتا بھی رہا طبیعت موزوں اور رواں تھی۔ حافظہ بھی غضب کا تھا۔ متقدمین فارسی و اردو کے سیکڑوں اشعار از بر تھے۔ بدیہہ گوئی کا یہ عالم تھا کہ شروع ہوئے توبرسات ہونے لگی۔ سیلاب سا آنے لگا۔ ہنستے کھیلتے مسکراتے سگریٹ کے کش لگاتے شعر کہتے جاتے تھے۔ فلسفہ کے شعبے میں درس و تدریس سے متعلق تھے لیکن شاعری میں شگفتگی تھی۔ ان کی حس مزاح بھی غضب کی تھی۔ زیر تذکرہ و تجزیہ مثنوی کے عنوان پر غور کریں تو ان کی حس مزاح یہاں بھی بھڑکتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔’خور و خواب‘ یعنی کھاؤ اور سوؤ۔ لیکن تمہید میں فکری اور لفظیاتی نظام پر غور کریں تو جمیل مظہری کی یاد تازہ ہوجاتی ہے؛
بکھری ہوئی دھجیاں خبر کی
الجھی ہوئی گتھیاں نظر کی
افلاس سا فلسفوں پہ طاری
ادیان میں انحطاط جاری
حکمت کی فضا میں بے یقینی
ہوتی ہوئی دور کور بینی
الجھی ہوئی زلف آگہی کی
اکھڑی ہوئی سانس آدمی کی
اقدار کی نبض چھوٹی چھوٹی
افکار کی آس ٹوٹی ٹوٹی
تھی سینۂ ذات کی تمنا
امکانِ حیات کی تمنا
ایسے میں کوئی طبیب آتا
صحت کی دوا انھیں کھلاتا
موجودہ امام شاعری نے
علامہ جمیل مظہری نے
سمجھی کچھ وقت کی ضرورت
افکار کو دے کے حسنِ صورت
اک طرحِ پیام نکالی
اک راہِ کلام نکالی
اس عہدِ خراب کی کہانی
’آب و سراب‘ کی کہانی‘‘
لیکن اظہر یہ کہہ رہا ہے
یہ مسئلہ نصف حل ہوا ہے
تَوام ہیں بھوک پیاس دونوں
تکوین کی ہیں اساس دونوں
میں آبِ حیات کیسے لاؤں
ہاں بھوک کی داستاں سناؤں
تعمیر نمو کی کہانی
تالیف حدود کی کہانی
دریا کی حیات کی حقیقت
ہے بس خور و خواب کی حقیقت
گیتی میں نمود رزق دے کر
پھیلائی ہے شب کی اس پہ چادر
جب سے ہونے کا سلسلہ ہے
کھانے سونے کا سلسلہ ہے
پہلے کیا تھا یہ کون جانے
خلقت کے گڑھے گئے فسانے
بھوکا تھا ذوق آگہی کا
چلایا شعور آدمی کا!
ہم کون ہیں، کیوں ہیں اور کیا ہیں؟
یہ مسئلے ذہن کی غذا ہیں
خود اپنی غذا کو ڈھونڈھتی ہے
فطرت یہ قدیم بھوک کی ہے
جب کچھ نہ ملے تو خود کو کھانا
اس کا دستور ہے پرانا
جب یہ دنیا نہیں بنی تھی
خود بھوک کو بھوک کھارہی تھی
قرنوں رہی خود میں مبتلا بھوک
بنتی رہی بھوک کی غذا بھوک
جب بھوک نے بھوک کو پچایا
دو چیزوں نے تب ظہور پایا
یہاں مثنوی کی روایتی صوری تشکیل کے باوجود اقبال کی نظم ساقی نامہ کی طرح ہیئتی تنظیم کا امتزاج دکھائی دیتا ہے۔ تمہید چار بندوں پر مشتمل ہے۔ تیسرے بند میں پانچ اور بقیہ میں سات اشعار ہیں۔ گویا ان میں اشعار کی قید نہیں۔ آگے چل کر ہم جدّت طرازیوں کے کچھ اور آیات و آثار بھی دیکھیں گے۔
اب جہاں تک فکری تنظیم اور فلسفیانہ موشگافیوں کا تعلق ہے تو پہلے بند میں اس صورت حال کا بیان ہے جو بیسویں صدی کے ربع اول میں پیدا ہونے لگی تھی۔ سترہویں صدی سے پہلے فلسفہ کو سرچشمۂ علم ماناجاتا تھا چنانچہ اس کی اہمیت بفتوائے تاریخ ثابت تھی۔سترہویں صدی میں اسی سرچشمہ سے حکمت (سائنس) الگ ہوئی اور ارتقا کے مختلف مراحل سے گزرکر اس نے اپنی حیثیت و اہمیت منوالی۔ تہذیبی روایات اور مذہبی اعتقادات پر اس نے شدید ضرب لگائی چنانچہ مذہب پسندوں کے حلقے میں اس سے بیزاری بھی آئی لیکن حکمتوں کی دین سے زندگی کے مشکل سفر میں جو آسانیاں پیدا ہوئیں ان سے کون انکار کرسکتا تھا۔ فکری و صنعتی انقلاب سے عالم انسانی بہر صورت مرعوب ہوا۔ لیکن حکمتوں کی مادیت اور قطعیت پسندی سے مطمئن نہ ہوسکا۔ اس کے دل و دماغ سے صانعِ ازل و صانعِ عالم کا روایتی عقیدہ محو نہ ہو سکا۔ اسی وجہ سے سائنس کو غارت گرِ دین و مذہب بھی قرار دیا گیا۔ لیکن خود طبعیات کے علوم سے متعلق نئی نسل اور نئی ذہنیت کے علمائے انتقادیات نے بھی کلاسیکل فزکس کے کائنات کے ٹھوس ہونےSolid validity)) کے دعوے سے اختلاف کیا اور بیسویں صدی کے ربع اول میں مادے کو خیال ثابت کردیا۔ اس طرح قطعیت پسندی کی بنیاد پر شدید ضرب پڑی اور انسانی ذہن کی فطری سیالیت کو تازہ ہوا کے جھونکے محسوس ہونے لگے۔ ڈی بروگلے، ہیزن برگ، شرو ڈنگر اور آئنسٹائن وغیرہ نے فکر کے سانچے اور کائنات کے ڈھانچے کو ہی بدل کر رکھ دیا۔ کائنات کیSolid validity سائنسی عقیدے کے مطابق لہروں کے نظام میں بدل گئی۔ یہ ایک بڑا انقلاب تھا جس نے اٹھارہویں، انیسویں صدی کی قطعیت پسندی کو باطل قرار دیالیکن اس کے ساتھ لا تعینیت پیدا کردی۔ یہ صورتِ حال دانشورانِ عصر کے لیے خوش کن تھی۔ اقبال نے مذہبی تجربات کے لیے اس صورت حال کو موزوں قرار دیا۔ ابوالکلام آزاد نے اپنے مخصوص انداز و اسلوب میں اس کا خیر مقدم کیا۔ لیکن عوام میں تشکیک کی لہر پیدا ہوئی۔ حد تو یہ ہے کہ حکمت و سائنس کی فضا میں بھی بے یقینی کی کیفیت پیدا ہوئی۔ تمہید کے پہلے بند میں اسی عمومی ذہنی صورت حال کا بیان ہے۔آخری شعر اور ٹیپ کے شعر میں جس تمنا کا اظہار کیا گیا ہے۔ وہ بہ ظاہر تو مضحکہ خیز ہے کیونکہ جس طبیب اور دوا کی تمنا کا اظہار ہے، وہ ایک شاعر ہے یا اس کی شاعری ہے۔ لیکن دانشورانہ تفکر کی روسے یہ بہت ہی بلیغ ہے کیونکہ بیماری کی جو نوعیت اور بیماری کی جو کیفیت ہے، اس کا علاج کسی ڈاکٹر، کسی انجینئر یا کسی سائنس داں کے پاس نہیں۔ اگر ہے تو شاعر کے پاس ہی ہے۔ اس کا اعتراف ایک فلسفی اور دانشور ڈاکٹر رادھا کرشنن نے بھی کیا ہے۔
بہرحال تمہید کے آخری بند کا آخری شعر ذہن میں رکھیں تو اس کو قصے کی اگلی کڑی کی تمہید قرار دے سکتے ہیں۔ شعر مذکور میں دو چیزوں کے ظہور کی خبر دی گئی ہے چنانچہ اگلا حصہ انہی دو چیزوں پر مشتمل ہے اور عنوان ہے’خلقت پانا روح اور مادے کا‘۔ یہ حصہ تین بندوں پر مشتمل ہے۔ پہلے یہ دو بند دیکھیں :
جوہر بنا اس سے اور فُضلا
پیدا ہوئی سطح پست و بالا
جوہر جزو گرسنگی تھا
فُضلے کو لقب ملا عرض کا
جوہر وحدت عرض ہے کثرت
جوہر معنی عرض ہے صورت
منظور ہے فہم کی سہولت
جوہر ہے نور عرض ہے ظلمت
کیسا عجیب ماجرا ہے
ظلمت ہی نور کی غذا ہے
جوہر سے عمل، عمل سے گرمی
گرمی سے زندگی کی نرمی
فضلے سے فگندگی گرانی
فضلے سے مادے کی سختی
نرمی لگی سختیوں کو کھانے
بننے لگے بھوک کے فسانے
نرمی میں قدم ہے اور روانی
سختی میں حدوث و سرگرانی
اک دائرہ بن گیا انوکھا
فضلے سے غذا، غذا سے فضلہ
پستی کو بلندیوں نے کھایا
اک طرفہ تماشا سا دکھایا
ظاہر ہوئے بھوک کے مظاہر
آپس میں ملے کثیف و طاہر
ہے ظلمت و نور کا تسلسل
امکانِ ظہور کا تسلسل
خود اپنی غذا بنائے جانا
پیدا کر کے کھائے جانا
دھرتی سے اگے گا جو بھی پودا
دھرتی ہی کی پھر غذا بنے گا
ہے بھوک جو آخری حقیقت
ہے گرسنگی مزاجِ فطرت
فطرت کا مزاج کون بدلے
کھانے کا رواج کون بدلے
اس خیال کی تائید و توثیق کے لیے چار ماخوذ اشعار پیش کیے گئے ہیں۔ یہ ایک طرح کی جدّت طرازی کے مظہر ہیں:
کھانا ہے وجود کی نشانی
کھانا ہے دلیل زندگانی
کھانے پہ ہے زندگی جہاں کی
یہ رسم قدیم ہے یہاں کی
(قرآن)
’ہے دوڑتا اشہبِ زمانہ
کھا کھا کے طلب کا تازیانہ‘
(اقبال)
کھانے والے نکل گئے ہیں
بھوکے جو رہے کچل گئے ہیں
(ڈارون)
جوہر اور مادے کی ازلی ابدی خصوصیات کی وضاحت و تفصیلات کے بیان کے بعد’قصہ تخلیق آدم کا‘ پیش کیا گیا ہے اور افسانۂ رنگیں و دلکش میں تفکر و تفلسف کی روح سمودی گئی ہے۔
امکانِ نمو مچل رہا تھا
طوفاں ساحل پہ پل رہا تھا
جادہ بننا تھا آگہی کا
کھلتا تھا بھید زندگی کا
تخلیقِ عرض کا سلسلہ تھا
جوہر جوہر کو ڈھونڈھتا تھا
پابند گر سنگیِ فطرت
تھیں لہریں کئی فرشتہ صورت
دل ان میں تھا نہ ہوک ان میں
ظاہر نہ ہوئی تھی بھوک اُن میں
وہ نور کے پیکری مظاہر
بیگانۂ گرمیِ عناصر
پیکر نوری، مزاج نوری
خالی ز ارادہ ناصبوری
نَے اُن کی دمِ بیخودی سے محروم
رقص اُن کا رمِ خودی سے محروم
تھے گرچہ امینِ راز پیکر
تھے بھوک سے بے نیاز پیکر
قدرت اپنی گرسنگیِ کا !
ان میں پاتی نہ تھی تقاضا
تسکینِ طلب جو حد سے گزری
قدرت قامت سے قد سے گزری
پتلہ مٹی کا اک بنایا
اس پر طرفہ ستم یہ ڈھایا
پھونکی پتلے میں ہو‘ک اپنی
دے دی مٹی کو بھوک اپنی
تشریفِ شرافت اس کو دے دی
حتیٰ کہ خلافت اُس کو دے دی
سجدہ کرواکے نوریوں سے
دوری دے دی حضوریوں سے
اس پیکرِ گرم و مشتعل کو!
اس طینتِ نرم و منفعل کو
اسماء کا بنا کے تر نوالا
تخلیق کی بھوک نے کھلایا
پھر حکم ہوا اسے پچاؤ
جنت کی اوس دھوپ کھاؤ
ہوتی رہی تربیت خودی کی
بڑھتی گئی اشتہا دوئی کی
جنت نا مہرباں نہیں تھی
درد آگہ و ہمزباں نہیں تھی
پہلو میں دل مچل رہا تھا
تنہائی کا درد پل رہا تھا
قدرت نے کیا تب ارادہ
پسلی سے بناؤ اس کی مادہ
تنہائی کے درد کی دوا دی
’حوّا‘ اس کے لیے بنادی
پھر حکم دیا ساتھ جاؤ
جنت میں جو نعمتیں ہیں کھاؤ
لیکن دکھلا کے اک شجر کو
یہ حکم دیا ابو البشر کو!
آدم دیکھو ادھر نہ جانا
سب کھانا پر اس کا پھل نہ کھانا
تاثیر تھی اس میں رد و کد کی
اس پھل میں تھی آگہی جسد کی
روزی کی تلاش کا جھمیلا
یا کسبِ معاش کا جھمیلا
مدت تک اوس دھوپ کھائی
آنکھ اس طرف نہ اپنی اُٹھائی
روزی کا ڈھونڈنا نہیں تھا
کھانا کوئی مسئلہ نہیں تھا
لیکن جب دل نے گدگدایا
پھل توڑکے اس شجر کا کھایا
تب حکم ہوا زمیں پہ جاؤ
اپنے لیے خود غذا اگاؤ
اب آج سے بھوک ہے تمھاری
تسکین کی ہے تم پہ ذمے داری
ڈاکٹر محمد ابراہیم نے تقابلی پیرایۂ تنقید و تحریر اختیار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :
’’ڈاکٹر رضوی کی مثنوی ’خور و خواب‘ آب و سراب کے جواب میں ہے۔ آب و سراب کا کلیدی تصور گرسنگی اور بیداری ہے جب کہ خور و خواب کا کلیدی تصور گرسنگی اور خوابیدگی ہے۔ آ ب و سراب میں شعور کو قدیم مانا گیا ہے جبکہ خور و خواب میں مادے کو۔ مادہ خلقی طور پر گرسنگی اور ماندگی سے وابستہ ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ مثنوی صرف برائے جواب لکھی گئی ہے۔ اس میں جذباتی شدّت کا فقدان ہے اور صرف منطقی تعمیر کا میلان ہے۔ یہ مثنوی ایک نظریہ ہو تو ہو پارۂ فن نہیں ہے۔‘‘
(اردو مثنوی کا سفر۔ ص:181)
میرے خیال میں یہ خیال درست نہیں کہ مثنویِ خور و خواب‘۔ ’ آب و سراب‘ کے جواب میں ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ ڈاکٹر رضوی آب و سراب سے متاثر ہوئے اور اسی سے انھیں خور و خواب کی تحریک ملی۔ اس میں جذباتی شدّت کی کمی ضرور ہے لیکن فقدان قرار دینا محل نظر ہے۔ اس طرح منطقی تعمیر کا میلان بھی نمایاں ہے اور ایک نظریہ بھی ہے۔ البتہ شہکار فن نہیں لیکن کیا کسی پارۂ فن کے لیے جذبات کی شدّت ناگزیر ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ فکر وفن کے امتزاج سے تخلیق ہونے والا یہ اچھوتا فن پارہ بھی ہے۔ اور تاثرات کے لحاظ سے بھی عبد المجید شمس کی مثنوی’ حیات و کائنات‘ سے فزوں تر ہے۔ آب و سراب سے اس کے موازنے کا جواز تو ہے مگر بہت ہی کمزور جواز ہے۔ اس سلسلے میں یہ وضاحت بھی غیر ضروری نہ ہوگی کہ یہ کوئی باضابطہ موازنہ یا تقابلی تجزیہ نہیں۔ یہ اصلاً ضمنی تبصرہ ہے جو بر سبیل تذکرہ معرضِ گفتگو میں آگیا ہے اور یہاں بھی جمیل مظہری کی فنی، فکری اور جذباتی عظمت کا اعتراف ہے۔ علامہ جمیل مظہری واقعی اپنے زمانے اور اپنی زمین یعنی پورب کے تاجور سخنوری’ سلطانِ معانی زار اور الفاظ کے شہرِ یار تھے۔ان کا یہ دعویٰ لائق بے اعتنائی نہیں کہ
روداد لطیف ایں زمانی
یوں نقل ہے خامہ کی زبانی
پورب میں ایک مظہری تھا
وہ تاجور سخنوری تھا
سلطانِ معانی زار تھا وہ
الفاظ کا شہر یار تھا وہ
(مثنوی در مدح میر فضل اللہ(محسن جمیل)، مشمولہ عکس جمیل، مرتب رضا مظہری۔ ص:177)
میں نے ’ساقی نامہ‘ اور آب و سراب کا تقابلی تجزیہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ
’’ علامہ جمیل مظہری بنیادی طور پر نظم کے شاعر ہیں اور اقبال کے بعد اردو نظم نگاری کے افق پر درخشاں ہونے والے ستاروں مثلاً سیماب اکبر آبادی، جوش ملیح آبادی، حفیظ جالندھری، اختر شیرانی، احسان دانش، ساغر نظامی اور روش صدیقی وغیرہ کے مابین اپنی تابانی سب سے الگ رکھتے ہیں۔ حالانکہ اقبال سے تاثر پذیری کے آیات و آثار کم و بیش اور کسی نہ کسی جہت سے ان سبھوں کی شاعری میں دکھائی دیتے ہیں لیکن جمیل مظہری دانش و بینش، فکر و آگہی اور حکمت و فلسفہ میں نہ صرف اپنے معاصرین میں ممتاز نظر آتے ہیں بلکہ بعض نظموں بالخصوص مثنویوں میں اقبال کے مد مقابل کے طور پر ضرور ابھرتے ہیں۔‘‘ ( مشمولہ نئی غزل میں تلمیح کی معنوی وسعت۔ ص:76)
ساقی نامہ میں خودی کا فلسفہ بیان کیا گیا ہے، اقبال اس کے ذریعے خودی اور خود شناسی کی تعلیم دیتے ہیں۔ نتائج اور نقطۂ کمال کے لحاظ سے جمیل مظہری کی آب و سراب بھی مختلف نہیں ہے لیکن ان دونوں میں کچھ فرق بھی ہے۔ فرق ہے اظہار کے اسلوب، بیان کے پیرائے اور لہجے کا۔ اگر اول الذکر میں رجائیت اور فعالیت ہے تو موخر الذکر میں یاسیت اور انفعالیت کا لہجہ نمایاں ہے لیکن یہاں بھی خودی اور خود شناسی کی ہی تجلیاں حریمِ قلب و نظر میں جلوہ ریز دکھائی دیتی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ساقی نامہ کا آغاز صہبا گساری کے اہتمام سے ہوا ہے جب کہ جمیل مظہری نے ابتدا ہی میں تشنگی کو آب آفریں کے چھینٹے سے شعلے کی مانند بھڑکادیا ہے، جیسا کہ افتتاحیہ قطعہ’اعتراف‘ کے تاثرات سے واضح ہے
تو پوجتی آئی ہے ازل سے
تدبیر سراب آفریں کو
اے تشنہ دلی ہوش میں آ
اک سجدہ کر آب آفریں کو
شعلے کی مانند بھڑکی ہوئی پیاس نے طلبِ آب کو بڑھادیا ہے۔ یہی پیاس، یہی تشنگی اس مثنوی کی کلیدی علامت ہے۔ عصری ذہنی نا آسودگی کی کیفیات اس علامتی تعبیر میں مضمر ہیں۔ شاعر نے پیاس ، ناآسودگی اور کرب و اضطراب سے پیدا ہونے والی ذہنی کیفیات کو سہارا دینے کے لیے آسودگی کا ایک امکان دیا ہے اور آب آفریں کا ایک تصور دیا ہے۔ اس کے بعد کاروانِ حیات کے حالِ زار پر روشنی ڈالی ہے۔
اللہ اللہ یہ ہولناک صحرا
کیا دے گا سوائے خاکِ صحرا
بے آب و گیاہ ہے یہ صحرا
بے چشمہ و چاہ ہے یہ صحرا
لو چلتی ہے کارواں ہیں پیاسے
بچے پیاسے جواں ہیں پیاسے
یہاں مایوسی اور محرومی کا احساس شدید سے شدید تر ہوتا چلا گیا ہے۔ یاسیت اور قنوطیت کے مہیب غار سے انسانیت کی بلبلاتی ہوئی آواز ابھرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ تنہائی اور نا پرسانی کے بیان سے مترشح ہے کہ شاعر وجودسریتExistentialism)) کے فلسفے سے متاثر ہے اور اس سے یہ بھی واضح ہے کہ اس کائناتِ فطرت میں انسان اجنبی ہے۔ آؤٹ سائڈرOutsider) (ہے، تنہائی اور ناپرسانی اس کا مقدر ہے۔ بقول ڈاکٹر مرتضیٰ اظہر رضوی :
اس شورشِ رنگ و بو میں
سرگرداں ہے اپنی جستجو میں
تنہا ہے رفیق بھی نہیں ہے
اور کوئی شفیق بھی نہیں ہے
یہ اس انسان کا مقدر ہے جو وجہ تخلیق کائنات بھی ہے اور خلیفتہ اللہ فی الارض بھی لیکن زندگی کا راز اس پر نہیں کھلتا، وہ اس کی جستجو میں سرگرداں ہے۔ اس کا دل بے تاب اور وقفِ اضطراب ہے۔ اقبال کی رجائیت ہر چند کہ ناقابل تردید ہے لیکن انھوں نے بھی کسی موقع پر قدرت کے اس ستم کو محسوس کیا تھا اور شدت کے ساتھ محسوس کیا تھا اور اسی احساس نے انھیں’انسان‘ جیسی نظمیں لکھنے پر مجبور کیا تھا
قدرت کا یہ عجب ستم ہے
انسان کو راز جو بنایا!
راز اس کی نگاہ سے چھپایا
بے تاب ہے ذوقِ آگہی کا
کھلتا نہیں بھید زندگی کا
حیرت آغاز و انتہا ہے
آئینے کے گھر میں اور کیا ہے
اس نظم میں جس حزن کی کیفیت ہے، جمیل مظہری کے یہاں یہی تشنگی کی علامت کے طور پر ابھری ہے۔ اشعار ملاحظہ ہوں :
اے مطربِ بزم آشنائی
ماتم خانہ ہے یہ خدائی
ماتم ہے کرانہ تا کرانہ
چھیڑ آب و سراب کا فسانہ
پیاسوں کا ہجوم فوج در فوج
دریائے سراب موج در موج
جلوے پیاسے نگاہ پیاسی
حیرت بالائے چاہ پیاسی
کچھ شوق کنارِ جو‘ بھی پیاسے
کچھ لب بہ لب سبو بھی پیاسے
ہر موجِ حیات کی زبانی
اک تشنہ لبی کی سو کہانی
تاریخ ہماری کیا ہے
اک تشنہ لبی کا مرثیہ ہے
یہ عصر حاضر کے ذہنی فکری ماحول کی منظرکشی ہے۔ اس میں’شوق کنارِ جو‘ اور’لب بہ لب سبو‘ بالترتیب عصری حکمت اور عصری الٰہیات کی علامتی تعبیریں ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ ہر ساز میں ایک تپش نہاں ہے۔ موسیقی اسی کی نوحہ خوانی ہے۔ یہی بانسری کی فریاد اور شاعری کی آواز ہے۔ افسانوں میں بھی یہی دہائی ہے۔ غرض کہ ہر دل میں ایک بے بجھائی سی آگ لگی ہے۔ یہ کسی فرد واحد کا ذاتی اور انفرادی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ایک اجتماعی اور آفاقی مسئلہ ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس کے حل کرنے کا دعوی ہر فلسفہ اور ہر منطق‘ ہر دین اور حکمت کو تھا لیکن انھوں نے جو حل پیش کیا وہ بذات خود ایک مسئلہ ہی تھا۔ اس معنوی تناظر میں ذہن تاریخ فلسفۂ مغرب کے مصنف برٹرانڈ رسل کے مشہور زمانہ قول کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ اس نے کہا تھا کہ فلسفے مسائل کا حل نہیں دیتے، مسائل کی آگہی دیتے ہیں۔ یہی بات جمیل مظہری نے بھی محسوس کی جب انھوں نے کہا :
وہ عقل کے بندگانِ زنجیر!
تکتے تھے ادھر ادھر بچشم تحقیر
یہ مدعیانِ عقل و دانش
یہ سادہ دلانِ عقل و دانش
اپنی تمیزِ نیک و بد پر
دانش پر شعور پر خرد پر
مغرور نہ ہوں بقولِ عرفی
یہاں جمیل مظہری کا رد عمل اس طبقے کے بھی خلاف نظر آتا ہے جسے نہ تو مسئلے کا احساس تھا، نہ مسئلے کے حل کی تلاش، وہ :
نامحرم جلوۂ معانی
سمجھا کیے ریت ہی کو پانی
جمیل مظہری علمائے فلسفہ اور حکمائے طبعیات کے بعد صوفیوں اور تارکین دنیا کی بھی خبر لیتے ہیں، جنہوں نے ترک کا شیوہ اختیار کیا تو منزل کو بھی ترک کردیا۔ اس صورتِ حال کے پیشِ نظر جمیل مظہری متاسفانہ انداز میں فرماتے ہیں :
لیکن جو تھے رازدان و عارف
جویائے حقائق و معارف
جن کی ساری حیات موہوم
اک لطف سراب سے محروم
پانی کو بھی وہ سراب سمجھے
جلوہ تھا مگر نقاب سمجھے
یعنی ان کا بھی حشر وہی ہوا جو مفکرین و حکماء کا ہوا تھا۔ وہ بھی آسودگی اور مسئلے کے حل سے اتنی ہی دور رہے۔ چنانچہ
دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے
انجام غرض کہ تشنگی ہے
جمیل مظہری فلسفہ، حکمت اور مذہب کی ناکامی کو اسی طرح محسوس کرتے ہیں جس طرح مغربی مفکر برٹرانڈ رسل محسوس کرتا ہے۔ ان ناکامیوں کا لازمی نتیجہ اس فراریت اور یاسیت کو جنم دیتا ہے جو اس عہد کا ذہنی سرمایہ ہے، جس نے مسائل کے حل کے امکانات کو مشکوک و مشتبہ کردیا ہے اور جس کے نتیجے میں زندگی اپنی مقصدیت کھوچکی ہے اور بہتری کی توقعات سے نا امید ہو کر بیزاری کی کیفیت میں مبتلا ہوگئی ہے۔ تشنگی کے اس احساس نے زندگی کا رخ موڑدیاہے۔ چنانچہ جمیل مظہری قلب و نظر کے تشنہ کاموں اور ریگ و سراب کے غلاموں کو اس صورتِ حال سے آگاہ کرتے ہیں:
اے قلب و نظر کے تشنہ کامو!
اے ریگ و سراب کے غلامو!
احساس تمہاری تشنگی کا
رخ پھیر چکا ہے زندگی کا
جمیل مظہری کے خیال میں اس صورتِ حال کے اسباب دو ہیں جن کو وہ حد درجہ انکسار کے ساتھ بیان کرتے ہیں:
ہم کیا کہیں ہم تو بے ادب ہیں
اس تشنہ لبی کے دو سبب ہیں
پہلی ہے یہ وجہ سرگرانی
یعنی کہ ملا جو تم کو پانی
پانی نہیں عکسِ آب تھا وہ
جوکچھ بھی ملا سراب تھا وہ
اور دوسری وجہ جو ہے پیارے
وہ دل کی تہوں میں ہے تمہارے
جو روح پہ ازل سے ہے طاری
تشنہ لبی نہیں تمہاری
یہ پیاس تمھاری نہیں ہے بابا
تم میں جو خدا ہے وہ ہے پیاسا
جو قدرتیں اس نے تم کو دی ہیں
وہ سینۂ شوق میں گھٹی ہیں
حالت طاری ہے ان پر غش کی
ہونٹوں پہ شور ہے العطش کی
خطرے میں ہے ان کی زندگانی
لللّٰہ پلاؤ ان کو پانی
حالانکہ ان کی سبیل کے لیے مذاہب مقرر تھے جو متحجر ہوچکے ہیں۔ اسDogmaکا احساس چارلس ڈکنس نے اپنی دو شہروں کی کہانیTales of two citiesکے ذریعے دلایا ہے:
''It was a time when dogma was eating dogma?"
جمیل مظری نے اسی سلسلے میں دانش کے فتور اور مذہب کے قصور پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے دیر و حرم کی سجدہ گاہوں اور مدرسوں اور خانقاہوں کو جہل کدہ قرار دیا ہے اور ذہنوں کو اس عذابِ دانش حاضر سے نکالنے کے لیے ان جہل کدوں پر قفل ڈالنے کی تلقین کی ہے، تحریک دی ہے۔ یہی نہیں انھوں نے چراغِ دیر و حرم کو بجھاکر تاریکی کو اور بھی بڑھادینے کا مشورہ دیا ہے۔ کیونکہ:
اقبال کے یہاں تصوف، تکلم، شریعت اور کلام کی جو کیفیتیں ہیں، یا یہ کہ:
جلوتیانِ مدرسہ کور نگاہ و مردہ ذوق
خلوتیانِ میکدہ کم طلب و تہی کدو
کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے
پیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اٹھادو
اس کیفیت یا بحرانی صورتِ حال نے عصری ذہن کو جس خلفشار میں مبتلا کر رکھا ہے اس کے اظہار پر اقبال و جمیل ہی مجبور نہیں ہیں۔اگر جمیل مظہری اپنی ایک رباعی میں اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ:
میں یہ نہیں کہتا کہ سویرا کردے
دو کام میں اک کام میرا کردے
یا روشنی تیز کر کہ کچھ دیکھ سکیں
یا اوربھی گھنگھور اندھیرا کردے
تو اجتبیٰ رضوی بھی یہی محسوس کرتے ہیں۔ ذیل کی رباعی میں وہ جمیل کے ہم خیال اور ہم نوا نظر آتے ہیں۔
بدتر ہونا بھی اس سے بہتر ہوتا
دل کاش نہ ہوتا کوئی پتھر ہوتا
جب علم پہ دسترس نہیں ہے یارب
تو جہل پہ صبر ہی میسر ہوتا
یہ عصری بے چینی اور اس دور کا المیہ ہے جس پر کسی مفکر یا شاعر کا اجارہ نہیں ہے۔ جمیل مظہری کی مثنوی ’آب و سراب‘ میں یہاں تک عصری ذہن کی عکاسی ملتی ہے۔ کوئی نظریہ یا فلسفہ نہیں ملتا۔ البتہ مثنوی کے ساتویں بند سے ایک تکوینی تصور(Cosmological concept) کی شروعات ہوتی ہے۔ جمیل مظہری انسان کی قدرتِ نہانی سے اس قصے کا آغاز کرتے ہیں
تم میں جو ہیں قدرتیں نہانی
اب ان کی سنو ذرا کہانی
اقبال ہی کی طرح جمیل مظہری کی آب و سراب میں تصوف، تکلم، شریعت، کلام یہاں تک کہ سیاست گری بھی ذلیل و خوار نظر آتی ہے۔ خودی کا عالم یہ ہے کہ اسے ترک نہ کیا جائے تو تشنہ کامی اور ترک کردیا جائے تو اُس کا نتیجہ غلامی ہے۔ گویا کہ حالتِ اعتدال کا راز تہذیب خودی میں مضمر ہے۔ کیونکہ
نار اس کی ہے اصل نور بنیاد
یہ خود ہے ربوبیت کی اولاد
تہذیبِ خودی مشقِ دل گدازی ہے :
ہے بسکہ مشقِ دل گدازی
اک ربط نیاز و بے نیازی
تادیب محرکاتِ ذاتی
تخریب تعیّنات ذاتی
ہر لحظہ جو اس میں معرکے ہیں
تہذیبِ خودی کے مرحلے ہیں
خودی کی تہذیب و تربیت کے مراحل کا تعین اقبال نے بھی کیا ہے لیکن مذہبی نقطۂ نظر سے اس میں شبہ نہیں کہ وہ مذہب پسند بھی تھے۔ فلسفی بھی اورشاعر بھی اور ان کے خیال میں تینوں کا مطمح نظر ایک ہی ہے حالانکہ طریقۂ کار اور اسالیبِ اظہار میں فرق ہے جمیل مظہری کا اندازِ فکر اور اسلوبِ اظہار شاعرانہ و فلسفیانہ ہے۔ وہ صرف مسئلے کی تحقیق ہی نہیں کرتے بلکہ اس سے پیدا ہونے والے مرض کی تشخیص بھی کرتے ہیں اور اس سے نمٹنے کے طریق کار کی کی تجویز بھی پیش کرتے ہیں:
ہر صورت حال مرحلہ ہے
ہجر اور وصال مرحلہ ہے
ہر سانس میں اک نیا تلاطم
ہر گام پہ اک نیا تصادم
بخشے ہیں دلوں کو راز اس نے
سونپی ہے فضا کو آگ اس نے
تم اس سے تپا کے اپنے سینے
طے کرکے بہ سرعت اس کے زینے
پہلے تو خودی پہ فتح پالو
کنبے کو خدا کے پھر سنبھالو
ہے بسکہ خودی سوار تم پر
ہے غلبہ روح نار تم پر
تم نور سے نار کو دباؤ
مٹی سے شرار کو بچاؤ
یہ کیوں کہوں موت دو خودی کو
دو معرفت اس گمرہی کو
اتنی کہ وہ دام کو سمجھ لے
اور اپنے مقام کو سمجھ لے
یعنی تمھاری خودی تم پر آشکارا ہو جائے۔ اور اقبال کے خیال میں بھی
یہ ہے مقصدِ گردشِ روزگار
کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار
اقبال کے نظامِ فکر میں قدیم متصوفین، شعرا اورمتکلمین سے جدید مفکرین تک کے افکار کی جھلک ملتی ہے۔ انھوں نے ساقی نامہ کو اپنے نظام فکر کے اظہار کے لیے تخلیق کیا۔ اردو مثنویوں میں یہ ایک نیا تجربہ تھا جس نے بعد کے مفکر شعرا کے افکار کے لیے نہ صرف ایک اہم محرک کی حیثیت اختیار کرلی بلکہ وسیلۂ اظہار کے لیے راہ بھی ہموار کردی جس پر اقبال کے بعد جمیل مظہری نے مثنوی آب و سراب میں کامیابی و کامرانی کے ساتھ اپنی جولانیِ فکر و فن کا مظاہرہ کیا۔ مثنوی کا دور جدید اس مثنوی پر ختم ہوتا ہے لیکن عصررواں کے لیے نئے آفاق بھی کھول دیتا ہے جس کے نتیجے میں پرنسپل عبد المجید شمس کی مثنوی ’حیات و کائنات‘ اور ڈاکٹر مرتضیٰ اظہر رضوی کی’مثنوی’خور و خواب‘ معرض وجود میں آتی ہے۔ اور بہتر امکانات کا پتہ دیتی ہے۔
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
Manzar Aijaz
Prof. & Head, P.G. of Urdu
A. N. College, Patna
Patna (Bihar)
Mob : 09431840245
عبد المجید شمس معترف ہیں کہ :
آیا جو خیال مثنوی کا
احسان ہے جمیل مظہری کا
کچھ مجھ پہ کھلے سرّ باریک
یہ آب و سراب کی ہے تحریک
تاہم آب و سراب اور حیات و کائنات میں فرق ہے۔ آب و سراب میں جو جذباتی و وجدانی کیفیت اور جمالیاتی شعور کی کارفرمائی ہے، وہ حیات و کائنات میں نہیں۔ حیات و کائنات کا بنیادی فکری نظام جغرافیائی اور حکیمانہ ہے۔ بلکہ چارلس ڈارون کے نظریۂ ارتقا پر اس کا گہرا اثر ہے جس نے مادیت پسندی کے میلان کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ گویا دونوں میں فرق زاویۂ نظر کا ہے جب کہ تخلیق و تکوین کانظریہ دونوں میں قدرِ مشترک کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن زاویۂ نظر کے اس فرق کی وجہ سے دونوں کے اسلوب اور شدت تاثیر میں نمایاں فرق پیدا ہوگیا ہے۔ ان دونوں کے امتیازی پہلوؤں کی وضاحت، کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد ابراہیم نے لکھا ہے کہ :
’’ مثنوی آب و سراب اگر ہمیں خود شناسی کی تعلیم دیتی ہے تو مثنوی حیات و کائنات ہمیں فطری، اخلاقی اور تمدنی ارتقا کے مسائل سے روشناس کراتی ہے اور ہمیں حیات و کائنات کے رموز کی آگہی بخشتی ہے۔‘‘ (اردو مثنوی کا سفر ص:171)
میرے خیال میں حیات و کائنات کا موضوع بھی خشک ہے اور شعری بیان میں بھی حسن و اثر کی کمی ہے اور بہ ظاہر اس کی ایک لائق اعتنا وجہ بھی ہے۔ آب وسراب میں ہبوط آدم کا پس منظر ایک فسانۂ رنگیں کی حیثیت رکھتا ہے حالانکہ جمیل مظہری نے اس روایتی قصّے سے اتفاق نہیں کیا ہے۔
بہر حال حیات و کائنات کی زبان سادہ و شستہ ہے اور اس وجہ سے فکر و فلسفے کی گرانی محسوس نہیں ہوتی۔ حیات و کائنات کا شاعر ابتدا ہی میں تنبیہ و تاکید کرتا ہے:
سائنس کا کلیّہ رہے یاد
ہوتی نہیں کوئی شے برباد
صورت ہر آن نئی ہے
جوہر وہی، مادہ وہی ہے
گرمی سے دباؤ سے نمی سے
خلط اجزا سے روشنی سے
ہر آن بدل رہی ہے ہر شے
قدرت کا نظام ہی یہی ہے
کوئلا جو ہوا بدل کے ہیرا
ہوجاتی ہے اس سے آنکھ خیرا
چونے سے صدف، صدف سے موتی
تبدیلیِ شکل یوں ہے ہوتی
اب ارتقا کا سائنسی نظریہ بھی شاعر پیش کرتا ہے لیکن اس کی آگہی بردار بصیرت سے قدرت کا نظام اوجھل نہیں ہوتا، روایتی تصورات اور تہذیبی محرکات کے اثرات بھی اکثر اپنی جھلک دکھاتے ہیں اور ان سے فکر و فلسفے کی بھی آنچ آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ شاعر کے تخیل کی پرواز متوجہ کرتی ہے:
پانی جو برس کے کھل گیا تھا
گردوں میں دھنک کا تھا تماشا
سورج کی کرن کے سات جلوے
تھے رنگ برنگ کے اکٹھے
ہر شام شفق کی رنگ سازی
نارنجی، سرخ اور پیازی
تاروں کی بہ وقت شب وہ محفل
وہ نرم خرام ماہ کامل
تھا سب کا گماں یہ کہکشاں پر
ہے نور کی نہر آسماں پر
آسمان کے حسن و جمال کے ان پیکروں کی تشکیل کے ساتھ ساتھ، دو شعر زمین کی جلوہ سامانیوں کے سلسلے میں بھی دیکھیں
تھی مثل فلک زمیں بھی شاداں
اور حسن و ادا پہ اپنے نازاں
گو بزم جماد سج گئی تھی
حیوان و نبات کی کمی تھی
یعنی کائنات کی تخلیق ہوچکی تھی۔ بارش کے بعد موسم سہانا لگ رہا تھا رات کی تاریک فضاؤں میں آسمان نے اپنی مانگ میں ماہ و انجم کی افشاں بھرلی تھی۔ کہکشاں سے آسمان کا آنچل زرنگار اور زیب نگاہ تھا۔ لگتا تھا کہ آسمان پر نور کی ندی محوِ خرام ہے۔ آسمان کی جلوہ سامانیوں نے زمین کے سینے میں بھی جذبات کی لہروں کو جگادیا تھا۔ چنانچہ وہ بھی آسمان ہی کی طرح شاداں تھی۔ آسمان کے نور سے زمین کے حسن کا ظہور تھا اور اس حسن پر زمین بھی نازاں تھی۔ حالانکہ زمین کا یہ حسن مکمل نہیں تھا کیونکہ ابھی تک اس کی آغوش حیوانات و جمادات کی تخلیق سے محروم تھی۔ زمین کو شاید پانی کی اہمیت کا احساس نہ تھا جو برس کے کھل گیا تھا اور شاید وہ سطحِ آب پر حیات کے نزول سے باخبر نہ تھی اور ہو تی بھی تو کیسے؟ ابھی حیات کے آثار مشاہدے میں آئے ہی نہیں تھے۔ وہ نمو پذیری کے مرحلے سے گزر رہے تھے:
آخر ہونے لگا ہویدا
پانی میں وجود زندگی کا
یہ راز ابھی نہیں کھلا ہے
تخم شجر حیات کیا ہے
دو شاخیں حیات کی ہیں معلوم
جو الگا ایمیبا سے ہیں موسوم
دونوں تھے الگ الگ خلیے
حیوانات و نباتات جن سے پھیلے
سب کچھ تھا مگر کہاں تھا انساں
تخلیق کا گوہر درخشاں
یہ زیب جہاں، جمال ہستی!
یہ معجزہ و کمال ہستی
یعنی ارتقا کے سلسلے کی اہم ترین تخلیق انسان جو تخلیق کا گوہر درخشاں، زیب جہاں اور جمال ہستی بلکہ معجزہ اور ہستی کا کمال، بزم حیات کا مرکز و محور انسان اب تک معرض وجود میں نہیں آیا تھا جسے از روئے اسلام اس روئے زمیں پر خلافت و نیابت الٰہی کا جلیل القدر منصب عطا ہونے والا تھا۔
مذاہب عالم کے علاوہ فلسفے نے بھی وجود کے مظاہر میں انسان کو مرکزی حیثیت و اہمیت کا حامل قرار دیا ہے۔ قدیم یونانی فلسفی فیثاغورث نے انسان کو تمام عقائد و تصورات کی کسوٹی مانا ہے اور خود شناسی کی تلقین کی ہے۔
"Man is measure of all know thyself"
لیکن تہذیب کے مادیت پسند مفکرین بالخصوص ڈارون نے انسانی وجود کی آفرینش کے سلسلے میں جو نظریہ پیش کیا اور جس کی وجہ سے روایتی عقائد و تصورات پر جو ضرب پڑی اس کی گونج ابھی تک سنائی دیتی ہے۔ اس کے خیال میں اس روئے زمین پر بندر کی صورت میں انسان معرض وجود میں آیا۔ اس سلسلے میں اکبر الہ آبادی کا شاعرانہ رد عمل نئی تہذیب کی تکذیب و تردید پر مشتمل ہے۔ ان کا نہایت ہی مشہور شعر ہے:
نئی تہذیب کو کیا واسطہ ہے آدمیت سے
جناب ڈارون کو حضرت آدم سے کیا مطلب
عبدالمجید شمس نے ڈارون کے خیال کو بھی پیش نظر رکھا ہے۔ کہتے ہیں
مانیں جو اصول ڈارون کے
انسان بنا ہے ارتقا سے
بندر کے سے چلن تھے اس کے
چلتا تھا زمیں پہ دست و پا سے
آزاد ہوئے جو دست و بازو
چوپایوں پہ پاگیا یہ قابو
یہ ماجرا بھی ہے اب پرانا
ہے لاکھوں برس کا یہ فسانہ
گویا حیوان سے انسان بننے میں صدیاں بیت گئیں۔ اس دوران وحشت کم ہوئی اور جب وحشت کم ہوئی تو گھر بھی بنے اور سماج کی بھی بنیاد پڑی۔ پھر تعداد بھی بڑھنے لگی۔ اسی کے ساتھ مسائل بھی بڑھے اور قدرتی وسائل میں کمی آتی گئی جس کے نتیجے میں خود غرضی، بے وفائی اور کج ادائی آئی تب اس کائنات کے خالق کو کچھ خیال آیا۔ اس مسئلے پر اس نے سوچا :
سوچا، انھیں راستے پر لائے
ایماں کا مرتبہ بتائے
چین و ہندوستان و ایراں
شام و عرب و عراق و یوناں
آنے لگے ہر جگہ پیمبر
لانے لگے سب کو راہِ حق پر
ہر دور میں اک امام آیا
ہر قرن میں اک پیام آیا
ا س طرح فیضانِ سماوی سے عقلِ انسانی تجلّی ریز ہونے لگی اور فروغِ تجلّی سے ظلمت کے پردے چاک ہونے لگے۔ نمود سحر کے آثار و امکان کے ساتھ قافلۂ زندگی کی پیش رفت شروع ہونے لگی۔ حیات کی تگ و دو، کشمکش اور جد و جہد کے ساتھ ہی تہذیب کی داستان کا آغاز ہوا، علم و ہنر کا چرچہ عام ہونے لگا، عقل و شعور کی رسائی بڑھنے لگی۔ مسائل حیات سے نبرد آزمائی کے لیے حیات میں قوت، حوصلے میں شدّت اور بصیرت میں تیزی آئی۔ کمزوروں میں طاقت پیدا ہوئی اور مجبوروں کی جرأت بڑھی۔ حالات بدلے۔ ماحول اور معاشرہ بدلا۔ اور اس طرح انسان نے ارتقا کے، کئی مراحل طے کیے ، اس کی سمت و رفتار میں تنوع پیدا ہوا، رنگا رنگی آئی، بوقلمونی پیدا ہوئی یہ سفر اور سلسلہ اب بھی جاری ہے:
اخلاق و تمدن و حکومت
تہذیب و فنون و علم و حکمت
سب مائل ارتقا ہیں ہر آن
قدرت کا یہ بیکراں ہے احسان
فطرت کا ہے ارتقا سبک رو
اور عقل کی ہے تیز تگ و دو
پوشیدہ جو عقل میں ہے اک نظم
اور فطرت آدمی میں اک عزم
انسان کی اسی سے ہے بلندی
تہذیب میں جس سے ہے ترقی
فطرت کا ہے ہم سے یہ تقاضا
جاری رہے ارتقا ہمیشہ!
اس لیے کہ :
معراج یہ ارتقائی ہوگی
بندے میں صفت خدا کی ہوگی
مثنوی حیات و کائنات کا گویا اصل موضوع انسانی زندگی کے’ آدم سے ایں دم تک‘ سفر کی تاریخ ہے۔ آب و گل کی یہ دنیا قدرت کے ارتقائی عمل سے وجود پذیر ہوئی ہے، اور اسی کے ذریعے ہستی کے مدارج طے ہوئے ہیں۔ انسان بھی تہذیب و تمدن اور ماحول کے زیر اثر ارتقائے شعور کے تحت ان مراحل و منازل کو طے کرتا ہواجان جوکھم میں ڈالتا ہوا، موجودہ منزل تک پہنچا ہے۔ فکر کے نئے نئے تناظر اور عمل کی نئی نئی حرکتوں نے اس سفر کی روداد کو نہ صرف رنگا رنگی اور بوقلمونی بخشی ہے بلکہ اسے تمام تر دلچسپ اور دلفریب بنادیا ہے۔
دلچسپی کے لحاظ سے ڈاکٹر مرتضیٰ اظہر رضوی کی مثنوی’خور و خواب‘ بھی کم نہیں بلکہ حیات و کائنات سے فزوں تر ہے۔ مرتضیٰ اظہر رضوی بڑے ہی باغ و بہار اور شگفتہ مزاج انسان تھے۔ شاد کے بعد دبستانِ عظیم آباد میں شاعروں کی جو تثلیث قراردی جاتی ہے اس کے تین زاویے علامہ جمیل مظہری ، پرویز شاہدی اور اجتبیٰ حسین رضوی تسلیم کیے جاتے ہیں۔ ان تینوں کے فکری و فنی مزاج و مذاق میں زمین، آسمان کا فرق تھا لیکن یہ تینوں گہرے دوست تھے ڈاکٹر مرتضیٰ اظہررضوی موخر الذکر کے صاحبزادے تھے۔ شاعری کا ذوق وراثت میں ملا تھا۔غیر شعوری طور پر اشعار موزوں ہونے لگے تھے۔ میں نے تقریباً چار دہائی پہلے پہلی بار انھیں دیکھا تھا۔ تعلقات و مراسم قائم ہوئے تو دو طرفہ کیفیت اس انگریزی جملے’’Keep me in touch’’ کے مطابق رہی۔ اور یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہا۔ میں انھیں پندرہ برسوں تک قریب سے دیکھتا رہا اور ان سے سیکھتا بھی رہا طبیعت موزوں اور رواں تھی۔ حافظہ بھی غضب کا تھا۔ متقدمین فارسی و اردو کے سیکڑوں اشعار از بر تھے۔ بدیہہ گوئی کا یہ عالم تھا کہ شروع ہوئے توبرسات ہونے لگی۔ سیلاب سا آنے لگا۔ ہنستے کھیلتے مسکراتے سگریٹ کے کش لگاتے شعر کہتے جاتے تھے۔ فلسفہ کے شعبے میں درس و تدریس سے متعلق تھے لیکن شاعری میں شگفتگی تھی۔ ان کی حس مزاح بھی غضب کی تھی۔ زیر تذکرہ و تجزیہ مثنوی کے عنوان پر غور کریں تو ان کی حس مزاح یہاں بھی بھڑکتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔’خور و خواب‘ یعنی کھاؤ اور سوؤ۔ لیکن تمہید میں فکری اور لفظیاتی نظام پر غور کریں تو جمیل مظہری کی یاد تازہ ہوجاتی ہے؛
بکھری ہوئی دھجیاں خبر کی
الجھی ہوئی گتھیاں نظر کی
افلاس سا فلسفوں پہ طاری
ادیان میں انحطاط جاری
حکمت کی فضا میں بے یقینی
ہوتی ہوئی دور کور بینی
الجھی ہوئی زلف آگہی کی
اکھڑی ہوئی سانس آدمی کی
اقدار کی نبض چھوٹی چھوٹی
افکار کی آس ٹوٹی ٹوٹی
تھی سینۂ ذات کی تمنا
امکانِ حیات کی تمنا
ایسے میں کوئی طبیب آتا
صحت کی دوا انھیں کھلاتا
موجودہ امام شاعری نے
علامہ جمیل مظہری نے
سمجھی کچھ وقت کی ضرورت
افکار کو دے کے حسنِ صورت
اک طرحِ پیام نکالی
اک راہِ کلام نکالی
اس عہدِ خراب کی کہانی
’آب و سراب‘ کی کہانی‘‘
لیکن اظہر یہ کہہ رہا ہے
یہ مسئلہ نصف حل ہوا ہے
تَوام ہیں بھوک پیاس دونوں
تکوین کی ہیں اساس دونوں
میں آبِ حیات کیسے لاؤں
ہاں بھوک کی داستاں سناؤں
تعمیر نمو کی کہانی
تالیف حدود کی کہانی
دریا کی حیات کی حقیقت
ہے بس خور و خواب کی حقیقت
گیتی میں نمود رزق دے کر
پھیلائی ہے شب کی اس پہ چادر
جب سے ہونے کا سلسلہ ہے
کھانے سونے کا سلسلہ ہے
پہلے کیا تھا یہ کون جانے
خلقت کے گڑھے گئے فسانے
بھوکا تھا ذوق آگہی کا
چلایا شعور آدمی کا!
ہم کون ہیں، کیوں ہیں اور کیا ہیں؟
یہ مسئلے ذہن کی غذا ہیں
خود اپنی غذا کو ڈھونڈھتی ہے
فطرت یہ قدیم بھوک کی ہے
جب کچھ نہ ملے تو خود کو کھانا
اس کا دستور ہے پرانا
جب یہ دنیا نہیں بنی تھی
خود بھوک کو بھوک کھارہی تھی
قرنوں رہی خود میں مبتلا بھوک
بنتی رہی بھوک کی غذا بھوک
جب بھوک نے بھوک کو پچایا
دو چیزوں نے تب ظہور پایا
یہاں مثنوی کی روایتی صوری تشکیل کے باوجود اقبال کی نظم ساقی نامہ کی طرح ہیئتی تنظیم کا امتزاج دکھائی دیتا ہے۔ تمہید چار بندوں پر مشتمل ہے۔ تیسرے بند میں پانچ اور بقیہ میں سات اشعار ہیں۔ گویا ان میں اشعار کی قید نہیں۔ آگے چل کر ہم جدّت طرازیوں کے کچھ اور آیات و آثار بھی دیکھیں گے۔
اب جہاں تک فکری تنظیم اور فلسفیانہ موشگافیوں کا تعلق ہے تو پہلے بند میں اس صورت حال کا بیان ہے جو بیسویں صدی کے ربع اول میں پیدا ہونے لگی تھی۔ سترہویں صدی سے پہلے فلسفہ کو سرچشمۂ علم ماناجاتا تھا چنانچہ اس کی اہمیت بفتوائے تاریخ ثابت تھی۔سترہویں صدی میں اسی سرچشمہ سے حکمت (سائنس) الگ ہوئی اور ارتقا کے مختلف مراحل سے گزرکر اس نے اپنی حیثیت و اہمیت منوالی۔ تہذیبی روایات اور مذہبی اعتقادات پر اس نے شدید ضرب لگائی چنانچہ مذہب پسندوں کے حلقے میں اس سے بیزاری بھی آئی لیکن حکمتوں کی دین سے زندگی کے مشکل سفر میں جو آسانیاں پیدا ہوئیں ان سے کون انکار کرسکتا تھا۔ فکری و صنعتی انقلاب سے عالم انسانی بہر صورت مرعوب ہوا۔ لیکن حکمتوں کی مادیت اور قطعیت پسندی سے مطمئن نہ ہوسکا۔ اس کے دل و دماغ سے صانعِ ازل و صانعِ عالم کا روایتی عقیدہ محو نہ ہو سکا۔ اسی وجہ سے سائنس کو غارت گرِ دین و مذہب بھی قرار دیا گیا۔ لیکن خود طبعیات کے علوم سے متعلق نئی نسل اور نئی ذہنیت کے علمائے انتقادیات نے بھی کلاسیکل فزکس کے کائنات کے ٹھوس ہونےSolid validity)) کے دعوے سے اختلاف کیا اور بیسویں صدی کے ربع اول میں مادے کو خیال ثابت کردیا۔ اس طرح قطعیت پسندی کی بنیاد پر شدید ضرب پڑی اور انسانی ذہن کی فطری سیالیت کو تازہ ہوا کے جھونکے محسوس ہونے لگے۔ ڈی بروگلے، ہیزن برگ، شرو ڈنگر اور آئنسٹائن وغیرہ نے فکر کے سانچے اور کائنات کے ڈھانچے کو ہی بدل کر رکھ دیا۔ کائنات کیSolid validity سائنسی عقیدے کے مطابق لہروں کے نظام میں بدل گئی۔ یہ ایک بڑا انقلاب تھا جس نے اٹھارہویں، انیسویں صدی کی قطعیت پسندی کو باطل قرار دیالیکن اس کے ساتھ لا تعینیت پیدا کردی۔ یہ صورتِ حال دانشورانِ عصر کے لیے خوش کن تھی۔ اقبال نے مذہبی تجربات کے لیے اس صورت حال کو موزوں قرار دیا۔ ابوالکلام آزاد نے اپنے مخصوص انداز و اسلوب میں اس کا خیر مقدم کیا۔ لیکن عوام میں تشکیک کی لہر پیدا ہوئی۔ حد تو یہ ہے کہ حکمت و سائنس کی فضا میں بھی بے یقینی کی کیفیت پیدا ہوئی۔ تمہید کے پہلے بند میں اسی عمومی ذہنی صورت حال کا بیان ہے۔آخری شعر اور ٹیپ کے شعر میں جس تمنا کا اظہار کیا گیا ہے۔ وہ بہ ظاہر تو مضحکہ خیز ہے کیونکہ جس طبیب اور دوا کی تمنا کا اظہار ہے، وہ ایک شاعر ہے یا اس کی شاعری ہے۔ لیکن دانشورانہ تفکر کی روسے یہ بہت ہی بلیغ ہے کیونکہ بیماری کی جو نوعیت اور بیماری کی جو کیفیت ہے، اس کا علاج کسی ڈاکٹر، کسی انجینئر یا کسی سائنس داں کے پاس نہیں۔ اگر ہے تو شاعر کے پاس ہی ہے۔ اس کا اعتراف ایک فلسفی اور دانشور ڈاکٹر رادھا کرشنن نے بھی کیا ہے۔
بہرحال تمہید کے آخری بند کا آخری شعر ذہن میں رکھیں تو اس کو قصے کی اگلی کڑی کی تمہید قرار دے سکتے ہیں۔ شعر مذکور میں دو چیزوں کے ظہور کی خبر دی گئی ہے چنانچہ اگلا حصہ انہی دو چیزوں پر مشتمل ہے اور عنوان ہے’خلقت پانا روح اور مادے کا‘۔ یہ حصہ تین بندوں پر مشتمل ہے۔ پہلے یہ دو بند دیکھیں :
جوہر بنا اس سے اور فُضلا
پیدا ہوئی سطح پست و بالا
جوہر جزو گرسنگی تھا
فُضلے کو لقب ملا عرض کا
جوہر وحدت عرض ہے کثرت
جوہر معنی عرض ہے صورت
منظور ہے فہم کی سہولت
جوہر ہے نور عرض ہے ظلمت
کیسا عجیب ماجرا ہے
ظلمت ہی نور کی غذا ہے
جوہر سے عمل، عمل سے گرمی
گرمی سے زندگی کی نرمی
فضلے سے فگندگی گرانی
فضلے سے مادے کی سختی
نرمی لگی سختیوں کو کھانے
بننے لگے بھوک کے فسانے
نرمی میں قدم ہے اور روانی
سختی میں حدوث و سرگرانی
اک دائرہ بن گیا انوکھا
فضلے سے غذا، غذا سے فضلہ
پستی کو بلندیوں نے کھایا
اک طرفہ تماشا سا دکھایا
ظاہر ہوئے بھوک کے مظاہر
آپس میں ملے کثیف و طاہر
ہے ظلمت و نور کا تسلسل
امکانِ ظہور کا تسلسل
خود اپنی غذا بنائے جانا
پیدا کر کے کھائے جانا
دھرتی سے اگے گا جو بھی پودا
دھرتی ہی کی پھر غذا بنے گا
ہے بھوک جو آخری حقیقت
ہے گرسنگی مزاجِ فطرت
فطرت کا مزاج کون بدلے
کھانے کا رواج کون بدلے
اس خیال کی تائید و توثیق کے لیے چار ماخوذ اشعار پیش کیے گئے ہیں۔ یہ ایک طرح کی جدّت طرازی کے مظہر ہیں:
کھانا ہے وجود کی نشانی
کھانا ہے دلیل زندگانی
کھانے پہ ہے زندگی جہاں کی
یہ رسم قدیم ہے یہاں کی
(قرآن)
’ہے دوڑتا اشہبِ زمانہ
کھا کھا کے طلب کا تازیانہ‘
(اقبال)
کھانے والے نکل گئے ہیں
بھوکے جو رہے کچل گئے ہیں
(ڈارون)
جوہر اور مادے کی ازلی ابدی خصوصیات کی وضاحت و تفصیلات کے بیان کے بعد’قصہ تخلیق آدم کا‘ پیش کیا گیا ہے اور افسانۂ رنگیں و دلکش میں تفکر و تفلسف کی روح سمودی گئی ہے۔
امکانِ نمو مچل رہا تھا
طوفاں ساحل پہ پل رہا تھا
جادہ بننا تھا آگہی کا
کھلتا تھا بھید زندگی کا
تخلیقِ عرض کا سلسلہ تھا
جوہر جوہر کو ڈھونڈھتا تھا
پابند گر سنگیِ فطرت
تھیں لہریں کئی فرشتہ صورت
دل ان میں تھا نہ ہوک ان میں
ظاہر نہ ہوئی تھی بھوک اُن میں
وہ نور کے پیکری مظاہر
بیگانۂ گرمیِ عناصر
پیکر نوری، مزاج نوری
خالی ز ارادہ ناصبوری
نَے اُن کی دمِ بیخودی سے محروم
رقص اُن کا رمِ خودی سے محروم
تھے گرچہ امینِ راز پیکر
تھے بھوک سے بے نیاز پیکر
قدرت اپنی گرسنگیِ کا !
ان میں پاتی نہ تھی تقاضا
تسکینِ طلب جو حد سے گزری
قدرت قامت سے قد سے گزری
پتلہ مٹی کا اک بنایا
اس پر طرفہ ستم یہ ڈھایا
پھونکی پتلے میں ہو‘ک اپنی
دے دی مٹی کو بھوک اپنی
تشریفِ شرافت اس کو دے دی
حتیٰ کہ خلافت اُس کو دے دی
سجدہ کرواکے نوریوں سے
دوری دے دی حضوریوں سے
اس پیکرِ گرم و مشتعل کو!
اس طینتِ نرم و منفعل کو
اسماء کا بنا کے تر نوالا
تخلیق کی بھوک نے کھلایا
پھر حکم ہوا اسے پچاؤ
جنت کی اوس دھوپ کھاؤ
ہوتی رہی تربیت خودی کی
بڑھتی گئی اشتہا دوئی کی
جنت نا مہرباں نہیں تھی
درد آگہ و ہمزباں نہیں تھی
پہلو میں دل مچل رہا تھا
تنہائی کا درد پل رہا تھا
قدرت نے کیا تب ارادہ
پسلی سے بناؤ اس کی مادہ
تنہائی کے درد کی دوا دی
’حوّا‘ اس کے لیے بنادی
پھر حکم دیا ساتھ جاؤ
جنت میں جو نعمتیں ہیں کھاؤ
لیکن دکھلا کے اک شجر کو
یہ حکم دیا ابو البشر کو!
آدم دیکھو ادھر نہ جانا
سب کھانا پر اس کا پھل نہ کھانا
تاثیر تھی اس میں رد و کد کی
اس پھل میں تھی آگہی جسد کی
روزی کی تلاش کا جھمیلا
یا کسبِ معاش کا جھمیلا
مدت تک اوس دھوپ کھائی
آنکھ اس طرف نہ اپنی اُٹھائی
روزی کا ڈھونڈنا نہیں تھا
کھانا کوئی مسئلہ نہیں تھا
لیکن جب دل نے گدگدایا
پھل توڑکے اس شجر کا کھایا
تب حکم ہوا زمیں پہ جاؤ
اپنے لیے خود غذا اگاؤ
اب آج سے بھوک ہے تمھاری
تسکین کی ہے تم پہ ذمے داری
ڈاکٹر محمد ابراہیم نے تقابلی پیرایۂ تنقید و تحریر اختیار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :
’’ڈاکٹر رضوی کی مثنوی ’خور و خواب‘ آب و سراب کے جواب میں ہے۔ آب و سراب کا کلیدی تصور گرسنگی اور بیداری ہے جب کہ خور و خواب کا کلیدی تصور گرسنگی اور خوابیدگی ہے۔ آ ب و سراب میں شعور کو قدیم مانا گیا ہے جبکہ خور و خواب میں مادے کو۔ مادہ خلقی طور پر گرسنگی اور ماندگی سے وابستہ ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ مثنوی صرف برائے جواب لکھی گئی ہے۔ اس میں جذباتی شدّت کا فقدان ہے اور صرف منطقی تعمیر کا میلان ہے۔ یہ مثنوی ایک نظریہ ہو تو ہو پارۂ فن نہیں ہے۔‘‘
(اردو مثنوی کا سفر۔ ص:181)
میرے خیال میں یہ خیال درست نہیں کہ مثنویِ خور و خواب‘۔ ’ آب و سراب‘ کے جواب میں ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ ڈاکٹر رضوی آب و سراب سے متاثر ہوئے اور اسی سے انھیں خور و خواب کی تحریک ملی۔ اس میں جذباتی شدّت کی کمی ضرور ہے لیکن فقدان قرار دینا محل نظر ہے۔ اس طرح منطقی تعمیر کا میلان بھی نمایاں ہے اور ایک نظریہ بھی ہے۔ البتہ شہکار فن نہیں لیکن کیا کسی پارۂ فن کے لیے جذبات کی شدّت ناگزیر ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ فکر وفن کے امتزاج سے تخلیق ہونے والا یہ اچھوتا فن پارہ بھی ہے۔ اور تاثرات کے لحاظ سے بھی عبد المجید شمس کی مثنوی’ حیات و کائنات‘ سے فزوں تر ہے۔ آب و سراب سے اس کے موازنے کا جواز تو ہے مگر بہت ہی کمزور جواز ہے۔ اس سلسلے میں یہ وضاحت بھی غیر ضروری نہ ہوگی کہ یہ کوئی باضابطہ موازنہ یا تقابلی تجزیہ نہیں۔ یہ اصلاً ضمنی تبصرہ ہے جو بر سبیل تذکرہ معرضِ گفتگو میں آگیا ہے اور یہاں بھی جمیل مظہری کی فنی، فکری اور جذباتی عظمت کا اعتراف ہے۔ علامہ جمیل مظہری واقعی اپنے زمانے اور اپنی زمین یعنی پورب کے تاجور سخنوری’ سلطانِ معانی زار اور الفاظ کے شہرِ یار تھے۔ان کا یہ دعویٰ لائق بے اعتنائی نہیں کہ
روداد لطیف ایں زمانی
یوں نقل ہے خامہ کی زبانی
پورب میں ایک مظہری تھا
وہ تاجور سخنوری تھا
سلطانِ معانی زار تھا وہ
الفاظ کا شہر یار تھا وہ
(مثنوی در مدح میر فضل اللہ(محسن جمیل)، مشمولہ عکس جمیل، مرتب رضا مظہری۔ ص:177)
میں نے ’ساقی نامہ‘ اور آب و سراب کا تقابلی تجزیہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ
’’ علامہ جمیل مظہری بنیادی طور پر نظم کے شاعر ہیں اور اقبال کے بعد اردو نظم نگاری کے افق پر درخشاں ہونے والے ستاروں مثلاً سیماب اکبر آبادی، جوش ملیح آبادی، حفیظ جالندھری، اختر شیرانی، احسان دانش، ساغر نظامی اور روش صدیقی وغیرہ کے مابین اپنی تابانی سب سے الگ رکھتے ہیں۔ حالانکہ اقبال سے تاثر پذیری کے آیات و آثار کم و بیش اور کسی نہ کسی جہت سے ان سبھوں کی شاعری میں دکھائی دیتے ہیں لیکن جمیل مظہری دانش و بینش، فکر و آگہی اور حکمت و فلسفہ میں نہ صرف اپنے معاصرین میں ممتاز نظر آتے ہیں بلکہ بعض نظموں بالخصوص مثنویوں میں اقبال کے مد مقابل کے طور پر ضرور ابھرتے ہیں۔‘‘ ( مشمولہ نئی غزل میں تلمیح کی معنوی وسعت۔ ص:76)
ساقی نامہ میں خودی کا فلسفہ بیان کیا گیا ہے، اقبال اس کے ذریعے خودی اور خود شناسی کی تعلیم دیتے ہیں۔ نتائج اور نقطۂ کمال کے لحاظ سے جمیل مظہری کی آب و سراب بھی مختلف نہیں ہے لیکن ان دونوں میں کچھ فرق بھی ہے۔ فرق ہے اظہار کے اسلوب، بیان کے پیرائے اور لہجے کا۔ اگر اول الذکر میں رجائیت اور فعالیت ہے تو موخر الذکر میں یاسیت اور انفعالیت کا لہجہ نمایاں ہے لیکن یہاں بھی خودی اور خود شناسی کی ہی تجلیاں حریمِ قلب و نظر میں جلوہ ریز دکھائی دیتی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ساقی نامہ کا آغاز صہبا گساری کے اہتمام سے ہوا ہے جب کہ جمیل مظہری نے ابتدا ہی میں تشنگی کو آب آفریں کے چھینٹے سے شعلے کی مانند بھڑکادیا ہے، جیسا کہ افتتاحیہ قطعہ’اعتراف‘ کے تاثرات سے واضح ہے
تو پوجتی آئی ہے ازل سے
تدبیر سراب آفریں کو
اے تشنہ دلی ہوش میں آ
اک سجدہ کر آب آفریں کو
شعلے کی مانند بھڑکی ہوئی پیاس نے طلبِ آب کو بڑھادیا ہے۔ یہی پیاس، یہی تشنگی اس مثنوی کی کلیدی علامت ہے۔ عصری ذہنی نا آسودگی کی کیفیات اس علامتی تعبیر میں مضمر ہیں۔ شاعر نے پیاس ، ناآسودگی اور کرب و اضطراب سے پیدا ہونے والی ذہنی کیفیات کو سہارا دینے کے لیے آسودگی کا ایک امکان دیا ہے اور آب آفریں کا ایک تصور دیا ہے۔ اس کے بعد کاروانِ حیات کے حالِ زار پر روشنی ڈالی ہے۔
اللہ اللہ یہ ہولناک صحرا
کیا دے گا سوائے خاکِ صحرا
بے آب و گیاہ ہے یہ صحرا
بے چشمہ و چاہ ہے یہ صحرا
لو چلتی ہے کارواں ہیں پیاسے
بچے پیاسے جواں ہیں پیاسے
یہاں مایوسی اور محرومی کا احساس شدید سے شدید تر ہوتا چلا گیا ہے۔ یاسیت اور قنوطیت کے مہیب غار سے انسانیت کی بلبلاتی ہوئی آواز ابھرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ تنہائی اور نا پرسانی کے بیان سے مترشح ہے کہ شاعر وجودسریتExistentialism)) کے فلسفے سے متاثر ہے اور اس سے یہ بھی واضح ہے کہ اس کائناتِ فطرت میں انسان اجنبی ہے۔ آؤٹ سائڈرOutsider) (ہے، تنہائی اور ناپرسانی اس کا مقدر ہے۔ بقول ڈاکٹر مرتضیٰ اظہر رضوی :
اس شورشِ رنگ و بو میں
سرگرداں ہے اپنی جستجو میں
تنہا ہے رفیق بھی نہیں ہے
اور کوئی شفیق بھی نہیں ہے
یہ اس انسان کا مقدر ہے جو وجہ تخلیق کائنات بھی ہے اور خلیفتہ اللہ فی الارض بھی لیکن زندگی کا راز اس پر نہیں کھلتا، وہ اس کی جستجو میں سرگرداں ہے۔ اس کا دل بے تاب اور وقفِ اضطراب ہے۔ اقبال کی رجائیت ہر چند کہ ناقابل تردید ہے لیکن انھوں نے بھی کسی موقع پر قدرت کے اس ستم کو محسوس کیا تھا اور شدت کے ساتھ محسوس کیا تھا اور اسی احساس نے انھیں’انسان‘ جیسی نظمیں لکھنے پر مجبور کیا تھا
قدرت کا یہ عجب ستم ہے
انسان کو راز جو بنایا!
راز اس کی نگاہ سے چھپایا
بے تاب ہے ذوقِ آگہی کا
کھلتا نہیں بھید زندگی کا
حیرت آغاز و انتہا ہے
آئینے کے گھر میں اور کیا ہے
اس نظم میں جس حزن کی کیفیت ہے، جمیل مظہری کے یہاں یہی تشنگی کی علامت کے طور پر ابھری ہے۔ اشعار ملاحظہ ہوں :
اے مطربِ بزم آشنائی
ماتم خانہ ہے یہ خدائی
ماتم ہے کرانہ تا کرانہ
چھیڑ آب و سراب کا فسانہ
پیاسوں کا ہجوم فوج در فوج
دریائے سراب موج در موج
جلوے پیاسے نگاہ پیاسی
حیرت بالائے چاہ پیاسی
کچھ شوق کنارِ جو‘ بھی پیاسے
کچھ لب بہ لب سبو بھی پیاسے
ہر موجِ حیات کی زبانی
اک تشنہ لبی کی سو کہانی
تاریخ ہماری کیا ہے
اک تشنہ لبی کا مرثیہ ہے
یہ عصر حاضر کے ذہنی فکری ماحول کی منظرکشی ہے۔ اس میں’شوق کنارِ جو‘ اور’لب بہ لب سبو‘ بالترتیب عصری حکمت اور عصری الٰہیات کی علامتی تعبیریں ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ ہر ساز میں ایک تپش نہاں ہے۔ موسیقی اسی کی نوحہ خوانی ہے۔ یہی بانسری کی فریاد اور شاعری کی آواز ہے۔ افسانوں میں بھی یہی دہائی ہے۔ غرض کہ ہر دل میں ایک بے بجھائی سی آگ لگی ہے۔ یہ کسی فرد واحد کا ذاتی اور انفرادی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ایک اجتماعی اور آفاقی مسئلہ ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس کے حل کرنے کا دعوی ہر فلسفہ اور ہر منطق‘ ہر دین اور حکمت کو تھا لیکن انھوں نے جو حل پیش کیا وہ بذات خود ایک مسئلہ ہی تھا۔ اس معنوی تناظر میں ذہن تاریخ فلسفۂ مغرب کے مصنف برٹرانڈ رسل کے مشہور زمانہ قول کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ اس نے کہا تھا کہ فلسفے مسائل کا حل نہیں دیتے، مسائل کی آگہی دیتے ہیں۔ یہی بات جمیل مظہری نے بھی محسوس کی جب انھوں نے کہا :
وہ عقل کے بندگانِ زنجیر!
تکتے تھے ادھر ادھر بچشم تحقیر
یہ مدعیانِ عقل و دانش
یہ سادہ دلانِ عقل و دانش
اپنی تمیزِ نیک و بد پر
دانش پر شعور پر خرد پر
مغرور نہ ہوں بقولِ عرفی
یہاں جمیل مظہری کا رد عمل اس طبقے کے بھی خلاف نظر آتا ہے جسے نہ تو مسئلے کا احساس تھا، نہ مسئلے کے حل کی تلاش، وہ :
نامحرم جلوۂ معانی
سمجھا کیے ریت ہی کو پانی
جمیل مظہری علمائے فلسفہ اور حکمائے طبعیات کے بعد صوفیوں اور تارکین دنیا کی بھی خبر لیتے ہیں، جنہوں نے ترک کا شیوہ اختیار کیا تو منزل کو بھی ترک کردیا۔ اس صورتِ حال کے پیشِ نظر جمیل مظہری متاسفانہ انداز میں فرماتے ہیں :
لیکن جو تھے رازدان و عارف
جویائے حقائق و معارف
جن کی ساری حیات موہوم
اک لطف سراب سے محروم
پانی کو بھی وہ سراب سمجھے
جلوہ تھا مگر نقاب سمجھے
یعنی ان کا بھی حشر وہی ہوا جو مفکرین و حکماء کا ہوا تھا۔ وہ بھی آسودگی اور مسئلے کے حل سے اتنی ہی دور رہے۔ چنانچہ
دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے
انجام غرض کہ تشنگی ہے
جمیل مظہری فلسفہ، حکمت اور مذہب کی ناکامی کو اسی طرح محسوس کرتے ہیں جس طرح مغربی مفکر برٹرانڈ رسل محسوس کرتا ہے۔ ان ناکامیوں کا لازمی نتیجہ اس فراریت اور یاسیت کو جنم دیتا ہے جو اس عہد کا ذہنی سرمایہ ہے، جس نے مسائل کے حل کے امکانات کو مشکوک و مشتبہ کردیا ہے اور جس کے نتیجے میں زندگی اپنی مقصدیت کھوچکی ہے اور بہتری کی توقعات سے نا امید ہو کر بیزاری کی کیفیت میں مبتلا ہوگئی ہے۔ تشنگی کے اس احساس نے زندگی کا رخ موڑدیاہے۔ چنانچہ جمیل مظہری قلب و نظر کے تشنہ کاموں اور ریگ و سراب کے غلاموں کو اس صورتِ حال سے آگاہ کرتے ہیں:
اے قلب و نظر کے تشنہ کامو!
اے ریگ و سراب کے غلامو!
احساس تمہاری تشنگی کا
رخ پھیر چکا ہے زندگی کا
جمیل مظہری کے خیال میں اس صورتِ حال کے اسباب دو ہیں جن کو وہ حد درجہ انکسار کے ساتھ بیان کرتے ہیں:
ہم کیا کہیں ہم تو بے ادب ہیں
اس تشنہ لبی کے دو سبب ہیں
پہلی ہے یہ وجہ سرگرانی
یعنی کہ ملا جو تم کو پانی
پانی نہیں عکسِ آب تھا وہ
جوکچھ بھی ملا سراب تھا وہ
اور دوسری وجہ جو ہے پیارے
وہ دل کی تہوں میں ہے تمہارے
جو روح پہ ازل سے ہے طاری
تشنہ لبی نہیں تمہاری
یہ پیاس تمھاری نہیں ہے بابا
تم میں جو خدا ہے وہ ہے پیاسا
جو قدرتیں اس نے تم کو دی ہیں
وہ سینۂ شوق میں گھٹی ہیں
حالت طاری ہے ان پر غش کی
ہونٹوں پہ شور ہے العطش کی
خطرے میں ہے ان کی زندگانی
لللّٰہ پلاؤ ان کو پانی
حالانکہ ان کی سبیل کے لیے مذاہب مقرر تھے جو متحجر ہوچکے ہیں۔ اسDogmaکا احساس چارلس ڈکنس نے اپنی دو شہروں کی کہانیTales of two citiesکے ذریعے دلایا ہے:
''It was a time when dogma was eating dogma?"
جمیل مظری نے اسی سلسلے میں دانش کے فتور اور مذہب کے قصور پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے دیر و حرم کی سجدہ گاہوں اور مدرسوں اور خانقاہوں کو جہل کدہ قرار دیا ہے اور ذہنوں کو اس عذابِ دانش حاضر سے نکالنے کے لیے ان جہل کدوں پر قفل ڈالنے کی تلقین کی ہے، تحریک دی ہے۔ یہی نہیں انھوں نے چراغِ دیر و حرم کو بجھاکر تاریکی کو اور بھی بڑھادینے کا مشورہ دیا ہے۔ کیونکہ:
اقبال کے یہاں تصوف، تکلم، شریعت اور کلام کی جو کیفیتیں ہیں، یا یہ کہ:
جلوتیانِ مدرسہ کور نگاہ و مردہ ذوق
خلوتیانِ میکدہ کم طلب و تہی کدو
کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے
پیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اٹھادو
اس کیفیت یا بحرانی صورتِ حال نے عصری ذہن کو جس خلفشار میں مبتلا کر رکھا ہے اس کے اظہار پر اقبال و جمیل ہی مجبور نہیں ہیں۔اگر جمیل مظہری اپنی ایک رباعی میں اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ:
میں یہ نہیں کہتا کہ سویرا کردے
دو کام میں اک کام میرا کردے
یا روشنی تیز کر کہ کچھ دیکھ سکیں
یا اوربھی گھنگھور اندھیرا کردے
تو اجتبیٰ رضوی بھی یہی محسوس کرتے ہیں۔ ذیل کی رباعی میں وہ جمیل کے ہم خیال اور ہم نوا نظر آتے ہیں۔
بدتر ہونا بھی اس سے بہتر ہوتا
دل کاش نہ ہوتا کوئی پتھر ہوتا
جب علم پہ دسترس نہیں ہے یارب
تو جہل پہ صبر ہی میسر ہوتا
یہ عصری بے چینی اور اس دور کا المیہ ہے جس پر کسی مفکر یا شاعر کا اجارہ نہیں ہے۔ جمیل مظہری کی مثنوی ’آب و سراب‘ میں یہاں تک عصری ذہن کی عکاسی ملتی ہے۔ کوئی نظریہ یا فلسفہ نہیں ملتا۔ البتہ مثنوی کے ساتویں بند سے ایک تکوینی تصور(Cosmological concept) کی شروعات ہوتی ہے۔ جمیل مظہری انسان کی قدرتِ نہانی سے اس قصے کا آغاز کرتے ہیں
تم میں جو ہیں قدرتیں نہانی
اب ان کی سنو ذرا کہانی
اقبال ہی کی طرح جمیل مظہری کی آب و سراب میں تصوف، تکلم، شریعت، کلام یہاں تک کہ سیاست گری بھی ذلیل و خوار نظر آتی ہے۔ خودی کا عالم یہ ہے کہ اسے ترک نہ کیا جائے تو تشنہ کامی اور ترک کردیا جائے تو اُس کا نتیجہ غلامی ہے۔ گویا کہ حالتِ اعتدال کا راز تہذیب خودی میں مضمر ہے۔ کیونکہ
نار اس کی ہے اصل نور بنیاد
یہ خود ہے ربوبیت کی اولاد
تہذیبِ خودی مشقِ دل گدازی ہے :
ہے بسکہ مشقِ دل گدازی
اک ربط نیاز و بے نیازی
تادیب محرکاتِ ذاتی
تخریب تعیّنات ذاتی
ہر لحظہ جو اس میں معرکے ہیں
تہذیبِ خودی کے مرحلے ہیں
خودی کی تہذیب و تربیت کے مراحل کا تعین اقبال نے بھی کیا ہے لیکن مذہبی نقطۂ نظر سے اس میں شبہ نہیں کہ وہ مذہب پسند بھی تھے۔ فلسفی بھی اورشاعر بھی اور ان کے خیال میں تینوں کا مطمح نظر ایک ہی ہے حالانکہ طریقۂ کار اور اسالیبِ اظہار میں فرق ہے جمیل مظہری کا اندازِ فکر اور اسلوبِ اظہار شاعرانہ و فلسفیانہ ہے۔ وہ صرف مسئلے کی تحقیق ہی نہیں کرتے بلکہ اس سے پیدا ہونے والے مرض کی تشخیص بھی کرتے ہیں اور اس سے نمٹنے کے طریق کار کی کی تجویز بھی پیش کرتے ہیں:
ہر صورت حال مرحلہ ہے
ہجر اور وصال مرحلہ ہے
ہر سانس میں اک نیا تلاطم
ہر گام پہ اک نیا تصادم
بخشے ہیں دلوں کو راز اس نے
سونپی ہے فضا کو آگ اس نے
تم اس سے تپا کے اپنے سینے
طے کرکے بہ سرعت اس کے زینے
پہلے تو خودی پہ فتح پالو
کنبے کو خدا کے پھر سنبھالو
ہے بسکہ خودی سوار تم پر
ہے غلبہ روح نار تم پر
تم نور سے نار کو دباؤ
مٹی سے شرار کو بچاؤ
یہ کیوں کہوں موت دو خودی کو
دو معرفت اس گمرہی کو
اتنی کہ وہ دام کو سمجھ لے
اور اپنے مقام کو سمجھ لے
یعنی تمھاری خودی تم پر آشکارا ہو جائے۔ اور اقبال کے خیال میں بھی
یہ ہے مقصدِ گردشِ روزگار
کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار
اقبال کے نظامِ فکر میں قدیم متصوفین، شعرا اورمتکلمین سے جدید مفکرین تک کے افکار کی جھلک ملتی ہے۔ انھوں نے ساقی نامہ کو اپنے نظام فکر کے اظہار کے لیے تخلیق کیا۔ اردو مثنویوں میں یہ ایک نیا تجربہ تھا جس نے بعد کے مفکر شعرا کے افکار کے لیے نہ صرف ایک اہم محرک کی حیثیت اختیار کرلی بلکہ وسیلۂ اظہار کے لیے راہ بھی ہموار کردی جس پر اقبال کے بعد جمیل مظہری نے مثنوی آب و سراب میں کامیابی و کامرانی کے ساتھ اپنی جولانیِ فکر و فن کا مظاہرہ کیا۔ مثنوی کا دور جدید اس مثنوی پر ختم ہوتا ہے لیکن عصررواں کے لیے نئے آفاق بھی کھول دیتا ہے جس کے نتیجے میں پرنسپل عبد المجید شمس کی مثنوی ’حیات و کائنات‘ اور ڈاکٹر مرتضیٰ اظہر رضوی کی’مثنوی’خور و خواب‘ معرض وجود میں آتی ہے۔ اور بہتر امکانات کا پتہ دیتی ہے۔
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
Manzar Aijaz
Prof. & Head, P.G. of Urdu
A. N. College, Patna
Patna (Bihar)
Mob : 09431840245
فکر و تحقیق۔ اپریل تا جون۔ 2018
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں