12/6/18

مسعود حسین خاں کی خاکہ نگاری ۔ مضمون نگار: مرزا خلیل احمد بیگ







مسعود حسین خاں کی خاکہ نگاری
مرزا خلیل احمد بیگ
خاکہ نگاری اردو ادب کی ایک مقبول صنف ہے۔ اسے اردو اصنافِ نثر میں ایک منفرد مقام حاصل ہے،کیوں کہ مرزا فرحت اللہ بیگ 1 (1883-1947)سے لے کر مرزا اکبر علی بیگ 2(1942-2005)تک اردو کے تقریباً ہر چھوٹے بڑے ادیب نے خاکے لکھے ہیں اور اس صنفِ ادب کو استحکام بخشا ہے۔ ہر چند کہ خاکہ نگاری کے ابتدائی نقوش ہمیں محمد حسین آزاد (1830-1910) کے تذکرے ’آبِ حیات‘ (1880)میں دیکھنے کو ملتے ہیں، لیکن اس کا باقاعدہ طور پر ارتقا مرزا فرحت اللہ بیگ کی ادبی تحریروں سے ہوتا ہے جنھوں نے ڈپٹی نذیر احمد (1830-1912)کا نہایت دلکش اور دلچسپ خاکہ لکھا۔ اس کے بعد اردو خاکہ نگاروں کی ایک کہکشاں نظر آتی ہے جس میں مسعود حسین خاں کے علاوہ مولوی عبدالحق، خواجہ حسن نظامی، شاہد احمد دہلوی، رشید احمد صدیقی ، سید عابد حسین، مالک رام، محمد حسن، صالحہ عابد حسین، چراغ حسن حسرت، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، یوسف ناظم، مجتبیٰ حسین، عابد سہیل اور عوض سعید کے نام خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
خاکہ نگاری کو بالعموم اسکیچ (Sketch)کہا جاتا ہے، لیکن یہ اس کا صحیح انگریزی ترجمہ یا متبادل نہیں ہے۔ اسکیچ کسی شے یا شخص کا محض بیرونی یا بالائی ڈھانچا (Surface Structure)ہوتا ہے جس کے صرف ظاہری نقوش اور خد و خال ہی دیکھے جاسکتے ہیں۔ خاکہ اسکیچ سے بڑی اورآگے کی چیز ہے۔ اس میں خاکہ نگار کسی شخص کے ظاہری نقوش، خد و خال، چہرے اور حلیے کے مشاہدے کے ساتھ ساتھ اس کی شخصیت کی باطنی پرتیں بھی ٹٹولتا ہے، اور اپنے ذاتی تاثرات بھی پیش کرتا ہے۔ کسی شخصیت کا خاکہ بیان کرتے وقت اس کی ہوبہو تصویر کشی کی جاتی ہے اور معروضی انداز سے کام لیا جاتا ہے، نیز اس کی خوبیوں کے ذکر کے ساتھ ساتھ اس کی خامیوں کو بھی اجاگر کیا جاتا ہے۔ ایک اچھا خاکہ وہی سمجھا جاتا ہے جس میں صاحبِ خاکہ کی شخصیت جیسی کہ وہ ہے، ابھر کر سامنے آجائے خواہ وہ اس کا حلیہ اور لباس ہو یا وضع قطع، عادات و اطوار ہوں یا طرزِ بود و ماند، اندازِ گفتگو اور مزاج ہو یا افتادِ طبع۔ اس شخصیت کے ساتھ پیش آنے والے بعض حالات و واقعات بھی خاکہ نگار کی دلچسپی کا باعث ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض خاکے سوانح نگاری اور سیرت نگاری کی حدوں کو چھو لیتے ہیں۔
مسعود حسین خاں (1919-2010)ایک ماہرِ لسانیات تھے، اور لسانی مسائل و مباحث سے انھیں پیشہ ورانہ دلچسپی تھی، لیکن وہ ناقد، شاعر، محقق، مدون اور خاکہ نگار بھی تھے۔ انھوں نے ’ورودِ مسعود‘ کے نام سے اپنی خود نوشت سوانح حیات بھی لکھی جس میں بہترین شخصی مرقعے پائے جاتے ہیں۔ مسعود حسین خاں کے چار مقتدر شخصیات پر لکھے ہوئے خاکے یہ ہیں: رشید احمد صدیقی ،ڈاکٹر ذاکر حسین، جسٹس محمد ہدایت اللہ، عبدالقادر سروری۔
رشید احمد صدیقی :
مسعود حسین خاں کا سب سے دلچسپ خاکہ ان کے استاد رشید احمد صدیقی (1894-1977)پر ہے جو ان کے انتقال کے بعد لکھا گیا اور ’رشید صاحب: چند یادیں‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ رشید احمد صدیقی، مسعود حسین خاں کے نہ صرف شفیق و محترم استاد تھے بلکہ مربی بھی تھے، چنانچہ انھوں نے ہمیشہ اس رشتے کا پاس رکھا۔ وہ جب بھی ان سے ملتے حفظِ مراتب کا ضرور خیال رکھتے۔ رشید احمد صدیقی بھی انھیں اپنے تمام شاگردوں میں سب سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ رشید احمد صدیقی سے ان کی پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ ذاکر حسین کالج(سابق اینگلو عربک کالج)، دہلی سے بی اے کرنے کے بعد ایم اے میں داخلے کی غرض سے جولائی 1939میں علی گڑھ پہنچے تھے۔ رشید احمد صدیقی اس وقت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں استاد تھے۔ مسعود حسین خاں نے پہلے ایم اے (تاریخ) میں داخلہ لیا تھا، لیکن ہفتے عشرے کے اندر تبدیلیِ مضمون کی درخواست دے کر ایم اے (اردو) میں منتقل ہوگئے تھے۔ مسعود حسین خاں اپنے متذکرہ خاکے کی ابتدا ان الفاظ سے کرتے ہیں :
’’میں شاگردِ رشید ہوں۔ یہ کلمۂ توصیفی نہیں، کلمۂ اضافی ہے۔ اس کو کلمۂ توصیفی کہنا میرے اختیار کی بات نہیں۔ یہ اختیار تو رشید صاحب کو تھا۔‘‘
مسعود حسین خاں نے اپنے استاد سے پہلی ملاقات کی جو تصویر کشی کی ہے وہ لاجواب ہے۔اس سے ان کی شگفتگیِ مزاج اور افتادِ طبع کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ جاننے میں ذرا بھی دیر نہیں لگتی کہ مسعود حسین خاں کی ملاقات ایک ایسی شخصیت سے ہورہی ہے جو منفرد ہے اور جس کا طنز و مزاح کی دنیا میں کوئی ثانی نہیں ہے۔ اس سے یہ بھی مترشح ہوتا ہے کہ رشید احمد صدیقی کی یونیورسٹی برادری میں کتنی عزت و توقیر تھی، اور لوگ ان کا کس قدر ادب و احترام کرتے تھے۔ مسعود حسین خاں لکھتے ہیں :
’’جولائی 1939 میں جب میں سابق اینگلو عربک کالج، دہلی سے بی اے پاس کرنے کے بعد ایم اے میں داخلے کے لیے علی گڑھ پہنچا تو رشید صاحب سے پہلی مڈبھیڑ ہوئی۔ یہ ان کے نئے تعمیر شدہ مکان کے مردانہ حصے میں، کمرے سے باہر، پھوس کے چھپر کے نیچے، بے کمر اور باکمر سرکنڈوں3کے مونڈھوں پر میرا ان کا پہلا سامنا غالب کے مشہور شعر ’روکے‘ اور ’کھینچے‘ سے بخوبی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔4عرضِ حال سن لی اور بولے، ’کل شعبۂ اردو میں تشریف لائیے،‘ اور اس کے ساتھ ملاقات یک لخت ختم کردی۔ لوٹتے وقت ایسا محسوس ہوا نہ تماشا کامیاب آیا نہ تمنا بے قرار۔ داخلے کی حاجت مندی سوار تھی اس لیے دوسرے دن شعبۂ اردو میں جا دھمکا۔ بغیر توجہ کے انھوں نے میرے ہاتھ سے داخلے کا فارم لیا اور ’آئیے حضرت‘ کہہ کر میرے ساتھ ساتھ جا نکلے۔ اسٹریچی ہال میں، جہاں ان دنوں داخلے کا بازار لگتا تھا، کلرکوں سے لے کر پرووسٹ اور دیگر اربابِ داخلہ تک، بے شمار میزیں: یہاں اندراج کرائیے، یہاں ہال اور ہوسٹل کا انتخاب کیجئے، یہاں فیس داخلہ جمع کیجئے، ہر میز پر ٹھٹ کے ٹھٹ لگے ہوئے تھے۔ پیروکار عام طور پر سینیر طلبہ اور رشید صاحب جیسے بعض اساتذہ تھے۔ میں نے دیکھا کہ رشید صاحب کا جس میز کی طرف رخ ہوتا ہے، پرے کا پرا ہٹ جاتا ہے۔ کلرک ہو کہ اسسٹنٹ رجسٹرار ا یک ہلکی سی اٹھک بیٹھک لگاتا ہے اور ان کے فقرے کی تاب نہ لا کر جھٹ ان سے فراغت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اس دن رشید صاحب کے وار بھرپور پڑ رہے تھے اور شاید ہی کوئی مردہ دل ہو جو اس سودا اور ان کے غنچے کے کام سے پہلو تہی کرنے کی ہمت کرتا ہو،لیجیے جو کام گھنٹوں میں ہونا تھا وہ منٹوں میں ہوگیا۔ اس درمیان میری طرف سے مسلسل تجاہلِ عارفانہ رہا۔ ایک دھچکا اور لگا جب آخر میں مجھے داخلے کا فارم تھماتے ہوئے انھوں نے کہا ’لیجیے حضرت! باقی کام آپ کا ہے، فیس وغیرہ داخل کیجیے اور شعبۂ تاریخ... کا رخ کیجیے۔‘‘5
شعبۂ تاریخ سے شعبۂ اردو میں منتقل ہونے کا حال مسعود حسین خاں یوں بیان کرتے ہیں، یہاں بھی ان کا سابقہ رشید احمد صدیقی اور ان کی حسِ مزاح سے پڑتا ہے :
’’ابھی میرے قدم شعبۂ تاریخ میں جمنے بھی نہ پائے تھے کہ ایک مؤرخ ہی کے ورغلانے پر (میری مراد پروفیسر مجیب سے ہے جو ان دنوں علی گڑھ آنکلے تھے) اکھڑ گئے اور ہفتہ عشرے کے اندر ہی تبدیلیِ مضمون کی درخواست لے کر سہما سمٹا شعبۂ اردو میں صورتِ سوال کھڑا ہوا تھا۔ جب رشید صاحب سے میں نے اپنی اس نیت کا تذکرہ کیا تو بولے، ’خوب! یہ میں نے کب کہا تھا کہ آپ مجھ پر نازل ہوں۔‘ پھر ٹھوک بجا کر پوچھا، ’کیا بالکل طے کرلیا ہے؟‘ میں نے کہا، ’جی ہاں، ایک مؤرخ ہی کے کہنے پر‘۔ کہا، ’اچھا تو لائیے درخواست۔‘ اور ایک شانِ بے نیازی سے دستخط کردیے۔ لیجیے، اب میں شعبۂ اردو کا طالب علم بن گیا، یعنی شاگردِ رشید!‘‘6
رشید احمد صدیقی طبعاً کم آمیز واقع ہوئے تھے۔ وہ محفلوں اور مجمعوں سے گھبراتے تھے۔ انھیں خلوت ہی میں سکون ملتا تھا۔ ان کے مزاج کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ وہ عام لوگوں سے بہت کم ربط ضبط رکھنا پسند کرتے تھے۔ ان کا دیرینہ ملازم سکندر ان کے اس مزاج سے بخوبی واقف تھا، چنانچہ جب کوئی ان سے ملنے جاتا اور درِدولت پر دستک دیتا تو سکندر ہی وارد ہوتا اور وہ اگر گھر میں موجود بھی ہوتے تو سکندر نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ ان کے درونِ خانہ وجود کی نفی کردیتا اور ملنے والا نامراد واپس لوٹ جاتا۔ مسعود حسین خاں نے رشید احمد صدیقی کا خاکہ لکھتے وقت ان کی اس سماجی کمزوری کو نظر انداز نہیں کیا اور جیسا دیکھا اور محسوس کیا ویسا بیان کردیا۔ وہ لکھتے ہیں :
’’رشید صاحب ابتدا سے خواص پسند تھے۔ طالب علموں سے وہ اپنا رشتہ یا تو درس تک محدود رکھتے تھے یا چلتے چلاتے ایک آدھ فقرے تک۔ ان کی اس خواص اور خلوت پسندی کی وجہ سے اکثر حضرات کو شاکی پایا۔ ان کا مکان ان کا حصار تھا۔ اس کا احاطہ کچھ اس قسم کا تھا کہ ملنے والا یا تو مردانے دروازے سے ٹکریں مار کر رہ جاتا یا زنانے دروازے پر پہنچ کر چلا جاتا۔ ان کی رہائش کا کمرہ دونوں دروازوں سے اس قدر محفوظ فاصلے پر تھا کہ ان کے وفادار ملازم سکندر کے توسط کے بغیرآپ کی کوئی صدا یا پیغام ان تک نہیں پہنچ سکتا تھا، اور سکندر نہ صرف وفادار تھا، تربیت یافتہ اور مردم شناس بھی تھا۔ وہ نہایت خوش اسلوبی سے حاضر کو غائب اور غائب کو حاضر کردیتا تھا۔ بس یہیں سے سماجی رشتوں کی نزاکتیں پیدا ہوتی تھیں۔ جمیع خلائق کو معلوم تھا کہ رشید صاحب ہمہ وقت علی گڑھ اور اپنے مکان میں موجود رہتے ہیں اور یہ صرف سکندر کی سکندری ہے جو اس خضرِ ادب کو غائب اور حاضر بنائے رکھتی ہے۔‘‘7
رشید احمد صدیقی کو پھولوں سے بہت رغبت تھی، بالخصوص گلاب کے پھولوں سے۔ یہ ان کا پسندیدہ پھول تھا۔ انھوں نے اپنے مکان کے وسیع اور کشادہ صحن میں گلاب کی کاشت کر رکھی تھی اور ہمہ وقت اس کی دیکھ بھال میں لگے رہتے تھے، کھرپی ان کے ہاتھ میں ہوتی تھی۔ مسعود حسین خاں، رشید احمد صدیقی کے اس ’شوقِ فضول‘ کا تذکرہ اپنے خاکے میں یوں کرتے ہیں :
’’رشید صاحب معاشرتی و جمالیاتی دونوں اعتبار سے بیرونِ خانہ سے زیادہ اندرونِ خانہ کی زیبائش کے قائل تھے۔ چنانچہ جب کہ مکان کے باہری حصے میں خاک دھول اڑتی تھی اندر ایک لہلہاتا چمن اور سبزہ زار تھا اور پھولوں کی وہ بھرمار کہ پریاں قطار اندر قطار۔ قلم کے بعد صرف کھرپی کو یہ شرف حاصل تھا کہ ان کے دستِ مبارک میں دیکھی جاتی جس سے وہ کیاریوں میں قلم کاری کرتے۔‘‘8
پھولوں کی نسبت سے وہ رشید احمد صدیقی کے بارے میں مزید لکھتے ہیں :
’’پھولوں ہی کی نسبت سے انھیں جانوروں سے چڑ تھی۔ میں نے کبھی ان کے مکان پر کوئی کتا پلا ہوا نہیں دیکھا۔ انھیں سالانہ چوریاں گوارا تھیں، لیکن کتا پالنا منظور نہیں تھا۔ اکثر کہتے کہ انسان سے بہتر جانور ہوتا ہے، لیکن سب سے بہتر یہ خاموش پھول پودے ہوتے ہیں۔ ان کا سب سے قیمتی تحفہ گلاب کا پھول ہوتا اور سب سے بڑی مرحمت گلاب کی پود جسے وہ دوسروں پر اعتبار نہ کرتے ہوئے اپنے خاص مالی سے آپ کے مکان میں لگوادیتے۔‘‘ 9
خاکے کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ خاکہ نگار صاحبِ خاکہ کے بارے میں اپنے تاثرات بیا ن کرتا ہے۔ مسعود حسین خاں نے 1941میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کا امتحان پاس کیا تھا۔ وہ دو سال تک رشید احمد صدیقی کے باقاعدہ طور پر شاگرد رہے تھے، چنانچہ مسعود حسین خاں کے ادبی ذوق کو پروان چڑھانے میں ان کا زبردست رول رہا ہے۔ وہ بھی اپنے استاد کے طریقۂ درس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے تھے۔ وہ رشید احمد صدیقی کے بارے میں اپنے تاثرات اس انداز سے بیان کرتے ہیں کہ ان کے طریقۂ تدریس کی تمام خوبیاں قاری کے سامنے آجاتی ہیں، ملاحظہ ہو یہ اقتباس:
’’رشید صاحب کا طریقۂ درس منفرد اور نرالا تھا۔ مطالعہ کی طرح درس کے میدان بھی مخصوص اور محدود تھے، یعنی بیشتر غالب یا اقبال یا جدید شعرا میں حسرت، فانی، اصغر اور جگر۔ انھوں نے تمام شعرا کے بارے میں اپنے انداز میں سوچا تھا۔ ان کی یہ سوچ ان کے بلیغ فقروں کی شکل اختیار کرلیتی تھی جن میں ندرت اور اپج ہوتی اور صاف معلوم ہوتا تھا کہ کسی اور کی ٹکسال سے ڈھل کر نہیں نکلے ہیں۔ ہم لوگ اکثر آپس میں مختلف اساتذہ کے طریقۂ تدریس اور علمیت کا موازنہ کرتے اور عام طور پر یہ رائے قرار پاتی کہ علمِ کتابی رشید صاحب کا میدان نہ تھا۔ لیکن ایک تو رچے ہوئے ذوقِ ادب اور دوسرے خداداد طباعی کی وجہ سے ان کی تحسین شناسی دوسروں سے بالکل مختلف انداز کی ہوتی۔ سونے پر سہاگہ ان کا منفرد اندازِ بیان جو صرف تحریر تک محدود نہ تھا، بلکہ ایک ایک فقرے سے جھلکتا تھا۔ جب کہ دوسرے اساتذہ کی تقریر یاد رہ جاتی، ان کی یادگار بن جاتی!‘‘10
مسعود حسین خاں نے اپنے مشاہدے کی بنیاد پر رشید احمد صدیقی کی بعض ادبی شخصیات سے غیرمعمولی دلچسپی اور قربت کا تذکرہ کیا ہے۔ ان کے الفاظ میں :
’’غالب رشید صاحب کے محبوب شاعر تھے۔ اقبال سے وہ مرعوب تھے، لیکن ان کے ادبی ذوق کی تربیت غالب کے زیر سایہ ہوئی تھی جس کا کلام ان کے منفرد اسلوب کا سب سے بڑا ماخذ تھا۔ اصغر اور جگر سے ان کا ذاتی تعلق تھا، لیکن اصغر کی تراشیدہ شاعری کے وہ زیادہ قائل تھے۔‘‘ 11
اس خاکے میں مسعود حسین خاں نے رشید احمد صدیقی کی خامیوں اور کمزوریوں کا بھی برملا ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’شعر سے شغف کے باوجود یہ عجیب و غریب بات تھی کہ انھیں شعر بالکل یاد نہیں رہتے تھے۔ وزن کا احساس بہت کمزور تھا۔ کبھی آدھے مصرعے سے آگے نہیں بڑھ پاتے، اور ہر بار اہلِ حلقہ میں سے کسی کو شعر اٹھانا پڑتا، یا بڑھ جاتے تو ’بحرِ ہزج میں ڈال کر بحرِ رمل چلے، کی سی صورت پیدا ہوجاتی، لیکن شعر کا مفہوم حیرت ناک طریقے پر ان کے ذہن میں محفوظ ہوتا تھا جس سے وہ انتہائی محظوظ ہوتے اور بے ساختہ اس شعر کے کچھ الفاظ ان کی نوکِ زبان پر آجاتے۔‘‘12
مسعود حسین خاں نے ایم اے (اردو) کرنے کے بعد آل انڈیا ریڈیو، دہلی میں ملازمت اختیار کرلی تھی جہاں ان کی ملاقات اردو ادب کی تین ممتاز شخصیات پطرس بخاری، ن.م. راشد اور میرا جی سے ہوئی، لیکن چھ ماہ کے اندر ہی ان کی طبیعت ریڈیو کی ملازمت سے اچاٹ ہوگئی، اوروہ وہاں سے مستعفی ہو کر علی گڑھ آگئے اور رشید احمد صدیقی سے ملے اور ریسرچ میں داخلے کی خواہش ظاہر کی۔ مسعود حسین خاں لکھتے ہیں کہ رشید صاحب اس بار خنداں نہیں، انگشت بدنداں تھے، کہنے لگے، ’آپ کو کیا پڑی ہے کہ اچھی خاصی ملازمت چھوڑ کر پچاس روپے کے ریسرچ وظیفے پر آنا چاہتے ہیں۔‘ مسعود حسین خاں نے کہا، ’بس یہی اب ٹھانا ہے۔‘ اس پر رشید احمد صدیقی بولے، ’آجائیے، اور کوئی دن یہ زندگانی بھی کرلیجیے۔‘ کچھ ہی عرصے کے بعد مسعود حسین خاں کو شعبۂ اردو میں عارضی جگہ پر بہ حیثیت لکچرر کام کرنے کا موقع مل گیا۔ مسعود حسین خاں لکھتے ہیں کہ’اب رشید صاحب کا اور میرا ہمہ وقت کا ساتھ تھا۔‘ ان دونوں شخصیات کا ساتھ اور ملنا جلنا 1976 تک قائم رہا، تا آنکہ جنوری 1977میں رشید احمد صدیقی کا علی گڑھ میں انتقال ہوگیا۔
بہترین خاکہ نگار وہ ہوتا ہے جس کی صاحبِ خاکہ سے نہ صرف معاصرت ہو، بلکہ ملاقات اور قربت بھی ہو۔ مسعود حسین خاں کی رشید احمد صدیقی سے نہ صرف معاصرت تھی، بلکہ گہری ملاقات اور قربت بھی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے نوکِ قلم سے رشید احمد صدیقی کا بہترین خاکہ نکلا۔ مسعود حسین خاں نے انھیں بہت قریب سے دیکھا تھا۔ ان کی شخصیت کے عام پہلوؤں پر ان کی گہری نظر تھی جن میں سے بعض کا ذکر انھوں نے اپنے اس خاکے میں کیا ہے۔ انھیں میں سے ایک پہلو مذہب کے متعلق ان کا رویہ تھا۔ بقول مسعود حسین خاں’رشید صاحب طبعاً ایک مذہبی ذہن کے مالک تھے۔ خاص طور پر اسلام کی عظمت اور فوقیت کے مقر اور قائل، لیکن طاعت و زہد کی جانب عملی رجحان بہت کم تھا۔ اس لیے انھوں نے مذہبی مباحث اور فرائض سے بیشتر خود کو دور رکھا، لیکن ہندی مسلمانوں کی تاریخ، تہذیب اور معاشرت سے انھیں گہری دلچسپی تھی جو ان کی تحریر و تقریر دونوں سے ظاہر ہوتی ہے۔ سرسید کو وہ مسلمانوں کا مسیحا سمجھتے تھے اور علی گڑھ تحریک کو ان کی نشاۃِ ثانیہ۔‘13 مسعود حسین خاں ان کے بارے میں مزید لکھتے ہیں کہ ’بنیادی طور پر وہ انسان اور قوم پرست تھے۔ اس لیے گاندھی، نہرو، محمد علی، اقبال اور ذاکر حسین جیسی شخصیتیں ان کے تخیل کو گرماتی تھیں۔‘‘ 14
رشید احمد صدیقی اور مسعود حسین خاں کا علی گڑھ میں تقریباً 37سال تک ساتھ رہا تھا۔ رشید احمد صدیقی، مسعود حسین خاں کے سب سے پہلے شفیق استاد اور مربی بنے، پھر شعبۂ اردو میں دونوں ایک دوسرے کے رفیقِ کار ہوگئے۔ اس کے بعد تادمِ آخر رشید احمد صدیقی، مسعود حسین خاں کے ہمدرد اور بہی خواہ بنے رہے۔ اس طویل عرصے کے دوران دونوں کے درمیان نہایت مخلصانہ اور خوشگوار تعلقات قائم رہے۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا رشید احمد صدیقی کی گوناگوں شخصیت کی پرتیں کھلتی گئیں جس کا ’مجموعی تاثر‘ مسعود حسین خاں نے ان کا خاکہ لکھتے ہوئے یوں پیش کیا :
’’ میرا رشید صاحب کی شخصیت کا مجموعی تاثر ایک شدید انفرادیت، داخلیت پسند اور حساس طبیعت رکھنے والے فن کار کا ہے۔ وہ غیر معمولی، غیر تعقلی ذہانت اور بصیرت کے مالک تھے۔ ایک مخصوص طبقے ا ور عہد کی اقدار اور وضع داریوں کو عزیز رکھتے تھے، اور انھیں پیمانوں سے ان سب کو ناپتے جو ان کی رہ گذرِ حیات پر آنکلتے۔ وہ بت شکن سے زیادہ خدا ساز تھے ...اپنی ستائش سے گھبراتے، لیکن دوسروں کی ستائش جی کھول کر کرتے...انسانی ہمدردی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ جہاں تک ممکن ہوتا ہر ایک کی حاجت روائی کرتے۔ سیکڑوں پران کے خاموش احسان ہیں، بعض احسان فراموش ہیں۔‘‘ 15
ڈاکٹر ذاکر حسین :
مسعود حسین خاں کا ڈاکٹر ذاکر حسین (1897-1969)پر خاکہ اولاً تقریری صورت میں معرضِ وجود میں آیا، پھر اسے تحریر کا جامہ پہنایا گیا جو ’ذاکر صاحب: ذاتی یادیں‘ کے عنوان سے اشاعت پذیر ہوا۔ ذاکر حسین، مسعود حسین خاں کے حقیقی چچا تھے۔ ان کی پرورش و پرداخت اور تعلیم و تربیت میں ذاکر حسین کا اہم رول رہا ہے، کیوں کہ ان کے (مسعود حسین خاں کے) والد کا انتقال جب وہ صرف دو سال اور دو مہینے کے تھے تبھی ہوگیا تھا۔ مسعود حسین خاں کی ذاکر حسین سے قرابت تو تھی ہی، انھیں ان کا قرب بھی حاصل تھا، چنانچہ انھیں اپنے چچا کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ اس خاکے میں مسعود حسین خاں نے ذاکر حسین کی شخصیت کی نمایاں خوبیوں کو بیان کرنے میں کوئی کسرباقی نہیں چھوڑی۔
ذاکر حسین جب جرمنی سے 1926میں پی ایچ .ڈی کی ڈگری لے کر اپنے وطن قائم گنج (ضلع فرخ آباد) لوٹے تو اس وقت مسعود حسین خاں کی عمر غالباً چھ سات برس کی تھی۔ وہ ان کا حلیہ یوں بیان کرتے ہیں :
’’ان کے چہرے پر کالی داڑھی تھی۔ معلوم نہیں انھوں نے بمبئی یا کہاں سے ایک سفید شیروانی حاصل کرلی تھی، وہ پہنے ہوئے تھے۔اسی شیروانی کے کپڑے کی ٹوپی بھی تھی، ان کے سر پر۔‘‘ 16
مسعود حسین خاں کی اپنے چچا سے یہ پہلی ملاقات تھی اور پہلا تاثر بھی، کیوں کہ تین چار سال قبل جب وہ جرمنی گئے تھے تو مسعود حسین خاں بہت چھوٹے تھے اور انھیں اس وقت کا کچھ یاد نہ تھا۔ جرمنی سے واپسی پر ذاکر حسین کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کا شیخ الجامعہ (وائس چانسلر) بنادیا گیا تھا اور وہ دہلی چلے گئے تھے۔ چوں کہ قائم گنج میں تعلیم کا معقول انتظام نہ تھا، اس لیے ذاکر حسین نے اگلے سال (1927) مسعود حسین کو جامعہ ملیہ اسلامیہ بلالیا اور درجہ دوم میں داخلہ دلوا کر بورڈنگ ہاؤس میں رہنے کا انتظام کروادیا۔ جامعہ ملیہ اس زمانے میں قرول باغ میں واقع تھی، اور وہیں شیخ الجامعہ کی رہائش گاہ بھی تھی، لہٰذا ذاکر حسین کے گھر ان کا برابر آنا جانا رہتا تھا جس سے چچا اور بھتیجے میں قربت بڑھتی گئی۔ خاکہ نگاری کے لیے ضروری ہے کہ خاکہ نگار اور صاحبِ خاکہ میں معاصرت کے علاوہ قربت بھی ہو۔ مسعود حسین خاں کی ذاکر حسین سے نہ صرف قرابت تھی، بلکہ انھیں ذاکر حسین کا قرب بھی حاصل تھا۔ اسی لیے اس خاکے میں انھوں نے ذاکر حسین کی شخصیت کے بعض ایسے ذاتی نقوش کو اجاگر کیا ہے جن کا کسی کو بھی علم نہیں۔
جس زمانے میں ذاکر حسین نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شیخ الجامعہ کا عہدہ سنبھالا تھا وہ نہایت آزمائش کا زمانہ تھا۔ جامعہ بری طرح ’افلاس‘ کا شکار ہوگئی تھی۔ اخراجات کافی حد تک بڑھ گئے تھے اور ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ وہ اب بند ہوجائے گی، لیکن ذاکر حسین کو قوم کے نونہالوں کی تعلیم عزیز تھی۔ انھوں نے حالات کا مقابلہ کیا، دکھ جھیلے، اور کم مشاہروں پر کام کیا، لیکن جامعہ کو بند ہونے نہ دیا۔ یہ ان کے کردار کی ایک نمایاں خوبی اور ان کے عزم و عمل کا روشن پہلو ہے۔ مسعود حسین خاں لکھتے ہیں:
’’اس وقت ذاکر صاحب کی تحریک پر پندرہ بیس جاں بازوں کے ایک قافلے، ایک ٹولی نے عزم کیا کہ جامعہ کو بند نہیں ہونے دیں گے، اور اس عزم کے ساتھ وہ جتنے جامعہ کے مربی تھے ان سے ملا ... کہا کہ ہم اپنی تنخواہیں بند کرلیں گے، لیکن جامعہ کو بند نہیں ہونے دیں گے... بہرحال جامعہ بند نہ ہوئی اور ہم لوگ مکانوں اور گھروں کوواپس نہ کیے گئے۔‘‘ 17
ایک عمدہ خاکہ نگار کی نظر صاحبِ خاکہ کی ایک ایک چیز پر مرتکز ہوتی ہے جس کی وہ دلکش قلمی تصویر بنا کر قاری کے سامنے پیش کرتا ہے۔ علاوہ ازیں وہ صاحبِ خاکہ کی بعض ایسی باتوں کا بھی ذکر کرتا ہے جس سے اس کی شخصیت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، مثلاً اپنے مشاہدے کی بنیاد پر مسعود حسین خاں، ذاکر حسین کی حسِ مزاح اور انداز گفتگو کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’میں نے دیکھا کہ ان کے ہاں مزاح اور ٹھٹھول، بہت ہی شائستہ قسم کا مزاح بات بات سے ٹپکتا تھا۔ وہ اچھے کنورسیشنلسٹ (Conversationalist) تھے، مقرر تو تھے ہی ...لیکن ان کی ٹیبل ٹاکس (Table Talks)اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہوتی تھیں، اور وہ اپنے مخصوص حلقوں میں جب کھلتے تھے تو واقعی ان کی زبان سے پھول جھڑتے تھے۔‘‘18
ذاکر حسین کی سرشت میں فیاضی کی صفت بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ وہ دوسروں کی مدد کرنے اور مالی امداد بہم پہنچانے میں پیش پیش رہتے تھے۔ مسعود حسین خاں نے ان کے حوالے سے ایک واقعے کا ذکر کیا ہے جس سے ان کی شخصیت کے اس پہلو پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’اس زمانے میں یہ اکثر ہوا ہے کہ کئی برس کے انتظار کے بعد نیا لحاف یا نیا گدّا، جڑاول بنائی گئی اور بعد کو معلوم ہوا کہ ایک دن وہ جڑاول، ابھی سردیاں آ بھی نہیں پائی تھیں، اس کا استعمال بھی نہیں شروع ہوا تھا کہ گھر سے غائب ہوگئی۔ تمام شورمچ رہا ہے، کون لے گیا، کہاں لے گیا، تو معلوم ہوا کہ انھوں نے کسی غریب طالب علم کو جو سردی میں اکڑ رہا تھا یا کسی اور غریب ساتھی کو اڑھادی 151 اور خود اپنے پرانے لحاف میں، گدے میں پڑے رہتے تھے۔‘‘19
ذاکر حسین کی شخصیت کئی صفات سے متصف تھی جن میں سے ایک تحمل اور قوتِ برداشت ہے۔ مسعود حسین خاں نے اسے ان کی ’اخلاقی صفت‘ قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’سب سے بڑی ان کی اخلاقی صفت جو تھی وہ تحمل تھا، برداشت تھی۔ وہ خود اپنی جان پر عذاب لیتے تھے، لیکن دوسروں کے لیے عذاب نہیں بنتے تھے۔‘‘20
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا وائس چانسلر بننے کے بعد بھی ان کے اندر وہی تحمل تھا۔ مسعود حسین خاں کے الفاظ میں :
’’علی گڑھ میں انھیں دیکھنے سے مجھے اندازہ ہوا کہ جتنا ضبط و تحمل ان کے پاس تھا وہ واقعی کم لوگوں کے پاس ہوگا۔‘‘21
مسعود حسین خاں نے ذاکر حسین کو خلوت اور جلوت، نیز گھر کے اندر اور باہر، ہر جگہ دیکھا تھا۔ انھوں نے ان کی سیرت و شخصیت کا نہایت گہرائی سے مشاہدہ کیا تھااور اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ وہ بنیادی طور پر ایک ’اخلاقی آدمی‘ تھے اور اخلاقی اقدار کی پابندی کرتے تھے۔ مذہب کی جانب بھی ان کارجحان تھا، چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
’’آخری عمر میں ان کا رُجحان مذہب کی طرف ہوگیا تھا۔ ویسے وہ مذہب کے خلاف کبھی بھی نہیں رہے، اور اسلام کی جو بھی عبادات ہیں ان میں حسبِ توفیق حصہ بھی لیتے رہے، لیکن بنیادی طور پر وہ اخلاقی آدمی تھے...انھوں نے اپنی زندگی چند اخلاقی قدروں کے گرد بنائی تھی۔ وہ اخلاقی قدریں کچھ تو انھیں خود مذہبِ اسلام میں ہی مل گئی تھیں، کچھ انسانیت دوستی کی تحریک میں مل گئی تھیں جس سے یورپ کی فضا معمور تھی۔‘‘22
انگریزی کا ایک مقولہ ہے: A picture on the wall is the picture of the mind of the man who hangs it.اس کا سیدھا سا مفہوم یہ ہے کہ کسی شخص کی پسند و ناپسند اس کے ذہن کی غمازی کرتی ہے۔ مسعود حسین خاں نے ذاکر حسین کی تین سب سے زیادہ پسندیدہ شخصیتوں کا ذکر کیا ہے جس سے ان کی ذہنی قربت تھی اور اسی سے ان کی شخصیت کے خمیر کا پتا چلتا ہے۔ یہ شخصیتیں ہیں : گاندھی جی، علامہ اقبال اور حکیم اجمل خاں۔ گاندھی جی سے ذاکر حسین کا جو ذہنی ربط رہا ہے اس کے بارے میں ساری دنیا جانتی ہے، لیکن اقبال سے ذاکر حسین کے قلبی لگاؤ کے بارے میں بہت کم لوگوں کو علم ہے۔چوں کہ، جیسا کہ پہلے بھی کہا جاچکا ہے، مسعود حسین خاں کی ذاکر حسین سے نہ صرف قرابت تھی بلکہ قربت بھی تھی، اس لیے وہ ان کے گھر کے ’بھیدی‘ کے مانند تھے۔وہ بتاتے ہیں کہ گاندھی جی کے بعد ’’دوسری بڑی شخصیت جس سے کہ وہ [ذاکر حسین] متاثر تھے اور جو ان کی ذہنی ساخت کے بہت قریب تھی وہ اقبال کی شخصیت تھی۔ اقبال کا جادو سر پر بہت پہلے چڑھ گیا تھا ...انھیں اقبال کے اشعار بے شمار یاد تھے۔‘‘ 23
اقبال سے ذاکر حسین کی ذہنی قربت اور ہم آہنگی کے بارے میں وہ مزید لکھتے ہیں :
’’اقبال کے کلام کا وہ حصہ جو کہ عمل کی آواز دیتا ہے، انسان کی خودی کو بیدار کرتا ہے، جو نفس کو مارتا ہے، اوپر لے جاتا ہے اور انسان کو خدا صفت اور خدا نما بنانے کی کوشش کرتا ہے، یہ تمام چیزیں یقیناًان کے مزاج سے ہم آہنگ تھیں۔‘‘ 24
مسعود حسین خاں نے اپنے خاکے میں اس بات کا انکشاف کیا کہ ذاکر حسین کو اقبال کی نظم ’مسجدِ قرطبہ‘ بہت پسند تھی اور اس کا حسبِ ذیل بند انھیں بے حد ’محبوب‘ تھا :
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کار کشا، کار ساز
مسعود حسین خاں کا بیان ہے کہ ذاکر حسین آخری دور میں جب وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے’شام کو کھانے کے بعد‘اس بند کو’گنگنا کر‘ پڑھا کرتے تھے۔ اقبال نے متذکرہ بند میں ’بندۂ مومن‘ کی تعریف یوں کی ہے :
اس کی امیدیں قلیل اس کے مقاصد جلیل
رزم ہو یا بزم ہو، پاک دل و پاک باز
مسعود حسین خاں لکھتے ہیں کہ ’ذاکر صاحب کی شخصیت بھی اسی سے عبارت تھی، جو رزم اور بزم میں دلِ پاکبازکے ساتھ رہے۔‘‘ 25
ایسا نہیں ہے کہ مسعود حسین خاں نے ذاکر حسین کی صرف خوبیاں ہی بیان کی ہوں، انھوں نے ان کی کمزوریوں کو بھی اجاگر کیا ہے، خاص طور پر اس زمانے میں جب وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر (شیخ الجامعہ تھے)۔ جامعہ کے ملازمین کے ساتھ ان کا رویہ نہایت نرم تھا، خواہ وہ استاد ہو یا کلرک یا چپراسی۔ وہ کسی پر سختی کرنا جانتے ہی نہ تھے۔اگر کبھی کوئی کسی بات پر خفا ہوجاتا تو اس کے مکان پر جا کر تاسف کا اظہار کرتے اور اسے منالیتے۔ ہر شخص کو برابری کا درجہ حاصل تھا، کوئی بھی شخص کسی کو بھی خواہ وہ عہدیدار ہی کیوں نہ ہو ٹوک دیتا تھا۔ یہاں تک کہ ’’جب مجلسِ شوریٰ ہوتی تھی تو ہر شخص شیخ الجامعہ سے یا دوسرے کسی عہدیدار سے، خازن سے برابری کی گفتگو کرتا تھا، اور اپنی تجاویز پر اٹھ کر واک آؤٹ (Walkout)بھی کرجاتا تھا۔‘ 26جب وہ 1948میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر بن کر آئے تو مسعود حسین خاں وہاں شعبۂ اردو میں لکچرر تھے۔ انھوں نے ذاکر حسین سے کہا، ’علی گڑھ کو آپ اس انداز سے نہ چلائیے جس انداز سے کہ جامعہ ملیہ چلائی ہے۔‘ وہ ان سے کہتے تھے یہ بڑا ادارہ ہے، یہاں آپ کو’ایڈمنسٹریٹر‘ بننا ہے۔27
ذاکرحسین پر مسعود حسین خاں کے اس خاکے کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں نہ تو تعلیمی میدان میں ان کی خدمات سے بحث کی گئی ہے اور نہ ہی ان کے سیاسی کارنامے بیان کیے گئے ہیں، بلکہ اسے صرف ذاتی باتوں تک ہی محدود رکھا گیا ہے اور ان کی شخصیت کے وہ نقوش پیش کیے گئے ہیں جو عام نظروں سے اوجھل تھے۔
محمد ہدایت اللہ :
مسعود حسین خاں نے جسٹس محمد ہدایت اللہ (1905-1992)کا بھی خاکہ لکھا ہے جن سے ان کے تقریباً پانچ سال تک 1973)تا1978) مراسم رہے تھے۔ ہدایت اللہ سے مسعود حسین خاں کی پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب انھوں نے جامعۂ ملیہ اسلامیہ (نئی دہلی) کے شیخ الجامعہ (وائس چانسلر) کا عہدہ سنبھالا۔ ہدایت اللہ جامعہ ملیہ اسلامیہ (جو اس وقت ’ڈیمڈ‘ یونیورسٹی تھی)کے امیرِ جامعہ (چانسلر) تھے۔ انھوں نے ہی، بحیثیتِ امیرِ جامعہ، مسعود حسین خاں کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر شپ کے لیے تین اشخاص کے ایک پینل میں سے منتخب کیا تھا۔28
مسعود حسین خاں کی ہدایت اللہ سے جب پہلی ملاقات ہوئی تو ان کے ذہن پر ہدایت اللہ کی شخصیت کا بہت اچھا تاثر قائم ہوا۔ وہ اپنے خاکے ’امیرِجامعہ جسٹس ہدایت اللہ‘ میں لکھتے ہیں :
’’15 منٹ کی گفتگو کے بعد میرے ذہن میں جو ان کا تاثر قائم ہوا وہ یہ تھا کہ اعلیٰ مناصب پر فائز رہنے کے باوجود ان کی باتوں میں ایک خاص قسم کی سادگی اور بے تکلفی تھی۔یہ معلوم ہی نہیں ہوتاتھا کہ وہ مدھیہ پردیش کے چیف جسٹس یا چیف جسٹس آف انڈیا کے اعلیٰ مناصب پر فائز رہ چکے ہیں، جن کے قانونی فیصلے تاریخ ساز رہے، اور جو اپنی دیانت اور حق گوئی کے باعث اعلیٰ ترین سرکاری حلقوں میں عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔‘‘29
مسعود حسین خاں کا خیال یہ تھا کہ چوں کہ ہدایت اللہ ملک کے اعلیٰ مناصب پر فائز رہ چکے تھے، اس لیے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی چانسلری ان کے لیے ایک ’معمولی منصب‘ تھا۔ مسعودحسین خاں نے اپنے متذکرہ خاکے میں ہدایت اللہ کی شخصیت کے حقیقی خد و خال بلا تکلف بیان کردیے ہیں۔ ان کی شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ سے جو ایک قومی و ملی طرز کا ادارہ تھا، ان کی دلچسپی، امیرِ جامعہ ہونے کے باوجود ’برائے بیت‘ تھی۔ مسعود حسین خاں کے الفاظ میں :
’’ان کا تعلق ان قوم پرست سرفروشوں کے گروہ سے نہیں رہا تھا جنھوں نے اس ادارے کی بنیاد ڈالی تھی، اور پھر اپنے بے پناہ جذبۂ ایثار و قربانی سے اسے پروان چڑھایا۔ در اصل ان کی شخصیت مولانا محمد علی، حکیم اجمل خاں یا ڈاکٹر ذاکر حسین کے کینڈے سے بالکل مختلف تھی۔‘‘30
ہدایت اللہ کی شخصیت کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے، اور غالباً اسی میں ان کی شخصیت کی جیتی جاگتی اور چلتی پھرتی تصویر ابھرتی ہوئی نظر آتی ہے، ملاحظہ کیجیے :
’’عوام سے دور، خواص میں مقبول، گولف اور برج کے شائق، مگر اپنے فن میں طاق!‘‘31
مسعود حسین خاں نے اس ایک بھرپور جملے میں ان کی شخصیت کی پوری عکاسی کردی ہے۔ یہ ان کی خاکہ نگاری کا کمال ہے۔
چونکہ امیرِ جامعہ ہدایت اللہ کی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے معاملات سے دلچسپی برائے نام تھی، اس لیے جامعہ کو چلانے کی پوری ذمے داری مسعود حسین خاں کے کندھوں پر آن پڑی، جن کا بنیادی رشتہ اور گہرا تعلق علمی دنیا سے تھا اور انتظامی امور کا انھیں نہ تو کوئی تجربہ تھا اور نہ اس سے کوئی دلچسپی تھی۔ انھوں نے (بقولِ خود) صرف جامعہ کی محبت میں ’اوکھلے میں سر‘ دیا تھا۔32 وہ طبعاً سرکار کی دہلیز سے دور ہی رہنا پسند کرتے تھے۔ وہ بحیثیتِ شیخ الجامعہ گورنمنٹ آف انڈیا کے کسی جوائنٹ سکریٹری یا ڈپٹی سکریٹری سے ملنے میں بھی اپنی ’سبکی‘ محسوس کرتے تھے۔ ایسی صورت میں جامعہ کی ترقی یا Expansionکا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مسعود حسین خاں لکھتے ہیں کہ’جب جسٹس صاحب سے میں نے اپنی کمزوری کا ذکر کیا تو معلوم ہوا کہ اس معاملے میں وہ مجھ سے بھی زیادہ خستہ تر نکلے۔‘‘33
ہدایت اللہ کی عوام سے دوری اور خواص میں مقبولیت کا ذکر آچکا ہے، چنانچہ جامعہ کے سلسلے میں جب بھی کسی صاحبِ معاملہ سے ملنے ملانے کا ذکر آتا تو بقولِ مسعود حسین خاں :
’’ان کا ٹکا سا جواب ہمیشہ یہ ہوتا کہ مَیں وزیر اعظم سے مل سکتا ہوں، صدرِ جمہوریۂ ہند کے یہاں حاضری دے سکتا ہوں، لیکن ان سے کم درجہ عہدہ داروں سے ملنا میرے لیے کسرِشان ہے۔‘‘ 34
یہ ہدایت اللہ کا خواص پسند مزاج تھا کہ وہ وزیر اعظم کا ذکر بار بار مسعود حسین خاں سے کرتے تھے، چنانچہ انھی کے مشورے سے یہ طے پایا تھا کہ سال 1976کے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کانووکیشن ایڈریس کے لیے وزیرِ اعظم مسزاندراگاندھی (1917-1984)کو مدعو کیا جائے۔ مدعو کرنے کی ذمے داری بھی انھوں نے ہی لے لی، چنانچہ اندرا گاندھی جامعہ ملیہ تشریف لائیں اور کانووکیشن بحسن و خوبی انجام پذیر ہوا۔
مسعود حسین خاں نے ہدایت اللہ کی خواص پسند افتادِ طبع کی ایک اور مثال بھی پیش کی ہے۔ اگلے سال جب جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کانووکیشن کا زمانہ آیا تو ملک کا سیاسی منظرنامہ بدل چکا تھا، اور اب مرکز میں جنتا پارٹی کی حکومت قائم تھی اور اس کے قائد کی حیثیت سے شری مرارجی ڈیسائی (1896-1995) ملک کے وزیر اعظم تھے۔ چنانچہ ہدایت اللہ کے مشورے سے مرارجی ڈیسائی کو کانووکیشن ایڈریس کے لیے مدعو کیا جانا طے پایا۔ اس بار بھی انھوں نے وزیر اعظم کو جامعہ میں لانے کی ذمے داری قبول کی اور وہ اس ادارے میں بخوشی تشریف لائے۔ مسعود حسین خاں ہدایت اللہ کے اس عمل پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’معلوم ہوا کہ ان کی رسائی نئے وزیر اعظم کے در تک اسی طرح ہے جیسی کہ سابق وزیرِ اعظم کے در تک تھی۔‘‘35
مسعود حسین خاں نے ا پنے خاکے میں ہدایت اللہ کی شخصیت کی بھرپور عکاسی کی ہے، اور ان کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ ان کی خامیوں اور کمزوریوں کو بھی اُجاگر کیا ہے۔ ان میں سے بعض باتوں کا ذکر اوپر آچکا ہے۔ اس خاکے میں مسعود حسین خاں نے صاحبِ خاکہ سے متعلق اپنے مشاہدات اور قیاسات بھی بیان کیے ہیں جس کا ایک خاکہ نگار کی حیثیت سے انھیں پورا حق حاصل ہے،مثلاً151
.1 ’جسٹس ہدایت اللہ پر امیرِ جامعہ کا منصب ایک طریقے سے تھوپا گیا تھا۔‘
.2 ’ہدایت اللہ صاحب اپنی قانونی مہارت، حلم اور دیانت داری کاشہرہ رکھتے تھے۔‘
.3 ’جن کے قانونی فیصلے تاریخ ساز رہے۔‘
.4 ’جسٹس ہدایت اللہ وزیرِ اعظم سے کم درجہ کے عہدے دار سے کسی قسم کی بات کرنے کو ...اپنی کسرِ شان سمجھتے تھے۔‘
.5 ’وہ مجمع کے نہیں مجلس کے انسان تھے۔‘36
اس خاکے سے ہدایت اللہ سے متعلق بعض ذاتی نوعیت کی باتوں کا بھی انکشاف ہوتا ہے جن کا ان کی شخصیت سے بھی گہرا تعلق ہے، مثلاً 151
.1 وہ چیف جسٹس آف انڈیا کے عہدے پر فائز رہ چکے تھے۔
.2 ان کی اہلیہ کا نام پشپا تھا جنھیں رفاہی کاموں سے دلچسپی تھی۔
.3 وہ جب دہلی آتے تھے تو اشوکا ہوٹل ان کا مسکن ہوتا تھا۔
.4 ان کے کپڑے کناٹ پلیس (نئی دہلی) میں واقع Laffon Tailorsکے یہاں سلتے تھے۔
.5 وہ گولف اور برج کے شائق تھے۔ 37
ہدایت اللہ کی شخصیت میں جو اَنا تھی اس کی عکاسی مسعود حسین خاں ان کے اس خاکے میں کرچکے ہیں۔ اب وہ ان کی شخصیت کے ایک اور رُخ کو پیش کرنا چاہتے ہیں۔ یہ اپنے سے کم رتبے والے بالخصوص اعلیٰ تعلیم کی دانش گاہ کے باعزت اساتذہ کے تئیں ان کا غیر اخلاقی، غیر مہذب اور آمرانہ رویہ تھا۔ مسعود حسین خاں کی جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلرشپ کے دوران میں وہاں کے اساتذہ نے اپنی بات منوانے کے لیے دھرنے اور اسٹرائک کا سہارا لیا تھا۔ اساتذہ کی یہ ’شورش‘ وہاں کے شعبۂ اردو کے ایک معروف پروفیسر کے خلاف اور نتیجتاً مسعود حسین خاں (وائس چانسلر) کے خلاف تھی۔ مسعود حسین خاں نے جب اس بات کا تذکرہ ہدایت اللہ (چانسلر) سے کیا تو انھوں نے ’مٹھی باندھ کر اور ہاتھ اٹھا کر‘ غصے کے لہجے میں کہا :
’’مسعود صاحب! ان کا علاج ڈنڈا، بس ڈنڈا ہے۔‘‘
مسعود حسین خاں نے جو خود ایک استاد رہ چکے تھے اس غیر ذمہ دارانہ بیان پر یوں تبصرہ کیا :
’’بحیثیت ایک پیشہ ور استاد کے مجھے ان کے اس فقرے پر تعجب ہوا اور کسی قدر تکلیف بھی، لیکن بعد کو جب معلوم ہوا کہ جسٹس کی حیثیت سے وہ مجرموں کی سزائے موت اور جسمانی سزا دونو ں کی تائید میں تھے،تو زیادہ تعجب نہیں ہوا۔‘‘ 38
عبدالقادر سروری :
عبدالقادر سروری (1906-1971)پرمسعود حسین خاں کاخاکہ اس جملے سے شروع ہوتا ہے :
’’مرنے والے کی خوبیاں اور نیکیاں یاد رہ جاتی ہیں۔‘‘39
اس میں کوئی شک نہیں کہ عبدالقادر سروری کی شخصیت بے شمار خوبیوں کا مرقع تھی جن کا ذکر مسعود حسین خاں نے اپنے خاکے ’پروفیسر عبدالقادر سروری مرحوم‘ میں بڑی محبت سے کیا ہے، لیکن اسی کے ساتھ ان کی شخصیت کی بعض کمزوریاں بھی نوکِ قلم پر آگئی ہیں اور بعض ایسی باتیں بھی جو چونکادینے والی ہیں۔ عبدالقادر سروری سے مسعود حسین خاں کے نہایت دیرینہ مراسم تھے۔ عبدالقادر سروری کا تعلق دکن سے تھا، اور مسعود حسین خاں نے بھی چھے سال (1962تا 1968) حیدرآباد (دکن) میں گزارے تھے جب وہ عثمانیہ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں پروفیسر و صدر تھے، لہٰذا ان دونوں اکابرین میں معاصرت کے علاوہ قربت بھی تھی۔ اسی لیے مسعود حسین خاں نے ان کی شخصیت کا نہایت گہرا مطالعہ کیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں :
’’میں نے انھیں قریب و دور، ہر فاصلے اور ہر رنگ میں دیکھا ہے۔‘‘40
عبدالقادر سروری علمی میدان میں شروع ہی سے سرگرم رہے تھے۔ ان کی سب سے پہلی کتاب ’دنیائے افسانہ‘ اس وقت شائع ہوئی تھی جب وہ محض بیس سال کے تھے۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد ان کا تقرر جامعہ عثمانیہ (حیدرآباد) کے شعبۂ اردو میں ’’مددگار پروفیسر‘‘ کی حیثیت سے ہوگیا تھا۔ ’دنیائے افسانہ‘ کے بعد ان کی کئی اور کتابیں شا ئع ہوئیں، مثلاً ’کردار اور افسانہ‘، ’جدید اردو شاعری‘، ’اردو مثنوی کا ارتقا‘، وغیرہ۔ عثمانیہ یونیورٹی کے بعد انھوں نے میسور یونیورسٹی کے شعبۂ اردو و فارسی میں پروفیسر اور صدرِ شعبہ کی خدمات انجام دیں، چنانچہ وہاں بھی ان کی علمی سرگرمیاں جاری رہیں اور وہاں کے دورانِ قیام بھی انھوں نے کچھ نہ کچھ لکھا ۔ آخرِ عمر میں وہ کشمیر یونیورسٹی (سری نگر) کے شعبۂ اردو میں پروفیسر و صدر کے عہدے پر فائز ہوگئے تھے، اور وہیں 11مارچ 1971کو ان کا انتقال ہوگیا۔ سری نگر (کشمیر) کے دورانِ قیام بھی انھوں نے دو کتابیں بعنوان ’کشمیر میں اردو‘اور ’کشمیر کے دو ادیب، دو بھائی‘ تصنیف کیں۔ غرض کہ وہ جہاں کہیں بھی رہے، ان کی علمی سرگرمیاں جاری رہیں۔
عبدالقادر سروری نے پونا کے دکن کالج میں 1956میں منعقدہ لسانیات (Linguistics)کے سَمراسکول میں بھی شرکت کی اور وہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ’زبان اور علمِ زبان‘کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی جس سے طلبہ آج بھی استفادہ کرتے ہیں۔ یہ بات نہایت دلچسپ ہے کہ جب انھوں نے دکن کالج (پونا) کے سَمر اسکول میں داخلہ لیا تھا تو وہ سن رسیدہ تھے۔ وہ مسعود حسین خاں (جو اس سَمر اسکول میں ا ستاد کی حیثیت سے پہنچے تھے) سے بھی عمر میں کافی بڑے تھے۔ یہ عبدالقادر سروری کا علمی ذوق و شوق ہی تھا جو انھیں کشاں کشاں پونا( دکن کالج) لے گیا تھا۔ مسعود حسین خاں عبدالقادر سروری کی شخصیت کے اس پہلو کو اپنے خاکے میں اُجاگر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’علمی مشاغل میں ان کی بے پناہ لگن، تحصیلِ علم کے لیے ان کی سن و سال سے بالا تر ہو کر مسلسل تگ و دو ... اپنے کم عمروں سے علمی استفادہ کرنے میں ان کی بے تکلفی ...بے شمار واقعات ہیں جو اس سلسلے میں یاد آرہے ہیں۔‘‘ 41
پونا کے لسانیات کے سَمر اسکول میں عبدالقادر سروری کی شرکت کاذکر مسعود حسین خاں ذرا تفصیل سے کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :
’’جب 1955 میں پونا میں لسانیات کے اسکولوں کا آغاز ہوا تو دوسرے ہی اسکول میں ایک طالب علم کی حیثیت سے [عبدالقادر سروری نے] اپنا نام درج کرایا اور ڈیڑھ ماہ تک طالب علم کی حیثیت سے دیگر طالب علموں کے ساتھ ہاسٹل میں مقیم رہے۔ مَیں ان اسکولوں میں استاد کی حیثیت سے پڑھانے جاتا تھا، جب بھی ان کی اس ریاضت کے ذکر پر تعجب کا ذکر کرتا، ہنس کر کہتے، اکتسابِ علم کے لیے یہ بھی ضروری ہے۔‘‘42
مسعود حسین خاں نے عبدالقادر سروری کا خاکہ لکھتے ہوئے ان کی شخصیت کی تین خصوصیات کا بطورِ خاص ذکر کیا ہے 151 سادگی، توانائیِ مجسم اور نئے دوست بنانا۔ ان کے الفاظ میں :
’’سروری صاحب کی شخصیت کی سب سے پرکار خصوصیت ان کی سادگی تھی۔ کیا لباس، کیا خوراک اور کیا سفرو حضر، ہمیشہ موٹر نشین رہے، لیکن اسے ہمیشہ اپنامرکب سمجھا، اپنے لیے باعثِ افتخار نہیں بنایا ...سروری صاحب توانائیِ مجسم تھے، مسلسل حرکت ان کے لیے ناگزیر تھی۔ جہاں جاتے نئی دوستیاں... بآسانی پیدا کرلیتے۔‘‘43
عبدالقادر سروری کی شخصیت کی ایک خامی یا کمزوری یہ تھی، بلکہ ان کی شخصیت کا تضاد تھا کہ جہاں وہ لوگوں سے ’دوستیاں‘ پیدا کرتے تھے وہیں’مخالفتیں‘ بھی مول لے لیتے تھے، اور اس پر اظہار تاسف نہیں کرتے تھے، بلکہ اس کے جواز میں مولوی عبدالحق (1870- 1961)کا ایک قول دہراتے تھے جو انھیں بے حد پسند تھا، وہ یہ کہ 151 ’انسان کی مخالفت درختوں یا جڑوں سے نہیں پیدا ہوتی، انسانوں ہی سے ہوتی ہے۔‘ مسعود حسین لکھتے ہیں :
’’میں ہمیشہ اس قول پر ان کو داد ان الفاظ میں دیتا، سروری صاحب آپ میں مخالفت پیدا کرنے اور پھر اس کو سر کرنے کی غیر معمولی صلاحیت ہے۔‘‘ 44
اس کے جواب میں وہ مسکرادیتے۔ مسعود حسین خاں اس کی منظر کشی ایک فارسی مصرع کے ذریعے یوں کرتے ہیں، ع
تبسمے بہ لبِ او رسید و ہیچ نہ گفت
عبدالقادر سروری کا تعلق اگرچہ خطۂ دکن سے تھا، لیکن انھوں نے کبھی دکنی، غیر دکنی یا ملکی، غیر ملکی (شمالی) کی تفریق کے بارے میں نہیں سوچا۔ وہ علاقائیت سے بالاتر ہو کر اردو زبان و ادب کی بے لوث خدمت انجام دیتے رہے۔ وہ حیدرآباد میں بھی رہے اور میسور میں بھی، اور آخری زمانے میں ان کا قیام سری نگر (کشمیر) میں بھی رہا۔ وہ جہاں کہیں بھی رہے، اردو کی خدمت کرتے رہے اور اس کی ترویج و اشاعت میں مقدور بھر حصہ لیتے رہے۔ اردو کی خدمت کا جذبہ ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔مسعود حسین خاں نے ان کے اس جذبے کو جو ان کی شخصیت کے خمیر میں شامل تھا خوب سراہا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’سروری صاحب کی وفاداری ایک عالم کی حیثیت سے مقام سے نہیں زبان سے تھی۔ اردو کو جہاں جہاں جس روپ میں پایا اس کے تحفظ و بقا کے لیے اپنی علمی صلاحیتوں کو وقف کردیا۔ اس زبان کے لیے ان میں ایک لگن تھی...ہمہ وقت وہ اس کی تعلیم اور تنظیم میں منہمک رہے۔ اسی کا کھایا، اسی کا گایا، اسی کو اپنی میراث جانا، اسی کو اپنی نجات مانا۔‘‘45
ان کے سانحۂ ارتحال سے اردو پر کیا گذری، مسعود حسین خاں کے الفاظ میں :
’’آج جو وہ ہم میں نہیں تو اردو کے قافلے کا ایک اہم شہسوار نابود ہوگیا ہے، آج جو وہ دور چلے گئے ہیں تو اردو کا افق کچھ اور غبار آلود ہوگیا ہے۔‘‘46
حواشی:
.1 مرزا فرحت اللہ بیگ دہلی کے رہنے والے تھے، لیکن ان کی عمر کا بیشتر حصہ حیدرآباد (دکن) میں گذرا اور وہیں انھوں نے وفات پائی۔ وہ اردو کے مایۂ ناز خاکہ نگار تھے۔ ’ڈاکٹر نذیر احمد کی کہانی، کچھ میری اور کچھ ان کی زبانی‘ ان کا بہترین خاکہ ہے جس کی وجہ سے ان کا شمار اردو کے صفِ اول کے خاکہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ اسے اردو کا پہلا کامیاب ترین طویل خاکہ کہا گیا ہے۔ یہ خاکہ سب سے پہلے انجمن ترقی اردو کے سہ ماہی مجلے ’اردو‘، بابت جولائی 1927 (ساتویں جلد) میں شائع ہوا۔
.2 مرزا اکبر علی بیگ کا تعلق بھی حیدرآباد (دکن) سے تھا۔ وہ عثمانیہ یونیورسٹی (حیدرآباد) میں اردو کے استاد تھے۔ خاکہ نگاری سے انھیں بے حد دلچسپی تھی۔ ان کے خاکوں کے دو مجموعے، ’خوش نفساں‘ (1983)اور ’نفوسِ گرامی‘ (2003)شائع ہوچکے ،ہیں۔
.3 ایک مونڈھے میں Backنہیں تھی اور دوسرا مونڈھا Backکے ساتھ تھا، جیسے کہ Back Chairہوتی ہے۔ (م خ ا ب)
.4 غالب کا وہ شعر یہ ہے :
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
(م خ ا ب)
.5 مسعود حسین خاں، ’رشید صاحب: چند یادیں‘، مشمولہ ’مضامینِ مسعود‘ از مسعود حسین خاں
(علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، 1997)، ص209-10
.6 ایضاً، ص 210، .7 ایضاً، ص 211، .8 ایضاً ،ص211
.9 ایضاً ،ص212، .10 ایضاً ،ص212، .11 ایضاً ،ص212
.12 ایضاً ،ص212-13، .13 ایضاً ،ص215-16، .14 ایضاً ،ص216، .15 ایضاً ،ص215
.16 مسعودحسین خاں، ’’ذاکر صاحب: ذاتی یادیں‘‘، مشمولہ ’مضامینِ مسعود‘ از مسعود حسین خاں
(علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، 1997)، ص192
.17 ایضاً ،ص194، .18 ایضاً ،ص195، .19 ایضاً ،ص196، .20 ایضاً ،ص200، .21 ایضاً ،ص203
.22 ایضاً ،ص204-205، .23 ایضاً ،ص205،.24 ایضاً ،ص206،.25 ایضاً ،ص208،
.26 ایضاً ،ص198-99، .27 ایضاً ،ص201
.28 وہ تین اشخاص یہ تھے: (1) پروفیسر مسعود حسین خاں، (2) پروفیسرمحمد شفیع (علی گڑھ)
(3) ڈاکٹر سلامت اللہ (جامعہ ملیہ اسلامیہ)
.29 مسعود حسین خاں، ’امیرِ جامعہ جسٹس ہدایت اللہ‘، مشمولہ ’مضامینِ مسعود‘
از: مسعود حسین خاں (علی گڑھ:ایجوکیشنل بک ہاؤس، 1997)، ص218-19
.30 ایضاً ،ص219، .31 ایضاً ،ص219
.32 یہ فقرہ مسعود حسین خاں کا ہے۔جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے جس علاقے میں واقع ہے اسے ’اوکھلا‘ کہتے ہیں۔ ’اوکھلی میں سر دینا‘ اردو کا ایک عام محاورہ ہے۔ اوکھلی میں سر دینے کا کیا انجام ہوتا ہے یہ سبھی کو معلوم ہے۔ اوکھلی از روئے قواعد اسمِ تصغیر ہے۔ (اور اسمِ مونث بھی)۔اوکھلا اسمِ مذکر ہے اور اوکھلی سے بڑا بھی ہے، چنانچہ اس میں اگر سر دیا جائے تو کیا انجام ہوگا، یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ مسعود حسین خاں نے اوکھلی (جو یہاں مضمر ہے) اور اوکھلا میں لغوی مناسبت پیدا کی ہے اور لفظ ’اوکھلا‘ میں ذو معنیت جس سے مزاح کی چاشنی پیدا ہوگئی ہے۔ (دیکھیے ’مضامینِ مسعود‘، ص 219)
.33 ایضاً ،ص219، .34 ایضاً ،ص219، .35 ایضاً ،ص221
.36 دیکھیے مسعود حسین خاں کا مضمون ’امیرِ جامعہ جسٹس ہدایت اللہ‘، مشمولہ ’مضامینِ مسعود‘، ص 218-24
.37 ایضاً ،ص218-24، .38 ایضاً ،ص223
.39 مسعود حسین خاں، ’پروفیسر عبدالقادر سروری مرحوم‘، مشمولہ ’اردو کا المیہ‘ از مسعود حسین خاں،
مرتبہ :مرزا خلیل احمد بیگ (علی گڑھ: شعبۂ لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، 1973)،ص 189
.40 ایضاً ،ص190، .41 ایضاً ،ص190، .42 ایضاً ،ص190، .43 ایضاً ،ص191
.44 ایضاً ،ص191، .45 ایضاً ،ص192-93، .46 ایضاً ،ص193
v
Mirza Khalil Ahmed Beg
Brookfield, CT, USA

سہ ماہی فکر و تحقیق
اپریل تا جون 2018

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں