میرا جی کی تنقید
ابو ذر ہاشمی
میراجی کی ادبی شخصیت دو نیم رہی ہے ۔وہ ایک ایسے عہد کا زائیدہ و پروردہ تھا، جو سیاسی، معاشی اور معاشرتی جبرسے جوجھ رہا تھا۔اس معاشرتی اور سیاسی جبر نے اردو ادب کی دنیا کو بھی اتھل پتھل کرڈالا تھا۔تغیر و تبدل ہی وقت کا مزاج ٹھہرا تھا۔مغلوں کے زوال اور انگریزوں کے اقبال نے ہندوستانیوں پرگہرا اثر ڈالاتھا ۔شکست خوردہ قوم کی اپنی نفسیات ہوا کرتی ہے۔ اس نفسیات نے اپنا کام کیا ۔ ان میں یہ احساس جاگزیں ہوگیا کہ مغرب کی یا باہر کی ہر شے افضل و برتر ہے ۔ یہ شکست خوردہ قوم کا احساسِ کم تری تھا ، جو خود اپنی ذات کی نفی کرنے پر آمادہ تھا۔ انیسویں صدی کے آخر نصف میں اس احساسِ کم تری نے شدت اختیا ر کر لی۔ سر سیدمغرب کے پرستاروں میں تھے۔ان کے زیر سایہ اردو ادب میں تغیر و تبدل کی آندھی ایسی چلی کہ ہماری ادبیات کی مستحسن روایتیں بھی دھند میں کھو کر رہ گئیں۔دھند میں کیا کھوئیں ، نظیر کے مصرعے کی تعبیر بن گئیں، ’سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے نگا جب لاد چلے گا بنجارہ‘ ۔
سر سید کے زیرِ اثر آزاد اور حالی نے بھی شاعری کے معیار کو انگریزوں کے صندوقوں میں بنددیکھا تھا۔اردو ادب کے بعض دانشوروں نے اس صندوق میں تاک جھانک بھی کی تھی۔امداد امام اثر نے مغرب کے ادب گزاروں کا جائزہ بھی لیا تھا۔اردو تنقید غالب کی شرح وتفہیم کے وسیلے سے اپنے انفرادی وجود کا اشارہ بھی دینے لگی تھی۔ نئی ملوکیت نے ذہن و فکر پر یلغار کی تھی۔ استعماریت نے نو آبادیاتی مزاج کی تشکیل اس طرح کی کہ بہت سے قلم کار مغرب کے ثنا خواں بن کر سامنے آئے۔ مخزن میں ایسے مضامین کا سلسلہ شروع ہوا۔ مقصودمغرب کے اصول شعر و نقد کو اردو قاری سے آشنا کروا رہا تھا۔ بجنوری ، عبدالطیف، مجنوں وغیرہ اپنی تنقیدی کاوشوں میں اردو ادب کو مغرب کے تناظر میں دیکھنے لگے تھے۔
میراجی بھی تغیر و تبدل کا طرف دار تھا۔ اردو شاعری کے نقطہ انحراف کے طور پر اس کی حیثیت مسلم بھی ہے ۔ مگر یہ انحراف ادبی مزاج کی سائکی میں گھل مل جانے اور جذب ہوجانے سے آج بھی گریزاں ٹھہرا۔ انجذاب سے گذرتا توشاید مدغم ہوکر اپنی انفرادیت کھو دیتا۔اس طرح اس کاذہن و فکر کشمکش سے نبرد آزما رہا۔یہی کشمکش اس کا اختصاص بھی ہے، اس کا انفراد بھی ۔اس کشمکش نے اس کی ادبی حیثیت کو دو نیم بھی رکھا ہے ۔اس کی ایک حیثیت تنقید گزار کی بھی ہے۔میراجی نے 1936 سے 1941 تک ادبی دنیا میں تواتر کے ساتھ مغرب اور مشرق کے شاعروں پر مضامین لکھے ۔ حالی و آزادکی تلاش کی ہوئی میراجی تک اس صندوق کی چابی آئی تو اس نے ایک حریص کی طرح اس صندوق کی تمام اشیا کو بکھیر کر رکھا، نہ ہی اسے اپنی دولت جانا۔ہاں ایسی چیزوں پر ضرور نظر جمائی جن میں انوکھا پن تھا اور جو ہماری آنکھوں کو خیرہ کر سکتی تھیں۔اس نے مختلف زبانوں کے ان شاعروں پر قلم اٹھایا، جو مشرق و مغرب کی دنیا میں اپنا الگ انفراد رکھتے تھے ۔ایسے مضامین جب یکجا کردیے گئے تو’ مشرق و مغرب کے نغمے‘ کی شکل میں ہمارے سامنے آئے اور اسی کے تتمے کے طور پرمضامین کا دوسرا مجموعہ ’ اس نظم میں‘ سامنے آیا۔
مشرق و مغرب کے نغمے میراجی کی ادب شناسی کی کلید بھی ہے اور مشرق ومغرب کے ادب کے مزاج کا نقیب بھی ۔ساتھ ہی اردو شاعری کی دنیا میں نظم نگاری کے فروغ کی سعی مشکور بھی۔یعنی مضمون نگار کا معہودِ ذہنی بھی۔میراجی نے ان مضامین میںیونانی،فرانسیسی،جرمنی، انگریزی، امریکی، جاپانی ، چینی ،رومانی وروسی زبانوں کے اہم شاعروں کے منتخب کلام کے ترجمے بھی پیش کیے ۔ مترجم شاہکاروں کے حسن و قبح کی توضیح کے لیے ان شاعروں پر مضامین بھی لکھے۔مغرب کے شاعروں میں یونان کی شاعرہ سیفو کم و بیش پانچ سو سال قبل مسیح کی شاعرہ ہے ۔افلاطون اورارسطو بھی اس کے قائل ہیں۔ پرانے ہندوستان کے شاعر امارو سے بھی میراجی نے ہی ہمیں متعارف کرا یا ۔اس نے صرف شاعروں پر ہی مضامین نہیں لکھے، بلکہ جہاں گرد طلبا کے گیت ، کوریا کی قدیم شاعری، گیشاؤ ں کے گیت، او رس کے نظریے سے اردو فضا کو روشناس کرایا۔
شخصیت کا انوکھا پن ، کلام کی ندرت اور اس کی موضوعیت میراجی کے انتخاب کی ترجیحات میں شامل تھیں۔ شیکسپئر، ملٹن ، برنارڈ شا، ورڈس ورتھ وغیرہ جیسے شاعروں سے اردو دنیا واقف تھی، سو میراجی ؔ ان سے در گزرے ۔انتخاب کا مسئلہ میراجی کی ذہنیت کی تفہیم میں بھی مددگار ہے۔اس بات کی تفہیم کے لیے ایک چھوٹا سا نکتہ پیشِ نظر رہے کہ نوبل انعام کے سبب ہندوستانی ادبیات میں ٹیگور پر لکھنے لکھانے یا ترجمہ کرنے کا سلسلہ 1914 سے ہی جاری ہو چکا تھا۔ ٹیگور صدی کے موقع پر اردو میں بہت سے لوگوں نے مضامین لکھے یا ترجمے کیے۔لیکن میراجی نے کم و بیش اسی زمانے میں ٹیگور کی بجائے پہلے بنگالی شاعر چنڈی داس پر لکھنا پسند کیا، کہ وہ اردو ادب میں غیر معروف تھا۔پھر یہ کہ منتخب شعرا کی شخصیت کے انوکھے پن کے رنگارپردے میں کوئی ایسی طاقت بھی چھپی بیٹھی تھی جو میراجی کواپنے انتخاب پر اکساتی تھی۔ انتخاب کے عمل میں انتخاب کرنے والے کی پسند و ناپسند کا عمل بھی ہوا کرتا ہے۔ اس عمل سے انتخاب کرنے والے کی شخصیت کے میلان کی بھی عکاسی ہوتی ہے۔ مثلاً طامس مور مختصر سے عرصے کے لیے کسی غیر جگہ گیا ، کسی خاتون سے دوچار ہوا، اور زندگی بھر آہیں بھرتا رہا۔ہائنے نے اس خاتون کا نام اپنی زبان پر نہیں آنے دیا، جس سے اسے شغف تھا۔بودلےئر ، پو، ملارمے، فرانسا ولاں ، میسی فیلڈ ، لی پو، پشکن، سب کی زندگی میں ایسا انوکھا پن شامل رہا۔بلا شبہ اس انوکھے پن میں ندرت کلام بھی شامل تھی ۔ایسے شعرا میراجی کی ترجیحات میں شامل ہوتے رہے۔ وٹمن کی ندرت پر میراجی لکھتا ہے :
’’وٹمن نے جو کچھ بھی دیکھااورسنا اسے نغموں میں سنا دیااوراس طبقۂ عوام کو جن کا نمائندہ اورمعترف وٹمن بنتا تھا، یہ غم اس لیے عجیب معلوم ہوئے کہ وہ اس سے قابل نہ تھا کہ اپنی عامیانہ اوراوسط قابلیت سے خیالات اوراعتقادات کے روایتی بندھنوں سے آزاد ہوکراپنی حقیقت کو کسی دوسرے کے منھ سے سن کرسمجھ سکے۔‘‘
(مشرق و مغرب کے نغمے صفحہ)
خیالات اور اعتقادات کے روایتی بندھنوں سے آزادی اور عجوبیت میراجی کی شخصیت کا بھی نمایاں پہلو تھا ۔سومنتخب شخصیتیں اس کی اپنے ذہن و فکر سے لاگ کھاتی تھیں۔
مشرق ومغرب کے نغمے میں شامل شاعروں پر میراجی کے تجزیے کی تفصیل پیش کی جائے تو اس کے لیے ایک دفتر چاہیے مختصراًیہ کہ میراجی نے جس زمانے میں یہ تنقیدی مضامین لکھے وہ ہندوستانیوں کے نفسی ابتلاکازمانہ تھا۔استعماریت اور نوآبادیاتی مزاج نے اس طرح اردو دنیا پر اپنا سکہ جمایا تھا کہ اپنی ذات کی نفی اور مغرب کی فکری اور ذہنی غلامی اردو ادیبوں اور قلم کاروں کا مزاج بن گیا تھا۔اردو اور فارسی شاعری انہیں فرسودہ اور غیر مہذب نظرآنے لگی تھی۔نئی فضا اور مزاج نے مغربی ادبیات کے ترجمے میں پناہ ڈھونڈھی تھی۔حالی یہ اعلان کر چکے تھے :
’’حالی چلو کہ پیرویِ مغربی کریں۔‘‘
حالی تو اس تلقین سے آگے بڑھ کر استعماری حکومت کی مدح سرائی بھی اپنی نظموں میں کرنے لگے تھے۔
حکومت نے آزادیاں دی ہیں تم کو
ترقی کی راہیں سراسر کھلی ہیں
میراجی کے عہد تک اردو شعرو ادب کی دنیا میں یہ روش چمکنے لگی تھی۔ میراجی تو اربابِ ذوق کے بنیاد گزار تھے۔سو نئی نظم کی شانہ کشی کے جتن میں لگے ہوئے تھے۔اسی شانہ کشی نے انھیں ترجموں کی طرف مائل کیا۔اور ترجموں کے ساتھ مضامین بھی لکھنے لگے۔نظریاتی ادعائیت گروہی تنظیم کے دائرے کو وسیع کر رہی تھی۔لیکن یہ ایک عجیب بات ہے کہ جب میراجی نے مغرب کے شاعروں پر مضامین لکھے تو اردو شاعری کے معیار پر نکتہ چینی سے گریزا ں رہا۔اس کا لہجہ کہیں بھی معاندانہ یا مدافعانہ نہیں ہوا۔اس کے برخلاف ان مضامین میں مشرق اور بالخصوص اردو شاعری کی روایت پورے وقار اور جمال کے ساتھ تقابل کے طور پر سامنے آتی ہے۔ہاں وہ بالواسطہ طور پر روایت کی توسیع ضرور چاہتا ہے۔وہ توطامس مور پر لکھتے ہوئے مشرق کو مغرب کی شاعری کا ایک معیار قرار دینے سے بھی نہیں چوکا۔لکھتا ہے :
جس طرح ہمارے لیے آج مغرب دورِ جدید کی تمام ارتقائی برکتوں کا تصور لیے ہوئے ہے اسی طرح آج سے ڈیرھ سو سال پیشتر ایک مغربی کے لیے مشرق کا لفظ ہی چند محدود معانی کی رنگین جمعیت کا مظہر تھا۔مشرق کا لفظ ہی سن کر اس کی نگاہِ تصور ایک ایسی خوابگوں سرزمین کا نظارہ کرتی تھی جہاں الف لیلیٰ کی شہزادیاں ہیں، پریاں ہیں ۔۔۔ اور بے شمار ایسی اشیا جن کی درخشانی جن کا شکوہ آنکھوں کو خیرہ کردیتا ہے۔
( طامس مور ، مشرق و مغرب کے نغمے صفحہ ۔ 105 )
طامس مورکو مشرق کے شاعر کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔اس نے مشرق کی داستانوں کا منظوم ترجمہ کیا۔مشرقی شاعری اور داستانیں تودنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوئیں۔ایسی ہزاروں مثالوں میں سے بس ایک کا ذکر اس لیے بھی اہم ہے کہ اس سے میراجی بھی جڑا ہے۔ سنسکرت کے ایک منظوم بیانیہ کُٹّا نَتم یا میراجی کے مطابق کُٹا مَتَم کا ترجمہ فرانسیسی زبان میں کسی نے کیا۔ فرنسیسی زبان سےE.Powes Mathers نے انگریزی میں اس کا ترجمہ Eastern Art of Love: The Lessons of a Bawd کے عنوان سے کیا ۔لندن سے 1927میں شائع ہوا۔اسی انگریزی ترجمے سے میراجی نے اسے اردو میں نگار خانہ کے عنوان سے منتقل کیا ۔ ترجمہ منثور ہے ۔لیکن یہ نہ مشرق و مغرب کے نغمے میں شامل ہے نہ ہی کلیاتِ میراجی میں ۔اس میں منٹو کا دیباچہ شامل ہے ۔حسن اتفاق سے اس کا فرانسیسی، انگریزی اور اردو ترجمہ بھی نیشنل لائبریری ، کلکتہ ،کے ذخیرے میں موجود ہے ۔ منٹونے ہمیں خبر دی ہے کہ اس میں تاجر پیشہ عورتوں کے کاروبار کے طریقے اور گُر کو تفصیل سے بیان کیا گیا۔
آمدم بر سرِ موضوع، مشرق کے ادب کی اہمیت میراجی کی نظروں میں کم تر نہیں ۔بلکہ یہ مشرق آج مغرب کی آنکھوں کو خیرہ نہ کرے ،لیکن مغرب کی بالادستی کو غذا فراہم کرنے کا وسیلہ ضروربنا ہوا ہے۔البتہ اردو تنقید کی نام نہاد دانشوری مغرب کے اگلے ہوئے نوالوں پر زندگی کرنے میں افتخار محسوس کرتی رہی ہے۔میراجی کے عہد میں تو یہ ذہنی کیفیت کچھ اور سوا تھی ۔اس کے باوجود میراجی اردوادب کو بہ نظرِ تحقیر نہیں دیکھتا۔کُٹّا نَتم کا ترجمہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی نگاہیں دھند کا پردہ چاک کرکے اصل حقیقت کو چھو سکتی تھیں۔
مشرق و مغرب کے نغمے میں میراجی کا طریق کار یہ رہا ہے کہ مغرب کے شاعروں پر گفتگو کرتے ہوئے اکثر اردو شاعروں کے حوالے پیش کرجاتا ہے۔اردو ادب چونکہ میراجی اور اس کے قاری کے لیے معروف ہے اور دوسری زبانوں کے شاعر اور ان کا کلام اردو قاری کے لیے غیر معروف، اس لیے اپنی بات کی بہتر تفہیم اور ترسیل کے لیے وہ معروف کا سہارا لیتا ہے۔اس طریقۂ کار سے انجانے اور غیر معروف ماحول کی شاعری کی تفہیم کے لیے قاری کا ذہن تیار ہوجاتا ہے ۔وہ اجنبی شاعری کو بھی اپنی شاعری کے تناظر میں دیکھنے لگتا ہے۔ پوری کتاب پڑھ جائیے کہیں بھی بوجھل پن کااحساس ہوگا نہ ہی اجنبیت کا۔میراجی کا تنقیدی ہنر ایسا مستحسن ہے جو اردو تنقیدکو ایک راہ دکھا سکتا تھا۔ یہ راہ تھی غیر معروف کے تجزیے اور تحلیل کے دوران معروف سے تقابل کی ۔افہام و تفہیم کے لیے مشرق ومغرب کے نغمے میں بار بار اردو شاعروں کے حوالے در آتے ہیں۔میر و اقبال، سودا، انشا، مومن، جان صاحب اور چرکیں نیز بہت سے دوسرے شعرا کے حوالے بھی ملتے ہیں۔بلکہ اس عصر کے بعض دیگرشعرا کے بھی۔مثلاً عظمت اللہ خاں یا اختر شیرانی کی سلمیٰ کا ذکر وغیرہ۔یہاں اس کی ایک مثال دیکھیے ۔ذکر فرانس کے شاعر بودلےئر کا ہے ۔یعنی اس بغاوت کا جس نے قدیم سے کٹ کر شاعری کے ایک نئے اسلوب کی راہ نکالی۔لیکن میراجی اس بغاوت اور نئے پن کوہمارے ذہنو ں کی قبولیت کے لیے اردو شاعری کے تاریخی تسلسل کی تمثیل بنا کر پیش کرتا ہے ۔کہتا ہے :
شعرو ادب زندگی کے ترجمان ہیں۔اس لیے ان کا بھی یہی حال ہے۔جب کبھی علمِ ادب کی باقاعدگی اور یکسانی بے مزہ اور بے رنگ ہوجاتی ہے تو اچانک کوئی بغاوت پسند شاعر نمودار ہوتا ہے اور اپنی ذہانت اور طباعی سے پہلے مروجہ طور طریقے کی کایا پلٹ دیتا ہے۔جب اردو شاعری میں لکھنوی تصنع ، روزمرہ کا جنون، رعایتِ لفظی اور اسی قبیل کی اور باتیں روحِ شعرو ادب کو بے جان کردیتی ہیں توافق پر غالب کا تخیل نمودار ہوتا ہے اور نئی باتوں کی طرف اشارے کرجاتا ہے۔اپنے زمانے میں اس کی نئی باتوں کا رواج نہیں ہوتا ۔لیکن وہ ایک پتے کی بات کہتے ہوئے چلا جاتا ہے ۔ بقدر ذوق نہیں ظرفِ تنگنائے غزل۔اور پھر حالی اورر آزاد کی آمد سے بیان کے لیے نظم کی وسعت کا رواج ہوجاتا ہے۔نیچرل شاعری اورنظم نگاری رائج تو ہوجاتی ہے۔ لیکن اس کا ابتدائی زمانہ گزرنے پرخدشہ ہوتا ہے کہ کہیں یہ نئی وسعت بھی جلد ہی محدود ہوکر نہ رہ جائے، اس خدشے کو دور کرنے کے لیے اقبال ایسی شخصیت اس دنیا میں آتی ہے۔وہ اپنی بانگِ دراسے یہ بھید بتا جاتی ہے کہ قافلے کے مسافروں کو چاہیے کہ سستانے والی منزلوں میں سے ہی کسی ایک کو آخری منزل نہ سمجھ لیں۔‘‘
( مشرق و مغرب کے نغمے صفحہ 164 -65 )
دیکھا آپ نے ذکر تو میرو غالب اور اقبال کا ہے۔لیکن مقصد تو بودلیئر کی بغاوت کو قبول کرنے کے لیے ذہنوں کو تیارکر نا ہے ۔اپنی نثر میں میراجی ایک ظالم قلم کار بن کر سامنے آتا ہے۔اس کی نثرکا اسلوب بھی ایسا نہیں کہ ہمیں الجھا لے۔ہندی الفاظ کی آمیزش کے ساتھ ایک عام بیانیہ اسلوب ،لیکن نکتے اتنے منطقی،مدلل اورپُر اثر کہ قاری بھاگ نہ سکے۔ڈھائی ہزار برسوں کو محیط، دنیا کی مختلف زبانوں کے منتخب شاعروں کا مطالعہ، بلکہ نفسی مطالعہ، لیکن کسی آؤ بھاؤ اور تبحرِ علمی کا احساس جگائے بغیر ذہن و دل میں اتر تا چلا جاتا ہے۔میراجی ہمیں ہمارے ہی حربے سے زیر کرتا ہے۔بودلےئر ، میلارمے، ہائنے اور مغرب کے دوسرے شاعروں کی بغاوت کو اردو شاعری کی راہ پر ایک مشعل کے طور پر رکھ جاتا ہے۔ مشرق کے دلدادگان نے سماج کو مغرب کے اثراتِ بد سے بچائے رکھنے کے لیے بڑے واویلے مچائے۔میراجی نے اپنی شعری تخلیقات میں مغرب کے ابہام کی پیروی پر ذہن کو جھنجھوڑا ،مگر دل کو زحمت نہ دی ۔سو اجنبیت برقرار رہی ۔مگر اس کی تنقیدی تحریریں مغرب کے بدلے ہوئے مزاج کو سمجھنے سمجھانے کی احسن کاوشیں ہیں ۔میراجی نے اپنی تنقید میں شاعروں کے زمانی حالات ، مختصر خاندانی کوائف اور اس کی زندگی کے اسلوب کے تناظر میں شاعر کو اس طرح پیش کیا ہے کہ جاننے اور پرکھنے کی طرف ذہن ہی نہیں دل بھی راغب ہو رہتا ہے۔مگر ایسے مقامات کی بہتر تفہیم کے لیے جا بہ جا اردو شاعروں کی زندگی کو بھی وسیلہ بنایا ہے۔کہتے ہیں کہ ایڈگر ایلن پو کسی کی زلفوں کا اسیرہوا اور تمام عمر ہائے ہائے کرتا رہا۔میراجی پو کی زندگی کے اس رخ کو پیش کرتا ہے کہ میر عورت کے ذکر کے بغیر، خواہ وہ عورت ہر طرح سے بے ضرر ہی کیوں نہ ہو ، قلم کو روشنائی کی زحمت نہیں دے سکتا۔میراجی کا اصل منشأ تو’ پو‘ کی عورت نوازی کی چھُپی داستان کو پیش کرنا ہے ، لیکن نام وہ میر کا لیتا ہے کہ میر کی بے دماغی بلکہ بد دماغی کا سبب بھی کوئی معشوق در غیاب تھا ، جس کا نام کبھی میر کی زبان پر نہیں آیا۔میراجی کامطمح نظر اور الفاظ دونوں پیشِ نظر رہیں ۔کہتا ہے :
’’اردو ادب کی تاریخ میں میر تقی میر کی شخصیت اور ان کا فسانۂ حیات (جس کی پنہاں گہرائیاں کم ہی لوگوں کو معلوم ہیں) اپنی المناک دل کشی کو لیے ہوئے آج بھی ہمارے دلوں کو موہ رہا ہے۔اور اگر ہم ان کی حیاتِ عاشقانہ کے کم روشن پہلو پر غور کریں تو ان کی بد دماغی کے وجہ ظاہر ہوجاتی ہے۔امریکی ادب میں بھی ایک شاعر اور ادیب کی زندگی اس افسانے سے مماثلت رکھتی ہے، لیکن یہ مشابہت محض بنیادی ہے۔امریکی ادیب میر تقی میر سے کہیں مختلف ہے۔۔۔ میر تقی میر کا فسانہ بھی ہے۔‘ (مشرق و مغرب کے نغمے صفحہ )
ایسے فسانے میر کے ہوں یا پو کے یا میلارمے اور ہائنے یا کسی اور شاعر کے ، کہ بہت سے شاعر معشوق در غیاب کے چوٹ کھائے ہوئے ہیں، سے قطعِ نظر ایک بنیادی مبحث یہاںیہ سامنے آتاہے کہ ادب گزار کی زندگی کا مطالعہ اگر اس کی ادبی کاوشوں کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے، تو اس جدید تنقیدی نظریے کا کیا بنے گا جس نے مصنف کو تو مار رکھا ہے، مگر اس کے متن کو مرکز و محور جاناہے۔تحریر اساس تنقید یا قاری اساس تنقید متن کو مصنف سے ماورأ مانتی ہے ۔ متن کے لغات بلا شبہہ اپنی توقیر چاہتے ہیں۔ ان کی تفہیم میں قاری کا علم و خبر اور اس کی نفسیات اور مزاج کی شمولیت کی وکالت بھی بجا ۔مگر ان متون کے لغات کی ترتیب اور اس ترتیب میں معنی کا تفاعل تو متن خلق کرنے والے کی نفسی کیفیات اور علم و خبر کی ہی رہین ہے ۔منشائے مصنف کو سرے سے خارج کردیا جائے تو ایسی نراجیت پیدا ہوگی کہ ہر قاری معنیٰ کا خالق ہوگا۔کسی بھی پابندی سے آزاد۔ یعنی متن کی مرکزیت بھی زد میں آئے گی۔ اس رویے کے پسِ پشت غیر شعوری طور ناقدکایہ جذبہ بھی کارفرما ہے کہ تنقید متن خلق نہیں کرسکتی ، لیکن معنی توپہنا سکتی ہے۔اس لیے وہ بھی تخلیق کی طرح اضافی حیثیت رکھنے کی بجائے بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ حالانکہ معنیٰ کے استنباط کے لیے ضروری ہے کہ متن کے متعلقات اوراس کے سباق پر بھی نظر رکھی جائے۔یعنی باخبریا صاحبِ ذوق قاری کی یہ بنیادی ذمے داری ہے کہ وہ سیاق و سباق کے تناظر متن کے توسط سے منشائے مصنف تک پہنچے اور متن کو اپنی آزاد خیالی یا علمی تبحر اور وکالت کا تابع محض نہ بنائے۔
متن اساس تنقیدمصنف سے قاری کی آزاد روی اور متن کے خالق پر حاکمیت کی ایسی خواہش ہے جو نراجیت کی طرف لے جاتی ہے اور تنقید کو تخلیق پر حاوی کردیتی ہے۔بلکہ ایسی کاوشیں اگر حدود سے تجاوز کرجائیں توقاری کوادب بیزار تو بناتی ہی ہیں، اس سے بھی آگے جاکر ادب کی موت کا اعلانیہ جاری کرنے پر مجبورکرتی ہیں ۔اس روش نے اپنی برتری کے اثبات کے لیے اردوتنقید کو درآمد کردہ نظریات کا ایساپشتارہ بنا دیا ہے کہ ادب کی پوری فضا ادھار کی دولت کی جگمگاہٹ کی اسیر ہوگئی ہے۔مگر مانگی ہوئی دولت جتنی بھی وقیع ہو قلب کی طمانیت کا سامان تو نہیں بنتی۔
متن سے معنی کے استخراج کے سلسلے میں میراجی نے بعض اہم نکتے پیش کیے ہیں۔ مصنف یا شاعر کی ذات ، اس کے حالات بلکہ اس کے عہد کے مطالعے کی ضرورت پر بلیغ اشارے ملتے ہیں ۔ وہ اس ضمن میں لکھتا ہے کہ ’کسی شاعر کی سوانح حیات اس کے کلام کے مطالعے میں اسی حد تک معاون ہوسکتے ہیں جس حد تک وہ اس کی ذہنی نشو و نما کو سمجھنے میں مدد دیں۔ذاتی حالات میں دلچسپی سے یہ نقصان دہ پہلو نکل سکتا ہے کہ ہم افسانہ پرست بن کر رفتہ رفتہ اس کے کلام کی حقیقت سے دور ہوتے جائیں گے اور پھر کلام کی صحیح جانچ میں الجھن ہوگی ‘ ۔وضعِ احتیاط تو ضروری ہے۔اس ضمن میں میراجیؔ ایک ایسا نکتہ بھی دے گیا ہے جو تنقید کے اصول میں آبِ زر سے لکھے جانے کے لائق ہے۔طامس مور کی شاعری پر رائے دیتے ہوئے لکھتا ہے :
’’میر تقی میر، غالب اوراقبال ایسے عظیم شعرا کے مطالعے کے لیے اس بات کی قطعی ضرورت نہیں ہے کہ ہم ان شاعروں کے سوانح سے واقف ہوں اور ان کے حالاتِ زندگی سے ان کی شخصیت کے بارے میں تصور قائم کرسکیں۔کیونکہ ان کا کلام ہی ان کی شخصیت اور انفرادیت کا آئینہ دار ہوتا ہے ۔لیکن انشا، داغ اور ایسے دوسرے شعرا کے کلام سے لطف اندوز ہونے کے لیے نہایت ضروری ہے کہ ہم ان کے واقعاتِ حیات کو پہلے سے جان لیں۔نہ صرف ان کے ذاتی حالات بلکہ ان کے زمانے کے حالات جاننا بھی ہمارے لیے ضروری ہوجاتا ہے۔کیونکہ ان کا کلام ان کے ماحول اور ان کے حالاتِ زندگی کا آئینہ دار ہوتا ہے۔( مشرق و مغرب کے نغمے صفحہ 106 )
زمان و مکاں سے ماورا شاعر وقت اورحالات کے جبر سے اپنی شاعری کو آزاد کرالیتے ہیں۔ان کے کلام میں آفاقیت ہوتی ہے۔اس لیے وہ زماں اور مکاں کے پابند نہیں رہ جاتے ۔لیکن میراجی اسے استثنائی قرار دیتا ہے۔متن زماں کا پابند ہو تو مصنف کا بھی پابند ہوگا اور استخراجِ معنیٰ میں قاری کے علم و فہم کی شمولیت کے باوجود بنیادی طور پرشاعر کے منشاتک پہنچانا ہی تنقید کی اصل ذمے داری ہے۔میراجی نے شاعروں کو دو گرہوں میں تقسیم کرکے اس مسئلے کا حل بھی پیش کردیا ہے ۔جدید تنقید بھی اس اصول سے رہنمائی حاصل کرسکتی ہے ۔ میراجی کے پیش کردہ ایک اور نکتے کا ذکر بھی ضروری ہے۔ وہ ہائنے پر گفتگو کرتے ہوئے ایک نکتہ پیش کرتا ہے ،جس کا تعلق اردو شاعری سے بھی ہے۔لکھتا ہے :
چونکہ محبت اور جنس اس کی نظروں میں دومختلف چیزیں تھیں اس لیے اس ( ہائنے) کے کلام میں وہ صحت اور لذتِ نفس نہ آسکی جو عرب کی ایامِ جہالت کی شاعری میں تھی، امرأ لقیس میں تھی، سنسکرت کی قدیم عشرت پرستانہ شاعری میں تھی، امارو ، میور اور دوسرے شعرا میں تھی، نواب مرزا شوق کی زہرِ عشق میں تھی۔شعرو ادب میں یہ رنگ اسی صورت میں پیدا ہوسکتا ہے جب کہ فنکار کی نظر میں جنسیت اورمحبت ایک ہی بات کے دو نام ہوں۔‘‘ ( مشرق و مغرب کے نغمے صفحہ 625 )
میراجی جب محبت اور جنس کے نفسی ادغام کی بات کرتا ہے تو در اصل وہ مشرق کے نظرےۂ حسن و عشق کو موضوع بناتا ہے۔عاشق جنس محض کا تابع ہو تو بوالہوس اور حسن کا اسیر ہو تو عاشقِ صادق۔ اگرچہ میراجی کے بیان کی تہہ میں فرائیڈین نقطہ نظر کارفرما نظر آتا ہے۔لیکن وہ بوالہوسی اور عشق کی اصطلاحوں کی بجائے محبت اور جنس کا نکتہ اٹھا کر جنس اور اس کے احساس کو محبت کا تابع کرنے پر اصرار کرتا ہے ۔ اسی وصف کی بنا پر مثنوی زہرِ عشق اور امارو وغیرہ کی عشقیہ شاعری کی اثر آفرینی کو سامنے لاتا ہے اور مشرق کی شاعری کے اس رویے کی وکالت کرتا ہے، جہاں عشق ارفع اوربوالہوسی ارزل قرارپاتی رہی ہے۔مشرق و مغرب کے نغمے میں مختلف مقامات پر ایسے نکتے بھرے پڑے ہیں۔ وہ حسنِ محض کواہمیت دینے والے شعرأ اور زندگی کے تمام مظاہر میں حسن تلاش کرنے والے شعرا میں تفریق کرتا ہے اور دونوں میں خوبی اور خامی کی طرف اشارے کرتے ہوئے کہتا ہے :
’’شاعری کے محل میں کئی ایوان ہیں ۔لیکن آسانی کے لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایوان دو ہیں۔ ایک ایوان کے شاعر بنفسہ حسنِ محض کو تلاش کرتے ہیں اور دوسرے ایوان کی رونق بڑھانے والے روزمرہ کی عام زندگی میں حسن کی جستجو کرتے ہیں۔ پہلے ایوان کے حامی یہ کہتے ہیں کہ وہی باتیں شعرأ کا موضوع سخن ہوسکتی ہیں جن میں اندرونی طور پر کلیتاً حسن موجود ہو۔ دوسرے ایوان والے کہتے ہیں کہ ذرا ذرا سی معمولی باتوں میں بھی حسن موجود ہوسکتا ہے۔ ان دونوں نظریوں کے متعلق قطعی فیصلہ نہ آج تک دیا جاسکا ہے نہ دیا جاسلے گا۔ یہ تنازع ابدی ہی رہے گا ۔
حسن پرست شعرأ کا کمال ہمارے لیے تکمیلِ فن کی ایک بلندی مہیا کرسکتا ۔ لیکن اگر وہ راستے سے ذرا بھی بھٹک جائیں تو ان کا کمالِ فن محض تکلف ہوکر رہ جائے گا۔۔۔ایک خطرہ لاحق ہوتا ہے کہ حسن محض کا نظریہ تصورو تخیل کو انسان کی دوسری قابلیتوں سے یکسر علاحدہ کردیتا ہے۔اور یوں یہ پرستش انسان کی گہری ذہنی حرکات اور مقاصد سے دور ہوجاتی ہے۔ لیکن حقیقت پرست شعرأ ان جگہوں پر بھی حسن تلاش کر لیتے ہیں جہاں کسی کو حسن کی موجودگی کا گمان بھی نہیں ہوسکتا ۔ ۔۔۔ اس طبقے کے لیے سخت مقام وہ ہے جب تصور کی باگ ذرا سی بھی ڈھیلی ہوجائے اورتخیل اور شاعری کی جگہ صنعت و حرفت لے لے۔‘‘
(میسی فیلڈ انگلستان کا ملک الشعرا، مشرق و مغرب کے نغمے صفحہ140-141)
یہ وہ سنہرے اصول ہیں جن پر تنقید نے اپنی عمارت کھڑی کی ہے۔ اس طرح میراجی تنقید کے اصول کی طرف بھی اشارے کرتا ہے۔ تنقید کی ماہیت پر گفتگو کرتا ہے۔ حالی نے ان نکتوں کی طرف اشارے ضرور کیے تھے۔ لیکن میراجی ان اولین نقادوں میں شمار ہوں گے جو تنقید کو اصول فراہم کرنے کی کاوش کرتا نظر آتا ہے۔ اس طرح یہ مضامین نظری اور عملی تنقید کے امتزاج کے قابلِ قدر نمونے ٹھہرتے ہیں۔ اس تنقید میں مشرق و مغرب کی شاعری کے ترجمے دلیل بھی فراہم کرتے ہیں ۔
تاہم یہ بڑی عجیب بات ہے کہ باریک اور وقیع نکتے پیش کرنے کے باوجود میراجی کو عام طور پر ایک نقاد کے طورپر شمار نہیں کیا جاتا۔ مشرق ومغرب کے نغمے کے یہ شذرات، جو ادبی دنیا میں شائع ہوتے رہے ،یا دوسرے مضامین ناقد کے منصب پر فائز ہونے لیے لکھے بھی نہیں گئے۔مقصد تو بس یہ تھا کہ’ زوال کی پستی ‘کی شدت کو کم کیا جائے، نئی شاعری کو بنیاد فراہم کیا جائے اور ادب کے فنی پہلو میں شعر کے متعین دائروں کو مٹا ڈالا جائے۔
میراجی نے ان متعین دائروں کے مٹانے کے لیے اردو نظموں کی تشریح و تعبیر کی ذمے داری بھی قبول کی۔ایسے مضامین پر مشتمل مضامین کا مجموعہ’اس نظم میں‘ ہے۔نظموں کے انتخاب کے بارے میں تو دیباچے میں خود میراجی نے لکھ دیاہے کہ انتخاب کے لیے معروف شاعر کی قید نہیں۔موضوع کا اچھوتا پن میراجی کا واحد معیار ہے۔اس اچھوتے پن میں سسرال میں سالے کا سلیکشن بھی اہم ٹھہرا ہے۔یعنی تشریح کی جانے والی ایک نظم کا عنوان’ برادرِ نسبتی‘ بھی ہے۔اچھوتے پن کی تلاش میں ایسی نظمیں بھی شامل کرلی گئی ہیں کہ شاعری شرمائے۔نئے موضوعات کی تلاش و ترویج کے لیے اس وقت شاید یہ ضروری رہا ہو۔البتہ یہ ضرور ہے کہ میراجی کی پارکھ نظریں جہاں کہیں بھی شاعر کی کمزوریوں تک پہنچتی ہیں ،اس کا اظہارضرور کر جاتی ہیں ۔مثلاً ان مضامین سے چند چھوٹے چھوٹے اقتباسات دیکھیں :
’’زندگی کا شاعر وہی یوسف ظفر ہے جو کبھی یونہی نظم لکھ دیتا ہے ،کبھی کسی اور طرح ، موجودہ نظم کسی اور طرح لکھی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔‘‘
’’راشد کے متعلق میں ایک اور جگہ کہہ چکا ہوں کہ اس کے سوچنے کا اندازمغربی ہے۔ شاید اسی لیے اس کی نظموں کا انداز بھی مغربی ہوتاہے ۔۔۔۔۔۔ راشد کے اس ٹکڑے سے آزاد نظم کے فنی فوائد کا اظہار بھی ہوتا ہے ۔
( مشرق و مغرب کے نغمے صفحہ187-88)
ہلکے پھلکے ایسے اعتراضات کے باوجودمیراجی کو نظم نگاروں سے ایک نوع کی ہمدردی بھی ہے۔یہ ہمدردی جدید نظم کے فروغ کی ادعائیت کی تابع ہے۔نظم کے فروغ کی ادعائیت نے کہیں کہیں میراجی سے اپنا خراج بھی و صول کیا ہے۔غزل کے کئی بلیغ اشعار کومعمولی کردکھانا اسی ادعائیت کا نتیجہ ہے۔مثلاً ایک نظم’ رس بھرے ہونٹ‘ کی تشریح کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے :
’ اردو کے شاعروں نے عورت کے اعضا کی خوبیوں کو جتایا ہے تو عموماً سراپا بیان کیا ہے اور اگر کبھی کسی حصۂ جسم کی تعریف کی ہے تو کسی نفسی کیفیت کو بیان کرنے کی کوشش نہیں کی ہے‘ اس تعریف میں ناظر کے احساساتی ردِ عمل کو کم ہی دخل رہا ہے۔ میر تقی میر نے لکھا ہے :
میر ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
لیکن یہ نہیں لکھا کہ اس مستی کا میر تقی میر کے ذہن پر کیا اثر ہوا۔دوسرے لفظوں میں یہ کہیے کہ شاعر کا ذہن نیم باز آنکھوں سے ماورا نہیں جا سکا۔اور یوں شعر محض بیانیہ ہو کررہ گیا۔اسی طرح کیفیت اس کے لب کی کیا کہیے، پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے‘ یہاں بھی وہی عالم ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہوکہ تشبیہ اور استعارے کے تصورات سے جو کام مغربی خصوصاً فرانسیسی اور جرمنی شعرا نے لیا، اس سے ہمارے شاعر واقف نہ تھے۔ دوسرے ان اشعار سے شاید بالواسطہ اثر پیدا کرنا مقصود ہے۔‘‘
(اس نظم میں صفحہ)
’بالواسطہ اثر پیدا کرنا مقصود ہے‘ کہہ کر میراجی نے اپنے شعور کی پردہ داری کی کوشش کی ہے، کہ اسے شعر کی خوبی کااحساس تو ہے ، لیکن اسے کم کرکے نہ دکھا یا جائے تونظم گوئی کی وکالت کس طرح کی جائے ۔ اول تو یہاں میراجی کا یہ بیان ہی محل نظر ہے کہ’ شاعر کا ذہن نیم باز آنکھوں سے ماورأ نہیں جا سکا ا ور یوں شعر محض بیانیہ ہو کر رہ گیا‘۔ یا یہ کہ’ میر کے شعر کامقصود آنکھ کی خوبی بیان کرنا ہے۔‘ غور کرنے کا نکتہ یہ ہے کہ آنکھوں کی نیم بازی کا مشاہدہ دور سے ممکن نہیں۔قرب یا وصل کا بیانیہ شعر میں غیر ملفوظی طور پر شامل ہے۔قرب ہے، وصل ہے اور اس کے نتیجے میں آنکھیں ’نیم باز‘ ہوئی ہیں۔نیم باز آنکھیں معشوق کی آنکھوں کے حسن کا خارجی بیان نہیں ۔اس کے پیچھے جذبے اور احساس کا سمندر موجزن ہے۔یہ تو تشنگی کے جذبے کی تسکین اور قرب کے نشے کی کیفیت کا استعارہ ہے ۔یہ ’حصۂ جسم کی تعریف نہیں،خالص نفسی کیفیت کا’ استعاراتی بیان‘ ہے ۔اس تعریف میں ناظر کا احساساتی ردِ عمل بھر پور طور پر شامل ہے۔میرؔ کے یہاں آنکھوں کی نیم بازی اور شراب کی سی مستی جس فسانے تک لے جاتی ہے وہ وصل کا استعاراتی بیانیہ ہے ۔یہ وصل دو جسموں کا ملاپ نہیں زندگی کی کامیابی اور کامرانی کی آرزو مندی کا اظہاریہ بھی ہے ۔قرب و وصل آرزو کی تکمیل ہے، وجود کی تکمیل ہے۔اور ایجاز بیانی دیکھیے کہ پورا بیانیہ بس بارہ الفاظ میں سما گیا۔غزل کے اعجازِ سخن کے اسی کمال نے اس شعر کوتشنگی کی تکمیل کی زنبیل بنا رکھا ہے ۔اب اس شعر کا تقابل رس بھر ے ہونٹ سے کیجیے ۔یہ تقابل تو ممکن ہی نہیں ۔رس بھرے ہونٹ ، کی تشبیہ کے لیے ’پھول سے ہلکے‘ ، ’بلورکی صراحی‘ ، ’بادۂ آتشیں‘ ، ’نرگس کے پھول‘ ، ’شبنم کا ارغواں قطرہ‘ تک شاعرکا ذہن گیا۔اس کے لیے سات مصرعے صَرف کیے گئے۔ پھریہ بھی دیکھیے کہ پھول اور صراحی ،بادۂ آتشیں اور شبنم جیسے متضادتصورات کے حامل ہیں۔ان سات مصرعوں میں نہ تو لفظوں کی رعایت کا خیال رکھا جا سکا نہ ہی تصورات کی وحدت قائم ہوسکی ۔ ایسے میں کیفیت کیا خلق ہوگی۔ میراجی کی نظر ان متناقضات پر نہیں ٹھہری ۔ بلکہ اسے شاعرکی ذہنی کیفیت تسلیم کرلیا ، لیکن شراب کی مستی میں انھیں شاعر کی ذہنی کیفیت کی بجائے محض آنکھ کا بیان نظر آتا ہے۔نظم میں اس کے بعد کے چھ مصرعوں کو ’ کار آمد‘ نہیں مانتے۔ان کی توجہ نظم کے دوسرے تلازمے پرجاتی ہے جہاں رات دن کا تھکا ہوا راہی ان حالتوں کو دیکھ رہا ہے۔اس تھکے ہوئے راہی کی قلب کی آرزو نگاہی میں دھوکہ اور سراب لپک اٹھتے ہیں اور وہ رس بھرے ہونٹ دیکھ کر ’ یوں ترستے اور یوں لرزتے ہیں ‘ کہ اس لرزش اور ترسنے کو میراجی راہی کی کیفیت مانتاہے۔حالانکہ یہ تو نارسائی کے معمول کا بیان ہے ۔پھر یہ تحدید بھی دیکھیے کہ رس بھرے ہونٹ میں اگر کوئی کیفیت ہے بھی تو وہ صرف تھکے ہوئے راہی کے لیے ہے، جبکہ میر کی شراب کی سی مستی میں ہر وہ شخص شامل ہورہتا ہے ، جسے وصل کا تجربہ ہے اور اگر تجربہ نہیں بھی ہے تو اس کی آرزو مندی ہے ۔
میراجی کا یہ بیان بھی اصولی طور پر محلِ نظر ہے کہ ’تشبیہ اور استعارے کے تصورات سے جو کام مغربی، خصوصاً فرانسیسی اور جرمنی شعرا نے لیا، اس سے ہمارے شاعر واقف نہ تھے۔‘ یہاں ایک بڑا سوال یہ آن کھڑا ہوتا ہے کہ کیا واقعی تشبیہ اور استعارے کے تصورات کا تفاعل واقفیتِ محض کا پابند ہوا کرتا ہے، یا اس میں شعوروا درا ک کا کوئی خود کارعمل بھی شامل ہوتا ہے۔استعارہ سازی کا عمل عمارت سازی کے مماثل ہوتا تو واقفیت اور جانکاری کا عمل اس کا بنیادی جوہر ٹھہرتا۔لیکن شاعری تو ظاہر کے پسِ پردہ غیاب میں موجود اصل جوہر تک رسائی اور اس کے اظہار کا ایک وسیلہ ہے۔غیاب تک رسائی صرف علم و خبر کی رہین نہیں،یہ تو تہذیبی و معاشرتی عوامل سے مملو حالات اور وجدانی و روحانی تصرفات کی پابندہوا کرتی ہے۔تہذیبی اور معاشرتی عوامل کے نتیجے میں وقوع پذیر ہونے والی کشمکش اظہار کے سانچوں کو متاثر بھی کرتی ہے اور تشبیہات و استعارات اور علامتوں کا نظام بھی تیار کرتی ہے۔اس لیے ایک مخصوص خطۂ ارض اور الگ الگ زبانوں کے تشبیہات و استعارات اور ان کے وضع کرنے کا سلیقہ بھی الگ ہوگا۔یہی سبب ہے کہ ہر زبان کی تخلیقی چٹائی اپنے مخصوص نہج اور مخصوص جواہر کی اسیررہا کرتی ہے۔ہاں یہ بھی ہے کہ وہ کسی بیرونی چٹائی سے کسی قدر متاثربھی ہو ، لیکن مستعارہرگز نہیں ہوسکتی۔ہاں یہ لفظ اور اس کے مزاج پر حاوی ہونے کا عمل استعارہ سازی میں مدد گار ضرور ہو سکتا ہے ۔عرضِ مدعا یہ کہ استعارے اور علامتیں ایک خود کار تحت ا لشعوری نظام کے تحت وجود پذیر ہوتی ہیں ۔اسے کسی میکانکی عمل کا پابند نہیں کیا جاسکتا ۔یہی سبب ہے کہ ہماری معتبر اور قائم بالذات شاعری کے استعارات اور تشبیہات کی معنوی تہداریاں آج بھی متاثر کرتی ہیں۔وہ مانگے کی ہوتیں تو یہ کشش کھوبیٹھتیں۔میراجی کا یہ بیان بس sub altern فکر کا زائیدہ ہے۔
’اس نظم میں‘ فیض کی ایک نظم’ انتباہ‘ کا تجزیہ بھی شامل ہے ۔اس میں شامل مصرعے ’آہن گر کی دکاں میں ‘ کو میراجی ایک حقیقی آہن گر کی دکان سمجھ کر اپنی تشریح میں لکھتا ہے :
’ شاعر دکان پر بنتی ہوئی زنجیروں کودیکھتا ہے۔ایک نہایت معمولی سا واقعہ۔لیکن شاعر محبِ وطن بھی ہے ان بنتی ہوئی زنجیروں کو دیکھ کراس کا تخیل اس سے کہتا کہ یہ پابند کرنے والی چیزیں وطن کے کسی مجاہد کے لیے تیارہورہی ہیں اورتصورمیں اس کے سامنے وہ مجاہد آجاتا ہے اور وہ مجاہد کو للکارتا ہے کہ جب تک تو آزاد ہے سچ زندہ ہے تیری گرفتاری تیری ن۔‘‘ (اس نظم میں ،صفحہ۔33 )
یہاں بھی دیکھیے کہ پچھلے مضمون میں اپنے مفروضہ’نفسی کیفیت‘ کے اطلاق کی بجائے اس نظم کی لفظیات کو ایک بیانیہ کا پابند کرنے پر آمادہ نظر آتا ہے۔یہاں میراجی کو ترقی پسند تنقید کے افادیت پسند نقطۂ نظر کا حامی شمار کیا جا سکتاہے۔نظم کی لفظیات میں شامل فنی درو بست اورکیفیت آفرینی کی ماہیت پر کوئی گفتگو نہیں کرتا۔ایسا اس لیے ہے کہ اس کا بنیادی منشأ نظم کی ہیئت کو فروغ دینے کا ہے۔ شاعری کے حسن و قبح سے گفتگو بنیادی موضوع نہیں۔
’اس نظم میں‘ کے دیگر مضامین بھی اسی انداز کے ہیں ۔ نئی نظموں کی شرح و تعبیر پیش کرنے والے یہ مضامین غیر معمولی تو نہیں، لیکن اپنی طرح کے اولین مضامین ہیں۔اپنے وقت میں کمزور اور ناکام شاعروں کو بھی اس سے حوصلہ ملا ہوگا۔مقصد بھی یہی تھا، نظم گوئی کو فروغ دینا۔ میرا جی تو وہ قلم کار تھا جس نے بحیثیت مدیر حسن عسکری کی کہانی اشاعت کے لیے منتخب کرلی تو عسکری برسوں سرشار رہے ۔ سو اگر میراجی نے کسی کی نظم کی تشریح کردی تو اس سے نظم گوئی کو فروغ ملنا ضروری تھا، اور ملا بھی۔لیکن ان مضامین کو اپنے عہد میں جو کام کرنا تھے وہ کر چکے۔آج ساٹھ پیسٹھ برسوں بعداس نظم کے مضامین کی حیثیت بس تاریخی حوالے کی ہے، یا نظم کی تشریح و تعبیر یا تجزیے کے اولین نقوش کی ۔ہاں مشرق و مغرب کے نغمے کے مضامین آج بھی مقتدر ہیں ۔معلومات کی فراہمی کے اعتبار سے بھی،تنقید و تشریح کے معیار کے اعتبار سے بھی۔ساتھ ہی مغرب کی شاعری کے تراجم کے اعتبار سے بھی اوراردو ادب میں تعینِ قدر کے معیار کے اعتبار سے بھی ۔
میراجی کی تنقید کی ایک اور اہمیت ہے۔مشرق و مغرب کے نغمے کے مضامین شاعر میراجی کا شناس نامہ بھی ہیں۔میراجی کی ذہنی اور فکری تربیت بلکہ طرزِ زندگی اورشعری اسلوب کی تشکیل میں مطالعات کے یہ پہلوشعوری یا غیر شعوری طور پرپسِ پشت کار فرما رہے ہیں ۔مثلا دو ایک چھوٹے چھوٹے نکتوں پر نظر کریں ۔میراجی کا کہنا ہے کہ پو کی شخصیت دوہری رہی ہے۔وٹمن نے کسی دور دیش میں ایک خاتون سے شادی کرلی اور زندگی بھر اس کے تصور سے تکلیف دہ حد تک وابستہ رہا۔یا پھر پو اپنی بیوی کا عاشق توتھا، لیکن جسمانی ملاپ کی آرزو مندی سے خالی۔’وہ شعر میں کنایتی فضا اور دھندلکے کا حامی تھا۔ہائنے اور میلارمے کی شاعری کا حسن اس کا ابہام ہے ۔اب ان نکات کو میراجی کی زندگی کے کوائف اور اس کے خلقی رجحانات پر منطبق کریں ۔نتیجہ شاید وہی نکلے گا جو میراجی نے ان شاعروں کے مطالعے کے بعد نکالا ہے ۔مثلا یہ کہ میراجی کے نفس کا ’جاتری‘ اپنی ہتھیلیوں پہ امرت کی بوندوں کو ٹمٹماتا دیا بناتا رہا اور میراجی امرت کی مشت بندی میں مصروف رہا۔اس طرح ایک نکتہ یہ سامنے آتا ہے کہ میراجی کی تنقید اردو ادبیات کی روحانیت کی تفسیر و تعبیر کی بجائے ، انسان کی نفسی بلکہ جنسی خواہش کے کیف و سرورکی دنیا کو اپنی جولان گاہ بناتی ہے۔
لکھنے کو میراجی نے یہ بھی لکھ دیا کہ’ محرکات اور غماز اشارات اس قسم کے ہونے چاہئیں جو ہمارے ذہنی دائرۂ گرفت میں آسکیں۔‘لیکن تنقید میں دوسرے شاعروں کے افکارو خیالات کی پردہ دری کرنے والے اس قلم کار نے اپنے تخلیقی محرکات اور غماز اشاروں پر دبیز چادر ڈال دی ۔اس کے تنقیدی رویے اور اس کی شاعری کے فکر ی اور حسی رویے میں بنیادی فرق نظر آتاہے۔اس کی کلید بھی میراجی کی تنقید میں چھپی ہے۔ میراجی نے ایک جگہ لکھاہے کہ’پو شعر میں کنایتی فضا اور دھندلکے کا حامی تھا۔وہ شاعر ی کو دواوردو چار قسم کی چیز نہیں سمجھتا تھا۔‘ نیز یہ کہ ’پو کی شخصیت دوہری رہی ہے‘۔شاعری دو اور دو چار قسم کی چیز تو ہے بھی نہیں ۔یہ کوئی ایسی در یافت بھی نہیں، جس کے لیے میراجی یا پو کو شاباشی دی جائے۔لیکن یہ ضرور ہے کہ پو کی شخصیت کا مطالعہ میراجی کواپنے دام میں اسیر رکھتا ہے۔
میراجی کی تنقید اور شاعری میں دو الگ شخصیتیں نظر آتی ہیں۔جب وہ تنقیدلکھتا ہے تو ارضِ مشرق کے قدیم شعری رویے کا وکیل اور شارح بھی نظر آتا ہے۔وہاں وہ کسی مرعوبیت کا شکار نہیں ٹھہرتا، لیکن اپنی شاعری میں وہ زندگی اوراس کی معاشرت کے انعکاس کی بجائے مغرب کے شعری رویوں اور طرزِ اظہار کا گرویدہ اور مطیع ٹھہرتا ہے۔اس طرح شعور کی سطح پر وہ اپنے ارض کا گرویدہ نظرآتا ہے، لیکن لاشعورکی سطح پر ادب کی راہ کا ایک مطیع اور ہارے ہوئے راہی کے طور پر سامنے آتا ہے ۔ہمیں یہ کہتے ہوئے اس بات کا اچھی طرح احساس ہے کہ بعض جید نقاد اسے ہماری نادانی ، بلکہ قدرنا شناسی مانیں گے۔ لیکن ان کی قدر دانی اور بھر پور ستائش کے باوجود میراجی کی شاعری اب تک ہماری شعری روایت میں گڑ نہیں سکی ۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنی تنقید میں وہ جتنا واضح اور دو ٹوک ہے اپنی شاعری میں اتنا ہی مبہم اوران رعایات وخصوصیات سے عاری بھی جن کی وکالت اس نے اپنے مضامین میں کی ہے۔ اس کی شاعری اور تنقید میں دوئی ہے۔ یہ وقت کے اس دوراہے کا اعلامیہ بھی ہے ،جس پر میراجی کھڑا تھا۔ایک ایسا دوراہا جہاں اردوتنقید کے اکثر مفکروں نے ارض کی فطرت اور اس کی نمو کی خصوصیت کو دیکھنے سے اجتناب برتا تھا ۔یا پھر اس سے قاصر رہے تھے کہ ملوکیت کا قصیدہ پڑھنا وقت کی ضرورت تھی۔اس طرح انھوں نے اپنے قومی اختصاص اوراپنی اجتماعی شخصیت بھی ہار دی تھی۔نئے زمانے (ملوکیت اور حکومت) کو خراج اس طرح ادا کیا تھا کہ اپنی خودی کی بھی نفی کردی تھی ۔ لیکن میراجی اس دوراہے پرکھڑے ہوکر ہمیں ہمارے ہونے کا احساس بھی دلاتاہے ۔ اس ارض کا، اس کے ماضی کا ، اس کے ادب کا وکیل بھی نظر آتا ہے۔تاہم وہی میراجی اپنے تخلیقی لمحوں میں مغرب کی ابہام پرستی کا اسیر بلکہ شکار بھی ٹھہرتا ہے۔ اس کی ادبی شخصیت کشمکش اور تضاد کا واضح شکار نظر آتی ہے۔یہ تضاد اس لیے بھی ہے کہ میراجی کی شخصیت ہندوستانی قومیت کے دو نیم تشخص کا استعارہ ہے۔اس کی تفہیم کے لیے بھی میراجی کی تنقید کا مطالعہ ضروری ہے۔اس طرح میراجی کی تنقیداس کی تخلیقی کاوشوں کی تشریح و تعبیر کا ایک وسیلہ بھی ٹھہرتی ہے اور اس ضرورت کو سوا کرتی ہے کہ اردو کے مقتدر ادارے میں سے کوئی مشرق و مغرب کے نغمیکو قاری کے سامنے پھر سے لائے ۔قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کو اس کا پہلا استحقاق بھی ہے اور یہ اس کی ذمے داری بھی ہے۔
v
Abuzar Hashmi
2nd Floor, 8B, Ekbalpur Lane,
Kokata-700 023
Mob. 9330057962
اگر آپ رسالے کا آن لائن مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے لنک پر کلک کیجیے:۔
قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں