2/7/18

اردو افسانے میں پانی کی قلت کا مسئلہ۔ مضمون نگار سید احمد قادری




اردو افسانے میں پانی کی قلّت کا مسئلہ
سید احمد قادری

پانی کی قلّت کامسئلہ، اب مقامی کے بجائے بین الاقوامی مسئلہ بن چکاہے۔ پانی، جوقدرت کاانمول تحفہ اور بیش بہاخزانہ ہے،جونہ صرف انسانی زندگی بلکہ حیوانات و نباتات تک کے لیے بھی نعمت سے کم نہیں ہے، یعنی ہر جاندار کی زندگی کاانحصارپانی پرہے، اس ضمن میں ہندی زبان کا بڑا ہی خوبصورت سلوگن سننے کو عام طور پر ملتا ہے کہ ’ جل ہی جیون ہے‘۔پھر بھی اس کا استعمال (جہاں موجود ہے) بہت بے دردی کے ساتھ کیا جاتاہے۔ ہم کسی کی دی گئی اس پیشن گوئی پر بھی توجہ نہیں دے رہے ہیں کہ تیسری جنگ اگر ہوئی، تو وہ پانی کے لیے ہوگی۔ ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ پانی زندگی کی اہم ضرورت ہی نہیں بلکہ یہ ہماری سماجی وراثت بھی ہے جس کے بحران نے ہماری انسانیت اورسماجیت کے درمیان بھی بحران پیداکردیا ہے۔ ماحولیات اورانسان کے درمیان کے آپسی رشتے کوبھی عصری مادّی ترقی اور صارفیت نے شدت سے متاثر کیاہے۔ ماحولیات کو نظرانداز کیے جانے کاہی یہ انجام سامنے آرہاہے کہ زمین کی تپش بڑھتی جارہی ہے اورپانی ہماری پہنچ سے دور بہت دور بھاگتا جارہا ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گز را ہے کہ دیکھنے والوں نے دیکھاہے کہ پہلے ہر شہر، گاؤں اور قصبوں میں کنواں، پوکھر، تالاب اورندیاں ہواکرتی تھیں جس کے وجود کو دھیرے دھیرے ختم کرکے ان پربڑی بڑی عمارتیں تعمیر کردی گئی ہیں۔ جوندیاں بچ رہی ہیں، ان میں اتنے کوڑے کرکٹ، غلاظت،سیوریج،کل کارخانوں سے نکلنے والے تیزاب اوردیگر اشیاء ڈالی جارہی ہیں کہ ان ندیوں کاپانی نہ صرف آلودہ اورکثافت بھرا ہے،بلکہ یہ ندیاں، دن بہ دن سطح آب کو کھوتے ہوئے اپنے وجود کوبھی ختم کرتی جارہی ہیں۔ ایسے حالات میں پانی کی قلت کا ہونا لازمی ہے اورجب ہمارے سماج میں کوئی قلت سامنے آتی ہے توہمارے سماج کے سوداگر ایسی قلت کواپنی تجارتی منفعت کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت دنیاکے بیشتر حصوں میں بندبوتل پانی، جسے منرل واٹر کا نام دیاگیاہے، وہ عام ہے اوراس کاروبار سے، عالمی بینک کے ایک اندازے کے مطابق آج دنیا بھرمیں پانی کی فراہمی کاسالانہ کاروبار ایک کھرب ڈالرکے قریب پہنچ چکاہے جوبلاشبہ عہد حاضر میں دنیاکاسب سے بڑا تجارتی کاروبار بن چکاہے۔ 
پانی کی قلت کے بڑھتے عالمی مسئلہ کے مد نظر اس کے تدارک کے لیے اقوام متحدہ نے 22؍مارچ 1993 سے ہرسال 22؍مارچ کو’عالمی یوم آب‘کے نام سے منسوب کیاہے تاکہ زندگی سے جڑے اس اہم مسئلے پر غوروفکر اور تدارک کے لیے لائحہ عمل تیارکیاجائے لیکن افسوسناک پہلویہ ہے کہ پانی کے سوداگر وں نے امیروں کے لیے منرل واٹر مہیاکراکر اس مسئلے کوغریبوں تک محدود کردیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ غریب لوگ اپنی ضروریات زندگی کے لیے کوسوں دورسے پانی لانے یا پھرگندے پانی پینے پرمجبور ہیں۔جس کے باعث شرح اموات میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے۔غریب لوگ شہروں میں پوری پوری رات سرکاری نلوں میں پانی کے آنے کے انتظارمیں بیٹھے رہتے ہیں، اور بیشتر جگہوں پرپانی کے سوداگروں کے جب پانی سے بھرے، ٹینکرمحلوں اورقصبوں میں پہنچتے ہیں اوراس وقت جس طرح پانی کے حصول کے لیے مرد، عورتوں اور بچوں کے درمیان آپادھاپی مچتی ہے اور ماراماری ہوتی ہے،وہ نظارہ یقینی طور پر شرمسار کر دینے والا ہوتا ہے کہ انسان اپنی بے حد بنیادی ضرورت کے لیے کس طرح ایک دوسرے سے پانی جھپٹ لینا چاہتا ہے۔ پانی کے حصول کے لیے ہونے والے جھگڑوں میں اب تک کئی اموات بھی ہو چکی ہیں۔
پانی کی قلت سے نبرد آزما اس اہم اور بہت ہی نازک انسانی مسئلے کی عکاسی اردوادب میں بھی بڑے ہی مؤثر اندازمیں کی گئی ہے۔ ادب سماج کا آئینہ ہوتا ہے، اس لیے اس مسئلے کا فنکارانہ اظہار ادب خصوصا اردو افسانہ میں بھی کیا گیا ہے۔ اس وقت چونکہ میراموضوع اردوافسانوں میں پانی کی قلّت کامسئلہ ہے،اس لیے میں افسانوں کے حوالے سے ہی گفتگو کروں گا۔ 
پانی کے مسئلے کوہمارے بہت سارے اردوکے افسانہ نگاروں نے مختلف عنوانات اورجہات سے پیش کیاہے۔ مثلاً پانی کے مسئلے کوہم آج اس شدت سے محسوس کررہے ہیں، لیکن ہمارے اردوافسانے کے امام پریم چندنے پیاس کی شدت اور قلّت کواب سے کئی دہائیوں قبل دیکھا، سمجھااور محسوس کیاتھا،جو آج بھی اسی شد و مد کے ساتھ موجود ہے۔ اس ضمن میں پریم چندکے افسانہ ’ٹھاکر کاکنواں‘ کا ذکر کرناچاہوں گا، جس میں قدرت کے انمول خزانہ پانی پرکس طرح بڑی ذات کے لوگوں نے پہر ے بٹھارکھے ہیں، یہاں تک کہ چھوٹی ذات کے لیے مخصوص کنواں میں کوئی جانور گرکرمر گیاہے اور اس کی سڑاندھ سے پانی آلودہ ہے اور بدبودے رہا ہے توبھی گاؤں کی چھوٹی ذات کے بیمار شخص جوکھو کو بڑی ذات کے لیے مخصوص کنواں سے پانی لینے کی اجازت نہیں۔بیمار جوکھوکی پیاس کی شدت اوراس کی بیوی گنگی کی تڑپ کوپریم چندنے اپنے اس افسانے میں اس کرب کے ساتھ پیش کیاہے۔ 
’’جوکھونے لوٹامنہ سے لگایاتوپانی میں سخت بدبو آئی۔ گنگی سے بولا.....
یہ کیسا پانی ہے ؟ مارے باس کے پیا نہیں جاتا۔ گلاسوکھاجارہاہے اورتوسڑاہواپانی پلائے دیتی ہے‘‘۔ 
(افسانہ ’ ٹھاکر کا کنواں‘)
گھرمیں پانی ہے نہیں،جوکھوکی بیوی گنگی نے اس پانی کوپینے سے منع کیاکہ سڑاپانی پینے سے بیماری بڑھ جائے گی۔وہ مضطرب نظرآتی ہے اوررات گئے بڑی خاموشی سے ہمت جٹاکرچپکے چپکے ٹھاکرکے کنواں کے قریب جاتی ہے۔ دھیرے دھیرے کنواں میں ڈول ڈالتی ہے، آہستہ آہستہ ڈول کورسّی کے سہارے اوپر لاتی ہے، پانی سے بھراڈول اب بس اس کے ہاتھ میںآیاہی چاہتا ہے کہ ٹھاکرکاآدمی باہر نکلتاہے،کچھ آواز سن کر،تیز آواز میں پوچھتاہے، ’’کون ہے‘‘اورمارے خوف سے گنگی کے ہاتھ سے پانی سے بھرے ڈول کی رسّی چھوٹ جاتی ہے اورپانی سمیٹ ڈال کنواں میں ڈوب جاتاہے۔ گنگی کسی طرح بھاگ کر اوراپنی جان بچاکر گھرپہنچتی ہے تودیکھتی ہے کہ ۔۔۔
’’جوکھولوٹا منہ سے لگائے وہی میلاگندہ پانی پی رہاتھا۔‘‘ 
پانی کے لیے غیرمنصفانہ اورغیرانسانی سلوک کوپریم چند نے اس افسانہ میں جس طرح غیر معمولی فنّی کمال کا مظاہرہ کرتے ہوئے ، گاؤں کے ایک غریب اور بیمار شخص کا صاف پانی کے لیے تڑپ اور بے بسی کے احساسات و جذبات کی ترجمانی کی ہے، اسے پڑھ کر قاری بے اختیار تڑپ اٹھتاہے۔
پانی پر بٹھائے گئے پہرے اور جبروظلم کافسانہ پریم چندکے عہدسے لے کر عصر حاضر تک کے افسانہ نگاروں کاموضوع اسی کیفیت اور تخلیقی حُسن کے ساتھ برقرار ہے۔ معروف افسانہ نگارابواللیث جاوید کے افسانہ ’پانی ‘ کایہ حصہ ملاحظہ کریں : ......
’’بستی کے کسی بھی کنویں یاہینڈ پمپ سے ہمیں پانی لینے کی اجازت نہیں تھی، کیونکہ ہم اچھوت تھے۔ ہم گاؤ ں کے پورب جانب دومیل کے فاصلے پربہنے والی ایک چھوٹی سی برساتی ندی سے پانی لاتے تھے۔ برسات میں توپانی آسانی سے مل جاتا تھامگر اوردنوں میں ندی کی ریت میں دس بارہ فٹ گڑھا کرنے کے بعدجوتھوڑاپانی ملتا، وہی ہم دلتوں کی پیاس بجھاتاتھا ۔۔۔۔۔۔‘‘( افسانہ ’پانی‘)
ابواللیث جاوید نے اپنے اس افسانہ میں پانی پر امیروں اور اونچی ذات کے لوگوں کے ذریعے غریبوں پربٹھالیے گئے پہروں کے ساتھ ساتھ گاؤں میں پانی کے بڑھتے مشکل حالات کی بڑی سچی عکاسی کی ہے۔
پانی کی قلّت کے مسئلے کوموضوع بناکر نامورافسانہ نگارکرشن چندر نے بھی ایک بے حداہم افسانہ ’پانی کا درخت ‘ کے عنوان سے لکھاہے جس میں انھوں نے اپنے ایک گاؤں کی سوکھتی ندی اوربڑھتی تپش سے ہانپتی زمین کامنظر نامہ اس طرح پیش کیاہے : 
’’ہمارے گاؤں میں پانی بہت کم ہے،جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے، میں نے اپنے گاؤں کے آسمان کوتپتے ہوئے پایاہے۔یہاں کی زمین کوہانپتے ہوئے دیکھاہے اورگاؤں والوں کے محنت کرنے والے ہاتھوں اورچہروں پر ایک ایسی ترسی ہوئی بھوری چمک دیکھی ہے،جوصدیوں کی ناآسودہ پیاس سے پیداہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔‘‘ 
’’مجھے یاد ہے ہماری رویل ندی سال میں صرف چھ مہینے بہتی تھی، چھ مہینے کے لیے سوکھ جاتی۔جب چیت کامہینہ جانے لگتا توندی سوکھناشروع ہوجاتی اورجب بیساکھ ختم ہونے لگتاتوبالکل سوکھ جاتی اورپھر اس کی تہہ پرکہیں کہیں چھوٹے چھوٹے نیلے پتھر رہ جاتے یانرم نرم کیچڑ ۔۔۔۔۔۔‘‘(افسانہ’پانی کا درخت‘)
اس افسانہ میں راوی اپنے گاؤں کی سوکھتی ندی کے باعث بڑھتی پیاس کی شدت سے ہروقت ہرلمحہ فکرمند اورمضطرب رہتا ہے۔ اس کے دل ودماغ میں ہرپل اس مسئلے کے تدارک کے لیے آندھیاں سی چلتی رہتی ہیں،کہ ایک شب وہ خواب دیکھتاہے کہ گاؤں کے مرکزمیں ایک بہت بڑا درخت کھڑا ہے یہ درخت سارے کاسار اپانی کاہے۔اس کی جڑیں، شاخیں، پھل، پھول، پتیاں سب کی سب پانی کی ہیں اور اس درخت کی شاخوں سے بھی پانی ابل رہاہے اوریہ پانی گاؤں کی بنجر زمین کوسیراب کررہاہے۔ 
جب خواب سے بیدار ہوتاہے تووہ اپنے اندربے پناہ انبساط اورخوشی محسوس کرتاہے اوراپنی اس خوشی میں شامل کرنے کے لیے وہ اپنے اباسے اس خواب کوبیان کرتاہے۔ لیکن اباجہاندیدہ شخص ہیں،وہ پوراخواب سننے کے بعد کہتے ہیں۔
’’اس خواب کاچرچا کرکے اس سے کچھ نہیں ہوگا۔سوکھی ندی ہمیشہ سوکھی رہے گی اورپیاسے سداپیاسے رہیں گے۔‘‘ (افسانہ’پانی کا درخت‘)
کرشن چندر نے اپنے اس افسانہ میں جس مخصوص لب ولہجہ اور منفرد اسلوب میں گاؤں کے لوگوں کی پیاس کی شدّت کوجگایاہے اور ایک خواب کے ذریعہ مختلف تشبیہات اور استعارے کے ساتھ بے بسی اور پیاس کو بجھانے کی کوشش کی ہے،وہ کرشن چندر کواس خاص مسئلہ کی پیش کش میں ایک خاص مقام عطاکرتاہے۔ 
لوگوں کی بڑھتی پیاس کوکس طرح صارفیت،اپنی گرفت میں لیتی ہے،اس کابڑاہی مؤثر اظہار خدیجہ مستور کے افسانہ ’ہینڈ پمپ‘ میں دیکھنے کوملتاہے۔ اپنے اس افسانہ ’ہینڈپمپ‘ میں خدیجہ مستورنے دکھایاہے کہ ایک غریب خاتون اپنی بے بس زندگی گزارنے کے لیے ایک امیرگھرمیں ملازمہ کے طورپر کام کرتی ہے،لیکن جب اس گھرمیں،اس غربت زدہ عورت کی ضرورت نہیں رہتی ہے تواس کی تمام پریشانیوں اوربے بسی کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے ملازمت سے ہٹادیا جاتا ہے۔ جس کے بعداس غریب عورت کے سامنے زندگی گزارنے کے تمام راستے مسدود نظرآتے ہیں۔ وہ جسمانی طورپر نہایت نحیف اورناتواں ہوچکی ہے۔ پریشانی کے عالم میں اس کے ذہن میں ایک خیال آتاہے اوروہ اس پرعمل کرتے ہوئے اپنے گھرمیں ایک ہینڈ پمپ کسی طرح لگالیتی ہے اور اس ہینڈپمپ کاپانی فروخت کراپنے فاقہ کودورکرتی ہے۔اس عورت کے اس عمل کو لوگ بُرا سمجھتے ہیں،لیکن زندگی کے سنگلاخ سفرپرچلنے کے لیے وہ عورت ا یساکرنے پر خودکومجبور پاتی ہے۔ 
پانی کی بڑھتی قلت اوراس قلت سے پانی کے سوداگر کس طرح فائدہ اٹھاتے ہیں، اس کااظہار گلزار نے اپنے افسانہ ’اوور‘ میں بڑے معنی خیز انداز میں کیا ہے، یہ اقتباس ملاحظہ کریں ........
’’اجی یہاں توریگستان ہی میں جاکر جنگل کرآتے ہیں۔ریت بھی کام آجاتی ہے اتناپانی یہاں کہاں ملے گا ؟ 
تونہانے دھونے اورکھانے پینے کوکہاں سے آتا ہے پانی ؟ 
’’پائپ لائن توہے صاحب جی، لیکن کنٹرول تو جسمیلر میں ہے۔ یہاں آتے آتے پورا نہیں پڑتا۔اس لیے پانی کے ٹینکر منگانے پڑتے ہیں۔ ٹھیکیدار وں کادھنداپانی بھی چلتا رہتاہے۔‘‘ (افسانہ’اوور‘)
اس افسانہ میں گلزار نے پانی کے مسئلے کوپیش کرنے کے ساتھ ساتھ پانی کاکاروبار کرنے والوں کو بھی بے نقاب کیاہے۔ 
علّامہ اقبال نے اپنی ایک مشہور نظم میں گنگا ندی کے تعلق سے کہاتھاکہ گودی میں کھیلتی ہیں، اس کی ہزاروں ندیاں۔لیکن افسوس کہ گنگا کی گودمیں کھیلنے والی ہزاروں ندیوں کاوجود دھیرے دھیرے ختم ہوتا جا رہا ہے۔ خود گنگا اپنے وجود کو کن مشکلوں سے بچائے ہوئی ہے،یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ گنگاکی گودسے ندیاں نکل گئیں،اب اس کی گودمیں دنیاجہاں کی غلاظتیں اورکثافتیں بھری پڑی ہیں اور اس کاتقدس بھی پامال ہورہاہے، گنگا کے اس کرب کااظہار مشہور افسانہ نگار جوگندرپال نے اپنے افسانہ ’’گنگانے تم سے کیاکہاتھا ‘‘ میں اپنے منفرد اسلوب میں اس طرح کیاہے۔
’’ہاں فائدہ توماں سے ہی پہنچتاہے۔سوکھے میں ذرا ذرا بہتی ہے کہ بچے نہادھوکر سیراب ہوتے رہیں۔‘‘ 
اس جملے کے بعد جوگندر پال گنگاکی وسعت قلبی کے ساتھ انسانوں کی گنگاکے تئیں ناقدری کواس طرح افسانوی حسن کے ساتھ بیان کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
’’شاید وہ کہناچاہتی تھی،لیکن کسی کے پوتے نے اپنے داداکی ہڈیوں کے پھول اس کی جھولی میں ڈال دیے اوروہ مسکراتے ہوئے اس کی طرف متوجہ ہوگئی ۔۔۔۔۔۔‘‘ (افسانہ’گنگا نے تم سے کیا کہا تھا‘)
گنگامیں بڑھتی آلودگی اورروزبروز اس کے سمٹتے وجود پرمبنی جوگندرپال کایہ افسانہ یہ احساس کراتاہے کہ گنگا اپنی تمام ترکربناکیوں کو سمیٹے ہوئے،اپنی پامالی کے باوجود انسانی خوشیوں کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی ہے، زبان پرکوئی حرف شکایت نہیں۔ 
گنگاندی کی عظمت،اس کی خوبصورتی،اس کے بانکپن، اس کی مدھر اورمترنم سرگوشیوں اوراس کی طغیانی اور سرشاری کے اعتراف کے بعد عہد حاضر میں اس کی بڑھتی کثافت اورآلودگی کے ساتھ ساتھ اس کے سمٹتے وجود پر راقم ا لحروف (سیّد احمد قادری) کابھی ایک افسانہ بہ عنوان ’درد گنگا کا‘ کافی پسند کیاگیاہے۔ جس میں افسانہ کامیں گنگاکی ان جملہ اوصاف کوبیان کرتے ہوئے اس کے ساتھ ہونے والے سلوک پراظہار افسوس کرتا ہے۔ جس کے جواب میں گنگااپنی بے بسی کو بڑے کرب سے بیان کرتی ہے۔ اس افسانہ کا آخری اقتباس دیکھیے:
’’میں نے اسے سمجھانے کی بہت کوشش کی ۔۔۔ تم واقعی مہان ہوگنگا،جوسارے زمانے کی کثافتوں کواپنے وجود کے اندر سموئے لے رہی ہواورتمہیں تواس بات پرخوش ہوناچاہیے کہ ۔۔۔۔۔۔ 
میری بات ابھی مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ گنگا دردبھری آواز میں گویاہوئی۔
مجھے اپنے ختم ہوتے وجود اوراپنی ماندپڑتی شادابی کی فکر نہیں، مجھے تواس بات کاغم ہے کہ جولوگ مجھے امرت سمجھ کرہونٹوں سے لگاتے ہیں، ان کے لیے میں کہیں وش نہ بن جاؤں ۔۔۔۔۔۔‘‘ (افسانہ’درد گنگا کا‘)
دراصل گنگاکے پانی کو ہندو مذہب میں اس قدر مقدس سمجھاجاتاہے کہ جوشخص مرنے سے قبل گنگا جل گرہن کرے گا،وہ سیدھا سورگ میں جائے گا۔لیکن افسوس کہ عہد حاضر میں گنگاکے مذہبی تقدس کابھی لوگوں کو احساس نہیں ہے اوراس کی آلودگی میں اضافہ ہی ہوتا جارہاہے۔
پانی کے بغیر حیات انسانی کاتصور بھی نہیں کیا جاسکتاہے۔ پیدائش سے لے کرموت تک پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔مسلم سماج میں مرنے والے کاغسل ضروری ہے۔ لیکن جہاں پانی،پینے تک کو میسر نہ ہو، وہاں میّت کاغسل کیسے ممکن ہے۔اس کرب کو طاہرمحمود نے اپنے افسانہ ’پانی کاجبر‘ میں ا س انداز سے بیان کیاہے کہ قاری درد و غم میں ڈوبتا چلا جاتا ہے۔ ’پانی کا جبر‘ دراصل بلوچستان کے خانہ بدوشوں کی پریشان حال زندگی پرمبنی افسانہ ہے جس میں ان لوگوں کی بے بس اوربے کیف زندگی اوربہت ساری ضروریات اورسہولیات کی عدم فراہمی کے ساتھ ساتھ پانی کی قلت کوبھی بڑے ہی دردانگیز لیکن فنکارانہ حسن کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ خاص طورپر اس افسانہ میں پانی کے مسئلہ کوطاہر محمود خاں نے ایک الگ روپ دیاہے۔تصویرکے اس رُخ کودیکھیے ۔۔۔۔۔۔ 
’’میں سوچ رہاتھا کہ صبح کی پہلی خبررضائی کی بیوی کی موت ہوگی۔اس کی موت سے زیادہ مجھے اس کی تجہیز وتکفین کی فکررہی۔کیونکہ اس کھلے صحرا میں کوئی ایسانظام نہیں تھا۔ پھرمجھے خیال آیا کہ بیڈشیٹوں سے یہ کام لیا جاسکتا ہے، لیکن شریعت کاخیال آیاکہ ہم اتنے مہینوں سے ان پر سورہے ہیں۔ لازماََیہ نجس ہوئے ہوں گے۔صاف پانی پینے کونہیں، بھلابیڈشیٹوں کوکیسے دھویاجائے اورمیت کوکیسے غسل دیاجائے گا۔‘‘ (افسانہ ’پانی کاجبر‘ )
افسانہ ’پانی کاجبر‘ میں اس ننگی حقیقت کی اس تصویر کو دیکھنے کے بعد انسانیت کراہ اٹھتی ہے کہ ایک جانب ہم اپنی غرض میں اس طرح آئے دن پانی کوبرباد کررہے ہیں اور دوسری طرف میت کے غسل کے لیے پانی میسر نہیں ہے۔ 
پانی کی عدم دستیابی کے عالم میں انسان کس طرح تڑپتااور بے چین ہوتا ہے۔اس کابڑاکربناک منظرنامہ واقعہ کربلا،آب زم زم اور عہد حاضر میں پانی کی بڑھتی آلودگی اورسوکھتی ندی، گندے تالاب کے حوالے سے اسلم جمشید پوری نے اپنے افسانہ ’پانی اورپیاس ‘ میں پیش کیاہے۔ درج ذیل اقتباس میں پانی کی قلّت کے باعث موت قریب نظر آتی ہے.......
’’ اب اس کی گھبرا ہٹ میں خوف در آیا تھا۔اُسے لگ رہا تھا کہ اگر اور تھو ڑی دیر میں پانی نہ ملا تو شاید اس کی جان نہ چلی جائے۔وہ کیا کرے اُ سے سمجھ نہیں آ رہا تھا.... اس کے جسم کی طاقت، سو راخ زدہ غبارے کی مانند نکلی جارہی تھی۔ہاتھ،پا ؤں میں دم نہیں تھا، حلق خشک ہو چکا تھا جیسے دور تک صحرا ہی صحرا ہو، سورج کی تپش بھی شدید ہو اور پانی کا کہیں نام نہ ہو.....آج اُسے پانی کی اہمیت کا اندا زہ ہو ر ہا تھا۔ اُ س نے کبھی اپنے کمرے میں پانی بھر کر نہیں رکھا۔ کبھی جگ میں رکھ لیا، کبھی گلاس بھر کے......بس.....ایسا تو علم نہیں تھا کہ بات یہاں تک آجائے گی....‘‘( افسانہ ’پانی اورپیاس ‘) 
حالات کی چیرہ دستی اورجبر وظلم نے کشمیر،جوکبھی ارض جنتّ سے تعبیرکیاجاتاہے۔ جہاں کے پانی کونہ جانے کتنے خوبصورت نام دیے گئے ہیں۔وہاں کے آبشار اورجھرنوں کے خوبصورت نظارہ کوجنّت کے نظارہ کانام دیاگیاتھا۔لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ وہاں کی فضا میں بارود کی مہک رچی بسی ہے توپانی میں شورے کی آمیزش ہے۔اس تلخ حقیقت کااظہار دیپک بدکی نے اپنے افسانہ ’ریزہ ریزہ حیات‘ میں بڑے خوبصورت پیرائے میں کیاہے وہ بتاتے ہیں۔۔۔۔۔۔
’’نہ ہو امیں وہ تازگی رہی تھی اورنہ پانی میں مٹھاس۔ہوا میں بارودکی وہ تیز بدبوبسی ہوئی تھی،جبکہ پانی میں شورے کی تیزابیت گھلی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔‘‘ 
(افسانہ ’ریزہ ریزہ حیات ‘ )
دیپک بُدکی نے اپنے اس افسانہ میں،کشمیرکے عصری حالات کے پیش نظر جس طرح گولہ، بارود، بم، گولی کابے دریغ استعمال ہو رہاہے اوران کے منفی اثرات جس شدت سے مرتب ہو رہے ہیں،اس سے کشمیرکا قدرتی حسن معدوم ہورہاہے اور یہاں کی آب و ہوا زہرآلود ہو رہی ہے۔
پانی کی قیمت کیا ہو سکتی ہے، اس کااندازہ اس وقت ہوتاہے،جب انسان پیاس کی شدت سے تڑپتا ہے، بے قراراوربے چین ہوتاہے اوراسے محسوس ہوتاہے کہ مزید تھوڑی دیراسے پیاس بجھانے کے لیے پانی نہ ملا تو اس کی زندگی ختم ہوجائے گی،ایسے حالات میں زندگی پر بن آتی ہے تو وہ اپنی ساری دولت کے بدلے ایک گلاس کیا، پانی کے چند ہی بوند حاصل کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ اس امرکا اظہار، احمد رشید (علیگ) کے افسانہ ’دھوئیں کی چادر ‘میں موجود ہے۔اس افسانہ کاایک کردار اپنے دوست سے اس طرح مخاطب ہے۔ 
’’۔۔۔۔۔۔اگرہندوستان میں قحط پڑجائے تو ان حالات میں ایک گلاس پانی کی قیمت تمہاری کل جائداد ہوتو تم کیاکروگے ‘‘؟ 
اس سوال کے جواب سے پہلے ہی وہ کردار،ایک دوسراسوال کردیتاہے کہ ۔۔۔
’’جس جائداد کی قیمت پانی کے ایک گلاس کے برابربھی نہ ہو،اس پراتنا غرور کیوں؟ 
( افسانہ ’دھوئیں کی چادر ‘)
یعنی پیاس کی شدت کے آگے،ساری دولت بے کار ہے۔ زندگی باقی ہی نہیں رہے گی،تو پھریہ دولت کس کام کی۔ 
پانی کی قلت کے مسئلے پر اردو میں سیکڑوں کی تعداد میں افسانے لکھے گئے ہیں،پانی کامسئلہ ایسامسئلہ ہے، جس سے بہت سارے مسئلے جڑے ہوئے ہیں اور ادب، جوکہ حیات وکائنات کاآئینہ ہے توپھرحیات و کائنات سے تعلق رکھنے والے اس اہم مسئلے کوکیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ پانی کے مسئلے کے کئی روپ ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ایک طرف پریم چند کے افسانہ میں پانی پرٹھاکروں کے پہرے ہیں تو دوسری جانب کرشن چندر کے افسانہ میں Global Warming سے پیداہونے والے منفی اثرات اورپانی کی قلت کا فنکارانہ اظہارہے۔ دیپک بُدکی کے افسانہ میں جہاں بارود کے بڑھتے استعمال سے فضائی آلودگی اورپانی میں گھلتے زہر یلے مادے کوموضوع بنایاگیاہے تووہیں جوگندرپال کے افسانے میں گنگاندی کی بڑھتی کثافت کے المیہ کوپیش کیاگیاہے۔گلزار کے افسانہ میں پانی کی قلت سے دم توڑتی انسانیت کی چیخ سنائی دیتی ہے،تو خدیجہ مستور کے افسانہ میں پانی کی صارفیت کامنظرنامہ ہے۔ ان افسانوں کے علاوہ بھی ہمارے سامنے ایسے بہت سارے اردوکے افسانے ہیں، مثلاً زاہدہ حناکا ’پانی کے سراب‘، سلام بن رزاق کاافسانہ ’ندی‘، احسان بلوچ کاافسانہ ’آب مرگ‘ شموئل احمد کا افسانہ ’منرل واٹر‘، انتظار حسین کاافسانہ ’ندی ‘ خورشید حیات کا افسانہ ’پہاڑ ندی عورت‘ اخترآزاد کا افسانہ ’پانی‘ اور ’پانی والا انکل‘ سلمان عبدالصمد کا افسانہ ’دامودر داس‘ وغیرہ،جن میں پانی کی قلّت کے مسئلے کو مختلف عنوانات کے تحت موضوع بنا یاہے۔


Dr. Syed Ahmad Quadri 
7 New Karimganj
Gaya - 823001(Bihar)


 اگر آپ رسالے کا آن لائن مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے لنک پر کلک کیجیے:۔




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں