ہندوستانی تصور تانیثیت
شاذیہ تمکین
تانیثی تحریک نے دنیا کے مختلف ممالک میں ان کی ضروریات کے مطابق شکل اختیار کی ہے۔Kamla Bhasinکہتی ہیں کہ:
"I believe Feminism has been and should be like a water. Water takes the shape of the pot it is put into." (http://www.youtube.com/watch?v=GiGjq3dGeJI&t=2031s) ہرملک میں عورت کے معاشرتی ‘سیاسی اور معاشی حالات‘ تعلیم‘ رسم و رواج‘طبقاتی درجوں کے تحت نسائی مطالبات سامنے آئے ہیں ۔مگر چند ایسے مطالبات بھی موجود ہیں جو عالمی حیثیت رکھتے ہیں کیوں کہ عورتوں کے مسائل اور ان کے خلاف امتیازی رویہ مشرق و مغرب دونوں خطوں میں نظر آتا ہے۔تقریباًڈیڑھ صدی قبل مغربی خاتون ووٹ ڈالنے ‘جائداد کی ملکیت اور اپنی مزدوری کا معاوضہ حاصل کرنے سے محروم تھی۔زندگی کے ہر شعبے میں مساوی حقوق حاصل کرنے میں اسے کافی جد و جہد کرنی پڑی۔آہستہ آہستہ اپنے حقوق کی لڑائی لڑتے ہوئے اس نے قانونی ‘سیاسی ‘معاشی میدانوں میں اپنی قابلیت کو منوایا۔آج بھی اس کی یہ لڑائی جاری ہے کیوں کہ زیادہ تر حقوق حاصل کرنے کہ باوجود کچھ بنیادی مطالبات آج بھی سر اٹھائے کھڑے ہیں۔
مجوعی طور پر اگر دیکھا جائے توہندوستانی عورت اپنے حقوق سے آگاہ ہے۔اور اس کے حصول کے لیے کوشاں بھی نظر آتی ہے۔ہندوستان میں تانیثی تصورات کے متعلق عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ مغرب سے مستعار ہیں۔مگر ہندوستانی عورت نے اپنے حقوق کی آگہی کا جو سفر ویدک عہد سے لے کر اب تک طے کیا ہے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ہندوستانی عورت کا تانیثی نظریہ کوئی آج کی بات نہیں ہے۔رگ وید کو تصنیف کرنے والوں میں جو بیس عورتوں کے نام شامل ہیں ان کا ادبی شعور اور تعلیمی آگہی ان کے تانیثی شعور کے ضامن ہیں۔ویدک عہد میں Yajnavalkyaسے پوچھے گئے ایک ویدک اسکالرگارگی کے دقیق اور پیچیدہ سوالات اس کے تانیثی شعور کی گواہی دیتے ہیں۔کملا بھسین (Kamla Bhasin)اس کے متعلق اپنی ایک تقریر میں کہتی ہیں:
"Even a feminism was western but it was a good idea, I would accept it. Political ideology of marxism came from there we had adopted it. Feminism is not western it is local.......At Mahatma Buddha's time women went and said, Buddha! we want to join your Sangha. He said no First, women did not go back. They went to Ananda and said, see, your director is saying we can't join. Then Ananda went to Mr Buddha and said, "Buddha! woh to hadtal kar rahi hain, woh nahin jayengi." 2500 hundred years ago in India, debate taking place for women's rights within religion......After this debate Budhdha said, You may join......he took a revolutionary step of allowing women to come in. So, for me Buddha is feminst and those five hundred women who went the Buddha, were feminst fighting for their rights.
(http://www.youtube.com/watch?v=GiGjq3dGeJI&t=2031s)
سمراٹ اشوک کی بیٹی سنگھ مترا پہلی مبلغ خاتون تھی جو بدھ کی تعلیمات کی تبلیغ کی غرض سے شری لنکا تک گئی تھی۔جین مت کے چوبیس گروؤں میں ویدیا کی راج کماری ملّی بھی شامل تھی اور اگر مشرقی تناظر میں دیکھا جائے تو حضرت محمدؐ پہلے انسان ہیں جنہوں نے چودہ سو سال پہلے مردانہ بالادستی (Petriarchy)کے خلاف مہم چھیڑی۔چودہ سو سال پہلے کہاں تھا مغرب اور کہاں تھے ان کے حقوق؟اسلام پہلا مذہب ہے جس نے صحیح معنوں میں عورت کو اس کے حقوق سے روشناس کرایا اور روایتی قانون کے خلاف پہلی احتجاجی لے وہیں سے سنائی دیتی ہے۔
ڈاکٹر نجیبہ عارف کے ذیل کے بیان سے مشرقی عورت کے احساس اور مطالبے کی بہترین عکاسی ہو رہی ہے:
’’عورت نہ تو اپنے بنیادی وظیفۂ حیات سے منکر ہے نہ اخلاقی قیود سے آزادی کو اپنی منزل قرار دیتی ہے۔سوال صرف اس ذہنی نشو و نما اور ارتقاء کا ہے جس کا حق مرد وزن کو یکساں طور پر فراہم کیاجانا چاہیے۔عورت کو بھی اپنی ذات کی تکمیل اور شخصیت کے اظہار کے وہ تمام مواقع ملنے چاہئیں جو اب تک صرف مرد کا حصہ سمجھے جاتے ہیں۔‘‘
(مشمولہ:پاکستانی اردو افسانہ نگار خواتین کے افسانوں میں نسوانی کردار‘فوزیہ رانی‘ ص۔49)
ہندوستانی عورت اپنے بنیادی فرائض سے قطعاًمنکر نہیں ہے۔یہ وہ فرائض ہیں جو مرد مقابل صنف ہونے کے ناطے ایک منظم معاشرے کی تکمیل کے سبب اس کی شخصیت کے ساتھ منسلک ہیں۔ان فرائض کے تئیں وہ ہمیشہ باشعور رہی ہے مگر مرد بالادست سماج میں اسے ہمیشہ ثانوی درجہ ملا۔اس لیے وہ عزت نفس اور اپنی ذہنی وفکری آزادی کے تشخص کی صدا بلند کرتی ہے جو ایک انسان کی حیثیت سے اس کا حق ہے۔
تانیثی فکر پر عورتوں کی اجارہ داری ضروری نہیں۔مرد بھی اس نظریے کے حامل اور ان کے حقوق کے حصول میں معاون ہو سکتے ہیں۔ جدید ہندوستان میں انگریزوں کی ما تحتی میں سب سے پہلے عورتوں کی فلاح و بہبودی کے لیے صدا بلند کرنے والے مرد حضرات ہی تھے جن کی کوششوں سے مختلف تحریکات وجود میں آئیں جن میں ’برہمو سماج اور آریہ سماج‘نے نمایاں کام انجام دیا۔راجا رام موہن رائے‘ایشور چندر ودیہ ساگر‘کشیپ چندر سین وغیرہ روشن خیال اور باشعور مردوں کی انتھک کوشش اور بے لاگ مخالفتوں کی وجہ سے 1829میں ستی کے خلاف اور 1856میں بیواؤں کی دوسری شادی کی حمایت میں قانون پاس ہوا۔مسلمانوں میں عورتوں کے حقوق کے تئیں بیداری کی تھوڑی سی لہر سر سید احمد خان کی تحریک کے بعد پیدا ہوئی۔اگرچہ سر سیدعورتوں کی جدید تعلیم کے حق میں نہیں تھے مگر سر سید کی علی گڑھ تحریک کے زیر اثر جو تعلم یافتہ طبقہ سامنے آیا ‘اس میں آگے چل کر یہ شعور بیدار ہوا کہ عورت معاشرتی ‘معاشی اور سیاسی زندگی میں اہم رول ادا کرتی ہے۔سماجی اور سیاسی بیداری کے پہلو بہ پہلو ادبی دنیا میں بھی تانیثی تصور کے اثرات صاف جھلک رہے تھے۔اردو ادب کی بات کی جائے تو یہاں بھی پہل مرد ادیبوں نے ہی کی۔سب سے پہلے عورت کو ایک محبوبہ کے چولے سے نکال کر ایک ماں‘ایک بہن‘ایک بیٹی اور ایک بیوی کی حیثیت سے دنیائے شاعری میں متعارف کروانے والے خواجہ الطاف حسین حالیؔ ہیں۔نظم’چپ کی داد‘کے ابتدائی اشعار ملاحظہ ہوں:
اے ماؤ‘ بہنو ‘بیٹیو
دنیا کی زینت تم سے ہےملکوں کی بستی ہو تمھیقوموں کی عزت تم سے ہےصالحہ عابد حسین لکھتی ہیں:’’واقعہ یہ ہے کہ اس زمانے میں ہندوستانی عورت کے حقوق کی حفاظت (اور یاد رکھیے یہاں مسلمان عورت کا سوال نہیں ہے بلکہ ہندوستان کی ہر عورت کی حمایت پیش نظر ہے)سب سے پہلی آواز جس شخص نے بلند کی اور اس کی سماجی مظلومی کا سب سے پہلے اعتراف کیا اور اس کی حمایت کا علم اٹھایا ‘وہ حالیؔ ہی تھے۔‘‘
(صالحہ عابد حسین‘یادگار حالی‘ص۔227)
ہندوستانی عورت کے لیے تانیثیت سے مراد مرد دشمنی بالکل نہیں ہے بلکہ عورت کے استحصال کا رویہ قابل مذمت ہے چاہے ان رویوں کو اپنانے والے مرد ہوں یا عورتیں‘تانیثیت دونوں کی مخالفت کرتا ہے۔ ہندوستان میں ایسے ہزاروں گھر موجود ہیں جہاں خواتین کا استحصال خواتین ہی کرتی ہیں عموماًجس کی ابتداء بہو کے گھر میں قدم رکھتے ہی ہو جاتی ہے۔تانیثی تصور کے علم بردار ان خواتین کے خلاف بھی علم بغاوت بلندکرتے ہیں۔
تانیثی تصور کے علم بردار مثبت معاشرتی قدروں کو مسمار نہیں کرنا چاہتے بلکہ ان اقدار کا خاتمہ چاہتے ہیں جو عورت کے حقوق کی پامالی کے ذمہ دار ہیں۔جس طریقے سے عورت کا استعمال ہو رہا ہے‘ان کو غلام بنانے کی جو تدبیریں کی جارہی ہیں ان سے عورت کو اپنی فطری صلاحیتوں کی آگہی اور پیش کش کا موقع نہیں مل رہا ہے‘صرف یہی نہیں بلکہ اس کا اثر پورے معاشرے پر بھی پڑ رہا ہے جس سے معاشرہ انتشار کی طرف گامزن ہے۔ کیوں کہ ایک مثالی معاشرے کی تکمیل میں مرد وزن دونوں برابر کے ذمہ دار ہیں ،اس لیے عورت کو اس کا جائز مقام اور عزت نہ دینے کے باعث معاشرے کا استحکام اور بنیادی انسانی قدروں کا تحفظ خطرے میں پڑ گیا ہے۔اس لیے عورتوں کے حقوق کی لڑائی لڑنے والے ہندوستانی تانیثی تصور کے علمبردار جن میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں‘اپنے اخلاقی قیود میں رہ کر ہندوستانی عورت میں اپنے حقوق کے تئیں شعور و بیداری پیداکرنے میں کوشاں نظر آتے ہیں۔جس میں سب سے پہلے قدیم عہد سے چلی آرہی ستی کا رواج اور بیوہ کی دوسری شادی نہ کرنے کی رسم کی مخالفت کی گئی‘جس کے سبب 1829میں ستی کے خلاف اور 1856میں بیواؤں کی دوسری شادی کی حمایت میں قانون پاس کیا گیا۔ان دانشوروں کے ذریعہ علاقائی اعتبار سے بھی ان انسان سوز رسموں کے خلاف مہم چلائے گئے۔مکمل طور پر نہ سہی مگر کہیں کہیں بیداری کا جذبہ بھی پیدا ہونے لگا۔انہیں کوششوں کا ثمرہ تھا کہ کشمیری پنڈتوں کے فرقے میں پہلی مرتبہ ایک بیوہ لڑکی کی شادی آگرہ میں ہوئی۔اس اصلاح کی تعریف اور خیر مقدم میں چکبست نے نظم’برق اصلاح‘تحریر کی ۔اس نظم میں معاشرے میں رائج بیوہ کے عقد ثانی کے خلاف رسم کی مذمت کرتے ہوئے نئے دور میں بدلے ہوئے حالات اور قومی مصلح کی تعریف میں قصیدہ خوانی کر رہے ہیں۔کہتے ہیں کہ اگرچہ اس عمل سے کہنے کو دین و مذہب برباد ہوا مگر ہمیں اس کا کوئی دکھ نہیں ہے۔ہماری خوشی یہ ہے کہ انسان کی آزادی کا بت صحیح سلامت رہے۔اس نظم کاابتدائی حصہ ملاحظہ ہو۔
مرحبا جرأت اصلاح دلانے والو
قوم کے بارِ امانت کے اٹھانے والو
دل کی اجڑی ہوئی نگری کے بسانے والو
مادر ہند کی بگڑی کے بنانے والو
کسے طوفاں میں دیا ہے یہ سہارا تم نے
خوب ڈوبی ہوئی کشتی کو ابھارا تم نے
اسی درمیان عورتوں کی تعلیم کو بھی ضروری گردانتے ہوئے حقوق نسواں کے حامیوں نے تعلیم نسواں کو عام کرنے کی کوشش کی۔پونے میں1848میں لڑکیوں کے اسکول کی سب سے پہلی شروعات ساوتری بائی پھولے سے ہوئی تھی۔اس وجہ سے انہیں جدید ہندوستان کی سب سے پہلی فیمنسٹ مانا جاتا ہے۔تخلیق کاروں کے یہاں بھی تانیثی تصورات کی جھلک پائی جاتی ہے۔اردو شاعری کی بات کی جائے تو حالیؔ اپنی نظم ’’نظم چپ کی داد‘‘میں مرد کی اس ذہنیت کہ عورت تعلیم سے ناآشنا رہے کے پیچھے پوشیدہ اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے عورت کو شعوری طور پر بے دار کر رہے ہیں کہ :
دنیا کے دانا اور حکیم اس خوف سے لرزاں تھے سب
تم پر مبادا علم کی پڑ جائے پر چھائیں کہیں
ایسا نہ ہو مرد اور عورت میں رہے باقی نہ فرق
تعلیم پا کر آدمی بننا تمھیں زیبا نہیں
ہندوستان میں عورت کے مسائل اور مطالبات اس کے اپنے ماحول اور اقدار سے متعلق ہیں۔ یہاں کی عورت اخلاقی قید سے بالا تر آزادی کی خواہاں نہیں۔ وہ مغرب کی نسائی تحریک کی علمبرداروں کی طرح ایسی جنسی آزادی کی خواہش مند با لکل بھی نہیں ہے جس سے وہ بے راہ روی کا شکار ہو جائے۔ یہاں کی عورت مرد کی رقابت کے بجائے اس کی رفاقت کی خواہاں نظر آتی ہے۔رفیعہ شبنم عابدی کی نظم ’نصف بہتر‘ملاحظہ ہو:
’کچھ اختلاف نظر نے بھی دل دکھایا تھا؍کچھ اضطراب کا باعث بنا سلوک اس کا؍خیال دل میں تو آیاکہ چھوڑ جاؤںیہ در؍یہ آرزو بھی نہیں تھی کہ روک لے وہ مجھے؍سوال یہ تھا کہ دہلیز کیسے پار کروں؍ہزار مسئلے گھیرے ہوئے تھے گھر میں اسے؍۔۔۔۔۔۔وہ احتساب کے گرداب میں اکیلا تھا؍اسی لیے تو قدم اٹھ نہیں سکے شاید؍میں جانتی تھی کہ اسے مری ضرورت ہے!!‘
اس تصور کے ساتھ ہندوستانی خاتون گھر کو توڑنے کے بجائے اسے خوشحال بنانے کی چاہ میں ہمیشہ کو شاں رہتی ہے۔اس صورت میں وہ مرد اور عورت دونوں کی ذات کے تشخص اور دونوں میں حقوق نسواں کے تئیں شعوری بیداری پیداکرنا چاہتی ہے۔مغرب میں بن بیاہی ماؤ ں کے مسائل موجود ہیں جب کہ ہمارے یہاں اس کا تصور ممکن نہیں۔ہر عورت ماں بنے سے پہلے شادی جیسے پاک جذبے کی خواہش مند رہتی ہے۔طلاق یا بیوگی کی حالت میں اس عورت اور بچوں کی کفالت کی ذمہ داری مغرب کی طرح ریاستی نہیں بلکہ معاشرتی ہے۔بیوگی کی حالت میں خاندان یا برادری کے لوگ اور طلاق کی حالت میں شوہر اس عورت کی کفالت کی ذمّہ داری اٹھاتا ہے۔
ہندوستان کے آئین کے مطابق عورتوں کا درجہ بحیثیت انسان مردوں کے مساوی ہے وہ آزاد شہری کے حقوق رکھتی ہیں۔ عورتوں کے لیے کئی قوانین بھی موجود ہیں جو ان کوحق تلفی سے بچانے اور ان کی دفاع کے لیے بنائے گئے ہیں مگر عملی اعتبار سے خواتین اس سے بہت کم مستفید ہو پاتی ہیں۔اس کی سب سے بڑی وجہ ان کی جہالت ہے اور دوسری وجہ ہر معاملے میں گھر کے مردوں پر انحصار کرنا ہے۔یہاں تک بھی دیکھا جاتا ہے کہ ووٹ ڈالنے سے پہلے انہیں پتہ نہیں رہتا ہے کہ وہ کس کا اور کیوں انتخاب کریں۔یہاں بھی وہ گھر کے مرد پر ہی منحصر رہتی ہیں۔اس لیے ہندوستانی تانیثی تصور کے علمبردار سب سے پہلے عورت میں ہی اپنے حقوق کے تئیں بیداری پیدا کرنا چاہتے ہیں۔انگریزی کی پروفیسر اور ناول نگار منجو کپور لکھتی ہیں:
"A women should be aware, selfcontrol, strong will, self reliant and rational, having faith in the inner strength of womenhood. A meaningful change can be deeper psychic sense."
(Manju Kapur, 'A married women', penguin pub, New Delhi, 2002, p-23)
عورتوں کی گھریلو مشقت جسے کام کے زمرے میں شمولیت نہیں ملتی ‘پوری دنیا میں تانیثی تحریک کے پیش نظر رہا ہے۔ ہندوستانی عورت اپنے اس کام کا معاوضہ تو نہیں مانگتی مگر یہ چاہتی ہے کہ اس کے اس کام کی قدر کی جائے ۔چوں کہ اس کے اس گھریلو کام کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی اس لیے وہ بھی گھر سے باہر نکل کر مردوں کی طرح مختلف شعبوں میں کام کرنے کی بھی خواہاں نظر آتی ہے۔ہندوستان کے دیہی علاقوں میں ایسی بھی خواتین موجود ہیں جو گھر اور کھیتوں میں بلا معاوضہ محنت و مشقت کرتی دکھائی دیتی ہیں۔تعلیم سے محروم ان خواتین کی اکثریت اپنے حقوق سے آگاہ نہیں ہے۔ان کی محنت سے جو بھی آمدنی ہوتی ہے زیادہ ترایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ اس کی شکل تک بھی دیکھنے سے محروم رہتی ہیں۔اس پر صرف مرد کا حق ہوتا ہے۔مگر یہ خواتین ان بنیادی انسانی مطالبات کی ضرورت شدت سے محسوس کرتی ہیں جو بحیثیت انسان ان کی محنت کا اجر اور ان کی کمائی پر انہیں آزادانہ تصرف کا اختیار دے سکیں۔ایک شعر ملاحظہ ہو:
ظلمتوں کے دشت میں اب کس لیے بھٹکا کروں
مجھ کو میرے خضر نے وہ راہ دکھلائی نہ پوچھ
(رخسانہ جبیں)
موجودہ دور میں لڑکیوں کی تعلیم پر زیادہ توجہ دی جارہی ہے ۔وہ اپنی ماؤں سے زیادہ تعلیم حاصل کر رہی ہیں مگر زیادہ تر یہی دیکھا جاتا ہے کہ خاندان کی ترقی لڑکوں کے ساتھ ہی وابستہ ہےA.S. Altekarکے مطابق؛
"In ancient times an all patriarchal soceities the birth of a girl was generally an unwelcome event. Almost everywhere the son was valued more than the daughter. He was a permanent economc asset of the family.He lived with his aged parents and didnot like the daughter to another family after the marriage. He perpetuated the name of his father's family."
(A.S. Altekar,The position of women in Hindu civilization: from prehistoric times to the present day, p-3)
آلٹیکر کا مذکورہ بیان قدیم ہندوستان کے تناظر میں ہے مگر آج بھی ہندوستان میں زیادہ تر ایسے گھرانے موجود ہیں جو لڑکیوں سے زیادہ لڑکوں کی پیدائش اور ان کی تعلیم کو ترجیح دیتے ہیں۔بنیادی وجہ وہی ہے جو آلٹیکر نے بیان کیا مگر ہندوستان کی تعلیم یافتہ عورت اپنے علم و ہنر کی قدر و قیمت چاہتی ہے۔اپنی ذات کے تئیں اپنے والدین کی توجہ اور محبت و شفقت کی متقاضی ہے ۔پیدائش سے پہلے ہی جبراًماں کی کوکھ میں اسے ختم کر دیا جاتا ہے اس لیے یہاں کی عورت اسقاط حمل میں اپنا اختیار چاہتی ہے۔
عورتوں پر ہو رہے گھریلو تشدد کی خبریں آئے دن سننے میں آتی ہیں جس کا شکار نچلے اور غریب طبقے کی عورت ہی نہیں بلکہ اوسط‘ اونچے اور امیر گھرانوں کی عورتیں بھی ہوتی ہیں۔ایسابھی ہوتا ہے کہ عورتوں کو اپنی جان تک گنوانی پڑتی ہے۔اشعار ملاحظہ ہو:
ایک چھوٹی سی چھت کی خاطر کیا کیا خواب گنوا بیٹھی تھی
بھول گئی کہ اینٹیں اس کی مٹی گارے اس کے تھے
زنجیروں کے بدلے اب بھی گہنے پاتے بنتے ہیں
صدیوں سے یہ جبر کے بندھن بیچ ہمارے اس کے تھے
(کہکشاں تبسم)
اس آگہی کے ساتھ ہندوستانی عورت گھر میں برابری کا درجہ چاہتی ہے۔مردوں کے ظلم و جبر سے آزادی کی طلب گار ہے۔اپنی ذات کی شناخت کے لیے آزاد ملک کی آزادی کے ثمرات سے بہرہ ورعورت آئے دن نئے نئے مسائل سے دو چار ہوتی رہتی ہے۔ گھر تک محدود تھی تو گھریلو مسائل کا سامنا تھااور گھر سے باہر نکلی تو اس طرف بھی مسائل کا انبار اس کا استقبال کررہا ہوتا ہے۔یہ آج کی عور ت کا کرب ہے کہ بیک وقت اسے دوہری زندگی گزارنی پڑ رہی ہے۔ایک طرف دوہری ذمہ داری کے بوجھ سے پریشان ہے تو دوسری طرف ہر ہر قدم پر عزت کے تشخص کا مسئلہ درپیش نظر آتا ہے۔آج کی عورت ایک ایسے معاشرے کا تقاضا کرتی ہے جہاں مرد کی طرح عورت بھی بلا خوف و خطر کہیں بھی آجا سکے۔مردوں کی شہوت بھری نگاہوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔دیگر پریشانیوں کے ساتھ ساتھ عزت کے تحفظ کی فکر دامن گیر نہ رہے۔ایسی حالت میں آج کی خاتون اس جذبے سے معمور نظر آتی ہے:
بدل دیں گے ذرا سا وقت کو بس
اِدھر کا کچھ اُدھر کرنا پڑے گا
(مسرت انجم)
ہندوستان میں چونکہ مختلف مذاہب سے جڑے ہوئے لوگ رہتے ہیں جو مذہبی اعتبار سے مختلف قاعدے و قوانین کی پیروی کرتے ہیں۔ہندو مذہب میں مختلف ورنوں کا رواج ہے جہاں سب سے چھوٹا طبقہ شودر کہلاتا ہے جن میں دلت طبقہ بھی شامل ہے۔اس طبقے کی عورتیں دو طرح کے مسائل سے دوچارہوتی ہیں ۔ایک توشودر کے لحاظ سے مرد کے ساتھ ساتھ ان کا بھی مختلف طرح سے استحصال کیا جاتا ہے اور دوسرا ایک عورت ہونے کے ناطے مختلف طرح کے مسائل کا سامنا کرتی ہیں ۔ اسی طرح مسلمانوں میں بھی ہندوستانی تہذیب کے اثرات کی بنسبت مختلف علاقوں میں عورت نسلی امتیازات کا شکار رہتی ہے۔اس لیے ہندوستان میں بھی اس تصور کے حامی"The personal is the political"یعنی ’’نجی ہی سیاسی ‘‘کے نعرے کی تائید کرتے ہیں۔ کیوں کہ جس کسی بھی گھر میں عورت تشدد کا شکار ہے چاہے وہ کسی بھی مذہب یا طبقے سے کیوں نہ تعلق رکھتی ہو‘تو یہ گھریلو یا نجی معاملہ نہیں ہے بلکہ عوامی معاملہ ہے۔اگر کسی بھی لڑکی کی شادی جہیز دے کر کی جائے تو یہ ان کا نجی معاملہ نہیں ہے اس سے پورا معاشرہ متا ثر ہوتا ہے۔اس لیے ہندوستانی عورت بھی گھر اور معاشرے میں نیچے سے اوپر تک ہر طرح کے تشدد کا خاتمہ چاہتی ہے۔اس لیے فیمنسٹ "Universal Sisterhood"کی بات کرتے ہیں۔
ہندوستان میں دور حاضر میں کھل عام نہ سہی مگر پوشیدہ طور پر عورت عصمت فروشی کے بیوپار سے بھی جڑی ہوئی ہے۔اس کے پیچھے کئی وجوہات کارفرما نظر آتے ہیں۔مگر عمومی طور پرغریبی‘بے روزگاری اہم اسباب ہیں۔اس لیے تانیثی نظریہ رکھنے والے مانتے ہیں کہ چونکہ ہندوستانی قانون سماج میں عورتوں کو برابری کا درجہ دیتا ہے تو سب سے پہلے سماج کو انہیں معاشی‘سماجی اور نفسیاتی تحفظ کی ضمانت دینی ہوگی اور حکومت سے یہ مانگ کرتے ہیں کہ عورتوں کو اس پیشے سے نجات دلانے کے لیے ان کی معاشی بحالی کا انتظام کیا جائے۔
جہاں تک ادب کی بات آتی ہے یہاں بھی مردوں کی اجارہ داری موجود تھی ۔مغربی خاتون کی طرح ہندوستانی خاتون اس عصبیت کو دور کرنا چاہتی ہے۔ایک وہ دور تھا جب خواتین اپنے احساسات و جذبات کو الفاظ کے موتیوں سے پرونے کے لیے بے چین و بے قرار تھیں مگران کی تحریری صلاحیتوں کو لائق اظہار نہیں سمجھا جاتا تھا۔ادیبائیں اپنا نام بدل کر اپنی تخلیقات کو منظر عام پر لاتی تھیں۔اشعار ملاحظہ ہوں:
میں درد جاگتی ہوں‘ زخم زخم سوتی ہوں
نہنگ جس کو نگل جائے ایسا موتی ہوں
وہ میری فکر کے روزن پہ کیل جڑتا ہے
میں آگہی کے تجسس میں خون روتی ہیں
(ترنم ریاض)
اور آج کا دور ہے جہاں انہوں نے ادب میں بھی اپنی صلاحیتوں کو منوایا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ماضی میں مردوں کے ذریعہ تخلیق کردہ ادب جس میں انہوں نے عورت کو اسی طرح پیش کیا جس طرح انہیں رکھا گیاتھا‘انہوں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ اسے کیسا ہونا چاہیے‘یا اس روایتی ڈھانچے سے الگ اور کیسی ہو سکتی ہے؟اس لیے متون میں عورت کردار کا ازسرِنو مطالعہ عورت کے نظریے سے کیا جانا چاہیے۔اس لیے مرد تخلیق کاروں کے ذریعہ پیش کی گئی عورت کی شبیہہ کو فیمنسٹ ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ان کا ماننا ہے کہ انہوں نے عورت کو جس طرح دکھایا ہے وہ کسی بھی پہلو سے قریب از قیاس نہیں ہے۔ان تخلیقات میں جس روایتی Stereotypeعورت کو پیش کیا گیا ہے ‘ا س کے مطالعے سے قاری کبھی بھی یہ نہیں جان پائے گا کہ عورت کے اندر بھی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت موجود ہے‘جیسا مرد اسے دکھارہا ہے وہ ویسی ہی ہے یا ویسی بنا دی گئی ہے۔
گزشتہ دو صدیوں میں فیمنزم کی تحریک نے عورتوں کے لئے تعلیم اور ملازمت کے مساوی مواقع‘جائیداد کی ملکیت کا موقع‘ووٹ دینے کا حق ‘پارلیمنٹ میں نمائندگی کا موقع‘برتھ کنٹرول‘شادی اور طلاق وغیرہ کے حق کے حصول میں خاطر خواہ کام انجام دیا ہے۔جو ہندوستانی عورت کے جد وجہد کی کامیابی کی ضمانت ہے۔مگر کہیں کہیں یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ مغربی خواتین کی نقالی میںآج کی جدیدہندوستانی عورت اس تحریک کے بنیادی مقاصد کو بھلا کر بے راہ روی کا شکار ہو گئی ہے۔ مردوں سے جنگ یااپنے حیاتیاتی نظام کے خلاف جاکر ان کی طرح بن جانایا صدیوں سے ہو رہے ظلم و جبر کا بدلہ مردوں سے لینا‘ان کو ان کے حقوق سے دور کر دینا‘قدرت کے ذریعہ رائج کیے گیے سہولیات سے انہیں محروم کر دینا ‘زندگی کے ہر میدان میں انہیں کمتر اور خود کو برتر دکھانا وغیرہ اس تحریک کے مقاصد نہیں ہیں ۔مگر آج مساوات مرد و زن کے متعلق جدید عورت کا نظریہ کہیں نہ کہیں انہیں سارے عناصر سے جڑچکا ہے۔عورت نے اپنے بدلے کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے فطری روش کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور مصنوعی طریقے کو اپنا لیا ہے جس کی بدولت خاندانی نظام تتر بتر ہو رہاہے ‘بچے اپنے والدین کی محبت سے محروم ہو رہے ہیں‘نوجوان پیڑھی جنسی بے راہ روی کا شکار ہو رہی ہے‘مجرد رہ کر ہم جنس پرستی جیسے لعنت کو اپنایا جارہا ہے‘تولید کے فطری طریقے کو چھوڑ کر مثنوعی طریقوں کو اپنایا جا رہا ہے۔شادی شدہ زندگیاں ابدی خوشیوں سے محروم ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے معاشرے میں طلاق کی کثرت دیکھنے کو مل رہی ہے۔عورتیں اپنی ایسی ہی ناجائز مطالبات کو پورا کرنے کی دھن میں عقل سے عاری ہو چکی ہیں ۔انہیں احساس بھی نہیں ہے کہ کل ان کا استحصال گھر کے اندر ہو رہا تھا اور آج گھر کے باہر ہو رہا ہے۔یہ آزادی نہیں ہے سراب کا سا دھوکہ ہے جو اس کے ارد گرد دبیز دھوئیں کی شکل میں گھیرا بنائے ہوئے ہے جس کے اس پار اسے کچھ نہیں دکھ رہا۔
ایسے کئی ایک تصورات موجود ہیں جو ہندوستانی عورت کے تانیثی شعور کے ضامن ہیں جن کا احاطہ ایک چھوٹے سے مضمون میں کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔المختصر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ہندوستانی عورت کا تانیثی شعور بیدار بھی ہے اور متحرک بھی۔ایک خوشحال زندگی کے لیے اپنے بنیادی حقوق کا شعور اور بحیثیت انسان سماج میں برابری کے درجے کی معلومات سے وہ نہ صرف آگاہ ہے بلکہ اس کا مطالبہ بھی کرتی ہے۔دیہی علاقے کی انپڑھ عورت فیمنزم یا تانیثیت کے لفظ سے نا مانوس ہو سکتی ہے مگر اپنے حقوق کے تئیں بے داری کاجذبہ اس کے اندر بھی موجزن نظر آتا ہے۔اس لیے عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ ایسی عورتیں بھی معاشرے کے خلاف جاکر اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلانے میں کوشاں نظر آتی ہیں کہ آگے چل کر ان کی بیٹیاں ان کی طرح زندگی نہ گزاریں۔یہاں یہ عورتیں بھی فیمنزم سے نا واقفیت کے باوجود فیمنسٹ کہلائی جائیں گی۔بیس سال پہلے ساؤتھ ایشیا کی چند روشن خیال خواتین کے ذریعہ حقوق نسواں کے علمبرداروں کے لئے پیش کیاگیا تعارف ایک فیمنسٹ کی شخصیت کی بہترین عکاسی کر رہا ہے:
"Anyone who recognizes discrimination against women and girls, within the family, at the place of work and in society in general, and who takes action against this discrimination is a feminist."
آج ہندوستانی عورت ایک ایسے دن کی صبح کا انتظار کر رہی ہے جب آزادی‘ تحفظ اور برابری کے حق سے مرد کی طرح عورت بھی مکمل طور سے بہرہ ورہو۔میں اپنے اس مقالے کو ادا جعفریؔ کی نظم’ سانجھ سویرے‘کے ان اشعار پر ختم کرنا چاہتی ہوں جن میں ایسی ہی روشن صبح کا ذکر کیا گیا ہے:
بھیگی بھیگی پلکوں والی
جتنی آنکھیں ہیں میری ہیں
دکھ کی فصلیں کاٹنے والے
جتنے ہاتھ ہیں میرے ہیں
شاخ سے ٹوٹی کچی کلیاں
آگ میں جھلسے کومل مکھڑے
الجھی الجھی لٹ بھی میری
دھجی دھجی آنچل بھی
کالی رات کی چادر اوڑھے
اجلے دن کا رستہ دیکھ رہی ہوں
qqq
Shazia Tamkeen
C/o. Dr. Shahnawaz Alam
156-Wasiabad, Noorullah Road
Allahabad-21100 (U.P)
"I believe Feminism has been and should be like a water. Water takes the shape of the pot it is put into." (http://www.youtube.com/watch?v=GiGjq3dGeJI&t=2031s) ہرملک میں عورت کے معاشرتی ‘سیاسی اور معاشی حالات‘ تعلیم‘ رسم و رواج‘طبقاتی درجوں کے تحت نسائی مطالبات سامنے آئے ہیں ۔مگر چند ایسے مطالبات بھی موجود ہیں جو عالمی حیثیت رکھتے ہیں کیوں کہ عورتوں کے مسائل اور ان کے خلاف امتیازی رویہ مشرق و مغرب دونوں خطوں میں نظر آتا ہے۔تقریباًڈیڑھ صدی قبل مغربی خاتون ووٹ ڈالنے ‘جائداد کی ملکیت اور اپنی مزدوری کا معاوضہ حاصل کرنے سے محروم تھی۔زندگی کے ہر شعبے میں مساوی حقوق حاصل کرنے میں اسے کافی جد و جہد کرنی پڑی۔آہستہ آہستہ اپنے حقوق کی لڑائی لڑتے ہوئے اس نے قانونی ‘سیاسی ‘معاشی میدانوں میں اپنی قابلیت کو منوایا۔آج بھی اس کی یہ لڑائی جاری ہے کیوں کہ زیادہ تر حقوق حاصل کرنے کہ باوجود کچھ بنیادی مطالبات آج بھی سر اٹھائے کھڑے ہیں۔
مجوعی طور پر اگر دیکھا جائے توہندوستانی عورت اپنے حقوق سے آگاہ ہے۔اور اس کے حصول کے لیے کوشاں بھی نظر آتی ہے۔ہندوستان میں تانیثی تصورات کے متعلق عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ مغرب سے مستعار ہیں۔مگر ہندوستانی عورت نے اپنے حقوق کی آگہی کا جو سفر ویدک عہد سے لے کر اب تک طے کیا ہے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ہندوستانی عورت کا تانیثی نظریہ کوئی آج کی بات نہیں ہے۔رگ وید کو تصنیف کرنے والوں میں جو بیس عورتوں کے نام شامل ہیں ان کا ادبی شعور اور تعلیمی آگہی ان کے تانیثی شعور کے ضامن ہیں۔ویدک عہد میں Yajnavalkyaسے پوچھے گئے ایک ویدک اسکالرگارگی کے دقیق اور پیچیدہ سوالات اس کے تانیثی شعور کی گواہی دیتے ہیں۔کملا بھسین (Kamla Bhasin)اس کے متعلق اپنی ایک تقریر میں کہتی ہیں:
"Even a feminism was western but it was a good idea, I would accept it. Political ideology of marxism came from there we had adopted it. Feminism is not western it is local.......At Mahatma Buddha's time women went and said, Buddha! we want to join your Sangha. He said no First, women did not go back. They went to Ananda and said, see, your director is saying we can't join. Then Ananda went to Mr Buddha and said, "Buddha! woh to hadtal kar rahi hain, woh nahin jayengi." 2500 hundred years ago in India, debate taking place for women's rights within religion......After this debate Budhdha said, You may join......he took a revolutionary step of allowing women to come in. So, for me Buddha is feminst and those five hundred women who went the Buddha, were feminst fighting for their rights.
(http://www.youtube.com/watch?v=GiGjq3dGeJI&t=2031s)
سمراٹ اشوک کی بیٹی سنگھ مترا پہلی مبلغ خاتون تھی جو بدھ کی تعلیمات کی تبلیغ کی غرض سے شری لنکا تک گئی تھی۔جین مت کے چوبیس گروؤں میں ویدیا کی راج کماری ملّی بھی شامل تھی اور اگر مشرقی تناظر میں دیکھا جائے تو حضرت محمدؐ پہلے انسان ہیں جنہوں نے چودہ سو سال پہلے مردانہ بالادستی (Petriarchy)کے خلاف مہم چھیڑی۔چودہ سو سال پہلے کہاں تھا مغرب اور کہاں تھے ان کے حقوق؟اسلام پہلا مذہب ہے جس نے صحیح معنوں میں عورت کو اس کے حقوق سے روشناس کرایا اور روایتی قانون کے خلاف پہلی احتجاجی لے وہیں سے سنائی دیتی ہے۔
ڈاکٹر نجیبہ عارف کے ذیل کے بیان سے مشرقی عورت کے احساس اور مطالبے کی بہترین عکاسی ہو رہی ہے:
’’عورت نہ تو اپنے بنیادی وظیفۂ حیات سے منکر ہے نہ اخلاقی قیود سے آزادی کو اپنی منزل قرار دیتی ہے۔سوال صرف اس ذہنی نشو و نما اور ارتقاء کا ہے جس کا حق مرد وزن کو یکساں طور پر فراہم کیاجانا چاہیے۔عورت کو بھی اپنی ذات کی تکمیل اور شخصیت کے اظہار کے وہ تمام مواقع ملنے چاہئیں جو اب تک صرف مرد کا حصہ سمجھے جاتے ہیں۔‘‘
(مشمولہ:پاکستانی اردو افسانہ نگار خواتین کے افسانوں میں نسوانی کردار‘فوزیہ رانی‘ ص۔49)
ہندوستانی عورت اپنے بنیادی فرائض سے قطعاًمنکر نہیں ہے۔یہ وہ فرائض ہیں جو مرد مقابل صنف ہونے کے ناطے ایک منظم معاشرے کی تکمیل کے سبب اس کی شخصیت کے ساتھ منسلک ہیں۔ان فرائض کے تئیں وہ ہمیشہ باشعور رہی ہے مگر مرد بالادست سماج میں اسے ہمیشہ ثانوی درجہ ملا۔اس لیے وہ عزت نفس اور اپنی ذہنی وفکری آزادی کے تشخص کی صدا بلند کرتی ہے جو ایک انسان کی حیثیت سے اس کا حق ہے۔
تانیثی فکر پر عورتوں کی اجارہ داری ضروری نہیں۔مرد بھی اس نظریے کے حامل اور ان کے حقوق کے حصول میں معاون ہو سکتے ہیں۔ جدید ہندوستان میں انگریزوں کی ما تحتی میں سب سے پہلے عورتوں کی فلاح و بہبودی کے لیے صدا بلند کرنے والے مرد حضرات ہی تھے جن کی کوششوں سے مختلف تحریکات وجود میں آئیں جن میں ’برہمو سماج اور آریہ سماج‘نے نمایاں کام انجام دیا۔راجا رام موہن رائے‘ایشور چندر ودیہ ساگر‘کشیپ چندر سین وغیرہ روشن خیال اور باشعور مردوں کی انتھک کوشش اور بے لاگ مخالفتوں کی وجہ سے 1829میں ستی کے خلاف اور 1856میں بیواؤں کی دوسری شادی کی حمایت میں قانون پاس ہوا۔مسلمانوں میں عورتوں کے حقوق کے تئیں بیداری کی تھوڑی سی لہر سر سید احمد خان کی تحریک کے بعد پیدا ہوئی۔اگرچہ سر سیدعورتوں کی جدید تعلیم کے حق میں نہیں تھے مگر سر سید کی علی گڑھ تحریک کے زیر اثر جو تعلم یافتہ طبقہ سامنے آیا ‘اس میں آگے چل کر یہ شعور بیدار ہوا کہ عورت معاشرتی ‘معاشی اور سیاسی زندگی میں اہم رول ادا کرتی ہے۔سماجی اور سیاسی بیداری کے پہلو بہ پہلو ادبی دنیا میں بھی تانیثی تصور کے اثرات صاف جھلک رہے تھے۔اردو ادب کی بات کی جائے تو یہاں بھی پہل مرد ادیبوں نے ہی کی۔سب سے پہلے عورت کو ایک محبوبہ کے چولے سے نکال کر ایک ماں‘ایک بہن‘ایک بیٹی اور ایک بیوی کی حیثیت سے دنیائے شاعری میں متعارف کروانے والے خواجہ الطاف حسین حالیؔ ہیں۔نظم’چپ کی داد‘کے ابتدائی اشعار ملاحظہ ہوں:
اے ماؤ‘ بہنو ‘بیٹیو
دنیا کی زینت تم سے ہےملکوں کی بستی ہو تمھیقوموں کی عزت تم سے ہےصالحہ عابد حسین لکھتی ہیں:’’واقعہ یہ ہے کہ اس زمانے میں ہندوستانی عورت کے حقوق کی حفاظت (اور یاد رکھیے یہاں مسلمان عورت کا سوال نہیں ہے بلکہ ہندوستان کی ہر عورت کی حمایت پیش نظر ہے)سب سے پہلی آواز جس شخص نے بلند کی اور اس کی سماجی مظلومی کا سب سے پہلے اعتراف کیا اور اس کی حمایت کا علم اٹھایا ‘وہ حالیؔ ہی تھے۔‘‘
(صالحہ عابد حسین‘یادگار حالی‘ص۔227)
ہندوستانی عورت کے لیے تانیثیت سے مراد مرد دشمنی بالکل نہیں ہے بلکہ عورت کے استحصال کا رویہ قابل مذمت ہے چاہے ان رویوں کو اپنانے والے مرد ہوں یا عورتیں‘تانیثیت دونوں کی مخالفت کرتا ہے۔ ہندوستان میں ایسے ہزاروں گھر موجود ہیں جہاں خواتین کا استحصال خواتین ہی کرتی ہیں عموماًجس کی ابتداء بہو کے گھر میں قدم رکھتے ہی ہو جاتی ہے۔تانیثی تصور کے علم بردار ان خواتین کے خلاف بھی علم بغاوت بلندکرتے ہیں۔
تانیثی تصور کے علم بردار مثبت معاشرتی قدروں کو مسمار نہیں کرنا چاہتے بلکہ ان اقدار کا خاتمہ چاہتے ہیں جو عورت کے حقوق کی پامالی کے ذمہ دار ہیں۔جس طریقے سے عورت کا استعمال ہو رہا ہے‘ان کو غلام بنانے کی جو تدبیریں کی جارہی ہیں ان سے عورت کو اپنی فطری صلاحیتوں کی آگہی اور پیش کش کا موقع نہیں مل رہا ہے‘صرف یہی نہیں بلکہ اس کا اثر پورے معاشرے پر بھی پڑ رہا ہے جس سے معاشرہ انتشار کی طرف گامزن ہے۔ کیوں کہ ایک مثالی معاشرے کی تکمیل میں مرد وزن دونوں برابر کے ذمہ دار ہیں ،اس لیے عورت کو اس کا جائز مقام اور عزت نہ دینے کے باعث معاشرے کا استحکام اور بنیادی انسانی قدروں کا تحفظ خطرے میں پڑ گیا ہے۔اس لیے عورتوں کے حقوق کی لڑائی لڑنے والے ہندوستانی تانیثی تصور کے علمبردار جن میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں‘اپنے اخلاقی قیود میں رہ کر ہندوستانی عورت میں اپنے حقوق کے تئیں شعور و بیداری پیداکرنے میں کوشاں نظر آتے ہیں۔جس میں سب سے پہلے قدیم عہد سے چلی آرہی ستی کا رواج اور بیوہ کی دوسری شادی نہ کرنے کی رسم کی مخالفت کی گئی‘جس کے سبب 1829میں ستی کے خلاف اور 1856میں بیواؤں کی دوسری شادی کی حمایت میں قانون پاس کیا گیا۔ان دانشوروں کے ذریعہ علاقائی اعتبار سے بھی ان انسان سوز رسموں کے خلاف مہم چلائے گئے۔مکمل طور پر نہ سہی مگر کہیں کہیں بیداری کا جذبہ بھی پیدا ہونے لگا۔انہیں کوششوں کا ثمرہ تھا کہ کشمیری پنڈتوں کے فرقے میں پہلی مرتبہ ایک بیوہ لڑکی کی شادی آگرہ میں ہوئی۔اس اصلاح کی تعریف اور خیر مقدم میں چکبست نے نظم’برق اصلاح‘تحریر کی ۔اس نظم میں معاشرے میں رائج بیوہ کے عقد ثانی کے خلاف رسم کی مذمت کرتے ہوئے نئے دور میں بدلے ہوئے حالات اور قومی مصلح کی تعریف میں قصیدہ خوانی کر رہے ہیں۔کہتے ہیں کہ اگرچہ اس عمل سے کہنے کو دین و مذہب برباد ہوا مگر ہمیں اس کا کوئی دکھ نہیں ہے۔ہماری خوشی یہ ہے کہ انسان کی آزادی کا بت صحیح سلامت رہے۔اس نظم کاابتدائی حصہ ملاحظہ ہو۔
مرحبا جرأت اصلاح دلانے والو
قوم کے بارِ امانت کے اٹھانے والو
دل کی اجڑی ہوئی نگری کے بسانے والو
مادر ہند کی بگڑی کے بنانے والو
کسے طوفاں میں دیا ہے یہ سہارا تم نے
خوب ڈوبی ہوئی کشتی کو ابھارا تم نے
اسی درمیان عورتوں کی تعلیم کو بھی ضروری گردانتے ہوئے حقوق نسواں کے حامیوں نے تعلیم نسواں کو عام کرنے کی کوشش کی۔پونے میں1848میں لڑکیوں کے اسکول کی سب سے پہلی شروعات ساوتری بائی پھولے سے ہوئی تھی۔اس وجہ سے انہیں جدید ہندوستان کی سب سے پہلی فیمنسٹ مانا جاتا ہے۔تخلیق کاروں کے یہاں بھی تانیثی تصورات کی جھلک پائی جاتی ہے۔اردو شاعری کی بات کی جائے تو حالیؔ اپنی نظم ’’نظم چپ کی داد‘‘میں مرد کی اس ذہنیت کہ عورت تعلیم سے ناآشنا رہے کے پیچھے پوشیدہ اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے عورت کو شعوری طور پر بے دار کر رہے ہیں کہ :
دنیا کے دانا اور حکیم اس خوف سے لرزاں تھے سب
تم پر مبادا علم کی پڑ جائے پر چھائیں کہیں
ایسا نہ ہو مرد اور عورت میں رہے باقی نہ فرق
تعلیم پا کر آدمی بننا تمھیں زیبا نہیں
ہندوستان میں عورت کے مسائل اور مطالبات اس کے اپنے ماحول اور اقدار سے متعلق ہیں۔ یہاں کی عورت اخلاقی قید سے بالا تر آزادی کی خواہاں نہیں۔ وہ مغرب کی نسائی تحریک کی علمبرداروں کی طرح ایسی جنسی آزادی کی خواہش مند با لکل بھی نہیں ہے جس سے وہ بے راہ روی کا شکار ہو جائے۔ یہاں کی عورت مرد کی رقابت کے بجائے اس کی رفاقت کی خواہاں نظر آتی ہے۔رفیعہ شبنم عابدی کی نظم ’نصف بہتر‘ملاحظہ ہو:
’کچھ اختلاف نظر نے بھی دل دکھایا تھا؍کچھ اضطراب کا باعث بنا سلوک اس کا؍خیال دل میں تو آیاکہ چھوڑ جاؤںیہ در؍یہ آرزو بھی نہیں تھی کہ روک لے وہ مجھے؍سوال یہ تھا کہ دہلیز کیسے پار کروں؍ہزار مسئلے گھیرے ہوئے تھے گھر میں اسے؍۔۔۔۔۔۔وہ احتساب کے گرداب میں اکیلا تھا؍اسی لیے تو قدم اٹھ نہیں سکے شاید؍میں جانتی تھی کہ اسے مری ضرورت ہے!!‘
اس تصور کے ساتھ ہندوستانی خاتون گھر کو توڑنے کے بجائے اسے خوشحال بنانے کی چاہ میں ہمیشہ کو شاں رہتی ہے۔اس صورت میں وہ مرد اور عورت دونوں کی ذات کے تشخص اور دونوں میں حقوق نسواں کے تئیں شعوری بیداری پیداکرنا چاہتی ہے۔مغرب میں بن بیاہی ماؤ ں کے مسائل موجود ہیں جب کہ ہمارے یہاں اس کا تصور ممکن نہیں۔ہر عورت ماں بنے سے پہلے شادی جیسے پاک جذبے کی خواہش مند رہتی ہے۔طلاق یا بیوگی کی حالت میں اس عورت اور بچوں کی کفالت کی ذمہ داری مغرب کی طرح ریاستی نہیں بلکہ معاشرتی ہے۔بیوگی کی حالت میں خاندان یا برادری کے لوگ اور طلاق کی حالت میں شوہر اس عورت کی کفالت کی ذمّہ داری اٹھاتا ہے۔
ہندوستان کے آئین کے مطابق عورتوں کا درجہ بحیثیت انسان مردوں کے مساوی ہے وہ آزاد شہری کے حقوق رکھتی ہیں۔ عورتوں کے لیے کئی قوانین بھی موجود ہیں جو ان کوحق تلفی سے بچانے اور ان کی دفاع کے لیے بنائے گئے ہیں مگر عملی اعتبار سے خواتین اس سے بہت کم مستفید ہو پاتی ہیں۔اس کی سب سے بڑی وجہ ان کی جہالت ہے اور دوسری وجہ ہر معاملے میں گھر کے مردوں پر انحصار کرنا ہے۔یہاں تک بھی دیکھا جاتا ہے کہ ووٹ ڈالنے سے پہلے انہیں پتہ نہیں رہتا ہے کہ وہ کس کا اور کیوں انتخاب کریں۔یہاں بھی وہ گھر کے مرد پر ہی منحصر رہتی ہیں۔اس لیے ہندوستانی تانیثی تصور کے علمبردار سب سے پہلے عورت میں ہی اپنے حقوق کے تئیں بیداری پیدا کرنا چاہتے ہیں۔انگریزی کی پروفیسر اور ناول نگار منجو کپور لکھتی ہیں:
"A women should be aware, selfcontrol, strong will, self reliant and rational, having faith in the inner strength of womenhood. A meaningful change can be deeper psychic sense."
(Manju Kapur, 'A married women', penguin pub, New Delhi, 2002, p-23)
عورتوں کی گھریلو مشقت جسے کام کے زمرے میں شمولیت نہیں ملتی ‘پوری دنیا میں تانیثی تحریک کے پیش نظر رہا ہے۔ ہندوستانی عورت اپنے اس کام کا معاوضہ تو نہیں مانگتی مگر یہ چاہتی ہے کہ اس کے اس کام کی قدر کی جائے ۔چوں کہ اس کے اس گھریلو کام کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی اس لیے وہ بھی گھر سے باہر نکل کر مردوں کی طرح مختلف شعبوں میں کام کرنے کی بھی خواہاں نظر آتی ہے۔ہندوستان کے دیہی علاقوں میں ایسی بھی خواتین موجود ہیں جو گھر اور کھیتوں میں بلا معاوضہ محنت و مشقت کرتی دکھائی دیتی ہیں۔تعلیم سے محروم ان خواتین کی اکثریت اپنے حقوق سے آگاہ نہیں ہے۔ان کی محنت سے جو بھی آمدنی ہوتی ہے زیادہ ترایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ اس کی شکل تک بھی دیکھنے سے محروم رہتی ہیں۔اس پر صرف مرد کا حق ہوتا ہے۔مگر یہ خواتین ان بنیادی انسانی مطالبات کی ضرورت شدت سے محسوس کرتی ہیں جو بحیثیت انسان ان کی محنت کا اجر اور ان کی کمائی پر انہیں آزادانہ تصرف کا اختیار دے سکیں۔ایک شعر ملاحظہ ہو:
ظلمتوں کے دشت میں اب کس لیے بھٹکا کروں
مجھ کو میرے خضر نے وہ راہ دکھلائی نہ پوچھ
(رخسانہ جبیں)
موجودہ دور میں لڑکیوں کی تعلیم پر زیادہ توجہ دی جارہی ہے ۔وہ اپنی ماؤں سے زیادہ تعلیم حاصل کر رہی ہیں مگر زیادہ تر یہی دیکھا جاتا ہے کہ خاندان کی ترقی لڑکوں کے ساتھ ہی وابستہ ہےA.S. Altekarکے مطابق؛
"In ancient times an all patriarchal soceities the birth of a girl was generally an unwelcome event. Almost everywhere the son was valued more than the daughter. He was a permanent economc asset of the family.He lived with his aged parents and didnot like the daughter to another family after the marriage. He perpetuated the name of his father's family."
(A.S. Altekar,The position of women in Hindu civilization: from prehistoric times to the present day, p-3)
آلٹیکر کا مذکورہ بیان قدیم ہندوستان کے تناظر میں ہے مگر آج بھی ہندوستان میں زیادہ تر ایسے گھرانے موجود ہیں جو لڑکیوں سے زیادہ لڑکوں کی پیدائش اور ان کی تعلیم کو ترجیح دیتے ہیں۔بنیادی وجہ وہی ہے جو آلٹیکر نے بیان کیا مگر ہندوستان کی تعلیم یافتہ عورت اپنے علم و ہنر کی قدر و قیمت چاہتی ہے۔اپنی ذات کے تئیں اپنے والدین کی توجہ اور محبت و شفقت کی متقاضی ہے ۔پیدائش سے پہلے ہی جبراًماں کی کوکھ میں اسے ختم کر دیا جاتا ہے اس لیے یہاں کی عورت اسقاط حمل میں اپنا اختیار چاہتی ہے۔
عورتوں پر ہو رہے گھریلو تشدد کی خبریں آئے دن سننے میں آتی ہیں جس کا شکار نچلے اور غریب طبقے کی عورت ہی نہیں بلکہ اوسط‘ اونچے اور امیر گھرانوں کی عورتیں بھی ہوتی ہیں۔ایسابھی ہوتا ہے کہ عورتوں کو اپنی جان تک گنوانی پڑتی ہے۔اشعار ملاحظہ ہو:
ایک چھوٹی سی چھت کی خاطر کیا کیا خواب گنوا بیٹھی تھی
بھول گئی کہ اینٹیں اس کی مٹی گارے اس کے تھے
زنجیروں کے بدلے اب بھی گہنے پاتے بنتے ہیں
صدیوں سے یہ جبر کے بندھن بیچ ہمارے اس کے تھے
(کہکشاں تبسم)
اس آگہی کے ساتھ ہندوستانی عورت گھر میں برابری کا درجہ چاہتی ہے۔مردوں کے ظلم و جبر سے آزادی کی طلب گار ہے۔اپنی ذات کی شناخت کے لیے آزاد ملک کی آزادی کے ثمرات سے بہرہ ورعورت آئے دن نئے نئے مسائل سے دو چار ہوتی رہتی ہے۔ گھر تک محدود تھی تو گھریلو مسائل کا سامنا تھااور گھر سے باہر نکلی تو اس طرف بھی مسائل کا انبار اس کا استقبال کررہا ہوتا ہے۔یہ آج کی عور ت کا کرب ہے کہ بیک وقت اسے دوہری زندگی گزارنی پڑ رہی ہے۔ایک طرف دوہری ذمہ داری کے بوجھ سے پریشان ہے تو دوسری طرف ہر ہر قدم پر عزت کے تشخص کا مسئلہ درپیش نظر آتا ہے۔آج کی عورت ایک ایسے معاشرے کا تقاضا کرتی ہے جہاں مرد کی طرح عورت بھی بلا خوف و خطر کہیں بھی آجا سکے۔مردوں کی شہوت بھری نگاہوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔دیگر پریشانیوں کے ساتھ ساتھ عزت کے تحفظ کی فکر دامن گیر نہ رہے۔ایسی حالت میں آج کی خاتون اس جذبے سے معمور نظر آتی ہے:
بدل دیں گے ذرا سا وقت کو بس
اِدھر کا کچھ اُدھر کرنا پڑے گا
(مسرت انجم)
ہندوستان میں چونکہ مختلف مذاہب سے جڑے ہوئے لوگ رہتے ہیں جو مذہبی اعتبار سے مختلف قاعدے و قوانین کی پیروی کرتے ہیں۔ہندو مذہب میں مختلف ورنوں کا رواج ہے جہاں سب سے چھوٹا طبقہ شودر کہلاتا ہے جن میں دلت طبقہ بھی شامل ہے۔اس طبقے کی عورتیں دو طرح کے مسائل سے دوچارہوتی ہیں ۔ایک توشودر کے لحاظ سے مرد کے ساتھ ساتھ ان کا بھی مختلف طرح سے استحصال کیا جاتا ہے اور دوسرا ایک عورت ہونے کے ناطے مختلف طرح کے مسائل کا سامنا کرتی ہیں ۔ اسی طرح مسلمانوں میں بھی ہندوستانی تہذیب کے اثرات کی بنسبت مختلف علاقوں میں عورت نسلی امتیازات کا شکار رہتی ہے۔اس لیے ہندوستان میں بھی اس تصور کے حامی"The personal is the political"یعنی ’’نجی ہی سیاسی ‘‘کے نعرے کی تائید کرتے ہیں۔ کیوں کہ جس کسی بھی گھر میں عورت تشدد کا شکار ہے چاہے وہ کسی بھی مذہب یا طبقے سے کیوں نہ تعلق رکھتی ہو‘تو یہ گھریلو یا نجی معاملہ نہیں ہے بلکہ عوامی معاملہ ہے۔اگر کسی بھی لڑکی کی شادی جہیز دے کر کی جائے تو یہ ان کا نجی معاملہ نہیں ہے اس سے پورا معاشرہ متا ثر ہوتا ہے۔اس لیے ہندوستانی عورت بھی گھر اور معاشرے میں نیچے سے اوپر تک ہر طرح کے تشدد کا خاتمہ چاہتی ہے۔اس لیے فیمنسٹ "Universal Sisterhood"کی بات کرتے ہیں۔
ہندوستان میں دور حاضر میں کھل عام نہ سہی مگر پوشیدہ طور پر عورت عصمت فروشی کے بیوپار سے بھی جڑی ہوئی ہے۔اس کے پیچھے کئی وجوہات کارفرما نظر آتے ہیں۔مگر عمومی طور پرغریبی‘بے روزگاری اہم اسباب ہیں۔اس لیے تانیثی نظریہ رکھنے والے مانتے ہیں کہ چونکہ ہندوستانی قانون سماج میں عورتوں کو برابری کا درجہ دیتا ہے تو سب سے پہلے سماج کو انہیں معاشی‘سماجی اور نفسیاتی تحفظ کی ضمانت دینی ہوگی اور حکومت سے یہ مانگ کرتے ہیں کہ عورتوں کو اس پیشے سے نجات دلانے کے لیے ان کی معاشی بحالی کا انتظام کیا جائے۔
جہاں تک ادب کی بات آتی ہے یہاں بھی مردوں کی اجارہ داری موجود تھی ۔مغربی خاتون کی طرح ہندوستانی خاتون اس عصبیت کو دور کرنا چاہتی ہے۔ایک وہ دور تھا جب خواتین اپنے احساسات و جذبات کو الفاظ کے موتیوں سے پرونے کے لیے بے چین و بے قرار تھیں مگران کی تحریری صلاحیتوں کو لائق اظہار نہیں سمجھا جاتا تھا۔ادیبائیں اپنا نام بدل کر اپنی تخلیقات کو منظر عام پر لاتی تھیں۔اشعار ملاحظہ ہوں:
میں درد جاگتی ہوں‘ زخم زخم سوتی ہوں
نہنگ جس کو نگل جائے ایسا موتی ہوں
وہ میری فکر کے روزن پہ کیل جڑتا ہے
میں آگہی کے تجسس میں خون روتی ہیں
(ترنم ریاض)
اور آج کا دور ہے جہاں انہوں نے ادب میں بھی اپنی صلاحیتوں کو منوایا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ماضی میں مردوں کے ذریعہ تخلیق کردہ ادب جس میں انہوں نے عورت کو اسی طرح پیش کیا جس طرح انہیں رکھا گیاتھا‘انہوں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ اسے کیسا ہونا چاہیے‘یا اس روایتی ڈھانچے سے الگ اور کیسی ہو سکتی ہے؟اس لیے متون میں عورت کردار کا ازسرِنو مطالعہ عورت کے نظریے سے کیا جانا چاہیے۔اس لیے مرد تخلیق کاروں کے ذریعہ پیش کی گئی عورت کی شبیہہ کو فیمنسٹ ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ان کا ماننا ہے کہ انہوں نے عورت کو جس طرح دکھایا ہے وہ کسی بھی پہلو سے قریب از قیاس نہیں ہے۔ان تخلیقات میں جس روایتی Stereotypeعورت کو پیش کیا گیا ہے ‘ا س کے مطالعے سے قاری کبھی بھی یہ نہیں جان پائے گا کہ عورت کے اندر بھی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت موجود ہے‘جیسا مرد اسے دکھارہا ہے وہ ویسی ہی ہے یا ویسی بنا دی گئی ہے۔
گزشتہ دو صدیوں میں فیمنزم کی تحریک نے عورتوں کے لئے تعلیم اور ملازمت کے مساوی مواقع‘جائیداد کی ملکیت کا موقع‘ووٹ دینے کا حق ‘پارلیمنٹ میں نمائندگی کا موقع‘برتھ کنٹرول‘شادی اور طلاق وغیرہ کے حق کے حصول میں خاطر خواہ کام انجام دیا ہے۔جو ہندوستانی عورت کے جد وجہد کی کامیابی کی ضمانت ہے۔مگر کہیں کہیں یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ مغربی خواتین کی نقالی میںآج کی جدیدہندوستانی عورت اس تحریک کے بنیادی مقاصد کو بھلا کر بے راہ روی کا شکار ہو گئی ہے۔ مردوں سے جنگ یااپنے حیاتیاتی نظام کے خلاف جاکر ان کی طرح بن جانایا صدیوں سے ہو رہے ظلم و جبر کا بدلہ مردوں سے لینا‘ان کو ان کے حقوق سے دور کر دینا‘قدرت کے ذریعہ رائج کیے گیے سہولیات سے انہیں محروم کر دینا ‘زندگی کے ہر میدان میں انہیں کمتر اور خود کو برتر دکھانا وغیرہ اس تحریک کے مقاصد نہیں ہیں ۔مگر آج مساوات مرد و زن کے متعلق جدید عورت کا نظریہ کہیں نہ کہیں انہیں سارے عناصر سے جڑچکا ہے۔عورت نے اپنے بدلے کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے فطری روش کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور مصنوعی طریقے کو اپنا لیا ہے جس کی بدولت خاندانی نظام تتر بتر ہو رہاہے ‘بچے اپنے والدین کی محبت سے محروم ہو رہے ہیں‘نوجوان پیڑھی جنسی بے راہ روی کا شکار ہو رہی ہے‘مجرد رہ کر ہم جنس پرستی جیسے لعنت کو اپنایا جارہا ہے‘تولید کے فطری طریقے کو چھوڑ کر مثنوعی طریقوں کو اپنایا جا رہا ہے۔شادی شدہ زندگیاں ابدی خوشیوں سے محروم ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے معاشرے میں طلاق کی کثرت دیکھنے کو مل رہی ہے۔عورتیں اپنی ایسی ہی ناجائز مطالبات کو پورا کرنے کی دھن میں عقل سے عاری ہو چکی ہیں ۔انہیں احساس بھی نہیں ہے کہ کل ان کا استحصال گھر کے اندر ہو رہا تھا اور آج گھر کے باہر ہو رہا ہے۔یہ آزادی نہیں ہے سراب کا سا دھوکہ ہے جو اس کے ارد گرد دبیز دھوئیں کی شکل میں گھیرا بنائے ہوئے ہے جس کے اس پار اسے کچھ نہیں دکھ رہا۔
ایسے کئی ایک تصورات موجود ہیں جو ہندوستانی عورت کے تانیثی شعور کے ضامن ہیں جن کا احاطہ ایک چھوٹے سے مضمون میں کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔المختصر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ہندوستانی عورت کا تانیثی شعور بیدار بھی ہے اور متحرک بھی۔ایک خوشحال زندگی کے لیے اپنے بنیادی حقوق کا شعور اور بحیثیت انسان سماج میں برابری کے درجے کی معلومات سے وہ نہ صرف آگاہ ہے بلکہ اس کا مطالبہ بھی کرتی ہے۔دیہی علاقے کی انپڑھ عورت فیمنزم یا تانیثیت کے لفظ سے نا مانوس ہو سکتی ہے مگر اپنے حقوق کے تئیں بے داری کاجذبہ اس کے اندر بھی موجزن نظر آتا ہے۔اس لیے عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ ایسی عورتیں بھی معاشرے کے خلاف جاکر اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلانے میں کوشاں نظر آتی ہیں کہ آگے چل کر ان کی بیٹیاں ان کی طرح زندگی نہ گزاریں۔یہاں یہ عورتیں بھی فیمنزم سے نا واقفیت کے باوجود فیمنسٹ کہلائی جائیں گی۔بیس سال پہلے ساؤتھ ایشیا کی چند روشن خیال خواتین کے ذریعہ حقوق نسواں کے علمبرداروں کے لئے پیش کیاگیا تعارف ایک فیمنسٹ کی شخصیت کی بہترین عکاسی کر رہا ہے:
"Anyone who recognizes discrimination against women and girls, within the family, at the place of work and in society in general, and who takes action against this discrimination is a feminist."
آج ہندوستانی عورت ایک ایسے دن کی صبح کا انتظار کر رہی ہے جب آزادی‘ تحفظ اور برابری کے حق سے مرد کی طرح عورت بھی مکمل طور سے بہرہ ورہو۔میں اپنے اس مقالے کو ادا جعفریؔ کی نظم’ سانجھ سویرے‘کے ان اشعار پر ختم کرنا چاہتی ہوں جن میں ایسی ہی روشن صبح کا ذکر کیا گیا ہے:
بھیگی بھیگی پلکوں والی
جتنی آنکھیں ہیں میری ہیں
دکھ کی فصلیں کاٹنے والے
جتنے ہاتھ ہیں میرے ہیں
شاخ سے ٹوٹی کچی کلیاں
آگ میں جھلسے کومل مکھڑے
الجھی الجھی لٹ بھی میری
دھجی دھجی آنچل بھی
کالی رات کی چادر اوڑھے
اجلے دن کا رستہ دیکھ رہی ہوں
qqq
Shazia Tamkeen
C/o. Dr. Shahnawaz Alam
156-Wasiabad, Noorullah Road
Allahabad-21100 (U.P)
قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں