5/7/18

فکشن تنقید کا سپہ سالار: وارث علوی۔ مضمون نگار آس محمد صدیقی


فکشن تنقید کا سپہ سالار: وارث علوی
آس محمد صدیقی


وارث علوی (11 جون1928۔9 جنوری 2014) اردو کے اہم اور منفرد نقاد ہیں۔ انھوں نے تقریباً دو درجن کتابیں تصنیف کرکے فکشن تنقید میں اپنی انفرادیت اور اہمیت کے پرچم نصب کیے۔ان کی اہم تصانیف میں تیسرے درجے کا مسافر،اے پیارے لوگو،حالی مقدمہ اورہم، خندہ ہائے بیجا،کچھ بچالا یا ہوں،پیشہ تو سپہ گری کا بھلا،جدید افسانہ اور اس کے مسائل،فکشن کی تنقید کا المیہ، اوراق پارینہ،ادب کا غیر اہم آدمی، لکھتے رقعہ لکھے گئے دفتر، ناخن کا قرض،سرزنش خار، راجندر سنگھ بیدی ایک مطالعہ،گنجفہ باز خیال،او ربتخا نہ چین وغیرہ کا شمار ہو تا ہے۔علاوہ ازیں ان کے کئی مضامین رسائل و جرائد کی زینت بنے جن کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے مختلف النو ع موضوعات پر مضامین تحریر کیے۔
یوں تو وارث علوی کا شما ر فکشن کے ناقدین میں ہو تا ہے لیکن انھوں نے اردو شعرا کو بھی اپنے مطالعے کا موضوع بنا یا اور متعدد شاعروں پر تنقیدی مضامین تحریر کر کے اس بات کا ثبوت فراہم کیا کہ وہ نہ صرف نثری اصناف ادب کے پارکھ ہیں بلکہ شاعری کی دنیا بھی ان کی نگاہوں میں ہے۔غالب اور اقبال سے لے کر محمد علوی او رندا فاضلی تک ایسے بے شمار شعرا ہیں جن کے کلام پر وارث علوی نے جامع اور مدلل بحث کی ہے۔ 
انھوں نے اردو فکشن او ر فکشن نگاروں کا فنی و جمالیاتی مطالعہ کیا او ر پھر ان پر غیر جانبدارانہ طور پر رائے دی۔ کلاسیکی فکشن نگاروں سے لے کر جدید او رمابعد جدید فکشن نگاروں تک شاید ہی کو ئی ایسا قابل ذکر افسانہ نگار ہو جس کے فن کا تنقیدی جا ئزہ وارث علوی نے نہ پیش کیا ہو، کرشن چندر، اپندر ناتھ اشک، بلونت سنگھ،عصمت چغتائی، رام لعل، عزیز احمد، انتظار حسین، غیاث احمد گدی، ضمیر الدین شاہ،لالی چودھری،فہمیدہ ریاض،شفق،شیر شاہ سید، ترنم ریاض، خالد جاوید او ردوسرے بہت سے فکشن نگاروں پر انھوں نے جامع اور مدلل مضامین لکھے۔وہ جب کرشن چندر جیسے بڑے فکشن نویس پر قلم اٹھاتے ہیں تو ان کا منشا صرف کرشن چندر کی فنی خوبیوں اور خامیوں کو موضوع بحث بنانا ہو تا ہے۔کرشن چندر کی شخصیت کو وہ بحث کا موضوع نہیں بناتے۔
ان کا اصل میدان افسانوی تنقید ہے۔انھوں نے سعادت حسن منٹو پرایک کتاب ’منٹو۔ایک مطالعہ‘ کے نام سے لکھی جس میں منٹو کے متعلق پھیلی ہو ئی غلط فہمیوں کو دور کر نے کی کو شش کی۔ اردو کا ایک طبقہ منٹوپرجنس نگاری کا لیبل لگاتا ہے بلکہ اس موضوع کو بنیاد بناکر ان پر مقدمات بھی قائم کیے گئے۔ اس قسم کے لوگوں میں جلد بازی کا عنصر کچھ زیادہ نظر آتا ہے۔وہ دور بینی سے بھی محروم دکھائی دیتے ہیں،ان کی نظریں سکے کے ایک ہی رخ کو دیکھ سکیں۔یہ صحیح ہے کہ منٹو نے جنسی موضوعات پر قلم اٹھا یا بہت بیباکی سے ان پر باتیں کی لیکن ان کے علاوہ بھی موضوعات کی ایک دنیا ان کے یہاں نظر آتی ہے۔اگر ایک طرف وہ ’ٹھنڈا گوشت‘ اور ’کالی شلوار‘ جیسے افسانے لکھتے ہیں تو دوسری طرف ’ تماشہ‘اور’ نیا قانون‘ جیسے افسانے بھی ہیں جو منٹو کے سماجی اورسیاسی شعورکا پتہ دیتے ہیں۔ وارث علوی نے منٹو کے فکر و فن کا نہایت ہی سنجیدگی سے مطالعہ کیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ منٹو دراصل ایک ایسے فن کار ہیں جو حقیقت او رتخیل کی آمیزش میں کامیاب ہیں،اس تعلق سے وہ لکھتے ہیں:
’’فن کے اس اعلیٰ مقام پر تھا جہاں حقیقت اور افسانہ کا فرق مٹ جاتا ہے۔اس لیے یہ فریب پیدا ہو تا ہے کہ منٹو کیمرے کی آنکھ سے ہر چیز کو دیکھتا ہے،کیمرے کی آنکھ سے آرٹ پیدا نہیں ہو تا،کیونکہ آرٹ حقیقت اور تخیل کی آمیزش کا نام ہے۔تخیل کے پر لگا کر اڑنا لیکن حقیقت سے اپنا رشتہ نہ توڑنا فن کی معراج ہے ۔‘‘1
منٹوکے فکر وفن سے آگہی کے لیے دراصل ایک ایسا ذہن درکار ہے جو ادب اور جمالیات کی پرکھ بھی رکھتا ہواور ادبی نقطہ نظر سے ایک پختہ ذہن کا بھی مالک ہو کیونکہ وارث علوی کے مطابق :
’’منٹو اور میرا جی نے اپنی نظمیں اور افسانے نا پخت اور فاتر العقل لوگوں کے لیے تخلیق نہیں کیے۔ان کی تخلیقات اعصاب سے نہیں کھیلتیں،بلکہ جمالیاتی تجربے کی تشکیل کی کوشش کر تی ہیں۔‘‘2
اسی طرح راجندر سنگھ بیدی پر ایک کتاب ’راجندر سنگھ بیدی۔ایک مطالعہ‘کے نام سے لکھی جس میں بیدی کے تقریباً 58 افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔ وارث علوی نے افسانے کی تنقید سے متعلق اپنی اس اہم کتاب میں بیدی کے ان افسانوں کو موضوع بحث بنایا ہے جنھیں عام طور پر پڑھنے اور سمجھنے سے گریزکیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ افسانے کے عام قاری ان تک رسائی نہ حاصل کر سکے۔ وارث علوی نے اس کتاب کو دو حصوں میں منقسم کیا ہے،حصہ اول میں انھوں نے بیدی کے فکر وفن اور اسلوب پر سیر حاصل بحث کی تو حصہ دوم میں ان کے افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے،اس کے علاوہ بیدی کے مشہور ناول ’ایک چادر میلی سی ‘کاتنقیدی مطالعہ بھی پیش کیا ہے۔ اس ناول پراب تک تبصرے اور مضامین کی شکل میں سیکڑوں صفحے سیاہ کیے جا چکے ہیں لیکن وارث علوی نے اس ناول کے کرداروں کا جس طرح اپنے مخصوص اور منفرد اسلوب کے ساتھ مطالعہ پیش کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔اس تعلق سے ساجد رشید ’راجندر سنگھ بیدی۔ ایک مطالعہ‘پر تبصرہ کر تے ہوئے لکھتے ہیں:
’’وارث علوی نے جس گہرائی اور گیرائی سے ناول کے مرکزی کرداروں کی نفسیاتی گتھیوں کو کھو لا ہے وہ بیدی کے اس فن پارے کو معنویت عطا کر تا ہے۔دیگر ابواب میں افسانوں کو عنوانات کی مناسبت سے یا ان کے موضوع کی مطابقت سے گفتگو کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ بیدی کے اٹھاون افسانوں کی قرأت اور پھر ان کے موضوعات کی تخصیص کوئی سہل کام نہ تھا۔وارث علوی نے افسانوں کے جو باب قائم کیے ہیں وہ ان کی تفہیم کو ضرورسہل بناتے ہیں۔‘‘3
وارث علوی نے منٹو اور بیدی کے بعض افسانوی کردار وں کا تجزیہ اس قدر دلچسپ اور سائنٹفک انداز میں پیش کیا کہ کہا جانے لگا ان کی تنقیداتنی ہی دلچسپ ہے جتنے کہ افسانے مثلاً منٹو کے افسانے ہتک،بواو ر بابو گو پی ناتھ اور بیدی کے افسانے گرہن،کوکھ جلی،گرم کوٹ وغیرہ۔
وارث علوی نے فکشن کی تنقید میں افسانے اور ناول کی ساخت اور اس کی تکنیک کا بہت گہرا مطالعہ کیا ہے۔ پلاٹ،کردار،واقعہ نگاری،افسانے کی زبان و بیان اور افسانوی ادب کے مختلف لوازمات پر مفصل اور مدلل انداز میں لکھا۔ انھیں خاص طور پر ناول سے حد درجہ رغبت ہے۔ اس کا اندازہ ان کے ایک مضمون جس کا عنوان ہی ہے ’ناول بن جینا بھی کوئی جینا ہے ‘سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ان کے نزدیک نا ول کی تعریف یہ ہے کہ وہ انکشاف کر تا ہو، صداقت کا متلاشی ہو اور حقیقت کی تھاہ پالینے کی کوشش دکھاتا ہو۔ وہ ناول او رافسانہ کو ایک ایسا فریم مانتے ہیں جس کے اندر انسانی زندگی کی تصویر کو زیادہ معنی خیز،بصیرت افروز اور نشاط انگیز طریقہ سے دیکھ سکتے ہیں۔ وارث علوی جدید افسانہ کی مخالفت تو نہیں کرتے لیکن تجربات او رتبدیلیوں کے نام پر جدید افسانہ نگار نہ ہی افسانہ کے روایتی فن میں کوئی سود مند اضافہ کر سکا اور نہ ہی نیا فن تشکیل کر سکا انھیں جدید افسا نہ نگاروں سے حد درجہ شکایت ہے کہ:
’’نئے افسانہ نگار سے اجتہاد بن نہیں پڑا،اور نہ پلاٹ،نہ کہانی،نہ کر دار نگاری،نہ ہی زمان ومکان کی قید اس کے سامنے کسی ایسے جامد اور محجر رسومات تھے جو اس کے لیے نقطۂ انحراف کا باعث بنتے۔انحراف اور اجتہاد دونوں سے محروم نیا افسانہ نگار نہ تو پرانے فارم ہی کو کوئی تازگی دے سکا نہ نیا فارم ایجا د کر سکا۔‘‘4
تنقیدکا مسلمہ اصول ہے کہ کوئی بھی دعوی بغیر دلیل کے قابل قبول نہیں ہوتا۔اور ظاہر ہے دلائل کی بازیافت کے لیے وسیع مطالعہ درکار ہوتا ہے۔ چونکہ انگریزی،روسی او رفرانسیسی ادبیات کا مطالعہ بھی ان کا گہرا تھا اس لیے ان کی شخصیت نئے نئے افکار و آرا سے مزین تھی اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ ٹھوس دلائل پیش کرنے میں کامیاب رہے۔ وہاب اشرفی کی طرح وارث علوی بھی کبھی کسی ازم کاشکار نہیں ہوئے کیونکہ انھیں اپنی نظر پر مکمل اعتماد ہے۔ لکھتے ہیں:
’’میں ادب آرٹ اور تہذیب کے معاملہ میں کسی تحریک، رجحان یا مکتب سے کمٹ ہو نا پسند نہیں کر تا۔مجھے اپنی نظر پر اعتماد ہے اورنظر کو میں کسی نظریہ کا پابند کر نا گوارا نہیں کر تا۔‘‘5
وہ نظریات سے کام لیتے ضرور ہیں لیکن انھوں نے کبھی بھی ایک نظریے کی علمبرداری نہیں کی۔کیونکہ اگر کوئی تخلیق کار یاپھر تنقید نگار اپنے آپ کو کسی ایک نظر یے میں قید کر لیتا ہے تو پھر اس کی تنقیدنگار ی اسی نظریے کی تعبیر و تشریح کا عکس نظر آتی ہے یا بہ الفاظ دیگر کہا جا سکتا ہے کہ وہ اس نظریے کا علمبردار ہو تا ہے۔وارث علوی نے اپنے کئی مضامین میں یہ بتایا ہے کہ ادب کسی حصار میں مقید رہ کر ترقی کے منازل نہیں طے کر سکتا۔بلکہ ایک ادیب کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ آزادانہ ذہن کا مالک ہو تاکہ اس کی تخلیقات کسی مخصوص نظریے کی تعبیر و تشریح سے یکسر پاک ہوں۔ان کا کہنا ہے ایک اچھے ادیب کا ذہن تمام طرح کی بندشوں سے پاک ہوتا ہے۔وہ بہت سارے خیالات سے فیض ضرور حاصل کرتا ہے مگر کسی ایک خیال اور نظریے کا پابند نہیں ہوتا۔اس ضمن میں وہ لکھتے ہیں:
’’فنکار تو اپنے فن کے ذریعے اپنی ذات کا عرفان حاصل کر کے پوری کائنات کو سمجھتا ہے وہ تو یہی دیکھتا ہے وہ خود کیا ہے،پرچھائیں یا آدمی۔اگروہ پرچھائیں ہے تو ایک طرفی میکانکی،تبلیغی اور تلقینی ادب پیدا کر تا ہے۔اگر آدمی ہے تو وہ ادب پیدا کر تا ہے جو پہلودار ہے، آرزوؤں کی انجمن اوراندیشوں کا نگار خانہ ہے،سوز ساز و رومی اور پیچ و تاب رازی کی رزم گاہ ہے۔‘‘6
وارث علوی ترقی پسند تنقید سے تو خاصا بدظن نظر آتے ہیں کیونکہ اس کی بنیاد چند ایسے عقائد اور تصورات پر ہے جو ادب نہیں بلکہ ایک مخصوص فلسفہ سے ماخوذ ہیں اور فلسفہ بھی ایسا جو یا تو مبلغانہ ہے یا محاربانہ۔ ایک مبلغ کے نزدیک صحیح اور غلط کی اتنی اہمیت نہیں ہوتی جتنی اس کے نظریے کی۔اسے اس بات سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا کہ دراصل حقیقت کیا ہے،وہ اسی کو حقیقت مان رہا ہوتا ہے جس کے لیے وہ اپنے حواس کو بہت پہلے ہی قائل کر چکا ہوتا ہے اور اب اس کی نظر اپنے اسی نظریے کی تعبیر و تشریح پر مرکوز رہتی ہے۔اس تناظر میں اگر ہم ترقی پسندوں کو دیکھیں تو بقول وارث علوی وہ اتنے راسخ العقیدہ ہوتے ہیں کہ دوسرے لوگ انھیں دشمن نظر آتے ہیں۔اپنی کتاب ’خندہ ہاے بیجا‘ میں وہ لکھتے ہیں:
’’جو ان کے ہم عقیدہ نہیں انھیں ترقی پسند یا تو اپنا دشمن سمجھتے ہیں یا اگرکشادہ دلی کا ثبوت دیں تو ناگوار دوست۔ترقی پسند تنقید یا تو مبلغانہ ہے یا محاربانہ اس میں فکر کی کمی اور جذبہ کا وفور ہے۔آدرش واد اور یوٹوپیائزم کا اتنا غلبہ ہے کہ آنکھ حقیقت دیکھ ہی نہیں پاتی۔حقیقت سے مراد یہاں زندگی کی حقیقت بھی ہے اور ادب کی حقیقت بھی۔‘‘7
محولہ بالا اقتباس کا آخری جملہ قابل غور و فکر ہے۔ وارث علوی نے اس جملے کے ذریعے ترقی پسند تنقید کو یکسر بے معنی بتا دیا ہے۔کیونکہ جس تنقید یا فن پارے میں زندگی کی بھی حقیقت نہ ہو اور ادب کی بھی تو ظاہر ہے ایسی تنقید اور ایسا فن پارہ چہ معنی دارد؟ لیکن وارث علوی کا یہ اپنا خیال ہو سکتا ہے۔اپنے تمام تر نقائص اور کمیوں کے باوجود ترقی پسند تحریک اور اس کے زیر سایہ وجود میں آئے ادبی اور تنقیدی کارناموں کی اہمیت و افادیت اپنی جگہ مسلم ہے۔
وارث علوی نے افسانوی تنقید کے علاوہ نظریاتی مضامین بھی لکھے ہیں جو ان کے وسیع مطالعے کا پتہ دیتے ہیں۔مثلاًادب او رکمٹ منٹ،ادب اور سماج،ادب اور سیاست،،فسادات اور ادب،ادب اور پرو پیگنڈہ،ادب اور عوام،ادب او رآئیڈیو لو جی، وغیرہ۔مذکو رہ بالا مضامین میں انھوں نے اپنے موقف کی وضاحت عالمانہ اور دانشورانہ انداز میں کی ہے۔
ان کی تنقید نگاری کی ایک خاصیت یہ ہے کہ و ہ پڑھنے میں بہت دلچسپ ہو تی ہے۔ان کے متعلق یہ صحیح بات کہی جاتی ہے انھوں نے فلسفے کو پانی کر دیاہے۔وہ مشکل سے مشکل اور پیچیدہ مسئلے کو صاف اور ستھرے اور آسان زبان میں پیش کر تے ہیں کہ بات مکمل طور پر واضح ہو جاتی ہے۔دراصل ان کے اسلوب میں طنز و مزاح کا عنصر بھی ہے۔وارث علوی کے تنقیدی مضامین پر مبنی کتاب ’بت خانہ چیں‘ کے پیش لفظ میں محی الدین بمبئی والا نے لکھا ہے:۔
’’ان کو حسّ ظرافت خدا کی اتنی بڑی دین ہے کہ غالب کی طرح انھیں بھی حیوان ظریف کہا جا سکتا ہے۔ کالج کے پروفیسروں کا تو کہنا تھا کہ جس طرح ڈاکٹر جانسن کے پاس بوسویل تھا جو اس کی ہر ظریفانہ بات نوٹ کر لیا کر تا تھا،وارث صاحب کے پاس بھی ایسا ایک بوسویل ہونا چاہیے تھا۔ان کی ظرافت ان کے گجراتی ڈراموں میں کھل اٹھی اور کمال یہ ہوا کہ تنقید جیسی سنجیدہ اور اصطلاحوں سے بھری ہوئی صنف ادب کو بھی ان کی ظرافت نے لالہ زار بنا دیا۔‘‘8
وارث علوی نے اپنے مخصوص مزاحیہ انداز میں اس وقت کے تنقید نگاروں پر مضامین لکھے۔ ان مضامین میں وزیر آغا، قمر رئیس، ڈاکٹر محمد حسن، سید محمد عقیل، گوپی چند نارنگ، شمس الرحمان فاروقی اور شمیم حنفی وغیرہ کے نظریات پر ظرافت کے انداز میں بہت ہی بیباک تنقید کی ہے۔انھوں نے ان ناقدین ادب سے اختلاف ضرور کیا مگر یہ اختلاف نظریاتی تھے انھیں ذاتیات کا حصہ نہ بننے دیا کیونکہ وہ مذہب، مسلک، ذات، گروہ بندی اور علاقائیت جیسی بڑی اور بری بیماریوں سے اوپر اٹھ کر صحت مند ادب کے قائل اور اس کے فروغ میں ہمیشہ کوشاں رہے۔
’’تنقیدہماری زندگی کے لیے اتنی ہی ناگزیرہے جتنی سانس‘‘ ایلیٹ کا یہ جملہ یقیناًاپنے اندر معنویت کاایک اتھاہ سمندر لیے ہوئے ہے۔پیدائش سے لے کر موت تک انسان کا تنقیدی شعور زندگی کے ہر قدم اورہر موڑ پر اس کی رہنمائی کر تا ہے۔ اگر محاسن و معائب کی تمیز نہ ہو تو انسانی زندگی اپنے حدود سے باہرہوکرجانوروں کے مماثل قرار پائے اور وہ کبھی دانشمندی کے اس وصف کامستحق قرارنہ پائے جہاں پہنچ کرکہا جاتا ہے :
پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا خدا کے تئیں
تنقید زندگی کا ایک اہم حصہ ہے جس پربڑی حد تک انسانیت کا دار ومداربھی ہے۔وہ تنقید ی شعو رہی ہے جو انسان کو تمام قسم کی گمراہیوں سے بچاکر صراط مستقیم کی طرف رہنمائی فرماتی ہے۔ تنقیدی ذہن کی اہمیت کا اندازہ آپ وارث علوی کے اس اقتباس سے بخوبی لگا سکتے ہیں وہ لکھتے ہیں:
’’تنقید ی ذہن کی قدر و قیمت، غیر تنقیدی ذہن سے اسی لیے زیادہ ہے کہ وہ جذبات کو بھڑکانے سہانے خواب دکھانے او رتعصبات کو پالنے دل خوش کن خیالات کا آسانی سے شکار نہیں ہوتا۔تنقیدی ذہن ہر قوم کی آئیڈیولوجی اور ہر قسم کے فلسفے کا مطالعہ کرتا ہے اور اسے یہ خوف نہیں ہو تا کہ کوئی آئیڈیولوجی اسے بھی اس طرح مغلوب کرے گی جس طرح جاہل عوام کو کرتی ہے ۔‘‘9
دیگر تمام شعبہ ہائے زندگی کی طرح ادب کے لیے بھی تنقید اتنی ہی ضروری ہے جتنی زندگی کے لیے سانس کیوں کہ تنقیدفن پاروں کو وہ حرارت بہم پہنچاتی ہے جس سے ان کی پژمردگی دور ہو تی ہے اور وہ ادبی فن پارے کا حصہ بن پاتی ہے۔وارث علوی فکشن تنقید کو وہی حرارت اپنی تحریروں سے پوری زندگی پہنچاتے رہے نیز ان کی تحریریں علم کا وہ بحر بے کراں ہیں جن میں غوطہ زنی کے بغیر کچھ ہاتھ نہیں لگتا گہرکی بات تو کجا۔ ان کا اسلوب الفاظ و معنی کو برتنے کا ہنر سکھا تا ہے۔
حوالہ جات
-1 وارث علوی،منٹو: ایک مطالعہ(وجے پبلشر ز، دریاگنج، نئی دہلی، 1997) ص23
-2 وارث علوی، تیسرے درجے کا مسافر (امت پرکاشن، جودھپور، راجستھان،1981) ص95
-3 ساجد رشید، سہ ماہی نیا ورق ( جلد نمبر10، شمارہ26،اپریل تا جون، 2007بمبئی) ص 203
-4 وارث علوی،بتخا نہ چین (گجرات اردو ساہتیہ اکادمی،گاندھی نگر، 2010) ص 532
-5 ایضاً ص92
-6 وارث علوی، تیسرے درجے کا مسافر(امت پرکاشن، جودھپور، راجستھان1981) ص 113
-7 وارث علوی، خندہ ہائے بیجا (مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، جامعہ نگر، نئی دہلی25، 1987) ص25
-8 وارث علوی،بتخانہ چین (گجرات اردو ساہتیہ اکادمی،گاندھی نگر، 2010) ص9
-9 وارث علوی، پیشہ تو سپہ گری کا بھلا (گجرات اردو ساہتیہ اکادمی، گاندھی 1990) ص37
n
Aas Mohammad Siddiqui
Research Scholar, Dept of Urdu
Jamia Millia Islamia
New Delhi - 110025


قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

سماجی شعور: تعارف اور اہمیت، مضمون نگار: عرفان احمد گنائی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 انسان طبعاًمعاشرت پسند اور سماجی واقع ہوا ہے۔ گرہوں اور ٹولیوں میں رہنے کی یہ خصلت ازل سے ہی اس کی گھٹی میں پڑی ہ...