ادب اطفال کے درسی مسائل
ریاض احمد
جس طرح بچوں کے ادب کی تخلیق و تصنیف بہت مشکل کام ہے اسی طرح بچوں کے ادب کی تدریس کا جائزہ لینا اور ان کی افادیت و مسائل
بیان کرنا بھی۔ بات کہاں سے شروع کی جائے سمجھ میں نہیں آتا۔ مسائل بہت ہیں اور ان کے حل کے امکانات سے مایوسی بھی نہیں۔ابتدائی سوالات جو ہر مدرس، معلم، ماں باپ، سرپرست اور ماہر تعلیم وتعلم کے ذہن میں ابھر کر سامنے آتے ہیں وہ یہ ہیں کہ آخر ہم کس طرح کے ادب کو بچوں کا ادب یا ادب اطفال کہیں گے؟ ادب اطفال کی تدریس کس طرح کی جانی چاہیے ؟ کس عمر کے بچوں کے لیے کون سے تدریسی طریقے اپنائے جائیں؟ ادب اطفال سے ان کی زندگی میں کیا کیا فائدے ہیں؟ کیا یہ ادب پارے ان کی پوری زندگی کو متاثر کرتے ہیں۔ بچوں کے ادب کی تخلیق کرتے وقت کن نفسیاتی، معاشرتی اور فلسفیانہ اصولوں اور پس منظر کو سامنے رکھنا بہتر ہوگا ؟ کیا ہمارے ملک اور دنیا کے دوسرے ممالک نے اس کے لیے ضابطے اور قوانین مرتب کیے ہیں۔ کیا قومی اور بین الاقوامی سطح پر ان کی ترقی اور معیارو جانچ کے لیے ادارے بنائے گئے ہیں۔ ہمارے ملک میں مرکزی سطح اور ریاستی سطح کے تعلیمی، تحقیقی اور اشاعتی اداروں نے بچوں کے ادب کی ترویج و ترقی کے کون سے اقدامات کیے ہیں؟ اگر ہاں تو کس حد تک اور ان کا معیار کیا ہے؟قانونی اعتبار سے بچے کے عمر کی حد کیا ہے۔ اگر بچوں سے ان کے ادب کے ذریعے مثبت اقدار اور انسانی حقوق و بھلائی کا کام نہ لیا گیا تو آنے والی نسلوں کو کون سے نقصانات سے دوچار ہونا پڑے گا ؟ان ہی چند اہم سوالات کا تجزیہ اس مختصر سے مقالے میں پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
مشترکہ ہندوستان میں بچوں کے ادب کی ترویج میں سرزمین پنجاب کا بہت اہم رول رہا ہے اس لیے گفتگو یہیں سے شروع کرنا بہتر ہے۔ جدید ہندوستان کی تعلیمی تاریخ میں اسی پنجاب کی دھرتی پر کرنل ہالرائڈ کی رہنمائی میں علمی و ادبی کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا تھا، یہیں سررشتہ تعلیم میں ملازمت کرتے ہوئے مولانا محمد حسین آزاد اور مولانا الطاف حسین حالی کو یہ خیال آیا کہ انگریز ی اور دوسری ترقی یافتہ زبانوں کی طرح اردو میں بھی موضوعی نظمیں لکھی جانی چاہئیں اورپھر ان دونوں بزرگوں نے انگریزی کی کامیاب تمثیلی نظموں اور بچوں کو اپیل کرنے والی نظموں کو اردو کے قالب میں ڈھالنے کی کامیاب کوشش کی۔ حالانکہ مولانا حالی اور محمد حسین آزاد سے قبل بھی بچوں کے لیے مفید نظمیں، حکایات، کہانیاں اور مضامین کئی شعرا اور ادبا نے لکھی مگر دانستہ طور پر یہ ادب پارے اس لیے تخلیق نہیں کیے گئے تھے کہ یہ بچوں کے ادب کے لیے سنگ میل ثابت ہوں۔ انگریزی دورحکومت میں درسی کتابوں کے شعبہ سے ادب اطفال کی طرف شعوری طور پر توجہ مبذول کی گئی اور بچوں کے ذوق کی نظم و نثر لکھی جانے لگی۔
اردو زبان کے ارتقائی دور میں ہی بچوں کے لیے کچھ ایسی نظمیں، پہیلیاں اور کہہ مکرنیاں لکھی گئیں جن کو بلاشبہ بچوں کے ادب کی ابتداء کہہ سکتے ہیں اس ضمن میں امیر خسرو کی خالق باری کو سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے گویا اردو میں بچوں کے ادب کی روایت تقریباً سات سو سال پرانی ہے۔ امیر خسرو کے بعد دکن میں قلی قطب شاہ نے بھی موضوعی نظمیں لکھ کر بچوں کے ادب میں اضافہ کیا۔ اس کے علاوہ عبد الغفور شہباز نے بھی اس ضمن میں کارنامے انجام دیے ہیں۔ بعد کے بہت سے چھوٹے بڑے ادبا و شعرا کی ایک لمبی فہرست ہے جو حال تک پہنچتی ہے۔ نظیر اکبر آبادی ان شعراء میں سر فہرست ہیں۔ نظیر اکبر آبادی کے علاوہ میر تقی میر، انشاء اللّٰد انشا، میر امن دہلوی، محمد حسین آزاد، مولانا الطاف حسین حالی، ڈپٹی نذیر احمد، سرسید احمد خاں اور مرزا غالب نے بالترتیب برسات کی بہاریں، آدمی نامہ، روٹی نامہ، موہنی بلی، رانی کیتکی، باغ و بہار، طالب علم، مٹی کا دیا، منتخب الحکایات، امید کی خوشی اور قادرنامہ لکھ کر بچوں کے ادب کی مضبوط بنیاد ڈالی۔ ان بزرگوں کے بعد کے لکھنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے جن میں نثر نگاروں میں حسن نظامی (شہزادی کی بپتا،مچھر) پریم چند (پنچایت، عیدگاہ) سید سلیمان ندوی (تعلیم کی اہمیت) ڈاکٹرذاکر حسین (ابوخاں کی بکری،آخری قدم) امتیاز علی تاج (بچوں کی بہادری) کنہیا لال کپور (کتّے ) عصمت چغتائی (سفید جھوٹ) سہیل عظیم آبادی(عقلمند عورت) کرشن چندر(گدھے کی سرگزشت، الٹا درخت) احمد ندیم قاسمی (چوہوں کی بارات)وغیرہ کے نام بطور خاص لیے جا سکتے ہیں۔
شعرا میں علامہ اقبال ( ایک پہاڑ اور گلہری، جگنو، ایک آرزو، بچے کی دعا، ہندوستانی بچوں کا قومی گیت، نیا شوالہ اور ہمالہ) چکبست (خاک وطن) اکبر الٰہ آبادی (دلی دربار، ہونہار بیٹا) وحید الدین سلیم ( سیکھو)حفیظ جالندھری (ننھے منھے بچے) تلوک چند محروم (اچھا آدمی) عادل رشید( منظوم کہانی) جمیل مظہری (اے مادر وطن ہندوستان ) جانثار اختر (ہم ایک ہیں) ندافاضلی (نغمہ گر چلے گئے )ساغر نظامی ( بڑھے چلو) شبنم کمالی (آؤگیت گائیں) ظفر کمالی (یتیم لڑکا، کتابیں)کے نام بطور خاص لیے جا سکتے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی ایسے شعرا کی ایک طویل فہرست ہے جنھوں نے بچوں کے لیے بہترین نظمیں تخلیق کی ہیں۔
بعض نقادوں کا خیال ہے کہ بڑے قلم کاروں نے بچوں کے ادب پر توجہ نہیں دی لیکن یہ بات صد فیصد درست نہیں۔ مذکورہ شعراو ادبا میں بڑے قلم کاروں کے نام زیادہ ہیں اس کے علاوہ کئی ایسے شاعرو ادیب ہیں جنہوں نے بچوں کے ادب اور ان کی درسی کتابوں کی طرف بطور خاص توجہ دی۔ اس ضمن میں حامد اللہ افسر میرٹھی، گوپی چند نارنگ، مظہر امام، شکیل الرحمن، علقمہ شبلی، کنہیالال کپور، طلحہ رضوی برق، علیم اللّٰد حالی، عبد الصمد، عبد اللّدولی بخش قادری، رئیس صدیقی، کوثر مظہری، شان بھارتی اور اظہار اثر کے نام خاص طور سے لیے جاسکتے ہیں۔ اہل قلم حضرات کا خاطر خواہ رجحان بچوں کے ادب کی طرف تو رہا ہی ہے، خواتین، جو بچوں سے زیادہ قریب اور ان کی نفسیات کو بہتر طریقے سے سمجھنے والی ہوتی ہیں، نے بھی بچوں کے ادب میں بے بہا اضافہ کیا ہے۔ جن خواتین اہل قلم کا نام اس زمرے میں لیا جا سکتا ہے ان میں خواجہ حسن نظامی کی اہلیہ لیلہ خواجہ بانو، امتیاز علی تاج کی اہلیہ حجاب امتیاز علی، قرۃ العین حیدر، عصمت چغتائی، صالحہ عابد حسین، جیلانی بانو، خدیجہ مستور، رفیعہ منظور الامین، الطاف فاطمہ اور قدسیہ زیدی وغیرہ کے نام سر فہرست ہیں۔
اردو میں بچوں کے ادب کا جائزہ لیتے وقت بہت سے ادبا و شعرا کا ذکر ضروری سمجھا جاتا ہے جنھوں نے تھوڑا بہت بھی ان کے لیے ادب کی تخلیق کی۔مذکورہ بالا سطور میں ان میں سے کچھ کا ذکر بھی ہوا لیکن دو ایسے حضرات ہیں جنھوں نے اپنی پوری زندگی بچوں کو پڑھانے، ان کے لیے درسی کتابیں تیار کرنے اور ان کے لیے ادب کی تخلیق کرنے میں صرف کر دی، جب تک ان دونوں حضرات کا تذکرہ نہ کیا جائے، اردو میں بچوں کے ادب کا تصور ادھورا ہے۔میری مراد مولوی اسماعیل میرٹھی اور شفیع الدین نیّر سے ہے۔
مولوی اسماعیل میرٹھی کی پیدائش 1844 میں ہوئی صرف سولہ سال کی عمر میں سررشتہ تعلیم میں ملازم ہو گئے بعد میں ترقی کرکے سہارن پور میں بطور فارسی کے ہیڈ مولوی اور سنٹرل نارمل اسکول آگرہ میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ 1899 میں سبکدوش ہوئے 1917 میں اس دارفانی سے کوچ کیا۔ مولوی اسماعیل کا سب سے بڑا کارنامہ ان کی اردو ریڈرس ہیں یہ کتابیں بچوں کی نفسیات اور ذہنی نشوونما کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہیں۔ اگر کوئی بچہ ان پانچوں ریڈرس کو اچھی طرح پڑھ لے تو یقینی طور پر اس کی اردو دانی اچھی ہوجائے گی۔اردو ریڈرس کے علاوہ انھوں نے بچوں کے لیے ان کی دلچسپی اور معلومات دونوں کو پیش نظر رکھ کر بہت سی نظمیں لکھیں۔ اس سے قبل اردو میں باضابطہ نصابی کتابیں تیار کرنے کا خیال کسی کو نہیں آیا تھا۔ ان کی نظمیں اتنی دلچسپ ہیں کہ بڑے بھی چٹخارے لے کر پڑھتے ہیں۔ یہ نظمیں پڑھنے اور پڑھانے والے دونوں کو یکساں متاثر کرتی ہیں۔ مولوی اسماعیل کا خاص کمال انگریزی کی اچھی نظموں کو اردو کے قالب میں ڈھالنا ہے انھوں نے کئی انگریزی نظموں کامنظوم ترجمہ کیا۔ ان کی سیدھی سادی زبان میں دل کو چھولینے والی باتیں بچوں کو بہت بھاتی ہیں۔
شفیع الدین نیر کی پیدائش ضلع علی گڑھ میں 3نومبر 1903میں ہوئی بچپن میں کافی مشکلیں اٹھاکر دہلی کے اینگلو عربک اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں 1945 سے 1969 تک مدرسی کی اس سے قبل دہلی کے موڈرن اسکول میں تقریباً 20سال تک استاد رہے۔ نیر صاحب نے تقریباً پچاس برسوں تک مسلسل بچوں کے لیے لکھا۔ ہندوپاک میں ایک بہت بڑے طبقہ کوان کا شاگرد ہونے پر فخر ہے ان میں قدآور صحافی خوشونت سنگھ اور کلدیپ نیر بھی شامل ہیں۔ ان کی پہلی نظم ’صبح‘ 1926میں رسالہ ہونہار میں شائع ہوئی اور پہلی کہانی میاں مٹھو 1939میں چھپی۔ نیر صاحب بیک وقت بچوں کے ادب کے شاعر اور نثر نگار دونوں تھے۔ کم وبیش انھوں نے بچوں کے لیے پچاس کتابیں لکھیں۔ بچوں کی دلچسپی اور نفسیات کے لحاظ سے انھوں نے اپنی نگارشات کو چار سال سے چودہ سال تک کے بچوں کے لیے تین زمروں میں تقسیم کر دیا تھا۔ ان کی آخری نظموں میں ’پکا ارادہ‘ ہے جو 1977 میں کھلونا میں شائع ہوئی۔ نیر صاحب ایک عملی انسان ہونے کے ساتھ ساتھ باعمل استاد بھی تھے۔بقول ذاکر صاحب وہ ’پیدائشی معلم‘ تھے۔ بچوں کے ادب کو مالامال کر نے والا استاد 30جنوری 1978 کو اس جہان فانی سے کوچ کر گیا۔
شروع سے ہی بچوں کے ادب کا فروغ ایک اہم مسئلہ رہا ہے تاہم ملک گیر سطح پر شائع ہونے والے بچوں کے رسالوں نے اس مسئلہ کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ ہمارے ملک کے مختلف شہروں سے بچوں کے معیاری رسائل شائع ہوئے مثلاً نونہال اور پھول لاہور سے، پیام تعلیم، کھلونا، امنگ، نرالی دنیا، پھلواری اور ہونہار دہلی سے، رام پور اور لکھنؤ سے نور، کلیاں اور ٹافی، غنچہ بجنور سے اور مسرت پٹنہ سے۔ ان رسالوں میں مسرت، کھلونا، پھلواری اور امنگ و پیام تعلیم کی گراں قدر خدمات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان (NCPUL) نے بچوں کی دنیا شروع کرکے اس راہ کی دشواریوں کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ فی الحال بچو ں کی دنیا، پیام تعلیم اور امنگ جیسے رسالے بچوں کے ادبی تقاضے کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بچوں کے ادب کے ضمن میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان (NCPUL) اور نیشنل بک ٹرسٹ نے بہت سی چھوٹی بڑی کتابیں اور رسالے شائع کرکے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔
عام طور سے ادب اطفال کی کتابیں بچوں کے نصاب میں الگ سے شامل نہیں ہو ا کرتیں بلکہ ان کی درسیات میں بچوں کی نفسیات، سماجی اہمیت، اقداراورفہم وفراست کے مطابق تاریخی، ثقافتی اور تہذیبی شعور، مختلف علوم و فنون اور ایجادات، نامور شخصیات و مذہبی پیشوا، علم حیوانات و نباتات اور جغرافیائی خطوں اور ان خطوں میں پائے جانے والے لوگوں کے رہن سہن، حیوانات و عجائبات اور مختلف سیاحوں کے حالات اور سفر نامے اس طرح ترتیب دیے جاتے ہیں کہ بچو ں کے ذہن پر ان کا مثبت اثر ہو۔ درسی نصاب میں وہی نظمیں اور نثر، مضمون، کہانیاں وغیرہ شامل کی جاتی ہیں جن کا براہ راست تعلق معلومات، تہذیب و ثقافت اور تاریخی حقائق و معلومات سے ہوتا ہے۔بچوں کی درسیات میں مذکورہ علوم و عنوانات کی ترتیب نامعلوم سے معلوم کی جانب،کم معلومات سے زیادہ معلومات کی طرف، آسان سے مشکل کی طرف اور جز سے کل کی طرف ہونا چاہیے۔ عام طور سے دیکھا یہ جاتا ہے کہ بچوں کی درسی کتابیں جن میں نثرو نظم کے ذریعے ادب اطفال کو شامل کیا جاتا ہے بہتر ترتیب کی کمی پائی جاتی ہے۔
ہمارے ملک کی مختلف ریاستوں میں بچوں کی درسیات کی تیاری و اشاعت مختلف ریاستی تعلیمی بورڈ و اشاعتی اداروں کے ذمے ہے کچھ ریاستوں میں تو مذکورہ باتوں کا خیال رکھا جاتا ہے بلکہ چند ریاستیں ایسی ہیں جنہیں بچوں کی درسیات کی تیاری میں مہارت حاصل ہے مثلاً کیرالا اور مہاراشٹر، لیکن ایسی ریاستوں کی تعداد بہت کم ہے۔ 2005 میں اسکولی درسیات کو بہتر رہنمائی فراہم کرنے کے لیے اور مستقبل میں خاطر خواہ علمی و تعلیمی ترقی کے لیے قومی درسیات کا خاکہ۔ 2005تیار کیا گیا اس کے رہنما اصول کے تحت بچوں کی درسیات میں سماجی بیداری، ماحولیاتی توازن، دائمی ترقی، اچھے اقدار سے متعلق قصہ کہانیاں، واقعات وحکایات، جنگلوں کی کٹائی اور قدرتی توازن کے بگڑنے سے ہونے والے مضر اثرات، مختلف قوموں اور نسلوں کے درمیان بڑھتی کشیدگی اور جنگ کے مضر اثرات مثلاً کیمیائی ہتھیاروں کے اثرات، بے روزگاری، مہاجرین کے مسائل، بچہ مزدوری وغیرہ موضوعات کو درسی کتابوں میں بالواسطہ یا بلاواسطہ شامل کرنے کی صلاح دی گئی ہے تاکہ ان سماجی مسائل سے طلبا آشنا ہو سکیں او رمستقبل میں بہتر شہری بننے کی کوشش کرسکیں۔اس ضمن میں چند ریاستی اشاعتی اداروں اور مرکزی سطح پرقومی کونسل برائے تعلیمی تحقیق (NCERT) نے ان رہنما اصولوں کی کچھ حد تک پابندی کی ہے تاہم ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔
بچوں کے ادب کے ہندوستانی تناظر میں ان نکات کا خیال رکھنا ضروری ہے جن سے ہندوستانی تاریخ و ثقافت، جدوجہد آزادی کی تاریخ، ہندوستانی آئین کے اساسی پہلو اور دستوری ذمے داریاں، ہماری قومی شناخت میں معاون عناصر وعلامتیں، قومی وسیاسی ہم آہنگی، سماجی نظریہ مساوات، جمہوریت و سیکولر ازم، جنسی مساوات، ماحولیاتی تحفظ کا احساس، منفی معاشرتی سوچ کا انسداد، معاشرتی و معاشی بہتری کے لیے چھوٹے خاندان کے مثبت پہلوؤں کا پرچار اور سائنسی شعور و سوچ کے لیے ذہنی ہم آہنگی وغیرہ۔ مذکورہ مضامین کی تشہیر و تفہیم اور حصول کے ہدف کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے اسباق، مضامین، نظمیں، غزلیں، گیت شامل کیے جانے چاہئیں جن کی زبان آسان اور پرلطف ہو اور ہندوستان کی دوسری زبانوں اور ثقافت کے منافی نہ ہو۔ ہندوستان کی مختلف ریاستوں اور خطوں کی ثقافت، فنون لطیفہ، تاریخی حقائق آثار قدیمہ، تہذیبی روایات اور تہوار جن سے طلبا کے ذہنوں کو ہندوستانی رنگا رنگی اور گنگا جمنی تہذیبی وراثت کا پتہ چلے بھی شامل نصاب ہوں۔
اب سوال اٹھتا ہے کہ کیا موجودہ نصاب اور نصابی کتابیں قومی سطح پران مقاصد کی تکمیل کر رہی ہیں یا نہیں ؟ بچوں کی تعلیم و تدریس میں تعلیمی فلسفہ اور تعلیمی نفسیات کا بہت عمل دخل ہے قدیم طرز تعلیم ترقی یافتہ نصابات اور اصول کا ساتھ نہیں دے پا رہا ہے پرانا طرز تعلیم معلم مرکوز اور مواد پر مبنی ایک میکانیکی عمل تھا۔ استاد طلبا کو رٹنے رٹانے کے ذریعہ بغیر بحث و مباحثہ کے تعلیم پر زور دیتا تھا جب کہ اب طفل مرکوز تعلیم، سرگرمی پر مبنی بچے کی ہمہ جہت ذہانت اور صلاحیت کو فروغ دینے کا نام ہے۔بچے کی سمعی، بصری اور لسانی ذہانت کو مد نظر رکھتے ہوئے مختلف النوع اسباق کے ذریعہ اخلاقی قدروں کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ایک عام بچہ خود ی سے سرشار ہوتا ہے، والدین اور اساتذہ سے متاثر ہوتا ہے، جذبات احساسات پر بہت دیر تک قابو نہیں رکھتا، اپنے مسائل کا حل خود تلاش کرنا چاہتا ہے، اپنے بڑوں کی تقلید کرتا ہے اور خود بینی کی صلاحیت پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے کمرہ جماعت میں اسے بہت حد تک آزادی چاہیے تاکہ سرگرمی پر مشتمل پر مسرت تعلیم کے لیے موقع حاصل ہو۔چنانچہ بچے کی تخلیقی قوت اور فنی صلاحیتوں کے ذریعے علوم و فنون کو حاصل کرنے کا شوق پیدا کرنے اور تلاش و جستجو کے ذریعہ کچھ نیا کرنے کے جذبے کو فروغ دینے کے لیے بچوں کے ادب میں اسی طرح کے اسباق شامل کرنا چاہیے تاکہ بچے آزادانہ طور پر اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرسکیں اور درس و تدریس کے ساتھ ساتھ اپنے بچپن کا لطف بھی اٹھا سکیں
اڑنے دو پرندوں کو ابھی شوخ فضامیں
پھر لوٹ کے بچپن کا زمانہ نہیں آتا
لیکن ساتھ ہی ساتھ اوپر بتائے گئے اقدارسے منھ موڑنا بھی نہیں چاہیے بچوں کو ترقیاتی ادب کے مطالعہ پر زور تو دیا جائے مگر اس بات کا خیال بھی رکھا جائے کہ ہمارے پاس جو فلفسیانہ، ثقافتی، تہذیبی اور روحانی اقدار ہیں وہ ضائع نہ ہوں۔کیونکہ موجودہ سائنسی اور تکنیکی ترقی اپنے اندر مثبت پہلوؤں کے ساتھ ساتھ بعض منفی پہلو بھی لیے ہوئے ہے چنانچہ جب بچوں کے ادب میں سائنسی رجحانات و ترجیحات کے مضامین داخل کیے جائیں یا درجہ میں پڑھائے جائیں تو ان منفی پہلوؤں کی نشاندہی کردی جائے جن سے نسل انسانی کو امکانی خطرہ ہے۔ سائنسی اقدار کے ساتھ ساتھ مختلف مذاہب کی کتابوں سے بچوں کے لیے اچھے اقدار، نیک سلوک، عادات واطوار، بڑوں کی عزت اور چھوٹوں سے محبت وغیرہ کی تعلیم مذہبی کتابوں سے ماخوذ کرکے دی جائیں۔
تعلیم کو تحت الشعور کا خزانہ کہا گیا ہے اکیسویں صدی میں تعلیم کے موضوع پر قائم بین الاقوامی کمیشن کی رپورٹ چار اقداری پہلوؤں کی طرف دنیا کی توجہ مبذول کراتی ہے ان میں پہلا مقصد خاص طور سے ثانوی سطح کی تعلیم میں نوجوانوں کے ذہنوں کو علم سے رغبت اور شوق پیدا کرانے اور معلومات کے لیے تجسس پیدا کرنے اور نئے نئے خیالات کو ذہن نشیں کرنے کے لیے اپنے دماغ کی کھڑکیاں کھلی رکھنے کی صلاح دی گئی یہ بالکل درست ہے کہ بچہ اگر اپنے ذہن کی کھڑکیاں کھلی رکھے گا اور اسے بغیر خوف و خطر کے تعلیم حاصل ہوگی تو وہ مستقبل کا ایک بے باک شہری بنے گا۔کلاس روم ہو یا گھر، کھیل کا میدان ہویا تفریح گاہیں اسے اپنے جذبات و خیالات کی آزادانہ ترسیل کا موقع دیا جانا چاہیے۔درمیان تعلیم کسی طرح کا خوف بچے کے ذہن میں نہیں آنا چاہیے۔ خوف سے بچے میں پروان چڑھتی ہوئی صلاحیتیں مرجاتی ہیں اور وہ زندگی بھر احساس کمتری کا شکار رہتا ہے
خوف کے سائے میں گر بچہ پلا
بے زباں ہو جائے گا یا بدزباں ہو جائے گا
دوسرے پہلو میں علم، عمل کے لیے عمل کے حاصل کرنے کی صلاح دی گئی ہے تاکہ حاصل کردہ علوم کو بچہ اپنی عملی زندگی کے کام میں لا سکے، نفع بخش روزگار حاصل کرسکے، اپنے افراد خانہ کے کام آسکے، اپنے سماج اور اپنی قوم و ملت کے کام آسکے اور سب سے بڑھ کر عالم انسانیت کے لیے کارآمد ہو۔ گو یا بچوں کے ادب میں ایسے عنوانات، اسباق شامل کرنا چاہیے جو اس کے مستقبل کی زندگی کو روشن کر سکے۔تیسرے پہلو کی تشریح کرتے ہوئے معاشرتی زندگی کو بہتر اور مل جل کر زندگی گذارنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اس میں تعلیم کے تمام تر سماجی عناصر سے بحث کرتے ہوئے امداد باہمی، وقت کی پابندی، صلہ رحمی، صفائی ستھرائی، کمزور طبقوں کی مدد اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کے رویے پر زور دیا گیا۔ گویا بچوں کے ادب کے ذریعے نسلی، لسانی، مذہبی، قومی اور عالمی برادری کے افہام و تفہیم کا فروغ ہو۔ چوتھے پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تعلیم کے ذریعے ہر بچے کے جسم و ذہن کا ہمہ جہت فروغ ضروری ہے تعلیم کے ذریعے اس کی ذہنی صلاحیتیں، قوت احساس، جمالیاتی ذوق، روحانی اقدار، احساس ذمے داری کی تربیت اس طرح کی جائے کہ اس کی شخصیت کے سبھی امکانی صلاحیتوں کا فروغ ہو سکے اور مستقبل میں ایک انسان دوست شہری بن سکے۔ اسے احساس جمال کے اقدار کے ساتھ ساتھ آس پاس کے ماحول کو بہتر بنانے کا سلیقہ آجائے۔ اس میں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ قدرتی تحفظ کے لیے جنگلوں اور جانداروں کا استحصال بہت خطرناک اور آنے والی نسلوں کے لیے مضرہے۔ وہ آنے والی نسلوں کے لیے قدرتی عطیات ووسائل بچا کر رکھے۔ گویا ادب اطفال کے ذریعے کل کے شہری یعنی بچوں کے ذہن و دل میں یہ بات ڈالنی ہوگی کہ دنیا کو بہتر اور رہنے کے لائق کس طرح بنایا جا سکتا ہے۔ اگر مذکورہ اقدار کے فروغ کے لیے نثر و نظم کے عنوانات درسی کتابوں میں شامل کیے جائیں تو اس کے مثبت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں مثال کے لیے ندافاضلی کی نظم ’نغمہ گر چلے گئے‘ جو کیرالا کے نویں جماعت کی درسی کتاب میں شامل ہے پیش کیا جا سکتا ہے۔
کٹی پھٹی ہیں دھرتیاں
سمندروں کی وسعتوں کو
دھواں دھواں فضائیں ہیں
پی رہی ہیں بستیاں
لہو لہو عبادتیں ہیں
عمارتوں میں چن رہی ہیں
بے اثر دعائیں ہیں
پربتوں کی چوٹیاں
وہ جنگلوں کے چوکیدار
معاہدہ زمیں کا جو فلک سے تھا
جانور چلے گئے
نہیں رہا
سنبھالتے تھے موسموں کو
دلوں کے آس پاس تھا جو راستہ
جو شجر چلے گئے
نہیں رہا
اداس گھونسلے ہیں
کسی کا اب کسی سے
ان کے نغمہ گر چکے گئے
کوئی رابطہ نہیں رہا
ایک اور نظم جو انسانی بھلائی میں آفاقی حیثیت کی حامل ہے حالی نے لکھی ہے ’مٹی کا دیا‘اور کام مشعل راہ ہے
جھٹ پٹے کے وقت گھر سے ایک مٹی کا دیا
ایک بڑھیا نے سرِ رہ لا کے روشن کر دیا
تاکہ رہ گیر اور پردیسی کہیں ٹھوکر نہ کھائیں
راہ سے آساں گزر جائے ہر ایک چھوٹا بڑا
یہ دیا بہتر ہے ان جھاڑوں سے اور فانوس سے
روشنی محلوں کے اندر ہی رہی جن کی سدا
گرنکل کر اک ذرا محلوں سے باہر دیکھیے
ہے اندھیرا گھپ درودیوار پر چھایا ہوا
سرخرو آفاق میں وہ رہنما مینار ہیں
روشنی سے جن کی ملاحوں کے بیڑے پار ہیں
نثری اصناف جن کا اجمالی جائزہ لیا جا چکا ہے میں بھی بچوں کے ادب سے متعلق کچھ ایسے اسباق لکھے گئے ہیں جن سے مثبت اقدار کا فروغ ہوتاہے۔ یوں تو ایسے اسباق کی تعداد سیکڑوں میں ہے لیکن ان میں کچھ شہرہ آفاق نثری نمونے (کہانیاں، افسانے، انشائیہ، خاکے اور مضامین ) ایسے ہیں جنہیں قومی سطح پر اور ریاستی سطح پر تیار کی جانے والی بچوں کی نصابی کتابوں میں بار بار شامل کیا جاتا ہے۔ مثلاً عیدگاہ، پنچایت، حج اکبر، عبرت اور نادان دوست (پریم چند) گزرا ہوا زمانہ اور خوشامد (سرسید احمد خاں) آخری قدم اور ابوخاں کی بکری (ڈاکٹر ذاکر حسین )جینے کا سلیقہ (خواجہ غلام السیدین) کھدر کا کفن (خواجہ احمد عباس) ماحول بچائیے (محمد اسلم پرویز ) وغیرہ بچوں کے ادب میں شامل ایسی شاہکار کہانیاں اور مضامین ہیں جن کے ذریعہ ہم نونہالوں کے درخشاں و تابناک مستقبل کی تشکیل وتعمیر کرسکتے ہیں یہاں ڈاکٹر ذاکر حسین کا لکھا ہوا ایک سبق آموز مضمون ’ابوخاں کی بکری‘ کہانی سے اقتباس ملاحظہ ہو:
’’کچھ دیر جب گزرگئی تو بھیڑ یا بڑھا۔ چاندنی نے بھی سینگ سنبھالے اور حملے کیے کہ بھیڑیے کا ہی جی جانتاہوگا۔ بیسویوں مرتبہ اس نے بھیڑیے کو پیچھے ریل دیا۔ساری رات اسی میں گزری، کبھی کبھی چاندنی اوپر آسمان کی طرف دیکھ بستی اور ستاروں سے آنکھوں آنکھوں میں کہہ دیتی ارے کہیں اس طرح صبح ہوجائے۔
ستارے ایک ایک کرکے غائب ہوگئے۔ چاندنی نے آخر وقت میں اپنا زوردونا کردیا۔ بھیڑ یا تنگ آگیا تھا کہ دور سے روشنی دکھائی دی، ایک مرغ نے کہیں سے بانگ دی۔ نیچے مسجد سے اذان کی آواز آئی، چاندنی نے دل میں کہا اللہ !تیرا شکر ہے میں نے اپنے بس بھر مقابلہ کیا اب تیری مرضی۔ موذن آخری مرتبہ اللہ اکبر کہہ رہا تھا کہ چاندنی بے دم ہوکر زمین پر گر پڑی۔ اس کا سفید بالوں کا لباس خون سے بالکل سرخ تھا۔ بھیڑیے نے اسے دبوچ لیا اور کھا گیا۔
درخت پر چڑیاں بیٹھی کہہ رہی تھی، ان میں اس پر بحث ہو رہی تھی کہ جیت کس کی ہوئی۔ بہت کہتی تھیں کہ بھیڑ یا جیتا۔ ایک بوڑھی سی چڑیا تھی وہ کہتی تھی چاندنی جیتی۔‘‘
اقتباس ’ابوخاں کی بکری‘
اگر مذکورہ شعری و نثری نمونے بچوں کے ادب کے طور پر مثالی کتابیں تیار کرنے والے افراداور ادارے شامل کریں تو ادب اطفال سے آنے والے نسلوں کے لیے بڑے بڑے کام لیے جا سکتے ہیں اور مستقبل میں آپسی بھائی چارہ، افہام و تفہیم، سچائی و دیانتداری، ایثار و قربانی، ماحولیاتی تحفظ اور Sustainable development کے لیے راہیں استوار کی جاسکتی ہیں۔
حوالے
w نورالحسن نقوی، تاریخ ادب اردو، ایجوکیشنل بک ہاؤس، 2009
w اردو شاعری کا انتخاب، ساہتیہ اکادمی، نئی دہلی، 1993
w ڈاکٹر ریاض احمد، اردو تدریس جدید طریقے اور تقاضے، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، نئی دہلی، 2013
w ضیاء الرحمٰن غوثی، بہار میں بچوں کا ادب، پوسٹ باکس نمبر 8607، دہلی۔54، 2005
w صدیق الرحمٰن قدوائی، دہلی کے اسکولوں میں اردو نصاب کے مسائل، اردو اکادمی، دہلی، 1987
w ڈاکٹر ریاض احمد، تعلیم و تدریس کے روشن پہلو، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، 2011
w National Curriculum Fram Work for School Education, NCERT, New Delhi, 2005
w National Curriculum Fram Work for Teacher Education, NCTE, New Delhi, 2009
w عبد الحمید کاراشیری، بچوں کی تعلیم جدید نفسیات کی روشنی میں، اردو دنیا، NCPUL، نئی دہلی، جون 2012
w کرن سنگھ، عالمی سماج میں نوجوانو ں کی تعلیم، یوجنا اردو، پبلی کیشن ڈویژن، نئی دہلی، ستمبر 2003
w ڈاکٹر ریاض احمد، بچے کی تربیت ایک تجزیاتی مطالعہ، یوجنا اردو، پبلی کیشن ڈویژن، نئی دہلی، نومبر 2008
w منتخبات اردو، برائے درجہ نہم ودہم، مغربی بنگال اردو اکیڈمی، کولکاتا، 2009
w کیرالا ریڈر اردو (IX) SCERT کیرالا، 2010
w کرشن کمار، بچے کی زبان اور استاد: ایک دستور العمل، نیشنل بک ٹرسٹ، نئی دہلی، 2007
n
Dr. Reyaz Ahmad
Assistant Professor
College of Teacher Education, Sambhal
Maulana Azad National Urdu University
Gachibowli, Hyderabad - 500032
Email: reyazahmed045@gamil.com
قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں