15/11/18

ماحول اور موسمی تبدیلیاں۔ مضمون نگار: رفیع الدین ناصر




ماحول اور موسمی تبدیلیاں
رفیع الدین ناصر
تعارف
دور حاضر میں دنیائے انسانیت دو اہم مسائل سے دوچار ہے۔ ایک ہے ماحول کی بڑھتی ہوئی آلودگی اور دوسرا ہے کرّہ ارض پر حرارت میں غیر متوقع اضافہ جسے Global warmingکہا جاتا ہے۔ 1994 کی اقوام متحدہ کی رپورٹ میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے مطابق دنیا کے سات شہروں میں سے پانچ شہر ایشیا کے ہیں جہاں سب سے زیادہ آلودگی پائی جاتی ہے۔ ان شہرو ں میں کولکتہ، ممبئی، دہلی، بیجنگ اور جکارتا شامل ہیں۔ دہلی اور ممبئی ان شہروں میں سے ہیں جہاں سب سے زیادہ آلودگی پائی جاتی ہے۔ بعد میں سنہ 2000 کی رپورٹ میں چنئی کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق دہلی کی بڑھتی ہوئی آبادی اور ذرائع نقل و حمل میں روز افزوں اضافے نے اس شہر کی فضا کو تشویشناک حد تک آلودہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھا جس کی وجہ سے بیجنگ، قاہرہ اور میکسیکو جیسے آلودہ گرین دارالحکومتوں کے صف میں کھڑا کر دیا ہے۔ ہوا میں شامل گرد و غبار، باریک ذرات جن کی پیمائش مائکرو میٹر میں کی جاتی ہے، ہوا میں دس مائکرو میٹر سے کم سائز کے پی ایم 10کہلانے والے ذرات انسانی صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔ عالمی ادارہ صحت عامہ WHO کے مطابق یہ انتہائی باریک ترین ذرات انسانی پھیپھڑوں میں پہنچ جاتے ہیں اور پھر وہاں مستقل طور پر جم جاتے ہیں۔ اس سے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں اموات واقع ہوتی ہیں۔ اس عالمی ادارے نے ہوا میں ان ذرات کی زیادہ سے زیادہ مقدار بیس ذرات فی مکعب میٹر مقرر کی ہے۔ دہلی انتظامیہ نے سو ذرات فی مکعب میٹر کی قانونی حد مقرر کی تھی جبکہ اس شہر میں تین سو ذرات فی مکعب میٹر ناپے جاتے ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہمارا ماحول کس حد تک متاثر ہوا ہے۔ 

ماحول کیا ہے؟ 
ماحول (Ecology) لفظ Oikos = house اور Logos = study کا مجموعہ ہے جس کے لفظی معنی ہوتے ہیں Study of houseجس سے مراد دنیا کا مطالعہ کرنا ہے۔ اس اصطلاح کو سب سے پہلے Ernest Haeckel نے 1886 میں استعمال کیا۔ اس کی تعریف ہیکل نے یوں بیان کی کہ جانداروں اور ان کے اطراف کے حیاتی اور غیر حیاتی اجزا کا تعلق ہر چند کہ اس روئے زمین پر موجود تمام جانداروں کا تعلق براہِ راست یا بالواسطہ حیاتی اجزا سے قائم ہے۔ اسی بنیاد پر ہیکل نے ماحول کے مطالعے کی مختصر ترین تعریف ’’دنیا کا مطالعہ‘‘ کیا ہے۔ 
دراصل انسان اور اس کے اطراف کے حیاتی اور غیر حیاتی اجزا کو ماحول کہتے ہیں۔ ایسے حیاتی اور غیر حیاتی اجزا جن کا انسانی زندگی پر اثر ہوتا ہے، انھیں مشترکہ طور پر ماحول کہتے ہیں۔ اس کی تعریف یوں بھی بیان کی جاسکتی ہے ’’ایسا مسکن جس کا اپنا ماحولی نظام ہو ماحول کہلاتا ہے‘‘۔
ہزاروں سال قبل جب سے اس کرہ ارض پر انسانی زندگی کا آغاز ہوا، انسان اپنے ہی اطراف کے قدرتی ماحول سے فائدہ اٹھا کر اپنی زندگی بسر کرتا آیا ہے۔ انسان نے کھانے کے لیے درختوں کی پتیاں، پھل، جانوروں کا گوشت اور تن کو ڈھانپنے کے لیے درختوں کے بڑے بڑے پتوں کا استعمال کیا ہے۔ انسان چونکہ قدرت کا ایک بہترین شاہکار ہے اس لیے اس میں سوچنے، سمجھنے، اچھے بُرے کی تمیز کرنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ اس نے انہی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے تہذیب و تمدن کی بنیاد رکھی۔ انہی اوصاف نے اسے ترقی کا راستہ دکھایا اور یہ روز بروز نئے نئے تجربات کا خوگر ہوتا گیا۔ انسان نے ترقی کرکے جہاں تن کو ڈھانپنے کے لیے کپڑوں کی ایجاد کی وہیں کھانوں کے لیے نئے نئے ذائقے دریافت کیے۔ انسانی آبادی میں روز افزوں اضافہ ضروریات زندگی میں بھی اضافے کا متقاضی رہا۔ اس لیے اس نے زراعت کا طریقہ ایجاد کیا اور زمین سے اناج، سبزیاں اور پھل اگا کر اپنے خورد ونوش کا انتظام کرنے لگا۔ زراعت کے لیے کھاد اور پانی کی فراہمی اصل مسئلہ تھی جسے وہ قدرتی وسائل سے حاصل کیا کرتا تھا۔ مثلاً مویشیوں سے کھاد حاصل کرکے اپنی ضرورت پوری کرتا رہا۔ پانی کے لیے اس کا زیادہ ترانحصار بارش پر تھا۔ بارش کی کمی کی وجہ سے اگر کبھی پانی کی کمی ہوجاتی تو یہ کمی کنوؤں کے پانی سے پوری کی جاتی تھی۔ 
پچھلی تقریباً ایک صدی سے انساانی آبادی میں غیرمتوقع اضافہ اس کی ضروریاتِ زندگی کے اضافے کی اصل وجہ ہے لہٰذا جن وسائل پر ہماری زندگی کا دارومدار تھا وہ ناکافی ہوتے جارہے تھے۔ جس سے انسان کا عرصہ حیات تنگ ہوتا نظر آرہا تھا۔ ایسی حالت میں انسان کا اپنے وسائل کے لیے ہاتھ پیر مارنا فطری تھا۔ انسان کے لیے قدرتی وسائل کی کمی نے تجربات کی نئی راہیں ہموار کردی اور یہ نئے نئے تجربات کرنے لگا۔ پچھلی ایک صدی سے خصوصاً ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک صحت اور غذا پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔ نئی نئی اشیاء ایجاد ہورہی ہیں جن کا دن بہ دن استعمال بڑھتا جارہا ہے۔ نتیجے میں قدرتی ماحول میں مداخلت کا عمل روز افزوں بڑھتا جارہا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ انسان اور اس کے اطراف کا ماحول ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جہاں انسان کا وجود ہے وہیں اس کے ماحول کا بھی وجود ہونا لازمی امر ہے۔ انسان قدرت کی سب سے ترقی یافتہ مخلو ق ہے اس لیے اپنے پاکیزہ ماحول کی پاکیزگی یا آلودگی کی بھی پوری ذمہ داری اسی پر عائد ہوتی ہے۔ 
علم ماحولیات (Ecology)دراصل یہ ایک ایسا علم ہے جس میں خاندان یا سماج یا گروہ اور اس میں رہنے والے ذی حیات کے درمیان باہمی تعلق کا مطالعہ کیا جاتا ہے جس سے حاصل ہونے والے نتائج و اثرات اور اس کے تدارک کی تدابیر پر غور و خوض کیا جاتا ہے۔ اسی سے ماحولیاتی سائنس (Environmental Science)کا وجود ہوا ہے۔ یہ سائنس کی ذیلی شاخ مانی گئی ہے جو ماحولیاتی مسائل کو وسیع پیمانے پر حل کرنے میں معاون ہوئی ہے۔ اس میں موسم اور آب و ہوا کا تفصیلی مطالعہ کیا جاتا ہے۔ 

ماحول کے اقسام
ہمارا ماحول جاندار اور غیر جاندار اشیا کے باہمی عمل سے وجود میں آیا ہے اس لیے اسے ماحولیاتی نظام کہتے ہیں۔ ماحول کے بنیادی طور سے دو اقسام ہیں۔1: قدرتی ماحول اور2: انسانی خود ساختہ ماحول۔
1: قدرتی ماحول: کرہ ارض پر اور اس کے اطراف میں پائے جانے والے مادے ٹھوس، مائع اور گیس کی شکل میں ہمیشہ سے اتنی مقدار میں موجود ہیں جتنی کہ قدرت نے عطا فرمائی ہے۔ نا تو اس میں کمی ہوتی ہے اور نہ ہی زیادتی بلکہ حالات کے بدلنے سے ان کی شکلیں بدل جاتی ہیں۔ ٹھوس مائع میں، اور مائع گیس میں تبدیل ہوکر ہمارے اطراف ہوائی کرہ میں داخل ہوجاتی ہیں۔ بعض گیسیں کسی نا کسی طرح پھر زمین میں جذب ہو جاتی ہیں مثلاً پانی میں حل پذیر گیسیں تیزاب بناتی ہیں۔ یہ تیزاب زمین میں جذب ہوکر نئے مرکبات بناتے ہیں۔ یہ پودوں اور درختوں کی نشوونما میں معاون ہوتے ہیں۔ اس طرح مادے کی مقدار جوں کی توں قائم رہتی ہے۔ اسی لیے قدرتی ماحول کو یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ’’ماحول جو اپنی اصل شکل میں بغیر کسی انسانی مداخلت کے موجود ہو، قدرتی ماحول کہلاتا ہے،،۔
2: انسانی خود ساختہ ماحول : زمین پر انسان سب سے زیادہ ترقی یافتہ مخلوق ہے۔ اسے قدرت نے سوچنے سمجھنے او ر فیصلہ کرنے کی صلاحیت عطا کی ہے جس کی وجہ سے یہ اپنی زندگی کو بنانے اور سنوارنے کے لیے نئے نئے تجربات کرتا رہتا ہے۔ اسی وجہ سے انسان اپنی ضروریاتِ زندگی کی حصولیابی کے پیش نظر اس سے ہونے والے نتائج کی پرواہ کیے بغیر اپنے ماحول میں تبدیلی کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔ آبادی کا دھماکہ اور اس کے تقاضوں کی تکمیل کے لیے کارخانوں، فیکٹریوں اور دیگر صنعتی اداروں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے قدرتی ماحول تیز رفتاری کے ساتھ تنزل پذیر ہوتا جارہا ہے۔ اس لیے براہ راست انسانی مداخلت کی وجہ سے ماحول میں جو تبدیلی یا ردوبدل ہورہا ہے اس کو انسانی خود ساختہ ماحول سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ 
قدرتی ماحول میں انسان کی مداخلت روز بروز بڑھتی جارہی ہے جس کی وجہ سے ماحول کی آلودگی میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور جس کی وجہ سے انسان کی زندگی سب سے زیادہ متاثر ہورہی ہے۔ صنعتی کارخانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ، فیکٹریوں سے نکلنے والے آلود ہ پانی سے ندیوں کی آلودگی اور ذرائع نقل و حمل میں اضافہ اور اس میں استعمال ہونے والے مختلف اقسام کے ایندھنوں سے فضائی آلودگی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ زراعتی زمینوں پر آباد کاری، فصلوں میں اضافے کے لیے مصنوعی کھاد اور جراثیم کش دواؤں کے کثرت سے استعمال نے ہمارے ماحول کو آلودہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ جراثیم کش دواؤں سے نا صرف انسانی زندگی متاثر ہوئی ہے بلکہ کرم خور پرندوں کی جانوں کو بھی خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ 

ماحول کے اجزائے ترکیبی: 
ہمارا ماحول چار کروں پر مشتمل ہے۔ 1۔ ہوائی کرہ، 2۔ آبی کرہ ، 3۔ زمینی کرہ ،4۔ حیاتی کرہ۔
1۔ ہوائی کرہ : کرہ زمین کے اطراف ہوا کا ایک حفاظتی غلاف ہے جو سورج سے آنے والی شعاعوں کو براہ راست زمین تک آنے نہیں دیتا۔ اس کی وجہ سے زمین کے درجہ حرارت کا توازن قائم رہتا ہے۔ اس کے دو اہم اجزا آکسیجن اور نائٹروجن ہیں۔ جبکہ آرگان، کاربن ڈائی آکسائڈ اور دیگر گیسیں قلیل مقدار میں پائی جاتی ہیں۔ آکسیجن حیوانات کے لیے جتنی ضروری ہے اتنی ہی کاربن ڈائی آکسائڈ نباتات کے لیے ضروری ہے۔ پودے شعاعی ترکیب کے ذریعے ہوا سے کاربن ڈائی آکسائڈ اپنے دہن خلیوں کے ذریعے حاصل کرتے ہیں۔ اسی طرح نائٹروجن، امونیا گیس اور نائٹروجنی ترویجی بیکٹیریابھی جانداروں کے لیے اشد ضروری ہیں۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ہوا کی آلودگی میں بے تحاشا اضافہ ہورہا ہے۔ یہ اضافہ اس کرہ ارض پر بسنے والے ذی حیات کے لیے مسلسل خطر ہ بنتے جارہے ہیں۔
2۔ آبی کرہ : سمندر، تالاب، ندیاں، نہریں، چشمے، آبشار قطبی برفیلے علاقے اور زمینی پانی آبی کرے کے وسائل ہیں۔ ایک سروے کے مطابق آبشار اور قطبی برفیلے علاقے سے تین فیصد اور بقایا وسائل سے 97فیصد پانی حاصل ہوتا ہے۔ جبکہ صرف ایک فیصد پانی انسان کے خوردونوش کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ پانی کا 30فیصد حصہ آبپاشی کے لیے، 50فیصد حصہ توانائی پیدا کرنے کے لیے، 13فیصد حصہ کارخانوں میں استعمال کرنے کے لیے اور 7فیصد حصہ گھریلو امور کے لیے استعمال میں آتا ہے۔ سمندروں سے غذائی وسائل جیسے مچھلیاں، جھینگے وغیرہ حاصل ہوتے ہیں۔ جبکہ پہاڑوں سے بہتے ہوئے پانی سے بجلی تیار کی جاتی ہے۔ ہم اپنی ضروریات زندگی کے ایک فیصد پانی کو بھی آلودہ کردیں تو ہماری زندگی پر کتنے مضر اثرات پڑیں گے؟ اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔
3۔ زمینی کرہ : ہماری زمین اور اس کی مٹّی مختلف نامیاتی اور غیر نامیاتی مرکبات اور پانی پر مشتمل ہے۔ یہ زمینی کرہ ہمارے لیے کتنی اہمیت کا حامل ہے اس کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ ہم اپنی ضرورت کی ہر چیز مثلاً غذا، معدنیات ، نمکیات، پانی، لکڑی ، کوئلہ اور ہر قسم کے نباتات اسی سے حاصل کرتے ہیں۔
4۔ حیاتی کرہ : زمینی کرے پر بسنے والے تمام جاندار، انسان، حیوانات، نباتات ، خشکی و آبی کے ذی حیات ، زمین میں رہنے والے حشرات اور خوردبینی اجسام حیاتی کرے کے اجزا ہیں۔ یہ ماحول کا سب سے اہم جز ہے جس کا دارومدار ہوائی، آبی اور زمینی کروں پر ہے۔ ان میں کسی بھی طرح کی ناخوشگوار تبدیلی حیاتی کرے کو متاثر کیے بغیر نہیں رہ سکتی۔ 

ماحول اور انسانی زندگی : 
ہم جانتے ہیں کہ ماحول دراصل مختلف خولوں کا مجموعہ ہے۔ زمین کی اوپری سطح سے کچھ سو کلو میٹر تک کی دوری تک کے ایک خول میں جو بھی آتا ہے، وہ ماحول ہے۔ ا س میں جاندار اور غیر جاندار سبھی موجود ہیں۔ زمین کے اوپر کی ہوا، اس کی سطح اور اندر کے پانی اور پانی نما جیسے برف وغیرہ اس کے علاوہ زمین کے اوپر اور اندر کی مٹی سب ماحول میں شامل ہیں۔ اسی میں زندگی ہے اور زندگی کی علامتیں بھی ہیں۔ انسان اسی ماحول میں رہتا ہے جہاں سے وہ اپنے لیے پھل، پھول ، اناج ، کپڑے اور ضروریاتِ زندگی کی تمام چیزیں حاصل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت عطا کی اور اسی صلاحیت نے انسان کو ترقی یافتہ بنا کر اپنا رنگ دکھانا شروع کیا۔ خوب ترقی کی، کمپیوٹر، موبائل ، نیوکلئیر پلانٹ، لڑاکو جہاز سب کچھ تیار کیا اور ماحول کو آلودہ کرتا گیا۔ 

ماحولیاتی آلودگی : 
اللہ تعالیٰ نے ہمارے ماحول میں مختلف وسائل انسان کے لیے رکھے ہیں لیکن انسان کی بے سوچی سمجھی ترقی، توانائی کی ضرورت اور اس میں جلانے کی وجہ ، طرح طرح کی مشینوں کے بننے اور ان میں ایندھن کے استعمال نے وسائل کو خراب کیا ہے اور ماحول میں آلودگی بڑھائی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے نباتات، حیوانات، چھوٹے جانوروں،کیڑے مکوڑوں، پانی کے جانداروں کے ساتھ ساتھ ماحول پر بھی بہت خراب اثر ڈالا ہے جس کے نتیجے میں آدھے سے زیادہ قسم کے حیوانات اور نباتات ختم ہوچکے ہیں۔ اور جو موجود ہیں ان کا مستقبل بھی پریشانیوں سے گھرا ہوا ہے۔ ہوا ، مٹی، پانی، آسمان میں، پیڑ پودوں میں، تمام کیمیائی اشیا میں نامناسب اجزاء مل گئے ہیں جس سے وہ اب اتنے فائدہ مند نہیں رہ گئے ہیں، جتنے کہ وہ پہلے ہوا کرتے تھے۔ اس کی وجہ صرف اور صرف آلودگی ہے۔ جدید ترقی یافتہ دور میں ہم سوچتے ہیں کہ ہم ترقی کررہے ہیں لیکن یہ ہماری بھول ہے۔ آلودگی ترقی کی دین ہے اور یہ ترقی کو پیچھے لے جا رہی ہے۔ یہ آلودگی مختلف اقسام کی ہے جیسے کہ ہوا کی آلودگی، مٹی کی آلودگی، آواز کی آلودگی، صنعتی آلودگی، پانی کی آلودگی، درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے آلودگی، اٹامک اور نیوکلیائی آلودگی، کیڑے مار دواؤں کی وجہ سے آلودگی وغیرہ۔ یہ آلودگی بڑھتی جارہی ہے اور دنیا کا یہ اہم ترین مسئلہ بن گئی ہے۔ اس کا سب سے زیادہ اثر موسم کے بدلاؤ پر ہوا ہے۔

بدلتے موسم 
ماحولیات میں تبدیلی ہم اپنی عقل سے لائے ہیں۔ اس وجہ سے موسم بھی بدلتے جارہے ہیں۔ مگر یہ ہماری مرضی سے نہیں بلکہ اپنی مرضی سے بدل رہے ہیں۔ موسم دھیرے دھیرے بدل رہے ہیں۔ جن لوگوں کی عمریں 50سال سے زیادہ ہوگئی ہیں وہ لوگ اکثر کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ،سردی اس طرح پڑتی تھی ، گرمی میں ہم لوگ یہ کہا کرتے تھے، بارش تو اتنی ہوتی تھی کہ دسیوں دنوں تک سورج کا دیدار ہی نہیں ہوتا تھا، لوگ گرمی دینے والے سورج کے لیے دعائیں کرتے تھے۔ اور جب بارش نہیں ہوتی تو نمازیں پڑھی جاتی تھیں۔ فصلیں خراب ہوتی تھیں اور کسی سال اتنی بارش ہوتی تھی کہ ساری سڑکیں ڈوب جاتی تھیں۔ انسان نے جب سے حساب رکھنا شروع کیا، تو سب سے پہلے موسم کا ہی حساب رکھا۔ کچھ نہیں کیا تو بھی بس اتنا ہی یاد رکھا کہ بارش زیادہ ہوئی یا کم ہوئی۔ گرمی پڑی تو کتنی زیادہ ہوئی، دن رات برابر میں ہیں یا نہیں، درجہ حرارت زیادہ تو رہا مگر گرمی کم لگی، ہوا چل رہی تھی یا نہیں چل رہی تھی، سورج نکلنے کا وقت، ڈوبنے کا وقت وغیرہ۔ ماحول میں طرح طرح کے گیسوں کی وجہ سے ، گرمی سردی میں فرق کی وجہ سے ، بارش کی کمی زیادتی کی وجہ سے، ہوا کے تیز اور دھیمے ہونے سے، ہوا میں نمی کی کمی یا زیادتی کی وجہ سے بہت فرق آیا ہے۔ بہت سے حیوانات اور نباتات ختم ہورہے ہیں۔ بعض میں کچھ تبدیلیاں آرہی ہیں۔ یعنی کہ موجود تو ہیں لیکن بہت چھوٹے ہیں ، عمریں گھٹ رہی ہیں ، کوئی پیڑ اس وجہ سے ختم ہوگیا کہ اس کا بیج جب کوئی جانور کھا لیتا تھا تو اس کی غلاظت سے جب پھر وہ واپس ہوا میں آتا تھا تو اس میں کچھ فرق آ جاتا تھا جو کہ اس کے دوبارہ پنپنے کے لیے ضروری تھی۔ اور اس میں کونپل نکل آتی تھی۔ اب کسی اور وجہ سے وہ جانور یا چڑیا نہ رہی تو یہ بیج بھی پنپ نا سکا اور اس پیڑ پودے کی بھی نسل ختم ہوگئی۔ بہت سے جانور جیسے ڈیناسور اب باقی نہیں رہے۔ پہلے گدھ اور کوّے بہت ہوتے تھے، اب تو یہ عالم ہے کہ گدھ تو شہروں ، قصبوں میں ہی کیا گاؤں میں بھی دکھائی نہیں دیتے ہیں۔ ہاں کوّے دکھائی دیتے ہیں لیکن کم کم۔ مچھر بہت زیادہ ہوگئے ہیں۔ شہروں میں جنگلی ہاتھی یا چیتے کے بھاگ آنے کی خبریں آئے دن سننے کو ملتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ہاتھی یا چیتے بہت زیادہ ہوگئے ہیں، بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ جہاں یہ رہتے تھے وہاں کے جنگل کٹ گئے ہیں۔ بھاری بھاری مشینوں سے سڑکیں اور دیگر کام اور انتظام ہورہا ہے۔ ان کے گھروں پر آدمی قبضہ کررہا ہے۔ تو یہ راستہ بھول کرشہروں کی طرف آجاتے ہیں۔ 
موسم میں روز بروز تبدیلیاں ہوتی جارہی ہیں جس کی وجہ سے مختلف اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے گلیشیر پگھلنے لگے ہیں جس کی وجہ سے سمندر کی سطح میں 15سینٹی میٹر کا اضافہ ہوا ہے۔اکیسویں صدی میں سمندری سطح میں 59سینٹی میٹر کے اضافے کا امکان ہے جس کی وجہ سے سمندری کنارے غرقاب ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس کے علاوہ برف پگھلنے کی وجہ سے سمندر غیر متوازن ہوتا جارہا ہے۔ پچھلی کچھ دہائیوں میں اتھلے سمندر کا پانی بھاپ بن کر اڑنے کی وجہ سے سمندر کی اوپر کی فضاء کا درجہ حرارت بڑھ گیا ہے جس کی وجہ سے کئی سمندری جاندار تباہ ہوگئے ہیں اور تیزبارش کی وجہ سے کئی علاقوں میں سیلاب آیا ہے۔ موسم کی تبدیلی کی وجہ سے انھیں 1970 کی بہ نسبت انٹارٹکا کے سمندر میں اضافہ ہوا ہے۔ آلودگی کی وجہ سے کرہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے زمین پر مختلف ذی حیات کی زندگی متاثر ہوئی ہے۔ 

بدلتے موسم کے ذمہ دار ہم خود: 
انسان نے اپنی ترقی کے لیے قدرتی ماحول میں بہت بگاڑ پیدا کیا ہے۔ حد سے زیادہ وسائل کا استعمال کیا ہے۔ اس نے سمندر کو اونچے اونچے پہاڑوں میں تبدیل کیا ہے، برفانی پہاڑوں کو سمندر میں تبدیل کیا ہے، ندیوں کو سکھایا، مٹی کو برباد کیا، زمین میں موجود پانی کو برباد کیا، زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ کیا، گلیشیر کو پگھلا کر سطح آب میں اضافہ کیا، اس کی وجہ سے موسم میں بہت تبدیلیاں�آئی ہیں۔ راجستھان میں جہاں بارش کم ہوتی تھی ، اب وہاں پر باڑھ آتی ہے۔ جبکہ میگھالیہ اور کیرلہ پانی کو ترستے ہیں۔ بہت سے جنگل اب بنجر ہوچکے ہیں۔ وہاں پانی بھی نہیں برستااور مٹی بھی خراب ہوگئی ہے۔ کروڑوں اقسام کے پیڑ پودے، کیڑے مکوڑے ختم ہوگئے ہیں۔ انسان نے فیکٹریاں قائم کیں جس کے ذریعے کاربن ڈائی آکسائڈ، سلفر ڈائی آکسائڈ، میتھین، کلورو فلورو کاربن کا اخراج ہورہا ہے جس کے نتیجے میں گلوبل وارمنگ ہورہی ہے۔ اوزون کی پرت پتلی ہوتی جارہی ہے۔ پیڑ پودوں کو نقصان ہورہا ہے۔ تیل ، کوئلہ او ر معدنیا ت کا ذخیرہ گھٹتا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ کیمیائی کھاد اور کیڑے مارنے والی دواؤں نے زمین کو برباد کردیا ہے۔ تیزابی بارش نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ہے۔ انسانی صحت روز بروز متاثر ہوتی جارہی ہے۔ سانس کی، جلد کی، اور کینسر کی بیماریاں عام ہوگئی ہیں۔ شور نے نیند حرام کردی۔ بہرہ پن، جھنجھلاہٹ، نفسیاتی و دماغی امراض میں اضافہ ہوا ہے۔ صاف آکسیجن نہیں مل پا رہی ہے اور انسانی زندگی بہت متاثر ہوگئی ہے۔ 

تدارک : 
ہم آج بھی اگر سنجیدگی سے سوچیں تو ماحولیاتی آلودگی کو روک سکتے ہیں۔ بدلتے موسم کو روک سکتے ہیں۔ ہمارے ماحول کو صاف بنا سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے ہم کو سنجیدگی سے غور کرکے عملی طور سے کچھ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جیسے شمسی توانائی کا استعمال روشنی کے لیے، کھانا پکانے کے لیے اور الیکٹرانک آلات کے لیے کرنا چاہیے۔ جتنے ہو سکے پیڑ لگائیں۔ تالاب بنائیں۔ پانی کو زمین کے اندر محفوظ کریں۔ زمین سے حاصل ہونے والی قدرتی دولت کا حسب ضرورت اور کم استعمال کریں۔ آبادی پر قابو رکھیں۔ پلاسٹک کا استعمال ، کیمیائی کھاد اور کیڑوں کو مارنے والی ادویات کا استعمال ترک کردیں۔ہم اپنے آپ کو اور اپنے ماحول کو صاف ستھرا اور خوشگوار رکھیں۔ سائیکل کا استعمال، کپڑوں کی تھیلیاں، قدرتی دواؤں اور ضروریات زندگی کا استعمال کریں۔ کیونکہ یہ چیزیں ہم کو قدرتی ذرائع سے مفت ملتی ہیں۔ ان سے پیار کریں۔ زمین سے ، زمین کے گھومنے سے، صبح سے ، شام سے ، آسمان اور اس کے بدلاؤسے ، دھنک سے ، زمین کے لوگوں سے ، چڑیوں اور جانوروں سے ، پھول سے ، پھولوں کی مہک سے ، صاف پانی سے ، سورج سے، چاند سے، جھرنوں سے ، ندیوں سے، پہاڑوں سے، پیڑوں کی چھاؤں سے، آم سے ، آدمیوں سے، عقل سے، سچائی سے، ہندوستان سے ، ہندوستانیوں سے اس طرح سے ہم لاکھوں سالوں تک اس زمین او رماحول کو خوبصورت اور رہنے کے لائق پاتے رہیں گے اور ہمارے موسم جوں کے توں برقرار رہیں گے۔

Mr. Rafiuddin Nasir
Maulana Azad College
Roza Bagh
Aurangabad - 431001 (MS)







قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں