14/11/18

ڈپٹی نذیر احمد کے مکتب میں سائنس کی تعلیم مضمون نگار:۔ شاداب تبسم





ڈپٹی نذیر احمد کے مکتب میں سائنس کی تعلیم
شاداب تبسم

دنیائے اردو ادب میں ڈپٹی نذیر احمد کو ناول نگار کی حیثیت سے اولیت حاصل ہے۔ وہ اعلیٰ درجے کے نثر نگار، ماہر زبان داں، مترجم، مقرر اور عالم تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سعادت علی سے حاصل کی لیکن دلی کالج کی تعلیم نے انھیں مولوی نذیر احمد سے ڈپٹی نذیر احمد اور صحیح معنوں میں جدید افکار سے روشناس کرایا۔ دہلی کالج میں ان کی تعلیم کا زمانہ 1845 سے 1854 تک تھا۔ یہاں انھوں نے عربی، فلسفہ، سائنس وغیرہ کی تعلیم حاصل کی۔ دوران ملازمت الہ آباد میں انگریزی بھی سیکھ لی۔
ڈپٹی نذیر احمد ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ معاشرتی اصلاح بالخصوص عورتوں کی اخلاقی تربیت میں گہری دلچسپی تھی۔ جدید تعلیم کی تبلیغ اور اصلاح نسواں ان کا بڑا کارنامہ ہے۔ ان کا خیال تھا کہ راست پندو نصائح کا طریقہ مؤثر نہیں ہوسکتا اس لیے اپنے مقصدکی تکمیل کے لیے مذہبی اور اخلاقی کتابیں تحریر کیں ۔ ایک ماہر نفسیات کی طرح قصے اورکہانیوں کو اصلاح کا ذریعہ بنایا۔ چنانچہ بنات النعش، مراۃ العروس، توبۃ النصوح، فسانۂ مبتلا، ابن الوقت، رویائے صادقہ اور ایامیٰ جیسے ناول لکھے۔ان تمام ناولوں کا مقصد مجموعی طورپر فرسودہ خیالات کو رفع کرنا اور نئے تقاضوں کے تحت داخلی رویوں میں تبدیلی پیدا کرنا تھا۔ ناول’ابن الوقت‘ اور ’رویائے صادقہ‘ میں نذیر احمد انگریزی تعلیم اور تہذیب کے زیر اثر فروغ پانے والے جدید تہذیبی رویوں کے غلبے کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسری طرف ناول ’بنات النعش‘ میں لڑکیو ں کے لیے مکتب کھول کر اس میں امور خانہ داری اور اخلاقی تعلیم کے ساتھ مغربی علوم اور سائنسی ادراک سے ہندستانی سماج بالخصوص مسلم خواتین کو روشناس کرانے میں دیگر افراد کے ساتھ نذیر احمد بھی پیش پیش نظر آتے ہیں۔ جس دور میں اسکول کے نظام کی کوئی صورت گری نہیں ہوئی تھی اور لڑکیوں کے لیے اسکول کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا ۔ نذیر احمد نے ناول ’بنات النعش‘ میں لڑکیوں کے لیے مکتب کھول کر تعلیم و تربیت کا بہترین طریقہ اختیار کیا۔
جدید تعلیمی تحریک کی مرکزی حیثیت تو سرسید احمد خاں کی تھی مگر ان کے رفقا میں نذیر احمد کا حصہ سرسید کے بعد سب سے زیادہ نظر آتا ہے۔ سرسید اور ڈپٹی نذیر احمد کی تحریریں اس بات کی گواہ ہیں کہ دونوں قدیم تعلیم سے بیزار اور جدید تعلیم کے حامی تھے۔ 1862 میں سائنٹفک سوسائٹی کا قیام بھی مغربی علوم کو ورناکیولر میں منتقل کرنے کے مقصد سے عمل میں آیا تھا۔ اس سوسائٹی کو سرسید تحریک کا نقطۂ آغاز کہا جاسکتا ہے۔ اس کے تحت انگریزی سے اردو میں ترجمے کا کام شروع ہوا تو مندرجہ ذیل مضامین کا انتخاب کیا گیا۔
حرکیات (Mechanics) برقیات (Electronics)، ریاضی (Mathematics)، فلسفۂ قدرت (Natural Philosophy) اور جدید زراعت (Agriculture) وغیرہ۔ 
سائنس لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی علم کے ہیںیعنی تجربات ومشا ہدات کے ذریعے حاصل ہو نے والے علم کو سائنس کہتے ہیں۔یوروپ میں انیسویں صدی سے سائنس کا زریں دور شروع ہوتا ہے اس لیے اخلاق اور امور خانہ داری کے ساتھ سائنس کی تعلیم کے پیش نظر ناول ’مراۃ العروس‘ میں ڈپٹی نذیر احمد ناول کے کردار اصغری کے ذریعہ لڑکیوں کے لیے ایک مکتب قائم کراتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کے حقوق کی پاسبانی ، ان کی فلاح و بہبود اور اس سے زیادہ ان کی تعلیم و تربیت کے جذبات نذیر احمد کے قلب میں موجزن تھے۔ اگرچہ اس کا نقطۂ آغاز ان کی اپنی بیٹیوں کی تعلیم تھی۔ لیکن انھوں نے اپنے مقصد کو اس طرح پھیلایا کہ اس کے فوائد نے اجتماعی صورت اختیار کرلی اوراصغری کے مکتب کی تصویر کشی کر کے اس کی عملی شکل ہمارے سامنے پیش کی ہے۔
ناول ’بنات النعش‘ کا کردار معلمہ اصغری میں علم کے اعتبار سے اتنا وزن اور وقار ہے کہ وہ ابتدائی درجات کے بچوں کو مذہب اور اخلاق جیسے علوم کے ساتھ ابتدائی سائنس ، حساب ، جغرافیہ اور تاریخ جیسے علوم کو اعتماد کے ساتھ پڑھا سکتی ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد چاہتے تھے کہ گھر کے اخراجات ، لین دین، آمد و خرچ وغیرہ کے حساب کتا ب میں خواتین کو کسی کا دست نگر نہ ہونا پڑے۔ اس لیے مکتب میں معلمہ ریاضی جیسے خشک مضمون کی ایک شاخ حساب (Arithmatics) کی تعلیم دلچسپ انداز میں دیتی ہے۔ جس سے لڑکیاں ریاضی کی طرف راغب ہوں۔ ناول ’بنات النعش‘ کے ایک باب ’حساب کی دلچسپ باتیں‘ سے چند مثالیں پیش ہیں:
محمودہ: کیوں کلثوم تین اور سات اور نو مل کر کے ہوتے ہیں؟
کلثوم: انیس
محمودہ: اور بھلا آٹھ اور چھ اور دو۔
کلثوم: سولہ‘‘ 1
محمودہ: اچھا زبیدہ تم کلثوم سے زیادہ بڑی ہو۔ بھلا بتاؤ بارہ لڑکیاں اگر ہنڈ کلہیا میں تین تین پیسے کا ساجھا ملائیں تو سب کے آنے ہوں گے
زبیدہ: نو آنے
محمودہ: ڈیڑھ سیر میں اگر چھ لڑکیوں کے برابر حصے لگائے جائیں تو ہر ایک لڑکی کو کتنا کتنا پہنچے گا۔
زبیدہ: پاؤ پاؤ بھر‘‘۔ 2
مکتب میں نہ صرف جوڑنا، باقی نکالنا، ضرب، تقسیم ہی نہیں بلکہ رقبہ (Area)، حجم (Volume) اور اربعہ متناسبہ (Property of ratio and proportion)کا قاعدہ بھی سکھا یا جاتا ہے۔ مثلاً 
محمودہ: بھلا یہ بتاؤ کہ یہ دالان جس میں ہم سب بیٹھے ہیں چھ گز لمبا اور ڈھائی گز چوڑا ہے ، چاندنی میں کتنا مارکین خرچ ہوگا؟
رابعہ: اورمارکین کا عرض
محمودہ: یہی معمولی گز بھر۔
زبیدہ: پورے پندرہ گز۔
محمودہ: ایک سوال بتاؤ تو تم کو بڑی شاباشی دیں۔ یہ بڑی مسجد کا حوض چھ گز مربع ہے یعنی لمبان چوڑان برابر۔ اور دو گز گہرا اور ایک گز مربع میں تین مشک پانی آتا ہے اور ایک مشک میں پچیس لوٹے اور ایک لوٹے میں پندرہ گلاس اور ایک گلاس میں آدھ پاؤ پانی تو سارے حوض میں کتنا پانی ہو ا‘‘۔ 3
معلمہ محمودہ جامع مسجد کی مینار کو بغیر گز، بغیر رسی اور مینار کے اوپر جائے بغیر ناپنے یعنی سایہ (Shade) کے ذریعے لمبائی ناپنے کی بابت متعدد سوالات قائم کرتی ہے تو ہاجرہ اربعہ متناسبہ کے قاعدے سے قطب صاحب کی لاٹ ناپنے کے تعلق سے کہتی ہے:
’’ہاجرہ: ابھی ایک بڑی آسان بات ہے ۔ ایک تنکا لے کر اس کوناپ لیا ۔ پھر اس کو دھوپ میں کھڑا کر کے اس کے سایہ کوناپ لیا، پھر لاٹ کے سایہ کو ناپ ڈالا تو اربعہ متناسبہ کے قاعدے سے جو تم کو معلوم ہے لاٹ کالمبان نکل آئے گا۔ اس طور پر کہ اپنے لمبے تنکے کا سایہ اس قدر لمبا پڑتا ہے تو لاٹ جس کا سایہ اتنالمبا ہے کتنی اونچی ہوگی۔‘‘ 4
معلمہ اصغری کی ساس حرف شناس نہیں تھیں۔ اس لیے ان کو ماما عظمت جیسی عورت تباہ کرتی چلی گئی۔ معقول آمدنی کے باوجود خاندان تنگ دستی میں مبتلا رہا۔ لیکن اصغری کے گھر کا حساب کتاب رکھنے سے اندازہ ہوا کہ موجودہ آمدنی سے گذر بسر آسانی سے ہوسکتی ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد کا خیال تھا کہ خواتین روزمرہ کی زندگی میں پیش آنے والی ضرورتوں کے لیے کسی کی محتاج نہ رہیں۔ ان بنیادی باتوں کے علاوہ انھوں نے خواتین کے لیے اوپری درجے کی تعلیم کو بھی پیش نظر رکھا ہے۔ اس لیے مکتب میں ان موضوعات پر گفتگو کی گئی ہے جنھیں حقائق اشیاء کاعلم کہہ سکتے ہیں۔ سائنسی علوم میں حساب کے علاوہ علم جرثقیل کامختصر تذکرہ ملتا ہے۔ مثلاً محمودہ کہتی ہے:
محمودہ: علم جرثقیل میں اسی قسم کی ہزاروں باتیں ہیں۔ حکمت بڑی چیز ہے۔اکیلا آدمی حکمت کے زور سے ہزاروں من کا بوجھ تنکے کی طرح اٹھا کر پھینک دے۔‘‘ 5
ڈپٹی نذیر احمد لڑکیوں کو صرف گھرکی چار دیواری میں محدود نہیں رکھنا چاہتے تھے۔ بلکہ ان کی خواہش تھی کہ خواتین کو علم کی روشنی حاصل ہو اوران کے دماغ روشن ہوں۔ اس لیے ناول میں حساب اور علم جرثقیل کے علاوہ زمین کی کشش، وزن مخصوص، ہوا کا دباؤ، کشش، مقناطیس، زمین کی گردش، خوردبیں، جغرافیہ، سمندر کے منافع، بجلی، بادل وغیرہ کے بارے میں کچھ بنیادی باتیں بتائی گئی ہیں۔
زمین کی کشش یاکشش ثقل (Gravity) یعنی جب کوئی چیز آسمان کی طرف اچھالتے ہیں تو وہ واپس زمین پر آکر گرتی ہے دراصل ثقل وہ پُر اسرار طاقت ہے جو ہر چیز کوزمین کی طرف کھینچتی ہے۔ سب سے پہلے اسحاق نیوٹن (Issac Newton) نے سترہویں صدی میں ریاضی کے ذریعے اجسام کی کشش کے بارے میں دریافت کیا تھا۔ ان کا یہ نظریہ قانون تجاذب (Law of Gravity) کہلاتا ہے۔ کشش ثقل کے بارے میں محمودہ حسن آرا کوبتاتی ہے:
’’جتنی چیزیں ہیں سب کو زمین اپنی طرف کھینچتی ہے ۔ جوچیز اوپر کو پھینکتے ہیں، کچھ دور تک تو پھینکنے والے کے زور اور زبردستی سے اوپر چلی جاتی ہے پھر آخر زمین کی کشش اس کونیچے کھینچ لاتی ہے۔ پتھر کواوپر پھینکو اور دیکھتی رہو تو ایسا معلوم ہوگا کہ جوں جوں اوپر جاتا ہے اس کی چال سست اور دھیمی ہوتی جاتی ہے اور پھر جو الٹتا ہے تو تیر کی طرح زمین کی طرف دوڑتا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ چیزیں زمین کی کشش کے مارے اوپر کو نہیں جانا چاہتیں اور جاتی بھی ہیں تو زبردستی اور بڑی مشکل سے۔‘‘6
باب ’وزن مخصو ص ‘کے تحت تیرتے ماأعات (Liquids) یعنی ایک مایع چیز دوسرے مایع پر کیوں تیرتی ہے۔یہ قاعدہ آرکمیڈیز (Archimedes) کی دریافت ہے جسے کثافت (Density) کہتے ہیں۔ محمودہ پانی اور تیل کی مثال دے کر حسن آرا کو سمجھاتی ہے کہ تیل کی کثافت کم ہونے کی وجہ سے تیل پانی کے اوپر تیرتا ہے:
’’کوئی چیز ہلکی ہے کوئی بھاری۔ جتنی ہلکی چیزیں ہیں خود بخود اوپر آجاتی ہیں۔ مثلاً گلاس میں اول تیل ڈال دیجیے، اس کے اوپر پانی ۔ تو چوں کہ تیل پانی کی نسبت ہلکا ہے خود بخود اوپر آجائے گا۔‘‘ 7
طالبات کے فہم و بصیرت میں اضافے کے لیے باب ’ہوا کا داب‘ (Air Pressure)میں استانی محمودہ اور حسن آرا کے درمیان موضوع پر گفتگو مکالمہ اور مذاکرہ کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ مثلاً ہوا میں وزن ہے تو کیسے، خالی بوتل میں ہوا ہے تو کس طرح۔ غرض اسی نوعیت کے استفسارات کے تسلی بخش جواب دیے جاتے ہیں۔ معلمہ یہ سمجھانے میں کامیاب ہوجاتی ہے کہ دھواں بھی ہوا سے ہلکا ہونے کے سبب اوپر کو ہی جاتا ہے۔
’کشش اتصال ‘(Force of Attraction) باب کے تحت ذکر کیا جاتا ہے کہ کل چیزیں ایک دوسرے کو اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ اس کے ساتھ مقناطیس (magnet) جو میگنیس (Magnes) کی دریافت ہے، پر بھی سیر حاصل گفتگو ہوتی ہے کہ مقناطیس کیا ہے اور کس طرح لوہے کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ زمین گول ہے اور آفتاب کے گرد گھومتی ہے۔ مقناطیسی کشش کی مناسبت سے زمین کی گولائی اور آفتاب کے گرد گھومنے کا ذکر کرتے ہوئے محمودہ شاگردہ کو اس بات سے آگاہ کرتی ہے کہ کشش کی وجہ سے زمین گیند کی طرح آفتاب کے گرد چکر لگاتی ہے۔ 
’خوردبیں‘ (Microscope ) یعنی بصری آلہ جس کے ذریعہ انتہائی چھوٹے اجسام جن کو آنکھیں نہیں دیکھ پاتیں آسانی سے دیکھا جاسکتا ہے۔ استانی خوردبیں کا استعمال کرتی ہیں تو شاگردہ مکتب میں حیرت و استعجاب کے انداز میں کہتی ہے: 
’’بدن کے رونگٹے رونگٹے میں چھید مکھی تو دیکھو ہزاروں لاکھوں آنکھیں اور پروں میں اتنے رنگ۔افوہ ہوا میں اتنے بھنگے۔الہ اکبرپانی میں بلا کے کیڑے شیشہ تو عجب طلسمات کا شیشہ ہے۔‘‘8
باب ’’رنگ‘‘ میں رنگوں کے بکھراؤ کے تعلق سے عام معلومات فراہم کرتی ہے۔ اور سمجھاتی ہے کہ آسمان میں نکلنے والی رنگین کمان قوس قزح ( Rainbow )کس طرح بنتی ہے۔ رنگوں کے بیان پر مشتمل ایک کتاب الماری سے نکال کر شاگردہ کو پڑھنے کے لیے دیتی ہے۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم آسمان کی طرف دیکھتے ہیں تو پھٹے ہوئے بادل میں چاند بھاگتا ہوا نظر آتا ہے۔ لیکن جب بادل نہیں ہوتا تو چاند میں کوئی حرکت نہیں ہوتی۔ اس تعلق سے مکتب کی لڑکیوں کے ذہنوں میں پنپنے والے سوالات کا جواب استانی اس طرح وضاحت کے ساتھ دیتی ہے کہ کوئی پہلو تشنہ نہ رہے۔متحرک چیزوں میں ’آنکھ کا غلطی کرنا‘ باب کے تحت نہایت ہی تفصیل کے ساتھ تمام باتوں کو اس انداز سے بیان کرتی ہے کہ عام ذہن رکھنے والی لڑکیاں بھی آسانی سے سمجھ سکتی ہیں۔کہتی ہے:
محمودہ: ’’میں بتادوں یہ بھی آنکھ کی ایک غلطی ہے۔ ہوا بادل کو اڑائے لیے چلی جاتی ہے اور بادل چل رہا ہے ، ہم کو ایسا نظر آتا ہے کہ گویا چاند بھاگ رہا ہے۔‘‘ 9
’زمین گول ہے‘ اس بات کی دریافت کا سہرا جان سبسٹین (John Sebastian) اور فرڈیننڈ میگلن (Ferdinand Magellan) کے سر باندھا جاتا ہے۔ مکتب کی استانی زمین کی جسامت، ہیئت اور تقسیم پر بات کر کے شاگردہ حسن آرا کو سمجھانے میں کامیاب ہوجاتی ہے کہ زمین گول ہے ۔ انداز بیان اتنا دلکش اور دلچسپ ہے کہ ثقیل کی باتیں بھی ذہن پر بار نہیں معلوم ہوتیں۔
موجودہ دور میں بدلتی ہوئی آب و ہوا ایک سنگین عالمی مسئلہ ہے۔ ماحولیاتی آلودگی سے نجات پانے کے لیے سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر مختلف اقدامات کیے جارہے ہیں لیکن آلودگی خواہ وہ ہوا کی ہو، پانی کی ہو یا شور کی ہو، بڑھتی آبادی کے سبب خطرناک شکل اختیارکرتی جارہی ہے۔ ناول ’بنات النعش‘ میں ڈپٹی نذیر احمد نے اب سے تقریباً ڈیڑھ سو سال پہلے شہرو دیہات کی آب و ہوا کی آلودگی کے اسباب اور ان سے پیدا ہونے والے مسائل پر روشنی ڈالی ہے۔ معلمہ کے ذریعہ جغرافیہ مثلاً کرۂ ارض کا نقشہ دکھا کر لڑکیوں کو اس کی معلومات فراہم کراتے ہیں۔ سمندر کے فائدے بیان کرنے کے ساتھ بارش، روشنی اور رفتار کی معلومات فراہم کی جاتی ہے کہ کس طرح بھاپ سے بادل اور بادل سے بارش ہوتی ہے اور کس طرح ہوا کی نسبت روشنی کی رفتار تیز ہوتی ہے۔ غرض یہ کہ موسیمات (Climatology) کی بنیادی معلومات مکتب میں دی جاتی ہے۔
اجرام فلکی (Celestial Bodies) کی بناوٹ اور علم ہیئت پر بات کرتے ہوئے استانی کہتی ہیں:
’’جن کتابوں میں چاند اور سورج اور ستاروں کا بیان ہوتا ہے وہ علم ہیئت کی کتابیں کہلاتی ہیں۔‘‘ 10
سورج کے سامنے زمین کی اپنے محور پر گردش کے سبب دن اور رات وجود میں آتے ہیں۔ زمین کی یہ گردش لاکھوں اربوں سالوں سے اسی طرح قائم ہے۔اس لیے ایسا ممکن نہیں کہ سال کے مختلف دنوں میں دن اور رات کے جو اوقات ہیں ان میں کسی بھی قسم کی کوئی تبدیلی آسکے۔حسن آرا استانی سے غروب آفتاب کے بعد دھوپ کے نہ ہو نے کا سبب دریافت کرتی ہے تو استانی دن اور رات کے تعلق سے بیان کرتی ہے:
’’زمین گول ہے جس طرف سے آفتاب کے سامنے ہوتی ہے وہاں دن ہوا اور دوسری طرف اندھیرا جس کو رات کہتے ہیں‘‘۔11
مکتب میں زمین سے آفتاب اور ستاروں کی دوری ، ان کی گردش وغیرہ کی تعلیم بھی دی گئی ہے۔ توہم پرستی کی وجہ سے مدرسے کی شاگردہ سورج گہن (Solar Eclipse) اور چاند گہن (Lunar Eclipse) کو عذاب الٰہی کہتی ہے تو استانی اس کا وہم دورکرنے کی غرض سے رسالہ ’سیرآسمان‘‘ پڑھنے کی تاکید کرتے ہوئے سورج گہن اور چاند گہن کے بارے میں بتاتی ہے:
’’جب سورج اور چاند کے بیچ میں زمین آپڑے گی، چاند گہن ہوگا اور جب سورج اور زمین میں چاند حائل ہوگا تو سورج گہن۔‘‘ 12
ناول ’بنات العنش‘ میں اصل توجہ سائنس کی عام معلومات یا بنیادی باتوں پر مرکوز کی گئی ہے۔ ساتھ ہی ان موضوعات پر بھی گفتگو کی گئی ہے جن سے اخلاق کی درستی مقصود ہے۔
ڈپٹی نذیر احمد کو دہلی کالج میں دوران تعلیم سائنسی علوم میں بہت زیادہ دلچسپی نہ رہی اپنے اوقات کا بیشتر حصہ ادب کے مطالعے میں صرف کیا۔ کالج میں علوم کیمیا و طبعیات کے اسباق و تجربات مختلف آلات کے ذریعے سکھائے جاتے تھے۔ نت نئے انکشافات ، سائنس کے تجربے اور مشاہدے طلبا کے لیے حیرت و مسرت کا باعث ہوتے تھے۔ سائنس سے بے توجہی کے باوجود استاتذہ اور ہم جماعتوں کے مسابقت کے جذبے کی بدولت انھوں نے سائنسی علوم میں کافی دست گاہ بہم پہنچائی۔ان کے خطبات اور خطوط سے بھی اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ بڑے دقیق مسائل ان کے ذہن میں آخری وقت تک محفوظ رہے۔ڈپٹی نذیر احمد سائنس کی اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے اپنے لکچر بتاریخ 2دسمبر 1888 میں کہتے ہیں: 
’’سائنس نے ایسا سراٹھارکھا ہے کہ زور جسمانی اور بہادری اورپہلوانی کسی کی کوئی حقیقت باقی نہ رہی۔‘‘ 13
ایک خطبے میں ساحل پر موجوں کے زور و شور اور سمندر کے اندرونی سکون کا سبب بیان کیا ہے اور علم طبیعات کے اس مسئلے کو نقشہ بناکر سمجھایا ہے اور ایک خطبے میں قوم کے عروج و زوال کے ضمن میں بطور مثال پتھر کے اوپر پھینکنے اور نیچے گرنے پر اس کی حرکت صعودی اور حرکت ہبوطی کی رفتار کا فرق بھی سمجھایا ہے۔ سائنس کی تعلیم کا اثر یہ ہوا کہ نذیر احمد کے ذہن میں زندگی اور کائنات کے عام حقائق کا صحیح شعور اور ادراک پیدا ہوا۔ اسی شعور کا پیدا ہونا تعلیم کا بنیادی مقصد ہونا چاہیے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر ڈپٹی نذیر احمد نے ناول ’بنات النعش‘ میں سائنس کی عام معلومات کو دلچسپ اور مربوط انداز میں قصے کے پیرائے میں ذہن نشیں کرانے کی کوشش کی ہے۔ سائنس اور تکنیک کے موجودہ دور میں یہ باتیں ہمارے لیے اہم نہ ہوں لیکن آج سے تقریباً ایک سو پچاس سال پہلے یہ باتیں بالخصوص خواتین کے لیے تعجب خیز تھیں۔ ان سے نہ صرف معلومات میں وسعت پیدا ہوئی بلکہ بہت سے توہمات بھی دور ہوئے۔ آخر میں حسن آرا استانی سے کہہ اٹھتی ہے :
’’جتنی باتیں آپ نے فرمائیں سب مرے دل نے قبول کیں۔ اور علم بڑی دلچسپ چیز ہے اور میں رسالہ ’سیر آسمان‘ ضرور پڑھوں گی۔‘‘ 14
مصنف نے ناول کے مختلف کرداروں کے ذریعے نہ صرف علم بلکہ علوم جدیدہ کے متعلق معلومات فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاکہ مستورات کو زندگی کے نشیب و فراز سمجھنے میں آسانی ہو اور ان کا ذہن علوم و فنون کے سیکھنے کی طرف مائل ہو ۔ غرض ڈپٹی نذیر احمد نے اصغری کے مکتب کو مثالی مکتب کی شکل میں پیش کیا ہے۔
حواشی:
1: بنات النعش، ڈپٹی نذیر احمد، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،2013، ص52
2: ایضاً،ص53 3: ایضاً، ص54
4: ایضاً،ص55 5: ایضاً،ص43
6: ایضاً،ص58 7: ایضاً،ص59
8: ایضاً،ص67 9: ایضاً،ص69
10: ؁ٍایضا،ص139 1: ایضا،ص141
12: ایضاً،ص144
13: لکچروں کا مجموعہ ، مرتبہ: مولوی بشیر الدین احمد، جلد اول، مفید عام پریس آگرہ، ص54، 1918
14: بنات النعش،ص143

Shadab Tabassum
PDF, Depf of Urdu
Jamia Millia Islamia
New Delhi - 110025






قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

1 تبصرہ:

  1. قابلِ قدر اقدام کیا گیا ھے یہ عمل ماضی کی تاریخ کے ساتھ مستقبل کی تعمیر بھی ھے ،جو عصر حاضر کی ضرورت اور طاقت بھی ھے۔

    جواب دیںحذف کریں