نیّر مسعود کی افسانہ نگاری
عریشہ تسنیم
اردو ادب میں 1970 کے بعد جن افسانہ نگاروں کی واضح شناخت قائم ہوئی ان میں نیر مسعود (پ: 16نومبر 1936، و: 24 جولائی 2017) کا نام بھی آتا ہے۔ نیر مسعود اعلیٰ درجہ کے محقق، مترجم اور نقاد کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ لیکن ان کی شہرت کی خاص وجہ ان کے وہ افسانے ہیں جو چار مجموعوں میں شائع ہوئے ہیں۔ یہ مجموعے سیمیا، عطر کافور، طاؤس چمن کی مینا اور ’گنجفہ‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں روایتی بیانیہ سے الگ ہٹ کر اسے مغربی پیرائے اظہار دے کر پیش کیا ہے۔ نیر مسعود کے بیش تر افسانے ان کے خواب میں نظر آئے زماں اور مکاں سے پرے نقوش، عوامل یا واردات کے عکس ہیں جنھیں لفظی جامہ پہنا کر افسانہ یا قصہ کا روپ دیاگیا ہے۔ ساتھ ہی اس بات پر بھی خاص توجہ دی گئی ہے کہ خواب اس طرح پیش کیا جائے کہ قاری کے دل پر بھی ویسے ہی احساسات واثرات مرتب ہوں جو مصنف کے دل پر ہوئے۔ اس کے لیے موقع کے اعتبار سے صحیح الفاظ کا انتخاب کرنا، جملوں کو ایسے ترتیب دینا جس سے نقوش ابھرکر سامنے آئیں اور کم سے کم اور عام فہم الفاظ کا استعمال کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ یہ سب ان کے اسلوب کی غیر معمولی خصوصیات ہیں۔ نیر مسعود کے افسانے چونکہ ان کے خوابوں سے تراشیدہ ہوتے ہیں اس لیے عموماً ان کے افسانوں کا کوئی موضوع پہلے سے طے نہیں ہوتا۔
ساگری سین گپتا سے انٹرویو کے دوران انھوں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے۔’’میری کہانیوں میں، بلکہ پوری زندگی میں خوابوں کا بہت بڑا کردار ہے۔ بعض خواب تو اس قدر مربوط، گویہ پورے بنائے افسانے کے طور پر دیکھے۔ بہت لمبے خواب بھی دیکھے۔۔۔قسطوں میں کوئی خواب نہیں دیکھ سکا ہوں اب تک بار بار دکھائی دینے والے خواب بھی دیکھے۔ یہ تو سبھی کے ساتھ ہوتا ہے کہ کوئی ایک یاد و خواب بار بار دکھائی دیتے ہیں اور سمجھ میں نہیں آتا کہ کیوں؟‘‘ 1
نیرمسعود ہر اعتبار سے ادب کی ایک پروقار شخصیت ہیں لیکن جس چیز نے انھیں عالمی سطح پر شہرت اور مقبولیت دلائی وہ ان کے افسانے ہیں۔ افسانوں میں بھی ان کا وہ خاص اسلوب جس کے لیے نیرمسعود پہنچانے جاتے ہیں۔ اسی خاص اسلوب کی وجہ سے ان کے افسانے اتنے مشہور ہوئے۔ ہندوستان اور بیرون ملک میں بھی ان کے افسانوں کے مداحوں کی اچھی خاصی تعداد ہے۔ یہ افسانے انگریزی اور دیگر غیر ملکی زبانوں میں ترجمہ ہوکر دور دور تک پھیلے اور انھیں بھرپور داد وتحسین حاصل ہوئی۔ ان کے افسانوں کے منفرد اور متنوع موضوعات اور ان میں پوشیدہ معنی خیزی اور اسرار کے عنصر کی وجہ سے مغربی ممالک کی ادبی دنیا ان سے متاثر ہوئی۔ انگریزی میں ان کے افسانوں کو موضوع بناکر کئی چھوٹے بڑے مضامین لکھے گئے، ان میں سب سے اہم تحریریں محمد عمر میمن کی ہیں جو University of Wiscosin, Madison کے پروفیسر ہیں۔ ان کے علاوہ ایلی زبیتھ بیل (Elizabeth Bell)، محمد سلیم الرحمن، زینو (صفدرمیر) اور مظفر علی سید کی تحریریں بھی نیر مسعود کی افسانہ نگاری سے متعلق ہیں۔ ان تحریروں سے یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ نیر مسعود کو بیرون ملک میں کتنی شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی۔ اردو میں ان کی افسانہ نگاری کی طرف اتنی توجہ نہیں دی گئی جتنی بیرون ممالک میں دی گئی۔
نیر مسعود کی افسانہ نگاری سے متعلق کچھ نامور دانشوروں کی رائیں مندرجہ ذیل ہیں:
(i) ’’نیر مسعود کی ایک اپنی نجی دنیا ہے جسے وہ اپنے نفس (اپنی ہستی) کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔ یہ آئینے سے جھانکتے ہوئے عکسوں، ابہامات اور بیک وقت نمایاں اور دھندلی بے خیالوں کی دنیا ہے جو اپنے خلا کے کھنچاؤ سے ہمیں پر اسمیاں بھی کرتی ہے۔ ماضی یہاں مسلسل حال پر مسلط رہتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ اس میں معنی پیدا کرنے کی ہر کوشش کی تادیب بھی کرتا رہتا ہے۔‘‘ (Elizabath. Bell) 2
(ii) ’’نیر مسعود کی کہانیاں بنیادی طور پر اپنی ہیئت کے لحاظ سے تجدد پسند اور مواد کے لحاظ سے روایت پسند کہی جاسکتی ہیں۔ ان کہانیوں میں صرف ’’وقوعے‘‘ ہیں۔(ان میں) رسمی معنوں میں کہانیاں نہیں ہیں۔‘‘3
(زینو:The Fiction of Past as Present)
ان جائزوں اور تاثرات کے ساتھ اگر ان متفرق رایوں کو بھی شامل کرلیا جائے جن کا اظہار ان کی کہانیوں کے انگریزی تراجم کی اشاعت کے بعد کیا گیا تو ایک دلچسپ اور الجھی ہوئی تصویر رونما ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر مارکس (Globe Correspondant) نے کہا کہ یہ کہانیاں (عطر کافور)ماورائی اشاروں اور نفسیاتی حرارتوں کے ایک چابکدست آمیزی کی صورت میں سامنے آتی ہیں۔ نیر مسعود کی (قاری کے احساسات کو) گرفت میں لے لینے والی مافوقیت (Supernaturalism) کی دور افتادگی اپنے حقیقی (اورصداقت پر مبنی) ہونے کا اثر پیدا کرتی ہے، جسے برآمد (Export) کرنے کے لیے پیدا نہیں کیاگیا۔
Elle Mazazine کے مطابق:
’’یہ کہانیاں ایک جادوئی قالین کے گنجان دھاگوں سے بنی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ گویا کہ مجموعی اعتبار سے یہ کہانیاں ایک اجنبی، نادیدہ مگر پر کشش حقیقت اور ایک ایسی دنیا کی تشکیل کرتی ہیں جو ہمارے لیے ہے بھی اور نہیں بھی ہے۔‘‘4
افسانوی مجمو عہ عطرکافور کاپہلا افسانہ ’مراسلہ‘ ہے۔اس میں پلاٹ بظاہر سیدھا سادہ معلوم ہوتا ہے لیکن افسانے کو آخرتک پڑھنے پر بھی قاری کہانی کی مختلف کڑیاں جوڑ کر اسے قصے کی شکل دینے میں مشکل محسوس کرتا ہے۔ یہ نیر مسعود کے فن کی ایک بڑی خصوصیت ہے کہ بظاہر سیدھا سادہ نظر آنے والا پلاٹ بھی کئی معنوی جہات کا حامل ہوتاہے۔افسانہ ’سلطان مظفر کا واقعہ نویس‘ میں پلاٹ کافی الجھاہوا معلوم ہوتا ہے۔ اس میں صحرا جس میں سلطان مظفر کا بغیر چھت کا مقبرہ ہے، قلعہ جس میں ہیولائی قسم کے کردار رہتے ہیں اور صحرائی مہم وغیرہ کا بیان ہے۔ واقعہ نویس کا بیان بڑے پر اثر انداز میں ہوا ہے جس سے قاری عجب طرح سے اس میں جکڑا رہتا ہے۔ اس میں کئی کردار ہیں۔ مثلاً سلطان مظفر، واقعہ نویس، صحرائی عورت وغیرہ کا ذکر ہے۔نیرمسعود کے یہاں پلاٹ کاباضابطہ التزام نہیں ملتا۔ بہ الفاظ دیگر انھوں نے وحدت تاثر اور مربوط پلاٹ پر استوار یک رخے افسانے لکھنے سے احتراز کیاہے۔ ان کے افسانوں کے پلاٹ اکہرے نہیں ہوتے بلکہ اصلی پلاٹ سے ذیلی پلاٹ نکلتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی ذیلی پلاٹ ان کے اصلی پلاٹ پر حاوی ہوجاتے ہیں، لیکن ان کا یہ فنی کمال ہے کہ اختتام کے وقت اس کا اصلی پلاٹ پھر کسی نہ کسی صورت میں سامنے آجاتاہے اور تمام ذیلی پلاٹ کے نقوش دھندلے پڑجاتے ہیں۔ پھر بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ذیلی قصوں کی کثرت کی وجہ سے ان کے افسانوں میں بھول بھلیاں کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے، جس سے پڑھنے والے کا ذہن الجھ کر رہ جاتا ہے اور کہانی کی اصل روح تک پہنچنے کے لیے بڑی ژرف بینی درکار ہوتی ہے۔
نیر مسعود کے زیادہ تر افسانوں میں محض کسی ایک قصے کا بیان نہیں ملتا بلکہ اس سے جڑے اور قصوں کا بیان بھی شامل رہتا ہے۔ مثال کے طور پر افسانہ ’اوجھل‘ میں نو عمر واحد متکلم کے جنسی تجربات کے بیان کے علاوہ مکان کے معائنوں کا ذکر، ایک نا معلوم تیماردار اور غرقاب دوشیزہ کا تفصیلی تذکرہ ہے۔’نصرت‘ میں مرکزی کردار کی کہانی کے علاوہ بدکار عورت اور بوڑھے جراح کا بیان ہے۔ ’سلطان مظفر کا واقعہ نویس‘ میں سلطان کی صحرائی مہم، مقبرہ کی تعمیر کا حال، ایک دوشیزہ سے سلطان کے تعلقات اور پھر ایک زہریلے درخت کاذکر ہے۔ ’عطر کافور‘ میں کافوری چڑیا، عطر سازی کے مختلف مراحل اور پھر ماہ رخ سلطان اور اس کی نامعلوم بیماری کا بیان ہے۔ ان کے بیشتر افسانوں میں ذیلی قصوں کی کثرت اور تنوع کی وجہ سے پیچیدگی اورمبہم سی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔البتہ یہ کیفیت پیدا کرنے کا شعوری مقصد شاید یہ ظاہر کرناہے کہ دنیا اصل میں مترادفات کا مجموعہ ہے۔ اسی فلسفے کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ اپنے افسانے تحیر خیزی، بے مرکزیت، بھول بھولیوں والے پلاٹ اور فضا اور کردار کے عجوبے پن سے خلق کرتے ہیں۔ بعض اوقات تو محض بیان سے بھول بھلیاں کا تاثر پیدا کردیتے ہیں مثلاً:
’’پھر میں پھاٹک کے اندر داخل ہوگیا۔ مجھے ہر طرف دیواریں ہی دیوار یں نظر آئیں۔ آگے پیچھے بنی ہوئی اونچی دیواریں مختلف زاویوں سے ایک دوسرے کے قریب آتیں، پھر دور ہوجاتیں۔ سب سے اونچی دیواریں سب سے پیچھے تھیں۔ یہ نیم دائرے کی شکل میں اٹھائی گئی تھیں اور یہی دور سے چھت کا فریب دیتی تھیں۔‘‘5
بورخیس کی طرح نیر مسعود نے بھی بھول بھلیاں کی تمثیل اپنے افسانوں میں کثرت سے استعمال کی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ معاشرتی وسماجی تصورات کی مضحکہ خیزی کو اجاگر کرنے کے لیے بھی انھوں نے متعدد ذیلی قصوں کو بیک وقت بیان کیا ہے تاکہ اس میں چھپے ہوئے عناصر کی نشاندہی کی جاسکے۔ سہیل وحید سے ایک انٹرویو میں نیر مسعود اپنی کہانیوں کے موضوع کے متعلق فرماتے ہیں:
’’میں موضوع کے بارے میں سوچتا نہیں ہوں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ کہانیاں مبہم ہیں اور یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کہانی میں آپ کہنا کیا چاہ رہے ہیں۔ ضمنی موضوعات بہت سے ہوتے ہیں لیکن بنیادی موضوع کوئی ایک نہیں ہوتا۔ بعض کہانیوں میں ہے لیکن عام طور پر کہانیوں کا کوئی موضوع نہیں ہے۔ ضمناً تمام موضوعات زیر بحث آتے ہیں۔ اس کو چاہے میری کمزوری سمجھ لیجیے کہ موضوع بناکر کہانی نہیں لکھ پاتا ہوں۔‘‘ 6
دو مختلف افسانوں کے درمیان ارتباط قائم کرنے کا ہنر، وہ ہنر ہے جس میں نیر مسعود کا کوئی شریک نہیں۔ وہ ایک افسانے کی تفصیلات؍واقعات کو دوسرے افسانے میں ہنر مندی سے اس طرح شامل کرتے ہیں کہ افسانہ خود اپنے آپ میں مکمل ہونے کے باوجود ایک دوسرے متن کی تشکیل میں بھی شریک ہوتا ہے۔ مثلاً ’جانوس‘ میں ایک شخص افسانے کے راوی کو کہتا ہے کہ وہ یہیں لکھنؤ کا رہنے والا ہے اور یہاں نواب سہراب کی حویلی اس کے خاندان کی تھی جواب اس کی نہیں ہے۔ ’جانوس‘ میں اس مفلوک الحال شخص کی صرف ایک شناخت بتائی گئی ہے کہ اس کا رنگ بہت کالا تھا۔ اب اس مجموعے کے دوسرے افسانے ’جرگہ‘ میں ایک منظور صاحب نامی شخص نے ایک پرانی حویلی خرید کر اسے پھر سے باز تعمیر کے بعد اس میں پہلی دعوت کی ہے۔ کوٹھی کے سامنے محمد میاں کی چائے کی دکان میں موجود ایک شخص ہے جس کا رنگ سیاہ ہے اس کوٹھی کی باز تعمیر کا حال بیان کررہا ہے۔ اس گفتگو میں سیاہ رنگ والا شخص بتاتا ہے اس کوٹھی کا سامنا ایسانہیں جیسا کہ اصل عمارت میں تھا۔ پھر مکالمے کے دوران محمد میاں اس سے پوچھتا ہے۔
’’تو تمہیں پتہ ہے حویلی کا سامنا کیسا تھا؟‘‘
’’مجھے پتہ نہیں ہوگا‘‘ دوسرے آدمی نے دھیرے سے کہا اور محمد میاں اچانک افسردہ نظر آنے لگا۔ ’’سچ کہا خیرچھوڑو۔ یہ بتاؤ کہیں رہنے کا ٹھکانہ ہوا‘‘؟ میری مانو تو وہ ٹھٹک کر رہ گیا۔‘‘7
سیاہ رنگ والا یہ شخص جسے چائے والا ’نواب‘ کہہ کر مخاطب کرتا ہے ’جانوس‘ کا وہی اجنبی ہے جو کانپور سے واپس لکھنؤ آگیا ہے اور جس نے ڈاکٹر صاحب کو بتایا تھا کہ اس کی آبائی کوٹھی وہی ہے جسے منظور صاحب نے خریدلی۔
افسانوی مجموعہ ’عطر کافور‘ کی اشاعت (1990) کے بعد چوتھے مجموعے ’گنجفہ‘ اشاعت (2008) میں ’پاک ناموں والا پتھر‘ کے عنوان سے ایک افسانہ شامل ہے۔ اس میں پاک ناموں والے پتھر کو راوی کا خاندانی نشان بتایاگیا ہے ’’جس کی خاطر خون بہا ہے۔‘‘ اس افسانے میں وہ استاد بھی موجود ہے جس نے ’وقفہ‘ میں راوی کو پڑھایاتھا اور ’طاہرہ بی بی‘ بھی جنھوں نے ’وقفہ‘ میں راوی کو ایک لڑکی کے ذریعہ استاد کے مرنے کی خبر اور ایک سرخ رومال میں رکھی کنجیاں بھجوائی تھی۔ اس خاندانی نشان کا ذکر نیر مسعود نے اپنے پہلے افسانوی مجموعے کے پہلے افسانے ’اوجھل‘ میں بھی کیا ہے۔ مثال:
’’میری روانگی سے کئی دن پہلے جب میرے گلے میں پاک ناموں والا پتھر ڈالا گیا، جومیرے خاندان میں کئی پشتوں سے چلا آرہا تھا، تو میری بیزاری اور بڑھ گئی۔‘‘8
نیرمسعود کے افسانوں کا فنی جائزہ لینے پر پتا چلتا ہے کہ نیر مسعود نے روایت سے انحراف کرتے ہوئے اپنے افسانوں میں وقوعہ کو مرکز توجہ بنانے کے بجائے لسانی اظہار کو زیادہ اہمیت دی ہے۔ اس لیے ان کے افسانوں میں بیانیہ معروضی ہونے کے ساتھ اس میں ممکنہ تمام امکانات کی گنجائش، قول محال کا استعمال،ایک کہانی میں کئی ذیلی قصوں کی موجودگی جس کے نتیجے میں بھول بھلیاں جیسی کیفیت اور ریاضیاتی توازن یعنی ایک ایک جزو کا باریکی سے تذکرہ وغیرہ خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ تکنیک کے سلسلے میں نیر مسعود بورخیس سے متاثر ہیں اور اسی لیے اپنے افسانے ’’جانوس‘‘ کے سرنامہ کے طور پر انھوں نے بورخیس کا ایک قو ل "The world, unfortunately is real" تحریر کیا ہے۔
نیر مسعود کے افسانوں میں جابہ جا میجکل ریلزم کی جھلک بھی ملتی ہے اور قاری جب ان کے افسانوں کا مطالعہ کرتا ہے تو اسے محسوس ہوتاہے کہ گو یہ وہ کسی عجوبے، کسی جادوئی دنیا میں پہنچ گیا ہے یا خوابوں کی دنیا میں سیر کر رہا ہے جہاں کشش بھی ہے، خوف کا عنصر بھی ہے اور زندگی اور مناظر کے کئی معنی دیتے اشارے بھی۔ میجکل ریلزم کی کارفرمائی نیر مسعود کے افسانوں کے مندرجہ ذیل اقتباسات میں دیکھے جاسکتے ہیں:
1۔ ’’دھوپ میں تیزی آگئی تھی اور اب کچی سڑک کے آثار بھی ختم ہوگئے تھے، البتہ گرد آلود پتیوں والے درختوں کی دو رویہ مگر ٹیڑھی میڑھی قطاروں کے درمیان اس کا تصور کیاجاسکتاتھا، لیکن اچانک یہ قطاریں اس طرح منتشر ہوئیں کہ سڑک ہاتھ کے پھیلے ہوئے پنجے کی طرح پانچ طرف اشارہ کرکے رہ گئی۔ یہاں پہنچ کر میں تذبذب میں پڑگیا۔ مجھے گھر سے نکلے ہوئے بہت دیر نہیں ہوئی تھی اور مجھے یقین تھا کہ میں اپنے محلے سے بہت دور نہیں ہوں، پھر بھی میں نے وہاں پر ٹھہرکر واپسی کا راستہ یاد کرنے کی کوشش کی۔ میں نے پیچھے مڑکر دیکھا۔ گرد آلود پتیوں والے درخت اونچی نیچی زمین پر ہر طرف تھے۔ میں نے ان کی قطاروں کے درمیان سڑک کا تصور کیا تھا لیکن وہ قطاریں بھی شاید میرے تصور کی پیداوار تھیں، اس لیے کہ اب ان کا کہیں پتہ نہ تھا۔ ‘‘ 9
2۔ ’’اس کی نظر اب بھی مجھ پر جمی ہوئی تھی لیکن یقیناًمیں اسے دکھائی نہیں دے رہا تھا‘‘۔10
3۔ ’’اگلے موڑ پر اس کی ایک ہلکی سی جھلک دکھائی دی اس کے بعد درختوں اور ٹیلوں کے درمیان وہ بار بار نظر آتا اور غائب ہوتا رہا اور اب ہر جھلک کے ساتھ اس کی شائستگی نمایاں ہورہی تھی اور ہر جھلک کے ساتھ اس کی کہنگی دور ہورہی تھی۔ ‘‘11
نیر مسعود کے افسانوں میں میجکل ریلزم کے عناصر پر گفتگو کرتے ہوئے کچھ ادیبوں نے اپنی رائیں اس طرح ظاہر کی ہیں۔
عتیق اللہ اپنے مضمون میں فرماتے ہیں:
’’نیر مسعود کے ذہن کی پرداخت بھی ہماری کلاسیکی داستانوں اور مثنویوں کے ماحول میں ہوئی تھی۔ اسی باعث قدیم سے رشتہ جوڑ کر جدید کی مانوسیت کو انھوں نے نامانوسیت میں بدلنے کی سعی کی ہے۔ جس ماحول اور باغ کو انھوں نے پیش کیا ہے وہ کتاب سے حاصل کردہ تجربے کے طور پر ان کے ذہن کے اندر اور بہت اندر تہہ نشست ہے۔ جس نے اب محض ایک اسرار اور ایک گم شدہ خزانے کی صورت اختیار کرلی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیر مسعود کے اکثر افسانوں میں ایک گم شدہ تہذیبی اور طلسمی سیاق وسباق،ایک ڈراونے خواب میں بدل جاتا ہے۔‘‘ 12
مہدی جعفر نے نیر مسعود کے علامتی بیانیہ کا جائزہ لیتے ہوئے اس خصوصیت کی طرف اشارہ کیا ہے:
’’ان کے افسانے ’کافکا ‘اور ’پو‘ جیسے فن کاروں سے قریب مگر ’’جو ائس‘‘ وغیرہ کی فن کاری سے فاصلے پر ہیں۔ ان کے چند افسانوں میں میجک ریلزم کی کارفرمائی ہے۔ دیوندر اسرکی حقیقت پر مبنی Magic Realism کے برخلاف نیر مسعود کی میجک ریلزم خواب ناک علامتوں پر استوار ہے۔ جب کہ سریت دونوں کے یہاں موجود ہے۔ نیر مسعود کا فن اتنا محدود نہیں ہے کہ وہ محض لکھنؤ کے زوال کا المیہ رقم کریں۔ در اصل وہ فنا کا افسانہ لکھتے ہیں۔ صاف اور لطیف زبان کے باوجود نیر مسعود کے افسانے قارئین کے لیے پیچیدہ ہوتے ہیں۔‘‘13
ان اقتباسات سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ نیر مسعود کے افسانوں کے کینوس پر میجکل ریلزم کی جابہ جا کار فرمائی ہے۔جس کے نتیجے میں ان کے افسانے مبہم، خواب ناک اور خوف کی فضالیے معلوم ہوتے ہیں۔
نیرمسعود کے افسانوی مجموعہ ’عطر کافور‘ کے سارے افسانے علامتی قسم کے ہیں۔ ان میں مرکزی افسانہ ’عطر کافور‘ علامتی قسم کے افسانے کی بہترین مثال ہے۔ اس میں کافور اور عطر کافور مختلف معنوں میں استعمال ہوئے ہیں۔
(i)۔ کافورکا مفہوم انسان کاوجود اور اس کی شخصیت سے متعلق ہے۔ افسانے میں چوکور مرتبان جس میں کافور رکھا ہے انسان کا جسم، مرتبان میں رکھا کافور انسان کا وجود اور اس کی خوشبو روح ہے جو دوسروں کو متاثر کرتی رہتی ہے۔ انسان کا وجود رفتہ رفتہ موت کی طرف بڑھتا رہتا ہے جس طرح کافور خوشبو کے ساتھ دھیرے دھیرے اڑتا رہتا ہے۔ کچھ وقفے کے بعد کافور کی طرح انسان کا وجود عدم میں گم ہوجاتا ہے۔
(ii)۔ عطر کافور دو معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
(الف) عطر کافور سے مراد نیر مسعود کے افسانے ہیں جو بظاہر سادہ، جذبات سے خالی اور ویرانی جیسی کیفیت لیے ہوتے ہیں جس طرح عطر کافور میں کوئی رنگ نہیں ہوتا اور اس کی خوشبو سے موت، بیزاری اورعدم کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ لیکن افسانوں کا جب بغور مطالعہ کیا جاتا ہے تو ان میں فنا پذیری اور نظام قدرت سے متعلق فلسفے چھپے ہوتے ہیں۔
(ب) عطر کافور جو بے رنگ اور اس میں کوئی خوشبو نہیں ہوتی ہے افسانے کی ہیروئن ماہ رخ سلطان کا تلازمہ ہے کیونکہ ماہ رخ بھی جذبات سے خالی ایک کردار ہے جو رفتہ رفتہ مرض کے سبب موت کے قریب ہوتی جاتی ہے اور اخیر میں اس کا وجود ختم ہوجاتا ہے۔
نیرمسعود کے افسانوں کا موضوعاتی مطالعہ کیا جاتا ہے تو افسانوں میں موضوعاتی وحدت دیکھنے کوملتی ہے۔ اگر موضوعاتی وحدت سے افسانوں کو بچایا گیا ہوتا تو ان کی ادبی اہمیت اور زیادہ ہوتی ساتھ ہی وسعت پیدا ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے۔ اس کے علاوہ ان کے افسانوں میں موجود کرداروں کے اعمال وکیفیات میں بھی یکسانیت پائی جاتی ہے۔ ان کے تمام افسانوں پر نگاہ ڈالنے پر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بیشتر کردار کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا ہیں۔ ان کے زیادہ تر افسانے علالت، معالج اور تیماردار کے ذکر سے خالی نہیں ہیں۔ بہت سے کردار سحر کے اثر میں مبتلا لگتے ہیں۔ اس کے علاوہ کرداروں پر اکثر کسی نہ کسی مرحلہ میں غنودگی ضرور طاری ہوتی ہے۔ افسانوی مجموعہ ’سیمیا‘ میں شامل افسانے ’اوجھل‘ اور ’مسکن‘ میں مرکزی کردار بولنا اور سوچنا چھوڑ دیتے ہیں۔’سیمیا‘ کے بیشتر کردار سحر گزیدہ معلوم ہوتے ہیں، ان کے اعمال وافعال سے وہ کسی قدیم داستان کے مافوق الفطری کردار لگتے ہیں۔۔دوسری بات جو شدت کے ساتھ محسوس ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ان کے یہاں رمز واشارات کثرت سے پائے جاتے ہیں، نتیجتاً افسانوں کے معنوی اور موضوعاتی پہلو بآسانی سامنے نہیں آتے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے افسانے معنی سے خالی ہیں بلکہ ان میں معنی کا ایک جہاں آباد ہے جہاں تک رسائی کے لیے ژرف بینی درکار ہوتی ہے۔
حوالہ جات:
1۔ رسالہ آج،1998
2۔ سہ ماہی اردو ادب،2002، ص،66
3۔ سہ ماہی اردو ادب،2002،ص67
4۔ سہ ماہی اردو ادب،2002،ص67
5۔ عطر کافور،ص،62 6۔ رسالہ آجکل،2008
7۔ جرگہ، ص،8 8۔ اوجھل،ص،19
9۔ مراسلہ،ص16 10۔ سیمیا،ص،174
11۔ سیمیا،ص،174
12۔ نیر مسعود کی افسانوی واہمہ سازی،ص،283
13۔ افسانہ بیسوی صدی کی روشنی میں،ص،56,57
n
Arisha Tasneem
Ph. D Research Scholar
Maulana Azad National Urdu University
Urdu University Road, Near LNT Towers, Telecom Nagar, Gachibowli
Hyderabad -500032 Telangana
قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں