12/11/18

جاں نثار اختر کی طویل نظمیں۔ مضمون نگار:۔ صدیق محی الدین





جاں نثار اختر کی طویل نظمیں
صدیق محی الدین



اُردو کی شعری روایت میں مثنوی، مرثیہ اور قصیدہ یوں تو طوالت کی حامل شعری اصناف ہیں لیکن موضوعات اور تخلیقی محرکات و مقاصد کے پیش نظر اُن کی مخصوص صنفی شناخت قائم ہے۔ یہ قدیم اصناف جدید نظم کے صنفی تصور سے یقیناًمختلف شعری حیثیت کی حامل ہیں۔اُردو شاعری میں نظم کی روایت یوں تو دکنی عہد میں قلی قطب شاہ، ولی و سراج اور میر و سودا کے عہد میں بھی مثنویات کی صورت میں موجود رہی ہے۔ مثنوی کی ہئیت میں لکھی ہوئی میر کی مختلف شعری کاوشات کو نظم کے تحت شامل کیا جاسکتا ہے لیکن پھر بھی نظم کے جدید صنفی تصور کے حوالے سے انھیں نظم نہیں کہا جا سکتا۔ لگ بھگ اسی عہد میں نظیر اکبر آبادی نے بھی اپنی پیش رو اور معاصر شعری روایت سے انحراف کرتے ہوئے نظم نگاری کی منفرد روایت قائم کی، اپنی تمام تر معاشرتی سماجی، تہذیبی وابستگی کے باوجود نظیر کے ذہن میں بھی نظم کا صنفی تصور واضح نہیں تھا۔ وہ مخمس، مسدس یا غزل کی ہئیت میں کسی موضوع پر اپنی شعری کاوش کی بنیاد رکھتے ہیں۔اگرچہ اُن کا یہ اجتہاد اپنے معاصر شعری روایت سے یقیناًمختلف ہے۔آزاد اور حالی نے انجمن پنجاب کے مشاعروں کے تحت جس نظم جدید کو فروغ دینے کی کوشش کی وہ بھی ایک لحاظ سے تجربہ پسندی کا ہی رحجان تھا، لیکن ان کی کاوشات کو نظم کے صنفی تعین کی جانب ایک اہم قدم ضرور کہہ سکتے ہیں۔نظم کو اپنے تعمیری اور تشکیلی کردار کے ساتھ اقبال نے نئی جہات سے آشنا کیا، اور نظم کو موضوع و ہئیت کی جدت کے ساتھ اپنی مخصوص فکر کا ترجمان بنایا۔اقبال کا یہ کارنامہ اُردو نظم کے تخلیقی ارتقامیں انھیں منفرد اور ممتاز مقام عطا کرتا ہے۔اقبال نے شعوری طور پر اُردو میں طویل نظم کی ہئیت کو اختیار کیا، اگرچہ اس کی ابتداحالی کر چکے تھے، لیکن حالی کی کاوشات ابتدائی نوعیت کی تھیں۔اقبال نے اسے نئی وسعتوں اور بلندیوں سے آشنا کیا۔اقبال کی طویل نظم نگاری کی کامیابی کا اہم راز یہ ہے کہ انھوں نے غزل کی ہئیت سے خوب فائدہ اُٹھایا۔اُن کے مخصوص نظام فکر کے اظہار کے لیے جس وسعت بیانی کی ضرورت تھی انھوں نے غزل کی ہئیت میں ہی اس کی تشکیل کی۔اُن کی بیشتر طویل نظمیں اسی ہئیتی جدت کا مظہر ہیں۔طویل نظم ایک مخصوص تخلیقی منصوبہ بندی کا مطالبہ کرتی ہے۔اس کے ساتھ ہی اس میں بیانیہ کا تخلیقی ارتکاز بھی ناگریز ہے۔اس کے تخلیقی امکانات بھی بے شمار ہیں۔کہانی، بیانیہ ڈرامائی مکالمہ نگاری، خود کلامی،تاریخی واقعات اور اسی نوع کے متعدد تخلیقی اظہارات سے طویل نظم نگار کام لے سکتا ہے اور حسب ضرورت اپنی نظم میں تسلسل بیان اور تخلیقی وحدت بھی قائم کر سکتا ہے۔طویل نظم کے تخلیقی جواز کا تجزیہ کرتے ہوئے قمر رئیس اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں :
’’طویل نظم کے شاعر کے لیے اجتماعی شعور اور تاریخی بصیرت لازمہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس سے زیادہ کٹھن وہ مر حلہ یا عمل ہے جو فکر و شعور کے اس حاصل کو نظم کا تخلیقی فارم دیتا ہے۔ان گنت تجربات اور تصورات کو سیاّل بناکر جذبہ و احساس کی زبان یعنی شاعری کے پیکر میں ڈھالتا ہے۔ظاہر ہے کہ اس کے لیے انسانی زندگی اور معاشرے سے گہری وابستگی اور دلچسپی ہی نہیں تخلیقی فکر کا ایک خاص استقراء اور نظم و ضبط بھی درکار ہوگا۔‘‘ 
مذکورہ اقتباس سے طویل نظم کے صنفی تقاضوں کی بڑی حد تک وضاحت ہو جاتی ہے۔ظاہر ہے کہ طویل نظم کی ہئیت کو شاعر اسی وقت اختیار کرتا ہے جب اس کے موضوع اور بیانیہ کے لیے مختصر ہئیت نا کافی لگتی ہے۔ لہٰذا فطری طور پر شاعری کی تخلیقی رَو وسعت و طوالت اختیار کرتی ہے۔یہاں شاعر پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ نظم میں تسلسل کے ساتھ تخلیقی وحدت ار تکاز کو بھی پیش نظر رکھے۔بہر حال طویل نظم کی شعریات میں ایسے کوئی متعین قواعد و ضوابط کی تدوین نہیں ہو سکی ہے کہ جس سے مطلق طور پر یہ معلوم ہو سکے کہ نظم کی عمومی حدوں سے تجاوز کے بعد طوالت کی تعریف میں آتی ہے۔
جاں نثار اختر کو شعرو ادب کا ذوق ورثے میں ملا تھا۔ نیز علی گڑھ کے علمی و ادبی ماحول نے اس کو مزید حسن آفریں بنایا۔اُن کے ادبی مذاق کی تشکیل و تعمیر میں جہاں پر کلاسیکی شعریات کا اہم حصّہ ہے۔وہیں پر رومانوی رحجان کے اثرات بھی شدت سے پائے جاتے ہیں۔بلکہ اُن کے رومانی مزاج پر کلاسیکیت کی سخت گیری بے اثر ثابت ہوئی۔وہ بہت جلد اشتراکی حقیقت نگاری کے حوالے سے ترقی پسند تحریک کے زیر اثرآگئے۔اس عہد میں ترقی پسندوں نے آزادی کے حصول اور معاشی عدم مساوات کو اپنے منشور میں نمایاں اہمیت دی اورموضوعاتی اور بیانیہ شاعری کو رواج دیا۔جاں نثار اخترنے بھی اپنے عہد کے سماجی و معاشی مسائل کو نظموں کا موضوع بنایا۔ جاں نثار اختر نے بھی کچھ طویل نظمیں لکھی ہیں۔اگرچہ یہ نظمیں بہت زیادہ طویل نہیں ہیں،لیکن موضوعاتی وسعت اور شعری بیانیہ کے سبب ان میں کسی حد تک طوالت آگئی ہے اس قبیل کی نظموں میں مورخ سے، ریاست، دانائے راز، پانچ تصویریں اور امن نامہ شامل ہیں۔یہ نظمیں اُن کی تاریخی،سیاسی، معاشرتی اور تہذیبی و تمدنی شعور کی ترجمان ہیں۔ نظم ’مورخ سے ‘ شاعر کے سماجی تاریخی اور سیاسی شعور کی آئینہ دار ہے۔شاعر اس نظم میں مورخ سے مخاطب ہے کیونکہ مورخ انسانی تاریخ کے تمام ادوار سے واقف ہے۔اور وہ ہر دور کی حکومت اور حکمرانی سے واقف ہے۔ ملک گیری کی ہوس اور مذہبی منافرت کے سبب لاکھوں انسانوں کا خون بہایا گیا۔لیکن شاعر مورخ سے یہ سوال کرتا ہے کہ کیا تاریخ محض اسمائے رجال اور تقویم پارینہ کا نام ہے؟ شاعر کے پیش نظر تاریخ جامد تصور نہیں بلکہ یہ فطرت کے قانون تغیر سے عبارت ہے۔اسی سے انسانی زندگی میں انقلاب آتے ہیں۔جس کے سبب پیداوار کے طریقے بدل جاتے ہیں۔یہی تبدیلیاں مختلف سماجی طبقوں میں کشمکش پیدا کر تی ہے۔اور سر مایہ دار صنعت کار اور محنت کش عوام کے طبقات وجود میں آئے۔ بقول شاعر ؂
مختلف فرقوں کے سادہ ابتدائی دور سے
کس طرح پیدا ہوئی تمیز آقا و غلام 
کیوں ہوا دنیا میں سائنسی تمدن کا ظہور
کس لیے قائم ہوا سرمایہ داری کا نظام 
کس طرح سر مایہ داری اپنی قوت کے لیے
خون سے مزدور کے پیستی رہی گل رنگ جام
شاعر کے پیش نظر انسانی تاریخ یہ بھی ہے کو دنیا میں ہر طرح کے استحصال کی شکار اور محکوم قومیں بیدار ہو جاتی ہیں اور وہ صدیوں کی غلامی کی زنجیریں توڑ ڈالتی ہیں۔شاعر انسانی تاریخ کے اسی دور میں اشتراکیت کے ظہور کا ذکر کرتا ہے۔جس نظام نے دنیا میں ایک انقلاب پیدا کیا ؂
زندگی کی ظلمتوں میں کس طرح مشعل لیے 
سینۂ گیتی سے اُبھرا آفتاب لالہ فام
یہ تجسس، یہ تفکر، یہ بصیرت، یہ نظر 
ذہن میں کرتی ہے وا تاریخ کے عقدے تمام 
اخذ کر سکتی ہے دنیا ان سے وہ محکم اصول 
نشوِ آدم کے لیے رکھتے ہوں جو حکم دوام 
غرض اس طرح تاریخ حیات انسانی میں تغیرات اور تبدیلیوں سے عبارت ہے۔انسانی افکار اور نظریات انسانی سماج کو بدلتے ہیں اور خوش آئینہ اور روشن مستقبل کا پیام بھی سناتے ہیں۔اس نظم کا یہ اختتام ملاحظہ کیجیے ؂
ختم ہوئے نسل آدم کی فنا کے تذکرے 
ثبت ہوتی زیست کے قرطاس پر مہر دوام
یہ بشارت ایک زریں عہدِ استقبال کی
کیا ہے خود تاریخِ انسانی کا اک روشن پیام 
اُن کی دوسری طویل نظم’ریاست ‘ بھی ایک لحاظ سے نظم ’مورخ سے‘ کی توسیع کہنا چاہیے۔اس نظم میں بھی ابتداء میں رومانوی انداز میں حیاتِ انسانی کی فطری افتاد اور خوش گوار کیفیات کا شعری بیانیہ خلق کیا گیا ہے۔لیکن جب انسان نے فطری ارتقا کے بعد شعور کی اگلی منزلوں میں قدم رکھا تو ریاست وجود میں آئی۔دور شہنشاہی نے طبقاتی سماج کو جنم دیا۔اور سر مایہ و مزدور کی آویزش شروع ہوئی۔ آمریت اور ملوکیت نے سارے عالم میں انسانی قتل و غارت گری کو عام کیا ہے۔
آخرکار محنت کش عوام کے اتحاد نے آمریت اور شخصی حکومتوں کے خلاف اپنی بغاوت کو شدید کیا۔یوں یہ نظم اشتراکیت کے ظہور اور سماجی مساوات کے تصور پر منتج ہوتی ہے۔بقول شاعر ؂
متحد ہو چکے ہیں وہ طبقے
جن کی محنت پہ راحتوں کا مدار
جن کے بڑھتے ہوئے قدم لینے
خود بخود دوڑتی ہے راہ گزار
سامنے جن کے دست و بازو کے
ایک جھٹکے کی تھی حکومت زار
جن کے آوازہ بغاوت سے 
اصل جمہوریت ہوئی بیدار
نظم ’دانائے راز‘ جاں نثار اختر نے مکالماتی تکنیک میں لکھی ہے۔یہ نظم اقبال کی ’خضرراہ‘ اور ’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘ کی یاد دلاتی ہے۔نظم میں دانائے راز،اجتماعی زندگی کا اصول، انسانی فکر و عمل، مادی نشوونما،پیدا وار کے آئین اور انسانی زندگی کے مختلف ادوار اور عصر حاضر کے بارے میں سوالات کرتا ہے۔دانائے راز ان سوالات کے جوابات اسی تاریخی جدلیات اور اشتراکی فکر کے حوالے سے دیتا ہے اور آخر کار اشتراکیت کو تصور کرتا ہے۔ اس نظم پر اقبال کی ایک اور نظم ’ساقی نامہ‘ کے اثرات بھی واضح ہوتے ہیں۔لیکن اقبال کی نظموں کو جو شعری کمال اور جاودانی حاصل ہوئی، جاں نثار اختر کی نظم اس سے محروم ہے۔بیشتر ترقی پسند شعری سر مایے کی طرح جاں نثار اختر کی یہ نظمیں بھی اپنے عہد کی پیداوار تھیں۔اقبال اپنے عہد میں اشتراکیت سے متاثر ضرور ہوئے تھے لیکن آخر کار انھوں نے اس نظریے کو ردّ کیا تھا۔ انھوں نے کارل مارکس کو یہودی فتنہ گر کہا ہے۔اپنے معاصر ترقی پسند شعرا کی طرح جاں نثار اختر بھی اشتراکی نظریے کو نجات دہندہ اور تمام انسانی مسائل کا حل تصور کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو جاں نثار اختر نے نظم کے آخر میں اس نظریے کی کامیابی و کامرانی ظاہر کرنے میں اپنا زورِ قلم کسی طرح صرف کیا ہے ظاہر ہے کہ یہ شعری اظہار اپنے وقت میں بھی اتنا ہی غیر متعلق اور بے معنی تھا جیسا تھا کہ آج ہے ؂
زندگی نے آج باجاہ و چشم 
ایک دورِ نو میں رکھا ہے قدم
کھل گیا پیشانیِ عالم کا رنگ
جیت لی محنت نے سرمایہ سے جنگ
اب نہیں وہ خون سے مے کی کشید
کوڑیوں میں زور بازوں کی خرید
رشتۂ افراد ہے یا آب و تاب
پید اور قوتوں کے ہمرکاب
رنگِ پیداوار اب کچھ اور ہے
وقت کی رفتار اب کچھ اور ہے
کوہ و معدن، دشت و دریا، کوہسار
آلہ و اوزارو کشت و ردوبار
اجتماعی ملکیت ہے یہ زمیں
آج یہ تیری نہیں میری نہیں
آدمی کا آدمی سے اتحاد 
آدمی کا آدمی پر اعتماد 
ساز میں یہ نغمۂ جمہور ہے
زندگی آزاد ہے مسرور ہے
نظم ’پانچ تصویریں‘ مثنوی کی ہیئت میں لکھی گئی ہے۔اگر چہ اس نظم پر اقبال کے ’ساقی نامہ‘ کے اثرات واضح ہیں لیکن فکری لحاظ سے یہ نظم بھی ترقی پسند تحریک کے نظریات کی ترجمان ہے۔حیات انسانی کے مختلف ادوار کا سفر تاریخی جدلیات کے تحت پیش کرتے ہوئے اس کے اختتام اور انتہا سرخ انقلاب یعنی اشتراکیت پر ہوتا ہے۔ ظاہر ہے یہ ایک محدود زاویہ نگاہ ہے اور ایک مخصوص نظریہ کا پابند اقبال کے ’ساقی نامہ‘ کو جو دوامی اور جاوداں حیثیت حاصل ہے یہ نظم اس کی گرد کو بھی نہیں پہنچتی۔یہ ضرورہے کہ جاں نثار اختر میں تخلیقی صلاحتیں غیر معمولی ہیں اور شعری بیانیہ پر بھی انھیں قدرت حاصل ہے لیکن ایک مخصوص نظریے سے وابستگی نے آزادی فکر کو ختم کیا ہے اُن کی نظر صرف مزدور محنت کش عوام پیداوار کے ذرائع استحصال، آمریت بادشاہت، طریقہ اور پھر ان سب کے نجات دہندہ اشتراکی انقلاب تک ہی دیکھتی ہے۔ مزدور اور محنت کش طبقے کا بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :
زمینوں کے ہمراہ بکتے غلام 
وہ اُٹھتے ہوئے آدمیت کے دام
وہ ذوق ہوسِ ملکیت آفریں
وہ ٹکڑوں میں تقسیم ہوتی زمیں
گراں بار طبقے ابھرتے ہوئے
زمیں پر وہ صدمے گزرتے ہوئے 
زمانے کے دامن میں پلتے تضاد
وہ سوتے میں کروٹ بد لتے فساد 
فضا زہر آمیز ہوتی ہوئی 
زمیں فتنہ انگیز ہوتی ہوئی
یہ سب گویا فضول اور مصرف ہے۔یہ سب گویا مزدور کسان اور محنت کش طبقے کے استحصال کے ذریعے تعمیر کیا گیا ہے۔اسی سلسلے کو آگے بڑھتے ہوئے مزید کہتے ہیں :
تفخر سے دیتے وہ مونچھوں پہ بل 
وہ کھاتے کسانوں کی محنت کا پھل
وہ بھاری لگانوں پہ اٹھتی زمیں
زمیندار اُلٹے ہوئے آستین
بقایا چکاتے وہ مفلس کسان
وہ بکتے ہوئے ہل، مویشی مکان
وہ فاقوں سے مرتے ہوئے کا شتکار
کلیجوں میں جدتی ہوئی ہل کی دھار
وہ جاگے ہوئے ملکیت کے فساد
جماہی سی لیتے وہ ذاتی مفاد
استحصالی نظام کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں :
ذرائع پہ قابض وہ سرمایہ دار 
غریبوں کی محنت کا کرتے شکار
مظالم وہ حد سے گزرتے ہوئے
تصادم کے امکاں ابھرتے ہوئے
وہ ہر لمحہ تیور بدلتے فساد
وہ سرمایہ داری کے اپنے تضاد 
وہ زائد زخیرے جلاتی ہوئی
وہ خود آگ گھر میں لگاتی ہوئی
آخر کارمحنت کش مزدور و عوام اس استحصالی نظام کے خلاف بغاوت کرتے ہیں اور اشتراکی سرخ انقلاب کے ذریعہ اس فر سودہ نظام کو بدل دیتے ہیں اور گویا اس نظام کا قیام تمام انسانیت کے لیے ذریعہ نجات ہے۔ظاہر ہے کہ یہ فکر کسی لحاظ سے بھی درست نہیں ہے۔جاں نثار آگے مزید کہتے ہیں ؂
وہ نشہ بغاوت کا چڑھتا ہوا
وہ اک سرخ طوفان بڑھتا ہوا
زمیں گل بدن، آسماں لالہ تاب
ابھرتا ہوا سرخ رو آفتاب
نظم کے آخر میں کہتے ہیں ؂
عزائم کی زر پر وہ مریخ و ماہ
زمیں پر قدم، آسماں پر نگاہ
وہ پیہم نقابیں اُلٹتی حیات
وہ تسخیر ہوتی ہوئی کائنات
جھلکتا ہوا باہزاراں غرور
وہ فطرت کے ماتھے پہ انساں کا نور
ڈاکٹر قمر رئیں اس نظم کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اس نظم میں ابتدا سے آخر تک روانی ہی نہیں حسن تناسب اور حسن تعمیر کا احساس بھی ہوتا ہے۔اس بہاؤ اور زیروبم میں نغمہ کی سی کیفیت ہے۔اس کا موضوع بھی انسانی سماج کا ارتقا ہے۔ابتدائی کمیونزم سے عصر حاضر کے اشتراکی سماج تک انسانی زندگی جن پانچ اہم ارتقائی مراحل سے گزری ہے۔نظم میں خیال انگیز اشاروں کے ساتھ اُن کی الگ الگ تصویر یں پیش کی گئی ہیں۔‘‘ 
مذکورہ اقتباس سے بھی یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ اشتراکی نظریہ ہی گویا ساری انسانیت کے لیے نجات دہندہ ہے۔بحیثیت مجموعی جاں نثار اختر کی یہ نظم اسی نظریہ کی تر جمان ہے اور انسانی زندگی کی تعبیر و تشریح اسی زاویہ سے کرتی ہے۔جیسا کہ ابتداء میں عرض کیا جا چکا ہے نظم میں حیات انسانی کا تاریخی، سماجی،معاشی اور تہذیبی و تمدنی ارتقا پانچ مختلف ادوار کے حوالے سے دکھایا گیا ہے اور ترقی پسند نظریے کے حوالے سے زندگی کی تصویر کشی کی گئی ہے۔اسی لیے یہ نظم ایک مخصوص نظریے کی تر جمان بن گئی ہے اور یہ نظم اسی تاریخی حیثیت کی حامل بن گئی ہے۔شاعری میں جو لازمانی کیفیت ہونی چاہیے اس سے یہ نظم محروم ہے۔
نظم ’امن نامہ‘ مثنوی کی ہئیت میں لکھی گئی ایک دلچسپ شعری تخلیق ہے۔ اس نظم میں اقبال کے ’ساقی نامہ‘ کی طرح ساقی سے خطاب ہے۔اور عصری، سماجی،سیاسی اور معاشرتی مسائل پر ساقی سے گفتگو ہے۔دراصل یہ نظم عالمی طور پر انسانی اخوت اور اتحاد و اتفاق کی بے مثل شعری تخلیق ہے۔نظم کے عنوان ’امن نامہ‘ سے ہی ظاہر ہے کہ عالمی طور پر امن و امان اور انسانی اخوت کا خواہشمند ہے۔ کیونکہ بیسویں صدی کے نصف اول میں دنیا نے دو عالمگیر جنگوں کی ہولناکیوں کی تباہ کاریوں دیکھا ہیں۔ بقول شاعر ؂
جہاں میں غلامی کا عنواں ہے جنگ
لیے برق و فولاد و آہن کا زور
دہکتا یہ شعلہ دہکتی یہ آگ
لگاتی ہے اس گلستاں میں یہ آگ
سراسر ہلاکت کا ساماں ہے جنگ
مچاتی ہوئی قتل و غارت کا شور
جلا جس میں دنیا کا برسوں سہاگ
لگائی ہے اس نے بیاباں میں آگ
ظاہر ہے کہ جنگ کا یہ بازار اور کاروبار دنیا کی بڑی طاقتیں اپنے مفادات کے تحفظات کے لیے جاری رکھتی ہیں۔برطانوی سامراج نے دنیا کے بڑے حصے پر اپنی نو آبادیات قائم کر کے حکومت کی ہے۔دوسری عالمی جنگ میں امریکہ نے جاپان پر ایٹمی بم گرا کر انسانیت کا ہلاکت خیز نظارہ دیکھا۔لیکن شاعر ان سب انسانیت سوز و اقعات کو بھلا کر اب عالمی امن کا خواہش مند ہے ؂
بھُلا دیں کہو ہیرو شیما کی بات
ہر اک شور و شر آج بے سود ہے
رہے امن ہر آدمی کے لیے
نہ دھونا پڑے اپنی جانوں سے ہات
کہ اب امن دنیا کا مقصود ہے
رہے امن محنت کشی کے لیے 
نظم کے اگلے حصے میں شاعر نے ہندوستان اور اس کی عظیم روایات سے اپنی غیر معمولی محبت کا اظہار کیا ہے۔عہد قدیم سے لے کر مختلف تاریخی ادوار میں ہندستان کی سماجی، تہذیبی، معاشی، ثقافتی اورعلمی و ادبی روایات کی عظمت کا اظہار کیا ہے۔ اُردو شاعری میں حُبّ وطن کے موضوع پر جاں نثار اختر کی نظم شاہ کار کا درجہ رکھتی ہے۔ بیانیہ شاعری کا یہ دلچسپ اظہار ہے۔ اس سلسلے کے کچھ اشعار ملاحظہ کیجیے:
پلا ساقیا خانۂ بادہ ساز
محبت ہے خاک وطن سے ہمیں
ہمیں اپنی صبحوں سے شاموں سے پیار
ہمیں پیار اپنے ہر اک گاؤں سے
ہمیں پیار اپنی عمارات سے 
کہ ہندوستاں پر رہے ہم کو ناز 
محبت ہے اپنے وطن سے ہمیں
ہمیں اپنے شہروں کے ناموں سے پیار
گھنے برگدوں کی گھنی چھاؤں سے
ہمیں پیار اپنی روایات سے
اُٹھا جام، ہاں دور ساقی رہے 
جہاں میں صدا امن باقی رہے
اسی طرح مختلف مظاہرات کا بیان کرتے ہوئے آخر میں دنیا میں امن کے قیام کا اس طرح اظہا ر کیا ہے ؂
خوشا میکدے کی بہاریں رہیں
صراحی سے ساغر رہے متصل
سلامت ترا جام و مینا رہے
مچلتی یہ مئے کی پھواریں رہیں 
نہ ٹوٹے کبھی تیرے شیشوں کا دل
بڑے لطف کے ساتھ پینا رہے
غرض جاں نثار کی یہ نظم امن عالم اور قومی یکجہتی کے لحاظ سے ایک شاہ کار تخلیق کہی جا سکتی ہے۔اُن کو بیانیہ شاعری پر بے مثل قدرت حاصل ہے۔طویل نظم کے امکانات کو شاعر نے برتنے کی کوشش کی ہے۔۔ایک مخصوص نظریے سے وابستگی کے سبب اُن کے پاس اظہار ی پابندیاں یقیناًتھیں، اگر چہ اُن کے شعری مزاج میں رو مانویت کے عنصر کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔


Dr. Siddiq Mohiuddin
Dept of Urdu
Dr. Babasaheb Ambedkar Marathwada
University, Aurangabad -431004 (MS)
Cell. No: 90961557937




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

1 تبصرہ:

تازہ اشاعت

سماجی شعور: تعارف اور اہمیت، مضمون نگار: عرفان احمد گنائی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 انسان طبعاًمعاشرت پسند اور سماجی واقع ہوا ہے۔ گرہوں اور ٹولیوں میں رہنے کی یہ خصلت ازل سے ہی اس کی گھٹی میں پڑی ہ...