9/11/18

سید عابد علی عابد کی ادبی اور صحافتی خدمات۔ مضمون نگار:۔ ثمرین





سید عابد علی عابد کی ادبی اور صحافتی خدمات
ثمرین

سید عابد علی عابد کی علمی و ادبی شخصیت محتاج تعارف نہیں۔ وہ بیک وقت شاعر، نقاد، افسانہ نگار، ناول نگار، ڈراما نگار، فیچر نگار، مترجم کے علاوہ ایک مدیر کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں۔ انھوں نے مختلف رسائل کی ادارت کے فرائض انجام دیے، جن میں رسالہ صحیفہ، دلکش، ہزار داستان، ادبی دنیا، نونہال، گل خندہ، صادق اور زرعی دنیا وغیرہ ہیں۔ مذکورہ رسائل میں سے چند رسائل کی ادارتی مدت صرف کچھ مہینوں کو محیط ہے مگر رسالہ’ صحیفہ‘ اور’ ہزار داستان‘ کی ادارتی مدت نے طویل عرصہ طے کیا ہے۔رسالہ ’صحیفہ‘عابد علی عابد کی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے۔یہ رسالہ مجلس ترقی ادب سے شائع ہوا۔ حکومت مغربی پاکستان نے اردوادب کی ترقی وترویج کے لیے ایک لاکھ روپے کے ابتدائی سرمائے سے1950 میں بمقام لاہور میں ایک ادبی ادارہ قائم کیا اور اس کا نام ’مجلس ترجمہ‘ طے پایا۔اس ادارے کا مقصد یہ تھا کہ غیر زبانوں کی علمی و ادبی کتا بوں کے اردو ترجمے شائع کیے جائیں۔ یہ ایک ایسا ادارہ تھا کہ جہاں اپنے زمانے کے ممتاز و معروف ادیب یکجاتھے۔جن میں سید امتیاز علی تاج، عبدالمجید سالک، خلیفہ عبدالحکیم، کلب علی خاں فائق، حمید احمد خاں اور سید نذیر نیازی کسی نہ کسی حیثیت سے اس ادارہ سے وابستہ رہے۔اس ادارے سے عابد علی عابد کا تعلق بہت پرانا تھا۔جب وہ دلی کالج میں پرنسپل تھے تبھی سے وہ مجلس ترجمہ کے رکن تھے۔پھر مدیر صحیفہ کی حیثیت سے 1962 میں باقاعدہ ملازمت کا آغاز ہوا۔جولائی 1954میں ’مجلس ترجمہ‘کا نام بدل کر ’مجلس ترقی ادب ‘ کر دیا گیا۔
مجلس ترقی ادب سے عابد علی عابد کاتعلق 1950 تا 1971 رہا۔اس دوران مجلس کی کارگزاریوں میں انھوں نے اہم کارنامے انجام دیے۔ترتیب و تالیفات،مقدمہ و حواشی کے علاوہ اراکین مجلس کو اپنے مفید مشوروں سے نوازتے رہے اور سب سے اہم کارنامہ مجلس ترقی ادب سے رسالہ ’صحیفہ‘ کا اجرا تھا۔عابد علی عابد نے مجلس کے ناظم امتیاز علی تاج کو رسالے کے بنیادی خطوط اور معیار سے متعلق تجاویز پیش کیں جن کو ناظم نے قبول کرلیا اور عابد علی عابد کو ہی اس رسالے کا مدیر مقرر کردیا۔یہ رسالہ ابتدا میں سہ ماہی تھا،پھر اراکین کی ایما پر 6ستمبر 1959 میں اسے دو ماہی کردیا گیا مگر بعدمیں یہ چھ ماہی ہوگیا۔یہ رسالہ 1957 میں جاری ہوا تھا اور 1967 تک عابد علی عابد اس کے مدیر رہے۔
صحیفہ میں مجلس ترقی ادب کی کارگزاری، شاعری، تبصرات، مقالات وغیرہ شائع ہوا کرتے تھے۔ 1964 میں مجلس کی ایک اہم میٹنگ میں عابد علی عابد کو شعبہ تصنیف وتالیف میں اہم فرائض سونپے گئے جو حسب ذیل ہیں :
1۔ مسودات موصولہ سے متعلق تحریری یا زبانی رائے دینا،
2۔ مسودات موصولہ پر نظر ثانی کرنا،
3۔ ناظم کی ایما پر کسی کتاب پر مقدمہ لکھنا،
4۔ فارسی مسودات پر نظر ثانی کرنا،
5۔ کسی پروف ریڈر یا کسی اور شخص کی تربیت کرناکہ عروضی اور علم شعر سے آگاہ ہوکر کام کے تسلسل میں معاون ہو
6۔ صحیفہ کی ادرات۔
مذکوہ بالا تمام ذمے داریاں عابد علی عابد بخوبی نبھاتے رہے۔صحیفہ کا پہلا شمارہ جون 1957 میں شائع ہوا۔سجاد رضوی اس کے نائب مدیر تھے،پھر نائب مدیر وقتاً فوقتاً بدلتے رہے لیکن مدیر کے عہدہ پر عابد علی عابد ہی جلوہ افروز رہے۔شمارہ نمبر 13 کے بعد یہ رسالہ دوبارہ سہ ماہی کردیا گیا۔ رسالہ میں چونکہ تحقیقی مضامین و مقالات بہت کم شائع ہوا کرتے تھے لہٰذا اس بات پر غور کیا گیا اور کچھ وقفہ کے بعد انتظامیہ کمیٹی نے رسالے کے مزاج کو تحقیقی بنانے کی خواہش ظاہر کی اور یہ تبدیلی رسالہ کے لیے مفید ثابت ہوئی کیونکہ نئی تخلیقات کا تعارف دوسرے ممالک کے رسائل و جرائد کے ذریعہ ہو رہا تھا۔عابد علی عابد نے بھی 15 ویں شمارہ سے اس میں اہم تبدیلیاں کیں۔صحیفہ کے مزاج کو تخلیقی سے زیادہ تحقیقی بنا دیا۔ 20ویں شمارہ سے یہ رسالہ خالص تحقیقی انداز کا حامل ہوگیا اور صحیفہ کے مستقل عنوانات کی صورت اس طرح ابھر کر سامنے آئی :
1۔ جمع متکلم ۔اداریہ،
2۔ انجمنِ خیالات۔مقالات،
3۔ مجلسِ ترقی ادب کی کارگزاری۔تازہ ترین مطبوعات پر تبصرہ،
4۔ رفتارِ ادب۔گزشتہ سہ ماہی کی تازہ مطبوعات پر تبصرہ،
5۔ کسب نور۔کسی صنف ادب میں سے ایک کتاب سے متعلق مختصر گفتگواور چند اقتباسات پر اظہار خیال(یہ کتاب مجلس کی مطبوعات یا تالیفات میں سے ہوتی تھی)۔
6۔ مشاہیر کے بارے میں 
7۔ مقالہ نما۔
کسی بھی رسالہ کے اداریہ کا کوئی عنوان قائم نہیں ہوتا لیکن رسالہ صحیفہ میں اس سے پرہیز کیا گیا اور اداریہ کو جمع متکلم کا نام دیاگیاکیونکہ یہ رسالہ کسی ایک فرد کا نہیں بلکہ چندافراد کے زیر سایہ نکلتا تھااس لیے عابد علی عابد نے اس کا نام جمع متکلم رکھاجس میں سب کی رائے اور مشوروں کو مدنظر رکھ کر اداریہ تحریر کیا جاتا تھا۔چند شماروں میں واحد متکلم کا صیغہ بھی استعمال کیا گیا ہے اور اس کی ایک وجہ میرے نزدیک یہ ہے کہ آخری وقت میں عابد علی عابد کی مجلس ترقی ادب کے کارکنان سے رسہ کشی اور مخالفت چل رہی تھی جس کے باعث صحیفہ کے اداریے کے لیے کارکنان کی نشست نہیں ہوسکی ہوگی اور اس طرح اداریہ مدیر کی ذمہ داری میں آگیا ہوگا۔کیونکہ مجلس ترقی ادب کے ممبران کوعابد علی عابد کی بہت سی باتوں پر اعتراض تھایہ جو ان کی گھریلو اورادبی زندگی دونوں سے متعلق تھا۔
عابد علی عابد کی ادارت میں جب سے صحیفہ جاری ہوا تھا مجلس ترقی ادب لاہور نے تب سے اُن کی آخری ادارت کے شمارہ تک ان کے سر بہت سے کام کیے تھے جن میں یہ بھی تحریر کیا گیا تھا کہ نئے لوگوں کو جگہ دینے سے بہتر ہے کہ مدیر خود اس کے لیے تخلیقات پیش کرے اور یہ بھی کہا گیا کہ مدیر کا کام صرف مضامین موصولہ میں سے کس مضمون کو پہلے اور کس مضمون کو بعد میں شائع کرنا ہے،یہ نہ ہو بلکہ مدیر اس کے لیے بہت سی تخلیقات پیش کرے۔اس کے علاوہ عابد علی عابد کے ذمے مجلس کی کتابوں پر تبصرہ بھی تھا۔مجلس سے تین ماہ کے اندر اندر جو کوئی بھی کتاب شائع ہوئی ہو یا گزشتہ چھ ماہ کی کتابوں پر تبصرہ عابد علی عابد کو ہی کرنا ہوتا تھا۔یہی نہیں،جب عابد علی عابد علالت کے باعث گھر پر رہ کر ہی مجلس کا کام انجام دے رہے تھے تب بھی ان سے2کتابوں کی شرط اور رکھی گئی، کہ وہ مجلس کے لیے دو کتابیں لکھا کریں گے۔اس کے برعکس جب وحید قریشی صحیفہ کے مدیر مقرر ہوئے تو ان کے ساتھ یہ تمام پابندیاں نہیں رکھی گئی تھیں۔وحید قریشی اداریہ کے علاوہ کوئی مقالہ،غزل یاتبصرہ نہیں لکھتے تھے۔ وحید قریشی 1967 میں رسالے کے اڈیٹر بنے اور انھوں نے اس میں کچھ تبدیلیاں کیں جن میں اداریہ کو پہلے کی بہ نسبت بہت مختصر کر دیا گیا۔عابد علی عابد کی ادارتی مدت میں مجلس ترقی ادب اور عابد کے مشوروں سے اداریہ تحریر کیا جاتا تھاجس کو صیغہ جمع متکلم کے نام سے یاد کیا جاتا تھا اور بعد میں اسے اداریہ کا نام دے دیا گیاجو وحید قریشی تحریر کرتے تھے۔اداریہ میں انھوں نے گزشتہ نمبر اور پیش نظر شمارہ پر زور قلم صرف کیاہے جس میں مضامین اوران کے مصنّفین کا تعارف ہے ا س کے علاوہ آنے والے شمارے کے سلسلے میں بھی گفتگو کی گئی ہے کسی خاص موضوع پر یا مجلس کے منشورات پر یا پھر کسی ادبی اصناف سے متعلق اداریہ میں کوئی بحث نہیں کی گئی جبکہ عابد علی عابد کی ادارت میں عابد نے مختلف اصنا ف تنقید، شاعری، اسلوب، افسانہ اور ڈراما وغیرہ سے اپنے اداریے میں مکمل اور جامع بحث کی ہے۔اپریل 1969کا پرچہ ان کی نگرانی میں آخری پرچہ تھا۔اس رسالے کے لیے عابد صاحب نے جو کچھ کیا اس کے لیے سید امتیاز علی تاج کے یہ الفاظ صحیح معلوم ہوتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ :
’’رسالہ کا مزاج اس کی تربیت اور اس کی زیبائش سب انھیں کے حسن ذوق کا نتیجہ تھی۔وہ نہ صرف صحیفہ کے بانیوں میں سے تھے بلکہ صحیفہ اور عابد ایک ہی شے کے دو نام تھے‘‘۔ (رسالہ تخلیق عابد علی عابد نمبر،جلد2، شمارہ2اور3)
رسالہ صحیفہ کے علاوہ عابد علی عابد نے دوسرے رسائل کی ادارت کے فرائض بھی انجام دیے۔حکیم احمد شجاع نے جولائی 1922 میں رسالہ ’ہزار داستان ‘جاری کیا، اس کے جاری کرنے کے دو سال بعد حکیم صاحب کو لیجسلیٹو میں ملازمت مل گئی۔انھوں نے ’نونہال‘ اور ’ہزارداستان‘ دونوں پرچے میاں محمد اسماعیل نعیم کے حوالے کر دیے جنھوں نے سید عابد علی عابد اور ہادی حسین قرشی صدیقی کو مدیر مقرر کیا۔عابد علی عابد اس رسالے کے عملے میں1923سے 1926 تک رہے۔ 
عابد رسالہ ’دلکش‘ کے بھی مدیر رہے۔اس کی مجلس ادارت میں نذیر احمد یزدانی،نازش رضوی اور سعادت حسن بھی تھے۔ ’معارف‘ نے جولائی 1927 کی اشاعت میں دلکش پر یوں تبصرہ کیا ہے :
’’صرف ادبی پھولوں کا گلدستہ ہے۔سید عابد علی عابد بی اے ایل ایل بی کی ادارت میں لاہور سے شائع ہوتا ہے۔زیادہ شعر وشاعری اس کا موضوع ہے‘‘۔
بی۔ اے کے بعد عابد علی عابد ’دلکش ‘ اور ’ہزار داستان ‘کی ادارت کے فرائض انجام دینے لگے تھے۔’ ہزارداستان ‘ اردو کا پہلا رسالہ تھا جس میں خالص اردو افسانوی ادب کی اشاعت کا التزام کیا گیا تھا۔عابد نے بھی اسی کے لیے کئی افسانے تخلیق کیے جن کو بعد میں جمع کرکے کتابی صورت میں شائع کردیا گیا۔ہزارداستان کی ادارت کے زمانے میں عابد نے جو نظمیں اور غزلیں کہی تھیں وہ غنائیہ رنگ کی تھیں اور افسانے بھی رومانی انداز کے حامل تھے۔یہ تخلیقات خالص رومانی فضا سے لبریز تھیں جن میں عابد کا رومانی انداز نمایاں ہے۔ ہر غزل کو پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ اس میں رومانی اثر موجود ہے۔ افسانہ وشاعری کے علاوہ عابد علی عابد نے ایڈیٹری کے زمانے میں مختلف کتابوں پر تبصرے بھی کیے،یہ تبصرے اعلی پایے کے ہوتے تھے۔بی اے کے زمانے کے تبصروں میں عابد کی تحریر میں زیادہ پختگی نہیں تھی جس کی جھلک کہیں کہیں نظر آتی ہے لیکن جب انھوں نے رسالہ ’صحیفہ ‘جاری کیا تواس میں ان کے تبصرے،مضامین اور غزلیں وغیرہ سبھی کچھ شامل ہیں اور انداز بیان جداگانہ ہے۔ مولانا تاجور نجیب آبادی نے1929 میں لاہور سے ’ادبی دنیا‘ جاری کیا۔ اس رسالے کی مجلس ادارت میں بہت سے نائب مدیر تھے۔عابد علی عابد بھی اس کے مدیر رہے۔انھوں نے ادبی دنیا کی رنگین تصویروں پر خوبصورت نظمیں لکھیں۔اس کے علاوہ موصوف نے ادبی دنیا کے افسانوں پر بھی خصوصی توجہ دی۔’تنقید شعری ‘کے عنوان سے ایک شعر کی تشریح بھی ’ادبی دنیا‘ میں چھپتی رہی جس میں اکثر تشریحات عابد علی عابد نے کی ہیں۔ادبی دنیا میں ڈرامے بھی شائع ہوتے تھے جن میں بہت سے ڈرامے ان کی تخلیق یا ترجمہ شدہ ہیں۔
1930 میں عابد علی عابد دیال سنگھ کالج میں فارسی کے استاد مقررہوئے۔اکتوبر 1933 سے مئی 1939 تک وہ دیال سنگھ کالج میگزین کے نگراں و مدیر رہے۔اس کے علاوہ اردو میں افسانوی ادب کے فروغ کے لیے1934 سے لاہور میں ماہنامہ ’افسانہ‘ کا اجرا کیا گیا۔جس میں طبع زاد افسانے، یوروپین اور قدیم زبانوں کے شاہکار افسانوں کے تراجم، ڈرامے اور فن افسانہ پر تنقیدی مضامین شائع ہوتے تھے۔ اس رسالے کے مدیر ان اعزازی کے اسمائے گرامی میں ادبی لحاظ سے ممتاز نام عابد علی عابد کا ہے۔ انھوں نے کم و بیش پچیس سال تک ادبی رسائل و جرائد کی ادارت کی۔’دور جدید ‘ اور ’زرعی دنیا‘ کے بھی مدیر رہے 1954 میں روزنامہ ملت میں فکاہیہ کالم بھی لکھتے رہے۔ رسائل کی ادارت کے اعتبار سے عابد علی عابد کی ادارتی خدمات کو دو واضح ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا دور کم و بیش 16 برسوں پر محیط ہے1923 سے 1939 تک (’ہزار داستان ‘سے ’دیال سنگھ کالج میگزین‘کی نگرانی اورادارت تک)اور دوسرا دور 1956 سے ’صادق‘ کی ادارت سے ’صحیفہ ‘ کی ادارت تک ہے۔عابد علی عابد نے 1956 میں لاہور سے پندرہ روزہ ’صادق ‘ جاری کیا۔اس کے صرف دو پرچے ہی شائع ہوسکے تھے۔اس کی ادارتی مجلس میں سید قاسم محمود بھی شریک تھے۔
’گل خنداں‘ کے نام سے ایک رسالہ مکتبہ گل خنداں نے 1948میں جاری کیا۔عابد علی عابداس کی مجلس ادارت سے 1956 میں وابستہ ہوئے اور 1959تک اس رسالہ کی ادارت کرتے رہے۔عابد سے پہلے یہ رسالہ عبدالرؤف اور امین ہاشمی کی ادارت میں نکلتا تھا۔ اس کی مجلس ادارت میں عابد کی شمولیت نے انقلاب پیدا کر دیا۔ضخامت کے اعتبار سے بہت چھوٹے رسالے کے وقیع نمبر شائع ہوئے۔انقلاب نمبر1857، ڈراما نمبر، افسانہ نمبر،فنون لطیفہ نمبر،تنقید نمبر،غزل نمبر، لاہور نمبر، لطائف وظرافت نمبرعابد علی عابد کے دور ادارت کی یادگار ہیں۔
رسائل کی ادارت کے علاوہ عابد علی عابد نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے فیچر،ناول اور ڈرامے بھی تحریر کیے، ساتھ ہی ان کی کئی نشری تقاریر کا ذکر بھی ملتا ہے۔ریڈیو اسٹیشنوں کے قیام سے ریڈیائی اور نشریاتی ادب کو بے حد فروغ حاصل ہوا۔عابد نے بھی ریڈیو کے لیے خوب لکھا۔ انھوں نے 4 ناول لکھے اور یہ چاروں ناول ریڈیو کے لیے تحریر کیے گئے تھے اور بعد میں کتابی شکل میں سامنے آئے۔ناول کے نام یہ ہیں(1)چاندنی(یہ ناول ریڈیو لاہور سے ’پھر کیا ہوا‘ کے نام سے نشر ہوتا رہا) (2) شمع (3) دکھ سکھ، اور(4) سہاگ۔ ان ناولوں میں زبان بہت صاف ستھری اور نکھری ہوئی ہے۔کہیں کوئی لفظ یا جملے کی ادائیگی ذہن پر گراں نہیں گزرتی اور سماعت میں کسی واقعہ کو سمجھنے میں کوئی جھول یا پریشانی محسوس نہیں ہوتی۔یہ ناول ریڈیو کے لیے لکھے گئے تو اس وجہ سے مصنف پر کچھ پابندیاں عائد کی گئی تھیں جن میں کرداروں کی زیادتی، مشکل پسندی، ابتذال، بے جا منظر نگاری اور طویل مکالمات پر روک ٹوک تھی۔ اگر کردار اور کچھ اپنی زبان سے کہنا بھی چاہتے تو ان پابندیوں کے سبب کہہ نہ سکے اور اسی طرح یہ کتاب سامعین کی فرمائش پر کتابی صورت میں منظر عام پر آئے۔
ڈراما نگاری میں بھی عابد علی عابد نے اپنا ایک اہم مقام حاصل کیا ہے۔انھوں نے ریڈیو کے لیے ڈرامے لکھ کر اردو ادب میں بیش بہا اضافہ کیا۔ان کے ڈراموں کے مجموعے’ شہباز خاں‘، ’یدِبیضا‘، ’روپ متی اور باز بہادر‘ (ریڈیو فیچر)ہیں۔یہ فیچر بھی لاہور ریڈیو اسٹیشن سے 1940 میں نشر ہوئے۔’شہباز خاں ‘ بالاقساط 1950 میں ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر ہوا۔یہ ہفتہ وار ریڈیو سے نشر ہوتا رہا۔یہ جاسوسی اور اصلاحی نوعیت کا ہے اس کے علاوہ ’یدِ بیضا‘ بھی 17 ڈراموں اور فیچروں کا مجموعہ ہے،یہ بھی ریڈیو اسٹیشن لاہور اور ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر ہوتے تھے۔ریڈیو ڈرامے میں صوتی اثرات،مکالموں اور بیان کے ذریعہ عمل کا اظہار ہوتا ہے۔مکالمے اور بیان، کردار اور واقعات کی آرائش کے لیے استعمال نہیں ہوتے۔وہ جہاں کردار کی شخصیت پر روشنی ڈالتے اور موقع و محل کو بیان کرتے ہیں وہاں ڈرامے کے عمل کو بھی تقویت دیتے ہیں۔کسی ڈرامے یا فیچر میں ایک سے زائد راوی کی بھی ضرورت ہوسکتی ہے، عابد علی عابد نے اپنے ریڈیو فیچر روپ متی اور باز بہادر میں دو راویوں کو پیش کیا ہے۔ ریڈیو کے علاوہ عابد علی عابد نے ٹی وی کے لیے بھی دو ڈرامے لکھے ’طلسمات ‘ یہ20؍اگست 1965 کو ٹی وی پر پیش کیا گیا اور دوسرا ’ زنجیر در زنجیر‘ ہے جو لاہور ٹی وی سے 15 فروری 1968 کو پیش کیا گیا۔ 
عابد علی عابد نے ریڈیو کے لیے غنائیے بھی لکھے جن میں ’منزل مراد‘،’مری نوا سے زندہ ہوئے عارف و عامی‘،’جلوس گل و سریر چمن مبارکباد‘،’رنگ حنا‘،’جاوید نامہ‘اہم ہیں۔ غنائیہ تخلیق کرنے کے لیے موسیقی اور شاعری سے تخلیقی انداز کے گہرے لگاؤ کی ضرورت ہوتی ہے اور عابد علی عابد میں یہ خوبی بدرجۂ ا تم موجود تھی اور ان کے غنائیے بھی نشریاتی ادب میں ایک تجربے سے کم نہیں۔
نشری ادب کے سلسلے میں مشکل یہ ہے کہ ایک مرتبہ نشر ہوجانے کے بعد یہ مواد ریڈیو کی فائلوں میں قید ہوجاتا ہے اور اہل نظر اگر سماعت کے بعد اس سے دوبارہ مستفید ہونا چاہیں تو یہ ان کی دسترس سے باہر ہے اور اسے ادبی حوالے کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ ریڈیو پر نشر ہونے والے پروگرام کو اگر مجموعے کی شکل میں پیش کردیا جائے تو اور بات ہے لیکن ایسے مجموعے اردو میں کمیاب ہیں۔عابد علی عابد نے بہت اچھا کیا کہ اپنی حیات ہی میں اپنے ریڈیو ڈرامے اور فیچرز کو مجموعہ کی صورت میں شائع کرادیا۔لیکن ان کی نشری تقریریں اس سے محروم ہیں جن کو وہ ترتیب نہیں دے سکے اور ان کی اس نوع کی تخلیقات منظر عام پر نہیں آسکیں۔ عابد علی عابد نے ریڈیو کے لیے کئی تخلیقات پیش کیں۔
ریڈیو سے تقریروں کا ایک سلسلہ شروع ہوتا تھا جس کا عنوان تھا ’لکھنے کے ڈھنگ‘ عابد صاحب نے اس سلسلے میں ادبی رسائل میں لکھنے کے مختلف طریقہ کار بتائے ہیں جو رسائل کے مصنفین کے لیے اہم ہیں۔اسی ضمن میں ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ادبی رسائل میں لکھنے کا پہلا اور آخری گُر تویہ ہے کہ آپ لکھنا جانتے ہوں۔اگر آپ لکھنا نہیں جانتے تو لاکھ کوشش کریں،نہ لکھ سکیں گے۔آپ ضرور کہیں گے کہ اگر لکھنے کا یہی گُرہے تو پھر ہم نے تقریر کرنے والے سے سیکھا کیا۔اس کا جواب ابھی عرض کرتا ہوں۔
عرض یہ ہے کہ لکھا تبھی جاسکتا ہے کہ لکھنے والا پڑھے۔تو جو گُرمیں نے بتایا ہے اس کی غایت یہ ہے کہ نو عمر لکھنے والوں کو پڑھنے پر آمادہ کیا جائے۔ظاہر ہے کہ اگر آپ مطالعہ باقاعدہ نہیں کریں گے،گردو پیش کے حالات سے باخبر نہیں رہیں گے،دوسرے اچھے لکھنے والوں کے اسلوب تحریر پر غور نہیں کریں گے تو جو کچھ آپ لکھیں گے وہ رسالوں کو قبول نہیں ہوگا۔اگر آپ میں لکھنے کا جوہر موجود ہے تو اس کو جِلا دینے کی صورت یہ ہے کہ پڑھیے اور جہاں تک ہوسکے پڑھیے۔ تاکہ ادبی رسالے جس قسم کے مضمون کی فرمائش کریں،آپ لکھ کر ان کے حوالے کر سکیں۔‘‘
(صحیفہ،عابد علی عابد نمبر،شمارہ56،جولائی1971،ص:249)
درج بالا اقتباس عابد علی عابد نے تحریر کا نہیں بلکہ تکلم کا پیرایہ اختیار کیا ہے۔نشری تقریر میں یہ لازم ہو جاتا ہے کہ آپ سامعین کو براہ راست مخاطب کریں اور اپنا مطلب اس انداز میں بیان کریں کہ جیسے آپ سامنے والے سے محو گفتگو ہوں۔عابد اس کو بخوبی جانتے ہیں اور انھوں نے اس خصوصیت کو اپنی نشری تقاریر میں اہم مقام عطا کیا ہے۔نشری تقریر کی ایک اور خوبی سادگی وسلاست ہے جو عابد کی تقریروں میں صاف نمایاں ہے۔نشری تقریر کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ وہ معنی خیز ہو اور ایک سماں سا بندھ جائے اور سننے والا اسی فضا میں تقریر کے مطالب ذہن نشین کرتا چلا جائے۔اسی ضمن میں عابد علی عابد کی وہ تقریریں نمائندہ ہیں جو انھوں نے ’’اگر میں ہوتا!‘‘کے سلسلے میں کی تھیں۔ان کی بعض تقریریں ایسی بھی ہیں جن میں موضوع کی مناسبت سے انھیں تنقیدی مضامین کا مروجہ اسلوب بھی ریڈیو پر اختیار کرنا پڑا۔عابد علی عابد نے ریڈیو سے سیکڑوں تحریریں نشر کیں وہ تمام تقاریر ایسی ہیں کہ مواد سے استفادہ کرنے یا اسلوب کا بانکپن دیکھنے کے لیے ان کا مطالعہ ضروری ہے۔ تقریر کی طرح عابد علی عابد کے اداریوں کی تحریری خصوصیات بھی ان کو دوسرے ایڈیٹرز سے منفرد کرتی ہیں۔ان کے اداریوں میں خاص طور پر ہمیں درج ذیل خوبیاں دیکھنے کو ملتی ہیں :
1۔ زبان و بیان پر عبور : اپنا مقصد اور خیالات کے اظہار کے لیے ضروری ہے کہ اداریہ نویس یا مدیرزبان و بیان پر قدرت رکھتا ہو اور اسے ہر طرح کے اظہار بیان پر عبور حاصل ہوتا کہ وہ پوری روانی اور وضاحت سے اپنے خیالات کو سامعین تک پہنچا سکے۔لہذا عابد علی عابد کو یہ تمام چیزیں حاصل تھیں۔وہ ایک کامیاب ادیب تھے اور زبان پر انھیں ملکہ حاصل تھا۔
2۔ غورو فکر کی صلاحیت : اداریہ نویس کا فرض صرف یہ نہیں ہے کہ وہ حالات و واقعات کی توضیح کرکے قارئین کو دعوت فکر دے بلکہ کئی پہلو ایسے نمودارہوتے ہیں کہ جہاں پر مدیر کوآگے بڑھ کر رہنمائی کرنی ہوتی ہے،اس کے لیے اسے اعلی فکری صلاحیتوں کا مالک ہونا چاہیے، کھرے کھوٹے میں تمیز کر سکتا ہو،اسی صورت میں اس کے اداریوں میں جدت، ندرت،انفرادیت اور اثر آفرینی پیدا ہو سکتی ہے۔ عابد علی عابد بھی غوروفکر کی صلاحیت رکھتے تھے،ان کے اداریوں کے مطالعہ سے ان کی گہرائی و گیرائی کا پتہ چلتا ہے۔وہ قدم قدم پہ قارئین کے ساتھ ساتھ رسالوں میں لکھنے والے مصنّفین کی بھی رہنمائی کرتے تھے اور انھیں دعوت فکر دیتے تھے۔تنقید جو عابد علی عابد کا اہم وصف ہے اس سے وہ بھرپور استفادہ کرتے تھے۔
3۔ مطالعہ کی وسعت : جو مدیر اداریہ سے متعلق رسالہ کے موضوع پر گہری نظر نہیں رکھتا یا اس کے مطالعہ میں وسعت اور پختگی نہیں ہوتی تو اس کا اداریہ کبھی موثر اور دلنشین نہیں ہو سکتا۔اداریہ جس بھی موضوع پر لکھا گیا ہے اس پر مدیر کو گرفت ہونی چاہیے،تاکہ وہ اپنے خیالات کا اظہار دلائل کے ساتھ واضح کر سکے اور اس میں جاذبیت پیدا ہو۔عابد علی عابد کے اداریوں میں مطالعہ کی وسعت ہر جگہ نظر آتی ہے وہ خود ایک ہی وقت میں تمام اصناف میں طبع آزمائی کرتے رہے ہیں جس کا اندازہ ان کے اداریوں میں پیش کیے گئے دلائل سے کیا جا سکتا ہے۔
4۔ تخلیقی صلاحیت : تخلیقی صلاحیت سے عابد علی عابد نے اپنے اداریوں کو جاندار بنا دیا ۔ تخلیقی صلاحیت کے سبب ان کے اداریے موثر اور دلکش ہوتے ہیں۔مدیر میں تخلیقی صلاحیت جتنی زیادہ ہوتی ہے مدیر اپنی حسین و دلنشین تحریر کے ذریعہ اپنے مقاصد کو بخوبی انجام تک لے جا سکتا ہے۔اس کے علاوہ فنی چابکدستی، مسلسل مطالعہ اور مشق وریاضت اداریہ نویس کے لیے جو تمام چیزیں لازم ہیں وہ عابد علی عابد کے یہاں بدرجہ اتم موجود ہیں اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایک کامیا ب مدیر تھے اور ان کی صحافتی خدمات سے اردو ادب کو بیش قیمت اداریے، تقاریر، اورتخلیقات ہاتھ آئیں۔ 
5۔ جمع متکلم کا صیغہ:عابد علی عابد نے اپنے اداریوں میں جمع متکلم کا صیغہ استعمال کیا ہے۔وہ اپنی رائے کے ساتھ ساتھ مجلس کے منتظمین کو بھی اپنی رائے اور مشوروں میں شامل کرتے تھے لیکن اس میں بھی عابد کے مشوروں کو ہی سراہا جاتا تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ عابد علی عابد ہر موضوع پر گہری نظر رکھتے تھے۔صحیفہ کے ہر شمارے میں انھوں نے جمع متکلم کا صیغہ استعمال کیا اور چند ہی شمارے ایسے ہیں جس میں انھوں نے واحد متکلم کا صیغہ استعمال کیا ہے۔ 
مختصر یہ کہ عابد علی عابد اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے جوہر دکھاتے رہے اسی لیے نشریاتی اور ریڈیائی ادب میں عابد کی تخلیقات ہمیشہ ممتاز اور قابل تحسین ر ہیں گی۔

Samreen
Research Scholar, Dept of Urdu
Jamia Millia Islamia
New Delhi - 110025





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں