مٹی
کا دیا: میرزا ادیب اور بچوں کا ادب
اقرا
سبحان
میرزا ادیب کا حقیقی نام دلاور علی تھا۔ انھوں نے اپنے تخلیقی سفر میں گھریلو زندگی سے مواد حاصل کیا اور ادب کے میدان میں اپنی راہیں خود استوار کیں۔ ان کا اپنا حساس ذہن ان کے تخلیقی سفر میں بچپن سے ہی معاون ثابت ہوا جس کی بدولت میرزا ادیب کی طبیعت میں طفولیت پسندی آگئی تھی۔ اس طفولیت پسندی کی نفسیاتی وجہ بچپن کی آوارہ گردی اور شوقِ مطالعہ تھا۔
ایک معمولی گھر کے مند دیے جیسی ہے میرزا ادیب کی زندگی۔ یہ ’’دیا‘‘ دلاور علی کے چراغ حیات کے ساتھ ہنگامی حالات میں 4 اپریل1914 کو روشن ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا ایک عالمی جنگ کے اندھیروں سے جوجھ رہی تھی۔ یوں تو دلاور علی نے چھ، سات برس کی عمر میں ہی ارد گرد کی اشیا کو بہ غور دیکھنا شروع کردیا تھا لیکن عالمی جنگ کے اثرات اور انسانی زندگی پر اس کے نتائج کی قلم بندی کا آغاز 21-22 کے سن میں میرزا ادیب نے کیا۔
عین ممکن ہے کہ عالم میں مشہور شہر لاہور کے بھاٹی دروازے کے محلہ ستھاں اور محلہ ستھاں میں چوک دیوی دتّا کے پہلو سے نکلنے والی گلی مغلاں میں زندگی کاٹ رہا میرزا ادیب کا خاندان جہالت کے اندھیروں میں ہی رہتا لیکن میرزا ادیب نے علم کی ضیا سے تاریکی کو منور کردیا، اسی لیے وہ اپنی سوانح ’مٹی کا دیا‘ میں اپنے وجود کو روشنی سے تعبیر کرتے ہیں۔ مٹی کے دیے سے پھیلنے والی مدھم مدھم روشنی کا اظہار میرزا ادیب کی تحریروں میں جابہ جا ہوا ہے۔ بوسیدہ سے گھر کے طاق میں رکھے ہوئے مٹی کے دیے نے بچپن سے ہی میرزا ادیب کو بہت متاثر کیا۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اُس دیے نے انھیں تخلیق کی روشنی بھی بخشی۔
میرزا ادیب کی تخلیقی شخصیت پر تین چیزوں نے گہرا اثر ڈالا۔ ان میں سے ایک جاندار اور دو بے جان تھیں۔ ایک بے جان چیز تھی ’مٹی کا دیا‘۔ مٹی کے اس دیے سے وابستہ امور، میرزا ادیب کے لیے معمولی نہ تھے۔ جب کوئی چڑیا دِیوے کی بتی لے اڑتی تو میرزا ادیب اپنی آپا اور اسکولی ساتھیوں سے اس کی وجہ معلوم کرتے اور تسلّی بخش جواب نہ پا کر یہ اخذ کرتے کہ چڑیا کے گھر میں دیا جلتا ہوگا اور اس کا بچہ بھی میری طرح دیے کو دیکھتا ہوگا۔ جب دیے کا تیل ختم ہوجاتا تو انھیں لگتا کہ دیوے کو بھوک لگی ہے اور یہ بے چارہ رورہا ہے۔ رحم دل میرزا ادیب اس میں پانی ڈال دیتا۔ اگلے دن جب ماں دیے کو مانجھتیں تو میرزا ٹکٹکی باندھے، دیوے کو دیکھتے رہتے کہ شاید اس دیے سے بھی کوئی دیو نکلے گا اور ان کی ساری پریشانیاں دور کردے گا۔ ایک بار جب دیے کی لو سے ماں کا دوپٹہ جل گیا تو انھیں پہلی بار دِیوے پر غصّہ آیا انھوں نے اس سے پوچھا۔
’’کیو ں جلایا میری امی کا دوپٹہ؟‘‘
میرزا نے دیکھا کہ یہ سُن کر لو ذرا تھم گئی ہے، اس نے سر جھکا لیا ہے، یوں لگا کہ دیوا معافی مانگ رہا ہے۔
دیے کی روشنی میں پڑھتے پڑھتے وہ جب دیے کو ٹکٹکی لگا کر دیکھتے رہتے ہیں تو دیا نہ جانے کیا کیا بن جاتا ہے، مختلف رنگ یکے بعد دیگرے ہویدا ہوتے رہے ہیں، کبھی اس کا رنگ نیلا، کبھی لال تو کبھی سبز دکھائی دینے لگتا ہے۔ ایک بار انھوں نے کیا دیکھا کہ دیے سے ایک سبز پری نکلی آرہی ہے، یہ پری ان کے تصور میں بسی وہ شفیق خاتون تھی جو کبھی وکٹوریہ اسکول کے دروازے پر سبز کپڑے پہنے ملی، اور نہایت شفقت سے ان کی ہتھیلی پر کھٹّی میٹھی گولیاں رکھ کر چلی گئی۔ اسے گئے برس پہ برس بیتے پر میرزا کے ذہن سے وہ کبھی نہ جاسکی۔
دوسری بے جان چیز دادا جان کی کتابوں کا وہ صندوق تھا جو میرزا ادیب کے دورِ طفولیت کا گویا ایک جزوبن گیا تھا۔ گھر کے لوگ اس کے احترام میں بس یہ کرتے تھے کہ کوٹھری کے آخری حصّے میں بہ حفاظت رکھ چھوڑا تھا اور کسی کو اس پر پاؤں رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن میرزا ادیب اس کا احترام کچھ اور ہی ڈھنگ سے کرتے تھے۔ جب وہ اسکول میں داخل نہیں کیے گئے تھے تب بھی وہ کوٹھری میں ہر دوسرے تیسرے دن جاتے۔ پھر جو شغل تھا وہ حسب ذیل ہے:
عجیب خوشبو آتی تھی ان کتابوں سے، میں دیر تک ان کتابوں کو اُلٹتا پلٹتا رہتا151 ناک سے لگا کر ان کی خوشبو سونگھتا رہتا تھا۔ کتابیں بہت پُرانی تھیں مگر ہر کتاب کی سیاہی میں ایک خاص چمک باقی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے ابھی ابھی لکھی گئی ہیں۔ (نقوش آپ بیتی نمبر، میرزا ادیب)
ایک بار میرزا ادیب کی چھوٹی بہن سے دادا کی ایک کتاب زمین پر گر گئی اور پھٹ گئی۔ اس کے بعد انھوں نے خواب میں دادا جان کو دکھی اور مغموم پایا۔ اُن کے ہاتھ میں وہی کتاب تھی جس کی جلد پھٹ گئی تھی۔ میرزا ادیب نے یہ خواب ماں کو سنایا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ گھر کے لوگ ان کتابوں کا مزید احترام کرنے لگے اور میرزا کے والد نے صندوق پر ایک بڑا سا تالا ڈال دیا جو میرزا ادیب کے لیے انتہائی پریشانی کا سبب تھا۔ وہ رات دن دعائیں مانگتے کہ دادا جان ابّا کے خواب میں آجائیں اور انھیں حکم دیں کہ صندوق کھول دیا جائے تاکہ صندوق سے ان کی وابستگی بحال ہوجائے۔ لیکن میرزا ادیب کی مراد کچھ یوں پوری ہوئی کہ جو تالا صندوق میں لگایا گیا تھا وہ کوٹھری کا تھا، کوٹھری میں گہنوں اور قیمتی کپڑوں کا ٹرنک بھی تھا جس کا تالا صندوق میں لگا دیا گیا تھا۔ کچھ دنوں بعد ٹرنک کا تالا اپنے کنڈے میں واپس لگا دیا گیا تو گویا میرزا ادیب کی معصومانہ دعائیں قبول ہوگئیں اور پریشاں خیالی مٹنے لگی۔
مجھے اس صندوق سے اتنی دلچسپی تھی کہ اول تو ہر روز ورنہ دوسرے تیسرے دن ضرور اسے کھول کر دو تین کتابوں کی ورق گردانی کرلیتا تھا۔ سمجھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ مگر مجھے ان کی رنگین، منقش اور مطلّےٰ جلدیں اور ان کی خوشبو بڑی پسند تھی۔ عجیب خوشبو آتی تھی ان کتابوں سے۔ میں دیر تک ان کتابوں کو الٹتا پلٹتا رہتا تھا، ناک سے لگا کر ان کی خوشبو سونگھتا رہتا تھا۔ کتابیں بہت پرانی تھیں مگر ہر کتاب کی سیاہی میں ایک خاص چمک باقی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے ابھی ابھی لکھی گئی ہیں۔
اس صندوق سے ا ن کو اس قدر دلچسپی ہوگئی تھی کہ میرزا نے اپنے دادا کا خیالی حلیہ بھی بنالیا تھا۔
میں جب صندوق سے کتابیں نکالتے ہوئے یا انھیں دوبارہ ترتیب سے رکھتے ہوئے دادا جان کا تصور کرتاتھا تو میرے سامنے ایک ایسا شخص آجاتا تھا جس کی سفید، پرعظمت داڑھی سینے پر پھیلی ہو، آنکھوں پر عینک ہو، چہرے پر نور برستا ہو اور جو بڑے وقار سے بیٹھے کوئی کتاب پڑھ رہے ہوں۔
تیسری جاندار چیز ان کی ماں تھیں جو ان کی ساری کائنات کا مرکز تھیں۔ اس تعلق سے میرزا ادیب لکھتے ہیں:
مجھے ان کی ذات سے کچھ ایسی وابستگی ہوچکی تھی اور وہ مجھ پر کچھ اس انداز سے چھا گئی تھیں کہ ان کے بغیر میں زندگی کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ اُنھوں نے کبھی مجھ پر حکومت نہیں کی تھی۔ کسی طور پر بھی مجھے متاثر کرنے کی شعوری کوشش نہیں کی تھی لیکن میں تھا کہ ان کی طرف کھنچا ہی چلا جاتا تھا۔ ان کی آنکھوں میں شفقت کی روشنی تھی۔ پیشانی پر مامتا کا نور تھا اور لہجے میں پیار کی مٹھاس۔ اُس وقت جاگتی تھیں جب فضا میں اندھیرا ہوتا تھا اور قرآن مجید پڑھنے کے بعد گھر کے مختلف کاموں میں مصروف ہوجاتی تھیں۔ میں نے انھیں کبھی بے کار نہیں پایا۔ بیماری کے دنوں میں بھی نہیں۔ گھر کے کاموں سے فرصت ملتی تو چولھے کے پاس پیڑھی پر بیٹھ کر، حقّے کی نَے منہ میں لے کر، چھوٹی چھوٹی رسّیوں میں گانٹھیں دے دے کر ان کے گچھے سے بناتی رہتی تھیں۔ ان گچھوں سے چلم کے لیے آگ بنتی تھی یا انھیں جلا کر سالن وغیرہ گرم کیا جاتا تھا۔
(نقوش، آپ بیتی نمبر، میرزا ادیب)
میرزا ادیب کی زندگی میں ان کی والدہ مذکورہ بالا دونوں بے جان چیزوں کے درمیان ایک کڑی کی حیثیت بھی رکھتی تھیں۔ اس لحاظ سے کہ دیے کو ہر روز جلانے والی ان کی ماں ہی تھیں۔ صندوق کی کتابوں کا احترام اور دادا جان سے محبت کا جذبہ ماں کے ذریعے ہی ان کے دل میں پروان چڑھا تھا۔
میرزا ادیب نے اپنی سوانح میں ان تین چیزوں کے تعلق سے عہد طفولیت کے بارے میں جس انداز سے لکھا ہے وہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی بچہ مظاہرِ قدرت اور اشیا کے بارے میں گہرے غور و تفکر کا مشاہدہ کرے اور پھر اُنھیں اسی سادگی سے بیان بھی کرے گویا اس نے کائنات کے رموز میں سے کوئی رمز پالیا۔ میرزا ادیب کے ان چند سوانحی گوشوں کو پڑھ کر یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے یہاں عقل و دانش سے زیادہ تخیل کی کارفرمائی ہے۔ ان کے تخیل کو بچوں سے علاقہ ہے۔ اگر ہم بالغوں کے بالمقابل بچوں کی ایک الگ دنیا کا وجود تسلیم کرتے ہیں تو ہماری مراد ان کے خیال کی دنیا ہوتی ہے۔ لہٰذا ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ بچے کو عقل سے زیادہ تخیل سے کام رہتا ہے۔ ایک بچہ، اگر اسے پودوں اور گملوں سے دلچسپی ہے تو وہ گھر میں لگے گملوں میں کبھی پتھر، کبھی کاغذ اور کبھی پودوں کی کوئی نازک سی ٹہنی یا پتے یا پھول گاڑ دیتا ہے۔ گاڑنے کے اس عمل کے ساتھ ہی اس کے تخیل کی دنیا آباد ہونے لگتی ہے۔ ممکن ہے اس نے یہ بھی تصور کرلیا ہو کہ اس پتھر یا کاغذ کا پودا جب باہر آئے گا اور جب اس پر پتھر یا کاغذ پھلیں گے تو وہ کس طرح نظر آئے گا۔ بعض بچے تو سکّے بھی زمین میں گاڑ کر پیسے پیڑ پر اگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سے بچوں کی دنیا اور بچوں کے ادب میں تخیل کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہی عنصر اس مضمون کا جواز ہے۔ وہ اس لیے کہ اب تک جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ بظاہر ایک ادیب کی سوانح کا گوشہ ہے لیکن غور کیا جائے تو ادب اطفال کی تخلیق میں معاون بچوں کے ذہن کے نہاں خانوں میں جھانکنے کا دریچہ بھی ہے۔ ایسے دریچے میرزا ادیب کی سوانح میں جابہ جا کھلے ہیں۔ ایسے تمام واقعات کا جائزہ لینا یہاں ممکن نہیں لیکن نمونے کے طور پر ایک اقتباس پیش کرنے کی گنجائش تو ہے ہی:
ان چند ہفتوں کو غیر اہم قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کبھی تنہا اور کبھی منیر یا ستّار کے ساتھ اسکول کو جاتے ہوئے یا سکول سے آتے ہوئے باغ سے، اور تھوڑی سی مسافت کے لیے ایک ویرانے سے گذرنا پڑتا تھا۔
سائیں سائیں کرتے ہوئے درخت، فضا میں اُڑتے ہوئے پرندے۔ اور گھاس کے اوپر بے شمار گرے ہوئے پتے151 نہ جانے یہ چیزیں مجھے کیا کیا احساس دلاتی رہتی تھیں۔ خاص طور پر سبز یا سوکھے، افسردہ، پژمردہ پتوں پر جب ہم اپنے پاؤں رکھتے تھے تو چڑ چڑ کی سی آواز میرے دل میں ایک عجیب، ایک ناقابلِ بیان، ایک مبہم سی کیفیت طاری کردیتی تھی، مُنیر یا ستّار ان لمحوں میں جو کچھ کہتے تھے میں اچھی طرح سمجھ نہیں سکتا تھا۔ جی چاہتا تھا کہ خاموش رہوں اور چلتا جاؤں۔ آگے ہی آگے۔ بس آگے ہی آگے۔
یہی وجہ ہے کہ میرزا ادیب نے جہاں کئی کہانیاں، ڈرامے، خاکے اور کالم لکھے، ادبی صحافت میں بھی نمایاں خدمات انجام دیں وہیں انھوں نے بچوں کے لیے بھی خاطر خواہ ترکہ چھوڑا جس میں ناول، ڈرامے اور کہانیاں شامل ہیں۔ اس سے ان کی طفولیت پسندی کو سند مل گئی۔ ساتویں کلاس میں انھوں نے پہلی بار ایک دوست کے کہنے پر ایک باغ میں بیٹھ کر ’بکری‘ پر شعر کہے۔ لیکن ان اشعار کو انھوں نے کہیں چھپوایا نہیں۔ البتہ عہد طفلی کے شعور کو کھنگالنے پر لاشعوری طور پر انھیں جو کچھ یاد آیا اسے اپنی خود نوشت میں درج کردیا، یہ بکری پر کہے گئے اشعار میں سے ابتدائی چار مصرعے تھے جو کچھ اس طرح ہیں
میں نے دیکھی ہے آج اک بکری
دودھ دیتی ہے گھاس کھاتی ہے
پیار سے میرے پاس آتی ہے
جب پکڑتا ہوں بھاگ جاتی ہے
انھوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مستقل لکھتے رہے۔ بچوں کے لیے ان کی چند تخلیقات حسبِ ذیل ہیں:
ناول: چچا چونچ(مزاحیہ نیز یونائٹیڈ بینک انعام یافتہ)، شہر سے دور، گڑیوں کا شہر (مہم جوئی)، جن شہزادی، گدھا کہانی
ڈرامے:پانچ ڈرامے (یونائٹیڈ بینک انعام یافتہ)، وہ ڈاکٹر نہیں تھا، اے وطن، میرے وطن، قوم کی بیٹی، تیس مار خاں (16ایڈیشن)، ڈالیاں، انسپکٹر صاحب آئے، سات کھیل، نانی اماں کی عینک (یونائٹیڈ بینک انعام یافتہ) ، بگی کی گڑیا، بچوں کے ڈرامے، ماں کا خواب (علامہ اقبال کی نظموں پر مبنی کھیل)
کہانیوں کے مجموعے:ایک آدمی، شیروں کا بادشاہ، باپ کی خدمت، چالاک ہرن
بچوں کے لیے لکھی گئی تخلیقات کے اجمالی جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ میرزا ادیب بچوں کے تئیں ادیب کی ذمے داری کو محسوس کرتے تھے۔ اور انھوں نے اس تعلق سے بھی بھر پور لکھا۔ ممکن ہے بچوں کے لیے لکھتے وقت اُن کے سامنے ماں کا وہ چھوٹا ’دلور‘ اور اس کے احساسات عکس فگن ہوجاتے ہوں کیوں کہ ان کی بیشتر تخلیقات کو پڑھتے ہوئے ان کی خود نوشت سوانح’مٹی کا دیا‘ ضرور یاد آتی ہے۔ یا پھر کہانی کے حوالے سے ان کا یہ تصور کہ:
کہانی جس شے کا نام ہے، وہ سنانے کی شے ہوتی ہے۔ کہانی لکھی جاتی ہے مگر اس انداز سے جیسے سنائی جارہی ہے۔ کہانی کا یہ تصور میرے ذہن میں مستحکم ہے۔
کہانی کا درج بالا تصور میرزا ادیب نے بچوں کے لیے لکھی جانے والی کہانیوں کے لیے نہیں قائم کیا ہے بلکہ یہ تصور عمومیت کا حامل ہے۔ لیکن اس سے ہم بچوں کے لیے لکھی جانے والی کہانیوں کی شعریات کا ایک اہم نکتہ ضرور برآمد کرسکتے ہیں۔ یہ شے کہانی جو میرزا ادیب کے نزدیک سنانے کی چیز ہوتی ہے اسے سنانے کا تجربہ بھی میرزا ادیب کو خوب تھا۔ لہٰذا اہم بات یہ ہے کہ اردو میں جب بھی ادبِ اطفال کے تعلق سے بات کی جائے گی، میرزا ادیب سے کترا کر نکلنا ناممکن ہوگا۔
A-10, Batla House Chowk, Okhla
New Delhi- 110025
اردو دنیا۔ شمارہ اگست 2018
قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں