26/12/18

مابعد جدیدیت اور بانو قدسیہ (شہر لازوال، آباد ویرانے کے حوالے سے) مضمون نگا:۔ سفینہ بیگم





مابعد جدیدیت اور بانو قدسیہ

(شہر لازوال، آباد ویرانے کے حوالے سے)

سفینہ بیگم

اردو ادب میں مابعد جدیدنقطہ نظر سے کئی فن پاروں کا تجزیہ کیا جاتا رہا ہے۔تاکہ ادب پارہ میں موجود تعمیری اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مابعد جدیدیت کے بنیادی نکات کی تفہیم کاکام عمل میں آسکے اور اس بات کی وضاحت ہو سکے کہ مابعد جدیدیت اپنے حقیقی معنی میں کن عوامل کا احاطہ کرتی ہے۔مابعد جدیدیت کی اصطلاح کوئی تھیوری نہیں بلکہ ایک صورت حال ہے جو دیگر ذہنی اور ادبی رویوں کے ضابطہ بند طریقوں سے بحث کرتی ہے اور یہ ادبی رویے مابعد جدید صورت حال کے زمرے میں شامل ہوتے ہیں۔ مابعد جدیدیت ان تمام ادبی حد بندیوں سے اختلاف کرتی ہے جو ادب پارہ اور قاری کے درمیان حائل ہوتی ہے اور فن پارے پر کسی بھی قسم کی موضوعی یا فنی پابندی عائد کرتی ہے۔یہ تخلیق کی آزادی کا مطالبہ کرتی ہے اور فن پارہ کوکسی ایک زاویہ یاکسی مخصوص ادبی رویہ کے سانچہ میں پرکھنے کے بجائے اس کی تعبیر کے متعدد امکانات کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ناقدین ادب زمانی سطح پرمابعد جدیدیت کے متعلق اس امر کو واضح کر چکے ہیں کہ مابعد جدیددور سے کیا مراد ہے۔اور اس صورت حال کے پیش نظر مختلف ادبی رویوں کا اطلاق محض مابعد جدید فن پاروں کے حوالے سے کیا جا سکتا ہے یا ماقبل کی تخلیقات کا تحلیل و تجزیہ کرنے میں مابعد جدید یت معاون ہو سکتی ہے۔لہٰذا اس سے متعلق کوئی گفتگو نہیں کی جائے گی۔
مابعد جدیدصورت حال میں Cultural studiesکوبہت اہمیت حاصل ہے۔یہاں یہ سوال قائم کیا جاسکتا ہے کہ ثقافتی مطالعے کی اہمیت توہر دور میں رہی ہے تو اس کا جواب یہ ہوسکتاہے کہ مابعد جدیدیت میں اشیا کی پیش کش کا طریقہ تبدیل ہوگیا ہے۔Acceptabilityکی صفت نے متن کو وسیع تر کردیا ہے خواہ وہ موضوع کے حوالے سے ہو یا فن کے حوالے سے۔اور اس اعتبار سے غور کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہر قسم کے تہذیبی و ثقافتی مسائل کی آزادانہ پیش کش مابعد جدید ادب میں کی گئی ہے۔کیونکہ ان ثقافتی مسائل نے سماجی بحران اور افراط و تفریط کی شکل اختیار کرلی ہے۔لہٰذا موضوعات کی سطح پر سائنس و ٹکنولوجی،گلوبلائزیشن،کمپیوٹر،ماس میڈیا،سیاسی حربے،معاشرتی پراگندگی، صارفیت کا غلبہ، جنسی آگاہی،عورتوں کے مسائل،دلت ڈسکورس وغیرہ کو پیش کیا گیا۔ نیز ہر طرح کے ثقافتی کرائسس کو سمجھنے کے لیے مابعد جدیدادب کے فکری رویوں کوتشکیل دیا گیا۔موضوعات کی سطح پر مابعد جدید ناول کے حوالے سے بہت سی بحثیں سامنے آچکی ہیں۔لیکن زبا ن کی سطح پر ان Toolsکا ذکر جستہ جستہ ہی ملتا ہے جن کے ذریعہ کسی متن کا مطالعہ مابعد جدید نقطہ نظر سے کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں اس بات کا ذکر کردینا بھی ضروری ہے کہ جدیدیت کے زیر اثر جس مہابیانیہ کو تشکیل دیا گیا۔مابعد جدیدیت نے اس کو خاطر خواہ اہمیت نہ دے کر چھوٹے بیانیہ کو اہم قرار دیا۔اور اس بات کی جانب توجہ دلائی کہ معنی کا کوئی ایک مرکز نہیں ہوتا بلکہ قرأت کا طریقہ اس کا مرکز تبدیل کرتا رہتا ہے۔مابعد جدیدمتن کی زبان Unreliable (کبھی کچھ تو کبھی کچھ)ہوتی ہے۔جس میں ناول کے بنیادی وصف علت و معلول اور سبب و نتیجہ کی منطق سے انکار کی صورت ملتی ہے۔مابعد جدید متن کی زبان کسی بھی اصول و ضوابط کی مرہون منت نہیں ہوتی اور بسا اوقات متن کی ساخت Amorphousکی شکل اختیار کرلیتی ہے۔مثال کے طور پر مرزااطہر بیگ کا ناول غلام باغ اس ضمن میں قابل ذکر ہے۔مابعد جدید زبان کا ایک اہم وصف یہ بھی ہے کہ یہ (زبان) اپنی تشکیل کی منطق کو خود واضح کرتی ہے جسےSelf Reflexivityکہا جاتا ہے اور اسی کا ایک حصہ علت و معلول کی صفت سے انکار ہے۔جس کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مابعد جدید متن میں Signifiers کو اہمیت حاصل ہے۔جن کا باہمی ارتباط ہی متن کی ساخت میں اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ جدیدیت نے جن عوامل کو ’غیر‘کا درجہ دیا تھا،مابعد جدیدت نے ان تمام عوامل کو ایک دائرہ میں جمع کردیا۔اور متن کو ایک وسیع تناظر میں پرکھنے کی کوشش کی۔گوپی چند نارنگ مابعد جدیدیت کے متعلق لکھتے ہیں:
’’مابعد جدیدت نہ ترقی پسندی کی ضد ہے اور نہ جدیدیت کی،اور چونکہ یہ نظریہ کی ادعائیت کو رد کرنے اور طرفوں کو کھولنے والا رویہ ہے،اس کی کوئی بندھی ٹکی فارمولائی تعریف ممکن نہیں۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو مابعد جدیدیت ایک کھلا ڈلا ذہنی رویہ ہے تخلیقی آزادی کا، اپنے ثقافتی تشخص پر اصرار کرنے کا،معنی کو سکہ بند تعریفوں سے آزاد کرنے کا،مسلمات کے بارے میں ازسر نو غور کرنے اور سوال اٹھانے کا،دی ہوئی ادبی لیک کے جبر کو توڑنے کا،ادعائیت خواہ سیاسی ہویا ادبی اس کو رد کرنے کا، زبان یا متن کی حقیقت کے عکس محض ہونے کا نہیں بلکہ حقیقت کے خلق کرنے کا،معنی کے معمولہ رخ کے ساتھ اس کے دبائے یا چھپائے ہوئے رخ کے دیکھنے دکھانے کا، اور قرأت کے تفاعل میں قاری کی کارگردگی کا۔دوسرے لفظوں میں مابعد جدیدیت تخلیق کی آزادی اور تکثیریت کا فلسفہ ہے جو مرکزیت یا وحدیت یا کلیت پسندی کے مقابلے پر ثقافتی بوقلمونی،مقامیت،تہذیبی حوالے اور معنی کے دوسرے پن'The other' کی تعبیر پر اور اس تعبیر میں قاری کی شرکت پر اصرار کرتا ہے۔‘‘ 1؂
مابعد جدید نقطہ نظر سے کسی فن پارہ کا تجزیہ و تحلیل کرنے کے لیے سب سے پہلے اس کہانی کے تشکیلی عناصر پر غور کیا جائے اور اس بات کو ذہن میں رکھا جائے کہ کہانی کس طرز پر وجود میں آئی اور متن کس انداز سے واقعات کو معانی فراہم کررہاہے۔مابعد جدید تنقید کا ایک اہم عنصر یہ بھی ہے کہ متن کی افہام و تفہیم میں قاری کو کوئی رکاوٹ درپیش نہ ہو،افسانہ یا ناول اپنی فکری سطح پر مہملیت کا شکار نہ ہو۔ لہٰذا دیگر ادبی رویوں کے ساتھ ساتھ متن کا مطالعہ اس کے ثنوی تخالف اور متضاد رویوں کے زیر اثر بھی کیا جاتا ہے۔اور متن سے معانی برآمد کیے جاتے ہیں۔اس بات کا ذکر کردینا بھی ضروری ہے کہ کوئی بھی ناول مکمل طور پر مابعد جدید رویوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ بلکہ مابعدجدیدیت کے کچھ پہلوؤں کے حوالے سے متن کو ترتیب دیا گیا ہوگا۔ اردو میں مابعد جدیدیت کے زیر اثر افسانہ اور ناول دونوں اصناف پر توجہ دی گئی لیکن ناول کے بالمقابل افسانہ کی شعریات کا زیادہ بہتر طریقہ سے جائزہ لیا گیا۔ جس میں روایتی طریقوں کی بازیافت کے ساتھ ساتھ اس سے انحراف کی مختلف صورتوں اور تجربہ و فکر کے جدید رویوں کو بروئے کار لایا گیا۔اس اعتبار سے موضوعی بحث کے ساتھ فنی تجربات کی روشنی میں متن کا مطالعہ کیا گیا۔ جس سے وسیع پیمانے پرمتن کی تعبیر کے ممکنہ امکانات سامنے آئے۔لیکن کسی ناول کا جائزہ محض موضوعاتی تشریح تک محدود رہا۔اردو ناول میں مابعد جدید رویوں کے تحت اکثر و بیشتر انھیں ناولوں کا تجزیہ کیا جاتا رہا ہے جو 1980 کے بعد وجود میں آئے۔واضح رہے کہ مابعد جدیدیت میں زبان کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے اور اردو داں طبقہ اس غلط فہمی کا شکار ہے کہ 1980 کے بعدجوبھی ناول تخلیق کیے گئے ان کو مابعد جدید زمرے میں شامل کیاجا سکتا ہے۔جبکہ ضروری ہے کہ ان تحریروں کی زبان پر غورو خوض کیا جائے اور یہ دیکھاجائے کہ کیا ان کے متون میں وہ عوامل موجود ہیں جن کا ذکرانگریزی کے مابعد جدید نقادوں نے کیا ہے۔ژاں فرنسکوائزلیوتارڈ اپنے مضمون ’’اس سوال کا جواب کہ مابعد جدید کیاہے؟‘‘میں لکھتا ہے کہ:
’’مابعد جدید وہ ہوگا جو جدید میں ناقابل احضار کو پیش کش میں نمایاں کرتا ہے، جو خود کو اچھی ہیئت کی تسکین سے محروم رکھتا ہے،جو ذوق کے اس اجتماعی شعور کو،جو ناقابل حصول کے لیے ماضی کی حسرت ناک یاد سے عبارت ہے،قبول نہیں کرتا، جو نئی پیش کش کی جستجوکرتا ہے اس لیے نہیں کہ وہ اس سے لطف اندوز ہو بلکہ اس لیے کہ ناقابل احضار کے احساس کو شدید طور پر پیش کر سکے۔مابعد جدید فن کار/مصنف،فلسفی کی حیثیت رکھتا ہے،جو متن وہ تعمیر کرتا ہے وہ پہلے سے متعین اصولوں کے مطابق نہیں ہوگا۔اور اس پر کوئی حکم پہلے سے متعین درجوں(Categories)کے حوالے سے نہیں لگایا جا سکتا۔متن/فن پارہ تو خود ان درجات کی تلاش میں ہے،تو مصنف/فن کار اصولوں کے بغیر کام کرتے ہیں تاکہ اصولوں کو دریافت کر سکیں کہ کیا کیاجانا چاہیے تھااسی لیے متن ایک وقوعہ (Event)کا کردار/صفات رکھتا ہے۔اور اسی لیے وہ اپنے مصنف پر خاصی دیر میں وارد ہوتے ہیں۔اور یہی بات اس طرح بھی کہی جا سکتی ہے کہ ان کا متن میں داخل ہونایا ان اصولوں کی تشکیل بہت جلد شروع ہو جاتی ہے۔ مابعد جدید کو ہمیشہ مستقبل اور ماقبل کے قول محال میں ہی سمجھا جا سکتا ہے۔‘‘2؂
اردو ادب میں مابعدجدید ناولوں میں موضوعات کے تنوع کے حوالے سے عام طور پرعبدالصمد، غضنفر، حسین الحق،شموئل احمد،سید محمد اشرف وغیرہ کی ناولوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔جبکہ غور کیا جائے توفکری و فنی سطح پر قرۃالعین حیدر، عبداللہ حسین،نیر مسعوداور دوسرے ناول نگاروں کے یہاں لسانی تازہ کاری اور اظہار وبیان کے مابعد جدید اسالیب کے نمونے ملتے ہیں۔ان ناول نگاروں کی تحریروں کے علاوہ بانو قدسیہ کے ناولوں کوبھی مابعد جدید رویوں کے پیش نظر پرکھا جا سکتا ہے۔جس میں موضوع اورمواد کی پیش کش اور ناول کی شعریات پر گفتگو کرتے ہوئے متن کے طرز وجود سے معنی اخذ کیے جا سکتے ہیں۔
بانو قدسیہ کا مقبول عام ناول’راجہ گدھ‘ اردو دنیا میں شہرتِ دوام کی حیثیت حاصل کر چکاہے۔اس کے علاوہ ’حاصل گھاٹ‘، ’شہر بے مثال‘ اور ’شہر لازوال،آباد ویرانے‘ ان کے اہم ناول ہیں۔راجہ گدھ کے علاوہ باقی ناولوں کے متعلق کوئی خاطر خواہ مضامین منظر عام پر نہیں آئے ہیں۔لہٰذا اس مضمون میں بانو قدسیہ کے ناول شہر لازوال،آباد ویرانے کے حوالے سے گفتگو کی جائے گی،اور مابعد جدید تناظر میں اس کے ادبی محرکات و عوامل کو جانچا جائے گا۔یہ ناول 2012 میں سنگ میل پبلی کیشنز لاہور سے شائع ہوا اور اس کی ضخامت 576صفحات پر مشتمل ہے۔راجہ گدھ کے مقابلے میں یہ ایک مختلف نوعیت کا ناول ہے جس میں بہت سے چھوٹے چھوٹے قصوں کے توسط سے ناول ترتیب دیا گیا ہے۔
ناول کا عنوان ’شہر لازوال،آباد ویرانے‘ ایک Paradoxicalسطح پر ترتیب دیا گیا ہے۔اور اس عنوان کی مناسبت سے ہی مصنفہ نے اس ناول کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے جس میں پہلا حصہ شہر لازوال پر مبنی ہے جو محض 68 صفحات کا احاطہ کرتا ہے۔اور باقی حصہ آباد ویرانے پر مشتمل ہے۔شہر لازوال سے مراد لاہور شہر ہے جس کو کبھی زوال نہیں اور ابتدا میں ہی بانو قدسیہ اس کے متعلق لکھتی ہیں۔ ’’اس ناول کی تھیم یہ ہے کہ لاہور شہر جو بے پناہ ناپاک لوگوں سے آباد ہے،کیسے ابھی تک آباد ہے...... غالباًکچھ اللہ کے بھگت اس دھرتی پر آباد ہیں جو اس کے لیے دعا گو ہیں۔‘‘لیکن بانو قدسیہ کا یہ قول صرف شہر لازوال کے واقعات اور آباد ویرانے میں تقسیم کے بعد کے واقعات پر منطبق ہوتا ہے۔ درمیانی حصہ لاہور سے ملحق کانگڑہ ویلی میں قیام پزیر مرکزی کرداروں کے واقعات پر مشتمل ہے اور یہ کردار آباد ویرانے کا حصہ ہیں۔شہزلازوال میں موجود کرداروں کا تعلق ان ناموں سے ہے جن کا ذکر بانو قدسیہ نے ابتدا میں ہی کردیا ہے جس سے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ پورا ناول انھیں کرداروں کے محور پر گردش کرے گا جب کہ ایسا نہیں ہوتا اور شہر لازوال میں موجود کسی بھی کردار کا تعلق آباد ویرانے کے کسی بھی واقعہ سے نہیں ہوتا ہے۔اب اس کوناول کے فنی تجربہ سے تعبیر کیا جائے یا ناول کا عیب کہا جائے۔جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ ’آباد ویرانے‘ Paradoxicalترتیب ہے۔ایک ایسا قول جو بظاہر تو غیر یقینی اور غلط معلوم ہو لیکن شاعر یا مصنف کے عندیہ میں وہ درست ہو۔اور غور کرنے پر اس کی معنویت اجاگر ہو جائے۔اسی امر کو ملحوظ رکھتے ہوئے مصنفہ نے یہ ترکیب استعمال کی ہے۔اس قول سے ظاہر ہوتا ہے کہ بظاہر تو یہ علاقہ آباد ہے اور عشرت کدہ کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن حقیقت میں یہاں رہنے والے لوگوں کے اعمال کے باعث اس جگہ پر ویرانی اور تباہی کی کیفیت چھائی ہوئی ہے۔
بانو قدسیہ کے اس ناول میں متعدد چھوٹے چھوٹے واقعات موجود ہیں جن میں بعض واقعات مرکزی قصہ کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت نہیں ہوتے۔ناول میں ان کی شمولیت محض اضافی حیثیت رکھتی ہے جس سے بے جا طوالت کا احساس ہوتا ہے۔ناول کی ابتدا میں مصنفہ نے اہم کردار کے نام سے کرداروں کی فہرست رقم کی ہے۔جن میں ظفر کی بیوی رخشندہ (طوائف)، ظفر، اکرام شاہ، ڈاکٹر فہیم، جنرل بختیار، جمال کے نام شامل ہیں اور یہ تمام کردار ’شہر لازوال‘ کے حصہ میں گردش کرتے نظر آتے ہیں۔جبکہ ’آبادویرانے‘ میں جو کردار خلق کیے گئے ہیں ان میں سے معدودے چند اہمیت کے حامل ہیں اور وہ ڈاکٹر سرفراز مغل، ابراہیم مغل، شوکت مغل، راحیلہ، ساجدہ بیگم، اوما، روی، سریندر، ببو، شاہد، نجم، ڈاکٹر قیصر ہیں ان کے علاوہ سیکڑوں چھوٹے چھوٹے کردار موجود ہیں جن کو مصنفہ خلق نہ بھی کرتیں تو ناول کے اہم واقعات میں کوئی فرق نہیںآتا۔لیکن چونکہ بانو قدسیہ نے ابتدا میں اس بات کی طرف اشارہ کردیا ہے کہ’ اب بھی اس دھرتی پر کچھ اللہ کے بھگت آباد ہیں جو اس کے لیے دعا گو ہیں‘۔ تو ہو سکتا ہے ان جزوی واقعات میں تشکیل شدہ کرداروں سے مراد انھیں نیک بندوں کی جانب اشارہ مقصود ہو۔مصنفہ سے اکثر مقامات پرناموں کے بیان میں بھی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں اور بعض جگہ راوی کی بے جا تبدیلی قصہ میں خلل پیدا کرتی ہے۔
ناول کا موضوع کسی ایک محور پر گردش نہیں کرتا ہے بلکہ بہت سے موضوعات کو سمیٹ کر ناول کا کینوس تخلیق کیا گیا ہے۔معاشرہ میں پھیلی جنسی بے راہ روی،بد امنی، انتشار،رشتوں کی نوعیت اور ان کی پامالی،فیشن زدہ ماحول میں ہر غلط چیز کو وقت کی ضرورت سمجھ کر اس کو قابل قبول بنا لینا، مذہبی اصولوں پر عمل کرنے کے ساتھ طوائف سے ہمبستری کو غلط نہ سمجھنا،مشترکہ تہذیب کا بیان،مسلمان قوم کے زوال کے اسباب اور اپنے سرمایہ سے قطع تعلق کر لینا،مذہب سے دوری، تقسیم کے نتیجہ میں پاکستانی عوام کا زندگی کے مسائل سے نبردآزما ہونا، وہاں کے بگڑے ہوئے حالات، داخلی اضمحلال واضطراب اور تشنگی کا احساس۔ان تمام نکات کا بیان ناول میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ناول کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے پہلا حصہ شہر لازوال پر مشتمل ہے جس کی کہانی اس طرح ہے۔لاہور میں مقیم رخشندہ نامی طوائف جو پہلے ظفر کی بیوی تھی،کسی نامعلوم مرض کا شکار ہو کر پاگل خانہ پہنچا دی جاتی ہے۔ وہاں سے واپسی پر وہ طوائف کی حیثیت سے مردوں کی جسمانی آسودگی کا ذریعہ بنتی ہے۔لاہور سے تھوڑی دور جھنگ علاقہ میں رہنے والے سید اکرام شاہ،جو اہل بیت سے قربت رکھتے تھے،قوالی میں دلچسپی کے علاوہ اسلامی نظام اور سیاسی محرکات پر دسترس حاصل تھی۔ اس کے ساتھ شراب اور عورت پر بھی اپنا حق سمجھتے تھے۔ لہٰذا رخشندہ ان کی رات کو رنگین بنانے کے لیے ان کے گھر جاتی تھی۔اس بات کا علم سید صاحب کی بیوی کو ہوتا ہے لیکن بجائے لعنت ملامت کرنے کے اس کی خدمت گزاری کو اپنا فریضہ سمجھتی ہیں۔ اتنے مردوں سے تعلقات بنانے کی وجہ سے وہ اسقاط حمل کو ترجیح دیتی ہے لیکن جنرل بختیارسے محبت کے باعث وہ ان کی اولاد کو مارنا نہیں چاہتی ہے مگر جنرل بختیار کے اصرار کرنے پروہ بچہ ضائع کروا دیتی ہے اور یہ کام ڈاکٹر فہیم کے ہاتھوں انجام پاتا ہے۔ ڈاکٹر فہیم، رخشندہ کو جنرل بختیار کی بیوی کے طور پر جانتی ہے لیکن اس کی اصلیت سے بھی واقف ہے ۔ڈاکٹر فہیم کے کلینک پر رخشندہ کی ملاقات ایک ایسی لڑکی سے ہوتی ہے جس کا حمل اس کے ماموں کی زیادتی کا نتیجہ تھا۔ رخشندہ جنرل بختیار کے گھر ہمیشہ جاتی تھی اور وہ اسے اپنی بیوی کے سامنے بہن جی کہہ کر پکارتے تھے۔ان کے بیٹے جمال سے بھی رخشندہ کے تعلقات تھے۔لیکن بختیار کی بیوی،اپنے شوہر اور بیٹے سے رخشندہ کے تعلق کی نوعیت کو جاننے کے باوجود کچھ نہیں کہتی تھی۔اس کے بعدکاشف نامی ایک شخص اپنی زندگی کی کہانی دوسرے شخص کو سناتا ہے۔ کاشف لاہور کے کسی تھانے میں ایس ایچ او کے عہدے پر فائز تھا لیکن ملک کی گندی سیاست کے باعث وہ استعفیٰ دے کر کینڈا چلا جاتا ہے۔یہاں پرشہر لازوال کا حصہ اختتام کو پہنچ جاتا ہے۔
’آباد ویرانے‘میں عہد بہ عہد واقعات کو تشکیل دیا گیا ہے۔جن میں ڈاکٹر سرفراز مغل ان کے دونوں بچے راحیلہ اور شوکت کی زندگی میں آنے والے رموزو نکات کا بیان ملتا ہے۔ڈاکٹر سرفراز اپنے خاندان کے ساتھ گورداسپور (امرتسر )سے کانگڑہ ویلی میں سکونت اختیار کر لیتے ہیں۔جہاں پر مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہے۔اس اعتبار سے راحیلہ اور شوکت کی دوستی، اوما، روی، ببو اور سریندر سے ہو جاتی ہے۔سرفراز کے والد ابراہیم مغل اس بات کا نوحہ کرتے ہیں کہ بچے اپنی مسلم تہذیب و ثقافت کو بھلا بیٹھیں گے۔جبکہ ان کا بیٹا اور بہو اس بات کی پرواہ نہیں کرتے۔اس حصہ کے کئی عہد ان کے بچپن سے لے کر جوانی تک کے واقعات پر مشتمل ہیں۔ جن میں جزئیات نگاری سے سب سے زیادہ کام لیا گیا ہے۔ شوکت مغل پڑھائی کی غرض سے لاہور چلا جاتا ہے،راحیلہ کی شادی شاہد سے طے ہوجاتی ہے اور شادی کے دن ہی بلوائی ڈاکٹر سرفراز کے گھرپر حملہ کر دیتے ہیں۔گھر کے سب لوگ مارے جاتے ہیں اور راحیلہ کو جنسی تشدد کا نشانہ بنا یا جاتا ہے۔ہندوستان تقسیم ہو جاتا ہے۔یہاں سے کہانی ایک نیا موڑ لیتی ہے او زمانی سطح پر واقعات کو تقسیم سے اڑتالیس برس بعد رونماہوتے ہوئے دکھایا جاتا ہے جس میں شوکت مغل اپنے بیوی بچوں کے ساتھ لاہور میں مقیم ہے۔اس کے بعد چند غیرضروری واقعات کا بیان ملتا ہے جو مرکزی قصہ کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت نہیں ہوتے۔ بعدازاں راحیلہ کا قصہ شروع ہوتا ہے جو قافلہ کے ساتھ پاکستان پہنچا دی گئی تھی۔ناساز طبیعت کے باعث ڈاکٹر قیصر جو والٹن کیمپ میں مہاجرین کے علاج معالجہ کے کام پر مامور تھاراحیلہ کو اپنے گھر لے جاتا ہے۔ وہاں اس کے علاج سے معلوم ہوتا ہے کہ راحیلہ حاملہ ہے۔ڈاکٹر قیصر انسانیت کے سبب اس سے نکاح کر لیتا ہے اور یہ نکاح محبت میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ قیصر، راحیلہ سے عمر میں پندرہ سال بڑا ہوتا ہے۔ ایک دن شاہد راحیلہ کو تلاش کرتے ہوئے قیصر کے گھر پہنچ جاتا ہے اور اپنے ساتھ چلنے کے لیے کہتا ہے لیکن راحیلہ کے انکار کرنے پر وہ اسے برا بھلا کہتا ہے اور الزام تراشی کرتا ہے۔مگر راحیلہ اپنے محسن کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتی۔ قیصر کا دوست نجم راحیلہ پر غلط نظر رکھتا ہے جس کے سبب قیصر اور نجم کے مابین دوریاں حائل ہوجاتی ہیں۔ مہلک مرض کی وجہ سے قیصر کی موت ہو جاتی ہے۔وہ اپنا تمام اثاثہ راحیلہ اور اس کے بچہ کے نام کرجاتا ہے۔اورراحیلہ ارسلان کی پیدائش کے بعد اپنی زندگی اس کے لیے وقف کر دیتی ہے۔اس قصہ پر ناول کا اختتام ہوجاتا ہے۔
ناول میں موضوعات کی پیش کش کونئے انداز سے ترتیب دیا گیا ہے۔بانو قدسیہ نے لاہور کے حالات وہاں کے لوگوں کی بے حسی، بے ضمیری،تباہ و برباد ہوتے ہوئے انسانی تشخص،بے غیرتی کی حدود کو پار کرتے ہوئے انسانی رشتوں کا بیان کیا ہے۔اور ان تمام واقعات کو ایک ہی لڑی میں پرودیا ہے،جبکہ یہ تمام قصے وسیع کینوس کا تقاضا کرتے ہیں۔ناول میں راوی جگہ جگہ اس بات پر افسوس کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ پاکستان کا قیام جن بنیادوں پر عمل میں آیا تھااور مذہب کی رسی پکڑ کر مسلم لیگ نے جس انداز سے پاکستان کے حق میں علم بلند کیے تھے وہ تمام مقاصد فوت ہو چکے ہیں۔برائی عام ہو گئی ہے انسانوں نے غلط روش اختیار کر لی ہے۔عام طور پراردو ناول میں عورت کو استحصال زدہ بتایا جاتا ہے اور مرد کو اس کا ذمے دار قرار دیا جاتا ہے۔راوی ایک مقام پر مرد کے متعلق بھی مساوی رویہ اختیار کرتے ہوئے لکھتا ہے اور پاکستانی معاشرہ کے حالات پر نوحہ خواں ہے:
’’عورت اور روپیہ ان دونوں نے مل کر مرد کا خوب استحصال کیا تھااور خود مرد کے استحصال کا نشانہ بنی تھی۔جو معاشرے اپنی عورت سے روپیہ کا سا سلوک کرتے ہیں وہ بالآخر بڑے انتشار سے دوچار ہو جاتے ہیں۔پاکستان میں روپیہ عورت کی طرح پردے دار باحیا ہو گیا تھا۔لاکرز میں بند بیرونی ممالک میں چھپا ہوا،سونے چاندی کی شکل میں مقید روپیہ اپنی موت آپ مر رہاتھااور عورت؟کم از کم اس سوسائٹی کی عورت جس میں رخشندہ رہتی تھی۔یہاں کی عورت بے وقعت تھی۔ سر بازار منہ کھولے، بال بکھرائے پھر رہی تھی اور کوئی اسے مقید کرنے کو تیار نہ تھا۔روپے نے عورت کے ساتھ اپنا روپ بدل لیا تھااور دونوں معجوب تھے۔روپے اور عورت کا کوئی مرکز،کوئی حدود اربعہ،کوئی جہت باقی نہ رہی تھی۔‘‘3؂
ناول سے مقتبس یہ بیان معاشرتی خلفشار اورایک انسان کا دوسرے انسان کے تئیں منفی رویوں کو پیش کرتا ہے۔ رخشندہ کسی ایک مرد کی پناہ میں اپنے لیے سکون تلاش کرتی ہے مگر اسے حاصل نہیں کر پاتی ہے۔ وہ خدا سے انسان اور اس کی مشکلات کو برداشت کرنے کے متعلق گھنٹوں خودکلامی کے عالم میں مبتلا رہتی اور سوال کرتی کہ اس عالم رنگ و بو میں اتنے مصائب کیوں ہیں۔تو نے اپنے بندوں کو انتشار کی کیفیت میں کیوں مبتلا کر رکھا ہے۔لیکن اس بات کا جواب نہیں ملتا اور پھر وہ اپنے وجود کی تسکین کے لیے نکل کھڑی ہوتی۔لاہور میں پھیلتی ہوئی بدامنی، جنسی بے راہ روی،تشدد اور رشتوں کے گھنونے روپ کو پیش کرنے کے لیے پھول ونتی کے کردار کو تشکیل دیا گیا ہے جس کا حمل اس کے ماموں کی زیادتی کا نتیجہ ہے جبکہ پھول ونتی اپنے ماموں زادبھائی سے منسلک ہے جو کویت میں نوکری کرتا ہے۔
پھول ونتی کا اپنے ماموں کے ذریعہ حمل ٹھہر جانا ایک ناقابل برداشت فعل ہے جس سے رشتوں پر سے اعتماد اور بھروسہ ختم ہوتا نظر آرہا ہے۔انسان ہوس زن میں ہر رشتہ سے دست بردار ہو کر اپنی غلط خواہشات کو فروغ دے رہا ہے۔پھول ونتی کی ماں رخشندہ سے کہتی ہیں جو سید خاندان سے تعلق رکھتی ہیں:
’’دفع دور۔۔ لعنت۔پھر اسی ماموں کے پاس بھیج دوں جس کے پاس یہ منہ کالاکروا کے آئی ہے۔
اب سیّدانی پھر رونے لگیں اور دیر تک روتی رہیں...’’میرا سگا بھائی،میرا اپنا سگا بھائی... اس کی اپنی سگی بھانجی... اور... کس بات کا اعتبار کریں بیٹی۔اب تو بتا منیر برداشت کرے گاا س بات کو... یہ پاگل تو کہتی ہے کہ منیر کچھ نہیں کہے گا پر اسے کیا پتہ۔پاگل بیوقوف۔!‘‘4؂
درج بالا اقتباس میں پھول ونتی کا یہ بیان کہ منیر کچھ نہیں کہے گا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اس کے نزدیک اپنے ماموں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنا ایک معمولی امر ہے اس کی بہ نسبت اپنے بچہ کو ضائع کروانا بڑی بات ہے اس لیے وہ اتنے یقین سے کہتی ہے کہ منیر کی محبت اس پر بھی غالب آجائے گی۔اس کو اپنے پیٹ میں پلنے والے بچہ سے بہت محبت ہے۔اور اسی لیے وہ اسقاط حمل کرانے سے انکار کرتی ہے۔یہاں یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ یہ محض پھول ونتی کا قصور نہیں بلکہ اس معاشرہ کا قصور ہے جس نے انسانی ذہن کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔جہاں بڑھتی ہوئی آگاہی اور سائنس و ٹکنولوجی نے ہر فرد کے ذہن کو مقید کرلیا ہے۔صحیح غلط کی تفریق کو پہچاننے سے انسان قاصر ہے۔اور آگے راوی کا یہ بیان کہ’’رخشندہ کو یوں محسوس ہواجیسے زمین اس کے پیروں تلے سےEscalatorکی طرح چلنے لگ پڑی۔‘‘5؂
ظاہر کرتا ہے کہ ایک طوائف کے لیے بھی یہ بات نہایت کریہہ اور ناگوار ہے۔لیکن معاشرہ اس سے کہیں آگے نکل چکا ہے۔جنرل بختیار سے رخشندہ کا تعلق جسم کا تھا لیکن ان کی بیوی کے سامنے رخشندہ،جنرل بختیار کو بھائی جی اور وہ اسے بہن جی پکارتے تھے۔بظاہر اپنے تعلقات کی نوعیت کو پوشیدہ رکھنا ان دونوں کے لیے سود مند تھا لیکن بیگم بختیار اپنے شوہر کی خصلتوں سے واقف تھیں اس کے باوجود وہ ان سے لاتعلقی کا مظاہرہ کرتیں اور انھیں سادہ لوح سمجھتی تھیں۔وہ بھی رخشندہ کو بہن جی کہہ کرپکارتی تھیں۔اور دونوں عورتوں کے درمیان دوستانہ تعلق استوار تھے۔ان دونوں خواتین کا جنرل بختیار کو معصوم سمجھنے کے متعلق راوی کا یہ بیان ملاحظہ ہو:
’’پتہ نہیں کیا بات تھی لیکن اب جب سے رخشندہ جنرل صاحب کی ذہنی،جسمانی اور دینی بہن بن چکی تھی خود اس کا خیال راسخ ہو چکا تھاکہ جنرل صاحب کی ذاتی زندگی بالکل بے داغ ہے۔اس کا اور بیگم بختیار کا ایمان عجب تھا۔
غالباََ انسان وہی بات جانتا ہے جسے ماننے پر اس کا جی مائل ہو۔اوائل عشق میں کیسا یقین ہوتا ہے کہ اگر عاشق نے محبوب کونہ دیکھا تو غالباََ عاشق خودکشی کر لے گا۔اگر معلوم بھی ہو جائے کہ عاشق ہر جائی بے وفا ہے تو بھی دل وہی کچھ مانتا رہتا ہے جو اس کا دل چاہتا ہے اور عشق کی پینگ نصف النہار ہوتی رہتی ہے۔اعتبار کے معاملے عجیب ہیں۔بیگم بختیار بھی غالباََ بہت کچھ جانتی تھیں لیکن وہ باقاعدہ جنرل بختیار کو قریباََ پچیس برس سے بھولا ہی سمجھے جارہی تھیں۔‘‘6؂
ناول سے مقتبس یہ بیان جس میں ہمہ داں راوی کا یہ کہنا کہ پتہ نہیں کیا بات تھی اظہار و بیان کی سطح پرمابعد جدید رویہ کو پیش کرتا ہے۔اور لاعلمی کا اظہار کر کے کچھ باتوں کو غیاب میں رکھنا چاہتا ہے تاکہ قاری خود اس کی وجہ جاننے کی جستجو کرے۔اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یا تو عورت بیوقوف ہے یا مجبوریا پھر اس نے مفاہمت کرلی ہے تاکہ زندگی میں آنے والی پیچیدگیاں اس کا سکون تباہ وبرباد نہ کریں۔یہاں تک کہ بیگم بختیار رخشندہ کو اپنے بیٹے جمال کی تحویل میں دیکھ کر بھی غم و غصہ کا اظہار نہیں کرتیں۔ اس کے علاوہ رخشندہ ایک ستر سال کے بوڑھے نواب کی بھی منظور نظر تھی۔جو اس پر آسائشوں کی بارش کرتے تھے۔اور بدلے میں وہ اپنا جسم اس کے حوالے کر دیتی تھی۔رخشندہ کا کردار معاشرہ کے ناسور کی حیثیت رکھتا ہے جس کو کسی پل چین و سکون میسر نہیں وہ اپنی ذات کی خلیج کو پر کرنے کے لیے ہمہ وقت ایک نئے مرد کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہے۔ اپنے ساتھ پیش آنے والے حادثات ومشکلات اس کو خدا سے سوال کرنے پر اکساتے اور پھر وہ انھیں خدا کا فیصلہ سمجھ کر قانع بن جاتی،راوی نے رخشندہ کی سوچ کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
’’رخشندہ اس بات کو ہر وقت سوچتی رہتی کہ ساری توفیق تو اوپر والے کی دین ہے پھر انسان اپنی تجویز،فیصلے اور دعاؤں کو کیسے درست سمجھے۔یہی تقدیر تھی اور اٹل تھی۔‘‘7؂
اس کے بعد راوی کا یہ بیان کہ:
’’تقدیر کے اٹل فیصلے کے تحت پہلے وہ جنرل صاحب کے تصرف میں چلی گئی۔ جنرل صاحب کو وہ کسی قیمت پر چھوڑنا نہ چاہتی تھی۔یہ اس کی پہلی محبت تھی۔اس نے جنرل صاحب کی بڑی منتیں کیں کہ بچہ ضائع نہیں کرنا چاہتی لیکن جنرل بختیار نہ مانے۔‘‘8؂
درج بالا اقتباس میں راوی کا یہ بیان کہ تقدیر کے فیصلہ کے مطابق رخشندہ کے ساتھ یہ تمام واقعات پیش آئے۔قصہ کے منطقی ربط اور سبب و نتیجہ کے بنیادی مفروضات کی نوعیت کو تبدیل کردیتا ہے اورظاہر ہوتا ہے کہ قصہ کا آغاز،وسط اور انجام تقدیر کے فیصلہ سے تشکیل پاتا ہے۔اس میں علت و معلول کا کوئی تعلق نہیں ہے۔شہر لازوال کا حصہ اس صفحہ پرا ختتام کو پہنچ جاتا ہے،جہاں رخشندہ اس بات کو بھی سوچتی ہے کہ جس طرح اس شہر میں بے پناہ بدکار لوگ موجود وہیں نیک لوگوں کی وجہ سے یہ شہر ابھی تک باقی ہے اور ہمیشہ باقی رہے گا۔ راوی نے اس حصہ کے واقعات کو اس انداز سے وضع کیا ہے کہ پلاٹ میں پیچیدگی پیدا ہوگئی ہے۔واقعہ کو نقطہ عروج سے شروع کیا گیا ہے اور آخر تک واقعات نقطہ عروج پر ہی گردش کرتے رہتے ہیں۔بین السطور میں راوی نے رخشندہ کی زندگی کے متعلق چند باتوں کا ذکر کیا ہے لیکن اس کو قصہ کا وسط نہیں کہا جا سکتا۔بلکہ اختتامی سطور میں راوی،واقعہ کا سبب بیان کرتے ہوئے تمام صورت حال کو تقدیر کے فیصلہ سے منسلک کر دیتا ہے۔ناول میں واقعات کی زمانی ترتیب بالکل مختلف ہے۔شہر لازوال کا حصہ زمانے کے لحاظ سے پاکستان کے قیام کے چالیس سال بعد کا زمانہ ہے۔جہاں تقسیم کے بعد رخشندہ کی طوائف ماں اس کو والٹن کیمپ سے ایک نیک لڑکی بنانے کی غرض سے لے گئی تھی۔لیکن اس کا نصیب ہر مرد کے بستر کی زینت بننا تھا۔مابعد جدید صورت حال کے پیش نظر واقعات کی ترتیب میں یہ ایک انوکھا تجربہ ہے جس میں یہ تمام کردار جنھیں بانوقدسیہ نے مرکزی کرداروں کی فہرست میں شامل کیا ہے اس حصہ کے اختتام کے ساتھ ہی ناول کے دوسرے واقعات سے اپنا رشتہ منقطع کر لیتے ہیں۔اور’آباد ویرانے ‘والے حصہ سے ان کا کوئی بھی تعلق نظر نہیں آتا۔ لہٰذا اس طرز کو مابعد جدید رویہ کا حامل قرار دیا جا سکتا ہے۔اس کے بعد’کاشف کی کہانی‘ نام کے عنوان سے واقعات تشکیل دیے گئے ہیں جو بالکل غیر ضروری اور اضافی حیثیت رکھتے ہیں۔مصنفہ اگر اس حصہ کو بیان نہ بھی کرتیں تو ناول کے واقعات پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا۔
اس کے بعد ’آباد ویرانے‘والے حصہ کا آغاز ہوتا ہے۔جس میں سات عہد کے تحت واقعات تشکیل دیے گئے ہیں۔ڈاکٹر سرفراز مغل کے والد ابراہیم مغل مسلم تہذیب کے پروردہ ہیں۔پہاڑ پر سکونت اختیار کرنے کے سلسلے میں ان کو اس بات کا خوف لاحق ہوجاتا ہے کہ وہاں مسلمان آبادی کی کمی کے باعث ساجدہ بہو، شوکت اور راحیلہ اسلامی تہذیب کے مطابق زندگی نہیں گذار پائیں گے۔اس بات کی شکایت وہ اپنے بیٹے سے کئی مرتبہ کرتے ہیں۔جس پر سرفراز جھنجھلا کر کہتا ہے:
’’آپ کو تو بس مسلمانوں کی پڑی رہتی ہے۔ہوں یا نہ ہوں، ہمیں اس سے کیا مطلب؟
بڑے ابا اس بیان پر بہت حیران ہوئے۔پہلے انھوں نے سرفراز کو دو تین مرتبہ یوں دیکھا جیسے پہلی بار دیکھ رہے ہوں۔ پھر کڑک کر بولے...’’کیا مطلب؟ہر مسلمان کو دوسرے مسلمان کے ساتھ پیدائش سے لے کر لحد تک مطلب ہوتا ہے۔جو وہاں عیدگاہ نہ ہوئی تو عید پڑھنے کہاں جائیں گے ؟جو وہاں کوئی کلمہ گو ہی نہ ہوتو ہمارا بھائی چارہ کس سے ہوگا ؟ راحیلہ،شوکت کس سے کھیلیں گے،تمہاری بیوی کا کیا بنے گا؟‘‘9؂
درج بالا بیان میں ابراہیم مغل کا اپنے مذہب کے تئیں تشویش ناک حد تک پریشان رہنا اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ وہ مسلم تہذیب و ثقافت سے اپنے خاندان کو جوڑے رکھنا چاہتے ہیں۔ دوسرے مذہب کے لوگوں سے تعلقات استوار کرنے کوبہتر نہیں سمجھتے۔ان کے نزدیک ایسا کرنے سے مسلمان اپنے مذہبی اور تہذیبی سرمایہ سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ابراہیم مغل کے یہ تاثرات ناول کے واقعات میں گاہے گاہے دیکھنے کو ملتے ہیں۔لیکن سرفراز مغل وقت اور حالات کے تقاضوں کو سمجھتا ہے اس لیے مشترکہ تہذیب کو اہمیت دیتے ہوئے ہندوؤں سے دوستی اور ان کے ساتھ میل جول کو ترجیح دیتا ہے۔اپنے دونوں بچوں شوکت اور راحیلہ پر بھی کسی قسم کی پابندی نہیں لگاتا۔لہٰذا ان دونوں کی دوستی اوما،ببو اور سریندر وغیرہ سے ہو جاتی ہے۔اور ان کا بچپن ایک عام سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ اٹکھیلیاں کرتے ہوئے گذرنے لگتا ہے۔یہ سب ایک دوسرے کے گھر بھی جاتے لیکن ایک خاص قسم کی مذہبی حدبندیوں کو پار نہیں کرتے۔اوما کی تائی بھی اس بات کا خیال رکھتیں اور شوکت اور راحیلہ کو کبھی اپنے باورچی خانہ میں نہیں آنے دیتیں کیونکہ وہ ماس کھاتے تھے۔یہ سب بچے ایک ہی اسکول میں پڑھتے تھے۔ایک دن یہ سب ایک گروہ کی شکل میں مندر کی زیارت کرنے جاتے ہیں لیکن راحیلہ کو مسلمان ہونے کی بنا پر مندر میں داخل ہونے سے روک دیا جاتا ہے۔اسکول میں منعقد ہونے والے ڈرامہ میں راحیلہ کو دمینتی کا کردار ادا کرنا تھا جس کے لیے وہ سرسوتی بہن سے ساڑھی مانگ کر لے آتی ہے اور اسے پہن کر ماں اور دادا ابا کے سامنے آجاتی ہے۔ابراہیم مغل اس کو ساڑھی میں ملبوس دیکھ کر شدید غصہ کا اظہار کرتے ہیں۔اور کہتے ہیں:
’’ اس کا حلیہ دیکھ لو ساجدہ بی بی...ماتھے پر یہ بندی...تن پر یہ ساڑھی...تمھاری آزادی نے یہ دن دکھائے...کب سے کہہ رہا ہوں اسے اتنی آزادی نہ دو...نہ دو۔آج ماتھے پر تلک لگایا ہے کل کو دیے جلا کر مندر جانے لگی تو میل جول ہی ساری چیز ہے۔جو آدمی چوروں سے ملتا ہے،آہستہ آہستہ چوری اس کے نزدیک برا فعل نہیں رہتا...فاحشہ عورتوں سے میل جول حیا ختم کردیتا ہے...‘‘10؂
مزید کہتے ہیں:
’’ہر لباس کی تاریخ ہوتی ہے، جغرافیہ ہوتا ہے۔لباس کوئی ایک دن میں ساخت نہیں ہوتے۔ہر وہ لوگ جو ایک سا پہناوا پہنتے ہیں،ایک گروہ سمجھے جاتے ہیں۔لباس کا لوگوں کے مذہب،ان کے رہن سہن،ان کی صدیوں کی سوچ کے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے ساجدہ بہو... صدیوں کسی خاص قسم کا لباس ارتقا کی قینچی سہتا ہے تو پھر ایک خاص شکل اختیار کرتا ہے..... لباس شناخت ہے کسی خاص قبیلے کا،گروہ،جماعت،ملت کی...جو لوگ آسانی سے پہناوا بدلتے ہیں،وہ آسانی سے اپنی شناخت بھی بھول جاتے ہیں۔‘‘11؂
درج بالا اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابراہیم مغل کا کردار ایک مضبوط کردار ہے۔جو معاشرہ میں مٹتی ہوئی اسلامی ثقافت کا نوحہ کرتا ہوا نظر آتا ہے۔وہ کسی بھی حالت میں اپنی تہذیب اور قدیم روایات سے مفاہمت کرنے پر تیار نہیں ہے۔لیکن مسلمان اپنی تہذیب اور مذہب سے لاتعلقی کے سبب در در ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے۔لبرلزم نے اسے کئی خانوں میں تقسیم کردیا جس کے نتیجہ میں وہ اپنی اصل شناخت سے بے بہرہ ہو چکا ہے۔ابراہیم مغل کے اس مزاج کی وجہ سے کوئی بھی ان کے ساتھ بیٹھنا پسند نہیں کرتا۔ان کی باتیں سب کو اکتاہٹ کا احساس دلاتیں۔شوکت مغل نے سماجی ضروریات کے پیش نظربقول مصنفہ’’کاسمو پالٹن قسم کے رویہ اختیار کر لیے تھے،‘‘وہ، اوما کے گھر جا کر انھیں کے لب و لہجہ میں گفتگو کرتا اور دادا ابراہیم مغل کے سامنے ان کے مزاج کے مطابق باتیں کرتا۔بچپن سے جوانی میں قدم رکھتے یہ کردار وقت کے سفر میں ایک دوسرے سے الگ ہو جاتے ہیں یہاں پر راوی کے بیان کا تسلسل ٹوٹ جاتا ہے اور وہ راحیلہ اور شاہد کے باہمی تعلق کی نوعیت،اوما، شوکت اور راحیلہ کے لاہور کالج میں داخلہ کا بیان کرنے لگتا ہے۔ڈاکٹر سرفراز کا خاندان گورداسپور واپس لوٹ آتا ہے۔راحیلہ کی ہوسٹل میں گزاری ہوئی زندگی وہاں کے واقعات کا بیان،ملکی اور سیاسی سطح پر تبادلہ خیال کئی صفحات پر مشتمل ہے جس میں مصنفہ نے جزئیات نگاری سے کام لیا ہے۔
بانو قدسیہ نے اس ناول کے واقعات کو جن بنیادوں پر تشکیل دیا ہے اس کا ایک اہم جز مسلمانوں کا اپنے مذہب،اپنے کلچر اور جدید دور کے تقاضوں کے مابین رسہ کشی ہے۔جس کے سبب مسلم قوم کے مابین عدم اتحاد نے اپنی جڑیں مضبوط کرلی ہیں۔اختلافات اور تفریقات کے سایے میں پروان چڑھنے والی یہ قوم اپنی بقا اور راہ نجات کے تمام راستے بذات خود مسدود کر چکی ہے۔راحیلہ کے منگیتر شاہد کے گھر میں بھی کچھ اسی قسم کے خیالات پروان چڑھ رہے تھے نئی نسل قدیم رسوم و رواج سے بغاوت پر آمادہ تھی۔یہی حال پوری مسلم قوم کا تھا۔جو خود کو کسی ایک پلیٹ فارم پرجمع کرنے سے قاصر تھی۔راوی کے بیان کے مطابق یہ تقسیم ہند اور قیام پاکستان کا زمانہ تھا۔جہاں مسلمان قوم انتشار کا شکار تھی۔اقتباس اس طرح ہے:
’’ہندوستان کے مسلمانوں کی اس عہد میں عجیب حالت تھی۔ذہین اور جی دار ہونے کی وجہ سے وہ انفرادیت پسند تھے اور مغلیہ سلطنت گنوا بیٹھنے کے باعث ایک بار پھر ملت، قوم، اتحاد، یکجہتی کے خواب دیکھنے پر مجبور تھے۔مسلمانوں کی گرم جوشی، تحریکوں میں ڈھلتی ضرور تھی لیکن تحریکیں انفرادی سوچ اور باہمی اختلافات کی وجہ سے وہ استحکام نہیں پکڑ سکتی تھیں جن کے باعث بر صغیر ہندو پاکستان کے مسلمان ایک سمت میں چل سکتے۔اسی لیے مسلمان بہت سے گروہوں میں بٹے ہوئے تھے۔کانگریسی مسلمان، نیشنلسٹ مسلمان، حکومت کے طرف دار مسلمان،انگریز حکومت کے خلاف مسلمان، نہرو رپورٹ کے حامی، نہرو رپورٹ کے مخالف مسلمان،خلافت تحریک کے عاشق،اسی تحریک سے بیزار،علما کے عاشقین اور اہل دین کے مخالف،مذہب کو واحد رستہ نجات سمجھنے والے اور دین کو ترقی کے راستے کی سب سے بڑی دیوار ماننے والے،مغرب زدہ اور مشرق پر جان چھڑکنے والے کلچر کو قومیت کی اساس گرداننے والے مسلمان اور ایسے مسلمان جو اسلامی کلچر کے ہی سرے سے قائل نہ تھے۔ لبرل مسلمان اور کٹر ٹس سے مس نہ ہونے والے مسلمان.....‘‘12؂
درج بالا اقتباس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ مسلمانوں میں پھیلا ہوا خلفشاران کی تباہی کا سبب بنتا ہے۔ڈاکٹر سرفراز مغل بھی اس کے متعلق سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کیونکہ ملکی حالات روز بہ روز بگڑتے جارہے تھے،ہندو ؤں سے دوستی ہونے کے باوجود ہر چیز علیحدہ تھی۔ مسلمانوں کے لیے راہیں تنگ ہوتی جارہی تھیں۔ لہٰذا شاہد اور راحیلہ کے مہندی والے دن فساد رونما ہو جاتا ہے۔اورتقسیم کا سانحہ پیش آتا ہے۔اس کے بعد کہانی ایک نیا موڑ لیتی اور زمانہ تقسیم سے پینتالیس برس آگے چلا جاتا ہے جس میں شوکت مغل اپنی بیوی کے ساتھ لاہور میں مقیم تھا، اس کے بچے مغربی ممالک میں سکونت اختیار کر چکے تھے۔یہاں پر شوکت مغل بحیثیت واحد متکلم راوی، صورت حال کو بیان کرتا ہے اور اپنی پھوپھی کے مکان کو تلاش کرتا ہوا ان کے گھر پہنچ جاتا ہے۔یہ واقعہ غیر ضروری معلوم ہوتا ہے۔اور اس سے مرکزی قصہ کو آگے بڑھانے میں کوئی مدد نہیں ملتی۔بعد ازاں شوکت مغل کی طرز زندگی اس کارہن سہن اور ایک مسلسل ملنے والی کامیابیوں کا بیان کیا گیا ہے۔تقسیم کے بعد شوکت اپنے گھر والوں کو تلاش نہیں کرتا ہے حالانکہ راحیلہ کو چھوڑ کر تمام لوگ موقع واردات پر ہی قتل کر دئے گئے تھے۔راوی کا شوکت کو اپنے گھر والوں کے تئیں متفکر و متلاشی نہ دکھانا اس کی منطقیت پر ضرب لگاتا ہے۔شوکت اکثر داخلی اضمحلال کا شکار رہتا ہے۔انجانی بے قراری اور خوف اس کو اکثر اپنے احاطہ میں لیے رکھتے۔جس کی صحیح وجہ وہ جاننے سے قاصر تھا۔وہ تبدیلی کا خواہاں اپنی کامیابی کے سفر پر بہت دور نکل جاتا ہے۔لیکن اپنے اندر کی بے چینی اور اضطراب کو کم نہیں کر پاتا۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان اپنوں سے بچھڑ کر ترقی کی راہ پر گامزن ہو بھی جائے تو ماضی کے آسیب اور یادیں اس کا پیچھا نہیں چھوڑتیں وہ مادی آسائشیں تو حاصل کر لیتا ہے لیکن اپنی ذات کے انخلا کو پر نہیں کر پاتا۔یہی کیفیت شوکت مغل کی بھی تھی۔
ان تمام واقعات کے بعد راوی نے پانچویں عہد میں جزوی قصہ کا بیان کیا ہے جس کا اس حصہ کے واقعات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اس عہد میں بہت سارے کردار خلق کیے گئے ہیں انھیں میں سے ایک کردار راحیلہ نام کی ایک ایسی لڑکی کا ہے جو ملک صاحب کے گھر ملازمہ کے طور پر کام کرتی ہے اور تقسیم کے وقت اپنے گھر والوں سے بچھڑ گئی ہے۔اس لڑکی کے متعلق راوی کا بیان چند لمحوں کے لیے قاری کو اس احتمال و اشکال میں ڈال دیتا ہے کہ شاید یہی شوکت مغل کی بہن راحیلہ ہے۔لیکن چھٹے عہد میں زمانہ قیام پاکستان کی جانب لوٹتا ہے۔اور اس عہد کی کڑی اس حصہ سے جڑ جاتی ہے جس شام راحیلہ کے گھر بلوائیوں نے حملہ کردیا تھا۔اور تقسیم ہند کا سانحہ پیش آیا تھا۔راحیلہ قافلے کے ساتھ پاکستان پہنچا دی جاتی ہے۔مگر اس راحیلہ کا تعلق ملازمہ راحیلہ سے نہیں تھا۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ راوی نے قصہ میں ایک انوکھا Twistلانے کی غرض سے اس جزوی واقعہ کو تشکیل دیا ہے اور قاری کو اس شبہ میں ڈالنا چاہا ہے کہ یہی وہ راحیلہ ہے لیکن بات بنتی ہوئی نہ دیکھ کر راوی نے اپنا رخ موڑ لیا اور اس قصہ کو یہیں چھوڑ کر، دوسرے عہد میں اصل کردارراحیلہ کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کو بیان کرنے لگا۔جس سے ناول کی واقعاتی سطح مجروح ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔
والٹن کیمپ میں راحیلہ ذہنی اور جسمانی مریض ہو جاتی ہے۔اپنوں سے بچھڑنے کا غم اس کی جان کو روگ کی طرح لگ جاتا ہے۔وہ بخار کے عالم میں شاہد کو پکارتی ہے لیکن شاہد بھی اس سے دور جا چکا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر قیصر راحیلہ کی حالت کو دیکھ کراسے اپنے ساتھ گھر لے جاتا ہے۔تب وہاں علاج معالجہ سے اس کے حمل ٹھہرنے کا پتہ چلتا ہے۔ڈاکٹر قیصر اس سے نکاح کر لیتا ہے۔بانو قدسیہ نے اس ناول کی ابتدا میں جن نیک لوگوں کا ذکر کیا ہے ان میں سے ایک اہم کردار ڈاکٹر قیصر کی شکل میں سامنے آتا ہے جو راحیلہ کو اپنی شریک حیات بنا کر اور اس کے بچے کواپنا نام دے کر تمام جائداد ان دونوں کے نام کر دیتا ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لاہور کی زمین پر قیصر جیسے اشخاص بھی موجود ہیں۔جن کی وجہ سے یہ زمین قائم و دائم ہے۔اس حصہ میں قیصر کے دوست نجم سے متعلق کچھ ذیلی واقعات بھی بیان کیے گئے ہیں جو محض ناول کی طوالت میں اضافہ کرتے ہیں۔قیصر کو لاشعوری طور پر اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ وہ راحیلہ کی محبت میں گرفتار ہو چکا ہے۔بانوقدسیہ نے محبت کے اس بیان کو نہایت خوبصورت طرز میں قلمبند کیا ہے:
’’یہ محبت معاشرے کی حدود کا احترام کرے،یا مذہب کی حدود سے نکل جائے... جائز ہو کہ ناجائز...سودمند ہو کہ تخریب کی ضامن...مرد پر محبت سردیوں کی ہلکی بارش کی طرح پھوار بن کر گرتی ہے جس میں وہ اندر ہی اندر لرزنے لگتا ہے۔محبت میں مبتلا مرد عموماً ایسا لگتا ہے جیسے کسی اجنبی گھر کے بڑے پھاٹک پر معذرت خواہ کھڑا ہو... اپنے آنے کا جواز پیش کرنا چاہے پر چپ رہے... اندر داخل ہونا چاہے پر ہونہ سکے۔محبت کا نوگرفتار کبھی اپنا راز چھپانے کو بہت باتیں کرتا ہے۔کبھی چپ کا تالا یوں پڑ جاتا ہے جیسے وہ اندر کوئی پہیلی سلجھا رہا ہے... وہ زیادہ عیاں بھی ہونا نہیں چاہتا اور ہوئے بغیر رہ بھی نہیں سکتا۔ معجوب،مضطرب،انکار کے تصور سے خوفزدہ مرد میں اندر ہی اندر ایک انفعالی کیفیت پیدا ہو جاتی جو ڈھانپے ہوئے کو برہنہ اور برہنہ کو چھپانے پر اکساتی ہے۔‘‘13؂
درج بالا بیان سے واضح ہوتا ہے کہ قیصر بھی کچھ اس انداز سے راحیلہ کی محبت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ لیکن راحیلہ ماضی کے خوف اورداخلی انتشار کے باعث اپنا وجود قیصر کو سونپ نہیں پاتی ہے۔ان کے علاوہ بہت سے چھوٹے چھوٹے کردرا تخلیق کیے گئے ہیں جن کی ایک بڑی کمی یہ ہے کہ یہ کردار مرکزی کرداروں کے واقعات کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت نہیں ہوتے اور نہ ان کی زندگی میں ضمنی حیثیت رکھتے ہیں بلکہ ان کرداروں کا ذکر الگ سے ایک واقعہ معلوم ہوتا ہے۔ جس کو راوی نہ بھی بیان کرتا توناول کے تشکیلی عناصر پر کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ ان کی شمولیت سے قصہ اکثر مقامات پر گنجلک اور ژولیدہ بیان ہو گیا ہے۔
شہر لازوال،آبادویرانے کے تمام واقعات میں بکھراؤ نظر آتا ہے لیکن یہ بکھراؤ واقعات کو مبہم نہیں بناتا بلکہ پیچیدہ پلاٹ کی تشکیل نے واقعات کو غیر مضبط بنا دیا ہے۔جس کو ترتیب دینا ایک مشکل امر ہے۔راوی کے تشکیلی عناصر پر غور کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اگر بیان ہمہ داں راوی کے ذریعہ تشکیل پا رہا ہے توعام طور پر راوی کرداروں کے ناموں سے ہی بیانیہ تخلیق کرتاہے لیکن اگر وہ کردار کو چچا،ماموں یا خالہ کے نام سے بیان کرنے لگے تو اس پر قاری کو یہ التباس ہو سکتا ہے کہ شاید یہ کوئی کردارہے جو کہانی سنا رہا ہے ( اس قسم کے راوی کے مسائل مختلف ہیں)۔لیکن راوی سے اس ضمن میں سہو ہو گیا ہے۔مثال کے طور پر ’آبادویرانے‘ کے ابتدائی حصہ میں ہمہ داں راوی یہ بتا رہا ہے کہ ڈاکٹر سرفراز مغل اپنے خاندان کے ساتھ پہاڑوں پر جا رہے ہیں۔وہ ابراہیم مغل کو ’بڑے ابا‘کہہ کر بیان کر رہا ہے جب کہ دوسرے کرداروں کے ناموں سے ہی بیانیہ تخلیق کررہا ہے۔ آگے چل کر ’بڑے ابا،دادا ابا‘ میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور پھر ابراہیم مغل میں۔اس بیان کو راوی کے سہو سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
ناول کے مجموعی تجزیہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس ناول کے کئی پہلو مابعد جدید رویوں کی عکاسی کرتے ہیں۔جس میں متن کی بافت،موضوعات کی پیش کش،پلاٹ،کردار اور زمان ومکان کی سطح پر ہونے والے تجربات شامل ہیں۔زبان و بیان کی سطح پر ناول کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ مصنفہ کو اظہار کے مختلف طرز پر دسترس حاصل ہے۔پنجابی زبان کا استعمال بھی بخوبی کیا ہے۔لہٰذا بانو قدسیہ نے اس ناول کے واقعات اور اظہار و بیان کی اہم جہات کو پیش کرنے کی بہتر کوشش توکی ہے مگرراجہ گدھ کے مقابلے میں یہ ان کا اہم کارنامہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ 
حواشی:
1۔ ادب کا بدلتا منظرنامہ اردو مابعد جدجدیت پر مکالمہ،گوپی چند نارنگ،اردو اکادمی دہلی،1998،2011، ص72
2۔ مابعد جدیدیت کیا ہے،لیوتارڈ،مترجم۔پروفیسر جلال الحق،مشمولہ رسالہ تنقید،قاضی افضال حسین،شعبہ اردو،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،علی گڑھ،2006
3۔ شہر لازوال،آباد ویرانے،بانو قدسیہ،سنگ میل پبلی کیشنز لاہور،2012، ص 16
4۔ ایضاً، ص 29 5۔ ایضاً، ص 29 6۔ ایضاً، ص 39
7۔ ایضاً، ص 45 8۔ ایضاً، ص45 9۔ ایضاً، ص 75
10۔ ایضاً، ص143 11۔ ایضاً، ص 143
12۔ ایضاً، ص 286 13۔ ایضاً، ص 461

Safeena Begum
Asst. Professor, Dept of Urdu
Mahatma Gandhi Kashi Vidyapith Varanasi
Varansi - 221002 (UP)
Email: khan.safina5@gmail.com








قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں