11/12/18

بابا گورونانک کا تصورِ وحدت. مضمون نگار:۔ ناشر نقوی






بابا گورونانک کا تصورِ وحدت

ناشر نقوی

بابا گورو نانک صاحب کی تعلیمات میں خدا کے بہت سے صفاتی نام کثرت کے ساتھ استعمال ہوئے ہیں۔ ان الگ الگ ناموں کو بیان کرنے کا مقصد لوگوں میں خدا کی الگ الگ صفتوں کا تعارف کراتے ہوئے اُن میں توحید یعنی ’ایک اونکار‘ کے پھیلاؤ کا شعور پیدا کرنا تھا۔ قرآن شریف نے دنیا کے روحانی ادب میں خدا کی قدرت، تخلیقی قوت اور الگ الگ صفات پر غور و فکر کرنے کی دعوت دے کر انسان کی فکری ترقی کی راہ ہموار کی ہے۔ بابا نانک کے یہاں خدا کا اہم ترین نام’ ست‘یعنی مطلق سچائی ہے جس تک پہنچنے کے لیے وسیلہ ہی بنیادی ذریعہ ہے۔ ’ اونکار ست گرو پرساد‘ کا یہی مفہوم ہے۔ یعنی خدا لا شریک، گورو کے وسیلے سے ہی حاصل ہوتا ہے۔وہ ایک ہے، یکتائی اور کثرت دونوں اُس کے لیے سچائی ہیں۔ کیونکہ وہ جب چاہتا ہے ایک ہوجاتا ہے اور جب چاہتا ہے ’کثرت‘ میں ظاہر ہوجاتا ہے۔ وہ ہر شے کا جوہر اور لافانی ہے۔ اپنی ذات میں اکیلا اور تمام مخلوقات کا حاکم ہے۔ وہ خوف اور نفرت سے ماورا ہے یعنی ’نربھؤ‘ اور ’نرویر‘ہے۔
بابا نانک نے خدا کی خوبیوں کا موازنہ، انجیر کے درخت سے کیا ہے جس کی جڑیں اوپر کی طرف پرورش پاتی ہیں اور شاخیں نیچے کی طرف۔ وہ فرماتے ہیں کہ انسانی جسم خدا کا شہر ہے اورخدااس کے قلب میں رہتا ہے۔ وہ ساری دنیا کا خالق اور تمام مخلوقات کا پیدا کرنے والا ہے۔ اس ساری کائنات کو وہ اکیلا چلاتا ہے۔ اُسی نے کسی سہارے کے بغیر آسمان کو قائم کیا۔ سب کچھ اسی نے پیدا کیااور بالآخر ہر چیز اسی میں مِل جائے گی۔ 
بابانانک نے تخلیق کے لیے ’قدرت‘ لفظ کا استعمال کیا ہے۔ انھوں نے فرمایا ’یہ دنیا خدا کی لیلا یعنی اسٹیج ڈرامہ ہے جو رات کے اندھیرے میں کھیلا جاتا ہے۔ دنیا کی تخلیق سے پہلے خدا غیر موجود تھالیکن اس کی تخلیق کے بعد اس سے متعلق ہوگیا۔یہاں لا محدود خطے اور کائناتیں ہیں۔مایادیوی کو بابا نانک ایک بھوکی اورناراض عورت کی صفت میں دیکھتے ہیں جو خدا سمیت دنیا کو بھسم کر دینے کے چکر میں ہے۔روح اپنی انفرادیت کی وجہ سے خدا کی طرف کئی رویوں سے ظاہر ہوتی ہے جبکہ رویے روح کا ہی حصہ ہیں۔ مادہ اور روح حقیقت میں دونوں ہی خدا کی فطرت کا تسلسل ہیں۔خدا ہر نقص سے پاک ہے اور ہر طرح سے مکمل ہے۔ بابا نانک کے مطابق خدا ایک ضرور ہے لیکن اس کے دو رخ ہیں ایک ’نِرگُن‘یعنی صفت کے بغیر، دوسرا ’سرگُن‘ یعنی صفت کے ساتھ۔ بابا نانک نے اِن دونوں پہلوؤں کو اپنی نظم ’آرتی‘ میں پیش کیا ہے جس میں وہ فرماتے ہیں۔ 
’’تیری ہزار آنکھیں ہیں لیکن اگر کوئی اس کائنات میں آنکھوں کے بغیر ہے تو وہ صرف تو ہے۔ تیرے ہزاروں پاؤں ہیں لیکن اگر کوئی بِن پیر وں کے کھڑا ہے تو وہ تُو ہے۔ تیرا ہی کمال مجھے متاثر اور حیران کرتا ہے۔ ‘‘
خدا کی کوئی شکل وصورت نہیں اور نہ کوئی روپ ہے۔ وہ ہی سب سے بڑا ہے لیکن اس کے نام، صورت اور رنگ کے مختلف پہلو اَن تھک عبادت سے جانے جاتے ہیں۔ بقول جی سی نارنگ ’ خدا کو گورونانک نے جیئس ماسٹر مائنڈ کے طور پر پیش کیا ہے۔ بابا گورو نانک ایک ایسے دور اندیش بزرگ ہیں جنھوں نے ایک عام آدمی کے شب و روز کو دیکھا، پرکھا اور اپنے تجربے کی روشنی میں اتارا۔ اپنے زمانے کے لوگوں کی مصیبتوں کی وجوہات پر غور کرنے کے بعد بابا نانک نے توحید کے تصور سے عوام کو وابستہ ہونے کا نسخہ دیا۔ بابا نانک سے پہلے صوفی بزرگوں نے اسی قسم کی صورتِ حال کا ادراک کیا تھا۔ بابا فرید ؒ ڈھائی سو برس پہلے پنجاب میں روحانی جمہوریت کی تحریک کو پروان چڑھاچکے تھے۔وہ پہلی تاریخ ساز شخصیت تھے جنھوں نے اپنے جماعت خانے کے ذریعے مختلف تہذیبوں کے درمیان ڈائیلا گ یعنی مکالمے کی بنیاد رکھی تھی اور اپنی شاعری کے ذریعے بتایا تھا کہ ایک ہی راستہ ہے کہ خدا اور بندے کے درمیان تعلق کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کیا جائے۔ بابا فریدؒ کی اس تحریک کو بابا نانک نے یہ کہتے ہوئے عروج پر پہنچایا۔ 
ست نام۔ کرتا پرکھ، نِربھو، نِرویر، اکال مورت، اجونی سے بھنگ گُرپرشاد
ایک خداجو سچ ہے، قادرِ مطلق ہے، لافانی ہے، بے خوف ہے 
آگے فرماتے ہیں، وید امہہ نام اُتم سو، یعنی ویدوں میں ایک آواز ہو کر کہا گیا ہے کہ خدا لامحدود ہے۔ وید اور پران کے تمام دیوتا برہما، اندر، سیولا اور سادھو بدھ سب ایک ہی خدا کی بات کرتے ہیں۔بابا نانک کے نزدیک خدا سے قربت حاصل کرنے کا براہِ راست طریقہ صاف نیت سے اسے یاد کرنے میں ہے۔ مذہبی طور طریقوں کی پیچیدگی نے لوگوں کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔ کچھ خدا کے جلال پرزور دیتے ہیں تو کچھ جمال کے شیدائی ہیں۔ جبکہ خدا صرف ایک سچ ہے جو سب کے لیے روشنی کی مانند ہے۔ 
بابا نانک کا خیال ہے کہ خدا کو اپنے اختیارات اور قوت کے اظہار کے لیے مندر مسجد کی ضرورت نہیں پڑتی۔
اللہ الکھ اگم قادر کرنہار کریم
سبھ دُنی آون جاونی مقام اک رحیم 
مقام تِس نوں آکھیے جس سِس نہ ہووی لیک
اسمان دھرتی چلسی مقام اوہی ایک
گورو صاحب فرماتے ہیں وہ خدا ہے جس نے زمین پانی اور خلابنائے اس لیے نانک دعا مانگ، وہ خدا ہے سب جاننے وا لا سب کا خالق، وہ ہی وجہ ہے، وہ ہی سبب ہے۔ یہ دنیا اسی کے حکم سے کھڑی ہے۔ وہ، وہ ہے جس کے سر پر موت کا سایا نہیں جب یہ زمین و آسمان ختم ہو جائیں گے وہ تب بھی اکیلا باقی رہے گا، سورج، چاند، دن رات ان سب کو ایک دن ختم ہونا ہے۔
بابا گورو نانک کا روحانی کلام ’جپ جی صاحب ‘ حمدِ کبریائی کی نمایاں اور اخلاص پر مبنی نئی منظوم صورت ہے۔ بابانانک نے خدا کے وجود کو ’سچ‘ کے ایک لفظ میں سمیٹ کر سب سے بلند مقام پر رکھا ہے مسلمانوں میں خدا کے ننانوے ناموں کا ورد ہوتا ہے جب کہ سب لفظ صفات ہیں۔ مولانا رومی کا خیال ہے کہ خدا خود کو بصیر کہتا ہے تاکہ ہمارے الفاظ فضول گوئی سے بچ جائیں۔ صفات بھی خود خدا کی طرح لامحدود ہیں۔ 
اکھریں نام اکھریں صالاح
اکھریں گیان گیت گُن گاہ
اکھریں لکھِن بولن بان
اکھراں سرِ سنجوگ وکھان
جو تدھ بھاوے سائی بھلی کار
تُو سدا سلامت نرنکار
اے مالک تیرے نام او ر مقام بے شمار ہیں جو سو چوں سے ماورا ہیں تیری حمد و تعریف کے لیے ہم اپنی کم علمی میں کچھ لفظ جو بولتے ہیں ان کو چن لیتے ہیں اور تیرے ساتھ ان کا الحاق ہوجاتا ہے۔ تو لفظوں کا موضوع نہیں ہے کیونکہ یہ بھی تو نے ہی پیدا کیے ہیں۔ بابا صاحب آگے فرماتے ہیں کہ 
یہاں عبادت کے لیے کوئی نہیں آتا جب تک وہ گناہ گارنہ ہو۔ تُوہمیں گناہوں سے بچا کر اپنی پناہوں میں جگہ دے دے۔ کائنات کے راز کو تیرے سچ کے سِوا کوئی نہیں جانتا کہ اس کی تخلیق کب، کس دن، کس مہینے ہوئی۔ یہ پنڈت اور قاضی اپنی تشریحات کتنی ہی کرتے رہیں لیکن جو سچ ہے وہ سچ ہے کہ سب کا تنہا خالق تو ہے۔ تو ہی علیم بھی، کریم بھی، رحیم بھی اور عظیم بھی۔ 
بابا گورو نانک کے نزدیک تخلیق خود خالق کا آئینہ ہے جو خود اس نے اپنی خوبصورتی کو دیکھنے کے لیے بنایا ہے۔ جپ جی صاحب کے علاوہ گوروگرنتھ صاحب میں شامل مارو سولہے مہلہ1؂ ؂ میں جو انھوں نے تخلیقِ خدا کی وضاحت کی ہے نہایت جامع ہے۔ 
وہاں (یعنی خدا کے نزدیک)رنگ اور مذہب کا کوئی امتیاز نہیں نہ برہمن اور کھتری ہیں
نہ وہاں دیوتا اور مندر کی تمیز ہے
حج ہے نہ عبادت 
وہاں نہ کوئی ملّا نہ قاضی
نہ شیخ نہ حاجی
نہ بادشاہ نہ رعایا، نہ انا کی دنیا، نہ کوئی قابلِ سزا
نہ شعور ہے نہ لاشعور 
نہ دوست نہ ساتھی۔ نہ وید نہ سامی متن 
نہ طلوع نہ غروب 
وہاں صرف خدا ہے، تنہا خدا جو صرف اپنے آپ کو جانتا ہے 
جب اس کی مرضی ہوئی اس نے کائنات کا آغاز کیا۔ بغیر کسی منصبوبے کے پھیلایااور انسان کے ساتھ خواہشات کو جوڑ دیا
سوائے گورو کے کوئی اس کے فرمانوں کا مطلب نہیں سمجھتا 
وہ خدا ہے جو اپنی ہی مطلق خودی سے خود آشکار ہے
اس کی وسعتوں کو وہ خود ہی جانتا ہے۔ گورو تو حوالہ ہے جس کے ذریعے ہم اس کے نور کو محسوس کرلیتے ہیں 
بابا گورو نانک دیو نے اپنے تصورِ وحدت کو عوام کی عملی زندگی، سوجھ بوجھ اور اخلاقیا ت سے جوڑ ا ہے۔ یہی وہ تصور ہے جو انھیں ممتاز بناتا ہے۔ وہ عام زندگی میں راستی اور حلیمی کی حمایت کرتے ہیں اوروجودِ مطلق کو ہمیشہ ذہن نشین رکھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ ان کی تبلیغ کا طریقہ دلپذیر اور انقلابی ہے۔ بابا صاحب نے بنیادی سماجی مسائل پر غور و فکر کے بعد جو حل تلاش کیے وہ بہتر زندگی گزارنے کی ضمانت ہیں۔ ان کی ’جنم ساکھی‘ ایک مکمل آدمی کو پیش کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ بابا نانک سے بلاامتیاز مذہب و ملّت اس وقت کے لوگ بھی فیضیاب ہوتے رہے جن میں ہندو بھی تھے اور مسلمان بھی۔ بابا نانک نے کبھی کسی کو اپنا مذہب ترک کرنے کا حکم نہیں دیا۔ اپنی مشہورِ زمانہ کتاب ’دبستانِ مذاہب‘ میں محسن فانی نے بابا نانک کو زبر دست خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ گورو نانک صاحب کی شخصیت سکھوں کے ساتھ ساتھ دوسرے عقیدے کے لوگوں میں بھی محترم ترین ہے۔ آج بھی پنجاب کے مسلمانوں میں یہ شعر عام ہے ؂
بابا نانک شاہ فقیر
سِکھاں داگورو مسلماں دا پِیر
بابا نانک کے زمانے میں ہندوستان کا ہر مذہب ایک ذاتی معاملہ بن چکا تھا اس لیے انھوں نے ایک ایسا فلسفۂ حیات پیش کیا جو براہِ راست خدااور بندے کے تعلق پر زور دیتا ہے۔ یہی تصور قرآن پیش کرتا ہے جسے اس زمانے کا مسلمان پیش نہیں کر رہا تھا۔ گورو صاحب نے جدید دنیا کو ایمان کی ایسی تعریف پیش کی جو جدید دور کے تقاضوں کے عین مطابق تھی۔ سچ کو قبول کرنا، سچ کی حفاظت کرنا ان کا پیغام بنا جو مذہب کو سمجھنے کا ایک بہترین ذریعہ قرار پایا۔ ظاہر ہے کہ خدا سے ذاتی تعلق اور لگاؤ ہی میں نجات کا راستہ ہے۔ مذہب کا خدا کی طرح خالص ہونا اور سیکولر ہونا سِکھ مذہب کی روح ہے۔
بابانانک کا تصورِ خدا ’جپ جی صاحب‘ کے حوالے کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا۔ اپنے ذاتی وجدان اور عرفان کی آگہی نے بابا نانک کو توحیدکے صحیح اور وسیع تصور سے روشناس کرایا تھا۔اس تصورِ وحدت نے پندرہویں صدی عیسویں کے انسان کی آنکھ کھولی اور اسے بتایا کہ اب اسے کسی کے آگے جھکنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ عبادت اور پرستش کے لائق صرف وحدہٗ لاشریک یعنی ایک اونکار ہی کی ذاتِ پاک ہے۔
بابا نانک کے ہم عصر کچھ صوفی، جوگی اور سادھو ایسے بھی تھے جو خدا کی عظمت تو بتا رہے تھے لیکن دنیا کو مایا جال نام دے کر گوشہ نشینی میں رہنا پسند کررہے تھے۔ بابا نانک نے گوشہ نشینی اختیار کرنے کے تصور کی مکمل طور پر مخالفت کی کیونکہ یہ فرائض سے فرار ہے انھوں نے فرمایا
جوگ نَ کنتھا جوگ نہ ڈنڈے جوگ ن بھسم چڑائیے
جوگ نَ مُنڈی مونڈ منڈائے جوگ ن سنگی وائیے
جوگ نہ تو کملی اوڑھنے میں ہے نہ ہاتھ میں عصا لینے سے ہے اور نہ ہی جسم پرراکھ ملنے سے جوگ ملتا ہے۔ وصلِ خدا تو عوام کے ساتھ رابطے میں رہنے سے ہے عبداور معبود کے رشتے کو سچ سے استوار کرو۔ ایک جوگی نے ایک بار بابا نانک سے کہا تھا ’تم نے چابی دودھ میں پھینک دی اب یہ دودھ پھٹ چکا ہے اس سے مکھن نہیں بن سکتا۔ یعنی تم نے خود کو دنیا کے حوالے کیوں کیا ہوا ہے۔ تو اس کے جواب میں بابا نانک کا فرمان ہوا۔ بھنگڑا ناتھ۔ تمہاری ماں بے وقوف تھی اسے نہیں معلوم تھا کہ برتن کو کیسے صاف کرنا چاہیے۔ دودھ پھٹنے سے بچا یا جا سکتا تھا مگر تم نے خود کو گھرداری سے الگ کر لیا اور اب در در بھیک مانگتے پھرتے ہو۔ گوشہ نشینی یا سنیاس کا عمل سماج میں تبدیلی لانے میں کوئی رول ادا نہیں کرتا۔
کسی انسان میںیہ قوت ہے کہ اس کی قدرت بیان کر سکے خدا کی بخششیں لا محدود ہیں۔ اس کی صفات اس کا علم سوچ سے بالاتر ہے۔ اس کا ذکر نہ ختم ہونے والا اس کی تعریفیں بے کنار ہیں۔ 
اَنت نہ صفتی کہن نہ اَنت
اَنت نہ کرنے دین نہ اَنت
اَنت نہ ویکھن سنن نہ اَنت
اَنت نہ جاپے کیا من منت
اَنت نہ جاپے کیتا آکار
اَنت نہ جاپے پارا وار
وڈّا صاحب اوچا تھاؤ
اوچے اوپر اوچا ناؤ
جے وڈ آپ جانے آپ آپ
نانک ندریں کرنی دات
نہ صفات کی حد نہ تعریف کہیں رکے، قدرت اور عطابھی لافانی، بار اور وار بھی نہ ختم ہونے والے۔ ہر بڑے کے بڑے سے بڑا نام اے خدا تیرا ہے۔ نانک تجھ سے ہی کرم اور عنایت کا طلبگار ہے۔ یہ ہر بڑے سے بڑا کہہ کر خدا کو بڑا اور عظیم کہنے کا حلیم لہجہ ہے جو بابا نانک نے اپنے رب کو پہچنوانے کے لیے اختیار کیا۔ اسلام کا کلمۂ توحید بھی اسی لہجے کو ایمان کا فرمان قرار دیتا ہے لاالہٰ الاللہ۔ نہیں ہے کوئی الٰہ سوائے اللہ کے۔
بابا نانک نے اپنے زمانے میں مذہبی رہنماؤں کے اس طرزِ عبادت کو ترک کرنے کی ترغیب دی جو خدا کے نہیں بلکہ اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی تحریک چلارہے تھے مذہبی ڈھانچوں میں کھوکھلا پن ابھر رہا تھا۔ تمام مذہبوں کی یگانگت اور عبادتوں کی رسومات کی کھوکھلی ادائیگی سے بچنے کے لیے بابا نانک نے ایک طرف آسام و بنگال اور دوسری طرف کون کانا مالابارعرب میں مکہ اور عراق کے سفر طے کیے۔گورو صاحب کا پیغام کسی مذہب کے لیے نہیں بلکہ عوام الناس کے لیے ہے۔ 
تمام مذہبی رسمیں اس وقت تک بے کار ہیں جب تک خدا کی عنایت نہ ہو جائے تمام خوبیاں خدا کی ہیں کوئی ایک بھی نیکی میری ذاتی نہیں ہے سوائے یہ کہ اس میں کتنا خلوص ہے۔ خیراسے ہی عطا کی گئی ہے جس نے خیر کے لیے جد و جہد کی ہے
گورو نانک صاحب کی پوری زندگی ایک’سچے سودے ‘ میں ڈھلی ہوئی حمدِ کبریائی ہے۔ ان کے زمانے میں یعنی نچلی ذاتوں میں جو سب سے نچلا آدمی ہے نانک کہتے ہیں میں اس کے ساتھ چلوں گا میں بڑا بن کر کیا کروں خدا کی نظرِ کرم ان پرپڑتی ہے جو اپنے سے نیچے والوں کی نگہبانی کرتے ہیں۔
بابا نانک کا ئنات اور انسانی وجود کے روحانی پہلوؤں پر زور دیتے ہیں۔ انھوں نے اس قاضی کو قاضی نہیں مانا جس نے رشوت لے کرنا انصافی کی۔ جپ جی صاحب میں فرماتے ہیں: 
قاضی انصاف کی عدالت میں بیٹھا ہے اور تسبیح پر خدا کا ذکر کر رہا ہے لیکن رشوت بھی قبول کر لیتا ہے اور انصاف کی پرواہ نہیں کرتا۔
گورو نانک صاحب کا تصورِ خدا صرف روحانیت ہی نہیں ہے بلکہ دردِ انسانیت بھی ہے وہ اپنے گردو پیش کے دکھ درد اور سماجی بے راہ رویوں کے بیچ سے گزر کر خدا کو پہچانتے اور پہچنواتے ہیں۔
بھنڈ جمیے بھنڈ نمیے بھنڈ منگن ویاہ
آسما دی وار میں فرماتے ہیں۔  
عورت ہی جنم دیتی ہے۔ عورت کے ساتھ ہی مرد کی منگنی ہوتی ہے۔ عورت کا رفیق مرد ہے۔ عورت سے نئی نسل جنم لیتی ہے۔عورت مر جائے تو دوسری کی طلب ہوتی ہے۔ عورت ہی مرد کو قابو میں رکھتی ہے اسے کیوں برابر کہو جو ہمارے حاکموں اور دانشوروں کو جنم دیتی ہے۔ عورت سے صرف اللہ ہی بے نیاز ہے۔
عورت کی محبت کو گورو نانک نے خدا کے اخلاص سے مثال دی ہے۔ یعنی خدا کو انسان اور سماج سے جدا کرکے گورو نانک دیکھنے کے قائل نہیں ہیں۔ عبد اور معبود کا رشتہ جسم و روح کا ہے۔ اس خالص سچ کو حق بنا کر گورو نانک نے پیش کیا ہے۔ جپ جی صاحب کی 24 ویں پوڑی میں انھوں نے خدا کے سچ کو جس نچوڑ کے ساتھ پیش کیا ہے وہ ہی خدا کائنات کا خدا ہے۔ کسی مذہب کا ہے یا نہیں اس سے گورو نانک کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ 
اس کی خدائی لا محدود ہے اس کی ثنا لا محدود ہے اس کی تخلیقیت کی کوئی حد نہیں اس کی لا محدودیت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ اس کو تلاش کرنے والے کو پتہ ہے کہ وہ کوئی حد تلاش نہیں کر سکتا۔ جتنا ہم اس کے بارے میں کہتے ہیں اتنا ہی کہنے سے رہ جاتا ہے۔ عظیم ہے ہمارا رب ہمارا پروردگار اس کا منصب اس کا پاک نام تمام بلندیوں سے بلند ہے۔
تصورِ توحیدِ خدا اور تصورِ نانک کو مختصر لفظوں میں بیان کرنے کے لیے علامہ اقبال کا ہی شعر سہارا دے سکتا ہے ؂
پھر اٹھی توحید کی آخر صدا پنجاب سے
ہند کو اک مردِ کامل نے جگایا خواب سے

Prof. Nashir Naqvi
Mahal, Darbar Kalan
Amroha (UP)





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں