11/12/18

جدید لب و لہجہ کا شاعر: محمد علوی. مضمون نگار:۔ محمد یوسف رضا






جدید لب و لہجہ کا شاعر: محمد علوی

محمد یوسف رضا
اردو کے جدید لب و لہجے کے شاعرمحمد علوی نے نظم اور غزل کو نئی بلندیوں سے ہمکنار کیا ۔وہ اردو کے نمائندہ شاعر شمار کیے جاتے تھے۔ محمد علوی 10اپریل 1927 کو احمد آباد میں پیداہوئے۔ محمد علوی نے جس دور میں آنکھیں کھولیں وہ ترقی پسند تحریک کا دور تھا۔ حالانکہ ابھی اس تحریک کو باقاعدہ شروع ہونے میں کچھ سال باقی تھے لیکن ترقی پسند رجحان پہلے سے ہی نمودار ہورہے تھے۔ نوعمری سے ہی انھیں شعر کہنے کا ہنر آگیا تھا۔ ابتداء میں انھوں نے بہت کم اشعار کہے۔ اردو اور فارسی کے علاوہ دوسری زبانوں کا مطالعہ بہت کم کیا۔ ان کی شعری کائنات میں چار شعری مجموعے ہیں جن میں پہلا ’خالی مکان‘ ہے جو 1963میں اور دوسرا شعری مجموعہ ’آخری دن کی تلاش‘ ہے جو کہ 1968میں شائع ہوا اسی طرح تیسرا اور چوتھا مجموعہ بالترتیب ’تیسری کتاب‘ 1978 میں اور ’چوتھا آسمان‘ 1991 میں شائع ہوئی۔اسی چوتھے شعری مجموعے پر 1992 میں انھیں ساہتیہ اکادمی انعام بھی ملا،اور انھیں غالب انعام سے بھی نوازا گیا۔ 29 جنوری 2018 کو احمد آباد میں ان کا انتقال ہو گیا۔ 
محمد علوی کی نظموں میں ان کے عہد کی عکاسی صاف طور پر نظر آتی ہے۔ انھوں نے بھی اپنی نظموں میں اس دور کے پیدا شدہ مسائل کو پیش کیا ہے او رایک تخلیق کار ہونے کا فرض بھی ادا کیاہے۔ 1995 میں ’رات ادھر ادھر روشن‘ سے نام سے ان کا کلیات شائع ہوا۔ ’خالی مکان‘ کے پیش لفظ میں محمود ایازنے ان کی نظموں سے متعلق لکھا ہے کہ:
’’میں نے جب بھی ان کی نظمیں پڑھیں مجھے یہی محسوس ہوا کہ وہ ایک بچے کی طرح شاعری کرتے ہیں۔ ان کا چیزوں کو دیکھنے کا انداز ایسا ہے جیسے ہر چیز پہلی بار دیکھ رہے ہوں یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں مشاہدے کی تازگی اور احساس کی سادگی، ایک تحیر کی کیفیت بھی ملتی ہے۔‘‘
محمد علوی نظم او رغزل دونوں کے شاعر ہیں۔ انھوں نے دونوں پر ہی یکساں عبور حاصل کیاہے۔ اگر ان کی کل شعری تخلیقات یعنی ’خالی مکان‘، ’آخری دن کی تلاش‘ ’تیسری کتاب‘ اور ’چوتھا آسمان‘ کو دیکھاجائے تو ان میں نظموں کی تعداد غزلوں کے مقابلے زیادہ ہے۔ انھوں نے اکثر نظموں کے عنوانات سے نظموں میں تسلسل کو برقرار رکھا ہے۔ دیگر شعراء کی طرح محمد علوی نے بھی فسادات سے متعلق نظمیں لکھی ہیں لیکن اس طرح کی نظمیں کم ہی ہیں۔ یوں تو بہت سے شعراء نے اس طرف اتنا دھیان دیاہے کہ ان کی شاعری میں تقسیم ہند کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات یا فرقہ وارانہ حالات کا عکس زیادہ ہے او رکچھ شعرا ایسے بھی ہیں جنھوں نے ان حادثات کا اپنی شاعری پر ذرا بھی اثر پڑنے نہیں دیا۔
موجودہ دور میں جو بھی حالات ہمارے سامنے ہیں ان کی عکاسی محمد علوی کے یہاں ملاحظہ کیجیے:
وقت یہ کیسا آن پڑا ہے
خطرے میں انسان پڑا ہے
بھوکا ننگا مر رہنے کو
سارا ہندوستان پڑا ہے
محمد علوی نے فرقہ وارانہ فسادات کو اپنی شاعری میں جگہ تو دی ہے لیکن ہلکے انداز میں فسادات سے متعلق ان کے کلیات میں دو چار نظمیں ہی ہیں جیسے خوف، ویل کم، فالج زدہ شہر، ڈپریشن اور جنگ جاری ہے۔ ان کی نظم ’خوف‘ پیش ہے۔
یہ سب دکانیں
یہ راستے
یہ ہجوم لوگوں کا
رکتی، چلتی بسیں ، یہ کاریں
یہ سب کا سب بتارہا ہے
کہ شہر اچھا بھلا رہا ہے
مگر ابھی اک دکاں جلے گی
مگر ابھی اک چھری چلے گی
یہ خوف سرکیوں اٹھارہا ہے
اس نظم میں انھوں نے اس بات کا ذکر کیا ہے جو کل بھی جاری تھی اور آج بھی جاری ہے۔ مذکورہ نظم میں ابھی شہر کی فضا پُرسکوں ہے سبھی لوگ اپنے اپنے روز مرہ کے کامو ں میں مصروف ہیں۔ یہ ساری باتیں چین وسکون کی طرف اشارہ کررہی ہیں۔ لیکن نظم میں اگلے تین مصرعوں میں شاعر نے واضح کردیاہے کہ یہ پُرسکوں فضا اس حادثے کی غماز ہے جس میں دکانیں، مکانات یہاں تک کہ انسان بھی جل جائیں گے او رچاروں طرف چھری خنجر ہی نظر آئیں گے۔ انسان انسان کے خون کا پیاسا ہوجائے گا۔ محمد علوی نے اپنے خیال کے اظہار کے لیے جن الفاظ کا استعمال کیا ہے وہ روز مرہ کی زندگی میں استعمال ہونے والے الفاظ ہیں۔ انھیں الفاظ کے تانے بانے سے انھوں نے نظم میں تاثیر پیدا کردی ہے۔
اسی سلسلے کی ایک اور نظم میں’ویلکم‘ ملاحظہ ہو:
تو اک گدھ اڑا
اور پورب میں پچھم میں
چاروں دشاؤں میں جاکر
ہر اک دوست کو
اس نے کل صبح کھانے پہ مدعو کیا
اور پھر شام کو
شہر میں آکے آرام سے سوگیا!
صبح مہمان آئے تو ان کے لیے
شہر کی سونی سڑکوں پہ لاشیں سجی تھیں
اور گدھ چوک میں
آئے مہمان کو
دونوں پر کھول کے
ویلکم کررہاتھا!!
اس نظم میں بھی انھوں نے جنگ اور فسادات کی عکاسی کی ہے۔ اس کے نتیجے میں جو بے شمار انسان مرتے ہیں، ان کی لاشیں سڑکوں پر یونہی کئی روز تک پڑی رہتی ہیں جو جانوروں او رپرندوں کا نوالہ بنتی ہیں۔ گدھ جو کہ گلے سڑے ہوئے گوشت کھاتاہے محمد علوی نے گدھ کو علامت کے طور پر پیش کیا ہے۔ سیاست میں بھی بہت برے برے کام ہوتے ہیں۔ سیاسی لوگ اپنے مفاد کے لیے انسانوں کو موت کے منھ میں ڈالنے سے ذرا بھی نہیں جھجکتے۔ یہا ں پر گدھوں اور سیاسی لوگو ں میں یکسانیت دکھائی گئی ہے۔ 
اگر دیکھاجائے تو ان کی یہ نظم علامت نگاری کی ایک بہترین مثال ہے اور عالمی یا قومی پیمانے پر رونما ہونے والے حالات سے ان کے جذبات کو سمجھنے میں کافی حد تک معاون ہے۔معروف ناقد وارث علوی نے ان کی شاعری سے متعلق ایک جگہ لکھا تھا کہ علوی کے یہاں انسان کھلونوں میں اور کھلونے جانداروں میں بدل جاتے ہیں ،پوری کائنات ایک نرسری بن جاتی ہے جس میں نیل کنٹھ ایک بچہ کی طرح کھیلتا ہے۔
محمد علوی کی اکثر نظمیں مختصر ہیں۔ ان کی نظم نگاری کو سمجھنے کے لیے انہی کی ایک مختصر سی نظم پیش کی جاتی ہے جس کا عنوان ’پیش لفظ‘ ہے:
یہ جو ہم تم
روز بولتے رہتے ہیں
ان لفظوں کی
مدھم مدھم روشنیوں میں
میں نے اپنے
آس پاس کی چیزوں کو
او رپاس سے
دیکھنے کی کوشش کی ہے!
اس نظم کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے مشکل پسندی اختیار کرنے کے بجائے روز مرہ کے الفاظ میں اپنے احساسات وجذبات پیش کیے ہیں۔ محمد علوی نظم جدید کے شاعر ہیں، لیکن دوسرے جدید شعرا کی طرح ان کی نظموں میں ابہام نہیں ملتا۔ اس سے یہ بات تو واضح ہے کہ انھوں نے اپنی نظموں میں ابہام کو جگہ نہ دے کر جدید نظم نگاری میں مثبت کردار ادا کیاہے او رجدید نظم کو صحت کے ساتھ ساتھ ایک معیار بھی عطا کیا ہے۔ 
جیسا کہ شروع سے ہی اردو شاعری (چاہے وہ غزل ہو یا نظم) میں عشق ومحبت کو پیش کیاگیاہے، محمد علوی نے بھی اپنی نظموں میں کہیں کہیں عشق ومحبت سے متعلق اپنے احساسات وجذبات پیش کیے ہیں۔ بہت سے شعرا تو عشق ومحبت ہی کی شاعری کے لیے مخصوص ہوگئے ہیں۔ لیکن محمد علوی کے یہاں اس سے متعلق کچھ ہی نظمیں ہیں۔ جیسے تلاش، قرب و بعد، رات آرہی ہے، التجا اور الھڑ لڑکی، نظم ’التجا‘ ملاحظہ ہو:
چاند، مہرباں چاند
رات کو روشن رکھ
اپنی نورانی بانہوں میں
چوک ، گلی، گھر، آنگن رکھ
ان کو آنے میں کوئی تکلیف نہ ہو
تیری انگلی تھام کے گھر تک آجائیں
پھر چاہے تو گھور اندھیرے چھاجائیں
آج کی رات میرا من رکھ
چاند مہرباں چاند
رات کو روشن رکھ
اس نظم میں عاشق کو معشوق کا انتظار کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ وہ چاند سے التجا کرکے کہتا ہے کہ اے چاند مجھ پہ یہ مہربانی کر کہ ابھی جب تک ’وہ‘ نہ آجائیں تو اپنی چاندنی سے چوک، گلی، گھر آنگن روشن رکھ۔ انھیں یہاں تک آنے میں کوئی تکلیف نہ ہو۔ ان کے آنے کے بعد پھر چاہے تو چلے جانا کتنا بھی اندھیرا کرنا لیکن میری اس التجا کو سن کر میرا من رکھ لے۔ اس نظم میں ہجر کی حالت میں وصل کی امید کو آسان اور سادہ پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ 
محمد علوی کے یہاں موضوع اور اسلوب کے تجربوں کا خاص رجحان نظر آتاہے جو چاروں طرف کی خبر رکھتا ہے، ان کی نظموں میں احساس کی ندرت اور تازگی کا احساس ہوتا ہے۔

Mohd Yusuf Raza
Dept of Urdu, Jamia Millia Islamia
New Delhi - 110025
Mob.: 9990778665

 اگر آپ رسالے کا آن لائن مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے لنک پر کلک کیجیے:۔





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں