10/12/18

اردو شاعری میں رام۔ مضمون نگار:۔محمد ذاکر حسین








اردو شاعری میں رام


محمد ذاکر حسین

زبان کو مذہب کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ مذہب کے فروغ میں زبان کی حیثیت میل کے اس پتھر کی ہوتی ہے جس کے بغیرمیل کاتصور عبث ہے۔ ’’اردو ہندوستان کی سب سے سکیولر زبان ہے‘‘ یعنی یہ کسی خاص مذہب، دھرم، مسلک، فرقہ،طبقہ، جماعت، ٹولی، پارٹی یاگروہ کی زبان نہیں۔ وسیع النظری،کشادہ دلی،رواداری، انسان دوستی، جذباتی ہم آہنگی،قومی یکجہتی اورپاس جذبات وغیرہ جیسے محاسن عالیہ اس زبان کی گھٹی میں پڑی ہیں۔اس کی نشو ونما میں جتنا مسلمانوں نے حصہ لیا اتنا ہی ہندوؤں، سکھوں، عیسائیوں اور دیگر مذاہب کے پیرو کاروں نے۔ اس زبان نے جہاں مذہب اسلام کے فروغ میں حصہ لیا وہیں ہندو،سکھ،عیسائی،بودھ اورجین مذہب کو بھی سیرابی عطا کی۔ڈاکٹرمحمد عزیر کی تصنیف ’اسلام کے علاوہ مذاہب کی ترویج میں اردو کا حصہ‘ نیز ڈاکٹر اَجَے مالویہ کی تصانیف ’اردو میں ہندو دھرم‘ اور ’ویدک ادب میں اردو‘ اس پر دال ہیں۔ اس زبان نے جہاں پیروں، فقیروں، شہیدوں، پیغمبروں اور خدائے تعالیٰ کی حمد وثناء بیان کرنے میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا وہیں گرونانک،کرشن جی، رام جی،مہادیو جی،درگا جی اورحضرت مسیح کی مدح سرائی میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
بات اگر رامائن کی کریں تواردو زبان میں رامائن کے کل131 نسخے دستیاب ہوئے ہیں جن میں 46 منظوم، 6باتصویر،2ناول کی طرز میں اور5ڈرامے کی طرز میں ہیں۔1 ان میں سے بعض نسخے دس۔دس جلدوں پر مشتمل ہیں اور کسی کسی کا ساتواں ایڈیشن دستیاب ہوا ہے۔ رامائن کے 131نسخوں میں سے 97نسخے صرف خدا بخش اورینٹل لائبریری،پٹنہ میں محفوظ ہیں۔ڈاکٹر محمد عزیر نے ’خطبات گارساں دتاسی‘،صفحہ:513 کے حوالے سے لکھا ہے کہ رامائن کا پہلا اردوترجمہ1866 میں لکھنؤ سے شائع ہواتھا۔2 لیکن یہ نسخہ مفقود ہے۔ 1034 صفحات پر مشتمل مکمل’رامائن بالمیکی‘ کا پہلا اردو ترجمہ 1921 میں کپور آرٹ پرنٹنگ ورکس، لاہور سے شائع ہوا تھا،جس پر مترجم کے طورپر دُوارِکا پرشاد افق لکھنوی کا نام درج ہے۔اسی طرح بھگوت گیتا کے 128نسخے دریافت کیے گئے جن میں 53 نسخے؛ صرف خدا بخش اورینٹل لائبریری، پٹنہ میں محفوظ ہیں۔بہر حال مجھے یہاں مذاہب او رمذہبی کتابوں کے فروغ میں اردو کی خدمات کا جائزہ نہیں لینا ہے بلکہ اردو شاعری میں رام کے تصور پر غور کرنا ہے۔ آئیے ہم اس سمت بڑھتے ہیں۔
بھگتی تحریک کے سب سے بڑے شاعرکبیر (متوفی 1518) کے نزدیک مختلف دھرم،مذہب،ذات پات کے درمیان نفرت کے بیج بونا گناہ عظیم ہے۔ وہ ایک خدا کے ماننے والے تھے۔ ان کے نزدیک خدائے تعالیٰ کی کوئی شکل و صورت نہیں، محبت،پیار اور اخلاص کے ذریعے خدائے تعالیٰ کا عرفان حاصل کیا جا سکتا ہے۔ دنیا کی بے ثباتی، اخلاق کی تبلیغ،رواداری کی تلقین کبیر کی شاعری کے غالب موضوعات ہیں۔کبیر کی شاعری میں بھی رام کا تذکرہ ملتا ہے لیکن رام سے ان کی مراد ایودھیا کا راجہ، سیتا کا شوہر اور راجہ دشرتھ کا بیٹا نہیں بلکہ رحیم یا خدائے تعالیٰ کا ہندوی نام ہے۔وہ اسی کی پرستش کرتا ہے اور لوگوں سے کہتا ہے کہ جب سب کا پیدا کرنے والا ایک ہی ہے تو اتنے سارے معبود کیسے ہو سکتے ہیں؟ 3 اس لیے رام اور رحیم دونوں ایک ہی ہیں،دنیامیں لوگ اپنے پالن ہار کو اپنی اپنی زبان میں پکارتے ہیں کوئی اسے رحیم کہتا ہے؛ کوئی ہری، کوئی کریم کہتا ہے؛ کوئی کِیشَو،کوئی اللہ کہتا ہے تو کوئی رام۔ گویا ہندو اور مسلمانوں کی راہ ایک ہی ہے۔اشعار ملاحظہ ہوں ؂
ہندو ترک کی ایک راہ، ہے ست گرو اِہے بتائی
کہی ہے کبیر سنو ہو سنتو، رام نہ کہے اور کھدائی
دوئی جگدیش کہاں تے آئے، کہو کون بھرمایا
اللہ رام کریم کیشو، ہری حضرت نام دھرایا
ست نام کڑوا لگے، میٹھا لاگے دام
دُبدھا میں دونوں گئے، مایا ملی نہ رام
تیسرے شعر میں کہتے ہیں کہ سچ کڑوا ہوتا ہے لیکن دام؛ بمعنی فریب میٹھا لگتا ہے۔ لیکن اسی تردّد میں رہ گئے تو نہ مایا مل سکتی ہے اور نہ رام۔یہاں کبیر نے رام کو منزل مقصود قرار دیا ہے اور یہ منزل مقصود کبیر کے نزدیک صرف خدائے تعالیٰ کی ذات ہے۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ کبیر کے یہاں رام؛ خدائے تعالیٰ کا ہندوی نام ہے۔
نظیر اکبر آبادی (1735۔ 16 اگست1830) نے اپنی شاعری میں ہندوستان کی مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو،یہاں کے پھولوں کی بھینی بھینی مہک، میلوں ٹھیلوں کی گرم بازاری، بازار کی ہمہ ہمی،یہاں کے موسم، عقائد، توہمات، ہندو اساطیر کے خیرہ کرنے والے رسم ورواج اور صنمیات کو خوب خوب برتا ہے۔ ان کی شاعری میں اگر صرف ہندو دیویوں کی بات کریں توپاروتی، درگا، کالی، دیوکی، جسودا اور رادھا وغیرہ؛ دیوتاؤں میں اندر، برہما، بلدیو، شیو، مہادیو، شیو شنکر، کال بھیرو،گنیش، کرشن، گردھاری، مراری، مرلی دھر،سنکھ جوڑ، شیام، نارائن، نارد منی، نرسنگھ، نرسی مہتا، بسدیو،بشن، اورنند وغیرہ؛ اساطیر سے مثبت کرداروں میں ارجن،سکھ دیواور ہنومان وغیرہ؛ منفی کرداروں میں بکا سر،بھوما سر، راوَن اور کنس وغیرہ کا تذکرہ اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ موجود ہے۔ نظیر کی شاعری میں ہندو اساطیر اس کثرت کے ساتھ برتے گئے ہیں کہ جس کی مثال شاید ہندی شاعری میں بھی کم ملتی ہے۔اس لحاظ سے نظیر ایک بے نظیر شاعر ہیں۔ نظیر کے محبوب صنمیات مہادیو، کرشن اوربلدیو جی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں رام سے متعلق اشعار نسبتاً کم ملتے ہیں بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ صحیح ہوگا کہ نظیر کے یہاں رام کا تذکرہ ضمناً ہوا ہے۔ ملاحظہ ہو ؂
ہے کہیں رام کہیں لچھمن
کہیں کچھ مچھ ہے اور کہیں راوَن4
چَکبست لکھنوی(19جنوری1882۔ 12فروری1926) کی 22بندوں پر مشتمل نظم ’رامائن کا ایک سین‘ (مسدس) ہے۔ جو رام چندر جی کا اپنی ماں کوشَلْیَہ سے الوداعی ملاقات کے بیان پر مشتمل ہے۔رام بن باس کے لیے وداع ہو رہے ہیں، وہ اپنے والد کوسلامِ رخصت تو کر لیتے ہیں لیکن اپنی ماں کے الوداعی دیدار سے پہلے یہ سوچ کرجھجھک جاتے ہیں کہ
دیکھا ہمیں اداس تو غم ہوگا اور بھی
اور ذرا ٹھہر کردامن سے اپنے آنسو پوچھتے ہوئے چہرے سے افسردگی اور بے کسی کودور کرتے ہیں۔ یہاں چکبست نے انسانی نفسیات کو ملحوظ خاطر رکھاہے۔بیٹا جو تخت و تاج کو چھوڑ کر جنگل کی خاک چھاننے جا رہا ہے اس کے دل میں کتنا درد اور کسک ہوگا لیکن یہ درد و کسک ایک ماں کے درد و کسک کے آگے کیا حیثیت رکھتی ہے؟جس کا بڑا بیٹااس سے جدا ہو رہا ہے۔ جسے راج سنگھاسن پر بیٹھنا تھا وہ آج بر سر بن باس ہے ؂
رخصت ہوا وہ باپ سے لے کر خدا کا نام
راہ وفا کی منزلِ اوّل ہوئی تمام
منظور تھا جو ماں کی زیارت کا اہتمام
دامن سے اشک پونچھ کے دل سے کیا کلام
اظہار بے کسی سے ستم ہوگا اور بھی
دیکھا ہمیں اداس تو غم ہوگا اور بھی5
علامہ اقبال (9 نومبر1877۔ 21 اپریل 1938)کو اگرچہ اختر حسین رائے پوری نے فاشسٹ شاعر لکھا ہے لیکن جب آپ ’کلیات اقبال‘کا مطالعہ کریں گے تو آپ رائے پوری صاحب کی رائے کوپوری طرح قبول کرنے سے محترز ہو جائیں گے۔ ’کلیات اقبال‘ میں جہاں طلوعِ اسلام، مسجد قرطبہ، اے روح محمدؐ، جبریل و ابلیس، شکوہ، جواب شکوہ، ذوق و شوق، آدم اور اذان وغیرہ جیسی خالص اسلامی رنگ کی نظمیں ملتی ہیں؛ وہیں گرو نانک، رام اورسوامی رام تیرتھ جیسی نظمیں بھی اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ موجود ہیں۔ان نظموں کے علاوہ ان کے کلیات میں ’گائیتری منتر‘ کا منظوم ترجمہ ’آفتاب‘ بھی ہے۔ علامہ اقبال نے رام جی کی شجاعت، بہادری،تلوار بازی کی مہارت، رعایا سے محبت،جنگی جوش اور نفس کی پاکیزگی کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی بارگاہ میں عقیدت کا خراج یوں پیش کیا ہے ؂
ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز
اہلِ نظر سمجھتے ہیں اس کو امامِ ہند6
نفیس خلیلی نے 21 بند یعنی 126 اشعارپر مشتمل نظم ’سوئمبر‘ میں رام چندرجی کے رسمِ سوئم ورکو شعری پیکر عطا کیا ہے۔ جس میں سیتا کی خوبصورتی، ان کی دید سے رام کے دلی جذبات کی اتھل پتھل، راجہ جنک کا شیو جی کی کمان کو توڑنے کا چیلنج دینااور بدلے میں سیتا سے شادی کا وعدہ کرنا، راجہ جنک کے اعلان کے بعد مختلف حکمرانوں کا کمان توڑنے کی کوشش کرنااور پسپا ہونا،حتّٰی کہ راوَن کابھی نامرادلوٹنا اورسارے حکمرانوں کی ناکامی کے بعد راجہ جنک کا یہ کہنا کہ:
تم میں کوئی رانا نہیں
تم میں کوئی راجہ نہیں
تم مرد یا نا مرد ہو
تم کارواں کے گرد ہو
سب راج کُل کے ننگ ہو
ان آئینوں کے زنگ ہو7
راجہ جنک کی للکار سن؛شری رام چندر کا مرتعش ہونا، اہل محفل پر ایک نظر ڈال کر؛ تیر و کماں کو ہاتھ میں لینا اور ایک ہی جھٹکے میں اس کے پرخچے اڑا دینا۔
دس بیس ٹکڑے ہو گئے
کچھ اُڑ گئے کچھ کھوگئے
بے حد خوشی دل کو ہوئی
سب بول اٹھے ’جے رام کی‘7
اتنے میں پرشو رام کاآدھمکنا اورشیو جی کی کمان کے ٹکڑے دیکھ کر لال پیلے ہوجانا اور اپنی کمان توڑنے کا چیلنج دینابعدہٗ بذریع�ۂرام اس کی کمان بھی ایک جھٹکے میں ٹوٹنا۔راجہ جنک کایہ ماجرا دیکھ کر سیتا کی رام سے، اُرملا کی لکشمن سے، مانڈوی کی بھرت سے اور لیرلی کی شترودھن سے شادی کر دینا وغیرہ تمام واقعے کو بڑی تفصیل اور خوبصورت پیرائے میں بیان کیاہے۔نفیس خلیلی نے ایک ایک جزئیات کو نہایت خوبی کے ساتھ پیش کیا۔اس نظم میں بھی مرثیے کی چھاپ دکھائی دیتی ہے اور بحر بھی وہی استعمال کی گئی ہے جومرثیہ کے لیے مختص ہے یعنی بحر رجزجس کا رکن ہے مُسْتَفْعِلُن۔
برج موہن دتا تریا کیفیؔ (13دسمبر 1866۔ 1نومبر 1955)نے رام اور رام بھگتی سے متعلق 6اپریل 1913 کو 27بندوں پر مشتمل نظم ’رام بھگتی کی مہما‘ لکھی جو مسدس کی شکل میں ہے۔رام، لکشمن اور سیتا جنگلی رہائش کے لیے نکلے ہیں۔گرمی کا موسم ہے، دور دور تک پانی نہیں ہے اورسورج کی تپش اس سے سوا۔ سیتا غش کھا کر گر جاتی ہیں،لکشمن پانی کی تلاش میں اِدھر اُدھر دوڑتے ہیں۔ اِدھر رام کی نظر بے ہوش سیوری(سبری) پرپڑتی ہے۔ پھر رام اسے اور سیتا کو اپنے زانوں پر رکھ لیتے ہیں اور رام کے آنسو دونوں(سیوری اور سیتا)کے رخسار پر گرتے ہیں اور دونوں بھلی چنگی ہو جاتی ہیں۔ جب لکشمن آتے ہیں تو رام ان سے کہتے ہیں ؂
کون و مکاں کا گرچہ شہنشاہ رام ہے
سچے بھگت کا اپنے وہ لیکن غلام ہے8
اس نظم کو آپ کربلائی مرثیہ کے بہت قریب پائیں گے۔ پورا منظر گویا کربلا کی تپتی ریت کو مد نظر رکھ کر تیار کیا گیا ہے۔ایک منظر ملاحظہ کریں ؂
پانی کا دور دور نہیں تھا وہاں نشاں
گرمی کی اور تپش کی وہ شدّت کہ اَلامَاں
بھٹّی کی طرح تپتے زمیں اور آسماں
پر طائرِ نگاہ کے بھی جلتے تھے وہاں
ہر ذرّے میں تپش تھی وہاں آفتاب کی
فوّارے تھے بگولوں کے، نہریں سراب کی
آگے کے دو مصرعے دیکھیں ؂
گرمی سے اس کی آتشِ نمرود سرد تھی
لٗو کی بھبک سے بادِ جہنم بھی گرد تھی9
دبستان داغؔ کا توانا شاعر؛منشی سکھ دیو پرشاد سنہا المعروف بہ بسملؔ الٰہ آبادی (11 نومبر1899۔ 23نومبر 1975) نے اپنی نظم ’دیش بھارت میں، پھر آجائے زمانہ رام کا‘ میں ان لوگوں کی قسمت پر رشک کیا ہے جنہوں نے رام چندر کو اپنے چشمِ شوق سے دیکھاہے۔محض 14 مصرعوں میں بسمل نے وی بھیشن اور رام کی دوستی اور فتح یابی کے بعد اسے لنکا سونپنا اور دیگر اہم واقعات بلکہ رامائن کا پورا پلاٹ سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔دو شعر ملاحظہ ہو ؂
وہ گھڑی وہ دن وہ ساعت وہ زمانہ رام کا
چار لفظوں میں کہیں کیونکر فسانہ رام کا
ہو جو بزدل خلق میں لازم ہے لیں اس سے سبق
درسِ غیرت ہے زمانے کو فسانہ رام کا10
مذکورہ نظم غزل کی ہیئت میں لکھی گئی ہے۔ لہٰذا غزل کے ’دریا کو کوزے میں سمونے‘ والی خصوصیت اس نظم میں بھی در آئی ہے۔ان سات اشعار میں بسمل نے پند و نصیحت اور دعا سے بھی کام لیا ہے۔
شاعر انقلاب شبیر حسین خاں جوش ملیح آبادی (5دسمبر 1898۔ 22فروری 1982) نظم ’پیمانِ محکم‘ میں جہاں غازیانِ جنگ کے کر و فر،بابِ خیبر شکن کے قوت و بَل،اہل کربلا کی پیاس،شہداء کی جاں نثاری، نورِ رسالت کی چمک، اَرْجُن کی چٹکی سے چلنے والے تیروں کی سنسناہٹ،زَمزَموں پر فوج کی رخصت،تیر و کمان کی کڑک،توپوں کی گھن گرج اورزِرْہوں کی کھڑکھڑاہٹ وغیرہ کی قسم کھائی ہے وہیں شری رام چندر کی اس قوت کا بھی حلف اٹھایا ہے جس کے ذریعے انھوں نے راوَن کی لنکا کو خاکستر کر؛ فتح یابی حاصل کی تھی۔ شعر ملاحظہ کریں:
قسم ان قوتوں کی جو ملیں تھی رام و لچھمن کو
قسم اس آگ کی، جو کھا گئی تھی ملکِ راوَن کو11
ماہر عروض،شاعر اور ناول نویس پنڈت میلا رام وفا (30جنوری 1895۔ 19 ستمبر1990)؛ شری رام چندر کی محبت میں گویا غرقاب ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ہندوستان اپنی قسمت پر جتنا چاہے فخر کرے کہ اس کی دھرتی پر رام پیدا ہوئے۔تاریخ میں یہ سعادت کسی اور دھرتی کو نصیب نہ ہوئی۔یہی نہیں ؛وہ ان لوگوں کے قدموں کو بھی فرطِ محبت میں چوم لینا چاہتے ہیں جن کے دلوں میں رام کی محبت ہے۔ وہ رام کو خدائی صفات کے حامل قرار دے کر، تمام نوع بشر پر رام کی عبادت لازم قرار دیتے ہیں۔ اشعار ملاحظہ ہوں ؂
زیبا ہے جتنا فخر کرے سر زمینِ ہند
حصہ فقط اسی کا ولادت ہے رام کی
جی چاہتا ہے ان کے قدم چوم لیجیے
جن کے دلوں پہ نقش ارادت ہے رام کی12
المختصر اردو شاعری میں ہندو اساطیر اور دیومالا کا استعمال شروع سے ہوتا رہا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔اردو شاعری میں ہندوؤں کی مذہبی کتابیں ہوں یا مذہبی پیشوا سب پر خامہ فرسائی کی گئی ہے۔ بلکہ بعض ایسے بھی ہیں جنھوں نے اردو شاعری کی محبوب شعری علامت کا درجہ حاصل کر لیا ہے، جن میں کرشن جی کا نام سر فہرست ہے۔ محولہ بالا تمام اشعار کے مطالعے سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ اردو شاعری میں رام کے خطوط کتنے واضح ہیں۔یہ صرف چندنمونے ہیں۔ اس پر اگرپوری سنجیدگی سے توجہ دی جائے تو کئی دفاتر تیار ہو سکتے ہیں۔
الحاصل کبیر کے یہاں رام خدائے تعالیٰ کا ہندوی نام ہے تو نظیر کے یہاں ضمنی کردار۔چَکبست نے رام کے رخصتِ بن باس کا نقشہ کھینچا ہے توعلامہ اقبال نے ان کی شجاعت،پاکیزگیِ نفس اور رعایا سے ان کی محبت کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں امامِ ہند کہا۔نفیس خلیلی نے ان کے سوئمبر کو موضوع بنایا توپنڈت کیفی نے انہیں کون و مکاں کا شہنشاہ قرار دیا۔ بسمل الٰہ آبادی نے رام کی غیرت و حمیت کی تعریف کی ہے تو جوش نے ان کی قوتِ بازو کی قسم کھائی۔میلا رام وفا نے ان کے محبین کے قدموں کو چومنے کی چاہت کا اظہار کیا ہے۔ الغرض اردو شاعری میں رام ایک متنوع کردار کی حیثیت سے برتے گئے ہیں۔
حوالہ جات
.1 ’عالمی اردو ادب‘، دہلی کا ’دھارمک نمبر‘ مئی 2012، ص173-75
.2 ’اسلام کے علاوہ مذاہب کی ترویج میں اردو کا حصہ‘:ڈاکٹر محمد عزیر،ص95، انجمن ترقی اردو،علی گڑھ1955
.3 ’تاریخ ادب اردو‘ :جمیل جالبی،جلد اوّل، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی2015
.4 ’کلیات نظیر اکبر آبادی‘ نظم: ’بلدیو جی کا میلا‘، ص434، کتابی دنیا، دہلی،2003
.5 ’صبح وطن‘ از:چکبست لکھنوی،ص:118-123، نامی پریس، لکھنؤ، دسمبر1985
.6 ’کلیات اقبال‘ ص146، فرید بک ڈپو،دہلی2012
.7 ’عالمی اردو ادب ‘، دہلی کا ’دھارمک نمبر‘مئی 2012،ص233
.8 ’وارِدات‘ از: پنڈت کیفی،ص:243، میسرز رام لال سوری اینڈ سنز، لاہور، 1941
.9 ایضاً،ص240
.10 ’عالمی اردو ادب‘، دہلی کا ’دھارمک نمبر‘مئی 2012،ص228
.11 ’کلیات جوش‘ نظم ’پیمانِ محکم‘، ص479، قومی کونسل، دہلی، 2013
.12 ماہنامہ’نیرنگ خیال‘ لاہور، کا ’رامائن نمبر، اکتوبر۔نومبر 1928 بحوالہ :دھارمک نمبر
.13 ’کیفیات‘ (کلیات کیفی اعظمی)،ص421، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی2004


MD. ZAKIR HUSSAIN
Razvi Store, Qabristan Road, Khirgaon
Hazaribagh-825301(Jharkhand)
Email: zrazvi@rediffmail[dot]com
Mob No: 09955171661







قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں