10/12/18

یوسف خان کمبل پوش کی سفرنامہ نگاری۔ مضمون نگار:۔ محمد اشتیاق احمد شاکر






یوسف خان کمبل پوش کی سفرنامہ نگاری
محمد اشتیاق احمد شاکر

اردو ادب میں سفر نامے کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہے، انسان کی فطری خواہش ہوتی ہے کہ وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ سیر وسیاحت کے لیے سفر کریں، فطرت کے دلنشیں مناظر دریا، پہاڑ، خوبصورت جھیل، حسین وادیاں، فلک بوس عمارتوں کی دید کے لیے گھر سے نکلنے پر مجبور ہوتا ہے اور قدرت کی نیرنگیوں سے لطف اندوز ہوتا ہے جب کوئی حساس اور قرطاس وقلم کا دلدادہ شخص کسی جگہ کا سفر کرتا ہے تو وہ مختلف چیزوں کا مشاہدہ کرتا ہے اور تجربات ومشاہدات سے گزرتا ہے تو وہ اپنے قاری کو بھی شریک کرنا چاہتا ہے اپنے دلی جذبات واحساسات کو سفر نامے کی شکل میں پیش کرتا ہے۔
سفر نامہ اپنے عہد کا آئینہ ہوتا ہے۔ سماجی،مذہبی، سیاسی، تہذیبی،جغرافیائی، تاریخی اور اقتصادی حالات کی عکاسی کا بہترین نمونہ ہوتا ہے۔ قوموں اور ملکوں کے حالات سے واقفیت کا ذریعہ ہوتا ہے۔ نت نئی چیزوں کے دیکھنے کی خواہش سفر سے ہی پوری ہوتی ہے۔ تحقیق وتلاش کی جستجو انسان کو سفر پر آمادہ کرتی ہے، تاریخ شاہد ہے کہ کولمبس اور واسکوڈی گاماسفر ہی کے ذریعہ ہندوستان اور امریکہ کی کھوج میں کامیاب ہوئے۔
سفر نامہ نہ صرف حصول معلومات کا ذریعہ ہے بلکہ قوموں اورملکوں کے مزاج ومذاق کو سمجھنے میں بہت معاون ثابت ہوتا ہے کسی ملک کے سماجی، تعلیمی، مذہبی، سیاسی اور تجارتی امور کا جائزہ جس طرح سفر ناموں میں کیا جاتا ہے اور اس سے دوسرے ملک کے لوگ اپنی ترقی وبلندی میں خاطر خواہ استفادہ کرتے ہیں۔دوسرے ذرائع سے ممکن نہیں۔ 
سفر نامے اپنے اندر بے پناہ کشش رکھتے ہیں، زبان وبیان کی شگفتگی، مناظر فطرت کی تصویر کشی، جذبات واحساسات کی وارفتگی سے قارئین لطف اندوز اور محظوظ ہوتے ہیں یہی وہ چیزیں ہیں جو سفر نامے کو زندہ وجاوید بناتی ہیں روایتی اور غیر روایتی سفر ناموں کے تعلق سے مشفق خواجہ کا یہ اقتباس اہمیت کا حامل ہے۔
’’روایتی سفر نامہ ہمیں مقامات سفر سے متعارف کراتا ہے اور غیر روایتی سفر نامہ کیفیت سفر سے۔مقامات سفر کی تفصیل لکھنے والا زمان ومکان کا اسیر ہوتا ہے۔ جب کہ کیفیات سفر قلمبند کرنے والا زمان ومکان سے ہٹ کر بھی سوچتا ہے اور یہی چیز اس کے سفرنامے کو معلومات کا گنجینہ بننے سے بچاتی ہے اور اس کا رشتہ ادب سے قائم کرتی ہے‘‘
(مشفق خواجہ، دیباچہ موسموں کا عکس از جمیل زبیر ص10) 
انسانی زندگی میں جس طرح سفر کی بہت اہمیت ہے اسی طرح اردو ادب میں سفر نامے کی اہمیت مسلم ہے۔سفر کے تجربات ومشاہدات سے انسان جس طرح خاطر خواہ فائدہ اٹھاتا ہے اسی طرح سفر نامے پڑھ کر نہ صرف گھر بیٹھے دنیا جہاں کی سیر کرتا ہے بلکہ سفر نامہ نگار کے دلکش اسلوب نگارش، شگفتگی وچاشنی سے معمور تحریروں سے لطف اندوزی وسرمستی حاصل کرتا ہے۔ اردو میں سفرنامے کی ایک مضبوط روایت رہی ہے۔ جو سفرنامے زیادہ مشہور و مقبول ہوئے ان میں ایک اہم سفرنامہ ’عجائبات فرنگ‘ ہے۔
اردو کے اولین سفر ناموں میں سب سے اہم سفر نامہ یوسف خان کمبل پوش حیدرآبادی کاہے جو عجائباتِ فرنگ کے نام سے موسوم ہے۔اس سفر نامہ کو تاریخ یوسفی بھی کہا جاتا ہے۔یوسف خان کمبل پوش حیدرآبادی نے 1828 میں حیدرآباد کو چھوڑ کر متعدد مقامات کا سفر کیا جن میں عظیم آباد، ڈھاکہ، مچھلی بندر، مندراج، گورکھپور، نیپال، آگرہ، شاہ جہاں آباد،لکھنؤ،کلکتہ اور پھرانگلستان قابل ذکر ہیں۔وہ خودیوں رقم طرازہیں:
’’یہ فقیر بیچ 1828 مطابق 1246ھ حیدرآباد اپنے وطن خاص کو چھوڑکر عظیم آباد، ڈھاکہ، مچھلی بندر، مندراج، گورکھپور،نیپال،اکبرآباد،شاہ جہاں آباد،وغیرہ دیکھتا ہوا بیت السلطنت لکھنؤ میں پہنچا یہاں بہ مددگاری نصیبے اور یاوری کپتان ممتاز خان مکینس صاحب بہادر کی ملازمت نصیرالدین حیدر بادشاہ سے عزت پانے والا ہوا۔ شاہ سلیمان نے ایسی عنایت اور خاوندی میرے حال پُر اختلال پر مبذول فرمائی کہ ہرگز نہیں تاب بیان اور یارائے گویائی۔ رسالہ خاص سلیمان میں عہدہ جماداری کا دیا بعد چند روز کے صوبے داری اسی رسالے کی دے کر درماہہ ٹھرایا۔ بندہ چین سے زندگی بسر کرتا اور شکرانہ منعم حقیقی بجا لاتا۔ناگہاں شوق تحصیلِ علم انگریزی کا دامن گیر ہوا۔ بہت محنت کر کے تھوڑے دنوں میں اسے حاصل کیا بعد اس کے بیشتر کتا بوں تواریخ کی سیر کرتا دیکھنے حال شہروں اور راہ و رسم ملکوں سے محظوظ ہوتا ایک بارگی سنہ اٹھارہ سو چھتیس عیسوی میں میرا دل طلبگاری سیاحی جہاں خصوصاًملک انگلستان ہُوا۔ شاہ سلیمان جاہ سے اظہار کرکے رخصت دو برس کی مانگی۔شاہ گردوں بارگاہ نے بصد عنایت و اکرام اجازت دی۔عاجزتسلیمات بجا لایا اور راہئی منزل مقصود ہُوا۔ تھوڑے دنوں بعد دارالامارۃ کلکتہ پہنچا۔پانچ چھ مہینے وہاں کی سیر کرتا رہا۔بعد ازاں جمعرات کے دِن 30مارچ کے مہینے سنہ اٹھارہ سو سینتیس عیسوی میں جہازپر سوار ہوکر بیت السّلطنت انگلستان کو چلا۔ نام جہاز کا’ازابیلا‘ (Isabela) کپتان اس کانام ڈابیڈ بڑاں صاحب(DABID Brown)مع اپنے بی بی کے تھا۔‘‘(اردو سفر ناموں کا تنقیدی مطالعہ صفحہ نمبر95-96)
غرض انگریزی زبان سیکھنے کے مقصد سے جیسا کہ اس اقتباس سے واضح ہے یوسف خان کمبل پوش نے یہ سفر کیا تھا۔کمبل پوش حیدرآبادی کے اس سفر نامہ ’عجائبات فرنگ‘ میں زبان و بیان کی لطافت اور چاشنی اور اسلوب کی انفرادیت واضح طور پر محسوس ہوتی ہے اس اعتبار سے اُس زمانہ کے لحاظ سے یہ ایک نہایت اہم سفر نامہ ہے جس کے مطالعے سے انگلستان کے حالات اور مشاہدات کا پتہ چلتا ہے جن کویوسف خان کمبل پوش نے سادگی کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔اس سفر نامہ کی خصوصیات کو ملاحظہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یوسف خان کمبل پوش حسن و عشق کا دیوانہ اور جمال یا خوبصورتی کا متوالا تھا اس سفر نامہ میں ایسے کئی واقعات اور حالات کا اس نے ذکر کیا ہے جس میں عورتوں کے حسن وجمال کی کُھل کر تعریف کی ہے اور بعض دلچسپ اور عجیب و غریب قصوں یا واقعات کو بیان کیا ہے جن کو ملاحظہ کرنے سے اس کا منچلا پن تو ظاہر ہوتا ہی ہے۔یہ بھی لگتا ہے کہ اس کے اندر ابھی تک ایک رندی و سرمستی یا بچہ کی طرح بے قرار طبیعت ہے اور پھر کہیں وہ مرعوب ومتأثر دکھائی دیتا ہے اورکہیں اگر کوئی نامناسب بات ہوتی ہے تو ایک حساس انسان کی طرح وہ تڑپ اٹھتا ہے اور اپنے گہرے درد و رنج کا اظہار کرتاہے جیسے شاہِ وقت نے مصر کے سات سو بہادروں کو دھوکہ دہی کے ذریعہ بُلوا کر قتل کرا دیتا ہے تو یوسف خان کمبل پوش نے اس قبیح اور مذموم عمل کو دیانت اور امانت کے خلاف اور بہادری ومہربانی سے بہت دور بتایا ہے اور بہت غم کا اظہار کرتے ہوئے دونوں جہاں میں اس کے منہ کو کالا قرار دیاہے۔
یوسف خان کمبل پوش جس وقت لندن میں قیام فرما تھے اس وقت انھوں نے ملکہ وکٹوریہ کی تاج پوشی اور اس کے جلوس کے منظر کو دیکھااور اس کے حالات،مشاہدات اورتأثرات کو انھوں نے بیان کیا ہے جس میں ایک للچاتے بچہ کی طرح ان کی حالت ظاہر ہوتی ہے جو کھانے پینے اور مٹھائیوں پر ٹوٹ پڑنے کے لیے بے چین وبے تاب ہو جاتا ہے۔ملکہ وکٹوریہ کی تاج پوشی کی رسم کی منظر کشی یوسف خان کمبل پوش کے الفاظ میں ملاحظہ ہو:
’’ملکہ مہر سیماکوئن وکٹوریہ مع اپنی والدہ ماجدہ کے اس پر سوار تھیں،چاند صورت،سورج طلعت دکھائی دیتیں۔تخمیناًعمر میں اٹھا رہ برس کی۔مجمع شرم و جمال عفت بے شمار تھیں۔میں نے صورت دیکھتے ہی دل میں دُعاکی یا اللہ گا ڑی ملکہ کی میرے پاس پہنچ کر ایک لحظہ ٹھہرے۔ خدا نے سُن لی جب گاڑی میرے سامنے آئی ایک ساعت رکی۔ چہرہ نورانی ملکہ کا میں نے بغور دیکھا،نمو نہ قدرت ایزدی کا پایا۔آداب تسلیمات بجا لایا۔نگا ہِ عنایت سے میری طرف دیکھ کر تبسم فرمایا۔ان کی ماں نے بھی دیکھا۔ میں خوشی سے پھولے نہ سمایااور دل میں دعائیں دیتا رہا کہ یا اللہ اس سلطنت کو کبھی زوال نہ ہووے ہمیشہ زیادتی اور کمال ہوتا رہے غرض قدم میمنت لزوم کلڈ ہال رشک گلزار ہوا اور وہ میدان کثرتِ فوج وسپاہ وردی پوش سے رشک لالہ زار ایک رسالہ سواروں مشکی گھوڑوں کا زرہ اور خود پہنے نظر آیا۔ہر ایک کی مونچھیں کھڑی کمال ہیبت اور شان سے ٹولیاں باندھے قدم باقدم برابر جاتا۔ تماشائیوں کو ان سے ہرگزصدمہ نہ پہنچتا۔سواروں کے بہت توزک سے اور موج مسلح تھی دیکھنے سے اس کے بہت ہیبت آتی۔القصہ فوج بادشاہی اور تماشائیوں کا ایسا اژدہام کہ بیان میں نہیں سماتا،سننے میں آیا کہ اس جلوس میں میمنت مانوس میں ڈیڑھ کروڑروپیہ صرف ہُوا۔ہر طرح کی چیزیں اور اسباب عجیب وغریب وہاں تھے نہیں معلوم بایں افراط کہاں سے ہاتھ آئے ہر پری زاد فرنگ کے خوشی سے راہ میںآتے جاتے ہر ادا سے اعجاز مسیحائی دکھا تے، مرد،رنڈیاں پہلو بہ پہلو جیسے جنت میں حورو غلماں نمودار،دوکان نانباتیوں کی نعمتوں سے بھری،فریفتہ ہُوا جس کی نظر اس پر پڑی۔لوگوں کی بول چال ودیدار حسن وجمال مجھ کو خواب خیال معلوم ہوتا ورنہ بیداری میں ایسی کیفیت دیکھنا محال تھی۔فی الواقعی جودیکھا خیال ہی تھاکہ اب اس کا دیکھنا میسر نہیںآتا بلکہ جس سے وہ حال کہتاہوں اعتبارنہیں کرتااگر اپنی آنکھوں سے دیکھے تو مانے‘‘۔(عجائبات فرنگ صفحہ نمبر139-40بحوا لہ اردو سفر ناموں کا تنقیدی مطالعہ ص99)
انگلستان کے حسن پر کمبل پوش کچھ زیادہ ہی فریفتہ تھے اور اسی لیے حسن و جمال سے متعلق اور جسم فروشی یا ان کی خریداری کے بارے میں مختلف باتیں لکھی ہیں مگر اس کے ساتھ ہی کمبل پوش کے دل درد مند کے جذبات ظاہر ہوتے ہیں کہ کاش اگر میں قدرت رکھتا تو ان ساری لڑکیوں کورہا کردیتا اور خرید کر آزاد کردیتالیکن اس سب کے باوجود وہ اس قدر حسن وجمال میں محو ہوگئے تھے کہ پردے کہ بارے میں بھی ان کے خیالات کچھ ٹھیک نہیں تھے اور وہ حجا ب کو نامناسب خیا ل کرتے اور ساتھ ہی ساتھ انگریزوں کی جنسی بے راہ روی پر بھی افسوس کا اظہار کیا ہے تاہم یوسف خان کمبل پوش کی علمیت،ادبیت اور مشاہدے کی گہرا ئی وگیرائی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
جہاں تک اردو کے پہلے سفر نامہ کاتعلق ہے اس بارے میں بیشتر محققین کی رائے یہی ہے کہ یوسف خان کمبل پوش کاسفر نامہ عجائباتِ فرنگ یا تاریخِ یوسفی ہی ہے۔یوسف خان کمبل پوش نے 1828 میں یہ سفر ضرور کیا ہے مگر یہ 1847 میں پنڈت دھرم نرائن کے زیر اہتمام دہلی کالج کے مطبع العلوم سے شائع ہُواہے۔اس کے صفحات 297ہیں 1873 میں مطبع منشی نول کشور نے اسے عجائباتِ فرنگ کے نام سے شائع کیاتھا پھر اسی مطبع نے 1898 میں اس کا دوسرا ایڈیشن بھی شائع کیا ہے۔
مرزاحامد بیگ کا خیال ہے کہ اُردو کاپہلا سفر نامہ یوسف خان کمبل پوش حیدرآبادی کا ’عجائبات فرنگ‘ نہیں ہے بلکہ سید فدا حسین کا سفر نامہ ’تاریخ افغانستان ‘ہے اور اس سلسلے میں انھوں نے دونوں کے زمانۂ تصنیف وطباعت سے بحث کرتے ہوئے دلیل فراہم کرنے کی کوشش کی ہے اس سلسلے میں سعید احمد نے دو ٹوک انداز میں یوں لکھاہے:
’’مرزا حامد بیگ نے سید فدا حسین کا سفر نامہ ’تاریخ افغانستان‘کو اردو کا اولین سفر نامہ مانا ہے حالانکہ اب تک جتنی تحقیق اردو سفر نامے کے حوالے سے ہوئی ہے ان میں اکثر محققوں نے یوسف خان کمبل پوش کو اُردو کا اولین سفر نامہ نگار تسلیم کیا ہے۔یوسف خان کمبل پوش حیدرآبادی کا سفر نامہ تاریخ یوسفی کے نام سے بھی 1847 شائع ہوا فنی اعتبار سے ایک اچھاسفر نامہ ہے۔فداحسین کا سفر نامہ ’تاریخ افغانستان‘ میں سفر نامے کے فنی لوازم موجود نہیں ہیں۔انھوں نے اس سفر نامے میں ایک جنگی داستان کو قلم بند کیا ہے۔یوسف خان کمبل پوش کے سفر نامے کے سامنے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔‘‘ 
(آزادی کے بعد اُردو سفر نامہ ص51)
اسی طرح خالد محمود نے ’عجائبات فرنگ‘کے سلسلہ میں بجا طور پر یوں کہا ہے:
’’عجائبات فرنگ ‘کی صرف یہی ایک خوبی نہیں کہ وہ اردو کا پہلا سفر نامہ ہے۔پہلا سفر نامہ ہونا تو اس کی تاریخی خصوصیت ہے ورنہ اگر اسے پہلا سفر نامہ ہونے کا شرف حاصل نہ ہوتا اور یہ کسی اور نمبر پر رہتا تو زبان و بیان کی بے باکی،بے ساختگی،وارفتگی اور حقیقت نگاری کی وجہ سے اس کی شہرت اور اہمیت میں کوئی فرق نہ آتا۔بلا شبہ اس کی شہرت اتنی ہی ہوتی جتنی آج ہے۔‘‘ 
(اردو سفر ناموں کا تنقیدی مطا لعہ ص95) 
اِن اقتباسات سے ظاہر ہے کہ یوسف خان کمبل پوش حیدرآبادی کے سفر نامہ ’عجائبات فرنگ ‘میں جو تحریری اسلوبی اور زبان وبیان کی خوبیاں ہیں وہ اضافی ہیں جبکہ تاریخی اعتبار سے بھی اسی کو تقدم حاصل ہے اسی لیے بلاشبہ اُردو کاپہلا سفر نامہ یہی ہے مگر ڈاکٹر قدسیہ قریشی نے اپنی کتاب ’اردو سفر نامے انیسویں صدی میں ‘میں نادر کی مثنوی نادر کو اردو کا پہلا سفر نامہ قرار دیا ہے جیسا کہ درج ذیل اقتباس سے ظاہر ہے:
’’مثنوی نادر اردو سفر ناموں میں دو اعتبار سے بے حد اہم ہے اول یہ کہ یہ اردو کاپہلا سفر نامہ ہے اب تک جتنے سفر نامے دستیاب ہوئے ہیں ان میں تاریخی اعتبار سے قدیم ترین بھی ہے۔اس کی دوسری اہمیت یہ ہے کہ یہ منظوم سفر نامہ ہے۔عام طور پر جتنے سفر نامے لکھے گئے ہیں وہ نثرمیں ہیں لیکن یہ سفر نامہ مثنوی کی شکل میں لکھا گیا ہے اور مثنوی نادر کے نام سے مشہور ہے یہ سفر نامہ اب تک غیر مطبوعہ ہے۔ڈاکٹر قطب النساء ہاشمی کی کتاب ’تین مسافر‘کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سفر نامہ ادارہ ادبیاتِ اردو حیدرآباد کے کتب خانہ میں موجود تھا۔ کتب خانہ کو یہ نسخہ ڈاکٹر نصیرالدین ہاشمی نے عطیہ کے طور پر دیا تھا مخطوطہ کے پہلے صفحہ پر ہاشمی صاحب کے دستخط کے ساتھ تحفہ بہ کتب خانہ ادارۃ ادبیہ تحریر ہے (آگے ہے) لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ نسخہ اب وہاں نہیں ہے ادارہ سے معلومات حاصل کرنے پر جواب ملا کہ یہ نسخہ اب وہاں نہیں ہے۔‘‘ 
(اردو سفر نامے انیسویں صدی میں ص259) 
ڈاکٹر قدسیہ قریشی نے جس مثنوئی نادر کو اردو کا پہلا سفر نامہ قرار دینے کی بات کی ہے وہ شاعر نادر کی ہے جس نے 1257ھ اس مثنوی کا مرتب کیا۔در اصل نواب اعظم جاہ والیِ ارکاٹ کا سفر نامہ ہے جسے نادر نے مثنوی کے انداز میں منظوم کیا ہے۔نواب اعظم جاہ نے مدراس سے ناگور شریف کاسفر درگاہ قادر ولی کی زیارت کے لیے کیاتھاجوحضرت عبدالقادر گنج سواتی (المتوفی972ھ)کی در گاہ ہے اس سفر کو اور اس کے حالات وتأثرات کو نادر شاعر نے منظوم کیا اور یہ سفر 1228ھ میں کیا گیا تھا اور اسی سال 1823 میں نادر نے یہ مثنوی مکمل کی ہے۔ڈاکٹر قدسیہ قریشی نے اس مثنوی کے اشعار کے حوالے سے اپنی کتاب ’اردوسفرنامے۔انیسویں صدی میں‘ میں کافی معلومات بہم پہنچائی ہیں اور اس پر عمدہ طریقے سے لکھاہے اور نتیجہ خیز انداز میں ایک جگہ یوں لکھا ہے:
’’یہ مثنوی نادر کا وہ کارنامہ ہے جس کاشمار انیسویں صدی کے اہم سفر ناموں میں کیاجاسکتاہے نہ صرف اہم بلکہ اسے انیسویں صدی کے اولین سفر نامے کاشرف بھی دیا جاسکتا ہے کیوں کہ یہ سفر نامہ 1823 کاہے اور اس سے قبل ہمیں نہ تو نظم میں ہی انیسویں صدی کاکوئی سفر نامہ ملتا ہے اور نہ ہی نثر میں اس طرح نظم کی حیثیت سے بھی اس سفر نامہ کی بڑی اہمیت ہے۔‘‘
(اردو سفر نامے۔انیسویں صدی میں ص 268)
اس اقتباس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ ڈاکٹر قدسیہ قریشی کی وضاحت کے مطابق اُسے 1823 کا سفر نامہ ہونے کی وجہ سے اولین سفر نامہ کا درجہ دیا جاناچاہیے یہ بات حقا ئق کی روشنی میں بالکل درست ہے مگر دونوں میں تطبیق یوں دی جاسکتی ہے کہ یوسف خان کمبل پوش کاسفر نامہ عجائبات فرنگ نثری ہونے کے اعتبار سے اولیت کا درجہ رکھتا ہے جو 1828 کے سفر کی یاد گار ہے اور یہ مثنوی نادر منظوم سفر نامہ ہونے میں اولیت کا استحقاق رکھتی ہے جو 1823 میں مکمل کی گئی ہے۔اس طرح تقدم اور منظوم ہونا دونوں اس کی خصوصیتیں ٹھہریں جبکہ نثر میں سفر نامہ ہونے کا اعجاز اولیت کے اعتبار سے بہر صورت یوسف خان کمبل پوش حیدرآبادی کے سفر نامہ ’عجائبات فرنگ‘ہی کو حاصل ہے۔

Md. Ishtiyaque Ahmed Shakir
Vill-Lachhanpur, P.o-Bochgoan, Kasba
Distt-Purnea-854330 (Bihar) 
Mob-9182165095






قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں