10/12/18

شفق کا تخلیقی جہان مضمون نگار:۔ رابعہ خاتون





شفق کا تخلیقی جہان
رابعہ خاتون
بہار میں اردو افسانے کی ایک عظیم روایت ہے۔ ناول ہو یا افسانہ، یہاں کے فکشن نگاروں نے ہر عہد اور بدلتے ہوئے حالات کے تحت کئی شاہکار تخلیقات اردو ادب کو دی ہیں۔ سیاسی، سماجی، معاشرتی، علمی و ادبی تحریکات، ملک کی آزادی، تقسیم وطن، فرقہ وارانہ فسادات اور ان تمام معاملات و موضوعات کوقلم بند کیا ہے جو اس عہد کے مطالبات میں شامل تھے۔ یہ کہنا کسی طور غلط نہیں ہوگا کہ اردو کی افسانوی روایت میں صوبۂ بہار کا کردار نہ صرف قابل ذکر ہے بلکہ ایک خاص اہمیت کا حامل بھی ہے۔ بہار کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ اردو کی خواتین ناول نگاروں کی تاریخ میں ’اصلاح النساء‘ کو اوّلیت کا مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ بقول سید احمد قادری : 
’’بہار میں اردو افسانے کی شاندار روایت رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ علی محمود کا افسانہ ’چھاؤں‘ (مطبوعہ مخزن جنوری 1904) اگر صرف ایک ماہ قبل شائع ہوجاتا تو اس وقت بہار کو اردو افسانے کا دوسرا نہیں بلکہ پہلا موجد قرار دیا جاتا۔ اس لیے کہ راشد الخیری اپنے افسانہ ’نصیر اور خدیجہ‘ کے مخزن، دسمبر1903 کی اشاعت سے اردو افسانے کے امام تسلیم کیے گئے۔‘‘
یہ ایک علمی، ادبی اور تاریخی صداقت ہے کہ بہار ابتداء ہی سے اردو فکشن کا ایک اہم مرکز و محور رہا ہے یہ اور بات ہے کہ اس جانب تحقیقی و تنقیدی کام ذرا تاخیر سے ہوا۔ بہر کیف اس میں کسی شک و شبہ کی کہیں کوئی گنجائش نہیں کہ صوبۂ بہار ہر اعتبار سے ہر عہد میں علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے۔
جدید اردو افسانے کی تاریخ میں شفق کی خدمات نہ صرف قابل ذکر ہیں بلکہ ایک خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ ان کا شمار اردو کے اہم فکشن نگاروں میں ہوتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شفق کے یہاں زندگی اور زمانے کے دکھ درد، انسانی قدروں کی پامالی، حق تلفی و ناانصافی ڈوبتے ابھرتے، ہنستے بولتے انسانوں کی ترجمانی ہم آسانی سے ان کے افسانوں میں تلاش کرسکتے ہیں۔ ان کے یہاں افسانوی زبان و بیان اور برتنے اور سنوارنے کا ہنر بدرجہ اتم موجود ہے۔ انہوں نے افسانوں کے ذریعے سماجی و معاشرتی زندگی کی بھرپور عکاسی کچھ اس طرح سے کی ہے کہ یہ ہمارے ارد گرد کی زندگی سے وابستہ و پیوستہ معلوم ہوتے ہیں۔ سماج اور سماجی زندگی سے وابستہ ان کے کردار اکثر و بیشتر افسانوں کے کردار بنتے ہیں۔ کہانی اور قصہ گوئی کے ہنر سے نہ صرف وہ واقف ہیں بلکہ اسے برتنے کا ہنر بھی بخوبی جانتے ہیں۔ پلاٹ و کردار میں استعاراتی و علامتی ماحول کو نہایت ہی خوبصورتی اور چابکدستی کے ساتھ استعمال کچھ اس انداز سے شفق کے یہاں جابہ جا آسانی سے تلاش کیا جاسکتا ہے جیسے وہ ہمارے اسی ماحول و معاشرے کے زندہ کردار ہوں۔ افسانے کے لیے جس باریک بینی اور ہنرمندی کی ضرورت ہوتی ہے وہ بخوبی اس فن سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ افسانے کس طرح زندگی سے ہمکنار ہوتے ہیں اس کا بھی اُنہیں بخوبی مشاہدہ ہے۔ میرے خیال میں شفق جدید اردو افسانہ نگاروں کی فہرست میں اپنا ایک الگ ہی مخصوص و منفرد مقام و مرتبہ بنانے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ بقول نامور فکشن نگار حسین الحق:
’’مختصر یہ کہ شفق کا فن مسلسل مائل بہ ارتقا رہا اور وسیع تر انسانی صورت حال سے ہم آہنگ بھی۔ ظاہر ہے جس فنکار کا فن مسلسل بہ ارتقا ہو اور اس کی فکر وسیع تر انسانی صورت حال سے ہم آہنگ ہو اس کے فنی بلوغ اور وسیع تر موضوعاتی افق کو تسلیم نہ کرنا ادبی بے ایمانی کے مترادف ہوگا۔‘‘
سچ یہ ہے کہ غیاث گدی، سریندر پرکاش، بلراج مین را، انور سجاد، خالدہ اصغر، احمد یوسف، کلام حیدری وغیرہ کے بعد اور آس پاس سامنے آنے والے افسانہ نگاروں میں شفق بہت اہمیت اور اعتبار کے حامل تھے اور رہیں گے۔
یوں تو شفق کا افسانوی سفر 1970 سے قبل شروع ہوچکاتھا اور کئی افسانے بھی منظر عام پر آچکے تھے مگر 1970 کے بعد ان کے افسانوں نے ایک نئی کروٹ لی۔ ان کے یہاں اب پورے آب و تاب کے ساتھ افسانہ پوری شدت کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ زبان و بیان پر بے پناہ قدرت اور انسانی نفسیاتی پیچ و خم کو بالکل ہی ایک نئے زاویے سے دیکھنے اور پرکھنے کا انداز سامنے آتا ہے۔ سیاسی و سماجی اور معاشرے کے بدلتے ہوئے رنگ روپ کے پس منظر میں ان کا افسانہ ’دوسرا کفن‘ سامنے آتا ہے۔ پریم چند نے اپنے شاہکار افسانہ ’کفن‘ کو جس موڑو منزل کو پہنچایا وہاں سے شفق کے ’دوسرا کفن‘ کی شروعات ہوتی ہے۔ گاؤں والوں سے حاصل کفن کے پیسہ کو گھیسو اور مادھو موج مستی اور عیش و مسرت میں کٹا کر بے سدھ پڑ جاتے ہیں اور جب خواب سے بیدار ہوتے ہیں تو بدھیا کی چتا پر کفن اور گاؤں والوں کی لعنت ملامت کا خوف ان دونوں کو ستانے لگتا ہے اور گھر جاتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں:
’’گاؤں سے کچھ پہلے ایک سوکھا ہوا پیڑ دیکھ کر گھیسو نے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا، ہم بھی کتنے مورکھ ہیں کفن کفن کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ سب سے بڑی چیز آگ ہے، ہمیں چتا کی کوئی فکر نہیں آخر لکڑی چاہیے کہ نہیں۔‘‘
مادھو نے باپ کو تعریفی نظروں سے دیکھا۔ بڑوں کی بدھی بڑی ہوتی ہے۔ کفن نہیں تو ہم چتا کی لکڑی لے کر گاؤں جائیں گے۔ کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا اچھا رہے گا۔
شفق نے اپنے اس افسانے کے ذریعہ جمہوریت میں انصاف کے ساتھ ترقی و خوشحالی کا منظر نامہ بھی سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ 
مختصراً ہم کہہ سکتے ہیں کہ شفق کے تمام افسانوی مجموعے ’سمٹی ہوئی زمیں‘، ’سب گزیدہ‘،’شناخت‘ اور ’وراثت‘ کے تمام افسانے نہایت خوبصورتی اور دلکش انداز میں لکھے گئے ہیں۔ جدید اسلوب کے ساتھ ساتھ استعارہ، تلمیح اور علامت پورے آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔ بقول ڈاکٹر محمد نور نبی انصاری:
شفق کی خوبی یہ رہی ہے کہ انھوں نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ فکشن کی تکنیک، اس کے موضوعات اور اسلوب کو برتنے کی کوشش کی اور اس میں وہ کامیاب ہوئے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانے نہ صرف یہ کہ قارئین کو بلکہ ناقدین ادب کو بھی متوجہ کرتے ہیں۔ ان کی حقیقت نگاری، ان کا سماجی سروکار، تہذیب و معاشرت کا المیہ ان کے خاص موضوعات ہیں۔ اس سلسلے میں خصوصی طور پر ان کا افسانہ ’وراثت‘،’خدا حافظ‘، ’چمڑے بھر زمین‘ وغیرہ اہمیت کے حامل ہیں۔
ایک ناول نگار کی حیثیت سے بھی شفق کا نام و کام جدید اردو ناول نگاری کی تاریخ میں نہ صرف قابلِ ذکر ہے بلکہ ایک خاص اہمیت و عظمت کا حامل ہے۔ 
جدید اردو ناول نگاری میں شفق ایک ایسا نام ابھر کر ہمارے سامنے آیا ہے جسے ہم کسی طور پر فراموش نہیں کرسکتے۔ شفق کے اب تک تین ناول کتابی شکل میں منظر عام پر آچکے ہیں۔ ان کا پہلا ناول ’کانچ کا بازی گر‘ 1982 میں نکھار پبلی کیشن، مؤ ناتھ بھنجن یوپی سے پہلی مرتبہ اور اس کی دوسری اشاعت ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی سے 2010 ہوئی۔ دوسرا ناول ’بادل‘ کے نام سے کراؤن آفسیٹ پریس، سبزی باغ، پٹنہ سے 2002 میں منظر عام پر آیا اور پھر تیسرا ناول بعنوان ’کابوس‘ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی سے 2003 میں شائع ہوا۔ 
شفق کے پہلے ناول ’کانچ کا بازی گر‘ نے اردو فکشن کی تاریخ میں فتوحات کے نئے جھنڈے گاڑ دیے۔ اس ناول ’کانچ کا بازی گر‘ نے اردو کے مشہور و معروف ناقدوں کو اپنی طرف متوجہ ہونے پر مجبور کردیا۔ ایک بالکل ہی نیا تجربہ تھا جس نے شفق کو اردو ناول نگاری میں ایک نیا وقار و اعتبار بخشا۔ بقول رضوان احمد:
’کانچ کا بازی گر‘ بندھے ٹکے اصولوں کے تحت نہیں لکھا گیا ہے اس لیے آپ اس کے زمان و مکان کردار اور محل وقوع کا تعین نہیں کرسکتے۔ بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے یہ ناول زمان و مکان سے ماورا ہے۔ اسے ماوراء عصر کہاجاسکتا ہے مگر آپ پڑھتے ہیں تو آپ بھی اس کے کردار بن جاتے ہیں۔ سب کو یہی احساس ہوتا ہے کہ یہ اس کی اپنی کہانی ہے۔۔۔۔۔۔ یہ ہمارے عہد کی المناک داستان ہی نہیں بلکہ ایک قیمتی دستاویز بھی ہے جسے شفق نے ناول کا روپ دے دیا ہے۔ آنے والا مورخ داستان ضرور لکھے گا لیکن شفق کے انداز میں نہیں لکھ سکتا۔ اس میں ہماری راہوں میں آنے والی دشواریوں کا ذکر ہے۔ ہمارے ذہنی کرب اور داخلی مشکلات کا بیان ہے۔ حالانکہ ساری باتیں علامتی انداز میں لکھی گئی ہیں مگر انہیں بھی سمجھنے میں دشواری پیش نہیں آتی۔ ان کی تحریر ترسیل کے المیہ کا شکار نہیں ہوتی بلکہ اسے پڑھ کر احساس ہوتا ہے یہی بات تو ہم بھی کہنا چاہتے تھے۔‘‘
اس ادبی صداقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ شفق نے اپنے اس ناول ’کانچ کا بازی گر‘ میں زبان و بیان اسلوب، تکنیک اور زندگی کی تلخ حقیقتوں کو جس طرح اس میں دکھایا وہ نہ صرف اردو ناول کی جدید تاریخ میں قابل ذکر بلکہ ایک خاص عظمت و اہمیت کا حامل بھی ہے۔ ناول کے دونوں مرکزی کردار منا اور بیوی کے علاوہ راجیش وغیرہ معاون کردار کے طور پر ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ڈوبتے اور اُبھرتے ہوئے ان کرداروں کے ذریعہ شفق نے وہ سب کچھ کہہ ڈالا ہے جو ہمارے معاشرے کے ارد گرد رقص کرتے ہیں۔ بقول مہدی جعفر :
’کانچ کا بازی گر‘ میں کم سے کم دو تہیں، ایک دوسرے سے لپٹی ہوئی آسانی سے پہچانی جاسکتی ہیں۔ ایک درونی تہہ جس میں مثلاً منا اور بیوی کی آوازیں بار بار ڈوبتی ابھرتی ہیں اور ایک عوام الناس کی خارجی تہہ جس کے درمیان تنظیم اور سیاست کا رقص آہنی جاری ہے۔ درونی تہہ میں جذباتی رشتوں کی المناک داستان صاف پہچانی جاسکتی ہے۔‘‘
شفق کا دوسرا ناول ’بادل‘ ہے جسے انھوں نے امن کے نام ’معنون‘ کیا ہے۔ اس ناول کو بھی ناول نگار نے اس کے اصلی و لغوی اور معنوی کے برعکس علامتی و استعاری انداز میں قلم بند کیا ہے۔ یہ وہ ’بادل‘ نہیں جو قدرت کے حکم سے برستے اور گرجتے ہیں۔ یہ وہ بادل ہے جو زمین کے خداؤں یعنی سُپر پاور کے ظلم و زیادتی، کرب و قہر دکھاتے اور کمزور، مظلوم پر بموں کی برسات کرکے زمین کو لہولہان کردیتے ہیں۔ ناول کا اصل موضوع 9/11 کے ورلڈ ٹریڈ ٹاور اور پنٹاگن پر کئی جہازوں کے ٹکرانے اور موت کی آغوش میں جاتے ہوئے اور بھاگتے دوڑتے انسانوں کے ارد گرد گھومتا ہے۔ حالانکہ ناول نگار نے مغرب کی عیاری و مکاری اور شاطرانہ چال کوبھرپور سامنے لانے کی کوشش کی ہے مگر بقول حسین الحق :
’’اس پورے قصّے میں افغانستان فٹ ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ یہ خالد کا کوئی نفسیاتی معاملہ ہوسکتا ہے مگر نعیم، سلمیٰ، رشمی اس پچڑے میں پڑتے دکھائی نہیں دیتے۔‘‘
میرے خیال میں یہ ناول اپنی تمام تر کمزوریوں اور خامیوں کے باوجود ایک کامیاب ناول ہے۔ اکیسویں صدی کے اس عظیم سانحہ پر اردو میں یہ پہلی کامیاب کاوش ہے۔ میری نگاہ میں شفق کا یہ ناول ’بادل‘ پڑھنے والوں کا دیر اور دور تک ساتھ دے گا۔ ناول نگار نے اپنے عہد کے ایک نہایت ہی سلگتے ہوئے موضوع کو صفحۂ قرطاس پر اتارنے کی پہلی مرتبہ کوشش کی اور اس کی افادیت و اہمیت تاریخی دستاویز کی ہے۔
’کابوس‘ شفق کا تیسرا اہم ناول ہے جس کے معنی عربی میں ایک مرض جسے انگریزی میں Incubs یا Nightmare سے موسوم کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی عجیب وغریب بیماری ہے جس میں مریض خواب میں ڈرا سہما اور خوف و دہشت کے کرب و اضطراب میں مبتلا ہوکر چیخنے اور چلانے لگتا ہے۔ بلکہ درودیوار سے خود ٹکرانے بھی لگتا ہے۔ یہ ایک بالکل ہی نفسیاتی معاملہ ہے۔ یہ ناول نگار کا آخری ناول ہے۔ شفق نے نہایت ہی ذہانت، بصیرت اور چابکدستی کے ساتھ اپنے اس ناول ’کابوس‘ کے اس عہد کے ان تمام مرحلوں اور منزلوں سے ہمیں روشناس کرایا ہے جو اب تک ادب کے ذریعہ ہم تک نہیں پہنچا تھا۔ صرف میڈیا کے ذریعہ کچھ مناظر کو اپنے انداز سے پیش کیا تھا۔ ایک حساس تخلیق کار و فنکار کی طرح شفق نے وہی کچھ لکھا جو انہوں نے پڑھا، سنا اور دیکھا تھا۔ بقول سید اشرف:
’’مصنف کے اضطراب کا یہ عالم ہے کہ اس نے مکالموں کے سہارے پورا ناول لکھ دیا۔ ماحول سازی کی ضرورت ہی نہیں سمجھی۔ یہ اور بات ہے کہ بیشتر مقامات پر تخلیقی آگ نے مکالموں سے ترسیل کا بھی کام لیا ہے اور ماحول سازی کا بھی۔‘‘
بہر کیف جدید اردو ناول کی تاریخ میں شفق کے یہ تینوں ناول ’کانچ کا بازی گر‘، ’بادل‘ اور ’کابوس‘ کی ادبی و علمی اہمیت، افادیت، جاذبیت اور تہہ داری آج بھی برقرار ہے اور مستقبل میں بھی ان ناولوں کو اس عہد کے درد و داغ کے حوالے سے ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔

Rabia Khatoon
Research Scholar, Dept Urdu
Magadh University, 
Bodhgaya-824234 (Bihar)




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں