10/12/18

اختر اورینوی کے افسانوں میں سماجی و طبقاتی شعور مضمون نگار:۔ سرور حسین






اختر اورینوی کے افسانوں میں سماجی و طبقاتی شعور

سرور حسین
علوم و فنون کا گہوارہ اور حکمت و دانش کی سرزمین، بہار جن جید عالموں، دانشوروں، عالی مرتبت شخصیتوں اور شعر و ادب کی ممتاز اور قد آور ہستیوں کو جنم دیتی آئی ہے ان میں اختر اورینو ی کی ذاتِ گرامی بھی قابلِ ذکر اور امتیازی کہلائے گی۔یہ واقعہ ہے کہ دنیا کی بلند اور اہم شخصیتیں اپنے نمایاں کارناموں اور امتیاز ات سے ہی پہچانی جاتی ہیں۔اختر اورینوی کی حیثیت بھی ان معنوں میں امتیازی کہی جائے گی کہ وہ زندگی کے نشیب و فراز اور حرکت و عمل پرگہری نگاہ رکھنے والے عالم اور دانشور ہی نہیں تھے،زندگی کے اس حرکت و عمل میں انسانی سماج اور تاریخ کے رشتوں کے عمل اور ردِ عمل کے روپ اور اثرات کو پیش کرنے کا ہنر جاننے والے کامیاب ادیب بھی تھے۔ان کی ادبی شخصیت ہمہ جہت تھی۔وہ بیک وقت شاعر بھی تھے،مقالہ نگار بھی اورصحافی بھی۔وہ تحقیق و تنقید کی خشک و خار زار وادیوں سے بھی دیوانہ وار گزرے۔ زندگی کو اسٹیج کے توسط سے پیش کرنے کا بیڑہ بھی اٹھایا اور ڈرامہ نگاری کی طرف مائل ہوئے۔ لیکن وہ شہسواربنیادی طور پر افسانہ نگاری کے میدان کے ہی تھے اور اسی راہ میں اپنے نقوش چھوڑ گئے۔
افسانہ نگاری سے رغبت کے پیچھے ان کی افتادِ طبع کا بڑا ہاتھ تھا۔ چونکہ وہ ایک حساس اور دد مند دل لے کر پیدا ہوئے تھے۔لہٰذا ان کی طبیعت ان کے جذباتی ردِ عمل کا اظہار بھی چاہتی تھی۔لیکن ان کی دھیمی اور نرم رو طبیعت کسی نعرے بازی یا ہنگامے کی متحمل بھی نہیں ہو سکتی تھی۔ افسانے کا فن حسن و تحمل،بالغ نظری، باریک بینی اور نرم روی کا متقاضی ہوتا ہے۔چنانچہ اختر اورینوی کی ہوش منداور سلجھی ہوئی نفیس طبیعت نے بجا طور پر اسے اپنے فکری و جذباتی ردعمل کے اظہارکے لیے موزوں وسیلہ سمجھا۔
لیکن اختر اورینوی کے لیے افسانہ تفریح طبع کا وسیلہ نہیں تھا۔وہ ادب برائے ادب کے کبھی قائل نہیں رہے۔وہ ادب کو زندگی کی حقیقی تصویر کشی سمجھتے تھے۔ اسی لیے ان کی نظر میں افسانہ نگاری محض فن کاری نہیں تھی بلکہ زندگی کی اعلیٰ قدروں کا اظہار اور اس کی مختلف صورتوں کو پیش کرنے کافنکارانہ ذریعہ بھی تھی۔ وہ افسانے کے توسط سے زندگی کو مجسم دیکھنا چاہتے تھے۔وہ انسان کے دکھ درد، اس کی چھوٹی بڑی خوشیاں،اس کی امیدو نا امیدی، اس کی کامرانیاں و محرومیاں جیسے ہر پہلو او رجذبے کی تصویر کشی کر کے قاری کے لیے غور و فکر کے مواقع فراہم کرنا چا ہتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ اپنے پیش روؤں میں نیاز فتح پوری اور سجاد حیدر یلدرم کی روایات سے انحراف کرتے ہوئے انھوں نے ایک طرف تخیئل پرستی سے بھی خود کو دور رکھا اور دوسری طرف رومانیت پسندی سے بھی گریز کیا۔ کیونکہ وہ زندگی کومحض اس کی موجودہ صورتوں میں پیش کر کے مطمئن ہو جانے کے قائل نہیں تھے۔ بلکہ وہ زندگی کی صورت گری میں بھی یقین رکھتے تھے۔ وہ زندگی کی ایسی صورت کی تخلیق کرنا چاہتے تھے جو ذات وکائنات کے حسن کی تکمیل میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہو اور انسانی فکر و عمل کا نصب العین بن کر تخلیق حیات کی اہمیت کو روشن کرتی ہو۔ اسی لیے انھوں نے حقیقت پسندی کے اصول کو رہنمائے فن بنایااور مقصدیت کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھا۔ ان کے سامنے پریم چند کے افسانوں کی مثالیں تھی۔وہ پریم چند کی حقیقت پسندی سے متاثر تھے تاہم مثالیت پسندی کو فنِ افسانہ نگاری کی روح کے منافی بھی سمجھتے تھے۔
اختر اورینوی کو زندگی سے بے حد پیار تھا۔ کیونکہ خود اپنی ذاتی زندگی میں دق کے مرض کا شکار ہو کر موت کی دستک بہت قریب سے سنی تھی اور موت کو شکست دے کر زندگی کوجینا تھا۔ موت کے سائے کو اپنے بہت قریب پاکر زندگی کی اہمیت ان پر روشن ہوئی تھی۔ زندگی جو انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔جو کائنات کے وجود کی شہادت ہی نہیں دیتی،اس میں رنگ بھی بھرتی ہے۔جو انسانی ذات کے لیے بے شمار خوشیوں اور تسکینِ روح کا ذریعہ بھی ہے۔ اس زندگی پر انسان کی گرفت کس قدر کمزور ہے انھیں اس کا گہرا احساس تھا۔ لیکن ان کی دور بیں نگاہوں سے وہ عناصر پوشیدہ نہیں رہ سکے جو زندگی کو انسان کے لیے تنگ،بے رونق اور نا قابلِ برداشت بنانے میں ہمہ دم مصروف ہو تے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایسے عناصر سل کے ان کیڑوں کی طرح ہوتے ہیں جو انسانی زندگی کواندر سے دیمک کی طرح چاٹ جاتے ہیں اور اسے زخمی کر کے خون تھوکنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔لہٰذا ان کیڑوں کو شکست دے کر ہی صحت مند زندگی کی توقع کی جا سکتی ہے۔
اختر اورینوی نے جس وقت افسانہ لکھنا شروع کیا تھا ہندستان پر برطانوی سامراج کااقتدار قائم تھا۔ دیہاتوں کی غریب رعیت انگریزوں کے وفادار زمینداروں اور سودخوروں کے مہاجنی نظام کی چکی میں پس کر بری طرح کراہ رہی تھی۔اس مہاجنی نظام کے زیرِ اثر گاؤں کے غریب کسان تیزی سے کھیت مزدوروں میں تبدیل ہوتے جا رہے تھے۔ دوسری طرف امیر کسانوں کی زمینوں میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔اور قحط اور دیگر قدرتی آفات کے سبب اکثرو بیشترگاؤں کی اکثریت کو فاقہ کشی کا سامنا بھی کرنا پڑرہاتھا۔ شہروں کی حالت بھی کم دگر گوں نہ تھی۔ یہاں کی معیشت پر انگریزوں کو کچا مال فراہم کرنے والے بچولیے سرمایہ داروں کا دبدبہ تھا جن کے کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی حالت نا گفتہ بہ تھی۔ ہاتھوں سے کام کرنے والے دستکاروں اور بنکرں کی حالت بھی غیر تھی۔ گھریلو صنعتوں کے دھیرے دھیرے تباہ ہو جانے اور برطانوی مال کی در آمدات کے سبب بیکاری بڑھتی جا رہی تھی۔ شہروں کا نچلا متوسط طبقہ ذہنی اور معاشی دونوں حالتوں میں پریشانیوں کا شکار تھا۔ اختر اورینوی کا شعور اس زمانے میں اپنی بلوغت کی سرحدوں میں قدم رکھ چکا تھا۔ وہ ایک حساس ذہن ہی نہیں سائنٹفک شعور کے بھی مالک تھے۔ چنانچہ ان حالات سے متاثر ہونا ان کے لیے نا گزیر تھا۔ ان حالات پر غور و فکر نے ہی ان پر انسانی فکر و عمل اور نفسیات کے کئی پہلو روشن کیے۔جن میں انسانی شخصیت اور کردار پرسماج کے ساتھ اس کے رشتوں کے پیچیدہ عمل کے مرتب ہونے والے اثرات بھی ان کی نگاہوں سے اوجھل نہیں رہ سکے۔ اپنے افسانوں میں ان اثرات کو تلاش کرنے کی انھوں نے ایماندارانہ سعی کی ہے۔ یہ رجحان ان کے افسانوں کے ابتدائی دو مجموعوں ’ منظر و پسِ منظر‘اور’ کلیاں اور کانٹے ‘میں اگر چہ خاص طور پر زیادہ واضح اور ٹھوس صورتوں میں سامنے آیا ہے تاہم ان کے دوسرے مجموعوں میں شامل افسانے بھی اس کی عکاسی سے عاری نہیں۔ اس سلسلے میں ان کے ’جونئیر‘،’ٹائپسٹ‘،’دو مائیں‘،’شکور دادا‘، ’ سکھ جہور‘ اور ’کلیاں اور کانٹے‘ جیسے افسانوں کی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ان افسانوں میں سماجی حالات کے گہرے نقوش کرداروں کے فکر و عمل کے توسط سے نمایاں ہو کر سا منے آئے ہیں۔ ذیل کے اقتباسات پر ایک نظر ڈالی جا سکتی ہے :
’’سلطنتِ مغلیہ ایک جیتی جاگتی،بولتی گرجتی بھر پور زندگی تھی۔اس کی شکست و ریخت کے بعد بھی اس کے ٹکڑے پرزے،ریزے ذرے ایک صدی بعد تک بھی ایک ٹوٹے ہوئے عظیم جہاز کے سمندر میں تیرتے ہوئے تختوں کی طرح سارے ہندستان میں بکھرے ہوئے تھے اور اب تک اِدھر اُدھر ان کے پریشان آثار ملک میں انقلابات کے با وجود نظر آ جا تے ہیں۔ہر قصبہ میں چھوٹی بڑی سرکاریں تھیں اور ان سرکاروں کی حویلیاں اور دیوان خانے تھے۔ ان حویلیوں میں بھانت بھانت کی مخلوقات رہتی تھیں اور نہ جانے کہاں سے آجاتی تھیں .......‘‘
(افسانہ ’ سکھ جہور‘...مجموعہ کیچلیاں اور بال جبرئیل)
’’اس نظام میں امیر اور صاحبِ مقدرت ہونے کے یہ معنی ہو تے ہیں کہ کمزوروں کی حق تلفی کر کے اپنے زور کو آزمایا جائے۔دادا نے جس اصولِ اقتصاد کے ہو شیارانہ استعمال سے شاہراہِ امارت پر پہلا قدم اٹھایا تھا اسی کے فلسفہ ......نے ان کی دراز دستیوں کی حمایت بھی کی اوروہ آغازِ دولت کی مجرمانہ لذت بخشیوں سے مسرور تھے۔‘‘(افسانہ ’شکور دادا‘.....مجموعہ ’کلیاں اور کانٹے‘)
’’بنواری سنگھ رام داس مہنتھ کا پیادہ تھا۔ بارہ گاؤں کا زمیدار، وشنو جی کے مندر کا سر پنچ،رام داس کا ہر طرف طوطی بولتا تھا۔ مذہبی پیشوا اور زمیندار، گؤ سیوا کا علبردار۔ اس نے کئی مندر بنوائے تھے اور گؤ پالن کی خاطر ایک شاندار گؤشالہ تعمیر کروایا تھا۔
کس کی مجال تھی کہ مہنتھ جی کے حکم کی سر تابی کرے۔مگر بھولو کے خیال سے ہر بنس اور گوری نے پیادہ کی بڑی منت و سماجت کی لیکن لا حاصل۔بلکہ اُلٹا اثر ہوا۔‘‘(افسانہ ’دو مائیں‘..مجموعہ’ ’ منظر و پسِ منظر‘)
اوپر کے اقتباسات میں جس سماجی صورتِ حال کی تصویر ابھرتی ہے وہ سماج کے مختلف طبقات میں نئی صف بندی کو جنم دینے میں بھی معاون ہوئی تھی۔اختر اورینوی نے اس طبقاتی تفریق اور کشمکش کا بھی باریکی سے مطالعہ کیا۔اس مطالعے کے عمل میں ترقی پسند تحریک نے بھی ان کی بھر پور معاونت کی تھی۔اس تحریک نے نہ صرف تخیئل پسندی اور رومانیت پرستی پر ضرب لگائی بلکہ انسانی زندگی کے نصب العین کو بھی واضح کیا۔ حسن کا نیا معیار وضع کیا۔مارکسی فکر و فلسفے کے اثرات نے انسانی اذہان کو تقدیر پرستی کی قید سے نجات دلانے اور اپنے قوتِ بازو پر بھروسہ کرنے میں مدد بہم پہنچائی۔نیز فن و ادب کی مقصدیت کو بھی واضح کیا۔ یہ اسی فکر و تحریک کا نتیجہ تھا کہ ہمارا شعر و ادب جو اس سے قبل تک بادشاہوں اور نوابوں کے عشرت کدے کی لونڈی بن کر ان کے لیے محض عیش و نشاط فراہم کرنے کا ذریعہ بنا ہوا تھااب ہمارے کھیتوں اور کارخانوں میں کام کرنے والے محنت کش عوام کے مسائل سے وابستہ ہوکر ان کے دلوں میں دھڑکنے لگا۔ملک کی بدلتی ہوئی معروضی صورتِ حال نئے تجربات کا پتہ دینے لگی۔ برطانوی حکمرانوں کے جانے کے بعد بھی جو نئے مسائل پیدا ہوئے وہ عوام کے لیے بے حد نا خوش گوار تھے۔ملک کی تقسیم، فرقہ وارانہ فسادات،معاشی اور سماجی استحصال کا مضبوط ہوتا ہوا شکنجہ،قومی سرمائے کے فروغ کے مسدود امکانات اور پسماندہ قومیتوں کی خود مختاری کے مطالبات کی پامالی جن نئے مسائل کو جنم دینے میں معاون ہوئی اس سے طبقاتی کشمکش کی نئی صورت پیدا ہوئی۔ آزادی کا خواب حقیقی معنوں میں شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔ آزادی انگریز حکمرانوں کے وفادار طبقات کے ہاتھوں میں ہی سمٹ کر رہ گئی۔ نئی صورتِ حال جہاں دیہاتوں میں کھیت مزدوروں اور غریب کسانوں کے لیے اور شہروں میں مزدوروں کے سامنے استحصال کے نئے مسائل لے کر آئی وہیں دیہاتوں اور شہروں دونوں جگہ متوسط طبقے کے لیے بھی نئے سوالات لائی۔لہٰذا طبقاتی کشمکش کے اس عمل میں مختلف طبقات کی اپنی مخصوص نفسیات کار گر رہی۔ اختر اورینوی نے مختلف طبقات کی اس نفسیات کا مطالعہ کیا۔ان کے افسانوں کے کردار اسی نفسیات کی ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں۔ اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ اختر اورینو ی محض پریم چند کی روایت کی توسیع نہیں کرتے بلکہ اردو افسانے کو ایک نئے عہدکے تقاضوں سے بھی رو برو کرتے ہیں جس کی پیروی ان کے بعدکے افسانہ لکھنے والے ان کے ہم عصروں کرشن چندر،راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی اور منٹو وغیرہ نے بھی کی۔
اختر اورینوی نے اپنے افسانوں کے تانے بانے ہر طبقے کے کرداروں سے بنے ہیں تا ہم ان کے زیادہ تر کردارمتوسط طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ان کے افسانوں میںیہ کردار جس طرح اپنی تمام تر خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ سامنے آتے ہیں اس سے اس طبقے کی نفسیات پر ان کی مضبوط گرفت کا پتہ چلتا ہے۔تا ہم اپنے کرداروں کی نفسیات کے تجزیہ میں ان کا انداز نہایت مشفقانہ ہو تا ہے۔ وہ اپنے کرداروں کو آزاد نہیں چھوڑتے بلکہ ان کی نفسیات میں اتر جاتے ہیں اور پھر ان کے عمل اور ردِ عمل کی صورت میں ظاہر ہو کرافسانے کی تکمیل میں معاون ہوتے ہیں۔ان کے افسانہ ’جونیئر ‘ میں جونیئر وکیل متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا ایسا ہی ایک کردار ہے جو حقیقت سے بے خبر ایک زوال آمادہ سماج میں ایک نہایت تابناک مستقبل کا خواب دیکھتا ہوا کچہری میں قدم رکھتا ہے۔تصور میں وہ اپنے آپ کو آنے والے دنوں میں بہت بڑے وکیل کے روپ میں دیکھتا ہے جس کی کچہری میں ہر طرف عزت اور شہرت ہو گی۔لہٰذا ہر روز آن بان کے ساتھ نئی امیدیں لے کر وہ کچہری آتا ہے لیکن شام کو مایوسی کے ساتھ نا مراد گھر لوٹ جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک دن بڑی مشکل سے کسی دلال کے ذریعے اسے ایک موکل ملتاہے جو محض ایک چونی کے عوض ایفی ڈیوٹ کرانے کی در خواست کرتا ہے۔تب وکیل کو اپنا خواب ہی نہیں اپنی پوری شخصیت لرزتی ہوئی محسوس ہو تی ہے۔ذیل کے اقتباس پر ایک نظر ڈالتے چلیں:
’’چلیے وکیل صاحب سکھدیو بابو ڈپٹی مجسٹریٹ کے اجلاس پر آفی دیوٹ کرا دیجیے۔ یہ رہی آپ کی فیس۔‘‘
موکل نے چونی وکیل کی طرف بڑھائی۔ وکیل مبہوت رہ گیا۔ وہ مجسم احساس درد تھا۔
’’اجی وکیل صاحب جلدی،اجلاس اٹھ نہ جائے ........میں مختار صاحب سے اب تک کرا لیتا آفی ڈیوٹ۔ میاں نجابت مجھے یہاں لے آئے۔ چونی پر بہتیرے راضی ہیں آپ کو کیوں تردد ہے۔آیئے چلیے۔‘‘
موکل کو اپنے کام کی عجلت تھی۔ وکیل کا یہ پہلا تجربہ تھا کہ وہ اتنا نیچے اتررہا تھا۔اس کی شخصیت لرز اٹھی مگر حقائق کے مطالبے کے سامنے اسے جھکنا پڑا ‘‘ 
(افسانہ’ جونیئر ‘،مجموعہ......منظر و پسِ منظر)
اوپر کے اقتباس سے جونیئر وکیل کی محض سماجی حیثیت کا ہی اظہار نہیں ہوتا بلکہ متوسط طبقے کی اس ذہنیت کا سراغ بھی ملتا ہے جو دن بہ دن سماجی طور پر نچلے طبقے کی طرف مائل بہ زوال ہونے کے با وجوداعلیٰ طبقے کے سائے میں ترقی کے خواب دیکھنے سے گریز نہیں کرتا۔ لیکن جب حقیقت کا پتہ چلتا ہے تواسے مایوسی اور فرسٹریشن کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔اس حقیقت کی ایک دوسری مثال شکور دادا کا کردار ہے :
’’دادا نے اپنے خاص سلوک سے رشید پلیٹئر کو اس بات کے لیے راضی کر لیا۔ گاؤں میں بانس کی زمینیں بھی خرید لی گئیں۔ شکور دادا بڑے اونچے ارادے رکھتے تھے۔ وہ اب جا کر محسوس کرنے لگے کہ امارت و دولت ان کے قدم چومنے والی ہے۔ رشید ان کے خواب کی تعبیر تھا۔ دادا زریں مستقبل کے بارے میں سوچتے رہے۔کھیت، ملکیت، دولت، اقتداراور شکور میاں سے یک لخت شکور بابو۔اس تصور میں ڈوب کر گاہ دادا سے ایسی ایسی حرکتیں سر زد ہو جاتیں جو مضحکہ انگیز ہوتیں۔وہ مستقبل کو اتناحقیقی سمجھ لیتے کہ حال کی حیثیت ان کی آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی اور ایک شیخ چلی کی طرح آئندہ آنے والے دنوں کے من مانے اقتدار کو برتنے بھی لگتے۔‘‘ 
لیکن شکور دادا کا یہ خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔ رشید نے نہ کھیت خریدا اور نہ جائیداد۔اور نہ دادا کو یہی معلوم ہو سکا کہ رشید کو پرو ویڈنٹ فنڈ کے کتنے پیسے ملے تھے۔یہاں تک کہ اس حسرت کو دل میں لیے وہ شدید بیمار پڑ گئے۔
’’چند مہینوں کے بعد دادا کے جگر کادرد بے حد بڑھ گیا۔ جگر میں زخم ہو گیا تھا۔ ایک مہینہ تک حالت بہت تشویشناک رہی۔ پھر وہ شام آگئی جو زندگی کی آخری شام ہوتی ہے۔ آدھی رات تک شکور دادا بے چینی سے کروٹیں لیتے رہے۔سب اعزہ جمع تھے۔دادی خاموش غمناکی میں ڈوبی ہوئی آنسوبہا رہی تھیں۔دادا نے آہستہ آواز سے رشید کو یاد کیا۔رشید ان کے نزدیک بلایا گیا۔ دادا نے اپنی ٹمٹماتی ہوئی آنکھوں میں زندگی کی ساری حسرتیں مجتمع کر کے نہایت پر سوز گلو گیر لہجے میں رشید سے دریافت کیا..... 
’’بیٹا! اب بھی بتا دے کہ تورے پروپھی.... ٹنٹ......فنڈ.....میں کتنا روپیہ ملا تھا ....بیٹا!کھیت.....‘‘
ان آخری الفاظ کے بعد وہ کچھ بول نہ پائے۔ مگر ان کی آنکھیں ملتجی تھیں.....رشیدنے ادھر اُدھر دیکھا۔پھر کچھ سوچ کر بولا.....
’’ماموں!اب اﷲاﷲکرو۔اﷲاﷲ!‘‘
آدھی رات کی تاریکی میں شکور دادا کی روح حلول کر گئی۔ نہ جانے کس گھڑی اُن کا دم نکلا۔اُن کی درد ناک آنکھیں ہنوز ملتجی تھیں۔‘‘
(افسانہ ’شکور دادا‘.....مجموعہ ’کلیاں اور کانٹے‘)
اختر اورینوی کی انسان دوستی اور درد مندی کا جذبہ نسلِ آدم کے درمیان کسی بھی قسم کی تفریق کو پسند نہیں کرتا۔ لیکن یہ تفریق عصری سماج میں انھیں اپنے معاشرے میں ہر طرف نظر آتی ہے۔خود غرض اور مفاد پرست انسانوں نے زندگی سے لے کر موت تک کودرجوں میں بانٹ رکھاہے۔اور ان درجوں کے حوالے سے انسان کی عظمت اور پستی کا معیار مقرر کر دیاہے۔ تا ہم وہ سمجھتے ہیں کہ انسانی سماج کی یہ درجہ بندی انسانی زندگی اور سماج میں نا ہمواری پیدا کرنے کا سبب ہے۔ ان کا خیال ہے کہ یہ سماجی ناہمواری ہی انسان کے دکھوں کی اصل وجہ ہے۔جو انسان کے احساسات و جذبات کو دق جیسے موذی مرض کی کیفیت میں مبتلا کردیتی ہے اور جس کے سبب انسانی زندگی ہر پل کھانستی اور خون تھوکتی ہوئی آخر کار موت سے ہمکنار ہو جاتی ہے۔ لہٰذا اس تفریق کا خاتمہ ہونا چاہیے تاکہ سماجی ناہمواری کا بھی خاتمہ ہو سکے۔ اسی لیے وہ سماجی نا ہمواری پیدا کرنے والے ایسے عناصر کی محض تصویر کشی نہیں کرتے، ان کے خلاف صدائے احتجاج بھی بلند کرتے ہیں۔ اگر چہ ان کے احتجاج کی لہر یں بلند و بانگ نعروں کی صورت میں ظاہر نہیں ہوتیں بلکہ نہایت دھیمے سُروں والی نرم رو ندی کی ایسی لہروں کی صورت میں ابھر کرسامنے آتی ہیں جو گہری کاٹ کی حامل ہوتی ہیں اور قاری کے احساسات کوجھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہیں۔ اپنے افسانے ’کلیاں اور کانٹے ‘میں ا س صورتِ حال کی ایک جگہ انھوں نے جن الفاظ میں تصویر کشی کی ہے وہ ہمارے سماج کے بد نما چہرے کو روشن کر دیتی ہے اور جسے دیکھ کر ہر مہذب انسان کو اس سماج سے نفرت ہو نے لگتی ہے :
’’درجہ اول کے کوارٹر تو خاصے مہنگے تھے۔ان کی اپنی شخصیت تھی۔وہ اسپتال نہیں گھر معلوم ہوتے تھے۔ ساٹھ روپیہ ماہوار ان کا کرایہ تھا۔ درجہ دوم کے چالیس روپیہ ماہانہ تھے۔ ایک مریض کو دو کوٹھریاں مل جاتی تھیں۔ ایک اپنے لیے اور ایک تیماردار کے لیے۔ تیسرے درجے کے معنی تھے ایک وسیع سا لا نبا چوڑا کمرہ۔ایک کمرے میں آٹھ پلنگ ہوتے تھے اور جب حیات کے لعب و لہو میں زیادہ تیزی ہو جاتی تو سل و دق کے جراثیم کے چند اور شکار آ جاتے تھے اور کمرے کی آبادی بارہ تیرہ تک پہنچ جاتی تھی۔ درجہ سوئم کا کرایہ پچیس روپئے ماہوار تھا۔موت اور زندگی کے درمیان بھی انسانیت درجوں میں بنٹی ہوئی ہے۔ گھر، اسپتال اور قبرستان ہر جگہ نمبر ایک، نمبر دو اور نمبر تین کی تفریق ہوتی ہے۔کالوں کاقبرستان، گوروں کا قبرستان،شرفاء کے مدفن اور غریبوں کے گورستان، ہر شہر، ہر قصبے اور ہر گاؤں میں پائے جاتے ہیں۔
صحت گاہ اسی کرّے پرقائم تھی اور اسی کے بھلے برے قانون کی پا بند۔‘‘ (کلیاں اور کانٹے)
سماج اور اس سماج کے خالق انسان کے بیچ رشتوں اور اس کی نوعیت پر اختر اورینوی کی گرفت گہری تھی۔وہ سماجی اور طبقاتی تفریق اور طبقات کی نفسیات سے ہی واقف نہیں تھے، طبقاتی اختلافات کی نوعیت کا بھی شعور رکھتے تھے۔ انھیں علم تھا کہ سماجی ناہمواریوں کے خاتمہ کے لیے سماجی تضادات کی تحلیل ضروری ہے جو طبقاتی جدو جہد کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ تاہم طبقاتی جدو جہد کے اس عمل میں طبقاتی کشمکش کی نوعیت کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ سماجی ارتقاء کی راہ میں بعض طبقات اور سماجی عوامل کے درمیان تضادات کی نوعیت کا جدل کی صورت اختیار کرنا نا گزیر ہے تا ہم بعض طبقات کے درمیان اختلافات کی نوعیت دوستانہ حیثیت کی حامل ہوتی ہے جسے باہمی صلاح و مشورے کے ذریعہ حل کیا جا سکتا ہے کیونکہ ان اختلافات کے باوجود وہاں ہمدردی او ربقائے باہم کا جذبہ ہمیشہ موجزن ہوتاہے جو اتحاد کے عمل کو فروغ دے کر سماج کے ارتقاء کی راہ ہموار کرنے میں مدد کرتا ہے۔ ذیل کا اقتباس کس قدر بلیغ ہے ملاحظہ کیجیے:
’’تیسرے درجے میں خلوت کا سکون اور مواقع نہ تھے۔لیکن اجتماع کا تنوع، ہمدردی اور رونق تھی۔ اے وارڈ کے علاوہ اپر سی وارڈ اور لوئر سی وارڈ کے درمیان بھی رقابتیں تھیں مگر یہ دوسری رقابت ولولہ انگیز اور عمل پرور تھی۔اپر اور لوئر محض زمین کے نشیب و فراز کا فرق تھا۔‘‘
(کلیاں اور کانٹے)
اختر اورینوی کا تخلیقی شعور انھیں انسان اور خصوصاً سماج کے دبے کچلے مجبور طبقے کے انسانوں سے پیار کرنے کی تحریک دیتا ہے۔یہی وہ شعور ہے جو ان کے افسانوں کو انسانی دکھ درد کی تصویر بنا دیتا ہے۔ اس درد میں ان کا اپنا درد بھی شامل ہوتا ہے ورنہ وہ یہ نہ کہتے کہ :
’’ تہذیب حاضر خودکشی کر رہی ہے۔ میں ہونے سے تنگ آگیا ہوں۔ لیکن یہ تمنا کیا اتنی سادہ اور سچی ہے ؟
1914-18تک میں نے ڈھائی کروڑ نفوس کو موت کے گھاٹ اتارا۔1939-45 تک میں نے ساڑھے چار کروڑ آدمیوں کو،اپنے اجزا کو، اپنے جگر گوشوں کو ذبح کر دیا۔ گولی مار دی،جلا دیا اور اس کے بعد بھی یہ جوئے خون جاری ہے۔میں آہستہ آہستہ اپنی رگیں کاٹ رہا ہوں۔ خون بہتا جاتا ہے۔ میں دھیرے دھیرے خود کشی کر رہا ہوں اپنے دل و جگر میں خنجر مار رہا ہوں۔
اگر شیطان، جبرئیل سے نہیں ..............مجھ سے پوچھتاتو میں بتاتا کہ 
قصۂ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو ؟
فرشتہ اور شیطان تو تماشہ دیکھتے رہے۔ صرف آدم کا قصہ ہی نہیں بلکہ کائنات کا مقصد بھی آدم کے خون سے ہی رنگین ہوا۔‘‘ (کیچلیاں اور بالِ جبرئیل)
اوپر کے اقتباس میں افسانہ نگار نے انسانی جبلت کے چہرے پر پڑی نقاب کو تار تار کر دیا ہے جس کے پیچھے سے اس کا اصلی چہرہ جب نمایاں ہو تا ہے تو دنیا ششدر رہ جاتی ہے۔ اس کی اس جبلت کے سبب دنیا قتل و غارت گری اور جنگ و جدل کے جس طوفان سے گزرتی رہی ہے اس نے انسانیت کے چہرے کو شرمندہ و خوار کر رکھا ہے۔ اس کی اسی حرص و ہوس، خود غرضی اور مفاد پرستی نے انسان کو طبقوں میں بانٹاہے اور انسانی زندگی کو کریہہ بنا دیا ہے۔جس سے نجات حاصل کیے بغیر دنیاکو خوبصورت اور انسانی زندگی کو خوشگوار نہیں بنایا جا سکتا ہے۔ تا ہم وہ اس بات سے بھی با خبر ہیں کہ نجات کا راستہ خاک و خون سے ہو کر گزرتا ہے۔اختر اورینوی کو احساس ہے کہ دنیا اور سماج پر قابض با طل قوتوں کو شکست دیے بغیرکسی مثبت تبدیلی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔اس احساس نے ہی ان کے افسانوں کو ہماری زندگی کی حقیقتوں کا اظہاریہ بنا دیا۔ان کی افسانہ نگاری اس احساس کا بین اظہار ہے جس سے ہمارا عصری سماج آج بھی دو چار ہے۔یہ صورتِ حال بجا طور پر عصرِ حاضرمیں بھی ان کی معنویت پر اصرار کرتی ہے اور آئندہ بھی کرتی رہے گی جب تک ہماراسماج ان مسائل سے نجات حاصل نہیں کر لیتا جو ان کی افسانہ نگاری کے محرک تھے۔ 

Sarwar Hussain
201, Shahid Place ,Samanpura
Patna-800014 (Bihar)
E-mail:syedhussain3343@yahoo.com
Mob: 91-94314 56492


اردو دنیا۔ شمارہ   اگست   2018


قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں