10/12/18

قاضی سلیم : ضمیر کی آواز کا شاعر۔ مضمون نگار:۔ ابرار رحمانی





قاضی سلیم : ضمیر کی آواز کا شاعر
ابرار رحمانی


قاضی سلیم27؍ نومبر1927 کو پیدا ہوئے تھے‘ اس طرح انھوں نے 78 سال کی بھر پور زندگی گزاری ہے۔ انھوں نے علی گڑھ سے بی اے اور عثمانیہ سے ایل ایل بی کیا تھا۔ انھوں نے بیک وقت ادب، سیاست اور سماج سبھی شعبوں میں دلچسپی لی اور ان سبھی میدانوں میں انھوں نے اپنا نقش قائم کیا۔
قاضی سلیم پیشے سے وکیل تھے اور تقریباً پندرہ برس سے بیماری کے سبب گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہے تھے۔انھیں 1980 میں اورنگ آباد حلقے سے لوک سبھا کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔وہ دس سال تک مہاراشٹر کی قانون ساز مجلس کے رکن بھی رہے۔ایساشاذ و نادر ہی ہوا ہے کہ ادیب کا تعلق براہ راست سرگرم عملی سیاست سے بھی رہا ہو۔ مولانا آزاد اورحسرت موہانی کی مثال شاذ ہی کہی جائے گی لیکن قاضی سلیم کا اختصاص یہ ہے کہ وہ عوام کے ذریعے منتخب پارلیمنٹرین تھے اور انھوں نے اپنے حلقہ اورنگ آباد کی بھرپور اورپرزور نمائندگی کی۔وہ جب بھی دہلی اپنے ساؤتھ ایونیو کے ایم پی کوارٹر میںآتے تووہاں بھی ملنے والوں میں ادیبوں اور شاعروں کا ہی تانتا لگا رہتا اور کبھی غیر رسمی شعری محفل بھی جم جاتی۔
1968 میں قاضی سلیم کا پہلا مجموعہ’نجات سے پہلے‘ شائع ہوا۔تعجب ہے کہ قاضی سلیم کے اس مجموعے پر تبصرہ آجکل میں پورے چارسال بعد شائع ہوا۔ رشید حسن خاں نے اپنے اس تبصرے میں لکھا تھا:
’’اس مجموعے کی بیشتر نظموں میں ابہام اس قدر ہے جیسے گہری کہرآلود صبح ہوتی ہے۔ کہیں کہیں مفہوم کی چمک دکھائی دے جاتی ہے اورپھراندھیرا اورسناٹا۔ جو لوگ اس انداز کی شاعری میں حسن وپسندیدگی کو دیکھ سکتے ہیں، ان کے لیے اس کا مطالعہ دلچسپ ہوگا۔
اس مجموعے میں بعض نظمیں ایسی بھی ہیں، جن میں آہنگ اوروضاحتِ اظہار دونوں عناصر پائے جاتے ہیں، لیکن یہ 1950-55 تک کی یادگار ہیں، جیسے عروس البلاد اوردھرتی تیرا مجھ سا روپ۔ ان میں معنویت کی سطح بلندہے اوراظہارکاحسن نمایاں ہے۔ لیکن مجموعے کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ شاعرنے جلد ہی اس پرانے پن سے پیچھا چھڑا لیا اور1960 کے بعد کی بیشتر نظمیں پرانے پن کے ہر الزام سے محفوظ ہیں۔ 1965 سے 1970تک کی جو نظمیں ہیں وہ 1955 کی نظموں سے مکمل طور پرمختلف ہیں اوراس خلفشار کی بہت اچھی طرح نمائندگی کرتی ہیں جو جدت کے نام پراردو شاعری میں رونما ہورہا ہے۔
بہرصورت اس طرح کے مجموعوں کی بھی ایک اہمیت ہے۔ اس عہد کی شاعری پرمفصل بحث کرنے والوں کے لیے مختلف قسم کی مثالیں فراہم کرنے کے یہ کام آسکیں گے۔ یہ خوبی بھی کچھ کم نہیں۔‘‘
ا س کے بعد ان کی ایک مثنوی ’باغبان‘ و’کف گل فروش‘ شائع ہوئی جو ان کی کلیات ’رستگاری‘ میں شامل ہے۔یہ تخلیق در اصل مثنوی کے فارم میں اپنے زمانے کی ہجو ہے۔ادبی پیرائے میں سماج ‘سیاست اور تمام معاصر مسائل پر قاضی سلیم نے اپنی برہمی اور تلخی کا اظہار کیاتھا۔ چنانچہ اس مثنوی میں طنز و استہزا کی لے کچھ زیادہ ہی تیز ہوگئی ہے۔گو کہ قاضی سلیم ترقی پسند تحریک کے دور سے شاعری کررہے تھے اور اپنے معاصرین میں انھوں نے اپنی شناخت بھی بنالی تھی۔ لیکن انھیں باضابطہ طور پر مسلم الثبوت شاعر کی حیثیت سے شمس الرحمن فاروقی نے ’نئے نام‘ کے تحت پیش کیا۔’نئے نام‘ میں ان کی تین نظمیں ’وائرس‘ وقت اور ’بے نظر میری آنکھیں‘ شامل ہیں۔ ’نئے نام‘ اردوا دب میں رجحانات کی سطح پر ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا کہ نئے نام کے بعد سے جدیدیت کا رجحان تیزی سے عام ہوا۔گرچہ اردو شاعری کے اس مختصر سے مجموعے پر بہت گفتگو ہوئی۔ حمایت میں بھی اور مخالفت میں بھی۔ حامیوں نے اسے جدید شاعری کا اصل نمائندہ قرار دیا تو مخالفین نے اسے چیستاں اور ترسیل و ابلاغ کا المیہ قرار دیا۔ لیکن قاضی سلیم کی شاعری بوجوہ ان سب الزامات کے باوصف اپنی حیثیت منوانے میں کامیاب رہی۔اگر یہ کہا جائے کہ نئے نام کے شاعروں میں قاضی سلیم کی شاعری نے سب سے زیادہ متوجہ کیا تو غلط نہ ہوگا۔
میرا جی چاہتا ہے میں یہاں ان کی مذکورہ تین میں سے دو نظمیں نقل کروں تا کہ ان کے شعری بساط کی ایک جھلک نظر کے سامنے آسکے۔قاضی سلیم کی ‘وائرس‘ ملاحظہ کریں۔۔۔
ابھی ابھی تو لب ملے تھے کتنے پیارسے/زباں پہ یہ کسیلا پن کہاں سے آگیا/مسیح وقت تم بتاؤ کیا ہوا/ذرا سی دیر کے لیے پلک جھپک گئی /تو راکھ کس طرح جھڑی


سناہے دور دیس سے/ کچھ ایسے وائرس ہمارے ساحلوں پہ آگئے/جن کے تاب کا ر سحر کے لیے/امرت اور زہر ایک ہیں/اب کسی کے درمیان کوئی رابطہ نہیں/کسی دوا کا درد سے کوئی واسطہ نہیں 


ہم ہوا کی موج موج سے /درد کھینچتے ہیں چھوڑتے ہیں سانس کی طرح
لہو کی ایک ایک بوند زخم بن گئی/رگوں میں جیسے بددعائیں تیرتی ہیں پھانس کی طرح
مسیح وقت تم بتاؤ کیا ہوا/دیو علم کے چراغ کا/ کیوں بھلا بپھر گیا/دھواں دھواں بکھر گیا

سنو کہ چیختاہے/’’کام ۔۔۔کوئی کام‘‘

کچھ نہیں /جاؤ ساحلوں کی سمت ہوسکے تو روک لو/اس نئے عذاب کو/یا کروڑوں سال کے لیے/ خد ا کی آخری شکست تک /سمندروں کی ریت چھانتے رہو
قاضی سلیم کی دوسری نظم ’وقت‘کے عنوان سے ، اس انتخاب میں شامل ہے،کچھ اس طرح ہے:
ایک‘/ پھر دوسری‘ /پھر تیسری‘
اور اب تو پیہم/ گھڑ گھڑاہٹ کی مسلسل چوٹیں‘
میرے اعصاب پہ پڑنے لگیں/تب ریل کی رفتار بڑھی
بھاگتے پیڑ/چٹانیں/کھمبے
پاس سے گزرے تو آواز ملا کر چیخے
شور ہی شورہے/یہ شورمگر
اپنا اظہار ہے اثبات ہے ہر شے کے لیے
آسماں سرخ ہے/اب بھی وہ ستارہ تنہا
نگراں ہے مرے ہر کرب کا/یہ کہتا ہے
’’عمر اک چیخ کی میعاد ہے/تم بھی چیخو.....
اتنی شدت سے کہ مدت تک/وقت کو یاد رہے
جنگلوں اور پہاڑوں میں یہ فریاد رہے‘‘


آ ہنی پہیوں نے، فولادی زباں میں اپنی/بات دہرائی، یہ آواز تھی جانی بوجھی
ایسے مانوس تھے الفاظ جنھیں عمر تمام/ سنتے رہتے ہیں مگر سیکھ نہیں پاتے ہیں
آج بھی دیر تلک سنتا رہا /ثانیے
ساعتیں/شام اور سحر/منزلیں کٹتی رہیں۔۔۔وقت چلا
دھیرے دھیرے میری رگ رگ میں لہو کی گردش
دور و نزدیک بے درد کشاکش سے ملی/ گھڑگھڑاہٹ سے ہم آہنگ ہوئی
اب ہوں میں جزو اسی کا شاید/آ ہنی پہیہ ہوں ‘ اک ایسا تسلسل ہوں /کہ جس کے کوئی معنی ہی نہیں
پچھلی ضربات سے ہر ضرب نئی/ایسے مل جاتی ہے جیسے اس میں/ کسی احساس کا فریاد کا وقفہ بھی نہیں۔
یہ بھی عجیب اتفاق ہے یا پھراسے قاضی سلیم کا منصوبہ بند پروگرام کہناچاہیے کہ 1967 میں ’نئے نام‘ شائع ہوا جس میں ان کی ادبی انگڑائی کی ایک جھلک نظر آتی ہے اور 1968 میں ان کا پورا مجموعہ ’نجات سے پہلے‘ شائع ہوا اور اسی کے ساتھ وہ عصری ادبی منظر نامے میں اپنا اہم مقام بنانے میں کامیاب رہے۔یہ وہ دورتھا جب نظمیہ شاعری میں افتخار جالب، باقرمہدی، بشر نواز، بلراج کومل، بمل کرشن اشک، حمید الماس، راج نرائن راز، زبیر رضوی، شاذ تمکنت، سلطان اختر، شہاب جعفری، شہریار، عادل منصوری، کمار پاشی، محمد علوی، محمود ایاز، مخمور سعیدی، مصحف اقبال توصیفی، وحید اختر اور وہاب دانش جیسے اہم نام شامل تھے، اور جنھوں نے غزل گوئی پر نظم نگاری کوترجیح دی لیکن ان میں سے بیشتر چیستانی اور لایعنیت کا بھی شکار ہوئے۔ 1968کا ہی سال ہے جب قاضی سلیم نے ایک جلسے میں ایک ادبی منشور پیش کردیا جس میں انھوں نے ایک طرح سے ترقی پسندی اور جدیدیت دونوں سے ہی بیزاری کا اظہار کیا تھا۔قاضی سلیم کو اپنا یہ ادبی منشور اس قدر عزیزرہا کہ جب 2003 میں یعنی پورے35 سال بعد نورالحسنین کے اشتراک سے ایک سہ ماہی رسالہ ’دل رس‘ کا اورنگ آباد سے اجرا کیا تواس رسالے میں پھر سے ایک بار اس منشور کو پیش کردیا کہ ان کی نظر میں یہ ہر دور کے لیے قابل قبول ہے۔ راقم نے دل رس کے افتتاحی شمارے پر تبصرے کرتے ہوئے لکھا تھا:
’’اردو رسالوں کی یو ں تو کمی نہیں‘ بلکہ کہیں تو اس میں روز افزوں اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے۔ایسے میں جب کبھی کوئی اچھا رسالہ نظروں سے گزرتا ہے تو فطری طور پر جی خوش ہوتا ہے۔ سرزمین دکن (وجد میموریل ٹرسٹ، نزد بھڑکل گیٹ‘ اورنگ آباد۔431001)سے جاری ہونے والا رسالہ’ د ل رس‘ایک ایسا ہی رسالہ ہے، جس سے ہم توقع کرسکتے ہیں کہ یہ تشنگانِ ادب کو ایک طویل عرصے تک سیراب کرتا رہے گا کیوں کہ اس کے حلقۂ ادارت میں محترم قاضی سلیم اور برادرم نورالحسنین کے علاوہ ڈاکٹر مظہر محی الدین، محمد خواجہ معین الدین اور شاہ حسین نہری جیسے صاحبان علم و فن شامل ہیں۔ ان کے علاوہ مجلس مشاورت میں اٹھارہ اصحاب کے نام بھی اس رسالے کی زینت بڑھارہے ہیں جن میں بشر نواز اور م۔ناگ کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔اب یہ دونوں ہی راہی ملک عدم ہوئے۔
رسالے میں ایک خاص چیز اس کا افتتاحیہ ہے جس کی وجہ سے رسالہ’ دل رس‘ کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ قاضی سلیم نے اپنے افتتاحیہ میں 1968 کے ایک جلسے میں جدید شاعری پر پیش کیے گئے اس چھ نکاتی منشور کو پھر سے پیش کیاہے جسے قاضی صاحب نے ہر عہد کی اچھی شاعری کے لیے میزان سے تعبیر کیا ہے:
1۔ ذات اور شعور کی ساری پناہ گاہیں پاش پاش ہوکر بکھر گئی ہیں۔اس جہنمی صورت حال سے نکلنے کے لیے پنڈورا کے صندوق میں ایک ہی امید بچی ہے اور وہ ہے آرٹسٹ کا ضمیر، اس لیے ہم تمام فلسفوں اور نظریوں میں آزاد ضمیر کے آگے جوابدہ ہیں۔
2۔ ہم زندگی کے دوسرے شعبوں کے متوازی، فن کے علاحدہ وجود کا اثبات کرتے ہیں۔ اس میکانکی جبریت کے عہد میں ہم آرٹ کی جمالیاتی اور سماجی ضرورت پر گواہی دیتے ہیں۔
3۔ ہم مبہم تعمیمات(Vague Generalisation) کی بجائے اپنے ذاتی ردعمل کے مختصر اظہار کو فن کی بنیاد سمجھتے ہیں۔ اس لیے ہماری شاعری بھی ہماری صورتوں کی طرح مختلف اور منفرد ہوگی۔
4۔ ہم گھسے پٹے درسی معیارات، سکہ بند انداز بیان اور زیبائشی لفاظیوں کی بجائے اظہار و بیان کے ہر نئے امکان کو لبیک کہتے ہیں۔اس لیے لفظ، استعارے، علامتیں یہ سب زبان کی توسیع کا وسیلہ ہوں گے۔
5۔ ہم ترسیل و ابلاغ کو فن کا ایک چیلنج سمجھ کر قبول کرتے ہیں۔یہ چیلنج تخلیق کار اور قاری دونوں کے لیے ہوگا۔
6۔ ہم روایات کا احترام کرتے ہیں، چاہے وہ ہماری روایات ہوں یا کسی اور زبان سے حسن وآہنگ کی صورت میں زمان و مکان کو پھلانگتی‘ ہم تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی ہوں۔‘‘
مندرجہ بالا منشور کے نکات پر بحث کی پوری گنجائش ہے اور ہمیں اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔اس منشور میں قاضی سلیم نے آرٹسٹ کا ضمیر اور ضمیر کے آگے جواب دہی کی بات کی ہے۔سچی بات یہ ہے کہ ایک فن کار کا اپنے ضمیر کے تئیں جوابدہ ہونا ہی اس کے سچے اور کھرا ہونے کی دلیل ہے۔ یہی وہ حد فاصل ہے جو فن کاراور غیر فن کار(یا نام نہاد اداکار) میں فرق کرتاہے۔یہی وہ ضمیر اور ضمیر کے آگے جواب دہی کا احساس ہے جو اس کے فن کو پائیدار، زندہ اور پائندہ بنادیتا ہے۔ادیبوں کے بھیس میں غیر ادیب کے فن پارے اسی وجہ سے بہت جلد بھلا دیے جاتے ہیں یا وہ خود طاق نسیاں کی نذر ہوجاتے ہیں۔یہاں قاضی سلیم کی مشہور و معروف نظم ’بے ضمیری‘ نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے:
زمیں گھومی/ ہوا بدلی/چلو موسم بدلتاہے
/سلیم اب تم پہاڑوں سے اترآؤ
وہ دیکھو چیونٹیوں کے پر نکل آئے/فضائے بیکراں میں
موت کی وادی میں
اڑتی پھر رہی ہیں آج کتنی بے نیازی سے
کہ جیسے مطمئن ہیں مکڑیوں کی سرفرازی سے
سلیم اب تم پہاڑوں سے اتر آؤ
تمھاری دور کی آواز کیسے گونج بن کر/پلٹ آئی ہے
شاید بستیوں کے سبھی بارود گھر سیلے ہوئے ہیں
کوئی ہتھیار صحیح سالم نہیں ہے
نکیلے دانت ‘کانٹے‘ ڈنک ‘ناخن
حفاظت کے سبھی سامان جیسے چھن چکے ہیں
اندھیرے کی پنہ گاہوں میں 
سحر سامری سے/آج سب مبہوت ہیں 
ہاتھ پاؤں ذہن سب مفلوج ہیں
سونے کا بچھڑا بولتاہے
تبھی تو ظالموں سے درد کا رشتہ جڑا کر
خدا کی گود میں آرام سے سوتے ہیں جب سب پیمبر
یہ کس کا درد سہتے ہیں/ یہ کس کا پاس رکھتے ہیں
خود اپنی موت کی نظارگی کا زخم دے کر
درندوں کی نگاہوں سے 
الوہی روشنی کی آس رکھتے ہیں
سلیم اب تم پہاڑوں سے اتر آؤ
تمہارے راز تم ہی جانتے ہو
یہ سب کچھ جھوٹ ہے ‘ اک ڈھونگ ہے
ہم میں کوئی/ایوب ہے‘ بدھ ہے‘ نہ عیسیٰ ہے
بس اتنا ہے/ تمہارا اپنا شیطان مرچکا ہے
اس نظم میں زمیں کا گھومنا ،ہوا کا بدلنا، موسم بدلنا، پہاڑوں سے اتر آنا، چیونٹیوں کے پر نکل آنا، مکڑیوں کی سرفرازی، بارود گھر کا سیلنا، نکیلے دانت، کانٹے، ڈنک، ناخن وغیرہ علامات و استعارات سے شاعر نے کام لیتے ہوئے زمانے کی بے ضمیری پر بھر پور وار کیا ہے۔اسی طرح ایوب، بدھ اور عیسی کا صرف نام لے کر خوب صورت تلمیحات استعمال کیا ہے۔اپنے خوب صورت ڈکشن، اسلوب اور پیرایہ اظہار کے سبب یہ نظم اس وقت کافی مقبول ہوئی تھی۔ گیان پیٹھ نے 1985 میں ہندوستانی زبانوں کی شاعری کے انتخاب ’بھارتیہ کویتائیں‘میں نظم بے ضمیری کو بطور خاص شامل کیا ہے۔
قاضی سلیم نے اس میکانکی جبریت کے عہد میں آرٹ کی جمالیاتی اور سماجی ضرورت پر زور دیا ہے۔ قاضی سلیم ترقی پسند تحریک کے دور میں بھی فعال تھے اور لکھتے پڑھتے رہتے تھے اور جب جدیدیت کا غلغلہ ہواتو یہاں بھی وہ صف اول میں نظر آئے۔ ان کا خاص کمال یہ ہے کہ انھوں نے ترقی پسندی اور جدیدیت دونوں کی اچھائیوں اور خوبیوں کو کشید کیا اور اپنے فن پارے کو اسی کشید کیے ہوئے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی چنانچہ وہ نہ صرف آرٹ کی جمالیاتی اور سماجی ضرورت اپنے معاصرین کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ ان کی شاعری بھی خود اسی سانچے میں ڈھلی ہوئی نظر آتی ہے۔ ان کی نظم ’دوسری کربلا‘اس پس منظرمیں خاص اہمیت رکھتی ہے:
کوکھ صحرا کی کتنی ہری ہے
کیکٹس کے ابھرتے ہوئے ہاتھ/...ہاتھوں میں 
کانٹوں بھری انگلیاں /کانٹوں بھری انگلیوں سے
پھوٹتے151 انگنت ہاتھ /151151ہاتھوں میں
کانٹوں بھری انگلیاں /کیا تم نے دیکھے ہیں
وہ پیڑ جو بے زمیں ہیں/اپنے ہی جسم میں دوڑتی 
بے محابہ جڑیں/پتھروں کی رگیں/جانتی ہیں
روئیدگی کے خزانے/شہیدوں کے خون میں
چھپے بارود خانے
اے خدا/ہجرتوں کی گھڑی ہے
سرزمیں تیرے وعدے کی/151شاید قریب آچکی ہے
کوئی جی کر دکھائے/موت پرفتح پانے کے ارمان میں
یہ تو تیرا کرم ہے/دیت کا دودھ اترا ہے
بگولوں کے پستان میں/کینہ پرور ہواؤں کی سازش کو 
151سب جانتے ہیں/شاید اسی واسطے
آج اتنا لہوجسم میں جوڑ رکھا ہے
151جو چیروتواس زندگی کا/151ٹپ ٹپ گرے 
کاٹتے جاؤ/کانٹوں بھری انگلیوں سے
جسم سالم ابھر آئیں گے/جسم سے پھوٹتے 
انگنت ہاتھ /ہاتھوں میں /کانٹوں بھری انگلیاں
قاضی سلیم علامات اور استعارات کا خوب استعمال کرتے ہیں لیکن مبہم تعمیمات کے قائل نہیں۔حالانکہ یہ ان کے دور کا غالب رجحان رہا۔ مبہم تعمیمات کے دور میں بھی اپنے ذاتی رد عمل کو ہی انھوں نے فن کی بنیاد قرار دیا۔انھوں نے اسے ایک انتہائی خوب صورت تشبیہ کے ذریعے سمجھاتے ہوئے کہا کہ ہماری شاعری بھی ہماری صورتوں کی طرح مختلف اور منفرد ہونی چاہیے۔ انھوں نے ایک طرح سے ترقی پسندی کی یکسانیت بو رنگ اوراکتا دینے والے اور جدیدیت کے معمہ اورلایعنیت دونوں پر تنقید کی ہے۔
قاضی سلیم ہمیشہ اظہار و بیان کے ہر نئے امکان کے قائل رہے۔چناں چہ انھوں نے گھسے پٹے درسی معیار اور سکہ بند انداز بیان اور زیبائشی لفاظیوں سے نہ صرف خود اجتناب کیا بلکہ اس کی تلقین بھی کی ہے۔انھوں نے لفظ استعارے اور علامتوں کو محض زبان کی توسیع کا وسیلہ گردانا ہے۔ 
قاضی سلیم جس زمانے میں اپنی تخلیقیت کے عروج پر تھے اور اختر الایمان وغیرہ کے بعد ان کی شاعری کا شہرہ تھا، اس زمانے میں بھی انھوں نے اپنی تخلیق کو چیستاں نہیں ہونے دیا۔یہ وہ دور تھا جب ہرشاعر وادیب چیستانی کے فیشن یا زعم میں ترسیل و ابلاغ کی ناکامی کا شکار ہورہا تھا۔ چنانچہ اس زمانے میں فیشن کے ساتھ رہتے ہوئے بھی فن کی ترسیل اور ابلاغ کے اس عصری چیلنج کو نہ صرف قبول کیا بلکہ اس سے نمٹنے کی بھر پور کوشش بھی ہے اور اس میں بڑی حد تک وہ کامیاب بھی رہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ وہ ان تمام مسائل سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف اپنی روایات کا پاس اور لحاظ رکھا بلکہ دوسری ز بانوں کی روایات کو بھی عزیز جانا او راس کے حسن آہنگ کو اپنایا جو بلاشبہ کبھی ترجموں کی صورت میں تو کبھی تبادلہ خیالات اور آدان پردان کے توسط سے ہم تک پہنچتی رہی ہیں۔ قاضی سلیم نے آزاد ضمیر کی یہ باتیں 1968 میں کہی تھیں لیکن آج50 سال بعد بھی حسبِ حال لگتی ہیں۔یہی وہ نقطہ ہے جو قاضی سلیم کی معنویت کو برقرار رکھنے کے لیے کافی ہے۔


Dr. Abrar Rahmani
Editor 'Yojna' Urdu



قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں