10/12/18

اردو افسانے کے رجحانات مضمون نگار:۔ مسعود جامی





اردو افسانے کے رجحانات
مسعود جامی


’اردو افسانے میں اولیت کا سہرا‘ جیسے موضوعات سے زیادہ اہم بات ہے کہ افسانے کی ابتدا کن حالات میں ہوئی اور اسے کن تحریکات و رجحانات نے متوجہ کیا۔ اس ضمن میں یہ بات مان لینی چاہیے کہ افسانہ جس عہد میں اردو میں آیا وہ رومانی تحریک اور حقیقت پسندی کے مابین کشمکش کا دور تھا۔ چند ایسے قلمکار تھے جو رومانی طرز کے افسانے لکھ رہے تھے اور داستانی فضا کو بھی اپنے افسانوں میں بیان کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ دوسرا طبقہ وہ تھا جو حقیقت پسندی کی طرف مائل تھا۔ ساتھ ہی وہ حب الوطنی کے جذبے سے بھی سرشار تھا جس کی واضح مثال پریم چند کا پہلا افسانوی مجموعہ ’سوزِ وطن‘ ہے۔ افسانہ نگاروں کی بھیڑ میں اپنی انفرادیت ثابت کرتے ہوئے انھوں نے شہری مسائل کو چھوڑکر دیہی مسائل کو بیان کیا اور انہی اجزا کو 1936 میں ترقی پسندوں نے اختیار کیا اور پریم چند کی روایت کو آگے بڑھانے والوں نے اسی بنیاد پر اپنی تخلیقات پیش کیں۔ اسی زمانے میں ’انگارے‘ کی شہرت خاص و عام میں ہوئی۔ اگر آج مجموعے میں شامل ان افسانوں کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات صاف طور پر عیا ں ہوتی ہے کہ ان افسانوں میں ایسی کوئی بات نہیں جو کسی کی دل آزاری کا سبب بنے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس وقت کے لیے یہ نئی بات تھی۔ ان افسانوں میں سنجیدگی و متانت کے بجائے سماجی رجعت پسندی اور دقیانوسیت کے خلاف غصہ اور ہیجان زور آور تھا۔ 1936 کے قریب چند نئے اثرات و عوامل نے اردو افسانے کو نئے تناظر اور نئی وسعت سے روشناس کرایا۔ یوں تو حقیقت نگاری کی ابتدا پریم چند کرچکے تھے اور خود ان کے اعتراف کے مطابق انھوں نے ٹالسٹائی سے سادگی اور حقائق کی عکاسی سیکھی تھی اور انگارے کے مصنّفین کا مقصد بھی یہی تھا جس کی وجہ سے انھوں نے ہندوستانی زندگی کی مسلمہ قدروں پر چوٹ کی تھی۔ لیکن سماجی موضوعات پر ان کا رویہ جارحانہ اور سنسنی خیز تھا۔ ان کی بے اعتدالی خصوصاً جن موضوعات کے بیان میں اور ان کی باغیانہ بے باکی عام طور سے قابل قبول ثابت نہیں ہوئی لیکن اس سے حقیقت نگاری کی رفتار تیز ہوگئی۔
1936 کے لگ بھگ اردو ادب میں ترقی پسند تحریک کی ابتدا ہوئی ہر چند کہ اس تحریک کی شکل شروع میں واضح نہیں تھی لیکن بعد میں اس کے نقوش واضح ہوتے چلے گئے۔ ترقی پسند تحریک، ادب کو زندگی اور عصر کے رواں منظرنامے کے مرکزی دھارے سے ملانے کی شائستہ اور حرکی قوت کا نام ہے جس نے غلامانہ سوچوں کی قدیم بوسیدہ اور شکستہ دیواروں کو مسمار کرکے ادب کو روشن فکر سے آشنا کیا۔ آزادی سے قبل اردو افسانے میں جن افسانہ نگاروں نے اپنی شناخت قائم کی ان کی فہرست طویل ہے۔ بیدی، غلام عباس، منٹو، احمد ندیم قاسمی، کرشن چندر، خواجہ احمد عباس، عصمت چغتائی، اوپندرناتھ اشک، بلونت سنگھ، عزیز احمد، اختر انصاری، سہیل عظیم آبادی، کوثر چاندپوری، ممتاز مفتی، محمد حسن عسکری وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
ترقی پسند تحریک سے قبل اردو افسانے میں حقیقت نگاری کے کوئی واضح نقوش نہیں تھے۔ اور یہ بات بھی واضح رہے کہ مندرجہ بالا افسانہ نگار کچھ ایسے بھی تھے جنھوں نے ترقی پسندی سے الگ اپنی راہ بنائی۔ ترقی پسند تحریک نے حقیقت نگاری کے اصول کو وضع کیا۔ حقیقت پسندی سرسید کی عقلی اور سائنسی نقطۂ نظر کی بنیاد پر عینی و ماورائی نقطۂ نظر سے ردعمل کے طور پر پیدا ہوئی ۔ ترقی پسند ادب بڑی حد تک مقصدی ادب ہے لیکن مقصدی ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں پروپیگنڈے کے عناصر بھی شامل ہوگئے ہیں۔ حقیقت پسند تحریک کے قیام کے ساتھ ہی اس کے خلاف ایک ردعمل بھی سامنے آنے لگا۔ وہ افسانہ نگار جو ترقی پسندوں کے تصورات سے متفق نہ تھے روایت کے حوالے سے ہی لکھتے ہے۔ کچھ افسانہ نگاروں نے مغربی اثرات کے تحت نئی تکنیک، اسالیب اور فکری نیا بت کا چلن اختیار کیا۔ اسی زمانے میں چند ایسے قلمکار بھی تھے جو جنس کے موضوع پر افسانے لکھ رہے تھے۔ ایسے افسانہ نگاروں میں عسکری، ممتاز، عزیز احمد شامل ہیں۔ یہ افسانہ نگار Biological Naturlism سے متاثر ہیں۔ احمد ندیم اور غلام عباس نے سماجی موضوعات پر پنجاب کی علاقائی زندگی کی عکاسی کی ہے۔ ابوالفضل صدیقی نے جاگیردارانہ نظام اور شکار پر چند اچھی کہانیاں لکھی ہیں۔
آزادی کے بعد تقسیم ہند اور فسادات کے جذباتی عناصر کے اثرات پر گفتگو کرنے کے لیے اوّلین سطح پر یہ دیکھنا ضروری ہے کہ یہ اثرات خود کیا تھے۔ تقسیم ہند اور قیام پاکستان کوئی معمولی واقعہ نہ تھا۔ ہزاروں سال سے متحد ایک خطہ ارضی کا مذہبی بنیاد پر دو حصوں میں منقسم ہوجانا تاریخ کا ایک انوکھا باب تھا۔ اس سانحہ کااثر اردو ادب پر بھی پڑا اور اسی پس منظر میں بہت سے افسانے تحریر کیے جانے لگے اور ادب کے موضوع میں فسادات، ہجرت کا کرب وغیرہ جیسے موضوعات بھی قلم بند کیے گئے۔ یوں تو تمام اصناف میں تقسیم ہند اور فسادات کی تاریخ محفوظ ہے لیکن افسانے نے جس طرح واقعات کو اکٹھا کیا ہے اس کی کوئی اور مثال دستیاب نہیں۔ یہ افسانے کا ایسا دور تھا جب حقیقت پسندی عروج پر تھی۔ ترقی پسند تحریک نے جس قدر و معیار کے افسانہ نگار پیدا کیے وہ چہل پہل کسی دوسری صنف میں دکھائی نہیں دیتا۔ منٹو، کرشن چندر، احمد ندیم قاسمی، راجندر سنگھ بیدی ایسے ہی نام ہیں جو اسلوب میں ایسی قدرت رکھتے تھے کہ نہ صرف واقعات کو ان کی گہرائی میں جاکر دیکھ سکتے تھے بلکہ انتہائی جذبات و احساسات کی اتھاہ گہرائیوں میں بھی اتر سکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس عہد کا کوئی بھی قابل ذکر افسانہ نگار ایسا نہیں ہے جس نے تقسیم ہند اور فسادات کو موضوع نہ بنایا ہو۔ تقسیم کے بعد ابھرنے والے افسانہ نگاروں میں انتظار حسین، قرالعین حیدر، قدرت اللہ شہاب، ہاجرہ مسرور، شوکت صدیقی وغیرہ اہم ہیں۔
اس ضمن میں منٹو کا ٹوبہ ٹیک سنگھ، قرۃ العین حیدر حیدر کا ’جلاوطن‘، قدرت اللہ شہاب کا ’یا خدا‘، احمد ندیم قاسمی کا ’پرمیشر سنگھ‘، انتظار حسین کا ’بن لکھی رزمیہ‘ ناقابل فراموش افسانے ہیں۔ فسادات کے بعد، ہجرت کا کرب، افسانے کا سب سے بڑا موضوع ہے۔ فسادات اپنی نوعیت کے اعتبار سے کتنے ہی خوف ناک کیوں نہ ہوں، ان کی نوعیت عارضی ہوتی ہے کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زخم مندمل ہوجاتے ہیں۔ جبکہ ہجرت کے اثرات دور رس ہوتے ہیں اور یہ نسل در نسل صدیوں تک اپنے اثرات دکھاتے ہیں۔ Nostalgia یعنی شدید یاد ماضی کے افسانے جتنے انتظار حسین نے قلم بند کیے کسی دوسرے نے نہیں۔ قیوما کی دکان، خریدو حلوا بیسن کا، اجودھیا، محل والے اور سانجھ بھئی چودیس قابل ذکر افسانے ہیں۔ اس زمانے میں انتظار حسین کے افسانوں میں کہیں کہیں قطعی اور دو ٹوک اسلوب بھی دکھائی دے گا۔ اس طرح ترقی پسند تحریک کے زیراثر اردو افسانہ نے بہت ترقی کی اور لازوال افسانہ نگار پیداہوئے۔ تقسیم کے بعد ادب کا موضوع بدلا تو جدیدیت نے دھیرے دھیرے اپنا کام کرنا شروع کیا اور 1960 کے بعد اردو افسانے میں علامت اور تجرید جیسے اصطلاحات سنائی دینے لگے۔
جدیدیت، فرد کی داخلی جلاوطنی اور بے پناہی کی ترجمانی و تنقید ہے جس کے نتیجے میں فرد تنہائی، الجھن، بے گانگی، اجنبیت، بے معنویت، مہملیت اور بے زاری کی کیفیت سے دوچار ہے۔ ان رجحانات کے اعتبار سے جدیدیت، فلسفۂ وجودیت کی توسیع ہے۔ وجودیت کی فلسفیانہ تحریک کا آغاز یورپ سے ہوا۔ اردو میں یہ اصطلاح انگریزی کے توسط سے آئی۔ اردو ادب میں ا س اصطلاح کا استعمال ایک خاص عہد سے تعلق رکھتا ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ جب ترقی پسند تحریک کے زیراثر فرسودہ اور گھسے پٹے مضامین کی بھرمار ہونے لگی تب ادیبوں کا ذہن نیا کچھ کرنے کے لیے بے قرار ہونے لگا۔ اسی اثنا تقسیم کا کرب انگیز سانحہ رونما ہوا۔ موضوعات میں خود بہ خود تبدیلی ہونے لگی۔ کھیت کھلیان سماجی نابرابری اور بورژوا طبقے کے ظلم و ستم کی جگہ ہجرت، فساد اور کیمپوں کی روداد سنائی دینے لگی۔ ادیب و شاعر ترقی پسند خول میں اکتاہٹ اور گھبراہٹ محسوس کرنے لگے۔ جنگ، امن، انقلاب اور معاہدہ جیسے الفاظ ذہنوں پر بوجھ بننے لگے۔ ایسے میں نئی نسل کے ذہن میں روایت سے انحراف کے جراثیم کلبلانے لگے اور ادبی رجحان کی تلاش شروع ہوئی جس میں فرد کی فردیت کو اوّلیت حاصل ہو۔ نئی نسل کی اس خواہش کے عین مطابق جدیدیت کا رجحان سامنے آیا۔ جدیدیت نے ابتدا میں خاموش رہ کر اور بعد میں پوری قوت کا استعمال کرتے ہوئے ترقی پسند تحریک اور اس کے موضوعات کی مخالفت شروع کی۔ جدیدیت ایک ایسا رجحان ہے جس کی کچھ زیادہ ہی مخالفت ہوئی۔ بعض ناقدین نے اسے منفی رجحان قرار دیا تو بعضوں نے سرے سے ہی مسترد کردیا۔ اردو کی تمام اصناف میں صنفِ نظم اور صنفِ افسانہ پر یہ رجحان سب سے زیادہ اثر انداز ہوا۔ دونوں ہی اصناف بیانیے کی صورت ہیں۔ اگر صرف افسانوں کی بات کریں تو ناقدین نے صرف مواد کو بنیاد بنا کر اعتراضات کیے کیونکہ اس کے مواد بعید از فہم تھے۔ جدیدیت کے تحت لکھے گئے افسانوں میں بلراج مین را کے ہاں ’کمپوزیشن سیریز کے افسانے‘، سریندر پرکاش کے ہاں ’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم’، ’رونے کی آواز‘، ’سرنگ‘، ’برف پر مکالمہ‘، انتظار حسین کے ہاں ’آخری آدمی‘، ’زرد کتا‘، ’کایا کلپ‘، جوگندرپال کے ہاں ’رسائی‘، ’بازیافت‘، ’انور سجاد کے ’کونپل‘ اور ’گائے‘، خالدہ اصغر کے ’سواری‘ اور ’ایک بوند لہو کی‘، غیاث احمد گدی کا ’پرندہ پکڑنے والی گاڑی‘، بلراج کومل کا ’کنواں‘، دیوندر اسر کا ’کالی بلی‘ ،کمار پاشی کا ’ڈاچی والیا‘، انور عظیم کا ’کھوپڑی‘ اور قمر احسن کا ’اسپ کشت مات‘ وغیرہ خاص طور پر اہم ہیں۔
ستر کی دہائی میں اردو افسانہ رومانیت، حقیقت نگاری، ترقی پسندی اور جدیدیت کا سفر کرتے ہوئے مابعد جدیدیت Post Modernism کی دہلیز پر قدم رکھ چکا تھا۔ ایک طویل عرصے میں اس صنف میں بہت نمایاں تبدیلیاں ہوئیں۔ موضوع کی سطح پر بھی اور ہیئت کی سطح پر بھی۔ جدیدیت کے دور میں حد ہی ہوگئی جب اردو افسانہ معمہ بن گیا۔ اسی لیے جدیدیوں کے خلاف یہ نعرہ لگایا جاتا ہے کہ انھوں نے افسانے کے ساتھ اچھا سلوک روا نہیں رکھا جدیدیت سے متاثر فن کاروں نے پہلے کہانی سے کہانی کو نکالا، پھر کردار کو نکالا، اس کے بعد منظرنگاری کو بدلا، آغاز کو نکالا، نقطۂ عروج کو نکالا، پھر ہوتے ہوتے قاری کو نکالا۔ کہانی میں ان چیزوں کے نکل جانے کے بعد کہانی میں صرف افسانہ نگار رہ گیا۔ ستر کی دہائی کے باشعور فن کاروں نے جب محسوس کیا کہ ایسے افسانوں کا کوئی مستقبل نہیں جو ابہام، اشکال اور تجرید پر مبنی ہو۔ لہٰذا ایسے فن کار جو جدیدیت کے تحت افسانے لکھ رہے تھے ایسے فن پاروں سے انحراف کیا جولایعنی تھے، جن کے قاری ناپید تھے اور جو ذاتی علامات اختراع کرکے لکھ رہے تھے۔ ایسے فن کاروں کی فہرست کافی طویل ہے جن میں شفق، شموئل احمد، شوکت حیات، مظہرالزماں خاں، سلام بن رزاق، ذکہ مشہدی، حسین الحق، طارق چھتاری اور خاکسار کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مابعد جدیدیت، جدیدیت کی ضد نہیں البتہ الگ ضرور ہے اور اس کے بنیادی عناصر منحرف بھی ہیں۔ مابعد جدیدیت ان بنیادوں کو کالعدم کرتی ہے جن پر جدیدیت کا انحصار ہے۔ یعنی بیگانگی، شکست ذات، حد سے بڑھی ہوئی داخلیت، لایعنیت اور غیرضروری ہیئت پرستی جو ابہام، اشکال اور رعایت لفظی سے آگے نہیں بڑھتی۔
نئی صدی کی افسانوی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو چند نئے اور کثیر تعداد میں پرانے افسانہ نگار نظر آتے ہیں جنھوں نے تشدد و جبر کے حوالے سے عمدہ کہانیاں رقم کی ہیں۔ نئے لکھنے والوں میں کئی نام اہمیت کے حامل ہیں اور جنھوں نے نئے زمانے کی چیرہ دستیوں کو نہایت خوبی سے برتا ہے ان میں شاہد اختر کا ’کتے‘، احمد رشید کا ’بجوٹ‘، صغیر رحمانی کا افسانہ ’داڑھی‘، محمد حامد سراج کا ’گلوبل ولیج‘، شبیر احمد کا ’چوتھا فنکار‘، احمد صغیر کا ’کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے‘، طاہرہ اقبال کا ’ماں ڈائن‘ اور خاکسار کے افسانے ’مارتھا‘ اور ’منیا‘ وغیرہ کے نام اہم ہیں۔ نئی افسانوی صورت حال نئے موضوعات کا احاطہ وسیع پیمانے پر کررہی ہے اور نئے لکھنے والوں میں حالات حاضرہ سے آنکھیں ملانے کی صلاحیت بہ درجۂ اتم موجود ہے۔


Dr. Masood Jami
Ranchi





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے


2 تبصرے: