10/12/18

مرزا غالب: ایک منفرد شاعر. مضمون نگار: رضیہ پروین






مرزا غالب: ایک منفرد شاعر

رضیہ پروین


ادب کی زبان میں مرزا غالب کو شہنشاہ سخن کہا گیا ہے۔ یہ قول سابقہ آمیز ہوتے ہوئے بھی حقیقت سے خالی نہیں ہے کیونکہ غالب نے جس صنف سخن پر بھی طبع آزمائی کی منفرد و ممتاز رہے۔ انھوں نے نہ صرف غزل کو ہی مشق سخن بنایا بلکہ دیگر اصنافِ سخن پر بھی طبع آزمائی کی۔
اس میں ذرا بھی شک و شبہ نہیں کہ غالب نے غزل کو دو آتشہ اور سہ آتشہ کی سی گرمی عطا کی۔ غالب کو زندگی کے سرد و گرم حالات سے سابقہ پڑا۔ زندگی کے نشیب و فراز دیکھے تھے۔ تلخ تجربات کیے تھے معاشی سختیاں جھیلیں تھیں لہٰذا ان تمام امو رکی جھلکیاں ان کے کلام میں فطری طور پر نظر آتی ہیں:
ہو چکیں غالب بلائیں سب تمام
ایک مرگ ناگہانی اور ہے


مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی

عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
انسانی زندگی غموں سے عبار تہے اور غالب کا عہد معاشی بدحالی، سیاسی زوال کا زمانہ تھا اور شاعری کے نزدیک غم روز گار بڑی قیمتی متاع ہوتی ہے۔ غالب کے یہاں غم عشق اور غم روزگار دونوں موجود ہے۔ وہ ایک طرف معاشی بدحالی کا شکار تھا تو دوسری طرف سماجی ابتری، افرا تفری اور غیر ملکی حکومت کے مظالم کو دیکھ کر اس کا دل خون ہو چکا تھا۔ غالب کے یہ اشعار اس ضمن میں کافی اہمیت رکھتے ہیں:
غم اگرچہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غم عشق گر نہ ہوتا غم روز گار ہوتا


چوک جس کو کہیں وہ مقتل ہے
گھر بنا ہے نمونۂ زنداں کا
مرزا غالب طوفان حوادث سے گھبراتے نہیں۔ بلکہ اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو غالب کے یہاں عشق کی والہانہ کیفیت نہیں اور نہ ہی پائے صنم پر سجدہ کرتے ہیں۔ ان کا عشق بھی عقل کا دامن نہیں چھوڑتا۔ وہ محبوب سے روٹھتے بھی ہیں اور وہ بھی کچھ اس طرح سے :
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں
سبک سر بن کے کیوں پوچھیں کہ ہم سے سرگراں کیوں ہو


دائم پڑا ہوا تیرے در پر نہیں ہوں میں
خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہوں میں
غالب عشق و محبت کی ان کیفیات کو اپنی شاعری کا محور بناتے ہیں جن سے انسانی جذبات میں لطافت اور پاکیزگی پیدا ہوتی ہے:
نیند اس کی ہے، دماغ اس کا ہے، راتیں اس کی ہیں!
تیری زلفیں جس کے شانے پر پریشاں ہو گئیں!


زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی
کیوں تیرا راہ گزر یاد آیا
غالب ایک زبردست فنکارتھے۔ جن کی فنکاری میں جذبہ و سوز کی شمع، تخیل کی پرواز ، ادراک کی قوت، وجدان کا حسن، آس و یاس کی کشمکش، درد کی کسک، گداز کا لطف ، شوخی و طنز کی چاشنی، جدت و ندرت کی چاندنی، اشاریت و ایمانیت کی سحرکاری اور انفرادیت کی دلنوازی ہے۔ جدید تشبیہات و استعارات اور حسن و ادا سے غالب کا کلام مقناطیسی قوت رکھتا ہے۔ ان کا لہجہ مخصوص اور تیور غضب کا ہے۔ غالب نے اپنے کلا م میں حادثات زمانہ کو جگہ دے کر اس کی تقدیر ہی بدل دی۔ غزل کو محبوبانہ شوخی سے ہمکنار کرنے کے لیے طنز و ظرافت کی شائستگی اور سنجیدگی نے لوگوں کے دلوں کو تسخیر کر لیا۔ اس طرح جدت پسندی کے حسین امتزاج نے غالب کے کلام کو دلکشی بخشی۔ انھوں نے کہیں رنگ بدلا تو کہیں انداز۔ جدت پسندی نے ان کے کلام کو دو آتشہ بنا دیا:
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
انداز بیان کی جدت دیکھیے:
نظر لگے نہ کہیں اس کے دست و بازو کو
یہ لوگ میرے زخم جگر کو دیکھتے ہیں


ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
غالب فلسفی نہ تھے۔ وہ اسرار حیات و رموز کائنات کا ایک معقول تصور رکھتے تھے۔ ذہن انسانی کودعوت فکر دینا ان کی شاعری کا مقصد بن گیا۔ تصوف کے رنگ میں کہتے ہیں:
رنج سے خوگر ہو انسان تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں


اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
جام جم سے میرا جام سفال اچھا ہے

قطرہ دریا میں جو مل جائے تو دریا ہو جائے
کام اچھا ہے جس کا کہ مآل اچھا ہے
یہی وجہ ہے کہ غالب کی شاعری اور شخصیت دونوں کو کمال حاصل ہے۔ ان کا کلام ایک بحر بیکرا ں ہے جن کو چند صفحات پر رقم کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ انھوں نے پیکر غزل کو حسن و عشق کا غازہ اور سماجی شعور و تہذیبی سرمایہ کی مہک بھی دی ہے۔ دوش غزل پر انسانی فضا کا آنچل ڈالا ہے۔
اس میں شک نہیں ہے کہ غالب کی خوبیوں کو اجاگر کرنے اور عوام کو ان کے کلام کی خوبیوں سے روشناس کرانے میں ان کے مداحوں اور طرفداروں نے بڑا کام کیا ہے۔ حالی سے شروع ہوا یہ سلسلہ روز بروز قائم ہے۔ ایسا نہیں کہ غالب کے کلام پر اعتراضات نہیں ہوئے بلکہ غالب کے کلام پر نکتہ چینی بھی خوب ہوئی کہ مشکل پسند ہیں، فارسی ترکیب اور الفاظ کا استعمال کثرت سے کرتے ہیں۔ تبھی تو حالی نے ’ یادگار غالب‘ میں ذکر کیا ہے کہ:
’ میر تقی میر نے جو مرزا کے ہم وطن تھے ان کے لڑکپن کے اشعار سن کر کہا تھا کہ اگر اس لڑکے کو کوئی استاد کامل مل گیا اور اس نے اس کو سیدھے راستے ڈال دیا تو لاجواب شاعر بن جائے گا ورنہ مہمل بکنے لگے گا۔‘(یادگار غالب، ص:106)
لیکن یہ بات بھی اتنی ہی درست ہے کہ غالب نے خود اپنی مشکل گوئی کا ذکر کیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ میرے کلام کو چاہے کتنی بھی سمجھنے کی کوشش کی جائے عنقا ہی رہے گا:
آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا
غالب ہمیشہ روش سے ہٹ کر چلے انفرادیت ان کی شخصیت کا خاصہ تھی۔ عامیانہ راہ اختیار کرنے کے بجائے اپنا الگ انداز تحریر ایجاد کیا۔ جہاں تک ان کے اردو کلام میں فارسیت کا غلبہ ہے تو انھوں نے خود اس بات کا اعتراف کیا اور اپنی فارسی دانی پر فخر بھی محسوس کیا:
ہیں دنیا میں اور بھی سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
غالب کے اوراق زندگی کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ غالب بڑے ہی وسیع القلب انسان تھے۔ وہ مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی کو محض انسان تصور کرتے تھے۔ اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں:
’ بندہ پرور میں تو بنی آدم کو مسلمان ہند و یا نصرانی ہو عزیز رکھتا ہوں اور اپنا بھائی گنتا ہوں۔‘
آج کل انسانیت ، دردمندی تو جیسے ختم ہوتی جا رہی ہے۔ آئے دن ظلم و ستم کی داستان، ہر روز کی خون ریزی۔۔۔کاش وہ غالب کے ان اشعار سے کچھ سبق لیتے تو شاید اس طرح کے حالات پر قابو پایا جا سکتا:
ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں
بس کے دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
تشبیہات و استعارات کا استعمال شاعری میں ایک لطیف تاثیر پیدا کرتا ہے۔ غالب نے اپنے کلام میں نئی تشبیہات و استعارات کا استعمال کر کلام میں ندرت پیدا کی ہے، ان کی تشبیہات میں جو تازگی اور طرفگی ہے اس کا ثبوت ان اشعار سے ملتا ہے جن میں خیال اور تاثیر کے نئے گوشے سامنے آتے ہیں:
بس کہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیر پا
موئے آتش دیدہ ، ہے حلقہ میری زنجیر کا


فروغ شعلۂ خس یک نفس ہے
ہوس کو پاس ناموس وفا کیا

سب کو مقبول ہے دعویٰ تیری یکتائی کا
روبرو کوئی بتِ آئینہ سیما نہ ہوا
غالب کے تخیل کی گہرائی اور گیرائی ، دور اندیشی اور نا آسودہ تمناؤں کا پتہ ان کے شعری پیکروں سے با آسانی لگایا جا سکتا ہے۔ غالب ان پیکروں کے ذریعے، محدود کے احساس کو جگانا چاہتے ہیں( اور یہ صرف غالب کے یہاں ہی کیوں اردو کے قدیم و جدید بیشتر شعرا کے یہاں ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے ۔) ان کا مقصد ان فضاؤں کی طرف اشارہ کرنا ہے، جو انسانی عزم و ہمت کو جادہ پیمائی پر آمادہ کرتی ہیں۔غالب چونکہ حس مزاح رکھتے تھے تاہم ان کے اندر بے چینی، تجسس اور گہری فکر کا جذبہ شدت کے ساتھ پایا جاتا ہے۔ ان کی شاعری ان کے شدید ذاتی تاثرات کا رد عمل ہے۔ ان کی امتیازی خصوصیت ان کا تفکر ہے جو ان کے بے چین دل اور عمیق ذہن کا رد عمل ان کے یہاں جذبات کی تندی اور ذہن کی برق رفتاری بہ یک وقت ملتی ہے۔ وہ صرف جذبات کا تجزیہ ہی نہیں کرتے بلکہ اس میں باہمی تعلق بھی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ محبت ان کے لیے کوئی ایسا جذبہ نہیں جو انتہائی فطری طور پر دلکش محاکات کی صورت میں ڈھل جائے۔ وہ ایک شعلہ ہے، ایک لاوا ہے جو پوری شخصیت کے اندر ہلچل پیدا کردیتا ہے۔ ان کی عشقیہ شاعری کے تانے بانے میں نکتہ آفرینی اور ندرت فکر کی جگمگاہٹ صاف نظر آتی ہے:
احباب چارہ سازی وحشت نہ کر سکے
زنداں میں بھی خیال بیاں نورد تھا
رگِ سنگ سے ٹپکتا ہو لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا 


لو وہ بھی کہتے ہیں بے ننگ و نام ہے
یہ جانتا اگر تو لٹاتا نہ گھر کو میں

رہی نہ طاقت گفتار اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہیے کہ آروز کیا ہے
غالب کی شاعری پہلو دار اور تہہ دار ہے۔ گہرے خیالات و نازک احساسات اور خورد بینی مشاہدات کو ترشے ہوئے تخیلی پیکروں میں اس طرح مشکل کر دینا کہ ان سے شاعرانہ اشاریت کی شعاعیں پھوٹ نکلیں، یہ بڑی کامیابی اور زندہ رہنے والی شاعری کی علامت ہے اس لیے غالب جیسے بڑے شاعر کے مطالعے کے لیے علمی بصیرت اور نقطۂ نظر کی وسعت ضروری ہے۔ یہ تمام اشعار اس بات کی تصدیق کرتے نظر آتے ہیں:
وائے دیوانگئ شوق کہ ہر دم مجھ کو
آپ جانا ادھر اور آپ ہی حیراں ہونا


ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
اس طرح دیکھا جائے تو غالب نے ارد وغزل کے تمام تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے غزل کے حسن کو پروان چڑھایا ۔ غالب کے حسن بیان، شاعرانہ صلاحیتوں اور خوبیوں کو مختصر مضمون میں احاطہ کرپانا ممکن نہیں ۔ ان کی شوخی، رنگینی، طنز و ظرافت ، نکتہ آفرینی اور برجستگی نے حالی کو ا نھیں ’حیوان ناطق ‘ کی جگہ ’ حیوان ظریف‘ کہا ہے۔
انھوں نے منفرد لب و لہجے سے اردو شاعری کو نہ صرف بامِ عروج تک پہنچایا بلکہ اسے نئے طرز فکر او رنئے آہنگ سے روشنا س کرایا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے آپ کو ہمیشہ سب سے ممتاز اور منفرد سمجھا اور یہ محض تعلّی نہیں بلکہ اپنے فن کا صحیح ناقدانہ شعور اور ایک حقیقت بھی تھی۔


Razia Parveen
Asst. Professor Urdu
Mumtaz Park, Jail Road
Rampur-244901 (U.P)




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں