10/12/18

قرۃالعین حیدرکے افسانوں میں مسائل نسواں کی بازگشت. مضمون نگار: نور الصباح








قرۃالعین حیدرکے افسانوں میں مسائل نسواں کی بازگشت.  
 نور الصباح

قرۃالعین حیدرنے 20؍جنوری 1927 کو اس عالم آ ب و گل میں ایسی سرزمین پر آنکھیں کھولیں جو علم وادب کا گہوارہ اور دانش علم و ہنر کا مخزن ہے ۔وہ سرزمین ادب علی گڑھ کی ہے، جہاں سے بڑے بڑے ادیبوں نے فیض حاصل کیا ۔ 
قرۃالعین حیدر کا گھرانہ مشرقی و مغربی تہذیب کا مرکب تھا۔ان کے والد سجاد حیدر یلدرم خواتین کی تعلیم کے حامی تھے۔ اس لیے ان کے اثرات قرۃالعین حیدر کی شخصیت پر بھی مرتب ہوئے ۔جس طرح سجاد حیدر یلدرم نے عورتوں کی اعلی تعلیم ،رشتہ ازدواج کے لیے لڑکیوں کی مرضی ،ان کو معاشرے میں اہم مقام دلانے کی بات کی اسی طرح قرۃالعین حیدر نے بھی عورتوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کی۔عورتوں پر ہو رہے ظلم سے پر دہ اٹھایا ،انھیں اعلیٰ طبقہ میں استحصالی زندگی سے آگاہ کیا۔پدرسری سماج پر طنز کے تیر برسائے، ان کی حاکمیت کے زیر اثر محکوم عورتوں کی مظلومیت کو پیش کیا۔مردوں کے شانہ بشانہ عورتوں کو چلنا سکھایا۔ان کے یہاں جاگیردارانہ نظام کی شکست و ریخت پائی جاتی ہے، جو رومانیت کی برفیلی چادر میں ڈھکی ہوئی معلوم ہوتی ہے مگران میں درماندگی ،غم انگیز ی اور حزن و ملال کی فضا بھی چھائی ہوئی نظر آتی ہے۔ جسے یا تو سماجی جبر سے تعبیر کیاجاسکتاہے یا اس ماحول میں ایسی پروردہ ذہنیت سے جو عورتوں کو اپنے تصرف میں لیناچاہتی ہے۔
قرۃالعین حیدر عورتوں کو ثانوی درجہ میں رکھنے پر شدید شاکی نظر آتی ہیں ۔عورتوں کے لیے سماج میں دوہرے رویے اپنائے گئے، انھیں کمتر سمجھاگیا۔ جہاں قدیم معاشرت میں عورتیں محض ایک سامان تعیش تھیں جدید معاشرت بھی اسی نقش قدم کو اپنائے ہوئے ہیں۔ عورت صرف ایک سامان کا درجہ رکھتی ہے ۔اس کا اپنا کوئی مرتبہ متعین نہیں ہے۔اس کوالگ خانوں میں تقسیم کردیاگیاہے، حتی کہ ادب بھی اسی درجے میں پہنچ گیاہے جس کو قرۃالعین حیدر ایک انٹرویومیں بیان کرتی ہیں :
’’ہمارے نقاد لکھنے والی خواتین کا اتنا احترام کرتے ہیں کہ ان کی الگ قومیت تسلیم کرلی گئی ہے ۔ادب کی دنیا میں تویہ فرض کرلیاگیاہے کہ دنیاکے ہر موضوع پر مرد کو لکھنے کی آزادی ہے ۔عور ت صرف اپنے دل کی بات اپنے گھر کی بات کے سوا اور کچھ نہیں کہہ سکتی۔‘‘
( ایوان اردو دہلی ؍ قرۃ العین حیدر نمبر 2008، ص:14)
ادب کو خانوں میں منقسم کیے جانے اور عورتوں کوایک الگ قومیت سمجھے جانے پر وہ سخت نالاں تھیں۔اس لیے ان کے افسانوں میں صرف عورتوں کے دل کی بات نہیں نظر آتی بلکہ تاریخی حوالے سے قدیم و جدید کی معاشرت کے پس منظر میں عورتوں کی زندگی کے نشیب و فراز موجود ہیں ۔ ان کے یہاں فریب محبت میں زہرپیتی ہوئی عورت کی کہانی ملتی ہے ۔بیوہ عورتوں کی ستم ظریفی کے آثار دکھتے ہیں ۔ان کے نسوانی کردار متوسط طبقے، اعلی متوسط طبقے اور نچلے متوسط طبقے میں پدری حکومت کے ستائے ہوئے ملتے ہیں ۔مصر کی تاریخ ہویا جرمن وروس کے مابین جنگوں کے سلسلے ،ہر جگہ،ہردور کی چکی میں عورتیں ہی پستی ہوئی نظر آتی ہیں ۔ قرۃالعین حیدر کے افسانوں میں نسوانی شعور کی بازگشت سنائی دیتی ہے جس سے عورتوں کے عبرتناک مسائل کی وابستگی کا احساس ہوتاہے ۔
قرۃالعین حیدر چونکہ اعلی گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں اور ان کی تعلیم بھی اعلی درجے کی تھی اس لیے ان کے افسانوں میں قدیم و جدید کا تحیر آمیز امتزاج بھی ملتاہے۔انھوں نے اپنے وسیع مطالعہ ،عمیق مشاہدے اور گہرے وژن سے اپنی تحریر وں کو لازوال کردیاہے ۔ان کی تحریروں کو مشترکہ تہذیب کے قدیم و جدید امتزاج نے کچھ ایسا رنگ دیاہے کہ زمانے کے تغیرات و انقلابات کی وجہ سے تہ وبالامناظر کچھ اس طرح سے سامنے آگئے ہیں کہ منظر وپس منظر کی جھلکیاں ہی ان کی فنکاری کا اعلی نمونہ بن گئی ہیں۔انھوں نے عمدہ تکنیک ،دلکش پیرائے، عصری حسیت اور فلسفیانہ شعور سے عہد عتیق کے تہذیب و تمدن ، معاشرت افکار و نظریات کا موجودہ عہد سے موازنہ کرکے تاریخی جھروکوں سے کچھ یوں پردے اٹھائے ہیں کہ عورتوں کی دگرگوں حالت کا اندازہ اس وقت کے سماج سے عصری زندگی میں بھی کیا جا سکتا ہے ۔اس ضمن میں ان کا افسانہ ’’روشنی کی رفتار ‘‘دیکھا جاسکتا ہے ۔ اس میں انہوں نے 1315 قبل مسیح میں مصری حکومت کے قاہرہ شہر کی تہذیب و ثقافت کا ذکر کرتے ہوئے بنی اسرائیل پر فراعنہ کے ظلم وستم کو بیان کیا ہے۔’’ روشنی کی رفتار‘‘کا نسوانی کردار مس پدمامیری ابراہام کرین جس کی عمر 29سال ہے۔ وہ جنوب ہند کے Space research center میں ملازمت کرتی ہے ۔وہ اپنے موجودہ عہد 1966 سے 1315 قبل مسیح کی دنیا میں پہنچ جاتی ہے ۔جہاں اس کی ملاقات ثوث نامی شخص سے ہوتی ہے۔وہاں پہنچ کر اپنی پہچان پوشیدہ رکھنے کے لیے خود کو افلاک کی دیوی کا فرستادہ بتاتی ہے تاکہ کوئی اس پر شک کرکے اس کو ہلاک نہ کردے ۔اس عہدمیں ان لوگوں کے کئی خدا تھے۔ جن کے آگے وہ سربسجود ہوتے تھے ۔ان کے خدا ، حورس، رع، آمون، ہاتون جن کی وہ حمدو ثنا بیان کرتے تھے ۔اس افسانے کے نسوانی کردار ڈاکٹر پدما نے اس کا فائدہ اٹھاکر خود کو دیبی ،حاثور وغیرہ کی داسی بتاکر قاہرہ کی طرف روانہ ہوگئی۔ اس وقت اس کا نام ممفس تھا ۔وہاں مختلف مقامات سے گزرتے ہوئے آخر کار اس کی ملاقات ’’ثوث‘‘ سے ہوتی ہے جو بادشاہ کے بارے میں بتاتا ہے کہ وہ اپنے سفر سے اب لوٹنے والاہے ۔جب بادشاہ کی سفر سے واپسی ہوتی ہے تو وہ مس پدما کو خدا کا فرستادہ سمجھ کر بہت خوش ہوتاہے اور اس سے شادی کااعلان کر دیتاہے ۔اب بادشاہ کی روگردانی کرنے کی ہمت کہاں ؟ پدما کسی طرح سے وہاں سے ثوث کے ذریعہ بھاگنے میں کامیاب ہوجاتی ہے اور ثوث کو بھی اپنے عہد میں لے کر آتی ہے ۔وہ اپنے آرٹ اور پینٹنگزکی وجہ سے بہت جلد اہل ثروت میں شمار ہونے لگتا ہے اور اس کے شب و روز، شباب و شراب میں گزرنے لگتے ہیں ۔جس کی وجہ سے وہ پدما کو بالکل بھول جاتاہے۔ کیونکہ پدمامعمولی شکل وصورت کی مالک ہوتی ہے، جب کہ عہد جدید گلیمر کا شیدائی ہے۔ پدما اس کی بے توجہی کا شکار ہوکر افسردہ رہنے لگتی ہے۔ثوث بھی اس ترقی یافتہ عہد کے طرز معاشرت سے اکتا جاتا ہے اور اپنے عہد میں جانے کی خواہش کرتاہے کیوں کہ اس کی نظر میں قدیم مصر اور جدید عہد میں کسی تفریق کا معاملہ نظر نہیں آتا۔فرق صرف یہ ہوتاہے کہ فراعنہ بنواسرائیل پر ظلم کرتے اور اشوریہ سے جنگ کرتے، جبکہ جدید عہد میں پوری دنیا جنگ کا میدان بنی ہوئی ہے اور ہر جگہ نسلی فسادات میں لوگ مارے جارہے ہیں ۔ قرۃالعین حیدر ’’ثوث‘‘کے ذریعے سے تین ہزار سال بعد بھی ایک ایسے متمدن عہد پر طنز کرتی ہیں۔ جس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے :
’’تمہارے مذاہب ،فلسفے ،اخلاقیات ،نفسیات ،وہسکی کا گلاس میز پٹخ کر زور سے ہنسا ۔’’تمہاری دیو مالائیں نظر یہ تثلیث ،روحانیت ،یہ ،وہ ،سب ،عین سائنٹفک ہیں ۔ تمہاری جنگیں ہیومنزم پر مبنی ہیں ۔تمہارا نیوکلیر بم بھی خالص انسان دوستی ہے ۔ ہے نا۔؟ تمھاری روشنی کی رفتار واقعی تیز ہے۔‘‘؟
(افسانوی مجموعہ روشنی کی رفتار؍ افسانہ روشنی کی رفتار؍ قرۃ العین حیدر، ایجوکیشن بک ہاؤس، دسمبر 2014’ ، صفحہ‘ 215)
قرۃالعین حیدر اپنے تاریخی شعور کی و جہ سے تغیر و تبدیل میں فرق واضح کرتے ہوئے صرف سائنٹفک طریقہ کار کوتبدیلی کی وجہ بتاتی ہیں۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ مس پدما جو ایک معمولی شکل و صورت کی حامل ہے۔ وہ قدیم مصر میں بادشاہ کے لیے اہم بن جاتی ہے، جبکہ بادشاہ ضعیف و معمر ہے، مگر وہ مس پدما سے شادی کرنا چاہتاہے۔ یہ بھی عورتوں کی استحصالی صورت کی طرف اشارہ ہے اور عہد جدید میں لوگ گلیمر کے رسیا ہیں۔ ان کو ہر وہ خوبصورت چیز دلکش اور جاذب نظر لگتی ہے۔ جو ان کی ہم نشینی میں چار چاند لگادے ۔یہ عورت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔جس کو قرۃالعین حیدر نے پیش کیاہے کہ عورت اگر معمولی شکل کی ہے تو کوئی بھی اس کو اپنانے کے لیے تیار نہیں ہوتا ہے، اپنانا تو دور کی بات ہے اس کی ہم نشینی کو سوچ بھی نہیں سکتا۔اس کے ساتھ وقت گزارنا یا اس پر مائل بہ کرم ہونا شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ پدری سماج کے شاہانہ نظام کے تحت ایسی لڑکیاں لائق توجہ نہیں سمجھی جاتی ہیں ،اگرچہ کہ وہ ان کی زندگی کو اعلی درجے تک پہونچانے میں معاون کیوں نہ ہو ں؟ ان کا عمل دخل ان سے بھی زیادہ کیوں نہ ہو ،سماج میں عزت وشان کا درجہ دلانے میں اس لڑکی کی کا رفرمائی کیوں نہ ہو،مگر وہ توجہ کی حامل نہیں ہوتی ۔پدرشاہی نظام کے تحت مردوں کو لڑکیاں خوبصورت چاہیے ہوتی ہیں ،پتلی کمر والی ،خوبصورت غزالی آنکھوں والی، لڑکی کی لمبائی چھ فٹ کے اندر اندر ہو لڑکا چاہے ڈیڑھ بالش کاہی کیوں نہ ہو ۔قرۃالعین حیدر نے عہد جدید کے مطابق عورت کو گلیمر سے تعبیر کیاہے ایک کردار کی زبان سے کہلواتی ہیں :
’’پدما بدستور جنوبی ہند کی اس لیبوریٹری میں ملازم تھی۔ سال پہ سال گزرتے گئے تو ایک روز اس کی ماں نے کہا تمہارا ایجپشین کو پٹک دوست شادی نہیں کرے گا کیا؟ سناہے بمبئی میں ہر وقت چھوکریوں میں گھرا رہتاہے ۔‘‘پدما خاموش رہی۔ثوث کو اس سے ملاقات کرنے کی فرصت ہی نہیں تھی۔ کبھی سال دوسال میں اتفاقاً مل جاتا۔کرسمس اور سال نو کے کارڈ البتہ پابندی سے بھیجتا ۔ بات دراصل یہ تھی کہ پدما معمولی شکل وصورت کی سیدھی سی لڑکی تھی اور موسیوثوث ہر میزایک گلیمرس (Celebrity) جو حسیناؤں کے نرغے میں شاداں وفرحاں تھے ۔دوسری بات یہ کہ مرد چاہے وہ 1315 قدیم کا ہو،چاہے 1973 کا ذہنیت اس کی وہی رہے گی ۔بیہودہ۔‘‘( ایضاً، صہ 214۔213)
جدید عہد کی عورت چاہے وہ کتنی ہی تعلیم یافتہ اور روشن خیال ہو اگر معمولی شکل وصورت کی ہے تو مردوں کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی ۔ وہ محض درد وکسک کی ایک تصویر بن کر رہ جاتی ہے۔ جس کو قرۃالعین حیدر نے گلیمر کے شیدائی ثوث کی شخصیت کے حوالے سے پدما کی معمولی شکل کو پیش کرکے عورتوں کی ناقدری بیان کی ہے، جبکہ تاریخی حوالے سے عورتیں اس وقت بھی محض بطور ہدیہ کے خوش کیے جانے کے قابل سمجھی جاتی تھیں،جس کو انھوں نے مصر کے بادشاہ فرعو ن کی شادی کے اعلان سے پیش کردیاہے :
’’فرعون مصر ہاتھ باندھ کر ادب سے ڈاکٹر کرین کے سامنے کھڑاہوگیا۔اور یوں گویاہوا۔زہرہ جبیں دختر افلاک! یہ مصر کی عین خوش نصیبی ہے کہ اشوریہ سے جنگ کے دنوں میں مادر خداوند نے تم کو یہاں بھیجا اور فتح کی بشارت دی ۔ مابدولت چونکہ خود رعؔ دیوتا کے فرزند ارجمند ہیں، ہمارا فرض ہے کہ بطور مہمان نوازی وسپاس گزاری کل شام کے پانچ بجے تم سے شادی کرلیں۔‘‘ (ایضاً، ص205)
قرۃالعین حیدر کی فنکارانہ صلاحیت یہ ہے کہ وہ تاریخ کے حوالے سے بادشاہوں کی شکر گزاری کے نذرانے میں عورتوں کی بے حرمتی کو پیش کرتی ہیں کہ عورت کسی بھی زمانے میں قدرواہمیت نہیں رکھتی۔ زمانہ جدید میں عورت بے بس ،لاچار ،اور دردو کرب میں مبتلا ہے۔ دونوں زمانوں میں عورت کی حالت میں تفریق محض یہ ہے کہ آج کی عورت تعلیم یافتہ ہے مگر کم شکل ہونے کی وجہ سے شادی کے قابل نہیں سمجھی جاتی۔ آج بھی عورت کی وہی قدر ہے جو زمانہ قدیم میں تھی ۔مرد چاہے عہد قدیم سے تعلق رکھتا ہویا عہد جدید میں سانس لے رہا ہووہ ذہنی طور پر خود کو حاکم ہی سمجھتا ہے۔ عورت ہر حال اور ہر عہد میں ادنی حیثیت رکھتی ہے ۔چاہے زمانہ روشنی کی رفتار سے کتنا ہی ارتقائی منزلوں تک پہنچ گیاہو مگر عورت اسی پستی کی باشندہ سمجھی جاتی ہے ۔قدیم عہد کی طرز معاشرت،تہذیب و ثقافت ،جنگ وجدال کا موازنہ کرتے ہوئے عورتوں کے مسائل کو بھی مد نظر رکھا ،اس موازنے سے مجموعی طور پر یہ بات نکلتی ہے کہ زمانہ روشنی کی رفتار کی سی سرعت سے چاہے کتنا ہی آگے بڑھ گیا ہو ،ہم چاہے کتنے ہی سائنٹفک طریقے سے سوچتے ہوں ،وہ دیو مالائی عناصر ہوں،مذاہب ہوں،فلسفے اور اخلاقیات ہی کیوں نہ ہوں، عہد قدیم کی جنگیں بھی اقتدار کے لیے لڑی جاتی تھیں۔ عہد جدید کی جنگیں بھی اقتدار کے لیے ہی لڑی جاتی ہیں۔ ساتھ ہی ان کا مقصد دوسرے جرائم کو پھیلانا اور فسادات برپا کرکے فضا کو آلودہ کرنا ہوتاہے ۔
زندگی کے لمحات مصروف ہوچکے ہیں ،حتی کہ ہماری سوچ پر بھی مصروفیت کا پہرہ ہو چکا ہے ۔ہر شخص اپنی مصروف زندگانی میں مشغول ہے توپھر وہ عورتوں کو کیوں کر وقت دے سکتا ہے ۔وہ بھی پدما جیسی معمولی لڑکی کو جبکہ لوگ گلیمر کے پیچھے بھاگ رے ہیں ،اس گلیمر زدہ،اور ارتقا ء پذیر زندگی کے باوجود ہم 1315 قبل مسیح میں ہی سانس لے رہے ہیں ،کل بھی عورت مجبور تھی آج بھی عورت مجبور ہے ،کل بھی بے سہارا تھی،آج بھی عورت بے سہارا ہے ،کل بھی کسک و اضطراب کا مجسمہ تھی، آج بھی عورت مضطربانہ زندگی بسر کررہی ہے ۔ قرۃالعین حیدر اپنے تاریخی روایات کی روشنی میں معاشرتی مسائل بیان کرنے کے حوالے سے مشہور ہیں۔ انھوں نے ماضی کی روایات واقدار کو عزیز رکھتے ہوئے وقت اور زمان ومکان کے اعتبار سے مسائل کی چیرہ دستی کی ہے ۔مشترکہ تہذیب کے زوال پر وہ ماتم کناں نہیں، تغیرات زمانہ کو قبول کرنے پر آمادہ ہیں،جو ان کے کردار وں کے ذریعہ سے واضح ہوتاہے ،مگر زمانے کے تغیرات عورتوں کے لیے زوال کا باعث ہی بنتے ہیں ’’حسب نسب‘‘ کی چھمی بیگم کے کردار کے ذریعہ سے انھوں نے تین تہذیبوں کو پیش کیاہے اور ان تہذیبوں میں رضیہ بیگم کی گراوٹ جدید عہد کا المیہ ہے ،مگر ’چھمی بیگم‘ کس المناکی سے گزر کر ’رضیہ بیگم ‘ کے در پر پہنچیں یہ مصنفہ کی ’مشاہداتی‘ مطالعاتی ،اور فکری تجزیئے کا متقاضی ہے ۔جنھوں نے چھمی بیگم جیسا لازوال کردار تخلیق کیا۔اگرچہ ’’حسب نسب ‘‘ اپنے اقدار وروایات کی پامالی سے محفوظ رکھنے کے لیے تخلیق کا ذریعہ بنا،اس کے پورے بیان میں ’چھمی بیگم ‘ کی غم واندوہ، تنہائی اور کربناکی میں ڈوبی ہوئی تصویر کا المیہ ہے جو صرف ایک شخص کے ٹھکرائے جانے کی دین ہے جو انھیں چھمی بیگم سے بوا کی منزل تک پہنچا دیتی ہے ۔چھمی بیگم کا درد اور احساس محروی کا پتہ افسانے کی ابتدائی سطروں سے ہوجاتاہے :
’’لمبے چوڑے سیلے ہوئے غسل خانے میں دن کو بھی اندھیرارہتاتھا۔پیتل کے جھال پال ،تیتڑے ،اونچا حمام، مٹکے ،چوکی،رنگ برنگی صابن دانیاں ،بیسن ،ابٹن ،جھانوے لوٹے ،آفتابے ،مگے ، کھونٹیوں پر غراروں اور پیلے دوپٹوں کا انبار،آنولوں ریٹھوں سے بھری طشتریاں، اندھیرا خندوں موا علی بابا چالیس چور کا غار لیکن یہی غسل خانہ چھمی بیگم کی دکھی زندگی میں وقت بے وقت جائے پناہ کا کام دیتاتھا ۔اس کے ہرے شیشووں والی بند کھڑکی کا رخ چنبیلی والے مکان کی طرف تھا۔اس کے ایک شیشے کا رنگ ناخن سے ذرا سا کھرچ کر چھمی بیگم نے باہر جھانکنے کا انتظام بھی کر رکھا تھاکہ چھمی بیگم کے لاڈلے ابن عم اجوبھائی چنبیلی والے مکان میں رہتے تھے۔پہروں وہ اس شیشے میں سے سامنے والے گھر کو اس طرح تکتیں جیسے شاہ جہاں اپنے قید خانہ میں سے تاج محل کو دیکھا کرتاتھا۔‘‘
( افسانہ حسب نسب، افسانوی مجموعہ روشنی کی رفتار،ص:38)
قرۃالعین حیدر نے زمینداری خاندان میں پرورش پانے والی چھمی بیگم کی نفسیات کو بہت ہی درد مندی سے پیش کیاہے ۔ جن کی منگنی بچپن میں ہی ان کے چچا زاد بھائی اجو سے ہو جاتی ہے ۔وہ سولہ سال کی ہوتی ہیں تو ان کی شادی کی تیاریاں عروج پر ہوتی ہیں ۔قدرت کی ستم ظریفی یہ ہوتی ہے کہ وہاں وباکا قہر ٹوٹ پڑتاہے جو شاہجہاں پور کے پورے علاقے میں پھیل کر ان کے والدین کو بھی اپنی موت کی آغو ش میں لے لیتا ہے ۔جس کی وجہ سے ان کی شادی التوا میں پڑ جاتی ہے، مزید ستم یہ کہ ان کے چچا اور چچی بھی وقتاً فوقتاً جاں بحق ہوجاتے ہیں اور وہ اجاڑ، سنسان گھر میں بے امان و بے سہار ا رہ جاتی ہیں۔اجو بھائی مقدمے کے بہانے آئے دن لکھنؤ رنگ رلیاں منانے کی غرض سے جاتے ہیں۔ آخر کار وہ ایک طوائف کلو سے شادی کرکے اپنے گھر شاہجہاں پور لاتے ہیں۔ چھمی بیگم جو یاس وامید کے مابین معلق رہتی ہیں۔ ناامیدی کی ایسی اتھا ہ گہرائی میں غرق ہوجاتی ہیں کہ ان کا غسل خانہ جو کبھی ان کی جائے پناہ ہوا کرتا تھا اندھے کنویں کی شکل اختیا ر کرلیتا ہے۔چھمی بیگم کی بے بسی درج ذیل عبارت میں دیکھی جا سکتی ہے :
’’جی ہاں ہمیشہ کی طرح بانکے چھیلے اجو بھائی دالان میں آئے ۔جھک کر اس لال چڑیل سے کچھ کہا ۔وہ قہقہہ لگا کر ہنسی ۔چھمی بیگم کی آنکھوں کے سامنے اند ھیرا چھاگیا ،نیم تاریک غسل خانہ اب بالکل اندھا کنواں بن گیا۔ انھوں نے جلدی سے ایک کھونٹی پکڑلی۔لڑکھڑاتی ہوئی باہر آئیں اور بے سدھ ہو کر اپنے بستر پر گر گئیں۔‘‘(ایضاً، ص 42)
قرۃالعین حیدر نے عورتوں کی محرومیوں کو سمجھا اور اپنی فنی خوبیوں، عمیق مشاہدے ،فکری نظریے سے اس کو اپنے افسانوں میں پیش کردیا۔ چھمی بیگم کی بے چارگی محض چھمی بیگم کی نہیں ہے بلکہ یہ محرومی اور بے چارگی ایسی ہی عورتوں کے مقدرپر منعکس ہوتی ہے جو روایتوں کی پاسداری کا مہرہ بن جاتی ہیں اور انھیں ان روایتوں پر چلنے کے لیے تنہا چھوڑ کر کسی دوسری عورت کے ساتھ عیش پرستی کی جانے لگتی ہے۔ قرۃالعین حیدر نے چھمی بیگم کی شکل میں عورتوں کے حزن والم کی تشکیل کی ہے جو روایتوں کی پاسداری میں باہر نہیں نکلتی تھیں ۔نہ تو عورتوں سے ہی زیادہ تعلقات رکھتی تھیں کیوں کہ انھیں اپنے حسب نسب کا زیادہ خیال تھا مگر اسی حسب نسب اور اقداروروایات شکنی ایک مردکے ہاتھوں ہوتی ہے جو چھمی بیگم کو ٹھکراکر ایک طوائف سے شادی کرکے اس کو گھر میں لاتاہے ۔یہاں قرۃالعین حیدر نے ایک سوال کھڑا کیاہے کہ کیا ایک عورت ہی ہر چیز کی پاسباں ہوتی ہے؟ کیا ایک عور ت کو اپنی زندگی خود جینے کا حق نہیں ہوتا ہے؟ انہوں نے قدروں کی پاسداری میں ایک عورت کی زندگی کے نشیب و فراز کو پیش کیاہے ۔چھمی بیگم جو اجو بھائی کے روپے لینے سے انکار کرتی ہیں۔وہی اچانک تقسیم ہند کے بعد بیگم صبیح الدین کے بچوں کی استانی بن جاتی ہیں۔ بیگم راشد کے گھر پہونچنے کے بعد رضیہ بیگم کے گھر ممبئی پہونچ جاتی ہیں ۔جو خود ایک چکلے کی مالکہ تھی مگر چھمی بیگم اس کے بزنس سے انجان اس کے حلال رزق میں راضی بہ رضارہتی ہیں ۔
قرۃالعین حیدر انسان دوست دل اور لطیف و نازک جذبات و احساسات کی مالک تھیں ۔ اس لیے وہ عورتوں کے دکھ، درد سے بخوبی واقف تھیں ۔انھوں نے نہ صرف اپنے وسیع مطالعے اور گہرے مشاہدے سے عورتوں کے مسائل کو پیش کیاہے بلکہ اس میں اتنا درد بھر دیاہے کہ قاری کا دل بھی اس سے سسک اٹھتاہے ۔چھمی بیگم کی محرومیوں کو پیش کرتے ہوئے انھوں نے صرف تاریخی ،تمدنی اور تہذیبی ادوار کی نمائندگی نہیں کی ہے اورنہ ہی اپنے وسیع علم کے ذریعہ سے کچھ ایسی چیزیں پیش کی ہیں کہ ان کے افسانے اکتسابی علمیت کے جہان بے معنی کے خلاف نظر آئیں بلکہ ان کے افسانے کچھ یوں علمیت کی سرحد کو عبور کرتے ہیں کہ ان میں ٹیس، کسک، اور لامتناہی غموں کا ایسا سلسلہ نظر آتاہے، جو قاری کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتا ۔
چاہے وہ گھر کے اندر ہویا گھر کے باہر ،چاہے وہ سماج کی ذمہ داری ہو یا حکومتی سربراہوں کی مرہون منت ۔ قرۃالعین حیدر نے ’’آوارہ گرد‘‘میں حکومتی سربراہوں پر طنز کیاہے ۔جس میں ’اوٹو‘ کی ماں پولینڈ کی فوجوں کا نشانہ ہوس بنتی ہے ۔یہ افسانہ یورپ میں دوسری جنگ عظیم کے پس منظر میں لکھا گیاہے ۔اس سے قرۃالعین حیدر کے گہرے مطالعے اور فنی بصیرت کا اندازہ ہوتاہے کہ انھوں نے دوسری جنگ عظیم کے پس منظر میں عورتوں کی عفت وپاکدامنی کو ان محافظوں کے ہاتھوں تار تار ہوتے ہوئے دکھایا جو پولینڈ کے محافظ تھے اور طرہ یہ کہ انھیں محافظوں میں سے ایک محافظ کی بیوی ’اوٹو‘ کی ماں تھی، جو پولینڈ کے ہی محاذ پر مارا گیاتھا ۔ سعادت حسن منٹو نے ’کھول دو‘ میں جس طرح سکینہ کی عزت کو اپنے ہی رضا کاروں کے ہاتھوں داغدار ہوتے ہوئے پیش کیاہے۔ اسی طرح قرۃالعین حیدر نے دوسری جنگ عظیم میں ان عورتوں کو پیش کیا ہے جو اپنے ہی محافظوں کے ہاتھوں برباد ہوئیں ۔جن کی کوئی قدر و قیمت نہیں ،خود ایک محافظ ہی ایک عورت کی عزت کو تار تار کرتاہے ۔عورتوں کے لیے یہ المیہ نہیں تو اور کیاہے ؟عورت ان محافظوں کے ہاتھو ں لٹ رہی ہے ،برباد ہورہی ہے جو کہ عورتوں کی عزت کا محافظ ہوتاہے۔ جن پر اعتماد کیا جاسکتاہے، جب وہی محافظ راون بن جائے توپھر سیتاکوکون بچا سکتاہے ؟جب باغ کامالی ہی گلچیں بن جائے تو مالی پر بھروسہ کیسے کیاجاسکتاہے ؟ ’’آوارہ گرد‘‘ میں ایسے ہی مالیوں کو پیش کیاگیاہے جو گلچیں بن کر نمودار ہوتے ہیں اور پھولوں کو ڈالیوں سے جدا کرکے پاؤں تلے روندنے کے لیے زمین بوس کردیتے ہیں ’آوار ہ گرد‘ کا مرکزی کردار سیاح ’اوٹو‘ ایک ایسی ہی روندی ہوئی شخصیت کا بیٹا ہے، جو اپنے ہی محافظوں کے ہاتھوں زخمی کی جاتی ہے۔ ’اوٹو‘ دنیاکا سفر کرنے کے لیے نکلا تھا ،وہ کولون یونیورسٹی کا طالب علم تھا اور ایران ،ترکی، جرمن، سے ہوتے ہوئے ممبئی پہنچا تھا۔سفر کے دوران پیسے کی کمی کے باعث صرف کیلے پر ہی گزارہ کرلیتاتھا یا توبھوکاہی رہ جاتاتھا ۔ممبئی میں راوی کے گھر ڈائیننگ ٹیبل پر کھانے کی تعریف کرتے ہوئے اپنی ما ں کے ہاتھ کے بنے ہوئے کھانے کی یاد میں المناک ہوجاتا ہے، پھر یہاں ایک عورت اور ایک مظلوم ماں کی داستان رقم ہوتی ہے ۔یہ قرۃالعین حیدر کی خوبی ہے کہ وہ اپنے مقصد کو بیان کرنے کے لیے کسی نہ کسی تکنیک کا سہارا لے لیتی ہیں ۔ان کی تکنیک کار گر بھی ہوتی ہے ’اوٹو‘ کی زبانی ان کی نسائی حسیت کا پتہ چلتاہے :
’’میرے ابا فوجی افسر تھے ۔اماں سترہ سال کی تھی ،جب انھوں نے ابا سے شادی کی ۔ابا پولینڈکے محاذپر مارے گئے۔ ان کے مرنے کے دوسرے مہینے میں پیدا ہوا۔ بمباری سے بچنے کے لئے مجھے کندھے سے لگا ئے اماں جانے کہا ں کہاں گھومتی رہیں ۔وہ مجھے گود میں اٹھائے ،سر پر رومال باندھے ،فل بوٹ پہنے اپنا مختصر سا سامان پریمبولیٹر میں ٹھونسے گاؤں گاؤں پھرتی تھیں اور کھیتوں کھلیانوں میں چھپتی رہتی تھیں ۔اماں پولینڈ میں ایک گاؤں میں چھپی ہوئی تھیں جب پولش فوجی اس رات اس مکان میں گھس آئے ۔ میں اس وقت پورے چار سال کا تھا۔ میرے بچپن کی واضح ترین یاد اس قہر ناک رات کی ہے۔ میں ڈرکر پلنگ کے نیچے گھس گیا۔ جب افسروں نے میری اماں کو پکڑکر اپنی طرف کھینچا تو میں زور زور سے رونے لگا۔ وہ اماں کو گھسیٹ کر باہر کھیتوں میں لے گئے۔‘‘
(افسانہ آ وارہ گرد ،افسانوی مجموعہ روشنی کی رفتار،ص:9) 
عورت چاہے کسی بھی ملک میں ہو ،و ہ کسی بھی زمانہ میں ہو، ہر معاشرے میں اس کی نازک عصمت کا مسئلہ جوں کا تو ں رہتاہے ۔جس کی آواز قرۃالعین حیدر کے مذکورہ افسانے میں سنائی دیتی ہے کہ عورت ہندوستان میں ہویا یورپ میں ہر جگہ وہ اپنے ہی محافظوں کے ہاتھوں داغدار کی جاتی ہے ۔عورت کے لیے اس سے بڑا مسئلہ اور کیا ہو سکتا ہے ؟ عورت ہمیشہ سے پامالی کی زندگی گزارتی آئی ہے،چاہے و ہ گھر کے اندر ہو یا گھر کے باہر ،معاشرتی سطح پر ہو یا خانگی سطح پر۔ شوہر کی مرہون منت ہو یا اعلی عہدوں پر فائز افسروں کے زیر سایہ ہو،کوئی بھی سائبان اس کے لیے محفوظ نہیں ہے ۔’’اکثر اس طرح سے بھی رقص فغاں ہوتاہے‘‘کے نسوانی کردار’جمال آرا‘کو دیکھا جاسکتاہے ۔
قرۃالعین حید ر کے نسوانی کردار حیات فانی کی سختیوں کو جھیلتے ہوئے اپنے جینے کی راہیں تلاش کرلیتے ہیں ۔ کہیں وہ آزادی کو ترجیح دیتے ہیں اورکہیں زنداں کو ،کہیں وہ بے بس ،مجبور نظر آتے ہیں توکہیں مجبوری کو خیر آباد کہتے ہوئے نظر آتے ہیں ،کہیں جمودکے شکار ہوتے ہیں توکہیں متحرک صورت اختیار کرلیتے ہیں ۔
قرۃالعین حیدر اپنے مخصوص تاریخی اسلوب اور عمدہ تکنیک کے لیے انفرادیت کا درجہ رکھتی ہیں ۔جوان کے وسیع مطالعہ ،عمیق مشاہدہ اور فکری رویے کاشاہدہے۔ وہ عورتوں کی آزادی کی بہت قائل نہیں ہیں، کیوں کہ وہ ماڈرن اور قدامت پرست ماحول کی امتزاجی پیداوار تھیں اس لیے معتدل رویوں کی حامل بھی تھیں۔مگران کی تحریروں میں نسوانی حسیت کے عنصر ،ان کا باغی پن ،تانیثی شعور کی جھلکیاں عورتوں کے مسائل کی بازگشت سنائی دیتی رہتی ہیں۔ ان کے اس طرز تحریر کے پس پردہ عورتوں کے مسائل اور ان کی مظلومیت پوشیدہ ہوتی ہے ۔چاہے ان کی تخلیق آٹھویں صدی کے عہد عتیق کے حوالے سے ہویا جدیدیت کے تناظر میں ’’سینٹ فلورا آف جارجیا کے اعترافات ’’ایسی ہی نسوانی بغاوت کو پیش کرتا ہے جو آٹھویں صدی عیسوی میں الیگژنڈر کی بہن ہوتی ہے اور اس کو اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے پر مما نعت کردی جاتی ہے۔ اس کی سزا کے طور پر اس کو صحرائے سوریا کی خانقاہ کے حجرے میں محبوس کر کے ایک راہبہ کی زندگی گزارنے پر مجبور کردیاجاتاہے ۔


Noorus Sabah
Payare Pura Amco Store
Maunath Bhanjan
Mau-275101 (U.P)



قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں