10/12/18

کیٹس کا شاہکار اوڈٹواے نائیٹنگل. مضمون نگار:۔ منظر نیاز





کیٹس کا شاہکار اوڈٹواے نائیٹنگل


منظر نیاز
اوڈ ٹو اے نائیٹنگل انگریزی ادب کے شعری سرمایے کا مایہ ناز شاہکار ہے۔ اوڈ کے لفظی معنی کسی خاص موضوع کو گفتگو کا مرکز بناکر اپنی بات کہنا ہے۔ یہ ایک طرح کی طویل نظم ہوتی ہے جس میں شاعر کسی جاندار یا بے جان شے کو موضوعِ گفتگو بناتا ہے اور مخاطب کو زندہ جاوید، ذی شعور حیثیت دے کر باقاعدہ اس سے گفتگو کرتا ہے۔ موضوعِ گفتگوبہرحال مخاطب سے مربوط رہتا ہے۔ لیکن شاعر اس گفتگو کے دوران اپنے نظریات و خیالات اور فلسفۂ حیات کو نظم کرتا چلا جاتا ہے۔ زیر جائزہ نظم اوڈ ٹو اے نائیٹنگل جان کیٹس کی مشہور ترین اوڈس میں شمار ہوتی ہے۔ اس نظم کی تخلیق مئی 1819 میں عمل میں آئی تھی اور اسے جنوری 1820 میں Annals of the Fine Arts میں شامل اشاعت کیا گیا تھا۔ کیٹس نے اس نظم کے ساتھ ساتھ دیگر کئی اوڈس تخلیق کی تھیں جن میں اوڈ ٹو آٹمن(Ode to Autumn)، اوڈ ٹو انڈولینس(Ode to Indolence)، اوڈ ٹو سائکی(Ode to Psyche)، اوڈ ٹو گریسین ارن (Ode to Grecian urn)اور اوڈ ٹو ملن کولی (Ode to Melancholy)کا نام لیا جا سکتا ہے۔ 
اردو شاعری میں اسرار الحق مجاز کا موازنہ کیٹس سے کیا گیا تھا اور ایک بڑے شاعر نے تو مجاز کی رومانوی شاعری کے حوالے سے بڑا خوبصورت استعارہ تحریر کیا ہے کہ ’’اردو شاعری میں ایک کیٹس پیدا ہوا تھا جسے ترقی پسند بھیڑیے اٹھا لے گئے۔‘‘ اس سے قطع نظر کہ کیٹس کا موازنہ کس اردو شاعر سے کیا جا سکتا ہے، پہلے نظم کا پس منظر جان لینا ضروری ہوگا۔کیٹس نے اس نظم میں غمِ جاناں کو غمِ دوراں بنانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ مئی 1819 کے نصف سے لے کر جنوری 1820 کے دوران Annuals of Fine Arts میں شاعر کی اس نظم کے ساتھ دیگر چھ نظمیں بھی شائع ہوئی تھیں۔ 
کیٹس کے دو بھائی اور تھے۔ سب سے بڑا بھائی جارج کیٹس جو جان کیٹس کی حتی المقدور مالی امداد کرتا تھا، تاہم بہت جلد انگلینڈ چھوڑ کر غیر ملک چلا گیا۔ کیٹس کا چھوٹا بھائی ٹام کیٹس تپ دق کا شکار تھا۔ چھوٹے بھائی کا تپ دق کا مرض سوہانِ روح تھا۔ اس وقت تک تپ دق کا شافی علاج لندن جیسے ترقی یافتہ شہر میں بھی دستیاب نہ تھا۔ کیٹس چھوٹے بھائی کو تل تل، پل پل، گھل گھل کر موت سے ہمکنار ہوتا ہوا دیکھ رہا تھا۔ جو کچھ اس کے امکان میں تھا وہ کرتا رہا لیکن اپنے عزیز بھائی کو موت سے نہ بچا سکا۔ کیٹس کا یہ درد اس کی نظم میں واضح الفاظ میں جھلکتا ہے اور ہم چشم تصور سے کیٹس کو بھائی پر اشک بار اور غم زدہ دیکھ سکتے ہیں جب وہ کہتا ہے کہ ’جہاں نوجوان زرد پڑ جاتے ہیں، گھل گھل کر ہڈیوں کا ڈھانچہ بن جاتے ہیں، پھر موت کی آغوش میں سو جاتے ہیں۔ تو تھامس کیٹس کی کیفیت ہم پر واضح ہو جاتی ہے۔ 
عزیز ترین بھائی کی جدائی کے فوراً بعد کیٹس کو پتا چلا کہ وہ بذاتِ خود اسی موذی مرض یعنی ٹی بی میں مبتلا ہے۔ کیٹس ایک نوخیز شاعر، حساس نوجوان، وہ سمجھ گیا کہ اب ہر سانس آخری سانس کی تمہید ہے۔ مفلسی نے پہلے ہی سارے حوصلے پست کر دیے تھے۔ ایسے میں اُسے مزید صدمہ اپنی محبوبہ فینی براؤن (Fanny Brawne) کی جانب سے پہنچا جس نے کیٹس سے منھ موڑ لیا تھا۔ 
ڈھلتے سورج کی بھلا کون کرے گا پوجا
شمع گل ہوتے ہی پروانے پلٹ جاتے ہیں
فینی براؤن کو اس علیل نوجوان شاعر میں کشش معدوم ہوتی ہوئی محسوس ہوئی اور اس نے اپنا قبلہ بدلنے میں ہی عافیت سمجھی اور اپنی راہیں الگ کر لیں۔ ایک سال کے اندر کیٹس نے بھی ٹی بی کے مرض میں عین جوانی کے عالم یعنی 25 برس کی عمر میں 23 فروری 1821 کو اس جہانِ فانی کو خیرباد کہا۔اس مختصر سے عرصے میں چھ اوڈس لگاتار تخلیق کیں۔ جو کچھ کہا وہ نغمہ جاں فزا نہ تھا بلکہ ٹوٹے ہوئے بربط کی فغاں تھی جو اسے انگریزی ادب میں حیاتِ جاودانی عطا کر گئی۔ موت تو برحق ہے لیکن بہت سے لوگ اپنے پیچھے ایسے نقوش چھوڑ جاتے ہیں جو انہیں رہتی دنیا تک یاد کرنے کا بہانہ بن جاتے ہیں۔
زیر جائزہ نظم کی تخلیق جان کیٹس نے خود اپنے مکان وینٹ ورتھ پلیس، ہیمپ اسٹیڈ واقع لندن کے پائیں باغ میں کی تھی۔ اس کے قریبی دوست Charles Armitage Brownنے لکھا ہے کہ 1819 کے موسمِ بہار میں ایک دن جب نائیٹنگل یا بلبل اپنی دھن میں نغمہ سرا تھی، کیٹس اپنی کرسی اٹھا کر اس کے گھونسلے کے نزدیک لے گیا اور بہت غور سے اس کا نغمہ سنتا رہا۔ اس کے ہاتھوں میں کچھ متفرق کاغذات تھے۔ نغمہ سننے کے دوران وہ کچھ لکھتا بھی جا رہا تھا۔ بعدازاں جب براؤن نے پوچھا کہ تم کیا کر رہے تھے تو اس نے دکھایا کہ میں یہ لکھ رہا تھا۔ 
اوڈ ٹو اے نائیٹنگل کے حسن و نغمگی کے مداحین اور ناقدین بڑی تعداد میں موجود رہے ہیں۔ معترفین نے اسے غمِ جاناں کا شاہکار تسلیم کیا ہے جس میں شاعر نے انگریزی ادب کے فن عروض سے بھی بقدرِ استطاعت استفادہ کیا ہے۔ بعدازاں جب یہ شاہکار نظم جنوری 1820 میں منظرِ عام پر آئی تو اس نظم کے استعارات کو دیگر ادباء و مصنفین نے اپنی تخلیقات کا موضوع بنایا۔ مثال کے طور پر ٹینڈر از دی نائٹ (Tender is the night) جو اس نظم کی 35ویں سطر ہے، کو ایف۔ اسکاٹ فٹزگیرالڈ (F. Scott Fizgeral) نے اپنے ناول کا عنوان بنایا۔ پی جی گڈہاؤس کے ناول کا نام فل مون (Full Moon) بھی اسی نظم کا استعارہ ہے۔ ایسی دیگر بے شمار مثالیں ہیں جہاں انگریزی ادب کے فکشن کے تخلیق کاروں نے بڑی خوبصورتی سے اس شاعر کی تخلیق سے استفادہ کیا ہے اور پوری پوری سطریں حوالے کے طور پر پیش کی ہیں۔ 
جان کیٹس کی زندگی اور اندازِ حیات پر نظر ڈالنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ان واقعات اور سانحات نے اس کی پوری شخصیت اور شاعری کو متاثر کیا ہے اور اس نظم میں بھی ان کی واضح جھلک موجود ہے۔ کیٹس کے والد جب کیٹس کی عمر محض پانچ برس تھی، اس دارِ فانی سے رخصت ہو گئے تھے۔ کیٹس کی والدہ بھی 14 برس کی عمر میں چل بسی تھیں۔ جان کیٹس کی پیدائش 31 اکتوبر 1795 کو لندن میں ہوئی تھی۔ والدین کے انتقال کے بعد بڑے بھائی جارج کیٹس نے جان کیٹس اور ٹام کیٹس کی پرورش کی ذمے داری نبھائی۔ لیکن جلد ہی وہ غیر ملک سدھار گئے۔ جان کیٹس نے جیسے تیسے خود کو اور چھوٹے بھائی کو سنبھالا۔ ٹام کیٹس ٹی بی میں مبتلا ہو کر جلد ہی دنیا کو خیرباد کہہ گیا۔ نوجوان جان کیٹس کو ٹام کیٹس کی رحلت کا غیر معمولی صدمہ ہوا۔ نوجوان شاعر ادبی دنیا میں اپنا مقام حاصل کرنے میں کوشاں تھا۔ جس پذیرائی کا وہ حقدار تھا وہ پذیرائی اسے بعد از مرگ حاصل ہوئی۔ 25 برس کی عمر میں یعنی 23 فروری 1821 کو خود جان کیٹس بھی تپ دق کا شکار ہوکر دنیائے فانی سے رخصت ہو گیا۔ 
کیٹس کا عہد ولیم ورڈس ورتھ (1770-1850) اور سیموئیل ٹیلر کولرج (1772-1834) کا تھا۔ یعنی یہ رومانوی شاعری کا دور تھا۔ ان دونوں شعرا کو زبردست مقام حاصل ہوا۔ کیٹس ان دونوں سے عمر میں چھوٹا تھا اور موت نے اسے اپنی مقبولیت اور پذیرائی سے استفادہ کرنے کا موقع نہ دیا۔ اس زمانے کے بیشتر ناقدین۔ مثلاً رڈیارڈ کپلنگ سے لے کر الیکزینڈر میکی، ایچ ڈبلیو گراڈ، رچرڈ فوگلے، ای سی پیٹلس، والٹر جیکسن بیٹیازنے اپنے اپنے طور پر اس نظم کے بارے میں بہت کچھ اظہارِ خیال کیا ہے۔ رچرڈ فوگلے نے کافی ناقدانہ موشگافیاں کی ہیں۔ تاہم ای سی پیٹر، والٹر جیکسن بیٹاز نے ان موشگافیوں کا بڑا اچھا جواب دیا ہے۔ ہیرالڈ بلوم، لیسی بریسمین، جان کولینڈزر وغیرہ نے اس نظم کو جان ملٹن سے متاثرہ نظم قرار دیا جبکہ انہیں شیکسپیئر کی تخلیقات نظر نہیں آئیں۔ حالانکہ کیٹس نے متعدد استعارے شیکسپیئر سے لیے ہیں۔ 1973 میں اسٹیوارٹ اسپیری نے اوڈ ٹو اے نائیٹنگل کو جان کیٹس کی شاعری کا شاہکار قرار دیا۔ پوئیٹ لاؤری ایٹ اینڈ ریو موشن نے 1999 میں اس نظم کو احساس اور محسوسات سے مملو غمِ جاناں اور غمِ دوراں کا مرقع قرار دیا۔ 
اوڈ ٹو اے نائیٹنگل کے ساتھ کیٹس نے دیگر اوڈس بھی تخلیق کی تھیں۔ تاہم اس نظم میں اس نے حروف ندا کا بڑی خوبی سے استعمال کیا ہے۔ پی بی شیلے نے اوڈ ٹو اے اسکائی لارک میں بھی اسکائی لارک کا نغمہ سنا ہے۔ تاہم کیٹس کے یہاں یہ نغمہ جاں گسل اور موت کی یاد دلانے والا ہے۔ کیٹس نغمے سے متاثر تو ہے لیکن اس کی منطق اسے خبردار کرتی ہے کہ اس نغمگی کے سہارے غم و آلام سے نجات ممکن نہیں ہے۔ ایسے میں اسے موت ہی سارے غموں کا علاج نظر آتی ہے۔ تاہم وہ ایک ایسی موت کا خواہاں ہے جو کسی جسمانی کرب یا کشمکش کے بغیر خاموشی سے رونما ہو۔ دل ٹوٹ جانے کے بعد کیٹس کو دنیائے فانی میں کوئی کشش محسوس نہ ہوتی تھی اور اس نے اپنی نظم میں اس کا برملا اظہار اس طرح کیا ہے کہ ’اب موت کے سوا کوئی اور آرزو نہیں‘، اس استعارے سے ہم کیٹس کے اس ذہنی کرب کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں جس سے وہ خود گزر رہا تھا۔
سچائی یہ ہے کہ جان کیٹس کی یہ نظم غمِ دوراں اور غمِ جاناں کا ایک ایسا حسین مرقع ہے جس پر انگریزی ادب بجا طور پر فخر کر سکتا ہے۔ کیٹس کو ادبی دنیا میں عظیم ترین مقام پر فائز کرنے کے لیے یہی نظم کافی ہے۔ 
اگر اس اوڈ کے سرسری معنی پر نظر ڈالیں تو :
’’شاعر کہتا ہے کہ میرے قلب و جگر میں ایک درد سا اٹھتا ہے اور غنودگی آمیز کسل میرے حواس پر حاوی ہو جاتی ہے گویا کہ میں نے دھتورے کا پیالہ پیا ہے یا پھر افیون کی چسکی لگائی ہے۔ شاعر خواہش کرتا ہے کہ کاش ایسے ہی ایک لمحے میں وہ یعنی شاعر وجود سے عدم میں پہنچ جائے۔ وہ اس نغمہ ریز پرندے کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے خوش گلو پرندے، یہ تیری پرمسرت نغمگی اور تیری آزادانہ زندگی سے حسد کرکے حاصل نہیں ہوسکتا۔ نہ مجھے تجھ سے حسد ہے، میں تو تیری خوشی میں خوش ہوں۔ ہاں، تیری پرمسرت حیات سے تھوڑی سی مسرت اور ترغیب حاصل کرنا چاہتا ہوں، مگر اس سے بھی کیا ہوگا۔ تو تو کسی نہ کسی قطعہ ارض میں درختوں کی شاخوں پر نغمہ ریز ہوگی۔ سرسبز درختوں اور چھاؤں میں، موسم گرما میں پوری آواز کے ساتھ کھلے گلے سے نغمہ سنج ہوگی۔ شراب کا ایک ایسا پیپا جو کافی عرصے سے زمین میں دفن کرکے رکھا گیا ہو، جس میں اس خطے کی نباتات کا اثر عرق بن کر اتر گیا ہو، اس علاقے کے رقص و سرود اور نغمے کے اثرات بھی اس میں موجود ہوں، سورج کی تمازت سے دمکتے ہوئے چہروں پر چمکتے ہوئے نور کے اثرات بھی ثبت ہوں۔ جس شراب سے پُر جام میں شراب کی سطح پر اٹھتے ہوئے بلبلے مجھے جام نوش کرنے کی ترغیب دے رہے ہوں، کاش میں ایسی شراب نوش کروں اور بڑی خاموشی سے اس دنیا کو خیرباد کہہ جاؤں، تیرے ساتھ اس جنگل میں گم ہو جاؤں اور ان تمام غم و آلام سے نجات حاصل کر لوں جن سے تو ان درختوں میں رہ کر کبھی نبردآزما نہیں ہوئی۔ وہ تکان، وہ بیتابی، وہ بے چینی، وہ بے قراری تجھے اس کا علم کیا۔ یہاں میری دنیا میں جہاں انسان بیٹھ کر ایک دوسرے کی کراہیں سننے پر مجبور ہیں، جہاں رعشہ کا مرض چند افراد کو لرزہ براندام رکھتا ہے اور ان کے سروں پر باقی ماندہ چند بال بھی ان کے ساتھ لرزہ براندام رہتے ہیں، جہاں نوجوان گھل گھل کر زرد ہو جاتے ہیں، ہڈیوں کا پنجر بن جاتے ہیں اور پھر جاں بحق ہو جاتے ہیں اور جہاں زندگی، سوا، اس کے اور کیا ہے کہ سوچو اور اُداس ہو جاؤ۔ بوجھل آنکھوں میں مایوسی کے ڈیرے ہیں، جہاں حسن بہت جلد اپنی برنائی کھو دیتا ہے،جہاں حسن کی آنکھوں کی چمک اور اس میں جگمگانے والی محبت بہت جلد دم توڑ دیتی ہے، میں اس دنیا سے تیرے ساتھ دور بہت دور پرواز کر جانے کا آرزومند ہوں، اس پرواز کے لیے شراب کا نشہ معاون نہیں بلکہ تخیل کے بال و پر درکار ہیں۔ ذہن جھٹکے لیتا ہے، ٹھوکریں کھاتا ہے۔ میں تیرے ساتھ روانہ ہو چکا، رات ابھی نوخیز ہے، خوش باش چاند کی ملکہ اپنے تخت پر جلوہ افروز ہے۔ اس کے گرد ستاروں کی شکل میں پریوں کا حلقہ ہے۔ تاہم جہاں میں کھڑا ہوں، یہاں روشنی معدوم ہے۔ خوشگوار باد نسیم کے جھونکے آر ہے ہیں جو آس پاس کے درختوں پر لگی ہوئی کائی سے ٹکرا رہے ہیں۔ میرے قدموں میں بے شمار پھولوں کے پودے ہیں۔ میں انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھنے سے قاصر ہوں، شاخوں پر کیسی بھینی بھینی مہک ہے، یہ بتانے سے بھی قاصر ہوں کہ اصل میں کیا ہے تاہم موسم بہار کے تمام خوبصورت پھولوں کا تصور کر سکتا ہوں، ان کی مہک سے ان کی شناخت کر سکتا ہوں، گھاس، گھنا سبزہ، پھلوں سے لدے ہوئے درخت، جنگلی ناگ پھنی، چراگاہوں کے پھول، پتوں میں ڈھنکے بنفشے کے پھول جو بہت جلد مرجھا جاتے ہیں اور وسط مئی میں کھلنے والا معطر گلاب، گرمیوں کی شام جس پر بیشمار مکھیاں منڈلاتی ہیں، میں نے متعدد مرتبہ ایک ایسی خاموش موت کی تمنا کی ہے جو بے حد آسان ہو۔ میں نے اسے اپنی دلکش دھن میں آواز دی ہے کہ تو آ اور میری روح خاموشی سے قبض کر لے۔ اب موت کے سوا اور کوئی آرزو نہیں۔ میں نصف شب میں مکمل خاموشی سے موت کی آغوش میں سو جاؤں، اُدھر تو بے خود ہو کر نصف شب میں ورافتگی سے نغمہ سر ا ہے۔ اس عالم میں میں دنیا کو خیرآباد کہنا چاہتا ہوں، تو اب بھی نغمہ سرا ہے۔ اے لافانی پرندے، تو فنا نہیں ہوگا۔ کوئی بھی ظالم تجھے مٹا نہیں سکے گا۔ یہ نغمہ جو میں نے گذشتہ رات سنا، ازمنہ قدیم کے فرما ں روا بھی سنا کرتے تھے اور ان کے خدام بھی سنا کرتے تھے، شاید یہی نغمہ رُتھ کے دل سے بھی ٹکرایا تھا جب وہ وطن سے دور آنکھوں میں آنسو لیے جادوگر کے محل میں مقید تھی۔ گھر سے دور وطن سے دور اور وطن واپس آنے کے لیے جادوگر کے محل کے دریچے کے سامنے کھڑی تھی جس کے نیچے خوفناک سمندر چنگھاڑتا تھا، ’یکہ و تنہا‘ جادوگر کی قید میں یہ لفظ ایک گھنٹی کی طرح بجتا ہے اور مجھے تیرے تخیل کی دنیا سے حقیقی دنیا میں واپس کھینچ لاتا ہے۔ الوداع، تخیل بہت دیر تک ساتھ نہیں نبھاتا، قائم نہیں رہ پاتا، صرف خود فریبی میں مبتلا کرتا ہے۔ الوداع، الوداع، تیرا نغمہ بھی اب معدوم ہو گیا ہے۔ تو اب چراگاہوں سے پرے خاموش دریا پر سے گزرتی ہوئی آگے پرواز کرچکی ہے۔ پہاڑوں کی جانب رواں دواں ہے، اگلی وادی میں جا چکی ہے۔ کیا یہ کوئی خواب تھا جو میں نے دیکھا؟ وہ موسیقی خاموش ہو چکی ہے، میں بیدار ہوں یا محو خواب ہوں۔‘‘
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم خود بھی کیٹس کے ساتھ حقیقی دنیا سے پرندے کے نغمے کے ساتھ تخیل کی دنیا میں پہنچ گئے تھے اور شاعر کے ساتھ ہم بھی تخیل کے پروں کے ساتھ پرواز کر رہے تھے۔ یہ نظم بجا طور پر غمِ جاناں اور غمِ دوراں کا ایک حسین مرقع ہے اور جان کیٹس کی عظمت تسلیم کرانے کے لیے بہت کافی ہے۔ اوڈ ٹو اے نائیٹنگل میں شاعر کے محسوسات اور واردات قلبی بڑے متاثر کن انداز میں یکے بعد دیگرے سامنے آتے ہیں اور قاری بذاتِ خود اس درد نہاں کا احساس کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے جو کبھی کیٹس نے کیا تھا۔ اوڈ ٹو اے نائیٹنگل حقیقت اور رومانس کے درمیان ایک حسین آویزش کہی جا سکتی ہے، ساتھ ہی ساتھ فطرت کا دامن بھی نہیں چھوٹتا۔ رچرڈ فوگلے کے الفاظ میں نظم کے اندر خاص زور اصل اور تمثیل کے درمیان ہونے والی کشمکش پر ہے۔ یہ نظم خوشی و غم کا مرقع ہے، تخیل کے ساتھ منطق و حواس کی بھی مثال ہے۔ تشنگی و تکمیل، ہمیشگی و تبدیلی کے اشارات اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ انسان و فطرت کا ساتھ، حیات و فنون، آزادی و پابندی، خواب و بیداری کی مثال ہے۔ نائیٹنگل یا ’’بلبل کا نغمہ اس نظم کا مرکزی خیال اور محرک آواز ہے۔ یہ پرندہ حسیت اور ستائش کا باعث ہے۔ ‘‘
اگر جان کیٹس کی زندگی نے وفا کی ہوتی تو شاید کیٹس کو بھی انگریزی ادب میں شیکسپیئر جیسا مقام حاصل ہوا ہوتا اور اس سے بھی کہیں زیادہ پذیرائی ملتی۔ کیٹس نے جو کچھ کہا ہے وہ اس کا محض مشاہدہ نہیں بلکہ ذاتی تجربہ بھی ہے۔ نظم کے درمیانی حصے میں اس نے بڑی خوبی سے اپنے چھوٹے بھائی کی علالت اور اس کی کیفیت کی جانب اشارہ کیا ہے۔ پھر منظورِ نظر کی بے اعتنائی اور دنیا کی ناپائیداری کا تذکرہ بھی بڑے فلسفیانہ انداز میں کیا ہے۔ اس عمر میں اس قدر پختہ شعور شاید ان غم و آلام کا عطیہ تھا جس سے کیٹس خود دوچار ہوا تھا۔ بلاشبہ کیٹس کی یہ نظم عالمی ادب کی شاہکار نظم قرار دی جا سکتی ہے۔

Manzer Neyaz
Deputy Director, Press Information Bureau
NMC Building, New Delhi -110026





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں