7/12/18

آل احمدسرور کی خودنوشت اور ان کے ادھورے کام . مضمون نگار:۔ راہین شمع



آل احمدسرور کی خودنوشت اور ان کے ادھورے کام

راہین شمع

اردو میں جو خودنوشتیں لکھی گئی ہیں ان میں ایک اہم خودنوشت آل احمد سرور کی ہے جو انھوں نے ’خواب باقی ہیں‘ کے عنوان سے تحریر کی ہے۔ اس خودنوشت کی اہمیت یہ ہے کہ اس سے بہت سے مقامات اور اشخاص سے نہ صرف آگہی ہوتی ہے بلکہ ایک عہد کا پورا ادبی، سیاسی، سماجی، ثقافتی اور تعلیمی منظر نامہ ہمارے سامنے آتا ہے۔ اس خودنوشت میں جن مقامات کا ذکر آیا ہے ان مقامات کے حوالے سے تفصیلات بھی ہیں اور جن شخصیات کے تذکرے اس میں ہیں وہ بہت نمایاں اور ممتاز ہیں۔ ان کے احوال و کوائف سے بھی آگہی ہوتی ہے۔ خودنوشت کا آغاز آل احمد سرور کے اپنے شہر بدایوں سے ہوتا ہے۔ بدایوں جو بقول ان کے مغربی اترپردیش کا ایک تاریخی شہر ہے۔ اس کا پورا نام بودھاسؤ تھا۔ مہاتما بدھ کے زمانے سے اس کا ذکر ملتا ہے۔ یہ وہ شہر ہے جہاں شہدا کے مزار ہیں اور مصحفی نے اپنے شعر میں یوں اشارہ کیا ہے ؂
قاتل تری گلی بھی بدایوں سے کم نہیں
جس کے قدم قدم پہ مزارِ شہید ہے
آلِ احمد سرور نے بدایوں کی جامع مسجد شمسی اور مشہور زیارتوں کا ذکر کرتے ہوئے اپنے خاندانی احوال بھی درج کیے ہیں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ :
’’ہم لوگ شیخ صدیقی ہیں۔ مولوی رضی الدین کی تاریخ اکمل التواریخ ہے، جس میں ہمارے بزرگوں کا ذکر ہے۔ یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ مصر کے ایک قصبے فرشور سے آئے تھے اور ہمارا سلسلہ نسب حضرت محمد بن ابوبکرؓ سے ملتا ہے۔ میرے لکڑ دادا (دادا کے دادا) مولوی ذکراللہ شاہ اپنے زمانے کے مانے ہوئے بزرگ تھے۔ ان کے والد کا نام محمد اشرف تھا۔ بچپن میں میں نے ایک سجع سنا تھا جس میں ذکر اللہ شاہ صاحب اور ان کے والد محمد اشرف اور ان کے پیر سید آل احمدمارہروی تینوں کا نام بڑی خوبی سے نظم ہوگیا تھا ؂
ذکر اللہ و ثنائے آل احمد اشرف است
میرا نام آل احمد انھیں بزرگ کے نام پر رکھا گیا ہے۔‘‘
آلِ احمد سرور نے اپنے پر دادا احسان اللہ شاہ، دادا حافظ محمد احمد اور والد مولوی کرم احمدکا ذکر کیا ہے۔ ان کے نانا مولوی حامد بخش شہر کے بڑے زمیندار تھے۔ اس میں انھوں نے مولوی علی بخش شرر کا بھی ذکر کیا ہے جو سرسید کے بڑے مخالف تھے۔ ان کے والد ملازمت میں تھے اس لیے مختلف شہروں میں ان کا تبادلہ ہوتا رہتا تھا۔ آل احمد سرور نے اس ذیل میں سیتاپور، بجنور، گونڈہ، غازی پور اور آگرہ وغیرہ کا بھی ذکر کیا ہے اور اپنی طالب علمی کے بہت سے اہم واقعات لکھے ہیں۔ ہاسٹل کی زندگی، اساتذہ اور اپنے دوستوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس کے بعد علی گڑھ کا ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’میں جولائی 1932 میں علی گڑھ آگیا تھا۔ والد علی گڑھ کے صدر ڈاک خانے کے پوسٹ ماسٹر تھے۔ ڈاک خانے کے ایک حصے میں ہم لوگ رہتے تھے۔ ایک بڑا سا میدان طے کرکے یونیورسٹی کا وکٹوریہ گیٹ آجاتا تھا۔ اب اس میدان میں نقوی پارک ہے اور یہ علاقہ خاصا سرسبز ہے۔‘‘
علی گڑھ کی طالب علمی کے زمانے کی ثقافتی سرگرمیوں کا یہ حال لکھا ہے کہ وہ ڈیبیٹ میں شریک ہوتے تھے اور انھوں نے علی گڑھ میگزین کی ادارت بھی کی تھی۔ انھوں نے لا میں بھی داخلہ لیا جہاں مولانا عبدالخالق صدر شعبہ ’تعزیرات ہند‘ پڑھاتے تھے۔آل احمد سرور نے اس باب میں اپنے اساتذہ اور محسنوں کا بھی ذکر کیا ہے اور علی گڑھ کی سرگرمیاں اور احوال بھی لکھے ہیں۔علی گڑھ میں جن اہم شخصیات سے ان کی ملاقاتیں رہیں ان کا بھی ذکر کیا ہے۔ خاص طور پر انھوں نے مسلم گرلز کالج کے بارے میں شیخ عبداللہ کا ذکر کیا ہے :
’’وہ کشمیری النسل تھے اور علی گڑھ میں وکالت کرتے تھے۔ بیسویں صدی کے شروع میں انھوں نے مسلم گرلس اسکول کی بنیاد ڈالی۔ ان کی بیگم نے اس کام میں ان کی بڑی مدد کی تھی۔ شیخ صاحب مجھ پر بڑی عنایت کرتے تھے۔ سرسید کے اثر سے ان میں بھی قوم کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ میرے زمانے میں اسکول انٹرکالج اور پھر ڈگری کالج ہوگیا تھا۔ اس کی پرنسپل پہلے ان کی دوسری لڑکی خاتون عبداللہ تھیں۔ ان کی شادی ہوگئی تھی تو ممتاز جہاں پرنسپل ہوئیں۔ ان کی شادی شعبۂ کیمسٹری کے کرنل حیدر خاں سے ہوئی تھی۔‘‘
رام پور سے بھی آل احمد سرور کا گہرا رشتہ رہا ہے۔ وہاں وہ رضا انٹرکالج میں پرنسپل کے طور پر گئے تھے۔ قیام کے دوران جن شخصیات سے ان کی ملاقاتیں رہیں ان میں خواجہ غلام السیدین، کرنل بشیر حسین زیدی، مولانا امتیاز علی عرشی، وجد علی خاں رشک، مولوی عبدالسلام، کرنل عطاء الرحمن، بیگم قدسیہ زیدی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
رام پور کے حوالے سے انھوں نے بڑی اہم بات لکھی ہے کہ ’’رام پور کے پٹھان بڑے مخلص ہوتے ہیں۔ میرا قیام رام پور میں بہت مختصر رہا مگر وہاں میری بڑی پذیرائی ہوئی۔ یہ لوگ خلوص کی بڑی قدر کرتے ہیں۔ مزاج میں کچھ اکھڑپن ہے مگر بڑی محبت کرنے والے ، بڑے مہمان نواز اور بڑے دل والے لوگ ہیں۔ بدقسمتی سے یہ چھوٹے چھوٹے گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ شہر سے باہر ایک چھوٹا سا طبقہ جدید خیالات والوں کا تھا۔ ان لوگوں کے یہاں پردے کا رواج نہ تھا مگر شہر میں وہی پرانا ڈھرا تھا۔ عورتوں کی تعلیم کی طرف حکومت نے توجہ کی تھی مگر عورتوں میں شرح خواندگی خاصی کم تھی۔ زیدی صاحب نے رام پور کی شکل بدل دی تھی۔ اسٹیشن کے سامنے کا علاقہ بڑا خوبصورت تھا۔ بڑی سڑکیں کشادہ اور ہموار تھیں۔ شہر میں یہ بات نہ تھی۔ ریاست چھوٹی سی تھی۔ زندگی کا محور نواب صاحب اور ان کا دربار تھا۔ زیدی صاحب کی کوشش سے کئی صنعتی ادارے بھی قائم ہوگئے تھے جن کی وجہ سے ریاست کی آمدنی بھی بڑھی تھی اور کچھ لوگوں کو روزگار بھی ملا تھا۔ میری ملاقاتیں زیادہ ترعرشی صاحب، واجد علی خاں رشک، مولوی عبدالسلام، کرنل عطاء الرحمن (جو اقبال کے شاگرد رہے تھے) سے رہتی تھیں۔‘‘
لکھنؤ بھی آل احمد سرور کا میدانِ عمل رہا ہے۔ اس شہر کے شخصیات، اساتذہ اور احوال بھی انھوں نے درج کیے ہیں اور انھوں نے ترقی پسند مصنّفین کے جلسوں کی تفصیل بھی درج کی ہے۔ دانش محل، کافی ہاؤس، ادارہ فروغ اردو اور لکھنؤ کے شاعروں اور ادیبوں کا بھرپور ذکر کیا ہے جس سے لکھنؤ کا پورا ادبی اور ثقافتی منظرنامہ نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے۔ لکھنؤ میں سرور صاحب کی جن سے ملاقاتیں رہیں ان میں احتشام حسین، نورالحسن ہاشمی، محمد تقی، رشید جہاں، قاضی عبدالغفار، چودھری محمد علی ردولوی، آنند نرائن ملا، ڈ،اکٹر فریدی، مسعود حسن رضوی ادیب، چندر بھان گپتا، سلام مچھلی شہری، رضیہ سجاد ظہیر، جوش ملیح آبادی، مانی جائسی، بسمل شاہ جہاں پوری، مرزا جعفر حسین، سروجنی نائیڈو، بیگم اختر، یاس یگانہ چنگیزی، احسن فاروقی، اثر لکھنوی، پروفیسر وحید مرزا ، کشور سرن، شیام کشن نرائن، ہری کشن اوستھی، بہادر سنگھ، کشن چند سری واستو، رنجنا سدھانت، دیوکی پانڈے، حسرت موہانی، علی عباس حسینی، صفی لکھنوی، ظریف لکھنوی، وی۔پی۔ مینن، چودھری محمد سلطان، کنہیا لال کپور، پرشوتم داس ٹنڈن، سمپورنانند وغیرہ ہیں۔ 
لکھنؤشہر انھیں بہت پسند تھا۔ ایک جگہ لکھا ہے :
’’مجھے ہی نہیں میری بیوی کو بھی لکھنؤ پسند تھا۔ وہ تو میرے لکھنؤ چھوڑنے پر خوش نہیں تھیں۔ میری بیوی کو شعر و ادب سے بہت دلچسپی ہے۔ ان کا مطالعہ بھی خاصا وسیع ہے۔ وہ لکھنؤ کے اکثر ادبی جلسوں میں شریک ہوتی تھیں اور مشاعرہ تو شاید ہی انھوں نے کوئی چھوڑا ہو۔ علی گڑھ اردو ادب کا ایک بڑا مرکز ہے مگر لکھنؤ میں میرے زمانے میں ادبی سرگرمیاں زیادہ تھیں۔ گھر پر انجمن ترقی پسند مصنّفین کے جلسوں اور ادیبوں اور شاعروں کے آتے رہنے کی وجہ سے ان کا وقت اچھا گزر جاتا تھا۔ یہ بات علی گڑھ میں نہ ہوسکی۔‘‘
لکھنؤ کے بعد سرور صاحب پھر علی گڑھ واپس آگئے۔ اس باب میں انھوں نے علی گڑھ یونیورسٹی کی سیاست، وہاں کی اہم شخصیات کا بہت ہی اچھے انداز میں ذکر کیا ہے۔ اس باب کا آغاز انھوں ایک خوبصورت شعر سے کیا ہے ؂
پھر اسی بے وفا پہ مرتے ہیں
پھر وہی زندگی ہماری ہے
اس باب میں انھوں نے ذاکر حسین کا تفصیلی ذکر کیا ہے اور اس مخالفت کا بھی جو اساتذہ کے ایک حلقے کی طرف سے شروع ہوگئی تھی جس کی وجہ بقول آل احمد سرور یہ تھی کہ ذاکر صاحب ہر معاملے میں فزکس کے شعبہ کے صدر پروفیسر گل کی بات کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔انھوں نے کرنل بشیر حسین زیدی کا بھی ذکر کیا ہے اور یہ لکھا ہے :
’’زیدی صاحب کی وائس چانسلری کا زمانہ کئی پہلوؤں سے بہت بھرپور تھا۔ کئی شعبوں میں ترقی ہوئی۔ دینیات کی فیکلٹی کے لیے انھوں نے مولانا سید احمد اکبرآبادی اور مولانا سید علی تقی جیسے ممتاز علما کی خدمات حاصل کیں۔ یونیورسٹی کی لائبریری کی نئی عمارات تیار کرائی۔ یہ لائبریری مولانا آزاد لائبریری کے نام سے موسوم ہے۔ ذاکر صاحب نے شعبۂ اردو کے مشہور فنکار ستیش گجرال سے غالب کی تصویر بنوائی تھی جو صدر شعبۂ اردو کے دفتر میں رکھی گئی ہے۔ زیدی صاحب نے گجرال سے مولانا آزاد کی بھی تصویر بنوائی یہ آزاد لائبریری میں ہے۔ فیکلٹی آف آرٹس کی نئی عمارت بھی انھیں کے زمانے میں تعمیر ہونی شروع ہوئی۔ زیدی صاحب کا سب سے بڑے کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے میڈیکل کالج میں نصف اندرونی اور نصف بیرونی طلبا کا فارمولا بڑی کوشش کے بعد اترپردیش کی حکومت سے منظور کرایا۔ وہ لوگ تو یہ چاہتے تھے کہ دوسرے میڈیکل کالجوں کی طرح یہاں بھی داخلہ عام مقابلے سے ہو۔ کالج اور اسپتال کی وسیع عمارتوں کی تعمیر بھی ان کے زمانے میں شروع ہوئی۔ انھیں بجا طور پر علی گڑھ کا شاہ جہاں کہا جاتا ہے۔‘‘
اسی حصے میں انھوں نے کابل، شکاگو، رومانیہ، ہنگری، سویت یونین، قزاقستان، تاشقند، سمرقند، روس اور امریکہ کے سفر کے واقعات بھی لکھے ہیں۔سفر نامے کا حصہ قابل قدر ہے۔ اس سے مختلف ملکوں کے سماجی ، سیاسی اور تعلیمی نظام سے واقفیت ہوتی ہے اور بہت سی قوموں کے احوال و اطوار سے بھی۔ انھوں نے جن جن ملکوں کا سفر کیا ہے وہاں جن اہم شخصیات سے ملاقاتیں رہیں ان کے بارے میں بھی تفصیلات لکھی ہیں۔ اس طرح یہ ایک طرح سفرنامہ ہے۔ اس کے ذریعے ہم بہت سی چیزوں سے واقف ہوپاتے ہیں۔ انھوں نے قزاقستان کے صدر مقام الما آتا کا ذکر کیا ہے۔ جس کے معنی ہیں سیب کا باب۔ 
سرور صاحب نے سمرقند اور بخارا کا بھی ذکر کیا ہے۔ یہ دونوں علاقے مسلمانوں کے لیے بہت ہی اہمیت کے حامل ہیں۔ چونکہ حافظ شیرازی نے اپنے ترک شیرازی کے خال پر انہی دونوں شہروں کو نذر کرنے کا خیال ظاہر کیا تھا۔ انھوں نے سمرقند میں تیمور کے مزار، الغ بیگ کی رسد گاہ کا بھی ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’الغ بیگ کی رسد گاہ اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہے کہ امرا صرف تلوار کے دھنی نہ تھے بلکہ علم کے رسیا بھی تھے۔ ‘‘
آل احمد سرور نے شملہ میں گزارے ہوئے ایام کا بھی ذکر کیا ہے جہاں وہ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانسڈ اسٹڈیز شملہ میں بحیثیت فیلو تھے۔ ہماچل کے بارے میں انھوں نے بڑی اہم بات لکھی ہے:
’’ہماچل کی پرانی ریاستوں میں اردو سرکاری زبان رہی تھی۔ جب ہماچل پردیش وجود میں آیا تو یشونت سنگھ پرمار وزیرِ اعلی ہوئے۔ انھوں نے لکھنؤ یونیورسٹی سے آنتھروپالوجی میں پی ایچ ڈی کیا تھا۔ سرمورریاست کے رہنے والے تھے۔ ان کی تقریریں اردو میں ہوتی تھیں۔ گرمی میں مشاعرے ہوتے تھے جس میں شملے کے باسی بڑے شوق سے شریک ہوتے تھے۔ مجھے یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ کئی دکانوں پر اردو بورڈ تھے۔ بہت سے دکان داروں کو اردو کا اخبار ہند سماچار پڑھتے دیکھا۔‘‘
اس حصے میں انھوں نے کشمیر کا بھی حال لکھا ہے جس میں انھوں نے مولانا سعید مسعودی، مرزا کمال الدین شیدا، شمیم احمد شمیم کا ذکر کیا ہے اور اقبال انسٹی ٹیوٹ کے حوالے سے بھی اہم تفصیلات لکھی ہیں۔ انھوں نے شالیمار باغ، نشاط باغ، چشمہ شاہی اور کشمیر کی سیاست کے حوالے سے بھی کچھ تفصیلات درج کی ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو ہندوستان کے مختلف مقامات کے حوالے سے آگہی ہوتی ہے۔ 
حرفِ آخر کے عنوان سے انھوں نے کچھ شخصیات کا ذکر کیا ہے جن میں نورالحسن ہاشمی، عبدالاحد خاں خلیل، چیلہ پتی راؤ، دیوکی پانڈے، رشید جہاں وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ 
آخر میں انھوں نے ان بزرگ شخصیتوں کا ذکر کیا ہے جن کی علی گڑھ کی ادبی تاریخ میں بڑی اہمیت ہے۔ ان میں سید محفوظ علی بدایونی، مولوی طفیل احمد منگلوری،شیخ عبداللہ اور حبیب اللہ خان وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ 
آل احمد سرور کا یونیورسٹی سے بڑا گہرا تعلق رہا ہے۔ مختلف ادبی تحریکات سے ان کی وابستگی رہی ہے۔ وہ ایک اچھے نقاد، شاعر اور ادیب تھے۔ اس لیے اپنے تنقیدی نظریات کے حوالے سے بھی لکھا ہے ۔تعلیمی اداروں میں ان کے جو تجربات رہے ہیں اس کے بارے میں بھی لکھا ہے۔ ایک جگہ یونیورسٹیوں کے اساتذہ کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:
’’یونیورسٹیوں کے استاد عمل صارفیت Consumerism کے چکر میں آگئے ہیں۔ ان کا یہ حق ضرور ہے کہ سماج انھیں مادی آسودگی اور ذہنی آزادی دے۔ مگر Affluence تعیش ان کی زندگی کا نصب العین نہ ہونا چاہیے۔ ممکن ہے کہ آج کل کی نسل کو میری یہ باتیں دقیانوسی معلوم ہوں۔ مگر میں کیا کروں میں علم کے گہواروں کو نفع کا کاروبار بنتے نہیں دیکھ سکتا۔ ایسا نہیں ہے کہ آج کی یونیورسٹیوں میں سبھی گئے گزرے ہیں۔ ان میں کافی تعداد ایسے لوگوں کی ضرور ہوگی جو ملک و قوم کی آبرو اور علم و فن کے چشم و چراغ ہوں گے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اکثریت اس ذیل میں نہیں آتی اور کسی طبقے یا ادارے کے متعلق اندازہ اس کی اکثریت سے ہی لگایا جاتا ہے۔ دانشوروں کا آج کوئی خاص اثر نہ سماج پر ہے نہ حکومت پر۔ اس کی وجہ ایک یہ بھی ہے کہ ان لوگوں نے دانشوری کے فرائض کما حقہ انجام نہیں دیے۔ ان کا علم صرف لیکچر ہال یا تجربہ گاہ تک محدود ہے۔ یہ عام زندگی میں چلتی ہوئی گاڑی پر سوار ہونے والے، ذاتی منفعت کے جال میں اسیر، اور کسی نہ کسی طرح اپنا کام نکالنے والے، مصلحت کے پرستار اور ہوس زر کے شکار ہیں۔‘‘
آل احمد سرور کی اس خودنوشت میں بہت سی اہم باتیں ہیں اور یقینی طور پر اس خودنوشت سے بہت سی حقیقتیں بھی ہمارے سامنے آتی ہیں۔ مگر اس خودنوشت میں خوبیوں کے ساتھ ساتھ کچھ خامیاں بھی ہیں خاص طور پر تسلسل کی کمی نظر آتی ہے اور کہیں کہیں تکرار بھی ہے۔ مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ آل احمد سرور کی یہ خودنوشت ان کے شخصی تجربات اور مشاہدات کا ایک خوبصورت آئینہ ہے جس میں ہم ایک خاص عہد کی تہذیبی، ثقافتی تصویر دیکھ سکتے ہیں۔

Raheen Shama
Ph.D, Reseach Scholar
Dept. of Urdu, JMI
New Delhi - 110025
Email.: raheenhaya786@gmail.com



اردو دنیا۔ شمارہ   اگست   2018


قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں