7/12/18

ہندو مسلم اتحاد کے علم بردار: مولانا ابو الکلام آزاد۔ مضمون نگار:۔ عالیہ بیگم




ہندو مسلم اتحاد کے علم بردار: مولانا ابو الکلام آزاد
عالیہ بیگم

مولانا ابولکلام آزاد ( 11 نومبر 1888 151 22 فروری 1958) کا شمار ان نابغۂ روزگار شخصیتوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی پوری زندگی ملک و ملت کی خدمت میں صرف کردی۔ وہ ایک جید عالم دین، عظیم مفسر قرآن ، بلند پایہ مفکر وفلسفی، بہترین شاعر وادیب اور صحافی ہونے کے ساتھ ہی ایک قوم پرست رہنما، صف اول کے سیاست داں، بڑے مجاہد آزادی ،بے مثال مقرر، اعلیٰ پایہ کے مکتوب نگار ،بہترین انشاء پردازاور ایک ماہر وزیر تعلیم بھی تھے۔ 
مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی پوری زندگی ملک وقوم کی خدمت اوراس کی فلاح وبہبود وترقی کے لیے وقف کر دی۔وہ ذات پات ،اونچ نیچ اور چھوٹے بڑے کی تفریق سے باہر نکل کر قوم کو آزاد ی اور اتحاد کا احساس دلانا چاہتے تھے۔ ان کی غیر معمولی صلاحیتیں، وطن سے ان کی بے پناہ محبت اور ملک کے لیے ان کی قربانیاں ہندوستانی عوام کے لیے ایک شاندار اور تابناک مثال ہے۔
ابوالکلام آزاد11 نومبر 1888 میں مکہ معظمہ میں محلہ قدوہ متصل باب السلام میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محترم کا نام خیر الدین تھا اور والدہ محترمہ عالیہ بیگم تھیں۔ آزاد کا اصلی نام محی الدین احمد ،تاریخی نام فیروز بخت، لقب ابوالکلام اور تخلص آزاد تھا۔ ان کے والد ایک حادثہ کا شکارہو گئے اور ان کے پیر کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ انھوں نے فوری طور پروہیں اپنا علاج کیا لیکن مکمل علاج کی غرض سے وہ مع اہل وعیال 1895 میں ( ہندوستان ) کلکتہ آگئے اور پھرکبھی ہندوستان سے واپس نہیں گئے۔
مولانا ابوالکلام آزاد انتہائی ذہین و باشعور، حق پرست اور حوصلہ مند انسان تھے۔ ان کا دل قوم پرستی اور حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار تھا ۔
مولانا ابوالکلام آزاد ہندومسلم قومی اتحاد کے خواہاں تھے ان کی خواہش تھی کہ مسلمان قوم بھی سیاست میں عملی طور پر حصہ لے، اس کے لیے انھوں نے مسلسل طور پر کوششیں کیں ۔ یوں تو آزاد، سر سید احمد خاں کی تحریروں سے بے حد متاثر تھے لیکن مسلمانوں کو سیاست سے دور رکھنے کی پالسی کے سخت خلاف تھے لہٰذا انھوں نے رسالہ الہلال میں سر سید کی اس پالیسی کی شدید مخالفت کی اور مذہب کا سہارا لیتے ہوئے اپنا نظریہ لوگوں کے درمیان رکھا۔ آزاد نے الہلال میں لکھا کہ:
’’اسلام آزادی کا علمبردار ہے لہٰذا مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے مذہب کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے دوسری قوموں کے ساتھ مل کر آزادی کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں ۔‘‘ (رسالہ الہلال ، کلکتہ دسمبر 1918)
مولانا ابوالکلام آزاد ’الہلال‘ کے ذریعہ سے ہندوستانی مسلمانوں کو آزادی کی جد و جہد کی طرف متوجہ کراتے ہوئے مزید لکھتے ہیں: 
’’یاد رکھیے کہ ہندوؤں کے لیے ملک کی آزادی کے لیے جد و جہد کرنا داخل حب الوطنی ہے، مگر آپ کے لیے ایک فرض دینی اور داخل جہاد فی سبیل اللہ۔‘‘ 
بہرکیف آزاد کا یہ قدم کارگر ثابت ہوا اور الہلال نے جنگ آزادی کا رخ ہی بدل کر رکھ دیا ان کے اس بیان کے بعد مسلمانان ہند نے نہایت گرم جوشی کے ساتھ سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے بذات خود نہ صرف سیاست میں بلکہ ہندوستان کی تمام تحریکوں میں گرم جوشی کے ساتھ حصہ لیا اور ہر تحریک میں پیش پیش رہے ۔ تحریک ترک موالات، تحریک ’ہندوستان چھوڑدو ‘ قانون نمک کے خلاف تحریک، دوسری جنگ عظیم کے دوران انگریزوں سے عدم تعاون کی تحریک وغیرہ غرض کہ تمام تحریکوں میں آزاد ایک جوش و ولولہ کے ساتھ عملی طور پر شریک ہوئے اور ملک کی آزادی کے لیے لگاتار کوششیں کرتے ہوئے اپنی تمام تر ذمہ داریوں کو بخوبی نبھایا ۔
مولانا ابوالکلام آزاد بہرصورت غلامی کی زنجیروں سے جکڑے ہوئے اقوام ہند اور ہندوستان کو آزاد تو کرانا چاہتے تھے لیکن وہ تقسیم ہند کے شدید مخالف تھے،اور وہ ملک کی آزادی پر ہند و مسلم قومی اتحاد کو ترجیح دیتے تھے۔ اس ضمن میں ان کا ایک قول بہت مشہور ہے جو درج ذیل ہے:
’’آج اگر ایک فرشتہ آسمان کی بلندیوں سے اتر آئے اور دہلی کے قطب مینار پر کھڑا ہو کر یہ اعلان کر دے کہ سوراج چوبیس گھنٹوں کے اندر مل سکتا ہے بشرط یہ کہ ہندوستان ہندو مسلم اتحاد سے دست بردار ہو جائے تو میں سوراج سے دست بردار ہو جاؤں گا ۔ اگر سوراج ملنے میں تاخیر ہوگی تو یہ ہندوستان کا عظیم نقصان ہوگا ۔لیکن اگر ہمارا اتحاد جاتا رہا تو یہ عالم انسانیت کا نقصان ہوگا۔‘‘
مولانا آزاد اپنے دور کے ایسے دانشوروں میں تھے کہ ان کی اس فکر اور سوچ کی اس دور کے سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ دیگر دانشوروں نے بھی مثلاً ڈاکٹر تارا چند ، رام گوپال، ڈاکٹر ذاکر حسین ،پروفیسر ہمایوں کبیر اور مالک رام جیسی شخصیتوں نے تائید کی ۔مگر انگریزحکمرانوں کی سیاسی چالیں ایسی تھیں کہ ملک کو تقسیم کر کے ہندو مسلم فساد کو بڑھاوا دیا جائے اور آزادی کے ساتھ وہ تکلیف دہ حادثہ ہو کر رہا۔
تقسیم ہند کے بعد پورے ملک میں فرقہ پرستی پھیل گئی اور مولانا آزاد نے اس بدلے ہوئے حالات میں بھی وہی باتیں کہیں جو وہ دور انگریزی حکومت میں کہا کرتے تھے ۔ آزاد نے فرقہ پرستی کا جواب دیتے ہوئے اور عوام ہند کو سمجھاتے ہوئے اپنی ایک تقریر میں کہا کہ:
’’میں تمھیں یہ نہیں کہتا کہ تم حاکمانہ اقتدار کے مدرسے سے وفاداری کا سرٹیفیکٹ حاصل کرواور اس کا سہ لیس کی وہی زندگی اختیار کروجو غیر ملکی حاکموں کے عہد میں تمہارا شعار رہا۔
میں کہتا ہوں کہ جو اجلے نقش و نگار تمھیں اس ہندوستان میں ماضی کی یادگار کے طور پر نظر آرہے ہیں وہ تمہارے ہی قافلے کے چھوڑے ہوئے ہیں... ان کے وارث بن کر رہو..... اور سمجھ لو کہ اگر تم خود بھاگنے کے لیے تیار نہیں تو پھر تمھیں کوئی طاقت نہیں بھگا سکتی۔ آؤ عہد کرو کہ یہ ملک ہمارا ہے۔ ہم اس کے لیے ہیں، اور اس کی تقدیر کے بنیادی فیصلے ہماری آواز کے بغیر ادھورے ہی رہیں گے‘‘
(خان عبدالودود خاں ،مولانا ابوالکلام آزاد تحریک آزادی و یک جہتی، مرتبہ کتاب والا، دہلی ص87-88)
اس طرح ایک بہترین سیاسی بصیرت رکھنے کے ساتھ ہی آزاد ایک سچے مسلمان اور عالم دین بھی تھے۔ انھیں اپنے مذہب سے گہری انسیت تھی۔ انھوں نے ہمیشہ قرآن سے راہبری و رہنمائی حاصل کی اور دوسروں کو بھی قرآن سے استفادہ کرنے کا درس دیا کرتے تھے۔ عربی ،فارسی اور اردو زبانوں پر بھی ان کو غیر معمولی دسترس حاصل تھی۔مشرق و مغرب کے مختلف فلسفوں میں بھی ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا اور تاریخ کا بھی گہرا علم تھا خصوصاً اسلامی تاریخ کا۔ تفسیرالقرآن اس سلسلے کی اہم کڑی ثابت ہوئی ۔
آزاد نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے کیا محض 11 سال کی عمر میں ہی انھوں نے شعر گوئی شروع کر دی تھی ۔ آزاد نے شاعری کی تمام مشہور اصناف سخن میں طبع آزمائی کی جو ان کی ذہنی صلاحتوں کا ثبوت ہے لیکن جلد ہی انھوں نے شعر گوئی کا یہ سلسلہ یک سر ختم کر دیا اور نثر کی طرف راغب ہو گئے ۔ان کی نثر نگاری کی خصوصیت یہ تھی کہ انھوں نے نثر میں آراستہ و پیراستہ اسلوب کے ذریعہ انفرادیت قائم کی اور ان کے اس منفرد اسلوب نے نہ صرف عوام کو بلکہ عالم و دانشوروں کو بھی بے حد متاثر کیا۔ آزاد کی نثر نگاری سے متاثر ہو کر حسرت موہانی نے یہاں تک کہہ دیا کہ:
جب سے دیکھی ابوالکلام کی نثر
نظم حسرت میں کچھ مزا نہ رہا 
صحافت نگاری کے میدان میں بھی ابوالکلام آزاد نے اپنا جوہر کمال دکھایا ان کا رسالہ الہلال اردو صحافت کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ رسالہ الہلال 13 جولائی 1911 میں کلکتہ سے جاری ہوا لیکن جنوری 1914 میں انگریزی حکومت نے اس رسالے کی دو ہزار کاپیوں کی پرانی ضمانت ضبط کر کے دس ہزار روپیوں کی نئی ضمانت کا مطالبہ کیا لہٰذا آزاد نے اسے جنوری 1914 میں بند کر دیا اور اسی کی طرز پر 12 نومبر 19155 میں رسالہ ’البلاغ کا اجرا کیا جس پر روشنی ڈالتے ہوئے نیاز فتح پوری نے لکھا کہ:
’’الہلال کے بعد مولانا نے البلاغ جاری کیا تو اس کا نصب العین بھی وہی تھا جو الہلال کا لیکن طریقۂ ابلاغ کچھ مختلف تھا ۔ تیور وہی تھے رخ دوسرا تھا۔ انداز قدر وہی تھا مگر لباس بدلا ہوا تھا۔ البلاغ نفسیات ذہنی کاالہلال حرکت و عمل، جوش و ولولہ کا پیام رساں تھا اور البلاغ فکر و بصیرت اور روحانی عزم و ثبات کا۔‘‘
بہرکیف بھارت رتن مولانا ابوالکلام آزاد ہندوستان کے ان قومی رہنماؤں میں سے ایک تھے جنھوں نے حصول آزادی کے بعد ایک نئے ہندوستان کی تشکیل میں اپنی قیادت میں اپنا عظیم تعاون دیا جس کے اثرات آج تک باقی ہیں۔آزاد نے ایک ماہر تعلیم کی طرح نہیں بلکہ مفکر تعلیم کی طرح تعلیمی نظام کی تشکیل پر کام کیا اور تعلیمی نظام کو ایک نیا رخ،نئی جہت اور نئی بلندی عطا کی۔ انہوں نے Central Institute of Educationکی تشکیل کی اور ساتھ ہی اعلیٰ تعلیم کے لیےUniversity Grant Commission اور ٹکنالوجی کی ترقی کے لیےenter for Scientific Industrial Resaerch اور Indian Council for cultural Relations کے قیام کو بھی عملی جامہ پہناتے ہوئے ہندوستانی کلچر، ثقافت ،تاریخ و تہذیب کوہندوستان اور بیرونی ملک میں فروغ دینے کے لیے کوششیں کیں۔ اس کے علاوہ سنگیت اکادمی، ساہتیہ اکادمی اور للت کلا اکادمی جیسے ثقافتی ادارے بھی قائم کیے جس نے ملک کی تہذیب و ثقافت کو ایک نئی جہت دی۔
’’مولانا آزاد کی سیاسی رہنمائی پر روشنی ڈالتے ہوئے ’ حسن احمد‘اپنے مضمون’ کامیاب سیاسی رہنمائی اور ابوالکلام آزاد‘ میں لکھتے ہیں کہ :
’’مولانا ابوالکلام آزاد تقسیم کو روکنے میں کامیاب نہیں رہے مگر..... وہ کامیاب سیاسی رہنما تھے اور کامیابی کے لیے مذہب کا کلیہ بھی یہی ہے کہ اپنا پیغام اخلاص سے پہنچانااور اس کے لیے سعی کرنا۔ وہ اپنا پیغام پر زور قول و فعل کے ذریعہ باشندگان ملک تک پہنچاتے رہے ان کا پیغام ان کی موت کے تیس سال بعد بھی زندہ ہے اور اس کی کامیابی کی واضح نشانیاں مختلف رنگوں اور صورتوں میں آشکارا ہیں ، ان کا اثر دیر سے آنے والا، مگر گہرا اور دیر پا تھا۔‘‘ 
(حسن احمد:کامیاب سیاسی رہنمائی اور ابوالکلام (مضمون) ابوالکلام آزاد ایک ہمہ گیر شخصیت مرتبہ :رشید الدین خاں،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،نئی دہلی،ص441)
مولانا ابوالکلام آزاد کا مقصداپنے ملک کو غلامی سے آزاد کرانااور اپنی قوم کو روحانی اقدار کا احساس کراکر ان کے درمیان قومی اتحاد قائم کرنا تھا ، جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئے ۔ان کی اس غیر معمولی شخصیت کا احاطہ کرنا کوزے میں سمندر بھرنے کے مترادف ہے۔ ایسے پر خلوص ،قوم پرست، جری سیاست داں اور گوہر ریز اہل قلم کی فکر اور رہنمائی مستقبل میں لوگوں کے لیے مشعل راہ ہے۔

Aliya Begum
Research Scholar, Dept of Urdu
Allahabad University
Senate House, University Road, Old Katra 
Allahabad - 211002 (UP)
Email: aliyashaikh380@gmail.com



قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں