7/12/18

سیماب اکبر آبادی: اردو کا نظریہ ساز شاعر۔ مضمون نگار:۔ محمد کلام



سیماب اکبر آبادی: اردو کا نظریہ ساز شاعر
محمد کلام
دل کی بساط کیا تھی نگاہ جمال میں
اک آئینہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں
اردو کے کلاسیکی دور کے آخری شاعر سیماب اکبر آبادی کا یہ دلچسپ، پر تاثیر اور سلیس شعر خاص و عام کی زبان پر ہے۔سیماب کا زمانہ اردو شاعری میں نئے رجحانات و امکانات کا زمانہ تھا۔ سیماب اکبرآبادی 1880 میں آگرہ میں پیدا ہوئے، جو اس وقت اکبرآباد کے نام سے مشہور تھا۔اکبر آباد کی اس زمین نے سیماب سے پہلے بھی اردو شاعری کو اپنی بیش بہا خدمات نظیر اور غالب کی صورت میں عطا فرمائی تھیں۔ ان دو استاد شعرا کے کارنامے اردو شعر و ادب میں ایک رجحان ساز اور روایت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ شعر و ادب کے تعلق سے ایسا ہی کچھ معاملہ سیماب کا بھی تھا۔ سیماب کو اپنے معاصرین اور اردو کے نئے شاعروں میں ایک نظریہ ساز شاعرکا درجہ حاصل ہے، جنھوں نے زندگی کے بدلتے مسائل کو اپنی تعمیری اور امکانی فکر کے ساتھ شاعری میں برتنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔سیماب کے فکر و فن اور طرز بیان کی خصوصیات کی وضاحت میں عنوان چشتی کا یہ جملہ قابل غور ہے:
’’ اظہار و اسالیب کی سطح پر توازن، موضوع و مواد کی سطح پر تنوّع‘‘1
سیماب کی غزلیات دل بستگی اور اثرپذیری کا مادہ رکھتی ہیں۔وہ ایسے مقام سے کچھ کہتے ہیں کہ دل میں نشتر کی طرح کھٹک جاتا ہے، جس سے تکلیف کے بجائے ایک طرح کی لذت کا احساس ہوتا ہے۔ان کی غزلوں کا خمیر کلاسیکی شاعری کے بطن سے نکلاہے اور جدید شاعری نے اسے اپنا رنگ روپ عطا کیا ہے۔ سیماب کی فن کارانہ صلاحیتوں اور فکری تنوع کا اعتراف کرتے ہوئے پروفیسر عنوان چشتی لکھتے ہیں:
’’ان کے شعری مزاج میں توازن تھا ، اس لیے انھوں نے روایت سے روشنی اور تجربے سے تازگی حاصل کر کے اپنی شعری تخلیقات میں ایک نیا، مگر مانوس حسن پیدا کیا۔ سیماب کے شعری تجربے اردو شاعری کی مخصوص جمالیات کے دائرے میں رقص کرتے ہیں، یا یہ کہیے کہ ان کی جڑیں اردو کی قدیم شعری جمالیات کی زمین میں پیوست ہیں‘‘2
انھوں نے اپنی غزلوں کو ثقیل اور بوجھل الفاظ سے یکسر بے نیاز رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں ترسیل کی بھرپور گنجائشیں موجود ہیں۔ سیماب اپنے طرز خاص اور فکر کے رنگین و رعنا نقوش سے اہل نظر کی کچھ اس طرح مدارات کرتے ہیں ؂
بدل گئیں وہ نگاہیں یہ حادثہ تھا اخیر
پھر اس کے بعد کوئی انقلاب ہو نہ سکا
تھا کہاں وقت کہ افسانۂ ہستی پڑھتے
صرف عنوان ہی عنوان نظر سے گذرے
کہانی میری رودادِ جہاں معلوم ہوتی ہے
جو سنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے
کہانی ہے تو اتنی ہے فریب خواب ہستی کی
کہ آنکھیں بند ہوں اور آدمی افسانہ ہو جائے
تو نہیں تو رات ہے محروم سوزِ زندگی
شام ہی سے چاندنی روپوش ہے تیرے بغیر
نیند آ آ کر اچٹ جاتی ہے تیری یاد میں
تارِ بستر نشترِ آغوش ہے تیرے بغیر
زندگی تجھ سے عبارت تھی، مگر جب تو نہیں
زندگی کا اپنی کس کو ہوش ہے تیرے بغیر
پھول اِدھر کھلے ہوئے، داغ اُدھر بجھے ہوئے
حسن کی صبح اور ہے، عشق کی شام اور ہے
اے وہشت خیال اسے کیا جواب دوں
غربت یہ پوچھتی ہے کہ چھوڑ آئے گھر کہاں
سوز وفا ہے نا تمام، جاؤ کرو تم اپنا کام
آگ بجھانے آئے ہو آگ ابھی لگی نہیں
کوئی یہ شکوہ سرایانِ جَور سے پوچھے
وفا بھی حسن ہی کرتا تو آپ کیا کرتے
وہ خواب پریشاں سے گھبرا کے ترا اٹھنا 
آزردہ سی وہ چتون، رُکتی سی وہ انگڑائی
الٰہی خوابِ منزل کو نئی راتیں عطا فرما
یہی تارے گنے جائے گا میرا کارواں کب تک؟
سلگنا اور جینا، یہ کوئی جینے میں جینا ہے
لگا لے آگ اپنے دل میں دیوانے دھواں کب تک؟
سیماب کے مندرجہ بالا اشعار ان کی ذہنی اختراع اور فکری تنوع کی غمازی کرتے ہیں ۔ ان کے یہا ں خیال کی ادائگی کا انداز بے حدصاف اور سادہ ہے۔ ان کی اس سہل پسندی اور سادہ گوئی سے یہ گمان قطعی نہیں ہونا چاہیے کہ موضوع و مضامین کی سطح پر سیماب کسی طرح کی قحط حالی یا تنگ دستی کے شکار تھے، بلکہ طرز اظہار کا یہ انداز ان کی شعوری کاوشوں کا نتیجہ ہے۔اس ضمن میں عنوان چشتی کے خیال سے استفادہ کیا جا سکتا ہے:
’’ ان کے الفاظ و تراکیب کا بیشتر سرمایہ غرابت اور ثقالت سے پاک ، زبان کے تخلیقی حسن کا حامل ہے‘‘3
اس مختصر مقالے میں سیماب کے تمام کلام کی معنوی اور فنی خوبیاں اور خامیاں گنانا ممکن نہیں۔ تاہم مندرجہ بالا چند غزلوں کے متفرق اشعار سے ان کا رنگ تغزل سمجھنے میں کافی مدد مل سکتی ہے اور اس بات کا اندازہ بآسانی کیا جا سکتا ہے کہ خیالات کی گہرائی اور گیرائی ، جذبات کی لطافت اور گداختگی، معنی کی نزاکت و پاکیزگی ، لب و لہجہ کی سبک روی اور زبان کا ستھرا پن، غزل کے اندر نئے امکانات پیدا کرنے اور اسے آگے بڑھانے میں کس قدر ممد و معاون ثابت ہوسکتاہے۔
ایسے وقت میں جب غزل زلف و رخسار تک محدود ہوکر رہ گئی تھی، سیماب آگے بڑھتے ہیں اور غزل کی اصلاح و تہذیب کے لیے نہ صرف آواز اٹھاتے ہیں، بلکہ بذات خود پیش قدمی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ غزل کی حقیقت اور اس کی ضرورت پر سنجیدگی سے بحث کرتے ہیں۔ اس میں عصری رجحانات اور مسائل حیات کو پیش کرنے کی ترغیب دلاتے ہیں اور علی الاعلان کہتے ہیں کہ خیال کی رنگینی و نزاکت کے ساتھ جذبے کی متانت و عفت کو متوازن رکھنا ہی اصل شاعری ہے۔ دوسری طرف وہ نظم کو غزل کا حریف یا مدّ مقابل ماننے سے صاف انکار کر دیتے ہیں۔ بلکہ غزل گو حضرات سے نظم کو اپنا لینے اور اس کی ترقی و اشاعت میں کوشاں رہنے کی آرا کا اظہار کرتے ہیں۔ اس سے سیماب کے ذہن کے مثبت رویوں اور تعمیری سوچ کا اندازہ ہوتا ہے۔اس طرح وہ ادب کی نئی نسل کو شاعری کے جدید تقاضے اور فکر و شعور سے روشناس کرانے کی ایک عملی کوشش کرتے ہیں۔سیماب کی انھیں تخلیقی آگہی اورشعور و بیداری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عنوان چشتی لکھتے ہیں:
’’ مولانا سیماب اکبرآبادی اس نکتہ سے آگاہ تھے کہ روایت پرستی جتنی گمراہ کن ہے، بے شعور جدّت پسندی اتنی ہی تباہ کن ‘‘4
نظم اور غزل کی کشاکش اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے زمانے میں ہر دو اصناف کی ترصیع وترفیع کا بار گراں اٹھانا کوئی آسان کام نہ تھا۔ اگر اطناب و طوالت کو کم کرنے کے لیے سیماب کے معاصرین میں سے بہترین غزل کے حامی فانی و حسرت کو متغزلین کا نمائندہ منتخب کر لیا جائے اور نظم کو چار چاند لگانے والوں میں سے اقبال اور جوش کو نظم کی نمائندگی سونپ دی جائے، تو بھی ایک سوال باقی رہ جاتا ہے۔ وہ یہ کہ نظم کو اپنا کر اردو شاعری کی دنیا وسیع کرنے والے اور اس کے ذریعے زندگی کے مسائل کا حل پیش کرنے والے صحیح راستے پر گامزن تھے، یا غزل کو بڑھاوا دے کر اردو شاعری کو باطنی کیفیات سے معمور رکھنے والے وہ اساتذۂ فن ٹھیک راستے پر تھے ، جو ہنوز نفسیات عشق کو اپنے فکر کی جولانگاہ تصور کرتے اور غزل کی نغمگی اور تاثر ہی سے زندگی کی تلخ کامیوں کو راحت فزا بنانے اور تقدیر کا اعلیٰ ظرفی کے ساتھ مقابلہ کرنے کا حوصلہ پیدا کرتے تھے۔ پھر ہم ان دونوں قسم کے شاعروں کے کمالات اور ان کے نتائج کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں تو یہ فیصلہ کرنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ متغزلین نے شعر و ادب کو نقصان پہنچایا یا نظم کے پرستاروں نے۔ اس لیے کہ اردو ادب کو مفید، کار آمد، دلآویز اور دلچسپ بنانے میں دونوں ہی طرح کے شعرا کی کاوش و کوشش کو دخل ہے ۔ دونوں کی مینا کاری اور فردوس آرائی سے آج کا اردو ادب باغ و بہار بنا ہوا ہے۔ چنانچہ اس وقت یہ بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ زندگی کی تاویل و تنقید کے لیے غزل بھی اسی قدر ضروری ہے ، جتنی کہ نظم، مگر ذرا دیر کے لیے چشم تصور سے اس وقت اور ماحول کا جائز لیجیے جب کہ سیماب اپنی شاعری کی ایک نئی راہ متعین کرنے جا رہے تھے۔ ایک طرف تو وہ داغ سے شرف تلمذ رکھتے تھے اور ان کے خون میں وہی معصومانہ تغزل اور خلوصِ شعری حرکت کر رہا تھا ، جو اساتذۂ قدیم کا ترکہ تھا ، اور دوسری جانب وہ نظم کے کیف و اثر سے اپنے ہم سفروں کا بدلا ہوا رنگِ ترنم دیکھ رہے تھے۔ ایسے نازک مرحلے پر یہ سیماب کا ذوق سالم اور وجدان ہی تھا جس نے ان کو نہ صرف افراط و تفریط سے بچا لیا اور نظم و غزل دونوں کے لیے وقف کر دیا ، بلکہ اچھے اور تعمیری ادب کی طرف ان کی رہنمائی کی۔ چنانچہ سیماب کی حیثیت بطور ایک نظریہ ساز کے، تاریخی ہے اور نظم اور غزل ہی کی نہیں بلکہ نئے ادب اور پرانے ادب کی چپقلش کے اس دور میں میانہ روی اور اعتدال کے کئی جدید نظریات سیماب کی مثبت فکر اورروشن خیالات کی ترقی یافتہ شکلیں ہیں۔
سیماب اکبر آبادی نے شروع ہی سے اپنے کلام میں غزل کی مروجہ یا مسلمہ عریانی یا خام خیالی کو داخل کرنے سے اجتناب برتا۔ تاہم انھیں قدیم رنگ تغزل سے جو لگاؤ تھا، وہ مشق مطالعہ اور زمانے کے ساتھ بدلتا گیا۔ اور انھیں کے الفاظ میں یہ کہ’’ 1918 سے ایک نئی راہ اختیار کی۔‘‘ اب ان کے کلام میں ندرت خیال کے ساتھ جذبات آفرینی اور اسلوب بیان کی متانت بے حد نمایاں نظر آتی ہے۔ فلسفہ ، تنقید اور علم کلام کی مشاقی سے ایک نیا رنگ و آہنگ پیدا ہوتا ہے، جس میں میر کا سوز، غالب کی شوکت اور داغ کی سلاست بیک وقت اور ایک جگہ جمع ہو گئی تھیں۔ اسی اسلوب کو انھوں نے اپنے آخر وقت تک قائم رکھا۔
ہر چند کہ سیماب پرانے اسالیب و طرز سخن کو از سر نو ترتیب دینے اور غزل کو نئے زمانے، نئے ماحول کے لیے ساز گار بنانے میں پیش پیش تھے۔ تاہم غزل سے پرانا اور گہرا رشتہ ہونے کے سبب نظم سے موانست پیدا کرنااور بحسن و خوبی اس سے عہدہ بر آ ہونا سخت مشکل کام تھا۔ لیکن وہ ایک بڑے فن کاراور اچھے شاعر کی طرح اس مشکل مرحلے سے بھی گزر گئے اور جس طرح انھوں نے غزل میں رچاؤکے ساتھ ایک اندرونی فضائی کیفیت برقرار رکھنے کے لیے کامیاب جد و جہد کی، اسی طرح نظم کے رجحان کو عام کرنے کے لیے نعرہ بازی کے بجائے فکر و نظر کے اعلیٰ مظاہر سے کام لیا۔ نظم کی زبان و بیان میں ایک طرح کا جذباتی انہماک ، ایک طرح کی بے ساختگی، بے تکلفی اور ایک طرح کا تیکھا پن پیدا کرنے میں بھی کامیاب رہے۔ انگریزی ادب سے متاثر ہو کرنظم نگاری میں ان کے فنی اور ہیئتی تجربات پر عنوان چشتی کایہ قول صادق آتا ہے:
’’ سیماب کے ایسے تجربوں کے پس پشت ایک زبردست شعور جھلکتا ہے، اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ اردو میں اس قسم کے تجربوں میں پہل کرنے کا سہرا سیماب کے سر ہے تو کوئی مضائقہ نہیں۔‘‘5
سیماب اکبر آبادی کا اپنا ایک خاص رنگ تغزل ہے اور نظم نگاری کا ایک خاص اسلوب ۔ اس میں شک نہیں کہ وہ ایک زبردست قوت آخذہ کے مالک ہیں ، لیکن اخذ و قبول کے سلسلے میں انھوں نے اپنی انفرادیت کو ہر حال میں قائم رکھا ہے۔ جملہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ انھیں کے قلم کا یہ تصرف ہے کہ دوسرے دبستانوں سے بہت کچھ اثر قبول کرنے کے باوجودآگرہ اسکول نے ایک علیحدہ اورمنفرد دبستان کی حیثیت سے اردو شعر و ادب میں اپنی جگہ بنا لی ہے۔ نہ معلوم کتنے قدیم و جدید اسکول کے پیرو اسی آستانۂ شعر و ادب سے فیض حاصل کرنے کے بعد آپس میں دست و گریباں ہونے کے بجائے زندگی اور شاعری کو آگے کی طرف بڑھانے میں مصروف ہیں۔ 
یہ تو امر مسلمہ ہے کہ سیماب کے معاصرین استادوں میں جتنے شاگرد سیماب کو نصیب ہوئے، اتنے ان کے کسی دوسرے معاصراستاد شاعر کو میسر نہیں ہوسکے۔ اور اس بڑی تعداد میں دو چار دس بیس نہیں بلکہ سیکڑوں شاگرد اچھی خاصی شہرت کے مالک ہیں۔ ان میں سے اکثر صاحب تلامذہ بھی ہیں۔ پروفیسر حامد حسن قادری نے صحیح کہا ہے ’’انھوں نے اپنے علاوہ اور بھی بہت سے طالبان فن اور تشنگان ادب کی ادبی تعمیر کی، جو بغیر کسی وسیلہ کے آج کے ادب کے ستون کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ اور جو کل کے ادبی کارواں کے سالار قافلہ بنیں گے۔ بعض آج ہی بن چکے ہیں۔‘‘
اس سے بھی بڑھ کر یہ بات قابل توجہ ہے کہ سیماب کے اپنے کلام میں بقا اور ارتقا کی زبردست صلاحیت ہے اور ان کے کلام کے حسن تاثیر سے اصلاح تخیل اور شعر و ادب کی تہذیب و تزئین کا کام آئندہ بھی جاری رہے گا۔
حواشی:
1۔ سیماب کی نظمیہ شاعر، ڈاکٹر زرینہ ثانی، سیماب اکادمی، بمبئی، پہلا اڈیشن فروری 1978 ، ص9
2۔ ایضاً، ص10
3۔ ایضاً، ص10،ص12
4۔ ایضاً، ص10،ص10
5۔ ایضاً، ص10، ص10
حوالے وکتابیات:
1۔ تاریخ ادب اردو،جلد چہارم ،ڈاکٹر جمیل جالبی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی 2013
2۔ اردو شاعری پر ایک نظر،حصہ دوئم، کلیم الدین احمد،بک امپوریم، سبزی باغ، پٹنہ 2014
3۔ تاریخ ادب اردو،رام بابو سکسینہ،ترجمہ مرزا محمد عسکری، ادارہ کتاب الشفاء، دہلی 2000
4۔ سیماب کی نظمیہ شاعر، ڈاکٹر زرینہ ثانی، سیماب اکادمی، بمبئی، پہلا اڈیشن فروری 1978

Mohd Kalam
Dept of Urdu, BHU
Varanasi - 221005 (UP)











قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

1 تبصرہ:

  1. مزہ جو اردو زبان اور اردو شاعری میں ہے وہ کسی دوسری زبان میں ہے ہی نہیں 0

    جواب دیںحذف کریں