7/12/18

ماحولیات کا تحفظ اور ہماری ذمہ داری مضمون نگار:۔ پرویز عالم





ماحولیات کا تحفظ اور ہماری ذمہ داری
پرویز عالم

یہ کائنات بنی نوع انسان کے لیے اللہ کی قدرت کا ایک نایاب تحفہ ہے جسے خود انسانوں ہی کے ذریعے دھیرے دھیرے پراگندہ اور آلودہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اب جبکہ اس کے برے اثرات ظاہر ہونے لگے ہیں تو ہم اس کی خوب صورتی،دل کشی اور توازن کو قائم رکھنے کی طرف مائل ہوئے ہیں۔ان دنوں ماحولیات کا تحفظ بین الاقوامی سطح پر بھی توجہ کا مرکزبنا ہوا ہے۔ ہم نے اس زمین کو جس پر ہم بستے ہیں غلاظتوں اور گندگی کا انبار بنادیا ہے، اس بات سے بے خبر کہ انسانی زندگی اس کے مہلک اثرات کا شکار ہورہی ہے۔ جنگلوں میں درختوں کو اس بے دردی سے کاٹاجارہا ہے کہ اس کے اثرات موسموں پر صاف جھلکنے لگے ہیں۔ ہوا جو سبھی جانداروں کے لیے ضروری ہے وہ کارخانوں کی چمنیوں سے نکلتے دھوئیں، کیمیاوی تجربہ گاہوں سے چھوڑے گئے کچرے اور سڑکوں پر چلتی ہوئی موٹر گاڑیوں کی کثافتوں سے اس قدر آلودہ ہوچکی ہے کہ انسان مختلف قسم کی خطرناک بیماریوں میں گرفتار ہورہا ہے جو اپنے اثرا ت جلد سے لے کر پھیپھڑے تک پر دکھا رہی ہے جس کی عبرت ناک مثال گزرے دنوں میں ’ سارس‘ نامی بیماری ہے۔ سائنس دانوں نے بہت پہلے اپنی تحقیق سے لوگوں کو آگاہ کیا ہے کہ اوزون نامی گیس کی پرت جو سورج کی شعاعوں میں موجود الٹراوائلٹ شعاعوں کے مضر اثرات سے بچاتی ہے اس میں سوراخ ہوگیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ موسم نے اپنا نظام بدل دیا ہے۔ یہ انسانی زندگی کے لیے خطرناک ہے۔ پانی جو کسی بھی جاندار کے لیے دوسری بنیادی چیز ہے اور جس کے بغیر جانداروں کی زندگی کا تصور ناممکن ہے اسے بھی ترقیاتی دور نے زہریلا بنانے سے گریز نہیں کیا۔ ملک کی سبھی ندیاں، جھیل و تالاب آلودہ ہوچکے ہیں۔ ان کے توسط سے کیمیاوی مادے اور ان کے زہریلے اثرات انسانی جسم میں منتقل ہوکر نئی نئی بیماریوں کا سبب بن رہے ہیں۔ پچھلی دہائی میں کئی قومی جنگیں ہوئیں جن میں آتشیں اور جوہری ہتھیاروں کا کھل کر استعمال ہوا۔ حد یہ ہے کہ لیزر شعاعوں کا بھی استعمال ہونے لگا۔ ایسے ہتھیار نہ صرف انسانوں کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ ماحولیات پر بھی مضر اثرات ڈالتے ہیں، ان کی وجہ سے درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے جس کے نتیجے میں ماحولیات کا توازن ہچکولے کھانے لگتا ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ کسی چیز کی حفاظت کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب اس کے وجود پر خطرہ منڈلانے لگتا ہے۔ اسی لیے ماحولیات کی اصلاح اور پاکیزگی کو قائم رکھنے کی کوشش اس وقت ہورہی ہے جب کہ ماحول پوری طرح کثیف ہوچکا ہے۔
آج ماحولیات میں کثافت پھیل چکی ہے اور دنیا کے ہر گوشے میں اسے پاکیزہ بنانے کی مہم شروع ہوچکی ہے۔ 1400 سال پہلے قرآن حکیم نے آخری رسول ؐ کے ذریعے ماحول کو کثافت سے پاک رکھنے اور فضا کو آلودگی سے بچانے کی تعلیم دی تھی۔ اصولی ہدایات، مؤثر تعلیمات اور عملی اقدامات تینوں طرح سے ماحولیات کو پاکیزہ رکھنے کی تلقین کی۔ پیغمبر آخر الزماں ؐ نے بتایا کہ آسمان و زمین، پہاڑ و جنگل، پرندے اور باغات،وادیاں اور آبادیاں یہ سب کچھ اللہ رب العزت کے متوازن نظام کا شاہکار ہیں۔ آپؐ نے اللہ کے اس پیغام کو انسانوں تک پہنچایا۔ ترجمہ : بے شک آسمان اور زمین کو پیدا کرنے میں، رات اور دن کے بدلتے رہنے میں اور کشتیوں میں جو لے کر چلتی ہیں دریا میں لوگوں کے کام کی چیزیں اور پانی میں جس کو اتار ا اللہ نے آسمان سے،پھر جلایا اس سے زمین کو اس کے مر گئے پیچھے اور پھیلائے اس میں سب قسم کے جانور اور ہواؤں کے بدلنے میں اور بادل میں جو کے تابعدار ہے اس کے حکم کا درمیان آسمان و زمین کے۔ بیشک ان سب چیزوں میں نشانیاں ہے عقل مندوں کے لیے۔ (البقرہ: 164)
قرآن مجید کی اس آیت پر غور کریں تو یہ ظاہر ہوتاہے کہ ان کا تعلق براہ راست ماحولیات سے ہے۔ آسمان، زمین، سمندر، کشتی، دن و رات، بارش، باغات، ہواؤں کی گردش، حیوانات و پرندوں کی زندگی، بادلوں کا فضا میں تیرنا سب کچھ انسانوں کے سامنے پیش کردیا گیاہے۔ رسول مقبول ؐ نے اللہ تعالیٰ کا یہ سبق بھی انسانوں کو یاد کرایا کہ کائنات میں ان ساری چیزوں کو ایک خاص توازن اور اعتدال سے بنایا گیا ہے۔ ضرورت ہے کہ انسان اس توازن کی حکمت کو علمی اور عملی سرگرمیوں کاموضوع بنائے۔ اس سے فائدہ حاصل کرے۔ اس کا توازن برقرار رکھے اور اس میں خلل نہ ڈالے۔
قرآن مجید میں اللہ تبار ک وتعالیٰ نے ایک ایک بات کھو ل کھول کر بیان فرمادی ہے۔ سورہ الرحمن کی اس آیت پر غور کریں ’’ سورج اور چاند ایک حساب کے پابند ہیں، پتیاں اور درخت سب سجدہ کررہے ہیں اور اسی نے آسمان کو بلند کیا اور ترازو قائم کی کہ ترازو سے تولنے میں حد سے تجاوز نہ کرو اور انصاف کے ساتھ ٹھیک تولو اور تول کم مت کرو اور اسی نے خلقت کے لیے زمین بچھائی، اس میں میوے اور کھجور کے درخت ہیں جن کے خوشوں پر غلاف ہوتے ہیں اور اناج جس کے ساتھ بھُس ہوتاہے اور خوشبودار پھول،تواے گروہ جن و انس تم اپنے پروردگار کو کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔‘‘ (الرحمن: 12-5)
اب ذرا غور کریں چاند اور سورج کی گردش، پیڑ پودوں کی شادابی آسمان کی بلندی، زمین کی تخلیق، اناج، پھل و خوشبودار پھول کی پیدائش ان نعمتوں کو انسان کے سپرد کرنے کے بعد یہ بھی تعلیم دی گئی کہ یہ سب اللہ کے قائم کیے ہوئے خاص نظام کے تحت چل رہے ہیں۔ ان میں خلل نہ ڈالو بلکہ فائدہ حاصل کرو۔ قدرت کی دی ہوئی نعمت کا استعمال صرف خواہش کے مطابق نہیں بلکہ اللہ کے بنائے ہوئے اصولوں کے مطابق کرنے سے توازن کا فائدہ خود انسانوں کو ہی پہنچے گا۔ اگر وہ اس نظام و توازن میں مداخلت کرے گا تو اس کا نقصان بھی انسانوں کو ہی ہوگا اور اس کے برے اثرات بھی وہی بھگتے گا۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا کی انسانی آبادی مختلف قسم کی بیماریوں کا شکار ہے۔
ماحول کے تحفظ کے متعلق پیارے نبی ؐ نے یہ خاص ہدایت دی ہے کہ سایہ دار درخت کے نیچے اور راستہ میں گندگی نہ پھیلائی جائے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ قربانی کے دنوں میں ذبح ہونے والے جانوروں کے فضلات سڑکوں اور نالیوں میں بکھرے ہوتے ہیں جس سے گندگی پھیلتی ہے۔ اس کے تعفن سے مہلک بیماریاں پھیلتی ہیں۔ حکم یہ ہے کہ قربانی کے فضلات کو دفن کردیاجائے مگر افسوس کہ ہم رسولؐ کی پیروی کرنے والے تو خود کوکہتے ہیں لیکن اپنے نبیؐ کی اسی ہدایت پر عمل نہیں کرتے۔
آج کادور اپنی سائنسی ایجادات و تحقیقات کی بنا پر ترقی کی منزلیں طے کررہا ہے۔دنیا کا ہر انسان اس سے استفادہ کرنے میں جٹا ہے۔وقت کی ضرورت بھی یہی ہے، مگر جہاں ترقی عالم انسان کو سہولتیں فراہم کررہی ہے وہیں دنیا میں بسنے والے ہر ایک جاندارانسان، چرند پرند اور پیڑ پودوں کے لیے مسائل بھی پیدا کررہی ہے۔ وہ مسائل ہیں فضا کی آلودگی، جانوروں کی نسلوں کا روپوش ہونا، جس سے ماحولیات کا توازن بگڑ رہا ہے اور ہم اُس کے برے نتائج سے دوچار ہیں۔ آخر یہ عدم توازن کیوں ۔۔۔کہاں پر ہم سے غلطی ہوئی کہ عالمی سطح پر ہر ایک جاندار اس سے متاثر ہوا؟
ہم اپنے گردو وپیش پر نظر ڈالیں توہمیں بہت سی ایسی باتیں ملیں گی جس کے باعث محسوس ہوگا کہ ہم نے اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا استعمال کم اور اسراف زیادہ کیا ہے۔ جب کہ اللہ کے رسول ؐ نے ایسا نہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اُس نے آسمانوں اور زمین کی ساری چیزیں انسانوں کے لیے پیدا کی ہیں۔ ایک اور آیت سورۃ الملک میں خداکا ارشاد ہے: ’’ وہ اللہ ہی ہے جس نے تمھارے لیے زمین کو تابع بنایا اور اس کی راہوں میں چلو، اُس کا دیا رزق کھاؤ اور اسی کی طرف تم کو اٹھایا جانا ہے۔‘‘ اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ رب کائنات نے جو نعمتیں عطا کی ہیں اُس کا استعمال ایک سلیقے کے ساتھ ہو، ضرورت کے تحت کسی چیز کا استعمال توازن کو برقرار رکھنے میں معاون ہوسکتا ہے۔ سورۃ الاعراف آیت31 میں صاف لفظوں میں ہدایت ہے کہ کھاؤ پیو اور فضو ل خرچی نہ کرو، کیوں کہ فضول خرچ انسان اللہ کو ناپسندہے۔ لہٰذا پانی، جنگل، معدنیات، پرندے، توانائی، قدرتی وسائل۔ ان تمام چیزوں کا صحیح استعمال کیا جائے اور اسراف سے اجتناب کیا جائے تو ماحولیات کے بگڑے توازن کو سنبھالا جاسکتا ہے۔ مذکورہ آیت کی روشنی میں اسراف سے پرہیز کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ یعنی قرآن نے بتا دیا ہے کہ ماحولیات کے توازن کے لیے انسان کو کیا کرنا ہے، پھر بھی ہم قدرتی وسائل کے بے جا استعمال سے باز نہیں آرہے ہیں۔
ٹیلی ویژن پر پانی کے تحفظ سے متعلق عجیب و غریب اشتہار دیکھنے کو ملتا ہے۔ روزانہ سبھی ٹی وی چینلوں پر Water Conservation سے متعلق اشتہارات آرہے ہیں تاکہ میڈیا لوگوں تک یہ پیغام پہنچا دے کہ پانی کا بیجا استعمال ایک دن دنیا کو بوند بوند پانی کو ترسا دے گا۔ اس لیے پانی کا اسراف نہ ہو۔ اس جگہ بھی قرآن نے واضح کردیا کہ پانی انسان کی بنیادی ضرورت ہی نہیں زندگی کی بنیاد بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’ ہم نے تمام جاندار چیزیں پانی سے بنائی ہیں۔‘‘ (الانبیاء: 30) ایک اور جگہ سورہ نور میں فرماتا ہے کہ ہم نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا ہے۔ پانی کو اس کی فطری حالت پر باقی رکھنا اوراس کے استعمال میں بہتر طریقہ اپنانا انسانوں کی ذمے داری ہے تاکہ پانی سے زندکی بخشنے والی صلاحیت ختم نہ ہو۔ پانی میں رہنے والے جاندار بھی زندہ رہ سکیں اور پانی کا استعمال کرنے والے بھی زندگی پاسکیں۔
ہدایت کی یہ روشنی بتا رہی ہے کہ پانی کو آلودگی سے بچانا ہمارا فرض ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیارے نبی ؐ نے بھی پانی کو گندہ کرنے یا اُس میں غلاظت پھیلانے سے منع کیا ہے۔
آج ہر خاص و عام کی زبان پر Wild life Conservation کی بات آتی ہے۔ جس کے تحت جنگلی جانوروں کے تحفظ کا ذکر موضوع بحث ہے۔ شیر، چیتا، پینڈا، اس کے علاوہ بہت سے پرندوں کی نسل کی حفاظت ودیکھ بھال پر حکومت بھی زور دیتی ہے۔ اس کے لیے وزارت جنگلات قائم کردیا گیا لیکن بہت کم ہی لوگ جانتے ہوں گے کہ اس امر کی طرف اسلام نے بہت پہلے تاکید کردی ہے کہ جانور انسانوں کی ضرورت اور ماحولیات کی زینت ہیں۔ انھیں انسانوں کے استعمال کے لیے اللہ نے بنایا ہے،اس لیے ان کی نسلوں کا تحفظ عالمِ انسان کی ذمے داری ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد باری ہے ’’ بے شک تمھارا پروردگار شفیق و مہربان ہے۔ اُسی نے گھوڑے، خچر اور گدھے پیدا کیے تاکہ تم ان کی سواری کرو، وہ تمھارے لیے زینت و رونق بھی ہیں۔ یہ بات Wild life Conservation کو اہم ثابت کرتی ہے جس میں اِن جانوروں کی ضرورت، مقصد اور ماحول کو زینت بتایا گیا ہے۔
ماحولیات کے عدم توازن کی بات چل رہی ہے تو اس ضمن میں بھی غور کرتے چلیں کہ ایسا ہونے کا سبب کوئی ایک نہیں ہے بلکہ مختلف اسباب ہیں۔ جن میں بڑھتی ہوئی آبادی بھی اہم ہے، اس نے رہائش کا مسئلہ پیدا کردیا ہے جسے پورا کرنے کے لیے انسان نے بے دردی سے جنگلوں کا صفایا کردیا۔ حالانکہ سائنسی تحقیق یہ اشارہ کر چکی ہے کہ درختوں کی اندھا دھند کٹائی سے ماحولیات کا توازن بگڑ رہا ہے۔ درخت و پودے ماحولیات کو سازگار اور موسم کو اعتدال پر رکھنے میں معاون ہوتے ہیں۔ لیکن سائنس کے اس علم سے پہلے قرآن حکیم میں اللہ پاک نے ہدایت فرمادی ہے کہ زمین پر ہریالی انسانوں کے لیے کتنی مفید ہے، اسی لیے محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے کہا: ’’بے ضرورت درختوں کو نہ کاٹیں، کیوں کہ ہرے بھرے درخت انسانوں اور جانورں کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ ‘‘سائنس کا تجربہ بتاتا ہے کہ درخت فضا سے زہریلی گیسوں کو جذب کرکے صاف ہوا (Oxygen) خارج کرتے ہیں جو انسان و جانوروں دونوں کے لیے بے حد ضروری ہے۔ اس سائنس کی اصطلاح میں ’درخت انسانوں کے دوست ہیں‘ مگر یہاں ایک بات واضح کردوں کہ علم سائنس کے ارتقا سے بہت پہلے حضور اکرم ؐ نے جنگ میں بھی دشمن کے درختوں کو نہ کاٹنے کا حکم دیا جو ثابت کرتا ہے کہ کوئی بھی علم اللہ کے علم سے بڑا نہیں۔ بیشک وہ ہر چیز پر قادر ہے۔اسی لیے آج ملک کے کونے کونے میں شجر کاری ایک مہم کا درجہ لے چکی ہے۔ پیارے رسول ؐ نے بھی شجر کاری کا درس دیا ہے۔
ایک روایت جو حضرت انس بن مالکؓ سے منقول ہے۔ حضور ؐ نے ارشاد فرمایا جو مسلمان کوئی پیڑ لگاتا ہے یا کاشت کاری کرتاہے اور اُس پیڑ پودے سے انسان، پرندے یا جانور پھل یا پتے کھاتے ہیں تو یہ پیڑ لگانے والے کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔ پیڑ لگانے پر پیغمبر اسلام ؐ نے اتنا زور دیا ہے کہ قیامت تک اس عمل کوکرنے کی ہدایت کی ہے اور فرمایاہے: ’’ اگر قیامت کا وقت آجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا ہو اور قیامت برپا ہونے سے پہلے وہ اسے لگا سکتا ہے تو اُسے ضرور لگا دینا چاہیے، کیونکہ اس شجر کاری پر اجر ملے گا۔‘‘ (عمد ۃ القاری)
لہٰذا ضروری ہے کہ ماحولیاتی تحفظ کے مشن میں حکومت کی مکمل معاونت کریں او رجہاں بھی شجر کاری کا پروگرام منعقد ہو بڑھ چڑھ کر حصہ لیں تاکہ ملک کے ایک شہری کا فرض ادا کرسکیں۔

Parwez Alam
D-321, Dawat Nagar, Abul Fazal Enclave
New Delhi-110025
Mob: 9990129128

Email: Perwezashrafi1955@gmail.com

3 تبصرے: