7/12/18

اردو گیت کا سفر بحوالۂ پنجاب، مضمون نگار ڈاکٹر ندیم احمد





اردو گیت کا سفر بحوالۂ پنجاب

ڈاکٹر ندیم احمد
پنجاب

پانچ دریاؤں کے آب زلال سے سر سبزو شاداب سرزمیں، پنجاب ہمیشہ سے ذکروفکر کا مرکز رہی ہے۔ اس کی زرخیزی ذہن ودل کو پاکیزگی اور روئیدگی عطا کرتی ہے اور اسی بالیدگی سے علم وعرفان کی کہکشائیں منور ہوتی چلی جاتی ہیں۔یہی سبب ہے کہ اس پنجاب نے ایسے بالغ النظر اور بیدار مغز انسان پیدا کیے جو بے شمار لوگوں کی فیضیابی کا باعث ہوئے۔ لفظ ’پنجاب‘ زبان پر آتے ہی اس کرۂ ارض کا تصور ذہنی کینوس پر رقص کرنے لگتا ہے جہاں آبِ زلال کے ہنستے گاتے،جھاگ اڑاتے مست دریا اپنی تمام تر قوّت وتابانی کو سنگیت کی ایک مدھر لَے میں پرو دیتے ہیں۔ رقص ونغمہ پنجابیوں کے خون میں اسی طرح شامل ہے جس طرح سرخ وسفید خلیے۔ مستی سے بھگتی تک اور بھگتی سے مکتی تک گیت وسنگیت پنجابیوں کی منفرد پہچان ہے اور یہی سنسکرتی اور تہذیب ہندوستان کی ترجمان بھی ہے۔
گیت شدت جذبات وخیالات کا غنائی اظہار ہے۔ اس لیے یہ خالص داخلی صنف سخن ہے یعنی اس میں کسی جذبے، خیال یا کیفیت کو پر سوز و بے ساختہ الفاظ وآہنگ کے ذریعے ادا کیا جاتا ہے۔اس میں کسی طرح کی ساخت و بناوٹ نہیں ہوتی بلکہ یہ صاف و شفّاف جھرنے کی مانند اپنے قدرتی بہاؤ کی طرف بہتا چلا جاتا ہے یعنی گیت من کی موج ہے، ہوا کا جھونکا ہے۔ اس میں کسی طرح کی تصنع وپرکاری کا دخل نہیں ہوتا۔رنج وغم،انبساط وخوشی کے بے ساختہ پل گیت میں ابھر آتے ہیں اور ہر ذی شعور اورصاحب جبلت اس کی رو میں خودبخود بہتا چلا جاتا ہے۔
ہمارے یہاں کی روایت کو مدّ نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ گیت ایک غنائی اور نسوانی صنف سخن ہے جس میں ایک فراق زدہ عورت ہجرو وصال کی باتیں بیان کرتی ہے۔خاص طور پر ہجر کو برہ یا برہا سے موسوم کرتے ہوئے اپنے محبوب کی جدائی سے پیدا ہونے والی تڑپ وکسک کو عالم تنہائی میں بے ساختہ گنگناتی یعنی اس کے دل کا درد سوزوگداز میں ڈھل جاتا ہے۔اور گیت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔گیت کے وجود یعنی جذبے،خیال اور الفاظ میں صوتیت،غنائیت اور نسوانیت کی آمیزش بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے۔ عورت کی دلآویز شخصیت کسی اور صنف میں اتنی اجاگر نہیں ہوتی جتنی کہ گیت کے رنگ و آہنگ میں ڈھل جاتی ہے۔
ہمارے صوفیوں نے اس روایت کو ایک نیا انداز دیا۔ انھوں نے بھی اپنے گیتوں میں وجود زن کو مقدم رکھتے ہوئے، اپنے آپ کو عورت تصور کرتے ہوئے اور عشق حقیقی کی سرشاری وبے قراری کو برقرار رکھتے ہوئے خدائے برتر کو ہی کبھی اپنا مرد معشوق مان لیا،تو کبھی شفیق باپ مانتے ہوئے اپنے جذبات کا برجستہ اظہار کیا بلکہ کچھ صوفیوں نے تو لمبے بال رکھے،مانگ نکالی،بالے پہنے اور یہاں تک کہ زنانہ لباس زیب تن کیا اور اپنے دل کی تڑپ کو بیان کرنے کے لیے گیتوں کا سہارا لیا۔ نسوانیت کا یہی پہلو گیت کو دل خوش کن بناتا ہے۔
بدلتے وقت کے ساتھ گیتوں نے بھی کروٹ بدلی اور زندگی کے دوسرے پہلوؤں کو بھی سمیٹنا شروع کیا۔آج کا گیت زندگی کا مکمل احاطہ کیے ہوئے ہے اور یہی خوبی گیت کی ترقی اور مقبولیت کا باعث ہے۔
اگر فن کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ’گیت‘ میں نہ تو بحروں کی پابندی ہوتی ہے اور نہ ہی کسی بحر کی ہیئت وتکنیک یا ساخت کی۔گیت کسی بھی وزن اور فارم میں لکھا جا سکتا ہے۔مضمون کے اعتبار سے گیت کی مختلف قسمیں سامنے آتی ہیں جو زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہیں۔ ’گیت‘ خالص ہندوستانی لفظ ہے اور سنسکرت کے لفظ ’گیتا‘ سے ماخوذ ہے۔اس لیے گنگا جمنی زبان کا استعمال بھی اس کی منفرد خاصیت ہے۔گیت کا مزاج فطرتاً ہجر وفراق کی بے چینی وبے قراری ہے۔
امیر خسرو ہندوستانی علوم وفنون کے امام کہے جا سکتے ہیں۔ انھوں نے نہ صرف اردو زبان (ریختہ) کی ترویج وترقی میں اہم رول ادا کیا بلکہ مختلف اصناف سخن کے تعلق سے بھی نمایاں خدمات انجام دیں۔انھوں نے اپنے زمانے کی عام بول چال اور صوفیوں کے اسلوب اور پیرائے میں دلی جذبات کا اظہار کیا تو جو فنّی پیکر وجود پذیر ہوئے انھیں گیت کی ابتدائی شکل کہا جا سکتا ہے ؂
کہ تاب ہجراں ندارم اے جاں نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں
کسے پڑی ہے جو جا سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں
نہ نیند نیناں،نہ انگ چینا،نہ آپ آوے نہ بھیجے پتیاں
اور اسی طرح ’کاہے کو بیاہی بدیس رے‘ بھی خسرو سے منسوب ہے۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے ہی اردو گیت کی بنیاد رکھی اور پھر اس کے بعدبہت سے نام اس فہرست میں شامل ہوتے چلے گئے جن میں قلیؔ قطب شاہ، ملّا وجہی، عادل شاہ، ولی دکنی، افضل ؔ جھنجانوی، عزلت، واجد علی شاہ، امانت لکھنوی، آغاحشر کاشمیری، آرزو لکھنوی،عظمت اللہ خاں، حفیظ جالندھری، میرا ؔ جی، قیوم نظر، الطاف مشہدی، اختر شیرانی، ساحر لدھیانوی، قتیل شفائی، شکیل بدایونی، مجروح سلطان پوری،زبیر ؔ رضوی، ندا فاضلی، بیکل اتساہی، گلزار اور جاوید اختر کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
جب ہم گیت کے سلسلے میں پنجاب کا رخ کرتے ہیں تو سب سے پہلا اور بڑا نام محمد افضل جھنجانوی یا افضل پانی پتی کے روپ میں سامنے آتا ہے۔ مولانا افضل پانی پتی(متوفی 1035ھ) بظاہر ’بکٹ کہانی‘ کے مصنّف کے طور پر شہرت رکھتے ہیں لیکن ان کے بارہ ماسہ کا مطالعہ کرنے سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں گیت نگاری کے تمام تر لوازمات وافر مقدار میں موجود ہیں۔نہ صرف ان کے خیالات والفاظ بھی گیت کے عین مطابق ہیں بلکہ ان کا طرز بیان اور زبان خالص گیت والی ہے۔ بقول پروفیسر نورالحسن نقوی ’’شمالی ہندوستان میں جو بارہ ماسے لکھے گئے ان میں گیت کی فضا غالب ہے۔‘‘
اردو شاعری میں شمالی ہندوستان کی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے پروفیسر محمود شیرانی اپنی اہم تصنیف ’پنجاب میں اردو‘ میں لکھتے ہیں کہ’’ہمارے مورخین کا یہ عقیدہ ہے کہ شمالی ہند میں اردو شاعری ولی دکنی کی آمد اور محمد شاہی دور تک وجود میں نہیں آئی تھی لیکن محمد افضل کے دوازدہ ماہے کی روشنی میں ہمیں اس عقیدہ میں ترمیم کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے‘‘۔(صفحہ نمبر174)
ان اقتباسات کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دکن کے ساتھ ساتھ شمالی ہندوستان بھی شعروادب کا مرکز رہا ہے اور دوسرے یہ کہ ابتدائی اردو اصناف میں گیت بھی خاص اہمیت کا حامل ہے جس کا ایک اچھا نمونہ افضل پانی پتی کا بارہ ماسہ ہے۔ 
’بکٹ کہانی‘ دراصل ایک ایسا بارہ ماسہ ہے جس میں ایک ہجر زدہ عورت اپنے محبوب (خاوند) کے ہجر میں اپنی سکھیوں سہیلیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے دلی کیفیات کو المناک انداز میں گنگناتی ہے اور ہر ماہ کے بدلتے موسموں کے ساتھ اپنے قصّہ محبت وغم کو دلگداز آواز میں دہراتی ہے ؂
سنو سکھیو! بکٹ میری کہانی
پھئی ہوں عشق کے غم سونمانی
نہ مجھ کو سکھ دن،نہ نیند راتاں
برہوں کی آگ میں سینہ جراتا
نہیں اس درد کا دارو کسی کن
پھئے حیراں سبھی حکماء ذو فن
اری جس شخص کوں یہ دیو لاگا
سیاناں دیکھ اوس کو دور بھاگا
اری یہ عشق ہے یا کیا بلا ہے
کہ جسکی آگ میں سبھ جگ جلا ہے
اور پھر جب ساون کا مہینہ آتا ہے تو جذبات کچھ یوں کروٹ لیتے ہیں ؂
اری جب کوک کویل نیں سوناہی
تمامی تن بدن میں آگ لاہی
سونی جب مور کی آواز بن سو
شکیب از دل شدہ آرام تن سوں 
چلا ساون دگر ساجن نہ آہی
اری کن سوکنی تونی چلاہی
پھر بھادوں کی گرمی کا ذکر کچھ اس انداز میں کرتی ہے ؂
سکھی بھادوں تپت بھوتی پریری
تمامی تن بدن میرا جری ری
پیا پردیس جا ہم کو بسارا
بخالوں کیا گنہہ دیکھا ہمارا
اور پھر آگے کہتی ہے ؂
سنو سکھیو کہ رت آسوج آہی
پیاری کی خبر اب یک نیاہی
لکھوں پتیا ارے کاک لیجا
سلونی سانوری سندر پیا یا
لاہور، سیالکوٹ اور پانی پت کے علاوہ جالندھر بھی اہم ادبی مرکز رہا ہے۔موجودہ دور میں پنجاب سے شائع ہونے والا واحد اردو اخبار ’ہند سما چار‘آج بھی جالندھر سے نکل رہا ہے اور بہت سی ادبی انجمنیں آج بھی اپنی ادبی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ گیت کے سلسلے میں بات کریں تو تین اہم نام اسی مردم خیز شہر سے تعلق رکھتے ہیں، وہ ہیں حفیظ جالندھری، مخمور جالندھری اور ضیاء جالندھری۔ ان میں موخرالذکر دو کا تعلق سیماب اکبر آبادی کے تلامذہ سے رہا ہے جبکہ حفیظ جالندھری بین الاقوامی شہرت کے حامل ہیں۔
ابوالاثرمحمد حفیظ 16 جنوری 1900 کو جالندھر میں پیدا ہوئے اور 21 دسمبر 1982 کو لاہور میں انتقال ہوا۔ ’شاہ نامہ اسلام‘ ادبی تاریخ کا وہ کارنامہ ہے جس نے حفیظ جالندھری کو حیات دوام عطا کیا۔ اس کے علاوہ گیت نگاری میں بھی ان کا نام اہمیت کا حامل ہے۔ ان کے گیتوں کی خاصیت چھوٹی اور مترنم بحریں ہیں،ساتھ ہی ان کے الفاظ کا استعمال سماعتوں کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتا۔ مضمون کے اعتبار سے حبّ الوطنی کا جذبہ ان کے گیتوں کا بے حداہم پہلو ہے ؂
پریت ہے تیری ریت پرانی
بھول گیا او بھارت والے
بھول گیا او بھارت والے
پریت ہے تیری ریت
بسالے اپنے من پریت
مخمور جالندھری کے گیت گنگا جمنی تہذیب و ثقافت کے بہترین ترجمان ہیںیا یوں کہیے کہ ہمارے گیت کی روایت کے پاسبان بھی ہیں۔ جابہ جا ہندی الفاظ کا استعمال گیت کو بوجھل بنا دیتا ہے لیکن مخمور نے اپنے گیتوں میں ہندی اردو الفاظ کی جو آمیزش کی ہے اس سے زبان کو ایک وقار حاصل ہوا ہے جو کشش کی وجہ بنتا ہے اور اپنی طرف متوجہ کرتا ہے ؂
کوئی پار لگائے
من کی نیّا، دکھ کے ساگر میں ہچکولے کھائے
جیون کے آکاش پہ میرے غم کے بادل چھائے
کوئی سکھ کا میرے دل پر اتنا مینھ برسائے
یہ میرے جیون کی اگنی پریم ندی بن جائے 
.....کوئی پار لگائے
دن بیتیں جس دیس میں سکھ سے جی نہ میرا گھبرائے
مجھ دکھیاری کو آکر اس دیس کوئی پہنچائے
.....کوئی پار لگائے
حفیظ جالندھری اور مخمور جالندھری کے بعد تیسرا بڑا نام ضیاء جالندھری کا ہے۔ضیاء نے اپنے شہر کی روایات اور ادبی وتہذیبی ماحول کو برقرار رکھتے ہوئے کامیاب گیت لکھے۔الفاظ کی تکرار سے حسن و کیفیت پیدا کرنا شاعروں و گیت کاروں کا اہم حربہ ہوتا ہے جس کو ضیاء کے گیتوں میں بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ان کا یہ گیت ملاحظہ کریں ؂
وہ نہ آئے
چاند کی جوت جلتی تھی جلتی رہی
رات شاخوں کی آہوں میں چپ چاپ ڈھلتی رہی 
جی ڈراتے رہے کالے سائے یہاں
وہ نہ آئے
پھول امبر کے چنتی رہی بار بار
میں پروتی رہی اپنی آنکھوں میں تاروں کے ہار
اوس کے کتنے موتی بچھائے یہاں
وہ نہ آئے، وہ نہ آئے
اردوزبان و ادب کے عظیم مورّخ و ناقد پروفیسر محمود شیرانی کے لخت جگرمحمدداؤد خان،اختر شیرانی (4مئی 1905 ٹونک، 9 ستمبر 1948 لاہور) اس دور کے گیت نگار ہیں جب مبالغے اور بناوٹ کی جگہ حقیقت نگاری کا بول بالا تھا، جس کے لیے گیت موزوں ترین صنف سخن ہے کیونکہ گیت وہ صنف سخن ہے جس کی بنیاد صرف اور صرف سچائی پر مبنی ہوتی ہے۔ سیدھے سچّے جذبات و خیالات نہ صرف ہر ذی شعور اور ذی ہوش کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں بلکہ ایک مخصوص فضا میں گھیر لیتے ہیں اور اکثر انسان چاہتے ہوئے بھی اس حصار سے باہر نہیں نکل سکتا اور بار بار گیت کے بولوں کو دہراتا رہتا ہے لیکن اس کے لیے اختر شیرانی جیسا شاعر ہونا پہلی شرط ہے۔ ان کے گیتوں کے یہ بند ملاحظہ کریں ؂
پردیسی سے دل کا لگانا
بہتے پانی میں ہے نہانا
کوئی نہیں ندی کا ٹھکانا 
رمتے جوگی کس کے میت
ہجر کے موضوع کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ؂
نہ کوئی ساتھی نہ کوئی سجنی نہ کوئی میرے پاس سہیلی
برہ کی بھی رات گزاروں،ڈر کے مارے کیسے اکیلی
اب بھی نہ آئے من کو چین
اختر کے کلام میں نظم گوئی بھی ایک اہم صنف کے طور پر شامل ہے لیکن اس پر بھی گیت کا اثر غالب ہے۔ان کی مشہور نظم ہے ؂
او دیس سے آنے والے بتا 
او دیس سے آنے والے بتا
کس حال میں ہیں یاران وطن
آوارۂ غربت کو بھی سنا
کس رنگ میں ہیں کنعانِ وطن 
وہ باغِ وطن فردوسِ وطن 
وہ سرو وطن ریحان وطن
اس نظم میں اختر نے جس خوبی سے مترنم الفاظ کا استعمال کیا ہے اور ان کی تکرار سے کلام کے حسن میں اضافہ کیا ہے، یہ ان کی قادر الکلامی کا واضح ثبوت ہے۔ 
ثناء اللہ ڈار، میرا جی(پ:1912 لاہور، انتقال 3 نومبر 1949 ممبئی) پنجاب میں اردو گیت کی روایت کو آگے بڑھانے والوں میں ایک اہم اور قابل ذکر نام ثناء اللہ ڈار، میرا جی کا ہے۔ جنھوں نے ہندوستانی زبان کی تمام تر روایتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی انفرادیت قائم کی۔صوفیانہ سوچ و فکر کی عکاسی کرنے والے اس شاعر نے جہاں اپنے سوز وگداز کو غنائی اظہار دیا وہیں گیت کی مدھرتا اور ترنم کو برقرار رکھتے ہوئے پنجابی زبان و تہذیب کی نمائندگی کی ؂
پھر ساون من بھاون آیا،مورا بیرن آیا،بیرن مورا رے
پھر ساون من بھاون آیا،پل میں من بستی کو سجایا رے
ساون آیاٹوٹا دکھ کا بندھن مورا رے
آیا بیرن مورا رے
دھرتی پہ چھائی ہریالی، آئیں گھٹائیں کالی کالی
گھر بھر میں اجیالا چھایا، پل میں بندھائی دھیر
آیا بیرن مورا رے
آیا بال پنے کا سنگی، لایا چوڑی رنگ برنگی
پھنچی، جھانجن،چاندی کی زنجیر لایا
آیا بیرن مورا رے
آیا بیرن مورا رے
فیض احمد فیض کا شمار بنیادی طور پر ترقی پسند شعرا میں ہوتا ہے لیکن یہ بات بہت کم منظر عام پر آئی کہ انھوں نے گیت کی صنف میں بھی طبع آزمائی کی بلکہ فلموں کے لیے بھی گیت لکھے۔یہ گیت ان کے شعری مجموعے ’شام شہر یاراں‘ میں بھی شامل ہیں۔ انھوں نے اپنے گیتوں میں بالکل وہی انداز اپنایا جو ہمارے ابتدائی دور کے گیتوں کا خاصہ رہا ہے لیکن ان کی زبان زیادہ واضح اور نکھری ہوئی معلوم ہوتی ہے ؂
موری ارج سنو دست گیر پیر 
مائی ری،کہو کاسے میں اپنے جیا کی پیر
نیّا باندھو رے/باندھو رے کنار دریا
مورے مندر اب کیوں نہیں آئے
اس صورت سے /عرض سناتے/درد بتاتے
نیّا کھیتے/منّت کرتے/رستہ تکتے
کتنی صدیاں بیت گئی ہیں/اب جاکر یہ بھید کھلا ہے
جس کو تم نے عرض گزاری/جو تھا ہاتھ پکڑنے والا
جس جا لاگی ناؤ تمہاری/جس سے دکھ کا دورو مانگا
تورے مندر میں جو نہیں آیا
وہ تمہیں تو تھے /وہ تمہیں تو تھے
اور فلم ’جاگو ہوا سویرا‘ میں ان کا انداز کچھ اس طرح سے ہے ؂
اب کیا دیکھیں راہ تمہاری
بیت چلی ہے رات 
چھوڑو/چھوڑو غم کی بات
تھم گئے آنسو/تھک گئی اکھیاں
گزر گئی برسات/بیت چلی ہے رات
اردو گیت کاری کے پیشوا ساحر لدھیانوی(8 مارچ 1921 لدھیانہ، پنجاب۔ 25 اکتوبر 1980 ممبئی) واقعی ایک کھرے اور سچّے فنکار ہیں۔سچا اس لیے کہہ رہا ہوں کہ میرے نزدیک کسی بھی فن کی معراج، فن پارے سے پیدا ہونے والی تاثر آفرینی ہے۔ یہ ایک ایسی ذہنی کیفیت ہے جو کسی شخص کی سوچ و فکر سے اس قدر یکجا کر دیتی ہے کہ وہ ذی شعور شخص ان کیفیات سے گزرنے لگتا ہے جہاں سے گزرتے ہوئے ایک فنکار اپنے فن کی تخلیق کرتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کیفیت دوسری تمام کیفیات سے منفرد و ممتاز اور احساس مسرت و سرور سے اس قدر سرشار ہوتی ہیں کہ انسان کسی اور ہی دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔ ساحرکے جذبات و خیالات اور زبان و بیان سے بارہا وہ کیفیت پیدا ہوتی ہے جس کو ہم فن کی معراج کہہ سکتے ہیں۔وہ اپنی ہی طرح کی صداقت، ذہانت اور فطانت کے واحد ویکتا فنکار ہیں جس کا ثبوت خود ان کے گیت ہیں ؂
لاگا چنری میں داغ چھپاؤں کیسے
............گھر جاؤں کیسے
ہوگئی میلی موری چنریا
گورے بدن کی گوری چنریا
جاکے بابل سے نجریں ملاؤں کیسے
............گھر جاؤں کیسے
گوری چنریا آتما موری میل ہے مایا جال
وہ دنیا مورے بابل کا گھر،یہ دنیا سسرال
جاکے بابل سے نجریں ملاؤں کیسے
......گھر جاؤں کیسے
ساحر کے گیتوں میں شدّت، جدّت،ندرت،محبت اور تفحصِ الفاظ، غرض تمام خوبیاں یکجا ہو گئی ہیں اور ساتھ ہی ادب اور تہذیب کی چاشنی نے ان کے ذائقے کو دوگنا کر دیا ہے۔ساحر نے اپنی تمام تر ادبی و فنّی شاعری کو فلموں میں استعمال کیا جس سے فلمی گیتوں کی مقبولیت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔اسی لیے موجودہ فلمی گیتوں کے سربراہ پدم بھوشن گلزار نے جادوگر نغمہ گرساحر کو سب سے بڑا گیت کار تسلیم کیا ہے اور میں سمجھتا ہوں’گاتا جائے بنجارا‘ فلمی گیتوں کا اب تک کا سب سے خوشبودار گلدستہ ہے۔
قتیل شفائی کے گیتوں میں تاثر اور کیفیت کے ساتھ ساتھ موسیقیت کو بہت ہی عمدہ پیرائے میں ابھارا گیا ہے جس کی جھنکار کی رسائی دلوں تک ہوتی ہے اور ہر کسی کو اپنا گرویدہ بنا لیتی ہے یہی سچّا تخلیقی جوہر بھی ہے جو قتیل کے یہاں جلوہ گر ہے ؂
موہے چاند کے پائل منگادو سجن
خالی پیروں سے پنگھٹ کو میں چلوں
اپنی سکھیوں کو دیکھوں تو من میں جلوں
وہ تو ناچیں میں شرما کے منھ پھیروں
موہے پنگھٹ کی رانی بنادو سجن
صوتی آہنگ کے ذریعے غنائی کیفیت پیدا کرنا اور موسیقیت ابھارناقتیل کی شاعری کی بڑی خاصیت ہے۔
اردو گیت نگاری کے تعلق سے عرش ملسیانی بھی ایک اہم نام ہے۔ فنّی اور ادبی اعتبار سے ان کے گیت اہمیت کے حامل ہیں۔خاص طور پر’برہ‘ کے موضوع پر انھوں نے عمدہ گیت تحریر کیے ہیں۔ ان کے زبان و بیان گیت کی فضا کے عین مطابق ہیں ؂
آہ بھرت ہوں ہر کروٹ پر
چونک پڑت ہوں ہر آہٹ پر
روپ انیک دکھائے پیا نہیں آئے
سیج سنگار نہ بھائے /پیا نہیں آئے/پیا نہیں آئے
عام بول چال کی زبان کو گیتوں سے متعارف کروانے والے گیت کار آنند بخشی کا تعلق بھی پنجاب ہی سے ہے۔ انھیں قافیہ پیمائی پر عبور حاصل تھا۔ انھوں نے تقریباً ہر موضوع پر گیت لکھے ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے تقریباً 650 فلموں کے لیے تین ہزار سے زیادہ گیت لکھے۔ ان کی خدمات کے لیے انھیں کئی بار فلم فیئر ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ عوام میں سانگ انجنیئرکے طور پر مشہور ہوئے۔ان کے گیتوں کا انداز کچھ یوں ہے ؂
اک بنجارا گائے جیون کے گیت سنائے
ہم سب جینے والوں کو جینے کی راہ بتائے
سبھی کا دیکھو نہیں ہوتا ہے نصیبا روشن ستاروں جیسا
سیانا وہ ہے جو پت جھڑ میں بھی سجا لے گلشن بہاروں جیسا
کاغذ کے پھولوں کو بھی مہکا کر دکھلائے
اک بنجارا گائے جیون کے گیت سنائے
پریم واربرٹنی اردو گیت نگاروں کی فہرست میں ایک قابل ذکر اور قابل قدر نام ہے۔ان کے گیتوں میں خالص ادبی گیت شامل ہیں۔ محمد رفیع و لتا منگیشکر جیسے گلوکاروں نے ان کے الفاظ کو اپنی سریلی آواز دی۔ ان کے گیتوں کے مطالعے سے یہ بات شدّت سے محسوس ہوتی ہے کہ انھوں نے اپنی دلی کیفیات کو بہت ہی سادگی و عمدگی سے ظاہر کیا ہے۔اس عمل میں زبان اور بیان پر مکمل گرفت ان کی دوسری اہم خوبی ہے۔ زبان کی سلاست اور بیان کی معصومیت ونرمی ان کی گیت کاری کے بنیادی وصف ہیں ؂
دل جلے گا تو زمانے میں اجالا ہوگا
حسن ذرّوں کا ستاروں سے نرالا ہوگا
یہ جو آکاش پہ اک چاند نظر آتا ہے
کسی دیوانے نے دل اپنا اچھالا ہوگا


دیکھنا روئے گی فریاد کرے گی دنیا
ہم نہ ہونگے تو ہمیں یاد کرے گی دنیا
اپنے جینے کی ادا بھی ہے انوکھی سب سے 
اپنے مرنے کا بھی انداز نرالا ہوگا
یا پھر یہ گیت ملاحظہ کریں ؂
میری زندگی کے راہی مجھے چھوڑ کر نہ جانا
مرے ساتھ صرف تو ہے ترے ساتھ ہے زمانہ
تجھے کیا خبر کہ میں نے تجھے روح میں اتارا
تجھے دیر تک صدا دی تجھے دور تک پکارا
مری حسرتوں نے چھیڑا ترے نام کا ترانہ
میری زندگی.......... 
فلم و ادب کی ایک کثیر الجہت شخصیت سمپورن سنگھ کالڑا یعنی گلزار (پیدائش:1934 دینا، ضلع جہلم، پنجاب، پاکستان) موجودہ دور کے بے حد اہم گیت کار ہیں۔یہ ان کی گیت کاری کا ہی کمال ہے کہ انھیں ساہتیہ اکادمی اور فلموں کے سب سے بڑے ایوارڈ ’آسکر ایوارڈ‘ سے سرفراز کیا گیا:
میرا گورا رنگ لئی لے
موہے شام رنگ دئی دے
جیسے گیت سے اپنے فلمی کیریئر کی شروعات کرنے والے گلزار کی شاعری و گیت کاری کی خاصیت یہ ہے کہ ان کے کلام میں ہندوستانی روح اور اردو کی دھڑکن کو صاف طور پر سنا جا سکتا ہے۔ اگر ان کے تمام کلام کو ایک طرف رکھ دیا جائے اور فلم ’دل سے‘ کے لیے لکھا جانے والا ’چل چھیاں چھیاں‘ ہمارے سامنے ہو تو میرا خیال ہے کہ ان کو بڑا گیت کار تسلیم کرنے میں کسی کو کوئی قباحت نہیں ہوگی۔ شاعری کیا ہے؟ لفظوں کا استعمال کیا ہوتا ہے؟فنّی چابکدستی کیا ہوتی ہے؟ اس گیت سے بخوبی واضح بھی جا سکتا ہے ؂
میرے عشق کی چادر چھیّاں/چل چھیّاں چھیّاں
جن کے سر ہو عشق کی چھاؤں/پاؤں کے نیچے جنّت ہوگی
چل چھیّاں چھیّاں
وہ یار ہے جو خوشبو کی طرح
ہے جس کی زباں اردو کی طرح
مری شام و رات مری کائنات
وہ یار میرا سیّاں سیّاں
چل چھیّاں چھیّاں........
اس گیت میں گلزار نے جس طرح ’اردو‘ کو اپنے محبوب کا وصف خاص بنایا ہے میں سمجھتا ہوں کہ یہ لفظ ’اردو‘ کا اب تک کا بہترین استعمال ہے۔ اگرچہ داغ دہلوی نے بھی اردو کو خوبصورت انداز میں پیش کیا لیکن کسی کو اس لیے پسند کرنا کہ اس کی زبان اردو کی طرح مترنّم اور شیریں ہے، اپنے آپ میں اردو سے والہانہ محبت کا اظہار ہے۔
سلسلۂ گیت کا ایک معتبر ومعتمد نام ڈاکٹر اسلم حبیب کا ہے جن کا تعلق پنجاب کی روحانی و ادبی سرزمین مالیرکوٹلہ سے ہے۔اچھی اور سچّی گیت کاری ساحری سے کم نہیں ہوتی۔
زخمی پڑی ہے میری سرگم گھائل ہیں سرتال 
گھائل ہیں سرتال رے ساتھی کیسے گیت سناؤں
کیسے گیت سناؤں رے ساتھی 
گھائل ہیں سرتال
وار دکھوں کے سہتے سہتے ہو گئے گیت کٹیلے
بچھڑے ہم سے کیسے کیسے بانکے یار سجیلے
اور نہ ہم سے بن پائیں گے اب جینے کے حیلے
اب تو کسی بھی طور ہو لیکن ختم ہو یہ جنجال
رے ساتھی گھائل ہیں سر تال
آنسو بن کر بہہ گئے کتنے کومل خواب سنہرے
کس کو دکھائیں زخم دلوں کے ساگر سے بھی گہرے
سارے دیوتا پتھّر نکلے سارے انساں بہرے
کس سے بات کہوں میں دل کی کسے سناؤں حال
رے ساتھی گھائل ہیں سرتال
ستھرا اور نکھرا لہجہ رکھنے والے سجل گیت کار اسلم کے تخلیقی عمل پر غور کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہی ان کے یہاں کوئی جذبہ لے بن کر ابھرتا ہے،لفظ خودبخود آکر ان کی دہلیز پر کھڑے ہو جاتے ہیں جن کا فنکارانہ استعمال وہ اس مہارت و فراست سے کرتے ہیں کہ ان کے گیت فصاحت اور بلاغت کا مرقع نظر آتے ہیں ؂
میرا جیون اک نیّا ہے/تو ہے کھیون ہار سوامی
کب سے کھڑا ہوں بیچ بھنور میں
اب تو لگا دے پار،سوامی تو ہے کھیون ہار
تن کی ترشنا، من کی الجھن،قدم قدم بھٹکائے
کیسے بچوں؟گر تو نہ مجھ کو بانہہ پکڑ لے جائے
ہاتھ دے اپنا میں تو کھڑا ہوں
کب سے ہاتھ پسار سوامی تو ہے کھیون ہار
میں سمجھتا ہوں کہ شدّت جذبات عمیق ذہانت کی علامت ہے اور اگر اس ذہانت کو مثبت سوچ یعنی طریقہ و سلیقہ نصیب ہو جائے تو اسلم جیسے شاعر وجود پذیر ہوتے ہیں۔
اردو گیت نگاری کے حوالے سے سوہن راہی کا نام ایک منفرد حیثیت کا حامل ہے جن کے متعّدد مجموعے منظر عام آکر پذیرائی حاصل کر چکے ہیں جن میں گیت ہمارے خواب، کاغذ کا آئینہ،گھونگھٹ کے پٹ اور زخموں کے آنگن قابل ذکر ہیں۔ان کے گیت ہند وپاک کے مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔حالانکہ سوہن راہی کی زندگی کا زیادہ وقت غیر ممالک میں گزرا ہے اس کے باوجودوہ ہندوستانی تہذیب اور گیت کے مزاج سے پوری طرح واقف نظر آتے ہیں۔لفظوں کا بہترین استعمال، خاص کرہندی الفاظ کی آمیزش سے زبان کو جو تازگی ورعنائی عطا کرتے ہیں اور نئی نئی ترکیبوں کا اختراع کرتے ہیں وہ انہی کا وصفِ خاص ہے۔ ساتھ ہی موسیقی کی معلومات نے ان کے گیتوں کے حسن میں خاطرخواہ اضافہ کیا ہے۔ مختصر یہ کہ وہ ایک فطری گیت کار ہیں۔ بقول قتیل شفائی ’گیت ان کے مزاج میں رچا بسا ہوا ہے‘ ؂
راہی تو چلتا چل/راہی تو چلتا چل
تجھ کو منزل ڈھونڈ ہی لے گی
آج نہیں تو کل، آج نہیں تو کل
پیت کی کوئی ڈور بنے گا 
درد بھرے تیرے گیت سنے گا
کوئی تیرے آنسو بھی چنے گا 
روپ کے بنجاروں سے تیرا
من ہوگا بے کل/راہی تو چلتا چل/راہی تو چلتا چل 
غریب الدیار ہونے کا دکھ کیا ہوتا ہے اس بات کو راہی کے گیتوں میں شدّت سے محسوس کیا جا سکتا ہے ؂
کوئل کوک پپیہا والی نا پیپل کی چھاؤں
سات سمندر پار بسایا ہم نے ایسا گاؤں
ہمرا ایسا گاؤں
ہمرا ایسا گاؤں
ایسا گاؤں جس میں ٹھنڈی آگ سے تن جلتا ہے
سانس میں پون نہیں وش پرویا جاتا ہے
اس گاؤں کی سرحد سے نہ نکلیں پھر بھی باہر باہر پاؤں
ایسا ہمرا گاؤں
گیت کاری کے تعلق سے خوشی کی بات یہ ہے کہ جہاں پنجاب میں ماضی کی خوبصورت روایت موجود ہے وہیں یہ سفر آج بھی جاری و ساری ہے۔ان متذکرہ گیت کاروں کے علاوہ باقی شعراء کے یہاں بھی گیت کاری کا رجحان ملتا ہے۔ ان میں سردار پنچھی، راجندر ناتھ رہبر،ناشر نقوی،ارشاد کامل اور صاحبزادہ اجمل خاں شیروانی کے نام قابل ذکر ہیں۔
n
Dr. Nadeem Ahmed
Assit. Prof. Dept of Urdu & Persian
Sri Guru Granth Sahib World University
Fatehgarh Sahib - 140406 (Punjab)
Mob.: 09888856914









1 تبصرہ: