5/12/18

سماجی علوم کی تعلیم و تدریس میں مشاہداتی زاویہ فکرکی اہمیت اقتصادیات کے دائرے میں جائزہ مضمون نگار:۔ سید اطہر رضا بلگرامی






سماجی علوم کی تعلیم و تدریس میں مشاہداتی زاویہ فکرکی اہمیت
اقتصادیات کے دائرے میں جائزہ


سید اطہر رضا بلگرامی

ہم کو اپنے تعلیمی دور سے لے کر آج تک یہ احساس شدید رہا کہ سماجی علوم کی تعلیم وتدریس جو کلاس روم میں ہوتی ہے، معاشرے کی طرزِ زندگی کا کوائف نہیں کرتی ہے۔ ایک پردہ ہے جو درسی کتابوں میں بیان کردہ فکرونظریات اور زندگی گزارنے کے انداز کے درمیان حائل ہے۔ ہم نے سماجی علوم کی تعلیم وتدریس کو درسی کتابوں میں بیان کردہ نظریات کی تشریح وتنقید تک محدود رکھا ہے۔ وہ بیان کردہ قوانین ونظریات انسانی معاشرہ کی زندگی سے کس طرح وابستہ ہیں، اس کو کس طرح متاثر کررہے ہیں، اس پر توجہ کم ملتی ہے۔ نتیجتاً تعلیم وتدریس کی مقصدیت فوت ہوتی جارہی ہے۔ میں اقتصادیات کی درسی کتابوں میں بیان کردہ چند بنیادی قوانین ونظریات کو نمونتاً کلاس روم سے نکال کر آپ کی زندگی کے معمولات سے وابستہ کرکے پیش کرنے کی سعی کررہا ہوں تاکہ ان نظریات کی عملی شکل واضح ہوجائے اور اس کی تعلیم وتدریس زیادہ بامقصد، زیادہ بامعنی ہوجائے۔
سماجی علوم میں اکنامکس ] اقتصادیات/ معاشیات[ ایسا منفرد مضمون ہے جو زبان، اصطلاحات، طرزبیان، انداز تشریح وتشخیص کے اعتبار سے دیگر مضامین سے مختلف نظر آتا ہے۔ آپ اکنامکس کی کوئی کتاب پڑھنا شروع کیجیے تو پہلا تاثّر یہی ابھرے گا کہ وموضوع سے وابستہ تمام وضاحتیں، تشریحات، اصطلاحات نامانوس، غیر دلچسپ اور اجنبی سی ہیں۔ اس میں ایسی کشش نہیں ہے کہ پڑھنے والے کا ذہن وابستہ رہے۔ میں اگر ایک اصطلاح کی وضاحت کردوں تو شاید یہ اجنبیت دور ہوجائے۔
اکنامکس کی بنیادی درسی کتاب مائیکرواکنامکس Micro ecnomics ہے جس کا ابتدائی اہم باب عمل صرف Consumption function ہے جہاں صارفین کے عمل صرف کی تشریح ملتی ہے۔ اکنامکس عوام کو ’صارفین‘ Consumers کے لقب سے مخاطب کرتا ہے۔ غور کیجیے اس لقب میں کتنی حقّانیت ہے، کس قدر آپ کے معمولاتِ زندگی سے وابستہ ہے۔ انسان نوازیدہ بچّہ ہو یا بوڑھا، عمر کے کسی دور سے گزر رہا ہو، کسی پیشہ کو اختیار کیے ہوئے ہو، راجہ ہو یا پرجہ، صاحب اختیار ہو یا محتاج، تنہائی پسند ہو یا مجلسی، گھر میں ہوکہ گھر کے باہر، وطن میں ہو یا وطن سے دور، صحت مند ہو یا بیمار، خوشحال ومطمئن ہو یا پریشان وتنگ دست اس کے افکاروخیالات و عقائد کچھ بھی ہوں، ہر حال میں اگر سانس لے کر زندہ رہنے کا ثبوت دے رہا ہے تو صارف ہے۔ وہ عملِ صرف سے نہ گریز کرسکتا ہے اور نہ انحراف۔ اگر کوئی انسان یا گروہ خود اختیاری طور پر ارادتاً یا جبراً عمل صرف سے گریز کرتا ہے تو وہ اقتصادیات کے دائرہ فکر سے باہر ہے۔ چونکہ اقتصادیات انسانی زندگی کی ٹھوس مادّی بنیادوں کی تشریح کرتا ہے اس لیے صارفین کے عمل صَرف کو مرکز قرار دیتا ہے۔
عمل صَرف آئینہ زندگی ہے جس کی بنیادی خواہشات ضرورتیں اور طلب ہیں۔ یہی جذبے متحرک ہوکر عمل صرف کو سرگرم رکھتے ہیں۔ اکنامکس انسان کے ان تمام جذبوں ] خواہشات، ضرورتیں اور طلب[ کی وضاحت کرتا ہے اور اپنی فکر کو طلب پر مرکوز رکھ کر کچھ اصول ونظریات پیش کرتا ہے جس میں قانون طلب ورسد، قانون قدر، قدر کی لوچ اور قانون خط بے نیازی خصوصی توجہ کے حامل ہیں۔ اس مختصر مضمون میں ان تمام قوانین کی تشریحات کو سمیٹا نہیں جاسکتا۔ ہاں نمونتاً چند کی تشریحات مشاہداتی انداز سے پیش کررہا ہوں تاکہ یہ قوانین درسی کتابوں سے نکل کر آپ کی زندگی میں سمو جائیں۔ 
انسان خواہشات وآرزوؤں کا پتلا ہے۔ اقتصادیات اس فطری جذبے کو تسلیم کرتا ہے لیکن اس کے بکھراؤ، عدم سمتیت، عدم اعتمادی اور عدم یقینیت کے زیر اثر کسی ٹھوس اصول وقانون کو مرتّب کرنے میں اپنے آپ کو بے بس پاتا ہے۔ اس کی نظر میں یہ بے لگام فطری جذبہ معقولیت کے دائرے سے باہر ہے۔ اقتصادیات انسان کو ایک معقول معاشی انسان بنانا چاہتا ہے اس لیے ان بے لگام خواہشات کو اصولوں کے سانچے میں ڈھالنا ہوگا۔ اس کے لیے اقتصادیات نے خواہشات کے امبوہ میں چھاٹ پھٹک شروع کی اور اس نتیجے پر پہنچا کہ خواہشات کی بے لگام دوڑ میں چند خواہشات اتنی مضبوط ہوتی ہیں جو بار بار ابھرتی ہیں اور انسانی زندگی سے لپٹی رہتی ہیں اور جن کو پورا کیے بغیر سکون وچین نصیب نہیں ہوتا۔ پیاس میں پانی، بھوک میں غذا، سردی میں حرارت پہنچانے والے کپڑے وسازوسامان اور گرمی میں راحت پہنچانے والے سازوسامان اس کی مثالیں ہیں۔ جب یہ پر قوّت خواہشات ابھرتی ہیں تو دیگر خواہشات پیچھے چلی جاتی ہیں۔ چائے، سگریٹ، شراب بھی ایسی ہی پر قوّت خواہشات ہیں۔ اقتصادیات نے ذہنِ انسانی کو زیادہ جامع اور حقیقت پسندانہ فکر کی طرف موڑا۔ ایسی قوی خواہشات کی تسکین کے لیے انسان اپنی استعداد کے بمو جب سعی وکاوش کرتا ہے، کوشاں رہتا ہے۔ اقتصادیات نے خواہشات کے امبوہ سے ایسی پر قوّت خواہشات کو الگ کیا اور ضرورت Wants کا نام دیا اور اپنے اصولوں کی تشریح میں شامل کیا۔
اقتصادیات نے اپنی تشخیص کو اور عمیق وگہرہ بنایا۔ اس نے واضح کیا کہ ہر انسان کے وسائل، ان پر ان کی قدرت، اس کا مزاج، ترجیحات، معاشرتی اقدار کی پاسداری یکساں نہیں ہوتیں۔ وہ اپنی ضرورتوں کو اپنی استعداد اپنی پسند و ترجیحات کے بموجب پورا کرتا ہے۔ مثلاً اگر چند دوستوں کو ایک قلم کی ضرورت ہے تو پھر ضروری نہیں کہ سبھی دوست ایک ہی قیمت اور ایک جیسا قلم خریدیں۔ یہاں دوستوں کے درمیان جو شرط مشترک ہے وہ قلم کی ضرورت ہے۔ بس جہاں ضرورت Want کو استعدادوپسندوترجیحات کے بندھن میں باندھا وہاں ’ضرورت‘ ’طلب‘Demand میں منتقل ہوگئی۔ اقتصادیات کی تمام توجہ اسی طلب پر مرکوز ہے۔ اور اس سے وابستہ اصول وقوانین اسی کا احاطہ کرتے ملتے ہیں۔
آپ نے دیکھا کہ اکنامکس نے کس طرح خواہشات کے بکھراؤ کو سمیٹا اور ایک بامقصد فعل کی طرف منتقل کردیا۔ کس طرح اس نے آپ کو خواہشات کے امبوہ سے نکال کر ضرورت Wants کے دائرہ میں داخل کیا اور اس کو مزید صاف ستھرا بناکر بالآخر طلب Demand کی منزل تک لے آیا اور یہاں تک لاتے لاتے اس نے آپ کو ایک مکمل معقول معاشی انسان بنادیا جس کو صارف Consumer کا لقب دیا۔ انھیں کی آبادی کو صارفین Consumer کہا گیا اور جن اصولوں کے تحت وہ اپنی طلب کی تسکین کرتے ہیں، ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں، اس کو عمل صَرف Consumer's function کہا گیا اور جس طور پر صارف اکنامکس میں قانون طلب ورسد پر عمل کرتا ہے اس کوConsumer-behavior کا نام دیا گیا۔ یہ ایک ایسا فطری قانون ہے جس کی ابتدا اگر آپ غور کریں تو شکمِ مادر سے ہی ہوجاتی ہے اور تاحیات آپ کی زندگی سے جڑا رہتا ہے۔ اور آپ جانے انجانے اس کی پیروی کرتے رہتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ میں تہذیبوں میں ہونے والے تمام تغیرات کا محرک یہی قانون ہے۔ میں قانون کی تشریح سے پہلے اس کی وسعت واثر انگیزی کا مختصر جائزہ رہا ہوں۔
میں نے ذکر کیا کہ اس قانون کی ابتدا شکم مادر میں کسی زندگی کے آنے کے ساتھ ہوجاتی ہے اور تاحیات اس سے وابستہ رہتا ہے۔ ادھر ماں کو اپنے شکم میں کسی ہستی کے وجود کا احساس ہوا ادھر قدرت نے ماں کو قانونِ طلب میں باندھ لیا۔ اس کے معمولات زندگی میں فرق آگیا۔ وہ زیادہ محتاط نظر آنے لگی۔ اس کے کھانے، پینے، اٹھنے بیٹھنے، آرام کرنے، کام کرنے میں ایک نظم ونسق پیدا ہوگیا۔ ایسا کیوں ہورہا ہے۔ ایک زندگی اپنی بقا کے لیے کچھ طلب کررہی ہے اور دوسری اس کو پورا کررہی ہے۔ 9 ماہ بعد جب یہ ہستی دنیا میں آئی تو اپنی طلب کے لیے اس کے پاس نہ زبان ہے نہ الفاظ۔ ہاں ہاتھوں کی جنبش، چہرے کے بدلتے رنگ، اعضاء وجوارح کی حرکت ضرور ہے۔ ماں کے لیے یہی سب پیغامات ہیں۔ کب نیپکن بدلنا ہے؟ کب دودھ پلانا ہے؟ کب گود میں دے کر تھپکنا ہے؟ کب سہلانا ومالش کرنا ہے؟ ماں نے بچہ کی طلب کو پورا کیا اور وہ پُرسکون سوگیا۔ اسی کو نقطۂ تسکین (Point of satisfaction) یا نقطہ توازن (Equilibrium) کہا گیا۔ اب ماں اس کی اس طلب کو پورا نہ کرے، وقت پر دودھ نہ دے، گود میں لے کر نہ تھپکائے، گیلا نیپکن نہ بدلے، بستر کی شکن دور نہ کرے تو یقیناً بچہ بے چین رہے گا۔ یہی عدم تسکین (Dis-satisfaction) یا (Dis-equlibrium) کی سطح ہوگی۔ طلب ورسید کا یہ ربط وضبط جو ابھی ماں اور بچہ کے درمیان ہے، بڑھ کر افراد خانہ، محلہ، شہر، ملک وغیر ملک تک پھیلتا نظر آتا ہے جہاں توازن وعدم توازن کی کیفیتیں پیدا ہوتی رہتی ہیں اور تہذیب انسانی اس کا مشاہدہ کرتی رہتی ہے۔
اقتصادیات کے مفکّرین نے اس نظام قدرت پر غور کیا اور ایک بنیادی قانون طلب ورسد سے دنیا کو متعارف کرایا۔ چونکہ ہر انسان اپنی ضرورت کی تسکین کسی وسیلے سے کرتا ہے اس لیے وہی وسیلہ اس کی ضرورت کی تسکین کا ذریعۂ بنتا ہے اور وہی ضرورت کی تسکین کا پیمانہ بھی۔ ضرورت کی اشیاء وجنس کی مقدار اور اس کو حاصل کرنے کی استعداد جو آمدنی وقیمت کا مظہر ہوتی ہے، غور کیا گیا تو دونوں میں مخالف رشتہ پایا گیا۔ یعنی اگر قیمتیں بڑھتی ہیں تو مانگ کم اور اگر گرتی ہیں تو مانگ زیادہ ہوتی ہے۔ قیمت کے بڑھنے پر طلب کرنے والوں کی تعداد کم اس لیے ہوتی ہے کہ تمام انسانوں کی استعدادِ ادائیگی یعنی آمدنی برابر نہیں ہوتی۔ اور بلند قیمت پر چند افراد یا گروہ انسانی ہی اس کو حاصل کرنے کے اہل ہوتے ہیں۔ لیکن جب قیمتیں گرنا شروع ہوتی ہیں تو خریدنے والوں کی استعداد کا دائرہ وسیع ہونے لگتا ہے، زیادہ سے زیادہ صارفین اس شے کو حاصل کرنے کے اہل ملتے ہیں۔ اس لیے قانون یہ واضح کرتا ہے کہ دیگر باتیں یکساں رہنے پر اگر قیمتیں بڑھتی ہیں تو طلب کم اور گرنے پر طلب زیادہ ہوتی ہے۔ اس قانون کے بہت سے گوشے مضمون کی طوالت کے مدِ نظر چھوڑ رہا ہوں جن کی تفصیلات ہماری کتابوں میں مل جائیگی۔ ہاں ایک فقرہ کی وضاحت ضرور کرتا ہوں اور وہ ہے ’’اگر دیگر باتیں یکساں رہیں۔‘‘
اس قانون کے نافظ ہونے میں یہ فقرہ بہت اہم ہے۔ یہ فقرہ اس قانون کے نافظ ہونے کی ان پابندیوں اور بندشوں کی طرف اشارہ کرتا ہے جن کی موجودگی میں اس قانون کا اطلاق صحیح طور پر نہیں ہوسکتا۔ اگر آمدنی میں اچانک اضافہ ہوجائے، فیملی بڑی ہوجائے لیکن کمانے والوں کی تعداد وہی رہے، کسی شئ کا متبادل بازار میں آجائے، سیاسی حالات بدلیں، جغرافیائی آفات وتغیّرات، تعلیم وتربیت کے پھیلاؤ سے ترجیحات بدلیں تو یہ قانون نافظ نہیں ہوتا۔ ان کا اثر طلب پر پڑتا ہے ان تمام مفروضات کو سمیٹ کر یہ کہہ دیا گیا کہ اگر ’’دیگر باتیں یکساں رہیں‘‘ تو طلب اور قیمت کے درمیان مخالف نسبت پائی جاتی ہے۔
طلب کی نوعیتیں تین طرح کی ہوتی ہیں اور ہر ایک کی اس کی قیمت سے نسبت جداگانہ ہوتی ہے۔ اس کو طلب کی حسّاسیت برائے قیمت کہا گیا۔ یعنی Price elasticity of demand or price responsneness یہ بھی ہمارے آپ کے مشاہدے کی بات ہے کہ اشیاء وخدمات کی قیمتوں میں چاہے جتنا تغیّر آئے ان کی طلب پر اثر بہت کم پڑتا ہے۔ یعنی ان کی طلب بہ اعتبار قیمت بے لوچ ہوتی ہیں۔ اشیاء ضروری اسی زمرے میں آتی ہیں۔ ان کی طلب بروئے قیمت بے لوچ ہوتی ہے۔ کچھ اشیاء جو آرام وآسائش کے زمرے کی ہیں ان کی قیمت اور طلب کے درمیان رشتہ الٹا پایا جاتا ہے۔ جب قیمتیں بڑھتی ہیں تو طلب گرتی ہے اور جب قیمتیں گرتی ہیں تو طلب زیادہ ہوتی ہیں۔ کچھ اشیاء ایسی بھی ہوتی ہیں جو عیش وعشرت کے زمرے میں آتی ہیں۔ یہاں طلب کی حسّایت بہت شدید پائی جاتی ہے۔ یعنی قیمتوں میں تھوڑی سی گراوٹ طلب کو بہت بڑھا دیتی ہے اور تھوڑی سی بلندی طلب کو بہت گرا دیتی ہے۔ اصطلاحات میں ان کوIn-elastic اور Elastic Highly-elastic کہا گیا ہے۔
II 
قانون طلب کے مختصر تعارف کے بعد اس سے منسلک ایک دوسرا اہم قانون، قانونِ قدر ملتا ہے۔ کافی وسیع اور اہم موضوع ہے جس کا بس مختصر تعارف یہاں پیش کرہا ہوں۔ اس کا تعلق بھی عمل صَرف سے ہے۔ آپ کو بخوبی معلوم ہے کہ دنیا کی ہر شے جو آپ کے حلقہ علم میں ہے، آپ کے کام کی ہے یا آپ کی کسی نہ کسی ضرورت کی تسکین کا وسیلہ ہے۔ ہر شے میں پوشیدہ یہی قوّت اس شے کی قدر کا تعین کرتی ہے۔ کسی شے میں انسان کی کسی ضرورت کی تسکین کی جتنی مستحکم قوّت پائی جاتی ہے وہ اسی قدر پر کشش بنتی ہے، اسی قدر بلند اس کی قدر ہوتی ہے۔
جب تک انسان شے کی اس قوت سے بے خبر رہتا ہے، اس شے میں کوئی کشش نہیں پاتا۔ وہ شے اس کے لیے بے قدروقیمت ہی رہتی ہے۔ معاشیات میں قدر Utility کی پہلی اور بنیادی شرط یہی ہے کہ اس شے میں انسان کی کسی ضرورت کی تسکین کی قوّت ہو اور انسان اس سے واقف بھی ہو۔
معاشیات میں قدر کی دوسری اہم شناخت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ کمیابی میں ابھرتی ہے، افراط میں نہیں۔ اس کی وضاحت زندگی کے مشاہدوں سے کی جاسکتی ہے۔ ہوا، پانی، سورج کی روشنی، اس کی تمازت سب قدرت کے عطیات ہیں اور یہ اتنے قیمتی ہیں کہ ان پر نہ صرف بنی نوع انسان بلکہ حیوانات، نباتات سبھی کی بقا کا انحصار ہے۔ قدرت نے اسی لیے ان کو بے حصاب افراط میں عطا کیا ہے۔ اتنا افراط میں کہ انسان کو ان کی قدر کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ ذرا ان کی دستیابی کو محدود کردیجیے تو فوری ان کی قدر کا احساس جاگ جائے گا۔ انتہائی حبس وامس میں ایک فرحت بخش ہوا کے جھونکے کی قدر کا احساس کیجیے۔ بے آب وگیاہ صحرہ میں تھوڑے پانی کی دستیابی کی قدر کو محسوس کیجیے۔ سمندر کی اتھّاہ گہرائیوں میں جہاں آکسیجن نہیں ہوتی، غوطہ خوروں کے پشت پر لگے آکسیجن سلنڈر کی اہمیت کا اندازہ کیجیے۔ وہ غوطہ خور اپنی نارمل زندگی میں کبھی سوچتا بھی نہیں کہ اس کی زندگی کے لیے ہوا کی کیا اہمیت ہے۔ لیکن یہاں وہی بے وقت ہوا کی تھوڑی مقدار اس کی زندگی کی ضامن بنی ہوئی ہے۔ افراط قدر کو نہیں جگاتی بلکہ کمیابی میں قدر ابھرتی ہے۔ یہی حال ہسپتالوں میں مریضوں کو لگے آکسیجن سلنڈر کی ہے۔ اس سلنڈر کی قدروقیمت اس مریض کے گھر والوں سے پوچھیے۔
یہ مثالیں تو مخصوص ہیں۔ آپ تو معمولات زندگی میں دیکھیے کہ جس وقت گھریلو اشیائے صَرف میں بہتات ہو، ان کی قدر گھٹ جاتی ہے اور جب یہی بہتات بہ وجہ استعمال گھٹنے لگے تو بتدریج قدرومنزلت بڑھنے لگتی ہے۔ صرف میں احتیاط، ایک نظام اور سلیقہ آجاتا ہے۔
محض قلّت یا کمی ہی نہیں بلکہ مدّت ] وقت[ یا زمانہ اور فاصلے بھی قدر کے معیار کو طے کرتے ہیں۔ شراب کہنہ کی بڑی قدر ہے محض اس لیے نہیں کہ وہ کمیاب ہے بلکہ اس لیے بھی کہ اس پر ایک مدّت اور وقت لگایا گیا ہے۔ چاولوں کے کچھ اقسام کی بھی یہی صورت ہے۔ یہی صورت حال فاصلے کی ہے۔ گنگا کے کنارے بسے لوگوں کے دلوں میں اس کی وہ قدرومنزلت نہیں ہوگی جو ہزاروں میل دور بسے لوگوں کے دلوں میں ہوگی۔ حرم شریف سے متصل رہنے والوں کے دلوں میں وہ عقیدت نہیں ہوگی جو اس سے ہزاروں میل دور دراز ملکوں میں بسے لوگوں کے دلوں میں ہوگی۔
انسانی شعور کی بالیدگی بھی قدر کی سطح کو طے کرتی ہے۔ نوجوانوں میں ہوسکتا ہے بہت سی اشیاء وخدمات کی فی الوقت کوئی قدر نہ ہو لیکن طویل عمر کا تجربہ رکھنے والے بزرگ، عمر کے نشیب وفراز کو جھیل کر دور بینی پیدا کرنے والے معمّر حضرات واقف ہوتے ہیں کہ آئندہ زمانہ میں ان کی کیا قدر ہوگی۔ انسان میں پس انداز کرنے کی دوراندیشی اسی پختہ شعور سے پرورش پاتی ہے اور بیشتر وہی حضرات زیادہ مطمئن نظر آتے ہیں جو حال کے ساتھ مستقبل پر بھی نظر رکھتے ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا جو مستقبل کی قدروقیمت کو حال میں آنکتے ہیں۔
قدر کی ان تمام کثیرالجہتی صفات کی تشریح کے بعد معاشیات میں بیان کردہ قانون قدر پر نظر کیجیے۔ معاشیات میں قدر اس پوشیدہ قوت کا نام ہے جو کسی ضرورت کی تسکین کا باعث بنے اور انسان اس قوت سے واقف بھی ہو۔ قیمت کی ادائیگی کا عمل اس کا مظہر ہے۔ معاشیات میں قدر کا قیمت سے اہم رشتہ ہے کیونکہ یہی قیمت یعنی قوّت خرید اس شے کے حصول کا ذریعہ بنتی ہے جس کے ذریعہ تسکین ملتی ہے۔ قیمت کی ادائیگی کی استعداد یا اہلیت جس کو ہم قوت خرید کہتے ہیں اور جس کو آمدنی کی سطح سے ناپا جاسکتا ہے مختلف ہوتی ہے۔ اس لیے اشیاء کے حصول کی مقدارومعیار بھی جداگانہ ہوتے ہیں۔ لیکن جدا ہونے کے باوجود مطمئن ہونے کی سطح مساوی رہتی ہے۔ اگر ایک صاحبِ حیثیت کو قیمتی کار سے جس تسکین کا احساس ہوتا ہے، وہی تسکین کا احساس ایک کم حیثیت والے کو موٹر سائیکل یا اس سے بھی کم حیثیت والے کو محض سائیکل سے ہوسکتا ہے۔ یہاں آمدنی کے فرق سے پیدا قوّت خرید کی خلیج تسکین کی سطح کو نہیں بدلتی۔ یہاں ایک بات کی اور وضاحت کرتا چلوں کہ کم آمدنی کی سطح والے جن کی قوت خرید دوسروں کے مقابلے پست ہے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ اس شأ کی قدر کو نہیں پہچانتے۔ یہ شخص اس شے کی قدروافادیت سے واقف ہے لیکن فی الوقت اس کی نگاہ میں اس شے کی قدر یوں نہیں ہے کہ وہ اس کے حصول کا اہل نہیں ہے۔
مائیکرواکنامکس کی کتابوں میں قانونِ قدر کی وضاحت کچھ اس طرح ملتی ہے۔ کہا گیا اگر دیگر باتیں یکساں رہیں تو صَرف کی پہلی اکائی ]یونٹ[ سے سب سے بلند قدر یا افادیت کا احساس ہوتا ہے اور جیسے جیسے صرف کی اکائیوں کو بڑھاتے جاتے ہیں تو ہر اگلی اکائی پر ملنے والی قدر گھٹتی جاتی ہے۔ صرف ایک سطح ایسی آئے گی جہاں قدر یا افادیت کا احساس صفر ہوجائے گا اور یہی سطح اطمینان کل Maximum/optimum satisfaction کی ہوگی اس سطح کے بعد اگر صرف کی مزید اکائیوں کو بڑھایا گیا تو قدر بجائے بڑھنے کے گھٹے گی، یعنی منفی ہوگی۔ جس کوDis-satisfaction or dis-utility عدم تسکین کا نام دیا گیا۔
اس قانون کی وضاحت چند روز مرّہ کے امور سے بخوبی کی جاسکتی ہے۔ شدید پیاس میں پانی کا پہلا گھونٹ اور بھوک میں روٹی کا پہلا نوالہ جس بلند قدروسکون کا احساس کرائے گا، اس کے بعد کے گھونٹ ونوالے اتنی بلند قدروسکون کا احساس نہیں کرائیں گے۔ بتدریج قدر گھٹتی جائے گی اور یہ اس لیے ہوگی کہ تسکین کا دائرہ ہر گھونٹ اور ہر نوالے کے ساتھ سمٹتا جائے گا۔ دائرے کا سمٹنا ہی تسکین کی سطح کے بلند ہونے کی دلیل ہے۔ ایک سطح پر تسکین مکمّل ہوجائے گی، یعنی پیاس بجھ جائے گی، بھوک مٹ جائے گی اور یہی کامل تسکین کی سطح ہوگی۔ اس کے آگے صَرف کی اکائیاں اپنی قدر نہ صرف کھودیں گی بلکہ عدم تسکین کا احساس پیدا کریں گی۔ یہاں مثال پانی اور غذا کی دی گئی ہے۔ اس قانون کا اطلاق ہر اشیائے صَرف پر ہوتا ہے۔ ملبوسات، کار، بائیک گھر کا ساز و سامان سبھی اس قانون کے تحت آتے ہیں۔
اس قانون کے نافظ ہونے کے کچھ مفروضات/ شرائط یا پابندیاں ہیں۔ پہلی شرط یہی ہے کہ معقول فکروذہن کا ہونا۔ کنجوس یا ہوس والے کبھی مطمئن نہیں ہوتے۔ ایک Rational human being پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ استعمال کے اوقات، کوالیٹی وماہئیت میں تبدیلی نہ ہو۔ اگر پیاس میں وقفہ دے کر پانی پیتے ہیں تو بہت ممکن ہے ہر وقفہ کے بعد پہلا گھونٹ مساوی تسکین دے۔ یا اگر پہلا گھونٹ سادہ پانی کا لیا اور دوسرا گھونٹ ٹھنڈے پانی کا تو دوسرا گھونٹ پہلے کے مقابلہ زیادہ تسکین کا احساس کرائے گا۔ یہی صورت بھوک میں کھانے کی ہے۔ اگر پہلا نوالہ باسی روٹی کا لیا اور دوسرا تازہ گرم روٹی کا تو دوسرا نوالہ پہلے کے مقابلہ زیادہ اچھا لگے گا۔ یہی صورت حال وقت کے بدلنے میں ہوتی ہے۔ بھوک کے وقت اگر کھانا نا ملا تو وقت ٹل جانے پر وہ تسکین نہیں ملے گی۔
احساس تسکین کا تعلق مقام اور ذہنی سطح سے بھی بہت گہرہ ہے۔ گرمیوں میں ٹھنڈے مقام پر تسکین کا احساس زیادہ ہوتا ہے۔ کسی ذہنی انتشار میں یہ قانون منطبق نہیں ہوتا۔ یہی حال آمدنی کے تغّیر میں ہے۔ اگر آمدنی میں اچانک اچھال آگیا تو تسکین کے پیمانے بدل جائیں گے۔ گندی بستیوں سے نکل کر صاف ستھرے ماحول میں آکر رہنے، گاؤں قصبوں سے نکل کر شہروں میں بسنے سے تسکین کے پیمانہ بدل جائیں گے ہمارے مطمئن ہونے کا معیار بدل جائے گا۔ اچانک خوشی یا صدمے کی صورت میں یہ قانون فعال نہیں ہوتا۔ گویا قانونِ قدر ایک نارمل صورت حال میں ہی فعال رہتا ہے۔ کوئی غیر معمولی کیفیت اس کے عمل میں مانع ہوسکتی ہے۔
اب اگر ان تمام بیانیہ تفصیلات کو سمیٹ کر ہندسوں اور شکلوں میں منتقل کردیا جائے تو قانون اپنی عملی شکل میں واضح ہوجائے گا۔ میں یہاں صرف پانی کی مثال لے رہا ہوں۔ آپ نے شدید پیاس میں پانی کا پہلا گھونٹ لیا تو اپنے احساس تسکین کو بلند مقام پر پایا۔ مان لیجیے یہ بلند سطح 80 پر ہے۔ اب دوسرا گھونٹ لیا تو یقیناً احساس تسکین بلند ہی رہا لیکن پہلے کے مقابلے تھوڑا کم ہوگا۔ مان لیجیے یہ سطح 70 کی ہے۔ یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ آپ گھونٹ گھونٹ پانی پیتے رہیں گے۔ ہر گھونٹ پر احساس تسکین پہلے کے مقابلہ گرتا جائے گا اور ایک مقام پر آکر صفر یعنی 0 ہوجائے گا۔ یہاں پیاس بجھ جائے گی اور آپ تسکین کامل حاصل کرلیں گے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہر اگلی اکائی پر احساس تسکین گرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیاسے کو اپنی پیاس کا پیمانہ معلوم ہے کہ اس کی پیاس کتنے گلاس پانی کی ہے۔ پہلے گھونٹ میں اس کا ایک حصہ بجھ گیا تو کل حجم کم ہوگیا۔ اس لیے جو اگلا گھونٹ ہوگا اس میں تسکین کچھ کم ہوگی۔ آپ گھونٹ گھونٹ پانی سے پیاس کے حجم کو کم کرتے جائیں گے اور جو آخری گھونٹ ہوگا اس میں گویا سب سے کم تسکین کا احساس ہوگا۔ آپ کی پیاس بجھ جائے گی اور آپ تسکین کامل کی سطح پر پہنچ جائیں گے۔ اب اس کے آگے پانی کے گھونٹ کی افادیت صفر ہوجائے گی۔ معاشیات میں اس قانون قدر کو کل، اوسط اور حاشیائی قدر میں تقسیم کرکے وضاحت ملتی ہے۔ ریاضی اور جیومیٹری کی مدد سے اس کو مزید واضح کیا گیا ہے۔ لیکن اس مختصر مضمون میں ان سب کی تشریح مشکل ہے۔
معاشیات کا نظریہ قدر آپ کے عملِ صَرف سے خاموشی کے ساتھ لپٹا ہوا ہے، آپ کے ذہن، طبیعت ومزاج اور سوچ وفکر کے ساتھ وابستہ ہے اور آپ جانے انجانے اس کی پیروی کرتے رہتے ہیں۔ صارفین کے اس طرزعمل Consumer behavior کو مائیکرواکنامکس کی بنیاد قرار دیا گیا ہے جس کے چند گوشوں کی یہاں وضاحت کی گئی ہے۔ دیگر گوشے جیسے صارفین کے خطِّ بے نیازی Indifference curve اور صارفین کے اضافہ Consumer's-surplus کو احاطہ تحریر میں نہیں لایا گیا ہے۔ صارفین کے طرزعمل کے بعد پیداوار، بازار، مسابقتی بازاریں اور آخر میں تقسیم کی منزل آتی ہے۔ احاطہ بہت وسیع ہے۔ اگر آپ کو ایسے ہی مشاہداتی انداز میں ان تمام گوشوں کی تفصیلات میں جانے میں دلچسپی ہو تو میری چند تصنیفات کا مطالع کرلیجیے جن کا حوالہ مضمون کے اخیر میں دیا جارہا ہے۔
اختتامیہ
میں نے کوشش کی ہے کہ سماجی علوم کی ایک اہم برانچ اکنامکس کے نظریات وقوانین کو درسی کتابوں سے نکال کر معاشرے کی طرزِ زندگی کے قریب لے آؤں، اس سے وابستہ کردوں۔ میں سمجھتا ہوں علم وآگاہی کا یہ پہلو بہت اہم ہے جو علم یا عمل کی طرف بڑھتا قدم ہے۔ شاید اسی احساس نےBehavioral economics کو نوبل پرائیز سے نوازہ ہے۔ سماجی علوم کی درس وتدریس میں یہ خلابہت روشن ہے جس کو پر ہونا چاہیے۔ معاشیات ایک ایسا موضوع ہے جس کے اصول ونظریات آپ کی عملی زندگی کے بہت قریب ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کو مشاہداتی انداز سے پیش کیا جائے تاکہ وہ نصابی کتابوں میں ہی محصور ہوکر نہ رہ جائیں بلکہ آپ کی زندگی کا آئینہ بن جائیں۔
ہماری کچھ کتب جن کے مطالعے کی سفارش کرتا ہوں:
(1) معاش اور معاشرت ]منتخب مضامین[ مکتبہ جامعہ نئی دہلی 2006
(2) معاشرتی معاشیات ]انتخاب مضامین[ مکتبہ جامعہ نئی دہلی 
(3) اقتصادیات برائے عوام ]مائیکرواکنامکس کے منتخب اصول[ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی 
(4) اقتصادیات برائے عوام ]میکرواکنامکس کے منتخب اصول[ زیر طبّع۔ قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان، نئی دہلی
n
Syed Athar Raza Bilgarami
B-40, Johri Farm, Noor Nagar Extn
New Delhi - 110025
Mob.: 9891425691
E-mail: atharb40@gmail.com






قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں