5/12/18

اُردو زبان و ادب کی تعلیم اور خواتین. مضمون نگار:۔عمرانہ خاتون





اُردو زبان و ادب کی تعلیم اور خواتین
عمرانہ خاتون
تمام اہل علم اس سچائی سے متفق ہیں کہ اُردو زبان و ادب کا فروغ اردو تعلیم کے بغیر ناممکن ہے۔ میری نگاہ میں اُردو ادب کی تخلیق کے عمل سے بھی زیادہ ضرور اردو تعلیم کا عمل ہے۔ اُردو زبان و ادب کی اشاعت و توسیع اور روشن مستقبل کے لیے اُردو تعلیم کو طریقۂ تعلیم کے جدید اصولوں کے مطابق انجام دینا ضروری ہے۔ یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ ملک میں ایسی نامور خواتین کی تعداد کم نہیں جنھوں نے اُردو تعلیم کے شعبہ سے وابستہ ہو کر فروغِ اُردو کا مقدس فرض انجام دیا ہے۔ عہدِ قدیم میں جس عورت کو علم و ادب کی روشنی سے محروم رکھا جاتا تھا وہی عورت آج نئی نسل کو علم و ادب کے زیور سے آراستہ کر رہی ہے۔ نسلِ نوکو شعور و آگہی کی نعمت عطا کرنا کسی عبادت سے کم نہیں۔ اُردو تعلیم کا منظر نامہ اُردو تعلیم و تدریس سے وابستہ خواتین کا ذکر کیے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ بلا شبہ ان خاتون اساتذہ میں بیشتر تخلیق کار بھی ہیں لیکن ان کی تعلیمی اور تدریسی خدمات نے ملک کی جامعات کے اُردو شعبہ جات کو وقار عطا کیا ہے۔ مختلف مواقع پر ناقدین کی جانب سے خواتین قلمکاروں کی ادبی خدمات کا ذکر تو اکثرکیا جاتا ہے لیکن اُردو تعلیم سے وابستہ خواتین کا خاطر خواہ ذکر شاذ و نادر ہی کیا جاتا ہے۔ اُردو تعلیم کے میدان میں قابلِ قدر خدمات انجام دینے والی خواتین کا مختصر سا جائزہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:
محترمہ قرۃ العین حیدر کو ناول نگار کے طور پر سب جانتے ہیں لیکن آپ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی میں ریزیڈینٹ پروفیسرکے طور پر قابلِ فخر خدمات انجام دیں۔ پروفیسر خواجہ احمد فاروقی کی صاحبزادی ڈاکٹر فرحت فاطمہ نے دہلی یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کے ابتدائی دنوں میں جو تعلیمی خدمات انجام دیں وہ ہر لحاظ سے قابلِ تعریف ہیں۔ ان کا بڑا کارنامہ انعام اللہ خاں یقین کے دیوان کی تدوین اور اصطلاحاتِ غالب کی فرہنگ کی ترتیب ہے۔ انھیں تعلیمی صلاحیتیں ورثہ میں ملی تھیں جس کا اظہار انھوں نے شعبۂ اُردو کی ملازمت کے دوران بھرپور کیا۔
اسی یونیورسٹی کی پروفیسر شمیم نکہت کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ پروفیسر شمیم نکہت خلوص کا پیکر اور اُردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے دل و جاں سے کوشاں رہیں۔ بطور کہانی کار بھی انھیں اردو ادب میں اہم مقام حاصل ہے۔ان کی تعلیمی، ادبی او رانسانی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
ڈاکٹر نکہت ریحانہ خاں کی تعلیمی خدمات بھی کافی اہم ہیں۔’ منظر پسِ منظر‘ جو شعبۂ اردو کے اساتذہ کے تذکرہ پر مشتمل ہے کے علاوہ راجندر سنگھ بیدی کے ڈراموں کا ’ تنقیدی مطالعہ‘،’ اردو افسانہ1980کے بعد ‘ اور قرۃ العین حیدر کے ابتدائی تین ناولوں کا توضیحی اشاریہ بھی ان کی اہم نگارشات ہیں۔
ڈاکٹر مسز افتخار بیگم صدیقی نے اُردو تعلیم کے میدان میں اپنی بے لوث خدمات کے سبب مقبولیت حاصل کی۔ دورِ حاضر میں یونیورسٹی میں تدریسی خدمات انجام دے رہی اساتذہ میں ڈاکٹر نجمہ رحمانی، ڈاکٹر ارجمند آرا اور ڈاکٹر شاذیہ عمیر قابل ذکر ہیں۔
ڈاکٹرنجمہ رحمانی نے ادبی سرگرمیوں کے ساتھ سماجی و ثقافتی سرگرمیوں میں اپنا نام پیدا کیا ہے۔ ان خاتون اساتذہ کے تنقیدی مضامین اکثر ادبی رسائل میں شائع ہو کر ان کی تنقیدی صلاحیتوں سے قارئین کو روشناس کراتے رہے ہیں۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کے شعبۂ اردو میں ڈاکٹر صادقہ ذکی نے اپنی شرافت، خلوص اور اپنے طلبا کی رہنمائی کے طفیل مخصوص مقام حاصل کیا۔ جامعہ کے شعبۂ اردو کے سابق طلبا و طالبات آج بھی اپنی ٹیچر کا ذکر بڑے فخر سے کرتے ہیں۔ اس شعبہ کی ایک دوسری پروفیسر صغریٰ مہدی اپنی مہمان نوازی ، اردو زبان و ادب کی ترقی اور متوازن نقطۂ نگاہ کے لیے معرو ف تھیں۔ شاندار طویل خدمات انجام دینے کے بعد17مارچ 2014کو وہ تعلیمی حلقوں کو ہمیشہ کے لیے سوگوار کر گئیں۔ ناول، افسانوں، بچوں کی کہانیوں کے علاوہ بطور مترجمہ اور محققہ بھی انھوں نے اپنی الگ شناخت قائم کی ۔ تدریسی صلاحیتوں کے علاوہ ان کی صاف گوئی اور انسانی اوصاف بھی قابل قدر تھے۔
ڈاکٹر شہناز انجم بھی اس شعبہ کی فعال ٹیچر کے طورپر یاد کی جاتی ہیں۔ طویل عرصہ شعبہ میں خدمات انجام دینے کے بعد2013 میں سبکدوش ہوئیں۔ ’ ادبی نثر کا ارتقاء شمالی ہندوستان میں‘،’خیال در خیال‘ ان کی اہم تصانیف ہیں۔مختلف موضوعات پر مضامین شائع کر کے بھی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا ثبوت دیا۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں صدر شعبۂ اردو کے طور پر ریٹائر ہوئیں پروفیسر ثریا حسین کافی مقبول ٹیچر رہی ہیں۔ آپ نصف درجن کتابوں کی خالق اپنے سفر نامہ پیرس و فارس اور جمالیات پر اپنے تنقیدی افکار کے لیے بھی جانی جاتی ہیں۔
دور حاضر کی فعال خاتون اساتذہ میں ڈاکٹر سیما صغیر نے کافی شہرت حاصل کی ہے۔ ان کی اہم نگارشات میں’ ہندی اردو افسانے کا تقابلی مطالعہ‘،’تانیثیت اور اردو ادب‘ شامل ہیں۔ بیگم سلطان جہاں پر ان کا مونوگراف ان کی خدا داد تخلیقی استطاعت کا ثبوت ہے۔
ڈاکٹر دردانہ قاسمی کی وسیع تدریسی اور تصنیفی خدمات سے اہل قلم واقف ہیں۔ علی گڑھ کے وومن کالج کے شعبۂ اردو کی ڈاکٹر نیلم فرزانہ نے اپنی تعلیمی خدمات کے طفیل یونیورسٹی میں منفرد مقام حاصل کیا ہے۔ اس کالج کے شعبۂ اردو میں آپ کی طویل ہمہ گیر مساعی جمیلہ قابل ستائش ہیں جو یقیناًفروغِ اردو کا باعث ہیں۔
عثمانیہ یونیورسٹی اور حیدر آباد یونیورسٹی کا ذکر آتے ہی دو سینئر خاتون اساتذہ کا نام سامنے آ جاتا ہے۔ ایک پروفیسر سیدہ جعفر اور دوسری پروفیسر ثمینہ شوکت۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دونوں خواتین کی گرانقدر خدمات کے بغیر دونوں یونیورسٹیز کے اُردو شعبوں کی تاریخ ناکمل رہتی ہے۔ طلبا کی ایک کثیر تعداد نے دونوں قابل اساتذہ کی زیر نگرانی اپنے تخلیقی مقالے پایۂ تکمیل تک پہنچائے۔ پروفیسر سیدہ جعفر کے مختلف تحقیقی اور تنقیدی مضامین مختلف رسائل اور جرائد میں شائع ہو کر دادِ تحسین پاتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر ثمینہ شوکت کی زیر نگرانی تسنیم فاطمہ نے’ اردو میں خواتین کے رسائل1947 تک ‘ اور نکہت آرا شاہین نے ’ عصمت چغتائی کے ناولوں میں عورت کے مسائل‘ کے موضوع پر پروفیسر سیدہ جعفر کی زیر نگرانی اپنے تحقیقی مقالے مکمل کیے۔ افسو س کہ دونوں خواتین ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہو چکی ہیں، لیکن اپنی علمی و ادبی خدمات کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
دیگر خواتین اساتذہ میں پروفیسر رفیعہ سلطانہ، پروفیسر فاطمہ پروین، ڈاکٹر فریدہ بیگم، ڈاکٹر فاطمہ آصف کی تدریسی صلاحیتیں بھی اردو طلبا کے لیے مفید ثابت ہوئیں۔ ڈاکٹر رضوانہ معین اور ڈاکٹر عرشیہ جبین کی صلاحیتوں کا اعتراف بھی علمی حلقوں کی طرف سے کیا گیا۔ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدر آباد کے قیام کے بعد ڈاکٹر مسرت جہاں، ڈاکٹر بی بی رضا خاتون اور ڈاکٹر نکہت جہاں نے بھی فاصلاتی تعلیم کے میدان میں کافی شہرت حاصل کی ہے۔ ممبئی یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں پروفیسر رفیعہ شبنم عابدی کی وقیع خدمات کا احاطہ کرنا آسان نہیں۔ انھوں نے شعبۂ اردو کو بامِ عروج تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ بارہ سال پہلے شعبہ سے سبکدوش ہونے کے بعد بھی علمی و ادبی سرگرمیوں کو جاری رکھا۔ ان کی اہم تخلیقات میں ’حافظ شیرازیؒ ‘،’ مُلاّ وجہی‘ اور ’معاصر اردو ناول‘ شامل ہیں۔ ’اگلے رُت کی آنے تک‘،’ موسم بھیگی آنکھوں کا‘ ان کے شعری افکار کی ترجمانی کرتے ہیں۔ انھیں مراٹھی سے اُردو میں ترجمہ کرنے پر بھی عبور حاصل ہے۔ ڈاکٹر معزہ قاضی نے بھی اپنی علمی و ادبی فعالیت اور تدریس میں سنجیدگی سے اپنی مخصوص پہچان بنائی ہے۔
خواتین کی مختلف تنظیموں سے ملک کے مؤقر رسائل میں ان کے مختلف موضوعات پر مشتمل مضامین کی اشاعت بھی اُردو دنیا کے لیے باعث مسرت ہے۔
بھوپال ہمیشہ سے ادبی ، تہذیبی اور علمی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے۔ جن خواتین اساتذہ نے اُردو کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے ان میں پروفیسر وسیم بانو قدوائی ، پروفیسر شفیقہ فرحت، پروفیسر فرحت جہاں، پروفیسر بلقیس جہاں، پروفیسر انیس سلطانہ، ڈاکٹر ارجمند بانو افشاں، ڈاکٹر عتیق النساء اور ڈاکٹر فرزانہ رضوی کے نام کافی معتبر ہیں۔ ان خواتین اساتذہ کی نگارشات میں مزاح نگاری، شاعری، مضمون نگاری اور ناول نگاری شامل ہے۔ پروفیسر کوثر جہاں تقریباً تیس سال تک تدریسی خدمات انجام دے کر ریٹائرڈ زندگی گزار رہی ہیں۔ انھوں نے بطور افسانہ نگار بھی اپنا اہم مقام بنایا ہے۔ اے۔ جے۔ ایف۔ روہیل کھنڈ یونیورسٹی کی فعال خاتون ٹیچر ڈاکٹر فہمیدہ کبیر نے تدریس کے ساتھ ڈاکٹریٹ کی نگراں کے طور پو جو وقیع خدمات انجام دی ہیں اس سے طلبا اور طالبات کی کثیر تعداد نے استفادہ کیا۔
آر۔ بی۔ ڈی۔ کالج بجنور کی سابق صدر شعبۂ اردو محرمہ شاہین جیلانی مرحومہ نے کالج کے شعبۂ اردو کی ترقی میں جو رول ادا کیا اور جس طرح بجنور کی اردو طالبات کی تربیت کی وہ انتہائی حوصلہ افزا ہے۔ انھوں نے کالج میں کئی کل ہند سطح کے سیمینار بھی منعقد کیے جن کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے۔ اسی شعبہ کی ڈاکٹر فرزانہ خلیل نے بھی ایک فعال ٹیچر کے طور پر اپنا نام پیدا کیا۔ وہ یو جی سی کے نیٹ کے امتحان میں کامیابی حاصل کرنے والی شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کی پہلی طالبہ تھیں۔ ڈاکٹر ثمینہ بی بھی شعبۂ اردو کو کامیاب بنانے میں کوشاں ہیں۔
کشمیر یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کی خواتین اساتذہ میں پروفیسر محبوبہ وانی، پروفیسر سجان کور اور ڈاکٹر عارفہ بشریٰ قابل ذکر ہیں۔ پروفیسر عارفہ بشریٰ ان دنوں صدر شعبۂ اردو کی ذمہ داری خوش اسلوبی سے نبھا رہی ہیں۔ کشمیر کے شعبہ اردو کے ارتقاء میں ان خواتین اساتذہ کی کوششیں قابل تعریف ہیں۔
پنجاب یونیورسٹی چنڈی گڑھ کی پروفیسر ریحانہ پروین نے جس خلوص، محنت اور دلچسپی سے طلبا کو اُردو سے آشنا کیا چنڈی گڑھ اُردو حلقوں میں اس کا اکثر ذکر کیا جاتا ہے۔1982 سے یونیورسٹی میں تدریسی خدمات انجام دے رہی ہیں۔’ گلشن مضامین‘، اور ’ ڈاکٹر شفیق الرحمن کا ایک مطالعہ‘ ان کی اہم تصانیف ہیں۔
پنجابی یونیورسٹی کی جانب سے مالیر کوٹلہ میں قائم کیے گئے ادارہ نواب شیر محمد خاں انسٹی ٹیوٹ برائے فارسی ، اردو و عربی کی صدر پروفیسر ڈاکٹر روبینہ شبنم اس علاقہ کی ایک فعال خاتون ٹیچر ہیں۔ تدریسی خدمات کے علاوہ اردو او رپنجابی کی شاعرہ کے طور پر بھی مقبول ہیں۔ طلبا کی کثیر تعداد نے ان کے زیر نگرانی تحقیقی مقالے مکمل کیے ہیں۔ ان کی اہم تصانیف اردو ادب کا گرانقدر سرمایہ ہیں۔ حکومت پنجاب نے انھیں اسٹیٹ ایوارڈ اور شرو منی ساہت کار ایوارڈ عطا کر کے ان کی خدمات کا اعتراف کیا۔
کیرالا کی شری شنکر ا چاریہ سنسکرت یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں ڈاکٹر صفیہ بی نے واحد خاتون معلمہ کے طور پر مجموعی ذمہ داریوں کو جس منصفانہ ڈھنگ سے ادا کیا وہ روشن مثال ہے۔ تحقیقی مقالوں کی نگراں کار کے طور پر بھی ان کی سرپرستی علم پرور رہی ہے۔
چودھری چرن سنگھ میرٹھ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں ڈاکٹر شاداب علیم بھی سنجیدگی، انہماک اور خلوص کے ساتھ اپنی تعلیمی ذمہ داریوں کو ادا کر رہی ہیں۔ جدید اردو شاعری کے تعلق سے ڈاکٹر اسماعیل میرٹھی کی ضخیم کتاب نے کافی مقبولیت حاصل کی ہے۔ محترمہ ڈاکٹر الکا وششٹ بھی اسی یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے وابستہ ہیں۔ ان خاتون اساتذہ کے وجود سے یقیناًشعبۂ اردو کی ہمہ جہت سرگرمیوں کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔ 
مہاراشٹر کے اورنگ آباد میں ڈاکٹر اختر سلطانہ، ڈاکٹر حسینی کوثر سلطانہ اور ڈاکٹر سیدہ اشرف النساء نے بھی اپنے اپنے طور پر مختلف ادبی اور ثقافتی مشاغل اور تدریسی عطا کے سبب اہم مقام بنا لیا ہے۔ مالیگاؤں کالج کی ڈاکٹر فہمیدہ ہارون انصاری کی تدریسی خدمات کے ساتھ سماجی میدا ن میں دین بھی قابل قدر ہے۔ شری شیوا جی کالج پر بھنی کی ڈاکٹر ممتاز جہاں سے بھی اردو دنیا کو کافی امیدیں وابستہ ہیں۔
اردو زبان وادب کی تعلیم سے وابستہ تمام خواتین کا احاطہ کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ راقمہ نے اردو ادب کی تدریس سے وابستہ خواتین کا اجمالی جائزہ لینے کی حقیر سی کوشش کی ہے۔ ان خواتین کے علاوہ ہزاروں خواتین اسکول، کالجوں میں تدریسی خدمات انجام دے کر خواتین کے نام کو بلندکر رہی ہیں۔ انھیں خراج تحسین پیش کرنا ہم سب کا اخلاقی فرض ہے۔
Imrana Khatoon
Research Scholar
8/51, Kashana, GTB Colony
Malerkotla-148023 (Punjab)



قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں