23/7/25

ارنیسٹ ہیمنگوے، مصنف: سلامت اللہ خاں

 اردو دنیا، مارچ 2025


ارنیسٹ ملرہیمنگوے (Ernest Miller Heming Way)، 21 جولائی 1899 کو شکاگو کے نواحی قصبہ اوک پارک (Oak Park) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ڈاکٹر کلیرنس ایڈمنڈس ہیمنگوے (Clarence Edmonds Hemingway) معالج تھے جنھوں نے شکاگو کے میڈیکل کالج سے ایم، ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی اور اوک پارک میں پریکٹس کرتے تھے۔ ان کو سکے اور ٹکٹ جمع کرنے کا شوق تھا لیکن ان کو خصوصی دلچسپی ہر طرح کے شکار اور کھانا پکانے سے تھی۔ ارنیسٹ کی والدہ گریس ہیمنگوے (Grace Hemingway) نے اوک پارک ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کی تھی۔ ان کی مدھم سر (Contralto) آواز بہت اچھی تھی، اس لیے ان کے اساتذہ نے ان کی ہمت افزائی کی تھی کہ وہ موسیقی کو اپنا کیریئر (Career) بنائیں اور اوپیرا (Opera) میں حصہ لیں۔ بچپن میں ان کو قرمزی بخار (Scarlet Fever) ہوا تھا جس کی وجہ سے ان کی آنکھیں کمزور ہوگئی تھیں اور تیز روشنی میں ان کے سر میں درد ہوجاتا تھا۔ اسٹیج کی فٹ لائٹ کو بھی وہ برداشت نہیں کرپاتی تھیں۔ وہ اچھے ڈیل ڈول کی خاتون تھیں۔ ان کے نقش و نگار نمایاں اور آنکھیں نیلی تھیں۔ موسیقی سے گہرے شغف کے علاوہ ان کو مذہب سے گہرا لگاؤ تھا اور وہ مقامی گرجا گھر کی سرگرم رکن تھیں اور اس کے فلاحی کاموں میں پرجوش حصہ لیتی تھیں۔ ڈاکٹر ہیمنگوے سے ان کی شادی اکتوبر 1896 میں ہوئی اور شادی کے بعد ڈاکٹر ہیمنگوے اپنی سسرال منتقل ہوگئے جو ان کے والدین کے گھر کے سامنے سڑک کے پار تھی۔ ارنیسٹ ہیمنگوے کی ولادت نانیہال میں ہوئی۔

پیدائش کے وقت وہ تندرست تھے۔ ان کا وزن ساڑھے نو پونڈ اور قد تیئس انچ تھا۔ بچپن میں وہ نہایت لطف اندوزی سے کھاتے، سوتے اور کھیلتے تھے۔ وہ بہت خوش مزاج تھے۔ وہ ناچتے، کودتے اور لکڑی کے گھوڑے پر سوار ہوکر دوڑتے اور شیر کی آواز میں گرجتے تھے۔ رات میں سونے سے پہلے وہ اپنی والدہ کے ساتھ دو زانو ہوکر دعا میں شریک ہوتے تھے، لیکن ایک دو دعائیہ جملوں کے بعد ہی ’آمین‘ کہہ کر بستر پر چڑھ جاتے تھے۔ دو سال سے کچھ کم عمر میں ہی وہ ’ہگ۔ہگ‘ کرتے بھیڑوں کو ہانکتے دیکھے گئے۔ تین سال کی عمر میں یہ پوچھے جانے پر کہ وہ کس چیز سے ڈرتے ہیں، وہ بڑے جوش اور یقین سے چلاتے (Fraid Nothing) یعنی کسی چیز سے نہیں ڈرتا۔ ان کو سلائی سے بھی دلچسپی تھی اور سلائی کے کمرے میں ان کی والدہ نے ایک پرانی پتلون رکھ چھوڑی تھی جس پر وہ اپنی سلائی کی مشق ستم فرماتے تھے۔ تیسری سالگرہ پر وہ اپنے والد کے ساتھ مچھلی کے شکار پر پہلی مرتبہ گئے۔ ساڑھے پانچ سال کی عمر میں وہ بغیر کسی مدد کے اپنا لباس تبدیل کرلیتے تھے۔ لکڑی کے گٹوں سے وہ قلعے اور توپیں بنایا کرتے تھے۔ سرکس دیکھ کر آتے تو ہاتھی کی چال کی نقل اتارتے تھے اور بڑے انہماک سے قلابازیاں کھاتے تھے۔ وہ ہر طرح کی کہانی بڑے شوق سے سنتے تھے۔ چڑیوں کی ایک باتصویر کتاب ان کی پسندیدہ تھی جس میں دیکھ کر وہ چڑیوں کو پہچان لیتے تھے۔ وہ ایک نیچر اسٹڈی (Nature Study) گروپ کے بھی ممبر تھے اور اپنے سے بڑی عمر کے لڑکوں کے ساتھ، اپنے والد کے ہمراہ جنگلوں میں جاتے تھے اور جھاڑیوں میں چڑیوں کو پہچاننے اور ان کا نام یاد رکھنے کی سعی کرتے تھے۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ان کے بچپن کی بیشتر خصوصیات غیرمعمولی حد تک بڑی عمر میں بھی قائم رہیں۔ ان کا یہ قول کہ ان کو کسی چیز کا ڈر نہیں ان کے ضابطۂ عمل کے لیے مشعل راہ رہا اور زندگی کی ہر مصیبت اور افتاد میں وہ اس پرکاربند رہے۔ وہ تمام عمر جرأت، حوصلہ مندی اور قوت برداشت کے حامی رہے جس کی تعلیم بچپن ہی سے ان کے ذہن پر نقش ہوگئی تھی۔ اس طرح فطرت کے خارجی مناظر سے محبت اور سیر و شکر کا شوق ان کو بچپن ہی سے تھا۔ کھلے آسمان کے نیچے جنگلوں کی وسعت میں، جھیل اور سمندر کی سطح پر، آزادی کا احساس اور اس سے حاصل کردہ مسرت تمام زندگی وہ محسوس کرتے رہے۔ اپنے والد کی طرح وہ کھانے کے شوقین تھے اور بچپن ہی سے مچھلی، جس کو وہ فش کے بجائے ہش (Hish) کہتے تھے، اور شکار کا گوشت انھیں بہت پسند تھا۔ کچے جنگلی پیاز کے سینڈوچ جو ان کے والد نے بنانا سیکھا تھا وہ ہمیشہ ان کو مرغوب رہے۔ جسمانی محنت کے کام وہ نوجوانی کے بعد بالعموم نہیں کرتے تھے، لیکن ان کو ایسے کھیلوں سے دلچسپی تھی جس میں جسمانی مشقت لازمی تھی۔ ان کو تیراکی چہل قدمی، ہائیکنگ (Hiking) سے عمر بھر محبت رہی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس سے ذہن صاف اور جسم صحت مند رہتا ہے۔ وہ ہر کام خوش اسلوبی سے کرنے کے قائل تھے اور ان سب کی تعلیم ان کے والد نے ان کو بچپن میں دی تھی۔ موسیقی کے معاملے میں وہ بچپن ہی سے کمزور تھے اور اپنے والد کی طرح ہمیشہ بے سرے رہے حالانکہ ان کی والدہ نے ہر ممکن کوشش کی کہ وہ اس فن میں مہارت حاصل کریں، لیکن مصوری، خصوصاً روغنی تصویر (Oil Painting) کی قدرشناسی میں وہ کافی درک رکھتے تھے۔ اسی طرح تخلیقی عمل کا ذوق ان کو اپنی والدہ سے وراثت میں ملا تھا۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس کا رجحان افسانوی ادب کی طرف تھا جو ان کی والدہ کے لیے ہمیشہ حیران کن رہا۔

گرامر اسکول میں اپنی تعلیم کی ابتدائی منزلیں طے کرنے کے بعد ہیمنگوے ستمبر 1913 میں اوک پارک کے ہائی اسکول میں داخل ہوئے۔ ان کے مضامین الجبرا، لاطینی، انگریزی اور جنرل سائنس تھے۔ وہ انگریزی کے علاوہ بقیہ سبھی مضامین سے خائف تھے۔ لاطینی زبان انھیں اتنی مشکل معلوم ہوئی کہ ان کی والدہ کو ایک نجی اتالیق مقرر کرنا پڑا تاکہ ابتدا صحیح ہو۔ ہیمنگوے کی دلچسپیاں متنوع تھیں۔ وہ فٹ بال ٹیم میں شامل ہونا چاہتے تھے۔ اسکول آرکیسٹرا کی رکنیت کے لیے چیلو (Cello) پر مستعدی سے مشق کرتے تھے۔ رقص کے ایک اسکول میں اپنی بڑی بہن مارسیلین (Marcvelline) کے ساتھ رقص سیکھنے بھی جایا کرے تھے۔ ایک ہائیکنگ کلب (Hiking Club) کے بھی ممبر تھے اور اکثر سنیچر کو پچیس یا تیس میل کے گل گشت پر جایا کرتے تھے۔ ان کی خصوصی دلچسپی مچھلی کے شکار سے تھی جس کے لیے وہ جھیل مشی گن (Lake Michigan) اپنے ساتھیوں کے ساتھ تعطیلات میں جاتے تھے۔ اس جھیل سے ملی ہوئی ان کے والد کی جائیداد تھی اور اس پر ایک کاٹج بھی تھی جس کا نام ونڈی میر (Windemere) تھا، لیکن ارنیسٹ جھیل کے کنارے خیمہ لگا کر رہتے تھے۔ 1916 میں انھوں نے مکے بازی سیکھی۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے یہ فن شکاگو کے پیشہ ور مکے بازوں سے سیکھا اور یہ کہ ان کی بائیں آنکھ مکے بازی میں لگی چوٹ سے کمزور ہوگئی تھی۔ یہ دونوں من گھڑت کہانیاں تھیں۔ ان کی بائیں آنکھ پیدائشی کمزور تھی اور یہ کمزوری دوسرے بہن بھائیوں میں بھی تھی۔پیشہ ور مکے بازوں سے سیکھنے کا ثبوت نہ دورانِ تعلیم میں کہیں ملتا ہے اور نہ کبھی بعد میں۔ اپنے مضبوط اور جری ہونے کے دعوے میں ہیمنگوے اکثر بے پر کی اڑاتے تھے اور ان جھوٹی کہانیوں کو اتنے اعتماد سے بیان کرتے تھے کہ سننے والے کو یقین آجاتا تھا۔

یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ہیمنگوے کی صحافتی نوآموزی اور افسانہ نویسی کی ابتدا ان کی طالب علمی کے زمانے میں ہوئی۔ وہ اپنے اسکول سے شائع ہونے والے ہفتہ وار اخبار ٹریپیز (The Trapeze) کے نامہ نگار تھے جس کے لیے آخری سال میں وہ ہر ہفتہ واقعہ نویسی کرتے تھے۔ رسالہ ٹیبولا (Tabula) میں ان کی تین ابتدائی کہانیاں شائع ہوئی تھیں۔ پہلی کہانی ’رنگ کا معاملہ‘ (A Matter of Colour) مزاحیہ کہانی تھی۔ بوڑھے مکے باز باب نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ ایک ہونہار نوعمر مکے باز ڈان کا مقابلہ ایک نیگرو جوسے ہوا۔ ڈان کو فتح یاب کرنے کے لیے ایک مضبوط سویڈ(Swede) کو پردے کے پیچھے ایک کنارے خفیہ طور پر کھڑا کیا گیا تاکہ وہ جو کو موقع پاکر بیس بال کے بلے سے مار کر گرا دے۔ مگر سویڈ نے غلطی سے ڈان کو مارگرایا۔ جب انتہائی خفگی سے باب نے اس کی وجہ پوچھی تو سویڈ نے بتایا کہ وہ رنگ اندھا (Colour Blind) ہے۔ دوسری کہانی ایک امریکی انڈین کی ہے جس کو شبہ ہے کہ اس کے ساتھی نے اس کا بٹوہ چرایا ہے۔ وہ اسے ایک جال میں پھنسا دیتا ہے۔ بعد میں یہ معلوم ہونے پر کہ اس کے بٹوے کی چور ایک گلہری ہے، وہ اپنے ساتھی کو بچانے کے لیے دوڑتا ہے لیکن جنگلی بھیڑئیے اس کا کام تمام کرچکے ہوتے ہیں۔ وہ احساس جرم سے خود کو ریچھ پھنسانے والے جال میں پھنسا دیتا ہے۔ کہانی کے اختتام پرقبل اس کے کہ بھیڑئیے اس پر حملہ کریں، وہ خودکشی کے ارادے سے اپنی رائفل اٹھاتا  نظر آتا ہے۔ تیسری کہانی ایک کتے کی ہے جو اپنے مالک کی ایک قاتل سے انتقال میں مدد کرتا ہے۔ ان تینوں کہانیوں میں کسی نہ کسی شکل میں تشدد کا بیان ہے۔ ان سب میں باضابطہ پلاٹ ہے اور ان کے بیان میں اپج اور جدت پسندی نمایاں ہے۔ ان کہانیوں اور اخبار کی واقعہ نویسی سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہیمنگوے کا شروع ہی سے رجحان صحافت اور افسانہ نگاری کی طرف تھا۔

II

1917 میں ہائی اسکول کا امتحان پاس کرنے کے لیے تین راستے اختیار کرنے کے لیے کھلے تھے۔ وہ کالج میں داخلہ لے کر اپنی تعلیم جاری رکھ سکتے تھے، جیسا کہ ان کے والد چاہتے تھے۔ وہ عالمی جنگ میں شریک ہوسکتے تھے حالانکہ ان کے والد ان کی نوعمری کی وجہ سے اس کے شدید مخالف تھے۔ یا پھر وہ اپنا پسندیدہ ذریعہ معاش اختیار کرسکتے تھے۔ امتحان کے بعد ہی جون 1917 میں انھوں نے اپنے چچا کے ذریعہ کینسس (Kansas) شہر کے اخبار اسٹار (Star) میں نامہ نگار کی جگہ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ستمبر تک وہاں کوئی جگہ خالی ہونے والی نہیں تھی۔ موسم گرما کی تعطیلات میں اپنے والد کے فارم پر کام کرنے کے بعد ہیمنگوے نے بالآخر یہی طے کیا کہ وہ اخبار اسٹار میں کام کریں۔ اوک پارک کی محدود قصباتی زندگی میں وہ پلے بڑھے تھے اور وہاں سے نکل کر وہ اپنے تجربات کو وسعت دینا چاہتے تھے۔ دوسرے یہ خیال بھی تھا کہ اس طرح وہ خاندانی رشتوں اور اس کے دباؤ سے آزاد ہوجائیں گے۔ اس کے علاوہ اب تک انھوں نے صحافت اور افسانہ نگاری کے بنیادی اور ابتدائی اصول عملاً سیکھے تھے اور انھیں بہت کچھ سیکھنا تھا۔ ان مقاصد کے پیش نظر وہ کینس شہر روانہ ہوگئے اور ان کے غمزدہ والد نے ان کو رخصت کیا۔ وہاں پہنچ کر انھیں نامہ نگار کی جگہ پندرہ ڈالر فی ہفتہ تنخواہ پر مل گئی۔ شروع میں ان کو جرائم اور حادثات پر رپورٹ پیش کرنے کا موقع ملا اور وہ برابر پولیس کوتوالی، ریلوے اسٹیشن اور جنرل اسپتال کے چکر لگاتے رہتے تھے۔ اس سے زندگی کے تشدد آمیز اور ناخوشگوار پہلو سے ان کی واقفیت ہوئی اور کچھ مشتبہ اور بدنام لوگوں سے بھی ملاقات ہوئی جو ناجائز کاروبار کرتے تھے۔

ہیمنگوے تجربہ کار اور پرانے صحافیوں سے برابر دریافت کرتے رہتے تھے کہ وہ کس طرح واقعات معلوم کرتے ہیں اور اسے کس طرح اخبار کے لیے لکھتے ہیں۔ اخبار اسٹار کا طرزِ تحریر کے بارے میں اپنا ہدایت نامہ (Style-Book) بھی تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح توضیحی جملہ لکھنا چاہیے، کس طرح فرسودہ صفت اور توصیفی فقروں سے پرہیز کرنا چاہیے اور کس طرح بیان کو دلچسپ بنانا چاہیے۔ یہ بھی بتایا گیا تھا کہ کامیاب نامہ نگاری کے لیے یہ ضروری تھا کہ چھوٹے جملے اور مختصر پیراگراف لکھے جائیں۔ توانا اور کارگر زبان استعمال کی جائے۔ الفاظ کی نشست پر نظر رکھی جائے تاکہ بیان کی ہمواری اور اس کا تسلسل مجروح نہ ہو۔ بیان منفی کی بجائے اثباتی ہونا چاہیے تاکہ واقعات کا بیان قطعی اور مطلق ہو۔ اس کے علاوہ اسٹار کے دفتر میں ایک ادبی شعبہ بھی تھا جہاں نئی اور پرانی کتابوں کے اقتباسات اور امریکی و غیر ملکی اخبارات و رسائل سے ایسے ٹکڑے منتخب کیے جاتے تھے جو پڑھنے والوں کی دلچسپی کے لیے استعمال کیے جاسکیں۔ اس طرح اسٹار کی نامہ نگاری کے دور میں ہیمنگوے نے فن صحافت کی تعلیم حاصل کی اور ایسی نثر لکھنا سیکھا جو صاف ستھری،صریح اور ابہام سے پاک ہو اور جس میں کم سے کم الفاظ میں مفہوم کی مکمل ادائیگی کی گئی ہو۔ یہ فنی انضباط اور مشق ان کی آئندہ ادبی زندگی کے لیے بہت مفید اور کارگر ثابت ہوئی۔ اس زمانے کے تجربات کی بنیاد پر انھوں نے آئندہ چل کر تین خاکے لکھے جس میں قابل ذکر خاکہ ’حضرات، خدا تمھیں خوش رکھے‘ (God Rest You Merry, Gentlemen) تھا۔

اسٹار کی نامہ نگاری کے زمانے میں وہ جنگ کے بارے میں باتیں کرتے رہتے تھے اور یہ پوچھتے رہتے تھے کہ وہ کس طرح اس میں شریک ہوسکتے ہیں۔ انھوں نے اپنی بہن کو ایک خط میں لکھا ’’میں اتنے بڑے تماشے کو بغیر اپنی شرکت کے نہیں گزرنے دوں گا۔‘‘  بالآخر وہ ریڈ کراس (Red Cross) میں بہ حیثیت ایمبولنس ڈرائیور بھرتی ہوگئے اور تین ہفتے کی ٹریننگ کے بعد 23 مئی 1918 کو شکاگو نامی فرانسیسی جہاز سے بوغدو (Bordeaux) کے لیے روانہ ہوگئے اور وہاں پہنچ کر رات کی گاڑی سے پیرس کے لیے چل پڑے۔ دو دن کے انتظار کے بعد وہ میلان (Milan) پہنچے اور تمام راستے گاڑی کے کھلے دروازے سے باہر پیر لٹکائے گاتے اور ہنستے رہے، جیسے وہ اور ان کے ساتھی سیر و تفریح کے لیے نکلے ہوں۔ میلان کے قریب ایک گولہ بارود کی فیکٹری آتشی دھماکے سے اڑ گئی تھی۔ ہیمنگوے اور ان کے ساتھیوں کا یہ کام تھا کہ پہلے وہ اس آگ کو بجھائیں جو قریب کی لمبی گھاس میں پھیل گئی تھی اور اس کے بعد مرے ہوئے لوگوں کی لاشیں اکٹھا کریں۔ ان مرنے والوں میں سب عورتیں تھیں۔ ہیمنگوے نے اب تک صرف چڑیوں اور چھوٹے جانوروں کا شکار کیا تھا اور انھیں مرا ہوا دیکھا تھا۔ جنگ کا یہ پہلا دہشت انگیز نظارہ تھا جہاں انھوں نے اتنی بہت سی عورتوں کو مردہ دیکھا۔

بہ حیثیت ایمبولینس ڈرائیور ان کا کام زخمی سپاہیوں کو محاذِ جنگ سے پیچھے میدانی اسپتالوں میں لانا تھا۔ ہیمنگوے بہت جلد اس کام سے اکتا گئے جیسا کہ انھوں نے ایک ساتھی کو بتایا کہ ایمبولینس سیکشن سے نکل کر ’وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ اس جگہ کو ڈھونڈھ سکتے ہیں یا نہیں جہاں جنگ ہے‘ ان کی یہ آرزو جلد ہی پوری ہوگئی اور وہ ایک گاؤں فوسالٹا (Fossalta) کے پاس ریڈ کراس کی قائم کردہ کینٹٹین (Canteen) پر منتقل ہوگئے۔ یہاں ان کی ملاقات ایک نوعمر پادری سے ہوئی جو فلورنس کے رہنے والے تھے اور جن سے بعد میں ان کی دوستی ہوگئی۔ ان کا کام محاذ جنگ کی خندقوں میں تعینات سپاہیوں کو سگرٹ، چاکلیٹ اور پوسٹ کارڈ وغیرہ بانٹنا تھا اور اس کام میں وہ برابر دشمن کی گولیوں اور بموں کی زد میں رہتے تھے۔ 8 جولائی 1918 کو آدھی رات کے قریب جب وہ خندق میں سپاہیوں کو  سگرٹ وغیرہ بانٹ رہے تھے۔ ہیمنگوے مارٹر (Mortar) کے ایک بم پھٹنے سے  بری طرح زخمی ہوئے۔ قریب ہی ایک زخمی سپاہی پڑا کراہ رہا تھا۔ اپنے زخموں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے انھوں نے زخمی سپاہی کو اپنے کندھوں پر اٹھایا اور چل پڑے۔ وہ پچاس گز گئے ہوں گے کہ ان کے داہنے گھٹنے کی چپنی میں مشین گن کی گولی لگی اور وہ لڑکھڑا کر گر پڑے۔ وہ پھر اٹھے اور سو گز مزید چل کر کمانڈ پوسٹ (Command Post) پر زخمی سپاہی کو اتارا جو مرچکا تھا اور خود بیہوش ہوگئے۔

وہ بہ دقتِ تمام ایک میدانی اسپتال میں پہنچائے گئے۔ جہاں ان کے پیر سے اٹھائیس لوہے کے ٹکڑے نکالے گئے۔ پانچ دن کے بعد وہ ملانو (Milano) کے اسپتال میں منتقل ہوگئے۔ یہاں ان کے دو بڑے آپریشن ہوئے جس میں ان کے پیر کے تلوے اور گھٹنے کی چپنی سے مشین گن کی گولیاں نکالی گئیں۔ ملانو کے اسپتال ہی میں ان کو اطلاع ملی کہ شجاعت کے لیے سب سے بڑے اطالوی انعام چاندی کے تمغے کے لیے ان کے نام کی سفارش کی گئی جو انھیں جلد ملے گا۔ اسی اسپتال کی ایک امریکی نرس ایگنس حناوان کو رو وسکی (Agnes Hannah Von Kusowsky) سے ہیمنگوے کو شدید محبت ہوگئی لیکن یہ محبت اس تیزی سے پروان نہ چڑھ سکی جتنی کہ وہ چاہتے تھے۔ کچھ تو اسپتال کی عائد کردہ پابندیاں تھیں جو راہ میں حائل تھیں۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ایگنس نے رضا کارانہ اپنی خدمات فلورنس کے ایک اسپتال کو پیش کردی تھیں اور جلد ہی وہ وہاں چلی گئیں۔ ہیمنگوے دوبارہ محاذ جنگ پر گئے لیکن ایک ہفتے کے اندر یرقان میں مبتلا ہوکر ملان اسپتال لوٹ آئے۔ 3؍ نومبر 1918 کو اٹلی اور آسٹریا کے درمیان صلح ہوگئی۔ ہیمنگوے کو معلوم تھا کہ اٹلی میں اب وہ صرف کچھ دن قیام اور کرسکتے ہیں۔ ایگنس نے ہیمنگوے کو برابر ہی صلاح دی کہ وہ امریکہ واپس چلے جائیں۔ اور دبے چھپے الفاظ میں یہ بھی اشارہ کیا  کہ ایک یا دو سال میں ممکن ہے کہ ان کی شادی ہوجائے حالانکہ وہ عمر میں ہیمنگوے سے سات سال بڑی تھیں۔

21 جنوری 1919 کو جب ہیمنگوے واپس وطن لوٹے اور نیویارک میں سمندری جہاز سے اترے تو انھوں نے محسوس کیا کہ وہ ایک نامور شخصیت ہوگئے ہیں۔ وہ پہلے امریکی تھے جو اٹلی میں زخمی ہوئے تھے اس لیے ان کے بارے میں امریکی اخباروں میں بڑھ چڑھ کر نشر و اشاعت ہوئی تھی۔ ملک میں ایک نیوز ریل (Newsreel) بھی دکھائی گئی تھی جس میں وہ ملانو کے اسپتال میں پیر پر پلاسٹر چڑھوائے ہوئے ایک پہئے دار کرسی پر بیٹھے ہیں۔ اوک پارک پہنچنے پر ان کا ہیرو جیسا خیرمقدم کیا گیا۔ ان کے اعزاز میں جلسے کیے گئے جس میں انھیں اپنے جنگ کے تجربات بیان کرنے کی دعوت دی گئی۔ لیکن مارچ 1919 میں انھیں ایک شدید جذباتی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ ایگنس سے ان کی خط و کتابت جاری تھی اور مارچ میں انھوں نے بڑی نرمی سے لکھا کہ ان کو ایک اطالوی افسر سے محبت ہوگئی ہے اور وہ جلد ہی شادی کرنے والی ہیں۔ انھوں نے یہ بھی لکھا کہ شاید ہیمنگوے اس وقت اسے نہ سمجھ سکیں لیکن آئندہ کسی دن شاید وہ انھیں معاف کردیں اور ان کے شکرگزار ہوں۔ اس صدمے سے ہیمنگوے بیمار ہوگئے۔ جب وہ بیماری سے اٹھے تو ان کا یہ کہنا تھا کہ انھوں نے ایگنس کو شراب اور دوسری عورتوں کی مدد سے بھلا دیا ہے لیکن یہ صرف کہنے کی بات تھی اور جھوٹا افسانہ تھا۔ سچائی صرف اتنی تھی کہ بے وفائی کے صدمے سے ان کی محبت کا نشہ ہمیشہ کے لیے اتر گیا تھا کیونکہ جون میں جب ایگنس نے اپنی محبت اور مجوزہ شادی کی ناکامی کی تفصیل خط میں لکھی تو ہیمنگوے نے صرف ہمدردی کا اظہا رکیا اور ان کے مشاغل میں کوئی فرق نہیں آیا۔

وہ افسانہ نگاری کی طرف پھر رجوع ہوئے اور سیر و شکار کے ساتھ لکھنے کی برابر کوشش کرتے رہتے تھے۔ اٹلی میں ان کے پیر کے بارہ آپریشن ہوچکے تھے لیکن وہ اب بھی چلنے میں لنگڑاتے تھے۔ ان کو اندھیرے میں نیند نہیں آتی تھی اور وہ رات میں اکثر بھیانک خواب دیکھتے تھے۔ وہ کچھ دنوں کے لیے شمالی مشی گن میں رہے جہاں ان کا وقت مطالعہ، مچھلی کے شکار اور اپنے مستقبل کے بارے میں غور و فکر یں گزرتا تھا۔ بالاخر یہ بات ان کے ذہن میں صاف ہوگئی کہ انھیں افسانوی ادب کی تخلیق کرنا ہے اور اس میں کامیابی حاصل کرنا ہے، لیکن جب تک وہ اس قابل نہیں ہوجاتے کہ صرف افسانہ نگاری سے اپنے مصارف پورے کرسکیں، ان کو بہ حیثیت صحافی کام کرنا چاہیے اور اپنے بچے ہوئے اوقات میں ادب کی تخلیق کرنا چاہیے۔ موسم  گرما اور خزاں میں وہ برابر اپنے تجربات کو ضبطِ تحریر میں لانے کی سعی کرتے رہے۔ موسمِ سرما میں وہ کناڈا گئے جہاں ان کا تعارف ٹورانٹو سے شائع ہونے والے روزنامہ اور ہفتہ وار اخبار ٹورانٹو اسٹار ویکلی (Star Weekly) اور اسٹار روزنامہ (Daily Star) کے ایڈیٹر سے ہوا اور انھوں نے کچھ مزاحیہ اور طنزیہ فیچر اس اخبار کے لیے لکھے۔ اس اخبار میں پرلطف اور چٹ پٹے واقعات کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی اور نامہ نگاروں سے خصوصی تاکید کی جاتی تھی کہ وہ ایسے واقعات لکھیں جن میں انسانی دلچسپی کا پہلو نمایاں ہو۔ اخبار کی اس پالیسی کے پیش نظر ہیمنگوے کی صحافتی تحریروں میں ایک نیا عنصر نمودار ہوا۔ ان کے مضامین اور فیچر کہانی سے قریب تر ہوتے گئے جس میں مکالمہ بھی ہوتا تھا اور ان لوگوں کا مختصر خاکہ بھی جن کے بارے میں وہ لکھتے تھے۔

1920 میں وہ شکاگو لوٹ آئے اور ایک مقامی اخبار میں کام کرنے لگے۔ ان کی ملاقات ایلیزبتھ ہیڈلے رچرڈسن (elizbeth Hidlay Richard-Son) سے ہوئی جو اپنی والدہ کے انتقال کے بعد اپنی ایک ساتھی لڑکی سے ملاقات کے لیے شکاگو آئی ہوئی تھیں۔ بقول یڈلے، ہیمنگوے نے ان کو تین وجوہات کی بنا پر پسند کیا۔ ان کے بال سرخ تھے۔ وہ لمبا گھاگھرا (Skirt) پہنتی تھیں اور وہ اچھا پیانو بجاتی تھیں۔ تین ہفتے بعد وہ سینٹ لوئی (St Louis) لوٹ گئیں لیکن ہیمنگوے سے خط و کتابت ہوتی رہی۔ رفتہ رفتہ ان کی محبت بڑھتی گئی اور 3 ستمبر 1921 کو ان کی شادی ہوگئی۔ ہیڈلے کی عمر اس وقت انتیس سال تھی اور ہیمنگوے سے سات سال عمر میں بڑی تھیں۔ وہ لمبے قد کی صحت مند اور دل کش خاتون تھیں اور اپنے والد مرحوم کے قائم کردہ ٹرسٹ فنڈ سے ان کی دو تین ہزار ڈالر سالانہ کی ذاتی آمدنی تھی۔ شادی کے بعد دونوں نے اٹلی کی سیاحت کا قصد کیا لیکن اس کے لیے صرف ہیڈلے کی آمدنی کافی نہیں تھی۔ ہیمنگوے نے ٹورانٹو اسٹار روزنامہ کو اس بات پر رضامند کرلیا کہ وہ اس کے یوروپی گشتی مراسلہ نگار ہوجائیں اور اپنا ہیڈ کوارٹر پیرس میں رکھیں۔ یہ بھی طے ہوا کہ مراسلہ کے لیے مروجہ شرح پر ان کو رقم دی جائے گی اور سفر خرچ وغیرہ بھی دیا جائے گا جو اس سلسلے میں ہوگا۔ ہیمنگوے کے لیے یہ بات بے حد اطمینان بخش تھی۔ ان دونوں شکاگو میں شیروڈاینڈرسن (Sherwood Anderson) بھی رہتے تھے جن سے ہیمنگوے کی ملاقات تھیں۔ اینڈرسن نے ان کو تعارفی خطوط دئیے اور بتایا کہ پیرس میں دریائے سین کے بائیں کنارے (Left Bank) پر کئی مشہور تارک وطن رہتے تھے۔ وہاں ہیمنگوے بھی رہ کر لکھ سکتے تھے۔ سفر کے انتظامات مکمل ہوتے ہی ہیمنگوے اور ہیڈلے یورپ کے لیے دسمبر 1921 میں روانہ ہوگئے۔

III

پیرس پہنچنے کے بعد 1921 سے 1923 کا زمانہ ہیمنگوے کی ادبی نوآموزی کا دوسرا اور نسبتاً اہم دور تھا۔ اپنی تخلیقات کے صحیح ادبی معیار کو قائم رکھنے کے لیے انھوں نے افسانوی ادب کے ماہر نثرنگاروں کا بغور مطالعہ کیا۔ یہ لکھنے والے ترگینیف (Turgenev)، چیخوف (Chekov)، ٹالسٹائی (Tolstoy) اور دوستووسکی (Dostoevsky)، اسٹنڈہال (Stendhal)، بالزک (Balzac) اور فلابیئر (Flauberi)، مارک ٹوین (Mark Twain)، اسٹیفن کرین (Stephen Crane) اور ہینری جیمس (Henry James)، ٹامس مان (Tomas Mann)، جوزف کونارڈ (Joseph Conard) اور جیمس جوائس (James Joyace) تھے۔ ان تمام لکھنے والوں سے انھوں نے کسی نہ کسی شکل میں کچھ ضرور سیکھا تھا لیکن یہ کہنا غلط ہوگا کہ انھوں نے ان میں سے کسی مصنف کی طرزِ تحریر کا تتبع کیا تھا۔ ان کا اسلوب بیان اچھوتا اور بدیع تھا کیونکہ انھوں نے اپنی سعی اور مشق سے نثرنگاری میں ایک نئی راہ نکالی تھی۔ لیکن یہ بات بلاشبہ صحیح ہے کہ ان مشاہیر کی تخلیقات کی مدد سے اور ان کی اعلیٰ مثال کی روشنی میں ہیمنگوے نے اپنے تنقیدی اور جمالیاتی نظریات کی تشکیل کی تاکہ ان کی کسوٹی پر وہ اپنی تخلیقات کا جائزہ لے سکیں۔ دریائے سین کے بائیں کنارے پر رہنے والوں میں ایزراپاؤنڈ (Ezra Pound) اور گرٹروڈاسٹین (Gertrude Stein) خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ پاؤنڈ نئے لکھنے والوں کی ہمت افزائی کرتے تھے اور ان کی تخلیقات کی اشاعت میں ہرممکن مدد کرتے تھے۔ گرٹروڈاسٹین نہایت سنجیدگی سے ہمیشہ صحیح رائے اور مشورہ دینے کی کوشش کرتی تھیں۔ ان دونوں کو ہیمنگوے نے اپنی چند نظمیں، کہانیاں اور ایک ناول کا ابتدائی حصہ پڑھنے کے لیے دیا اور ان کی رائے مانگی۔ پاؤنڈ نے ان کی نظموں کو پسند کیا اور ان کی نثر کی تازگی کو سراہا لیکن گرٹروڈ نے بلا کسی جھجھک کے یہ رائے دی کہ ہیمنگوے کے بیان میں جھول اور غیرضروری پھیلاؤ ہے۔ ان کو پوری توجہ سے ازسر نو پھر لکھنا چاہیے۔ وہ خود اس کوشش میں تھے کہ ایسا جملہ لکھ سکیں جو بالکل درست ہو اور اپنے مفہوم سے ہم آہنگ ہو اور لفظی آرائش و سجاوٹ سے پاک ہو۔ اس لیے گرٹروڈاسٹین کی نصیحت کو گرہ سے باندھ لیا۔

اس زمانے میں ٹورانٹو اسٹار اور اسٹار ہفتہ وار کے لیے ہیمنگوے نے صحافتی سرگرمیاں جاری رکھیں اور یورپ کے مختلف ممالک میں سفر کرتے اور گھومتے رہے۔ انھوں نے 1922 میں جینیوا میں منعقد ہونے والی اقتصادی کانفرنس کی رپورٹنگ کی۔ اٹلی میں ابھرتی ہوئی فاشسٹ تنظیم پر مراسلات بھیجے۔ مسولینی سے انٹرویو پر مراسلہ بھیجا۔ وہ اسپین، سوئیزرلینڈ اور جرمنی گئے۔ وہ قسطنطنیہ گئے جہاں انھوں نے یونان اور ترکی کی جنگ میں نامہ نگار کے فرائض انجام دیے۔ اسی طرح انھوں نے لیوذان (Lausanne) اقتصادی کانفرنس اور رُہر (Ruhar) سے متعلق فرانس اور جرمنی کے تنازعہ پر سیاسی تبصرے لکھے، لیکن ان صحافتی سرگرمیوں کے دوران وقفے وقفے سے وہ ہلکی پھکی چیزیں مثلاً پہاڑوں میں مچھلی کا شکار، موسم سرما کے کھیل اور پیرس کا سماجی منظر بھی لکھتے رہے۔ ان تحریروں سے ان کو معقول آمدنی تھی اور اس میں سے وہ کچھ پس انداز بھی کرتے تھے تاکہ وہ جلد صحافت سے چھٹکارا حاصل کرکے اپنا پورا وقت ادبی تخلیقات پر صرف کرسکیں ۔ اسی دوران ان کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا۔ شکاگو کے زمانے سے اب تک کی غیرمطبوعہ نظموں اور افسانوں کا مسودہ جو مسز ہیمنگوے کے ہمراہ ایک سوٹ کیس میں تھا، وہ سفر کے دوران چوری ہوگیا۔ چند نظمیں اور دو کہانیاں جس میں سے ایک اشاعت کے لیے بھیجی جاچکی تھی، اس حادثے سے بچ گئی تھیں۔ 1923 میں ہیمنگوے نے اس میں ایک کہانی اور کچھ نظموں کا اور اضافہ کیا اور تین کہانیاں اور دس نظمیں (Theree Stories and Ten Poems) کے عنوان سے ان کا یہ ملا جلا مجموعہ شائع ہوا۔

 

ماخذ: ارنیسٹ ہیمنگوے، مصنف: سلامت اللہ خاں، دوسرا ایڈیشن: 1989، ناشر: ڈائرکٹر ترقی اردو بیورو، نئی دہلی۔

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

ارنیسٹ ہیمنگوے، مصنف: سلامت اللہ خاں

  اردو دنیا، مارچ 2025 ارنیسٹ ملرہیمنگوے (Ernest Miller Heming Way) ، 21 جولائی 1899 کو شکاگو کے نواحی قصبہ اوک پارک (Oak Park) میں پید...