نئی آزاد نظم کے فنی تقاضے
شائستہ یوسف
اس سے پہلے کہ ہم نئی آزاد نظم او راس کے فنی اور تجربی تقاضوں پر غور وفکر کریں اور صوری اور مضمونی اعتبار سے نظم و غزل میں تمیز کریں یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ ہم انسانی تاریخ میں شاعری کے اوصاف اوران اوصاف کی تخلیق میں مدد گار پہلوؤں کو سمجھیں۔
عام طور پر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ شاعری انسانی سماج میں لوک گیتوں ہی سے ابھر کر سامنے آنے والی ایک لسانی حقیقت ہے ۔ لوک گیتوں کا اہم عنصر اساطیر اور عنائیت ہے۔ غنایت اور اساطیر کے بغیر لوک گیتوں کا تصور ممکن نہیں ۔ لیکن آج بھی دنیا میں ایسے قبائلی طبقات کا وجود ہے جن کے یہاں اپنے حقیقی عہد کی تہذیب کے ساتھ ساتھ ان کے لوک گیتوں کا سرمایہ بھی زندہ ہے ۔ یہ بات تہذیب یافتہ سماجوں پر بھی صادق آتی ہے ۔ مثلاً ہمارے ملک میں یوپی، گجرات، راجستھان، کشمیر یا دیگر کسی بھی علاقے کو لے لیجیے ، ان تمام علاقوں میں شاعری کے عروج کے باوجود ان علاقوں کے لوک گیت اب بھی زند ہ ہیں اور انھیں تقریبات میں گایا اور سنا جاتا ہے ۔ لہذا یہ تمام تصور کہ شاعری کی بنیاد لوک گیت ہیں کلیتاً صحیح نہیں معلوم ہوتا۔ کیونکہ شاعری دیگر فنونِ لطیفہ کے مقابلے لسان کا وہ تفاو تی عمل ہے جو لسانی تہذیب کے عروج پر آنے کے بعدہی وجود میں آتا ہے۔
اردو میں شاعری کے تعلق سے ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ اردو میں غزل فارسی سے آئی او رفارسی کی غزل عربی قصائد کے نسیب یعنی تشیبی حصے سے ابھری۔ یہ بات عجیب ہے کہ ایامِ جاہلیہ میں بھی عربوں کی لسانی تہذیب بہت اعلیٰ اور ارفع تھی ۔ لہذا ان کے قصائد کا معیار بھی شاعری کی بلندیوں کو چھوتا تھا ۔ عربی زبان عملاً ایک ایجاز پسند اور اختصار پسند زبان ہے کہ جہاں اعراب کی تھوڑی سی کمی بیشی سے معانی کا پورا نظام بدل جاتا ہے ۔
ایک اور چیز جو عربوں میں بہت عام او رمشہور تھی وہ تھی خطابت۔ عربی زبان میں خطابت کااثر عربی قصائد پر میں بھی پڑا ہے ۔ اسی لیے غزل نے قصائد کے ایجاز واختصار کے ساتھ خطابت کے عنصر کو بھی قبول کر لیا ہے لیکن قدرے کم ہے اور فارسی کی غزل میں معنی آفرینی اور حسنِ اظہار پر زیادہ زور دیا جانے لگا۔ فارسی کی غزل میں حسن وعشق میں مکالماتی طرز کو بھی فروغ ملا۔ اس ورثے کی بنیاد پر اردو غزل کی تعمیر عمل میں آئی کہ جہاں بیانیہ پر کم اور حسنِ اظہار پر زیادہ زور دیا گیا ۔ مزید برآں اردو میں تشبیہات واستعارات ، تمثیلات وغیرہ کا پورا سرمایہ منتقل ہوگیا جس کی وجہ سے برصغیر کی ارضیت کم سے کم موجود ہے لہذا اردو غزل اور اردو کی بیشتر شاعری میں عربی اور فارسی تہذیب کی وجہ سے خارجی اثرات وعناصر کا زیادہ عمل دخل رہا ہے۔
سرسید کی تحریک کے بعد اردو میں مغرب کے زیر اثر بیانیہ شاعری کی کوششیں تو کی گئیں لیکن اردو کا بنیادی سرمایہ غزل او رفارسی ہی تھا اسی لیے نئی نظم کی آزادانہ تشکیل میں کوئی بہت بڑا کارنامہ عمل میں نہیں آیا ۔ یہ صحیح ہے کہ اس زمانے میں بھی غزل سے ہٹ کر بہت ساری مثنویاں تخلیق ہوئیں لیکن مثنویوں میں بھی حسن وعشق او رغزل کے اشعار کا رنگ غالب رہا ۔ مثنوی میں انیس ودبیر بڑی حد تک اس سے مستثنیٰ ہیں کیونکہ ان کی مثنویوں میں مقامی تہذیب وتمدن کا رنگ غالب ہے ۔ ہماری شاعری کو نئی نظم کے عناصر سے ہمکنار کرانے میں اقبال کا بڑا ہاتھ ہے گوکہ انھوں نے پابند نظمیں کہی ہیں ان کے بعد میراجی نے جو مشرق ومغرب کا سرمایہ ہمارے سامنے رکھا اس سے بھی اردو میں نئی نظم کی ترویج میں بہت مدد ملی۔
ہم نے بات لوک گیتوں او رشاعری کے تعلق سے شروع کی تھی اور یہ سمجھنے کی کوشش کی تھی کہ آیا لوک گیت ہی شاعری کی بنیاد ہیں ۔ او ریہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ شاعری کا وجود صرف تہذیب وتمدن کے عروج ہی سے عمل میں آتا ہے اور یہ بھی کہ شاعری لسانی تہذیب کے عروج کا نتیجہ ہے ۔ مندرجہ بالا مفروضے کے آئینے میں ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا بحور واوزان کی پابندی عنایت اور تمثیل، تشبیہ، استعارے وغیرہ کی آزاد نظم کو اس طرح ضرورت ہے جتنی پابند نظم کو ہوتی ہے او ریہ بھی دیکھنا ہوگا کہ شاعری او رموسیقی شاعری اور مجسمہ سازی، شاعری اور داستان گوئی وغیرہ کا رشتہ کیا ہے ؟ اور شاعری اور ڈرامے کون سے عناصر ہیں کہ جن سے شاعری وجود میں آتی ہے۔
ہمارے اپنے ملک ہندوستان میں ہندی شاعری کی تاریخ میں پرگتی واد، چھایا واد وغیرہ کاردعمل بھی آیا تھا ۔ لیکن اردو میں ۔۔۔ ترقی پسند تحریک او رنوزائیدہ جدیدیت کے علاوہ کچھ بھی وجودمیں نہیں آیا۔ اس اعتبار سے اردوزبان وادب بہت غریب ہیں ۔ نئی نظم کا یہ تقاضا ہے کہ وہ ہئیتی سطح پر ایسے نئے آہنگ کی تلاش کرے جو اردو کی مروجہ بحور سے آزاد ہو ۔ یہ آہنگ ظاہری بھی ہوسکتا ہے اور باطنی بھی ۔ اس سے نظم کو غزل کے اثرات سے آزاد کرانے میں مددمل سکتی ہے ۔ اس کی بنیاد ہر نئی نظم ، نئی دنیاؤں او رنئے امکانات میں سانس بھی لے سکتی ہے۔
ایک اوراہم بات جواس تناظر میں بہت ضروری ہے ، وہ یہ کہ زبان میں موجود لفظ صرف ترسیل کا ذریعہ نہیں ہوتے ان کے اپنے منطقی وجود ، منطقی جمالیات اورمعانی ہوتے ہیں اس کے علاوہ شاعری صرف تجربی حقائق کی ترسیل کا ذریعہ نہیں ۔ہر اچھے شاعر اور بالخصوص آزاد نظم کے شاعر کو اس حقیقت کو سمجھنا اور اس حقیقت کی ایسی شعری صداقت تلاش کرنا بہت ہی ضروری ہے کہ جس کا انسانی زندگی اورانسانی تہذیب پر اطلاق ممکن ہوسکے۔
اردو کی نئی نظم کے فنی تقاضوں میں نئے آہنگ کی تلاش ،نئی شعری صداقت کی کھوج ، لفظ کی نئی کائنات ، لفظ کے نئے امکانات او رنئے معانی ومفاہیم کی تخلیق بنیادی اہمیت کے حامل ہیں ۔ جب تک کہ نئے لکھنے والے ان پہلوؤں کا احاطہ نہیں کریں گے اس وقت تک وہ نئی نظم کے فنی امکانات کی توضیح نہیں کرسکتے ۔یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ تمام باتیں زبان کے کلی نظام، موجودہ کائناتی، سماجی اور انسانی حقائق کے آئینے ہی میں کی جانی چاہیے ، ورنہ شعری عمل لفظی بازیگری اورخیالی کرتب بازی کا شکار ہوجائے گا۔شعر کا عمل کیا ہے اورنظم کے فن کو سمجھنے کے لیے دواقتباسات پیش کرتی ہوں۔
’’ اردو نظم کے تجربی تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات صحیح معلوم ہوتی ہے کہ جدید اردو نظم کے اکثرشاعروں کے جمالیاتی وفنی تجربات بہت محدودہیں ۔ لہذا ان کے اظہار کی قوت بھی محدود ہے ۔ حقیقت میں ہر تخلیق کامخرج کوئی نہ کوئی تجربہ ہوتاہے ، وہ خیالی ہو کہ عملی ، اس تجربے اورشاعرکی ذات موجودشاعری کے لسانی نظام کے تصادم ہی سے کوئی اچھی نظم تخلیق پاسکتی ہے۔ نئے تجربوں سے تصادم کے لیے وایس کے مضمون جدیدفرانسیسی شاعری سے جس کا ترجمہ منہاج برنانے کیا ہے ۔‘‘
نظم اظہار اور معنی کے باہمی انسلاک کا دوسرا نام ہے ۔ ایک نظم کہنے کے لیے شاعر کو ہر چیز کا ازسرنو جائزہ لیناہوتا ہے کیونکہ ایک کامیاب نظم کہنے کے معنی یہ ہیں کہ ایک مانوس چیز کو نئے انداز سے دیکھا اور سمجھا جائے ۔ یہی ملارے کا سب سے بڑا اورسب سے معنی خیز سبق ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسے ہم عصرشعری شعور کا جزو بنالیا گیا ہے ۔ شاعر کے لیے اس صلاحیت کا مالک ہونا کہ وہ کائنات کی ہر چیزکااز سرنو جائزہ لے انتہائی ضروری ہے ۔ اس کی یہ صلاحیت کہ وہ ہر چیز پرمتحیر ہو جیسے وہ دیکھتا ہے اس کا مابہ الامتیاز ہے ۔ اس کے بغیر اس کی نظم وہ انکشاف نہ بن سکے گی جو اسے ہونا چاہیے۔ یہ انکشاف خود اس پر بھی ہوتا ہے اور اس کے قارئین پر بھی کہ اس نے ایک چیزکا کس طرح از سرنو جائزہ لیا ۔ کس طرح اسے نئے سرے سے زندہ کیا ہے ۔ متحیرہونے کے لیے ایک شاعر کو غیر معمولی آزادی سے کام لینا ہوتا ہے کیونکہ اس کا تعلق طبیعی عالم ، اخلاق ، دیومالا اورخدا ہرچیز سے ہے ۔ اس آزادی کے ساتھ اس چیز کی ضمانت ہوجاتی ہے جسے ہم دنیا اور اس سے متعلق ہر چیز کے بارے میں شاعرانہ تاثر کا نام دیتے ہیں ۔ اسے چوکنا پن، کمالِ توجہ اور وضاحت کے ناموں سے بھی یاد کیا جاسکتا ہے ۔ کیونکہ وہ تمام ضابطے ہیں جن کی تعریف تو قریب قریب ناممکن ہے لیکن ایک شاعر کو تکمیل فن کے لیے جن کی ضرورت ہوتی ہے۔
اور آل احمد سرور کا فن کے تعلق سے یہ بیان۔ ایک فن پارہ اسی نسبت سے آفاقی ہوتا ہے جس نسبت سے اس میں خصوصی تجربہ ہوتا ہے۔ تجربہ فیشن یا فارمولے یا گروہ کے خیالات کی پاسداری کی وجہ سے نہیں ۔ اس کے اپنے دل گداختہ سے پگھل کر نکلتا ہے۔ اس کے لیے بنیادی شرط فن کار کے خلوص اور اس کی نظر اور اس کی نظر میں قطرے ہیں ، دجلے کے امکانات دیکھنے کی صلاحیت کی ہے ۔ فن کار سے محض شدید جذبات یا مانگے ہوئے اجالے سے چراغاں کرنے کی توقع غلط ہے ۔ یہاں اصل سوال فن کار کی بصیرت اوربصیرت کی گہرائی کا ہے۔
نظم کے بارے میں کہا گیا ہے کہ نظم عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی لڑی سلک یا ہار کے ہیں چونکہ نظم خیالات کا ایک تسلسل ہوتا ہے اورایک ہی موضوع پر کہی جاتی ہے اس لیے نظم کو مخصوص عنوان سے بھی آراستہ کیا گیا ہے ۔ نظم کے فنی تجربے کی ابتدا اردو میں بہت پرانی ہے او رتہذیب سے جڑی ہوئی ہے ۔ دکنی کے ابتدائی دور کے پہلے نظم نگار حضرت خواجہ بندہ نوازگیسو دراز ہیں ، جنھوں نے مذہب اسلام کی تعلیم وتبلیغ کے لیے دکنی میں درس وتدریس کے پہلو بہ پہلو تصنیف وتالیف کاکام بھی انجام دیا ۔ پروفیسر محمد علی اثر نے اپنے مضمون میں ڈاکٹر زور کے اقتباسات پیش کیے ہیں ۔ جہاں اس کا ذکر ’ نظم ‘ کے فنی تجربات کے تقاضوں کی بنیاد کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔
(1) ’’ خواجہ صاحب نے متعدد چھوٹی بڑی صوفیانہ نظموں اور گیتوں کے علاوہ ایک ’ چکی نامہ ‘ بھی لکھا جس کابنیادی مقصد عورتوں کی تعلیم او رمذہبی امور سے واقفیت تھا ۔ بہمنی دور کے دو صوفی شعرا اہم ہیں ۔ حضرت میراں جی شمس العشاق ہیں جن کی منظومات میں خوش نامہ ، خوش نغز اور مغز مرغوب اہمیت کے حامل ہیں ۔ خوش نامہ شمس العشاق کی دیگر نظموں کے مقابلے میں ایک طویل نظم ہے ۔ جس میں ایک نیک سیرت لڑکی کو موضوعِ سخن بنایا گیا ہے ، جس کا نام’ خوش‘ ہے۔ اس نام کی مناسبت سے اس نظم کا عنوان ’خوش نامہ ‘ رکھا گیا ہے ۔ یہ ایک عبادت گذار او رپاک دوشیزہ ہے جو ہمہ وقت ذکر الہٰی میں مصروف رہتی ہے ، اسے آرائش وزیبائش سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ یہ نیک سیرت لڑکی 17سال کی عمرمیں اس جہان فانی سے کوچ کرجاتی ہے ۔ اس کی مختصر سی زندگی سے شمس العشاق اخلاقی اورروحانی نتائج اخذ کرتے ہیں۔ سادگی اورروانی ’ خوش نامہ ‘ رکھا گیا ہے۔ یہ ایک عبادت گزار اورپاک بازدوشیزہ ہے ۔ آخر میں لکھا ہے ’ قطب شاہی‘۔
جہاں تک محمدقلی کی نظم نگاری کا تعلق ہے اس میں حمد ومناجات ، نعت ومنقبت اورمدح بی بی فاطمہ جیسی مذہبی نظمیں بھی شامل ہیں ۔ اور اس نے عیدوں اورموسموں جیسے عیدمیلاد النبی ، بقر عید ، مرگ، (آمد برسات)بسنت اورموسم سرما (ٹھنڈ کالا) محلاتِ شاہی جیسے خدادادمحل، کوہ نور کا محل ، حیدر محل وغیرہ پر بھی طبع آزمائی کی ہے ۔ اس کے علاوہ ان کے یہاں مختلف کھیلوں جیسے چوگان، گھمنڈی،کوکانت پچوکڑی ، پھوٹانک ہر اور اس کی متعدد محبوباؤں جیسے سانولی ،کنول، گوری وغیرہ بھی نظمیں ملتی ہیں ۔ ان منظومات کے مطالعے سے محمد قلی کی ایک طرف وسعت فکر ونظر،پرگوئی اور قادراللسانی کااندازہ ہوتا ہے تو دوسری طرف شاعرانہ صناعی اور فن کاری کا پتہ چلتا ہے۔
اس کے بعدیہ اقتباس دیکھیے
’’ بسنت خالص ہندوستانی تہوارہے جوموسم بہار کے موقع پر منایاجاتا ہے ۔ اس موضوع پر محمد قلی کی کلیات میں سات نظمیں موجودہیں ۔ بسنت کا تہوار قطب شاہی دور میں نہایت شان وشوکت اورخاص اہتمام سے منایا جاتا تھا ۔ بسنت کا موسم آتے ہی ہرطرف ہرے بھرے درخت اورچمن ہی چمن دکھائی دیتے ۔ شگوفے مسکراتے او ربہار انگڑائی لے کر ساری فضا کو رنگ ونکہت میں ڈبودیتی ہے ۔ اس تہوار کو ہندومسلمان دونوں مل کر مناتے تھے ۔ بسنت کے موضوع پر محمدقلی کی کہی ہوئی نظموں میں اتحاد پسند روح پوری طرح رچی بسی نظر آتی ہے ۔ اس کے کلام سے اندازہ ہوتا ہے کہ محمد قلی کو ہندوستانی تہذیب وتمدن اوریہاں کی فضا، یہاں کی رسومات اورطور طریقوں سے خاص لگاؤ تھا۔
یہاں اگر ہم دیکھیں تو نظم کی ابتدا ہی سے مناظر ، ماحول کو سمیٹے ہوئے تاریخ کے اوراق کا احاطہ کرتی ہے۔ اب نظم کے فن کو آگے بڑھانے کامطلب یہ ہے کہ نظم میں وسعت گہرائی میں اضافہ ہونا چاہیے۔
تجربہ نیا ہوتا ہے تو اظہار کا پیرایہ بھی نیا ہوتا ہے لیکن ہر نئی بات کے ساتھ مسائل بھی درپیش ہوتے ہیں ۔ کسی بھی زمانے میں نئی چیز کو بہت آسانی سے قبول نہیں کیا جاتا ہے ۔ قبل اس کے کہ ذہن ونظر اورسماج قبول کریں نئے تجربے کو بہت سارے امتحانات سے گزر نا پڑتا ہے ۔ جب پہلی بار نظم کو نیا پیراہن دیا گیا تو کئی اعتراضات اٹھے لیکن طباطبائی جیسے لوگوں نے اردوں میں جدید نظم کی ابتدا کی۔ ایک نظم جس کا عنوان ’ بلینک ورس کی حقیقت ‘ ہے ، اس نظم کی خاصیت یہ ہے کہ بلینک ورس نظم اس میں قافیے ردیف کی پابندیوں کا مذاق اڑایا گیا ہے اور غیر مقفیٰ شاعری کو فطری شاعری کہا ہے ۔ اس نظم کے بند دیکھیے :
فطری ان کا ہے رقص اور سب طبعی
ان کی ہی گیتیں بساں رقص طاؤس
سہمے ان کے ہیں راگ سارے اصل
ان کی ہیں دھنیں بساں صورت بلبل
قدرت کے کرشموں سے وہ لیتے تعلیم
ہیں ان کو نہیں تال کی حاجت جیسے
بادل کے گرجنے پر ہے موروں کا رقص
کلیوں کے چٹکنے پر عنادل کا سرور
ہے ویسا ہی رقص جس طرح کا ہے نشاط
ویسا ہی مسرور بھی ہے جس نوع کا وجد
یہ بات نہیں ہے کہ ہے ارادہ کچھ اور
اور قافیہ لے چلا کسی اور طرف
خیالات کی انھی نئی دھاروں نے آہستہ آہستہ ایک شکل اوراب ہم کہہ سکتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔
یہ بہت ضروری ہے کہ لکھنے والا ہمیشہ تلاش وکھوج میں مبتلا رہے اور اس تلاش وکھوج کے تجربے کو اپنی شاعری کی لسانی میں پرکھے ، اس طرز کے تجربوں کے بغیر شعری تاریخ میں کوئی ندرت ، کوئی نیا پن او رکوئی استعجابی پہلووجود میں نہیں آسکتا۔ لہذا ہماری نئی نظم کو ایسے انسانوں کی تلاش ہے جو اول تو زندگی کے اچھے او ربرے تجربات سے گذر سکیں اورپھر اپنے لسانی نظام کی نئی ہیئت میں ڈھال سکیں۔ ہر نیا تجربہ اظہار کا نیا پیرایہ لاتا ہے لہذا روایتی طور پر مستعمل ہیئت کا معاملہ یہاں معنی ثابت ہوتا ہے۔ اگر تجربہ نیا ہوگا تو اظہار کا پیرایہ نیا ہوگا اس کا ظاہری او رباطنی آہنگ نیا ہوگا ۔ اس کی تمثیلیں اوراستعارے نئے ہوں گے ، جب یہ ممکن نہیں ہوتا تو شاعری بالخصوص نظم روایتی اظہار کا شکار ہوجاتی ہے جیسا کہ ہماری اکثرنئی نظموں کے ساتھ ہوا ہے۔
اردو نظم کی تاریخ میں ایک نیا اضافہ نثری نظم کا ہے ۔ یوں تو لفظی ومعنوی آہنگ کو برقرار رکھتے ہوئے اورروایتی اوزان وبحور کو رد کرتے ہوئے کئی ایک شاعروں نے نظمیں لکھیں لیکن اس میں کامیابی بہت ہی کم شاعروں کو ملی ہے۔ نثری نظم نے کیسے اپنی جگہ لی اور کن نئے تجربوں سے گزری۔عنبر بہرانچی کے مضمون کا یہ اقتباس نئے تجربات اورفنی جستجو کے سفر پرایک روشنی ڈالتا ہے:
مکعبیت (Cubism)۔ یہ فن مصوری کا وہ اسٹال ہے جس میں اشیا اس طرح جمع کردی جاتی ہیں کہ وہ ہندی اشکال کا ایک گڈ مڈ مجموعہ دکھائی دیتی ہیں ۔ سریالزم(Susrrealism) بیسویں صدی کے فن وادب کی وہ تحریک جس میں شاعر یا فن کاراپنے تحت الشعور کو خیالی اورذہنی تصاویر کے ذریعے پیش کرتا ہے ۔ ایسے فن پارے کے نقوش بالکل ویسے ہی ہوتے ہیں جیسے کہ خواب میں نظر آتے ہیں جو بظاہر بے ربط ہوتے ہیں لیکن ماہرین نفسیات کے نزدیک ان میں ارتباط ہوتا ہے۔ وجودیت (Eistentialism) او راس کے بعد جو رجحان آیا وہ لیٹرزم(Lettrism)کہلایا ۔ فرانس کے مفکرین ادلال ڈی رینوپل، تھری مالنی ، ژان پالیہان ، جولس منرو، روجر کلائی اور ملارس پلاشو نے اپنے کلام کا بڑاحصہ شاعری کے مفہوم اور اس کی وسعت کی تحقیق پر صرف کیا ہے ۔ شعری تجربات اور فنی جستجو کی یہ آواز دنیا میں مختلف اندازمیں گونجی۔ شاعری کے مطالعے سے ایک بنیادی بات ہمارے یہاں اس آہنگ کا مفہوم عام طور پر غز ل کے آہنگ میں لیا گیا ہے کہ جس کو چھوڑ کر اردو میں کسی دوسرے آہنگ کا وجود نہیں ہے ۔ ہماری تمام نظمیں مروجہ بحور اور اوزان ہی میں لکھی گئی ہیں ۔ یہ بات محض نظم کی ظاہری ہئیت او رظاہری آہنگ پر صادق آتی ہے ۔ نظم کا باطنی آہنگ کہ جس کا تانا بانا الفاظ کے دور و بست او رمختلف خیالات کے ہم آہنگ ہونے کے مصداق ہے ۔ اس کو اکثر نظر انداز کیا گیا ہے ۔ اردو کے بحور واوزان کے علاوہ دنیا کی مختلف زبانوں میں اور مختلف تہذیبوں میں شاعری کے مختلف آہنگ کا وجود ہے۔ اسی طرح سے دنیا میں مختلف طرح کے غنائی اصول وجود رکھتے ہیں ، اس کے علاوہ نیا عہد اپنی تہذیب کے مختلف پہلوؤں میں مختلف طرح کا آہنگ رکھتا ہے ، مثلاً موجودہ عہد میں کمپیوٹر سے کام کرنے کا آہنگ الگ ہے ۔ ہوائی جہاز کے اڑنے کا آہنگ الگ ہے ریل گاڑی کے چلنے کاانداز الگ ہے ۔ اسی طرح سے اگر آپ ندی کے بہاؤ ،ہوائی سرسراہٹ او رپتھروں کے لڑھکنے کی آواز مختلف طرز کی چڑیوں کی چہچہاہٹ وغیرہ کا مطالعہ کریں تو ان کاآہنگ اور اس آہنگ کا تنوع الگ ہوگا۔
موسیقی میں مغربی موسیقی او ررقص میں نئے نئے طرز کے پہلو عمل میں آئے ہیں ۔ مثلاً آپ ٹپ ہاپTip Hop کو لیجیے ۔ ہوٹ ٹیپHoot tapڈانس کو لیجیے ، اسی طرح سے مصوری میں ماڈرن آرٹ کے کئی تجربے۔
جس طرح ادب کی کوئی طے شدہ تعریف اور قوانین ممکن نہیں ۔ تمام لسانی معاشرے اپنے دور میں تہذیبی او رفکری تقاضوں کی مناسبت سے ادب کی تشکیل کرتے ہیں اس میں فن کار جس نظریے سے اپنی دنیا کا مشاہدہ کرتا ہے اور جس زبان کو اپنے شعوری عمل میں لاشعور سے ڈھالتا ہے اس کی اپنی استطاعت اور تجربے کا نتیجہ ہوتا ہے۔
انسانی فطرت یہی ہے کہ وہ انفرادیت کو پسند کرتی ہے لیکن جب تک کوئی سوچ اجتماعی فکر کا حصہ نہیں بن جاتی اسے مقبولیت ملنا آسان نہیں ۔اردو شاعری میں غزل کی صنف کو اس قدر مقبولیت ملی کہ دوسری اصناف کو اپنی جگہ بنانا مشکل تھا ۔ لیکن ارتقا کے سفر میں نئی اشیا کی شمولیت ہی نئے معاشرے کی تشکیل ہے ۔شاعری میں بھی نئے تجربے کچھ مغرب کچھ مشرق سے متاثر ہوکر کیے گئے ، جیسے ترائیلے، آزادغزل ، ہائیکو، غزل نما ، غزلیہ ، نثری غزل ، ماہیا، تروینی ،کہہ مکرنی، کندیلیاں ، دوہکا، دوپدے ، کتونی، تنکا اور ربنکا ، چوبولے، چھلے وغیرہ۔
لیکن آج کے دور کاتقاضا کیا ہے ؟ اگر غزل ، ادب میں ایک فنکار اور قاری کے عصری تقاضوں کے ساتھ تسکین کا باعث بنتی ہے تو کسی دوسری صنف کے کیا معنی!
لیکن ارتقا کے معنی ہی تلاش وجستجو ہیں اور ایک تخلیق کار ہمیشہ تلاش میں مگن رہتا ہے جو انفرادی اور آفاقی بھی دونوں ہیں۔یہاں آفاقی کے معنی وہ خیال جو لاشعور میں ایسی آگ لگادے کہ وہ اسے جامۂ تحریر پہنانے کے لیے بے چین ہوجائے اور یہی وسیل�ۂاظہار ایک تخلیق کار کی صلاحیت ، قوت ، جمالیات ، تجربات کا آئینہ ہوتا ہے وہی اسے ایک تخلیق کار کی کسوٹی پر صحیح یا غلط ثابت کرتا ہے۔ ایک معاشرے میں قدریں متعین کرتا ہے اور معیار کا تجزیہ بھی ۔ لیکن کبھی کبھی حالات ان تمام باتوں کو بے معنی کرکے اپنا رخ اختیار کرتے ہیں اور ایک اجتماعی شکل عصری تقاضوں میں محدود شکل بھی اختیار کرلیتی ہے جس کی مثال ترقی پسند تحریک سے دی جاسکتی ہے ۔ یا پھر جیسے محمد حسن عسکری نے لکھا ہے ’’ عالم گیر مسائل نے ادیبوں کو ادب سے باہر نکال کر دوسری چیزوں کی طرف متوجہ ہونے پر مجبور کیا ۔ چنانچہ یورپ کے بہت سے ادیبوں نے اسپین جاکر جنگ میں حصہ لیا ۔ ان حالات میں ادب کا ایک نیا نظریہ پیدا ہوا۔
لیکن ہم چاہے جو نام دے لیں ، جدیدیت، مابعد جدیدیت یہ تحریک سے بڑھ کر بدلتے ہوئے منظر نامے کی تصویریں ہیں۔
نظم کی مقبولیت اور عصری ضرورت اسے نئے آہنگ او رنئے طور طریقے ایجاد کرنے کی طرف راغب کررہی ہے۔ آج ہم جس دور سے گزررہے ہیں او رمستقبل میں جس تیزی سے تغیرات کے دھماکوں کی آوازیں پر تول رہی ہیں نظم کی نئی شکل بھی تقاضا کرتی ہے کہ اس کی طرف مکمل توجہ کی جائے ۔ نیاآہنگ، نئے استعارات ، نئی زبان کوئی بنی بنائی لغت میں تحریر شدہ وسائل نہیں ۔ وقت کا تقاضا فکر وسوچ کی نئی منزلیں بدلتے منظر میں اپنے زاویے خود چنتے ہیں ، کبھی اپنے اظہار میں کامیاب ہوتے ہیں کبھی ادھورے سفر میں تھک کر گرجاتے ہیں ۔ ادبی نظریات ، رجحانات میں جاری تبدیلیاں ، زبان، زندگی ، ادب ، آرٹ ، آئیڈیالوجی، تہذیب وثقافت پر فی زمانہ سائنس کی تخلیقات او رکمپیوٹر کے برقی اذہان قبضہ کررہے ہیں اور انسانی فکر متاثر ہورہی ہے ۔لیکن یہ کائنات کے منظر نامے میں گزرنے والا پہلا حادثہ تو نہیں ۔یہ وقت ایک درمیان یعنی قدیم اور جدید کے درمیان حائل ہونے والا ایک پردہ ہے جو نئی سوچ وفکر کا متلاشی ہے ۔ دراصل ہماری سوچ محدود ہے اور وقت تیز رفتاری سے نکل جاتا ہے جب تک کہ ہم اس گزرنے والے لمحوں کو مقید کرسکیں۔ نئی نظم ، نیا آہنگ بھی اپنی منزل کی طرف دوڑ رہا ہے ۔ اب اردو زبان اس چوچھی جہت کی تلاش میں کتنی کامیاب رہے گی اور عالمی سطح پر اپنا کتنا ورثہ چھوڑجائے گی اس کا جواب وقت ہی دے سکتا ہے۔
مغرب و مشرق میں، ابن عربی، کندی، بیرونی، حافظ، جامی عراقی عمرخیام اور افلاطون، ارسطو، نیوٹن، ڈارون، اسپنسر، برگساں، مارکس اور برناڈ جیسے اذہان کے خیالات ایک عہد میں سماجی، سیاسی اور معاشرتی حالات سے متاثر ہوئے۔ اردو زبان پر بھی ان حالات، خیالات اور واقعات کا گہراثرپڑا۔ تخلیق ایک مخصوص نہج کی طرف مڑگئی لیکن کسی بھی زبان میں جمودگی ممکن نہیں۔ جو زندہ زبانیں ہیں وہ روایتی اقدار کو روندتی ہوئی نئی شاہ راہ پر اپناقدم جمالیتی ہیں۔ وہ لوگ جو اہل زبان تھے خصوصاً اس دور میں جیسے فراق اور جوش نظم کی طرف متوجہ ہوئے جس فنکار کا تخیل الفاظ میں سماکر اظہار کی تنگی سے بے چین ہوتا ہے اس کی شاعری کسی معاشرے کسی صنف کی داسی بن کر حکم نہیں بجالاتی وہ ہروقت اپنے دامن کو وسیع کرتی رہتی ہے منفرد اور اچھوتے خیالات میں جان پھونکنے پر مصررہتی ہے۔ تخلیق اور زبان کے ارتقا سے آشنائی کے لیے الفاظ ہی ذریعہ اظہار ہیں۔ بقول جوش ’الفاظ ذی حیات ہیں،الفاظ بھی آدمیوں کی طرح پیداہوتے اور مرتے ہیں۔ بیمار پڑتے ہیں اور تندرست ہوتے ہیں۔ گوشہ نشین رہتے اورسفر کرتے ہیں۔ الفاظ مزاج، عادات رسومات، روایات اور تاریخی واقعات رکھتے ہیں الفاظ کی دنیا میں بھی ذات پات مذہب و معاشرہ کا رواج ہے۔ الفاظ بھی انجمنیں اور سوسائٹیاں بناکر رہتے ہیں۔ الفاظ میں بھی مختلف نسلیں، خاندان اور شجرے ہوتے ہیں۔ الفاظ پر لڑکپن جوانی اور بڑھاپے کی فضائیں آتی ہیں۔ ان میں بھی بعض تو ہم انسانوں کی طرح نیک نام اور بدنام۔ بعض عبائیں پہنے ہوئے دیوتاؤں کے مندروں میں رہتے ہیں۔ بعض دستاریں زیب تن کیے درباروں اور بعض ننگے پاؤں بازاروں میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ بعض الفاظ کے ہاتھ چومے جاتے ہیں اور بعض دروازے پر آتے ہی دھکاردیے جاتے ہیں۔ یہ بھی بتاتے ہیں کہ انسانوں کے بے شمار طبقوں میں صرف ادیبوں اور شاعروں کے دوایسے طبقے ہیں جن سے ان کی بے تکلفانہ رسم و راہ اور مخلصانہ دوستی ہے ادیبوں میں اگرچہ الفاظ کی ملاقات دوستانہ اور مخلصانہ ہے لیکن الفاظ ان سے زیادہ دوستانہ رویہ نہیں رکھتے اس کے برخلاف شاعروں کو انھوں نے یہاں تک اختیار دے رکھا ہے کہ وہ جب چاہیں ان کے لباس تبدیل کردیں۔
الفاظ سے متعلق اس اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی بھی زبان کی اہمیت اس کی وسیع القلبی اور وسیع الذہنی سے علاقہ رکھتی ہے۔ جوزبان مضامین کے دریاؤ ں سے خیال و فکر کو اپنے سمندر میں کھینچ کر جتناموجوں میں اچھالناجانتی ہو وہ عالمی سطح پر اتنی ہی گہری چھاپ چھوڑ سکتی ہے۔ غزل میں موضوعات کی کمی نہیں لیکن ذہن کی محدود استطاعت کچھ مخصوص الفاظ کو ردیف، قافیہ میں قید کرتی ہے اور بیان کی وسعت نثر اور غزل کی درمیانی راہ تلاش کرنے پر قاصر ہے۔ یہ ذریعہ ترسیل ایک عہد کا تقاضا ہے۔ اور یہی تقاضے نظم کو نئی ہیئت اور نئے اطوار نئے فنون کی طرف مائل کرتے ہیں۔
شاعری کا آغاز زبان و مذہب کی پہچان اور ضرورت نے کیا۔ نغمہ، سنگیت اور الفاظ انسانی سرشت کا ایک حصہ ہیں۔ نظم جب ترقی پسندوں کے اذہان سے جنم لے رہی تھی، سماجی سیاسی، اقتدار، آزادی، قیدوبند مفلسی، مجبوری کو احاطہ کیے ہوئے تھی۔ لیکن زندگی کا ارتقا کسی بھی تخلیق کار کو کہیں ٹھہراؤ نہیں دیتا اور اگر وہ وقت کے دھارے میں بہہ کرنئی منزلیں تلاش نہ کرے تو اس کی موت یقینی ہے۔ لیکن ساتھ ہی اس بات کو بھی تخلیق زندگی اس وقت دیتی ہے جب تخلیق کار اپنی پوری دیانت داری کے ساتھ اپنے علم اور فعل کو تخیل سے کاغذ پر مظاہرے کی قوت رکھتا ہو۔ یہاں مشاہدہ، مطالعہ، سماج اور حالات سے اپنے نظریات کو اخذکرنے کی استطاعت رکھتا ہو نہ کہ کسی اور نظریے کی تحت خودکو ڈھال دے یا نقالی کی نذر ہوجائے۔
نظم کی ہیئت اور فنی تبدیلیوں پر ڈاکٹرمحمود شیخ کے مضمون ہیئت وفن کے شعوری محرکات میں ادبی دنیا پر وقوع پذیر اثرات کے اسباب و علل کے حقائق بیان کیے ہیں۔
’’اختراعی ہیئت فن کی مثال لباس جیسی ہے جو انسانی مزاج اور ماحول کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ قومی مزاج کی خصوصیتیں اور جذبہ اظہار کی نفسانی خواہشیں بھی ہیت فن کی تبدیلی کا باعث ہوتی ہیں۔ سیاسی اور معاشرتی تبدیلیاں بھی تغیروتبدل پیدا کرتی ہیں۔ کولونیلزم اور صنعتی انقلاب نے یوروپی اقوام کے لیے جو تمدنی ڈھانچہ تیار کیا تھا اسے دوسری جنگ عظیم نے مسمار کردیا۔ ترقی یافتہ ملکوں کے لاکھوں افراد مارے گئے ملک برباد ہوگئے اور معیشت تباہ ہوگئی مغربی اقوام نے ایک دوسرے پرلعن طعن کی بجائے ضبط و تحمل سے کام لیا۔ اور اپنے اپنے ملک و معیشت کی تعمیرنو میں لگ گئے۔ تجربات گذشتہ سے استفادہ کرتے ہوئے انھوں نے ایک ایسا صنعتی نظام معیشت تشکیل دیا جس نے افریقی اور ایشیائی ملکوں کے معدنیاتی وسائل پر ان کا تصرف قائم کردیا۔ وہ قومیں جو کل تک ان کے زیردست تھیں۔ انھیں فلسفہ وسائنس و ٹکنالوجی کے معاشیاتی شعور کے ذریعے غلام بنالیاگیا۔ یہیں سے پوسٹ ماڈرن ازم (Post-modernism) کے مختلف ادوار کی شروعات ہوتی ہے۔ مغرب کی تشکیل نونے بعض دانشوروں کو وجودیت اور نوتاریخیت کا تصور دے دیا۔ بعض تجریدیت کی تلاش میں سرگرداں اور پریشان ہوگئے۔ تحریک وجودیت کے نظریات فکر حالانکہ مابعد جدیدیت سے باہر کی چیز سمجھے جاتے ہیں لیکن سارترنے فنی آزادی کے جس تصور ادب کی حمایت کی ہے اس کی خصوصیتیں مابعد جدیدیت سے رشتہ استوار کرتی ہیں۔ ادبی گلوبلائزیشن 'Golobalisation' کا تصور اگر کنزیومریزم 'consumerism' سے وابستہ ہے تو یقیناًمابعد جدیدیت کے تصورات ادب صنعتی نظام معیشت کے ہراول دستے کے طور پر دیکھے جائیں گے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے قوت و طاقت کا توازن ہی تہذیبی اور تمدنی کامیابی اور فروغ کا ضامن ہوتا ہے۔ ’خیال‘ کی مرکزیت کے بغیر ہیئت اسلوب و بیان قائم نہیں ہوسکتی اور پوسٹ ماڈرن ازم کے تصورات کسی بھی متعین کردہ حیطۂ اظہار کو قبول کرنے کی بجائے اکثریت پسند ہیں۔ ہیئت فن کا مشاہدہ اور تجزیہ اس کی اہمیت و افادیت انفرادیت و ضرورت فنی وابستگی کے ساتھ ہی متعین کی جاسکتی ہے۔‘‘
نظم کی دنیا میں جوش کے علاوہ دو اہم نام ہمیں نظر آتے ہیں اقبال اور انیس کے، لیکن اتفاق کہ دونوں ہی اپنی شناخت اسلام کے توسط سے بناتے ہیں۔ شاعری کا لباس جو صرف فلسفہ، علوم سیاسی معاشرتی حالات کا متمنی نہیں وہ بے چین ہو کر اس عنصر کو تلاش کرتا ہے جہاں جمالیات، حسن، فطرت لاشعور زماں، مکاں سے پرے نکلنے کو بے چین ہوجاتے ہیں۔ نظم نے جب چولہ پہنا اور فیض احمد فیض سے گذر کر میراجی اور راشد کے قلم میں سماگئی۔ یہاں نثر کے غلبے نے نظموں کے پھیلاؤ کواس کی ہیئت کو انفرادیت دی۔ اور راشد کی نظم حسن کوزہ گر نے کہانی کی شکل اختیار کی۔ اس کے بعد آپ اخترالایمان کی نظم بازگشت میں بھی اس بات کو محسوس کرسکتے ہیں۔ علامتیں، استعارے، تشبیہات جوروایت کی مستحکم دیوار اور ادب کی تاریخ ساز اصناف ہیں۔ اس کے بغیر زبان کا لطف، بیان کا انداز، تصورکی تسکین اور قاری اور تخلیق کار کی تڑپ کے درمیان وسیلۂ اظہار ناممکن ہے۔ یہیں سے جدیدیت کا آغاز اور نظم کا تنوع کہہ سکتے ہیں۔ گو کہ غزل میں ایک موضوع کو سورنگ میں باندھاگیا اور فنی کمال کا اظہار کیاگیا۔ ایک استعارہ کئی رنگوں میں ڈھل کر کئی اذہان میں اپنی شکل کو اجاگر کرتا ہے۔ استعارہ ایک ایساتصور یا ایسی ذہنی تصویر ہے جو فن کے مظاہرے کو قوت دیتی ہے۔ دو لوگوں کے درمیان فکر و سوچ کا ایک انوکھا رشتہ استوار ہوتا ہے۔ اگر یہی استعارہ عام یا اجتماعی مفہوم کی تصویر اختیار کرلے تو دیومالائی حیثیت اختیار کرسکتا ہے۔
رچٹرڈزکہتا ہے:
From the tecnical point of view indeed the poets task is constantly that of finding ways and means of controlling feeling through metaphor.
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک عام استعارہ شاعری کے ذیل میں ایک الگ مفہوم رکھتا ہے اور وہ استعارہ اگر قاری کے خیالات کو شاعر سے ہم خیال کرنے کی قوت رکھتا ہو تو یہ شاعری کی فتح ہے۔ اور نظم اپنے اندر اس فن کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ملارمے کے سانیٹ میں Swan کا استعارہ صرف ذات کے کرب کا اظہار نہیں بنتا بلکہ اجتماعی مفہوم کا تصور ہوتا ہے۔ دراصل شاعری انسان کی ذہانت اور تخیل کا رابطہ ہے۔ جہان انسان اپنی ذات سے مطلق کون، کیوں، کیسے جیسے سوالات سے دوچار ہوتا ہے۔ اس فکر کا آغاز ڈیکارٹس کے I think ther fore I exist سے ہو لیکن اپنے وجود کا اقرار اپنی ذات کی کھوج کے بغیربے چین رہتا ہے۔ اس تشنگی کی تسکین اجتماعی شعور میں پوشیدہ ہے اسی تلاش کا نتیجہ یا وسیلۂ اظہار نظم کاوجود ہے۔ نظم اپنے اندر ایک نوع کی شکست عالم زماں مکاں پر نظر گہرے تفکر کے ساتھ ساتھ باہمی رشتوں اور سماج کے لوازمات کو جوڑ کر نئی توانائی بخشتی ہے۔
یہ نثر کی طرح بیان یا اس کی شرح کرنے کی کوشش نہیں کرتی، یہ کام نثر نگاروں کے لیے موزوں ہے۔ اسی لیے آج کی نظم ایک ایسے دور سے گذررہی ہے جہاں زبان، سماج، اقدار سیاست، معاشرت ایک بہت بڑا مسئلہ اپنے آپ میں ہیں۔ اگر اسے زبان یا آرٹ اور شاعری کا زوال کہہ دیا جائے تو جلد بازی ہوگی۔ کائنات کے ازلی اور ابدی سفر کے دوران انسان ہی ایک معمہ اور ہرلحظہ ارتقاء یا زوال کا شکار ہے۔ کئی زمانے ایسے گذرے ہیں جب فناکے بعد بقا کی منزلیں سامنے آتی ہیں۔ جس کی سب سے بڑی مثال موہن جودارد کی تہذیب ہے۔ اسی طرح شاعری بھی اپنے بچپن یا لڑکپن سے گذررہی ہے وہ کسی بھی زبان کی محتاج نہیں۔ لوگ گمراہ ہوجاتے ہیں اکثرنئی شاعری کرنے والے اپنے تخیل اپنے فن کو رہبربنانے کی بجائے اس بہتے دریا میں چھلانگ لگاتے ہیں۔ کچے پکے اظہارات، تنقیدی جملوں سے گھبراکر کسی بھی قافلے میں چل پڑتے ہیں انھیں خود اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ کہاں جارہے ہیں۔ ایک مبہم سی لکیر ہوتی ہے جیسے نثری نظم اور نثر کے درمیان، جہاں ہیئت اظہار کو نئی شکل دینے کو آمادہ ہوتی ہے۔ اگر وہ حقیقتاً جمال، خیال اور تجربے کو الفاظ میں ڈھالنے کی قوت رکھتی ہے تو انفرادی شکل کے نتیجے میں قاری سے متعارف ہوتی ہے اور ادب میں اپنا مقام پاتی ہے۔ ورنہ صرف me too ’میں بھی‘ کی طرح ایک قافلے میں قلمکار اپنے نام کے ساتھ شاعر کا لیبل لگا کر چل دیتے ہیں کبھی تعلقات کے زور پر کبھی جاہلوں کے گروہ میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
ایک نظم تمثال: ذہنی تصور(imagery) محاکات(visualisation) ارکان (pepiction) بحور(metre) اسلوب (style) لہجہ (tone) آہنگ (rhythm) اور اب اس عہد میں ڈرامہ، مکالمہ، کے لوازمات سے مل کر جنم لیتی ہے۔
گوپی چندنارنگ نے صحیح نشاندہی کی۔ ’معنیاتی نظام انتہائی مبہم اور گرفت میں نہ آنے والی چیز ہے۔ بحث و مباحثہ کی سہولت کے لیے چندالفاظ میں مقید تو کیا جاسکتا ہے۔ لیکن تمام معنیاتی کیفیات کا احاطہ نہیں کیاجاسکتا۔ اس بحث میں الفاظ کو محض اشاریہ سمجھناچاہیے اس کلی نظام کا جوان گنت استعاراتی اور ایمائی رشتوں سے عبارت ہے اور لامحدود امکانات رکھتا ہے جنھیں تخلیقی طور پر محسوس تو کیاجاسکتا ہے لیکن منطقی طور پر دو اور دو چار کی زبان میں بیان نہیں کیاجاسکتا۔‘ ہرزبان کی مجبوری یہ ہوتی ہے کہ وہ پہلے اپنے خیال کو مناسب الفاظ میں ڈھالے اور پھر ایسے قاری کو بھی جنم دے جو شاعری کی نبض سے دھڑکنیں گن سکے۔
نثری نظم میں نثر شاعری کے ان دروازوں کو کھولتی ہے جو شاعر اور ہیئت کا معاملہ ہو کہ آہنگ کو اپنانے کایاتجربات کو امیجری اشکال سے الفاظ تک کھینچ لانے کا ہر عہد میں تخلیق کار واقعہ، ماحولِ خواہش ضرورت کے مطابق کائنات کے ہیئت وعمل سے اپنے افکار و نظریات پر شعوری اور لاشعوری طور پر متاثر ہوتا ہے۔ یہی وسیلہ ایک تخلیق کار کو اختراعی عمل سے ارتقا کی جانب لے جاتا ہے۔ فنی اظہار بصیرت کو اپنے ڈھنگ سے قاری کے قلب کو بینائی دیتی ہے اور شاعری کا یہی کمال ہے۔ ہیئت ایک فن کی صورت میں اہم نہیں ہوتی لیکن اظہار کے وسیلے کو ہیئت ہی بیساکھیاں دیتی ہے۔
اردو شاعری اور غم و یاس کا موضوع بدن اور روح کی طرح ہے اکثر ہماری شاعری میں ان شاعروں کو کامیاب تصور کیا گیا جنھوں نے زندگی کی رنگینیوں پر موت کی تلخ حقیقتوں کو ترجیح دی۔ یہی وجہ تھی کہ بار بار عشق مجازی سے عشق حقیقی پر آکر تان ٹوٹتی ہے۔ غزل نے اس پیرہن کو پہن کر کئی محفلیں آباد کیں لیکن آج کے عہد کی نظم کچھ اور مانگتی ہے۔ دراصل انوکھا واقعہ انوکھی بات، چونکادینے والی اثرانگیزباتیں، گوکہ اس کا منبع غزل ہے۔ اگر دوسرا مصرعہ پہلے مصرعے کے برعکس نئی بات یا اس جہت کی طرف اشارہ کرے جہاں قاری کی سوچ نہ پہنچ سکی ہو تو قاری لطف اندوز ہوتا ہے اور غور و فکر کے دوازے بھی کھلتے ہیں۔ ادب کا صحیح مفہوم ہی شعور بیداری ہے جس پر نے کئی طرح چادریں ڈال رکھی ہیں اور فیشن کی طرح عجیب و غریب لوازمات میں الجھے ہیں۔ نظم کی آسان نظرآنے والی مشکل شکل نثری نظم ہے، جو آسانی سے گرفت میں نہیں آتی اور قاری کے لیے جس کا ذہن مخصوص بحراور آہنگ کا عادی ہے اسے اس جانب متوجہ کرنا مشکل عمل ہے۔ چونکہ شاعری کو نثر کی بہ نسبت یادرکھنا آسان ہے ہزاروں برس پہلے عربی اور سنسکرت میں یہ طریقے رائج رہے۔ اور ایک دور ایسا بھی تھا کہ نثر بھی شاعری کی طرح لکھی جانے لگی۔ ان الفاظ کو تلاش کیا گیا جو شاعری کے لیے موزوں رہے۔ اور سنسکرت کے آچاریوں نے نثر کو شاعری سے الگ نہیں ماناتھا نثر کی شعریت اور شعرکی شعریت میں اگر کوئی فرق ماناجاتا تھا وہ تھا نثری شاعری میں بحر کی غیرموجودگی۔ آج جو دنیا کی کئی زبانوں میں اور اردو زبان میں بھی عام ہورہی ہے۔ اسی طرح اسلوب بھی، طویل یا مختصر ساخت کے ساتھ ساتھ اوصاف جس میں تشبیہات ،استعارے، تلمیحات، احتجاج نثری نظم کا حصہ بنتے چلے گئے اور جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے کہانی کہا نی کے ساتھ ڈرامہ مکالمے بھی اس صنف کا حصہ بن گئے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی وسعت لامحدود فکری اور فنی دروازوں کو روشن کرتی ہے۔ جیسے اوپر غزل میں چونکادینے والے عمل کا ذکر کیا گیا اسی طرح آج نئی نسل اور نئی نظموں کی طرف اگر نظرڈالی جائے تو مغرب و مشرق کی بھی دوسری زبانوں کے ترجمے ہمیں کئی حیران کن جملوں یا مصرعوں سے متعارف کرواتے ہیں جس کا آغاز بہت پہلے ہی ہوچکا۔ حقیقت میں شاعری ایک فطری تقاضے کی تحت لفظوں میں تشکیل پاسکے تو انفرادیت اور جدت کے ساتھ ان موضوعات کو بھی فطرتاً اپنے دامن میں سمیٹتی ہے جو شاعر کی زندگی میں روز مرہ کی زندگی کا حصہ ہوتی ہیں۔ اور پھر انھیں موضوعات کو اٹھاکر تخیل کی بازیگری انوکھی اچھوتی پرتوں کو کھولتی ہے۔ جیسے ستارے اڑتے خوف زدہ، وہ برق جو تجھے ریزہ ریزہ کردے۔ اٹھا و نظریں پتھر کے ابوالہول، سیاہ رقص۔ وغیرہ اس موضوع کا مفصل جائزہ طوالت کا متقاضی ہے۔
یہاں اس بات کی خوشی ہے کہ اس نئے رنگ کی بدولت ان روایتی بندھے ٹکے لکیروں کو مٹانے کی دھن میں تخلیق کار اپنی ذات میں اتر کر تخیل کے آسمان میں پرواز کرتا ہے بصیرت کے نور میں نہاتا ہے اور ان نئی تصویروں کو الفاظ میں ڈھالنے کے عمل سے گذرتا ہے جو اسے مستقبل میں ایک نئی شناخت دے سکتا ہے۔ جہاں تک نثری شاعری اور نسائی ادب کا تعلق ہے۔ نسائی سوچ میں ایک انفرادی پہلو ہے اسی لیے لازمی اور فطری طور پر الفاظ، خیالات جذبات اظہار اپنے جنم کے ساتھ ہی تازگی، نوخیزی اور ندرت ساتھ لاتے ہیں۔ لیکن اس میں گمراہ کن ایک ہی بات ہے کہ اکثر شاعرات اپنے آپ کو ادب میں اپنی شناخت بنانے کی بجائے خواتین کی صف کو علیحدہ زمرے میں دیکھنا چاہتی ہیں جو خواتین کے مستقبل کے لیے کوئی تابناک شاہ راہ نہیں ہے۔ جذبات احساسات، نفسیات اور تجربات خود بخود اظہار کی صورت اختیار کرکے اپنی شناخت بنالیں گے لیکن صرف اور صرف ایک عورت کے مسائل کو پیش نظر رکھنا خواتین کی فہم اور تخیل کو محدود دائرے میں مقید کرتا ہے۔ سیاسی سماجی معاشری، موضوعات فلسفہ، سائنس، تاریخ تصوف وغیرہ آج اتناہی ایک خاتون کے ذہن اور تجربے کا حصہ ہیں جتناایک مرد کی زندگی میں ادب میں شاعری ہوکہ نثر قدرت کانہایت ہی خوبصورت عطیہ ہے وہ کسی صنف، کسی قوم، کسی مذہب کسی تحریک کسی نظریے کا محتاج نہیں۔ بلکہ خودساختہ، انسانی زندگی کا رہبر، ارتقاء کا زینہ ہے۔ عہد کی شناخت ہے اسے اپنے انفرادی رنگ اور فطری فضامیں سانس لینے کا موقع دے کر تخلیق کار کونئی منزلوں کی طرف گامزن ہونا ہے۔
Flat. 201, Fordham House, Harris Road
Benson Town, Bengalore - 560046
(Karnataka), Mob: 09243083204
قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے