31/1/19

جدید نظم سمت، رفتار و آہنگ مضمون نگار:۔ راشد انور راشد




جدید نظم سمت، رفتار و آہنگ

راشد انور راشد
آزاد اور حالی نے اپنی اجتہادی کاوشوں کے ذریعے نظم جدید کے جس تصور کو فروغ دیا تھا، اسی سلسلے کو شبلی، اکبر، سرور اور چکبست نے اپنی نظمیہ شاعری کی بدولت وسعت بخشی اور بیسویں صدی میں اقبال نے اس تصور کو عروج بخشا۔ اقبال کے بعد جوش، مخدوم، جمیل، فراق ، فیض، اختر الایمان، میراجی اور راشد وغیرہ نے اردو نظم کے کاروان کو ارتقا کی نئی منزلوں سے ہمکنار کیا۔ اس سلسلے میں سردار جعفری، منیر نیازی،مجاز، جذبی، اختر انصاری، ابن انشا، خلیل الرحمن اعظمی، شہریار ، ساقی فاروقی، ندا فاضلی اور دوسرے شاعروں کا بھی ذکر کیا جا سکتا ہے، جنھوں نے نئی نظم کو مختلف جہات سے روشناس کرادیا۔ ادبی سطح پر نظم کو مقبول بنانے میں رسائل و جرائد کے خصوصی شماروں نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ سوغات، شاعر، آجکل، اوراق، کتاب نما اور ذہن جدید نے بھی نظم سے متعلق خصوصی شمارے شائع کیے جن میں نظم کی ہیئت، فن اور اس کے ارتقائی تسلسل پر سیر حاصل گفتگو کے ساتھ نمائندہ نظموں کا قابل قدر انتخاب بھی شائع کیا گیا۔ بعض لوگوں نے انفرادی سطح پر بھی نظموں کے انتخاب شائع کیے جن کے ذریعے اردو نظم کی سمت و رفتار اور مختلف جہات کا اندازہ ہوتا ہے۔ ایسے تمام انتخابات میں خلیل الرحمن اعظمی کا انتخاب ادبی حلقوں میں زیادہ موضوع بحث رہا۔ دراصل یہ وہی انتخاب ہے جسے ’کتاب نما ‘نے خصوصی شمارے کے طور پر شائع کیا تھا۔ بعد میں علاحدہ طور پر اسے کتابی صورت میں بھی شائع کیا گیا۔ خلیل الرحمن اعظمی نے اپنے مقدمے میں منتخب نظموں اور مخصوص شعرا کے حوالے سے جو گفتگو کی ہے وہ آج بھی نئی نظم کے سلسلے میں بنیادی حوالے کا درجہ رکھتی ہے۔ بیسویں صدی کی چوتھی پانچویں دہائی میں ہندی میں ’نئی کہانی‘ اور ’نئی کویتا‘ کی اصطلاح شروع ہوئی تھی۔ ممکن ہے اسی طرز کو پیش نگاہ رکھتے ہوئے خلیل صاحب نے ’جدید نظم‘ کے بجائے ’نئی نظم‘ کی اصطلاح استعمال کی ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ’جدید نظم‘ کہنے سے قاری کا ذہن محض جدیدیت کے زیر اثر پروان چڑھنے والی نظم کی جانب ملتفت ہوتا ہو، جبکہ ’نئی نظم‘ کے ذریعے انھوں نے جدیدیت سے دو تین دہائیوں قبل کی نظموں کو بھی اپنے انتخاب میں جگہ دی ہے۔ بہر حال اس مقالے میں ’نئی نظم ‘ کے حوالے سے ہی گفتگو کی جائے گی۔ 
بیسویں صدی میں بہت سے سائنسی انکشافات ہوئے۔ نئے نئے نظریات سامنے آئے اور نت نئی فلسفیانہ تعبیروں نے غوروفکر کے پیمانے ہی تبدیل کر دیے۔ ترقی پسندتحریک کے تحت اردو نظم میں موضوع، ہیئت اور پیشکش کی سطح پر بے پناہ تبدیلیاں آئیں۔ 1947میں تقسیم ہند کا واقعہ رونما ہوا۔ خون کی ندیاں بہائی گئیں، لاکھوں لوگوں کو ہجرت کے کرب سے دو چار ہونا پڑا۔ اردو نظم نے ان موضوعات کو پوری شدت کے ساتھ اپنے دامن میں سمیٹا۔ بیسویں صدی کے نصف دوم میں جدیت کا رجحان سامنے آیا۔ فرد اپنی ذات کے خول میں سمٹ کر رہ گیا۔ تنہائی، مایوسی اور بے چارگی نے نظموں میں جگہ پائی۔ جدیدیت کے تحت اسی تصور کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔ اجتماعیت کے بجائے انفرادیت پر زور دیا گیا اور اس طرح نظم کے موضوعات تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتے چلے گئے۔ حیات و کائنات کے مختلف مسائل کا اظہار نظم میں ہونے لگا۔ ترقی پسند نظم نے بحیثیت مجموعی انسانیت کے مشترکہ درد کو اپنا موضوع بنایا تو درد سے کراہتی زندگی کو تقسیم کے بعد نظم میں اہم موضوع کے طور پر پیش کیا۔ جدیدیت کے تحت فرد کی ذاتی الجھنوں کو موضوع بنایا گیا تو فرائڈ کے نظریات کا اثر قبول کر کے جنسی گھٹن اور نفسیات کے پیچیدہ پہلوؤں کو غزل میں نمایاں کیا جانے لگا۔ فرائڈ کے ہی منفرد نظریے کی بنا پر خواب کی الجھنوں کا تصور سامنے آیا۔ اس نے مختلف مثالوں کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ خواب انسان کی ناکام حسرتوں اور خواہشوں کی تکمیل ہے۔ خواب میں انسان وہی دیکھتا اور دیکھنے کی کوشش کرتا ہے جو حقیقت میں ممکن نہیں ہو پاتا۔ اس بنا پر اردو نظم میں خواب اور زندگی کی ناکام حسرتوں کو اہم موضوع کے طور پر پیش کیا جانے لگا۔ اس نہج پر جہاں انسانی نفسیات کے پیچیدہ پہلوؤں کو اردو نظم میں جگہ ملی وہیں حیات و کائنات کے مختلف مسائل کامیابی کے ساتھ نظم میں نمایاں ہونے لگے۔ ان تبدیلیوں نے نظم میں انقلاب برپا کر دیا۔ نظم کے موضوعات میں ایسا تنوع پیدا ہوا کہ زندگی کا ہر موضوع اس کے دائرے میں شامل ہو گیا۔ خلیل الرحمن اعظمی نے ’نئی شاعری ‘ یا ’نئی نظم‘ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے 151
’نئی نظم اور نئی شاعری کے اس تصور نے جس رجحان کو تقویت دی ہے وہ تحریک حلقے، گروہ یا جماعت کی نفی کرتی ہے اور اس کے وسیلے سے پہچانی جانے والی شاعری سے مختلف ہے۔ یعنی نئی شاعری یا نئی نظم لکھنے والوں کا کوئی ایسا حلقہ یا جماعت نہیں جس سے وابستگی یا جس کی رکنیت کسی شاعر کو نیا کہلانے کا موجب بن سکے یا اس حلقے میں ایک بار داخل ہو کر شاعر کو یہ اطمینان ہو جائے کہ اب اسے نئے شاعر ہونے کی سند مل چکی ہے اور یہ اعزاز اس سے کبھی چھینا نہ جا سکے گا ۔۔۔۔۔۔
نئی شاعری کی نمایا ں خصوصیت تنوع ، رنگا رنگی اور پہلو داری ہے۔ نئی شاعری اب آزاد نظم کے مترادف نہیں سجھی جاتی۔ اس کی متعین اور سکہ بند ہیئت ہے اور اس کا بندھا ٹکا اسلوب، پابند، نیم پابند، معریٰ، آزاد ہر طرح کے اسالیب میں نئی جہتیں پیدا ہوئی ہیں اور نئی حسیت نے ان میں تازگی پیدا کی ہے۔ نئی پابند نظم۔پرانی پابند نظم کے درمیان اپنے ذائقے، اپنی خوشبو اور اپنے لہجے سے پہچانی جا سکتی ہے۔ یہی حال دوسری طرح کی نظموں کا ہے۔ سب سے اہم تبدیلی یہ ہوئی کہ اب نئی نظم نے غزل، قصیدہ، مرثیہ اور خطابیہ شاعری کی گھسی پٹی لفظیات سے چھٹکارا حاصل کر لیا ہے۔ نئی علامتیں، الفاظ کے نئے تلازمے، نئی امیج، نیا منظر نامہ اور نئی فضا کا ہر جگہ احساس ہوتا ہے۔ نئی نظموں نے اس دور میں خاص طور سے اپنے معنی خیز امکانات کو ابھارا ہے اور بعض شعرا نے اس پیرایۂ اظہار میں بڑی نوک اور دھار پیدار کی ہے۔‘‘
خلیل الرحمن اعظمی نے نئی نظموں کے حوالے سے جو معروضات پیش کیے ہیں، انھیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بلاشبہ 1936کے بعد لکھی گئی نمائندہ نظموں کا اگر ہم جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ سیدھے سادے انداز میں شعرا نے بلیغ اور فکر انگیز پہلوؤں کو پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ پیچیدہ موضوعات کو بھی نسبتاً واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ الفاظ کے غیر ضروری استعمال سے بھی پرہیز کیا گیا ہے اور کم سے کم الفاظ میں گہرے تجربات کو نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہیئت اور پیشکش کی سطح پر نئی نظم کے شاعروں میں دو متوازی میلانات ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ بعض شعرا نے پابند، نیم پابند اور نظم معریٰ کی ہیئت میں ہی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور آزاد نظم کے فارم کو اپنانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ ایسے شعرا میں فراق ، فیض، جذبی، مجاز، اختر انصاری، ابن انشا اور دوسرے شاعروں کا ذکر کیا جا سکتا ہے، جنھوں نے دانستہ طور پر پابند، نیم پابند اور نظم معریٰ کی ہیئت کو سامنے رکھ کر نظمیں کہیں۔ یہ تمام شعرا بدلتے ہوئے وقت کے زیر اثر رونما ہونے والی تبدیلیوں کا خاطر خواہ اثر قبول تو کر رہے تھے لیکن شعری اظہار کی سطح پر شاعری کی مستحکم و مروج ہیئتیں ہی ان کے مزاج سے زیادہ میل کھاتی تھیں۔ انھوں نے جذبات کی سطح پر نئی تبدیلیوں کا خیر مقدم تو کیا لیکن ان تبدیلیوں کو جب شعری سطح پر برتنے کی باری آئی تو نظم کے کلاسیکی فارم کو ہی اپنے لیے قابل اعتنا جانا اور پرانے سانچوں میں نئے جذبات پیش کرنے کی جانب خصوصی توجہ مرکوز کی۔ فراق ، فیض، جذبی، مجاز، اختر انصاری اور ابن انشا وغیرہ کی منتخب نظموں کے مخصوص ٹکڑے ملاحظہ ہوں، جن میں پابند، نیم پابند اور نظم معریٰ کی ہیئت کو بہ طور خاص برتا گیا ہے۔ ان مثالوں میں مثلث ، مربع اور قطع بند اشعار کی مختلف نوعتیں بھی دیکھی جا سکتی ہیں : 
الم نصیبوں ، جگر فگاروں کی / صبح افلاک پر نہیں ہے
جہاں پہ ہم تم کھڑے ہیں دونوں / سحر کا روشن افق یہیں ہے
یہیں پہ غم کے شرار کھل کر / شفق کا گلزار بن گئے ہیں
یہیں پہ قاتل دکھوں کے تیشے / قطار اندر قطار کرنوں
کے آتشیں ہار بن گئے ہیں / یہ غم جو اس رات نے دیا ہے
یہ غم سحر کا یقیں بنا ہے یقیں جو غم سے کریم تر ہے
سحر جو سب سے عظیم تر ہے۔
(ملاقات151 فیض)
ٹمٹماتا ہے فلک پر اس بھیانک رات میں /اک ستارہ ہائے ہائے
ایک ننھا سا شرارہ ہائے ہائے /ایک نازک برق پارہ ہائے ہائے
جھلملاتا ہے فلک پر اس بھیانک رات میں 
دیکھنا یارو یہ گرتوں کا سہارا تو نہیں /یہ ستارہ اپنی قسمت کا ستارہ تو نہیں۔
(ایک ستارہ 150 اختر انصاری )
جی میں آتا ہے یہ مردہ چاند تارے نوچ لوں /اس کنارے نوچ لوں اور اس کنارے نوچ لوں
ایک دو کا ذکر کیا سارے سارے کے نوچ لوں /اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں
بڑھ کے اس اندر سبھا کا سازو ساماں پھونک دوں /اس کا گلشن پھونک دوں، اس کا شبستاں پھونک دوں
تختِ سلطاں کیا میں سارا قصرِ سلطاں پھونک دوں /اے غم دل کیا کروں، اے وحشتِ دل کیا کروں
(’آوارہ ‘ 150مجاز)
ہائے جلتی ہوئی حسرت یہ تری آنکھوں میں /کہیں مل جائے محبت کا سہارا تجھ کو
اپنی پستی کا یہ احساس ، پھر اتنا احساس /کہ نہیں میری محبت بھی گوارا تجھ کو
اور یہ زرد سے رخسار، یہ اشکوں کی قطار /مجھ سے بیزار ، مری عرضِ وفا سے بیزار۔
(’طوائف‘150 جذبی)
ہمیں گرد بن کرپسِ کارواں دھندلے دھندلے سے قدموں پہ جمتے رہیں گے
ہمیں راستے کے ہر اک موڑ پر اک نہ اک عذر پر یوں ہی تھمتے رہیں گے
مگر دور کی منزلوں کی یہ راہیں تو ویران اب تک ہوئی ہیں نہ ہوں گی
جری شہسواروں کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے انجان اب تک ہوئی ہیں نہ ہوں گی
سمجھتے ہیں ہم آنے والا زمانہ تمھارا ہے لوگو، ہمارا نہیں ہے
مگر اپنے پانو کہ تھک سے گئے ان میں اورآگے بڑھنے کا یارا نہیں ہے
یہی راستہ ہے رکے تو گئے، رات لمبی ہو یا بات لمبی ہو جاؤ
وہ پورب میں ممیاتی بھیروں کے گلے کے باڑے کے پہلو میں دہکا الاؤ۔
(’افتاد‘150 ابن انشا)
ان نظموں میں انقلاب کی گونج واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے، لیکن اس گونج میں بھی لہجے کی غنائیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ نظموں کے یہ نمونے ہمارے جذبات کو برا نگیختہ نہیں کرتے بلکہ ہمارے سوئے ہوئے خمیر کو بیدار کرتے ہیں اور بڑے سلیقے سے ہمارے عزم، جوش اور ولولے کو ایک خاص نہج پر عمل پیرا ہونے کی ترغیب دیتے ہیں۔ جن شاعروں کی منتخب نظمیں اوپر مثال کے طور پر پیش کی گئی ہیں، وہ تمام اپنی شاعری میں اس بات کی شعوری کوشش کرتے ہیں کہ آنکھوں میں پلنے والے سنہرے خواب کسی بھی طرح خوبصورت تعبیروں سے ہمکنار ہو پائیں۔ ان شاعروں نے بنیادی طور پر خارجی حقیقتوں اور ان کے سماجی تجزیوں کو پیش کرنے پر بہ طور خاص توجہ دی۔ ایک خاص طرح کی نغمگی ان کی نظموں میں محسوس کی جا سکتی ہے۔ ان شعرا نے شعوری طو رپر گھن گرج اور بلند آہنگی کو دوسرے شعرا کی مانند فیشن کی طرح نہیں اپنایا۔ لہجے کا دھیما پن اور اظہار کی شائستگی ان کی نظموں کے حسن میں اضافہ کرتی ہیں۔ نظموں کے سلسلے میں انھوں نے سادہ اور سلیس انداز اختیار کرنے کی کوشش کی۔ ان شعرا نے پیشکش کی سطح پر ہیئتی تجربوں کو اہمیت نہیں دی، جس عہد میں فراق، جذبی، مجاز، اخترانصاری، ابن انشا اور دوسرے لوگ نظمیں کہہ رہے تھے۔ اس عہد میں آزاد نظم کا فارم بڑے پیمانے پر استعمال کیا جانے لگا تھا اور بیشتر شاعروں نے اس ہیئت کو اپناتے ہوئے نظمیں کہیں، لیکن شعری پیشکش کا ایک مخصوص معیار رکھنے کی بنا پر ان شعرا نے اپنے مخصوص مزاج کی بنا پر ہیئت کی اس تبدیلی کو لائق اعتنا نہیں گردانا اور معریٰ نظموں کے ذریعے اپنے جذبات و محسوسات کو پیش کرتے رہے۔ بعض شاعروں نے آزاد نظم کی ہیئت بھی اختیار کی، لیکن معریٰ نظموں کی ہیئت میں بھی نظمیں لکھتے رہے۔ ایسے شاعروں میں سردار جعفری اور اختر الایمان کا ذکر خصوصی طور پر کیا جا سکتا ہے۔ ان دونوں شاعروں نے اپنی ذاتی زندگی اور اس کی بے شمار یادوں کو اپنی نظموں میں بنیادی موضوع بنا کر پیش کیا ہے، لیکن ان کی نظموں کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ اپنی ذات کے حوالے سے دنیا کو دیکھنے، سمجھنے اور پرکھنے کی کوشش بیشتر نظموں میں موجود ہے۔ ان معنوں میں بالکل ذاتی نوعیت کی نظمیں بھی ہمعصر معاشرے کی چیرہ دستیوں کو نمایاں کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ سردار جعفری اور اختر الایمان کی نظموں کا جائزہ لینے پر اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا عہد سیاسی اعتبار سے ہنگامہ خیز تھا۔ سماجی ، تہذیبی، معاشی اورثقافتی سطح پر پورا معاشرہ شدید بحران سے دو چار تھا۔ اخلاقی قدریں پامال ہو رہی تھیں۔ قصباتی زندگی کی معنویت کو شہر کی پر تصنع زندگی نے نگلنا شروع کر دیا تھا۔ مفاد پرستی کے بڑھتے ہوئے رجحان نے ضمیر پرستوں کو بھی بے حسی کا لبادہ اوڑھنے کے لیے مجبور کر دیا تھا۔ سردار جعفری اور اختر الایمان کی نظموں میں یہ کرب پوری شدت کے ساتھ نظم ہوا ہے جس کے بیان میں درد مند دل شاعر ہر لمحہ خون کے آنسو روتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نظمیں پڑھنے کے دوران زندگی کی بیان کی گئی اذیتوں میں ہم خود بھی شریک ہو جاتے ہیں۔ 
سردار جعفری اور اختر الایمان کی شاعری بندھے ٹکے نظریات سے ماورا ہے۔ اپنے عہد میں فروغ پانے والے نظریات سے وہ قطعی انجان نہ تھے، اس کے باوجود انھوں نے اپنے آپ کو مخصوص حصار میں مقید کر لینا مناسب نہ جانا اور دل کی آواز پر لبیک کہتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ بدلتے ہوئے عہد کے باوجود ان دونوں کی شاعری اپنے اندر غضب کی کشش رکھتی ہے۔ ان کی نظموں میں ماضی ایک طاقت و رجحان کی حیثیت سے ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ زندگی کی خوشگوار قدروں کی دلفریب یادیں کسی نہ کسی شکل میں ان کی نظموں کو قوت بخشتی ہیں۔ بمبئی جیسے بڑے اور تیز رفتار شہر کا حصہ ہوتے ہوئے بھی وہ تصور میں اسی قصبے میں جیتے رہے جہاں ان کے بچپن کے یادگار لمحے گزرے تھے، لیکن اس بنا پر انھیں ماضی پر ست ہرگز نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ان کی نظموں میں بیان کی گئی یادیں کہیں نہ کہیں اپنا رشتہ حال اور مستقبل سے بھی قائم کرتی ہیں۔
میں ایک گریزاں لمحہ ہوں / ایام کے افسوں خانے میں
میں ایک تڑپتا قطرہ ہوں /مصروفِ سفر جو رہتا ہے
ماضی کی صراحی کے دل سے /مستقبل کے پیمانے میں 
میں سوتا ہوں اور جاگتا ہوں/اور جاگ کے پھر سو جاتا ہوں
صدیوں کا پرانا کھیل ہوں میں /میں مر کے امر ہو جاتا ہوں 
(’میرا سفر‘150 سردار جعفری )
اس بھرے شہر میں ایسا کوئی نہیں /جو مجھے راہ چلتے کو پہچان لے
اور آواز دے ’اوبے او سر پھرتے /دونوں اک دوسرے سے لپٹ کر وہیں
گردو پیش اور ماحول کو بھول کر /گالیاں دیں، نہیں، ہاتھا پائی کریں
پاس کے پیڑ کی چھاؤں میں بیٹھ کر /گھنٹوں اک دوسرے کی سنیں اور کہیں
اور اس نیک روحوں کے بازار میں /میری یہ قیمتی بے بہا زندگی
ایک دن کے لیے اپنا رخ موڑ لے ۔
(’تبدیلی‘ 150 اختر الایمان)
نئی نظم کے سفر میں زیادہ تر شعرا ایسے ہیں جنھوں نے آزاد نظم کے فارم کو اپنے شعری اظہار کے لیے کامیابی کے ساتھ برتنے کی کوشش کی ۔ ایسے شعرا میں ن م راشد ، میرا جی، مخدوم،، خلیل الرحمن اعظمی، شہریار، محمد علوی، ندا فاضلی، مظہر امام، زبیر رضوی وغیرہ کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ ان شاعروں کی نظموں کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ یہ شعرا کسی ایک نظریے سے اتفاق نہیں کرتے بلکہ ان کے یہاں مختلف نظریات کی کارفرمائی دیکھنے کو ملتی ہے۔ موضوعات کو برتنے کے دوران ان شعرا نے کہیں بھی توازن اور اعتدال کا دامن نہیں چھوڑا ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں باطن اور خارج کے درمیان بھی غضب کا توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے باطنی محسوسات، خارجی محسوسات سے پوری طرح ہم آہنگ ہو گئے ہوں۔ اپنی نظموں میں ان شعرا نے اس زندگی کے نشیب و فراز کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے جو زندگی ان کے آس پاس اپنی تمام تر خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ جلوہ گر رہی ہے۔ ان کی نظمیں انسانی نفسیات کے کلیدی پہلوؤں سے وابستہ دکھائی دیتی ہیں۔ ایک حساس فنکار کی مانند ان شعرا نے زندگی کے تمام تر پہلوؤں کا جائزہ لینے میں دلچسپی دکھائی ہے۔ ان کی نظموں میں جہاں معاشی ابتری کا احساس ہوتا ہے وہیں دولت کی غیر مساوی تقسیم کے خلاف قدم قدم پر صدائے احتجاج بھی بلند ہوتی ہے۔ زندگی کا چھوٹے سے چھوٹا واقعہ ان کی نگاہوں سے اوجھل نہیں رہتا۔ معاشرے کے ایک حساس فرد کی مانند ان کا ذاتی وجود بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ مختلف کیفیات سے دو چار دکھائی دیتا ہے۔ زندگی کے اتار چڑھاؤ کی طرح ان کی ذہنی سطح پر بھی ہر پل تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ 
ایک بوڑھا سا تھکا ماندہ سا رہوار ہوں میں /بھوک کا شاہوار
سخت گیر اور تنو مند بھی ہے /میں بھی اس شہر کے لوگوں کی طرح
ہر شب عیش گزر جانے پر /بہر جمع خس و خاشاک نکل جاتا ہوں
چرخ گرداں ہے جہاں / شام کو پھر اسی کا شانے میں لوٹ آتا ہوں
بے بسی میری ذرا دیکھ کہ میں /مسجد شہر کے میناروں کو 
اس دریچے سے میں پھر جھانکتا ہوں /جب انھیں عالمِ رخصت میں شفق چومتی ہے۔
(’دریچے کے قریب‘ 150 ن م راشد)
سمٹ کر کس لیے نقطہ نہیں بنتی زمیں ؟ کہہ دو
یہ کیسا پھیر ہے، تقدیر کا یہ پھیر تو شاید نہیں، لیکن یہ پھیلا آسمان اس وقت کیوں دل کو لبھاتا تھا ۔
حیات مختصر سب کی بہی جاتی ہے اور میں بھی 
ہر اک کو دیکھتا ہوں، مسکراتا ہے کہ ہنستا ہے
کوئی ہنستا نظر آئے، کوئی روتا نظر آئے
میں سب کو دیکھتا ہوں، دیکھ کر خاموش رہتا ہوں
مجھے ساحل نہیں ملتا ۔ 
(’مجھے گھر یاد آتا ہے‘150 میراجی‘
شاعر کو اظہار پر اگر قدرت حاصل ہوتو وہ ان دیکھی دنیاؤں کی تصویر کشی بھی اتنے سلیقے سے کرتا ہے کہ پڑھنے والا شعوری طور پر اپنے آپ کو اس منظر میں شامل پاتا ہے۔ راشد کو بھی یہ کمال حاصل ہے۔ انھوں نے اپنی نظموں کا خاکہ ہندوستانی تہذیب کے بجائے عربی اور ایرانی تہذیب کے اشتراک سے تیار کیا اور ان کی پیش کش میں بھی مخصوص علائم اور اساطیر کو بہ طور خاص اہمیت دی۔ انھوں نے اسلامی اساطیر اور نیم تاریخی واقعات سے اپنی نظموں کا مواد حاصل کیا لیکن انھیں سرسری طور پر ہو بہو بیان کرنے کے بجائے انھوں نے اپنے تخلیقی ذہن کا استعمال کرتے ہوئے واقعات کی بالکل نئی توجیہہ پیش کرنے میں دلچسپی دکھائی۔ اس بنا پر ان کی نظموں میں تلمیحی اشارے توضرورموجود ہوتے ہیں لیکن تخلیقی ہنر مندی کے سبب بیان کیے گئے واقعات میں غضب کا تنوع دکھائی دینے لگتا ہے۔ حقیقی زندگی میں میراجی قدم قدم پر نفسیاتی الجھنوں کا شکاررہے۔ یہی الجھنیں ان کی نظموں میں بھی موجود ہیں جو ان کے ذہنی انتشار کا ثبوت ہیں۔ میرا جی کی شخصیت پر اسرار تھی۔ ان کے مزاج میں افسردگی کا دخل تھا۔ زندگی کے تئیں ان کا رویہ قدرے مبہم تھا جس کی بنا پر خود ان کی شخصیت اور شاعری کی تفہیم میں دشواریاں پیش آتی ہیں۔ ان کی نظموں میں جنسی خواہشات کا غلبہ ہے لیکن انھیں خواہشات میں ناتکمیلیت کا احساس بھی پوشیدہ ہے جو ان کی شخصیت اور شاعری کی نفسیاتی الجھنوں کو نمایاں کرتا ہے۔ 
نئی نظم میں رفتہ رفتہ جدید نظم کا بھی غلبہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ جدیدیت چوں کہ صنعتی تہذیب کی پیداوار تھی۔ لہٰذا مادیت کا رجحان فروغ پاتا گیا۔ مادیت نے اجتماعی شعور کے بجائے انفرادی شعور کو فروغ دیا۔ فرد کے سوچنے سمجھنے کے رویے میں انقلابی تبدیلی آئی۔ پہلے وہی سماج اور معاشرے کی فلاح و بہبودی سے متعلق غور کیا کرتا تھا۔اب اسے اپنی زندگی اور اس زندگی کے متعدد مسائل ہی زیادہ اہم محسوس ہونے لگے اور وہ انھیں کے حصار میں الجھتا چلا گیا۔ رفتہ رفتہ اس کے انفرادی ذہن نے معاشرے کے متعلق سوچنا چھوڑ دیا اور وہ اپنی ذات کے خول میں بند ہوتا چلا گیا۔ جب اس نے اپنی ذات کے نہاں خانوں میں جھانکنے کی کوشش کی تو اسے ایک ایسی دنیا نظر آئی جس سے اب تک وہ ناواقف تھا۔ فرد نے اپنے اندر کی دنیا کی از سر نو بازیافت میں دلچسپی دکھائی اور رفتہ رفتہ سماج سے کٹتا چلا گیا۔ جدید معاشرے کا عام فرد بھی مشینی زندگی کا حصہ بن گیا اور اپنے علاوہ سماج میں اسے کسی سے بھی کوئی مطلب نہیں رہ گیا۔ لیکن اس عمل میں وہ مزید تنہائی کا شکار ہو گیا۔ تنہائی کے شدید احساس نے انسان کو مایوسی اور محرومی کی مختلف کیفیتوں میں مبتلا کیا اور جدید شعرا نے ان کیفیتوں کو نظموں میں کامیابی کے ساتھ نمایاں کیا۔ جدید نظموں میں زندگی کی خوش گوار قدروں سے محرومی بھی قدم قدم پر اجاگر ہوتی ہے۔ آدرش کا فقدان ذہنی انتشار کو نشان زد کرتا ہے۔ تہذیبی زوال جہاں انسانی زندگی کے کھوکھلے پن کو نمایاں کرتا ہے وہیں انتشار ذات کی مختلف کیفیات بھی جدید نظم میں پوری شدت کے ساتھ ظاہر ہوتی ہیں۔ جدید نظموں میں تحفظ ذات کا مسئلہ، ایک اہم مسئلے کے طور پر رونما ہوتا ہے۔ فرد ایک ایسے معاشرے میں سانس لے رہا ہے جہاں اس کا وجود کسی طرح محفوظ نہیں رہ گیا ہے۔ اگر وجود کسی طرح باقی بھی ہے تو اس کی اندرونی ذات شکست و ریخت کے عمل سے دو چار ہو رہی ہے151
ہر اک سایہ /چلتی ہوا کا پر اسرار جھونکا ہے /جو دور کی بات ہے
دل کو بے چین کر کے چلا جائے گا /ہر کوئی جانتا ہے
ہواؤں کی باتیں کبھی دیر تک رہنے والی نہیں ہیں
کسی آنکھ کا سحر دائم نہیں ہے /کسی سایے کا نقش گہرا نہیں ہے۔
(’سایے ‘ 150 منیر نیازی)
میں گوتم نہیں ہوں/مگر میں بھی جب گھر سے نکلا تھا / یہ سوچتا تھا
کہ میں اپنے آپ کو ڈھونڈنے جا رہا ہوں /کسی پیڑ کی چھاؤں میں
میں بھی بیٹھوں گا / اک دن مجھے بھی کوئی گیان ہوگا/مگر جسم کی آگ
جو گھر سے لے کر چلا تھا / سلگتی رہی / گھر کے باہر ہوا تیز تھی
اور بھی یہ بھڑکتی رہی / ایک اک پیڑ جل کر ہوا راکھ
میں ایسے صحرا میں اب پھر رہا ہوں / جہاں میں ہی میں ہوں / جہاں میرا سایہ ہے 
سایے کا سایہ ہے /اور دور تک /بس خلا ہی خلا ہے ۔
(’میں گوتم نہیں ہوں‘ 150 خلیل الرحمن اعظمی )
یہ کیسی سازش ہے جو ہواؤں میں بہہ رہی ہے / میں تیری یادوں کی ساری شمعیں
بجھا کے خوابوں میں چل رہا ہوں /تری محبت مجھے ندامت سے دیکھتی ہے
وہ آبگینہ ہوں خواہشوں کا /کہ دھیرے دھیرے پگھل رہا ہوں / یہ میری آنکھوں میں
کیسا صحرا ابھر رہا ہے / میں بال روموں میں بجھ رہا ہوں/شراب خانوں میں جل رہا ہوں
جو میرے اندر دھڑک رہا تھا /وہ مر رہا ہے ۔
(’نوحہ‘ 150 ساقی فاروقی)
نہ فرد ہی کا مکاں سلامت / نہ اجتماعی وجود ہی زیر سائباں ہے
کوئی خدا تھا تو وہ کہاں ہے ؟ /کوئی خدا تو ہے وہ کہاں ہے ؟
مہیب طوفاں مہیب تر ہے /پہاڑ تک ریت کی طرح اڑ رہے ہیں
بس ایک آواز گونجتی ہے /مجھے بچاؤ، مجھے بچاؤ /مگر کہیں بھی اماں نہیں ہے
جو اپنی کشتی پہ بچ رہے گا / وہی علیہ السلام ہوگا ۔
(’اکھڑتے خیموں کا درد‘ 150 مظہر امام)
دواؤں کی الماریوں سے سجی اک دکاں میں / مریضوں کے انبوہ میں مضمحل سا
اک انسان کھڑا ہے / جو اک نیلی کبڑی سی شیشی کے سینے پہ لکھے ہوئے
ایک اک حرف کو غور سے پڑھ رہا ہے / مگر اس پہ تو ’زہر‘ لکھا ہوا ہے
اس انسان کو کیا مرض ہے / یہ کیسی دوا ہے ؟۔
(’نیا امرت‘ 150 شہریار)
ان نظموں کے ذریعے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ زندگی اور کائنات کی پیچیدہ گتھیاں ہر لمحہ جدید شاعروں کو ذہنی اذیتوں میں مبتلا رکھتی ہیں۔ انسانیت کی بقا اور وجود انسانی کی تعظیم کو انھوں نے بنیادی موضوع کے طور پر اپنی نظموں میں پیش کیا ہے۔ ان شعرا نے اپنی نظموں کے ذریعے جبرو استبداد ، عدم مساوات، استحصال اور نام نہاد تہذیب انسانی کی فتنہ انگریزیوں پر سخت چوٹ کی ہے۔ یہ شعرا اپنی نظموں کے ذریعے موہوم ثقافت کی مذمت اور بے رحم صداقت کی شدت کو نمایاں کرتے ہیں۔ 
بیسویں صدی کے نصف دوم میں منظر عام پر آنے والی نظمیہ شاعری کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ صارفی عہد کا انتشار مشترکہ طور پر جدید نظموں میں اجاگر ہوا ہے۔ اس فضا میں سانس لینے والا انسان ہر قدم پر شکست و ریخت کے عمل سے دو چار ہے، لیکن نظم کے چنندہ شاعروں نے اپنی شاعری کے ذریعے آنکھوں کے بجھتے ہوئے دیوں میں ہر لمحہ زندگی کی چمک برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ ان شعرا کے نزدیک اس کی ٹمٹماتی لو کا تحفظ زندگی کا ایک اہم فریضہ ہے، کیوں کہ اس ضمن میں ذرا سی کوتاہی اپنے آپ کو زندہ درگور کرنے کے مترادف ہے۔ نئی نظم کے شاعروں نے اپنی نظموں میں مخصوص کیفیات کی تصویر کشی کے لیے جو صلاحیتیں استعمال کی ہیں، جن استعاروں کا سہارا لیا ہے اور ذہن میں پوشیدہ منظر کی ہو بہو عکاسی کے لیے لفظیات کا تانہ بانہ جس طرح بُنا ہے، اس سے کائنات کا ایک وسیع منظر نامہ پوری طرح روشن ہوجاتا ہے۔ بعض نظمیں مختصر ہونے کے باوجود ذہن و دل پر خاص تاثر مرتب کرتی ہیں، کیوں کہ ان نظموں میں برتے گئے اشارے، خیال کی وسعتوں کو مزید نمایاں کرتے ہیں۔

Mr. Rashid Anwar Rashid
Department of Urdu
Aligarh Muslim University
Aligarh - 200002
Mob:- 09358257137







قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں