15/1/19

بلراج ساہنی مضمون نگار:۔ انیس امروہوی





بلراج ساہنی



انیس امروہوی
ہندوستان کے صوبہ پنجاب نے جہاں زندگی کے دُوسرے شعبوں میں بڑے بڑے فنکار پیدا کیے ہیں، وہیں فلمی دُنیا کو بھی کئی اہم ستون بخشے ہیں۔ پرتھوی راجکپور، دلیپ کمار، ساحر لدھیانوی، راجکپور، دھرمیندر، راج کھوسلہ، بی۔ آر چوپڑہ، یش چوپڑہ، نور جہاں، پران، راجندر سنگھ بیدی اور راجیندر کمار وغیرہ کے نام فلمی تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ اُسی پنجاب نے، چاہے وہ پاکستان کا پنجاب ہو یا ہندوستان کا پنجاب۔۔۔ یا ہم یوں کہیں کہ غیر منقسم پنجاب نے ایک بہت بڑے فنکار کو جنم دیا جو آگے چل کر فلمی دنیا کا اہم ستون ثابت ہوا۔
بلراج ساہنی کا جنم یکم مئی 1913 کو راولپنڈی میں ہوا تھا، جو تقسیم وطن کے بعد اب پاکستان میں ہے۔ راولپنڈی دو بڑے شہروں، لاہور اور پیشاور کے درمیان میں ایک نسبتاً چھوٹا شہر تھا۔ پیشاور کے لوگ پرانی وضع کے تھے، جبکہ لاہور نئی روشنی کا شہر تھا، لیکن بلراج جی کے بچپن میں راولپنڈی میں بھی نئی روشنی ہونے لگی تھی، اور قدیم شہر جدیدیت کی طرف گامزن ہوگیا تھا۔ ہندوستان کی تحریک آزادی کی وجہ سے بھی لوگوں میں ایک نیا سیاسی شعور بیدار ہونے لگا تھا۔ غیر ملکی کپڑوں کی ہولی جلائی جانے لگی تھی اور نمک کا قانون بھی توڑا جانے لگا تھا۔
بلراج ساہنی کی زندگی کی کہانی بھی اپنے آپ میں ایک عجیب وغریب داستان ہے۔۔۔ بڑی سادہ سی زندگی، مگر کتنی جدوجہد بھری۔ بلراج ساہنی کے والد ہربنس لال ساہنی راولپنڈی کے چھاچھی محلہ کے ایک دو منزلہ مکان میں اپنی بیوی لکشمی، دو بیٹوں، بلراج اور بھیشم اور دو بیٹیوں، ویراں اور سمترا کے ساتھ رہتے تھے۔ ان سب بچوں میں تیسرے نمبر پر بلراج ساہنی تھے اور بھیشم سب سے چھوٹے تھے۔ ان کے والد کپڑے کا کاروبار کرتے تھے، جس میں کمیشن کے طور پر اوسط آمدنی ہو جایا کرتی تھی۔ ان کے والد کی بازار میں کوئی دوکان نہیں تھی، بلکہ گھر پر ہی مکان کے نچلے حصے میں انھوں نے ایک چھوٹا سا دفتر بنا لیا تھا۔ خاندان کے سب لوگ گھر کے اوپری حصے میں رہتے تھے۔ بلراج جی کے والد ہربنس لال ساہنی آریہ سماجی خیالات کے تھے اور راولپنڈی کے آریہ سماج کے منتری بھی تھے۔ ان دِنوں آریہ سماج کا ہمارے معاشرے پر اثر بڑھ رہا تھا اور مورتی پوجا، مذہبی ڈھونگ اور اندھے عقائد و روایات کے خلاف ویدک ادب، سنسکرت زبان اور سچے صوفی ازم کے رجحانات سماج پر کافی اثر ڈال رہے تھے۔
بلراج ساہنی اور اُن کے چھوٹے بھائی بھیشم ساہنی کو بچپن میں گروکل میں سنسکرت پڑھنے کے لیے بھیجا گیا، مگر وہاں دونوں کا دل نہیں لگا اور ایک دن بلراج ساہنی نے اپنا فیصلہ اپنے والد کو سنا دیا کہ وہ اب گروکل میں نہیں بلکہ اسکول میں پڑھیں گے۔ اُن کے والد اس بات سے حیران رہ گئے، مگر حقیقت میں بلراج ساہنی نے جیسے ان ہی کے دل کی بات کہہ دی تھی۔ وہ اپنا سارا کام اُردو یا انگریزی میں کرتے تھے، اور یہ سمجھتے تھے کہ نئی طرز کی تعلیم اب اُن کے بچوں کے لیے بھی ضروری ہو گئی ہے۔ ان کی والدہ بھی بچوں کو نئی تعلیم دلانے کے حق میں تھیں، اس لیے دونوں بھائیوں کو اسکول میں داخل کرا دیا گیا۔ بڑے بھائی بلراج ساہنی چھوٹے بھائی بھیشم ساہنی سے صرف دو سال ہی بڑے تھے، مگر انہیں چوتھی کلاس میں اور بھیشم ساہنی کو پہلے درجے میں داخلہ ملا۔
بلراج ساہنی لڑکپن سے ہی اپنا ادبی رجحان نظموں کے ذریعے ظاہر کرنے لگے تھے، صرف پندرہ برس کی عمر میں ہی وہ اردو میں شعر کہنے لگے۔ ایک پوری نظم انگریزی میں بھگت سنگھ کی یاد میں کہہ ڈالی۔ بلراج اور بھیشم دونوں بھائیوں نے مڈل کلاس تک کی تعلیم راولپنڈی میں ہی حاصل کی، بعد میں اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ لاہور چلے گئے۔
بلراج ساہنی کو بچپن سے ہی ادبی ماحول اپنے خاندان میں ہی مل گیا تھا۔ ان کی دو پھوپی زاد بہنیں کشمیر میں رہتی تھیں، جن میں سے ایک پروشارتھ وتی کے شوہر جانے مانے ادیب اور مدیر چندر گپت وِدیا لنکار تھے، جو ادب پر اکثر بحثیں کرتے رہتے تھے۔ بلراج ساہنی نے بچپن میں اپنی والدہ سے بھی سنا تھا کہ ان کی دادی بھی کویتا کہتی تھیں اور ان کے کاروباری والد نے بھی بتایا تھا کہ ایک زمانے میں انھوں نے بھی ایک ناول لکھا تھا، مگر وہ شائع نہیں ہو سکا تھا۔
بلراج ساہنی کی تعلیم ایم۔اے انگریزی تک ہونے کے بعد ان کے والد ہربنس لال ساہنی نے ان کو اپنے کپڑے کے کاروبار میں شامل کر لیا۔ شادی کے بعد 1937 میں بلراج ساہنی نے والد اور چھوٹے بھائی بھیشم ساہنی کو کاروبار اور دفتر کی ذمے داریاں سونپ کر گھر والوں سے الوداع کہا اور اپنی بیوی دمینتی کے ساتھ کولکاتہ میں رابندر ناتھ ٹیگور کے شانتی نکیتن چلے گئے، جہاں انھوں نے ہندی اور انگریزی کے استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
شانتی نکیتن کا ماحول بلراج ساہنی کے مزاج کے عین مطابق تھا۔ وہاں پہنچ کر بلراج کے دل نے گواہی دی کہ یہی زندگی ہے جو وہ جینا چاہتا ہے۔ شروع شروع میں شانتی نکیتن کے پُرسکون ماحول میں بلراج ساہنی کا دل خوب لگا، مگر جلد ہی وہ وہاں کی یکسانیت اور موسیقی ریز ادبی ماحول سے اُکتا گئے۔ ان کو وہاں کی شانت اور پُرسکون زندگی سے اُلجھن سی ہونے لگی، کیونکہ ان کے دل میں کچھ کر گزرنے کا ارمان جوش مار رہا تھا۔ بلراج ساہنی کے دل میں ملک و قوم کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دینے کا جذبہ موجزن تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے ملک کی روح، ہندوستان کی آتما اُن کو اپنی طرف بلا رہی ہے۔ ملک و قوم کی اس آواز پر بلراج ساہنی مہاتما گاندھی کے پاس وَردھا جا پہنچے۔
وردھا پہنچ کر انھوں نے رسالہ ’نئی تعلیم‘ کی ادارت اپنے ذمے لے لی۔ ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے تھے کہ 1939 میں بلراج ساہنی کو بی۔ بی۔ سی لندن سے مراسلہ ملا کہ ان کا انتخاب بی۔ بی۔ سی کی ہندی سروس میں اناؤنسر کی حیثیت سے ہو گیا ہے۔ لہٰذا وہ گاندھی جی سے آشیرواد لے کر انگلینڈ چلے گئے، جہاں بی۔ بی۔ سی۔ کی ریڈیو سروس میں ہندی کے اناؤنسر کی حیثیت سے ملازم ہوئے۔ اس طرح بلراج ساہنی پورے چار برس تک ملک سے باہر رہ کر ملک کی اہم خدمت انجام دیتے رہے اور یہ چار برس بلراج ساہنی کی زندگی میں بڑے عجیب گزرے اور ان کی زندگی کے لیے اہم بھی تھے۔
یہاں رہتے ہوئے ہندوستان میں چل رہی آزادی کی لڑائی میں شامل نہ ہونا اب ان کے بس کی بات نہ رہی تھی۔ لہٰذا وہ اس جنگِ آزادی میں اپنے ہم وطنوں کے کندھے سے کندھا ملاکر لڑنے کے لیے وطن واپس چلے آئے۔ یہاں آکر انہوں نے ’لوک ناٹئیہ منچ‘ کی ذمے داریاں قبول کر لیں۔ یہ بھی ایک طریقہ تھا عام لوگوں سے وابستہ ہونے اور عام زندگی سے قریب رہنے کا۔ ناٹک یا ڈرامے کے ذریعے ایک عام آدمی سے اداکار یا فنکار کا کتنا گہرا تعلق ہوتا ہے، یہ بات بلراج ساہنی کو بہت اچھی طرح معلوم تھی، اور وہ یہی کر بھی رہے تھے۔ ڈراموں سے اُن کو اتنا لگاؤ تھا کہ رات دن سوتے جاگتے بس ڈراموں کی ہی باتیں ان کی گفتگو کا موضوع ہوا کرتی تھیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ تحریک آزادی میں بھی برابر حصہ لیتے رہے اور ہر طرح سے کانگریس کے ایک اہم اور سرگرم رکن رہے۔ اسی دوران بلراج ساہنی کا ذہن فلموں کی طرف متوجہ ہوا، اور انہوں نے فلموں سے وابستہ ہونے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ 1944 میں وہ اِپٹا (انڈین پیپلز تھیئٹر ایسوسی ایشن) سے وابستہ ہو گئے، وہیں سے فلمساز و ہدایت کار مجمدار کی فلم ’انصاف‘ میں ایک چھوٹا سا کردار ادا کیا۔
اس کے فوراً بعد ہی خواجہ احمد عباس کی فلم ’دھرتی کے لال‘ میں ایک بھرپورکردار ادا کرنے سے ان کی پہچان شروع ہوئی۔ یہ فلم بنگال کے قحط زدگان سے متعلق ایک انتہائی اثردار فلم تھی۔
جب بلراج ساہنی پوری طرح فلموں سے وابستہ ہو گئے اور انہوں نے اپنے آپ کو مکمل طور پر فلموں سے جوڑ لیا تب اس زمانے کے چند بڑے اچھے اور قابل فلمساز اور ہدایتکار فلمی دنیا میں موجود تھے۔ یہ بلراج ساہنی کی خوش قسمتی تھی کہ ان کو ہمیشہ قابل اور سلجھے ہوئے ہدایتکار اور فلمساز ملے۔ یہی وجہ ہے کہ فلمی آسمان پر بلراج ساہنی کا نام اس روشن ستارے کی طرح جگمگایا جس سے لوگ دشاؤں کا گیان حاصل کرتے ہیں۔
بلراج ساہنی نے اپنی فلمی زندگی کا باقاعدہ آغاز 1946 میں فلم ’دھرتی کے لال‘ سے کیا، مگر ان کو شہرت ملی 1953 میں ریلیز بمل رائے کی فلم ’دو بیگھہ زمین‘ سے۔ اس فلم نے عالمی شہرت حاصل کی اور کانس فلم فیسٹیول میں اعزاز سے نوازی گئی۔ 1947 میں کم عمری میں ہی اُن کی بیوی دمینتی ساہنی کا انتقال ہو گیا اور اس کے دو سال بعد ہی بلراج ساہنی نے اپنی ایک کزن سنتوش چنڈھوک سے شادی کر لی، جو ٹیلی ویژن میں ایک مصنفہ کے طور پر مشہور ہوئیں۔
گرم کوٹ، ہیرا موتی، دو بیگھہ زمین، ہم لوگ، کابلی والا، سیما، گرم ہوا، ہنستے زخم، وقت، حقیقت، سنگھرش اور ’نیل کمل‘ وغیرہ کچھ ایسی فلمیں ہیں جن میں بلراج ساہنی نے اپنی فنی صلاحیتوں سے ان سب کرداروں کو زندگی بخشی جو اِن فلموں میں انھوں نے پیش کیے۔ یہ چند ایسی فلمیں ہیں جن کی وجہ سے بلراج ساہنی کو فلمی تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔
بلراج ساہنی ایک نیک دل، سلجھے ہوئے اور دانشور قسم کے سادگی پسند انسان تھے۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ وہ انسان کو انسان ہی سمجھتے تھے اور چھوٹے، بڑے یا امیر غریب کی تفریق کرنا اُن کے مزاج کے خلاف تھا۔
اس سلسلے کا ایک واقعہ بلراج ساہنی نے اپنی کتاب ’یادیں‘ میں تحریر کیا ہے، بلراج ساہنی کسی فلم کی شوٹنگ کے لیے چنڈی گڑھ آئے ہوئے تھے۔ آؤٹ ڈور کا کام تھا اور فلم کا سارا یونٹ ایک رات کسی امیر دوست کے گھر پارٹی میں مصروف تھا۔ بڑے زوروں کی محفل جمی ہوئی تھی۔ پنجابی مہمان نوازی، پنجابی حسن، پنجابی ہنسی مذاق اپنے شباب پر تھا۔ مارچ کے مہینے کا بے حد سہانا موسم تھا۔ دن بھر تمام یونٹ نے شوالک کی پہاڑیوں کے آنچل میں شوٹنگ کی تھی اور بڑے حسین شاٹ لیے تھے۔ اسکاچ کے گھونٹ بھرتے ہوئے دن بھر کی تھکاوٹ میں بھی بڑا سرور محسوس ہو رہا تھا۔ ڈرائنگ روم بھی دوشیزاؤں سے دہک رہا تھا۔ ایسے ماحول میں بلراج ساہنی کے ایک دوست نے آکر کان میں کہا۔ ’’بَلّی! باہر ایک آدمی کھڑا ہے تم سے ملنے کے لیے۔ ذرا ایک منٹ باہر جاکر اُسے درشن دے آؤ۔‘‘
’’یہ نہیں ہوگا۔‘‘ بلراج نے کہا۔ ’’آج کے دن میں ساری ڈیوٹیاں ادا کر چکا ہوں۔ اب اپنے نجی وقت پر مجھے مکمل اختیار حاصل ہے اور اس کا پورا پورا مزہ لینا چاہتا ہوں۔ تم اس سے کہہ دو کہ کل صبح مجھے ہوٹل میں آکر ملے۔‘‘
’’میری درخواست ہے بلی۔ وہ شام پانچ بجے کے پہلے سے ہی میری کوٹھی پر تھا اور اب اس کوٹھی کے باہر کھڑا ہے۔‘‘ دوستوں میں سب ان کو بَلّی کہتے تھے۔
دوست کی اس درخواست پر بلراج ساہنی بڑی بے دلی کے ساتھ باہر آئے۔ دودھیا چاندنی میں چمک رہے سیمنٹ کے فرش پر کھڑے کچھ لوگوں کی ٹولی کے پاس بگھی پر پلاسٹک کے پُتلے کی طرح اوم پرکاش نام کا ایک شخص بیٹھا ہوا تھا۔ بلراج کو دیکھ کر اس نے فوجی ڈھنگ سے سلام کیا، جس کا مطلب بلراج ساہنی سمجھ نہ پائے۔ ان کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ اتنے لوگوں میں ان کو کس سے ملنا ہے۔ قریب جاکر وہ ان سب لوگوں سے ہاتھ ملانے لگے، اور اوم پرکاش بگھی پر بیٹھے ہوئے ہی بولا۔ ’’کیا ہم بھی میجر رَن وِیرسنگھ صاحب کے ساتھ ہاتھ ملا سکتے ہیں؟‘‘ اتنا کہہ کر وہ کھلکھلاکر ہنس پڑا۔
بلراج ساہنی کو حیرت ہوئی اور اس کو بغیر ٹانگوں کے دیکھ کر ہمدردی بھی۔ ایک خیال ان کے دماغ میں یہ بھی آیا کہ یہ لوگ کہیں ان کے ساتھ مذاق تو نہیں کر رہے۔
’’کون میجر رن ویر سنگھ؟‘‘ بلراج ساہنی نے حیرت سے پوچھا۔
’’حقیقت‘‘ کے رن ویر سنگھ، اور کون؟‘‘ وہ پھر اسی طرح ہنسا۔
اب بلراج جی کو یاد آیا کہ فلم ’حقیقت‘ میں انھوں نے ایک فوجی میجر رن ویر سنگھ کا کردار ادا کیا تھا۔ حالانکہ بات کافی پُرانی ہو گئی تھی مگر اس وقت اوم پرکاش کے ان الفاظ سے بلراج جی کو خوشی ضرور ہوئی تھی۔
’’میں نے تین بار دیکھی تھی صاحب وہ پکچر۔ چوتھی بار اپنی ماں کو ساتھ لے کر دیکھنا چاہتا تھا، مگر میرے پاس پیسے نہیں تھے۔‘‘ اوم پرکاش نے پھر کہا۔
’’اتنی زیادہ پسند آئی تمھیں۔‘‘ بلراج جی نے رسمی طور پر پوچھا۔
’’کیسے نہ آتی صاحب، ہم بھی تو لڑے ہیں چینیوں کے ساتھ۔ آپ میجر ٹھہرے، ہم ایک معمولی سپاہی سہی۔‘‘
اس کی طنزیہ ہنسی اور لکڑی کی ٹانگوں کی اصلیت جان کر بلراج جی حیرت زدہ رہ گئے۔ ایک فوجی جوان جس نے جنگ میں دونوں ٹانگیں کھوئی تھیں، اُن سے ملنے کے لیے چار گھنٹے سے انتظار کر رہا تھا۔ ان کو بڑی شرمندگی محسوس ہوئی۔
’’تم نے مجھے اطلاع کیوں نہیں دی کہ تم فوجی جوان ہو؟‘‘ بلراج ساہنی نے پوچھا۔
’’بتاکر ملنے میں نہیں، بلکہ مل کر بتانے میں مزہ ہے میجر صاحب۔‘‘ اس نے کہا۔
’’مجھے بار بار میجر کہہ کر شرمندہ نہ کرو، خدا کا واسطہ ہے۔‘‘ بلراج ساہنی نے عاجزی سے کہا۔
’’آپ اپنی قیمت ہمارے دل سے پوچھیے۔‘‘ اوم پرکاش نے کہا۔ اس کی باتوں میں کتنی حقیقت تھی، کتنی ایکٹنگ تھی، بلراج ساہنی کو اندازہ نہیں ہو رہا تھا۔
ایکٹنگ میں بھی مجبوری کا جزو ہوتا ہے۔ عورت ہمارے سماج میں مجبور ہے، اس لیے اپنی خواہشوں کو تہوں میں لپیٹ کر رکھتی ہے۔ وہ اپنی ہار میں بھی جیت کا مزہ لینے کی کوشش کرتی ہے۔ بلراج بھی اگر اس وقت مجبور نہ ہوتے تو بغیر ہچکچاہٹ اس بہادر نوجوان کو پوری عزت کے ساتھ پارٹی میں اندر لے جاتے اور اس سے ہاتھ ملانا ہر کسی کے لیے فخر کی بات ہوتی۔ اس کی بدولت پارٹی کو چار چاند لگ جاتے۔ مگر وہ صرف ایسا سوچ سکتے تھے کیونکہ اپنی سوچ پر عمل نہ کرنے کے لیے وہ مجبور تھے۔ اپنے جذبات کو قابو میں کرتے ہوئے انہوں نے جوان سے اتنا ہی کہا۔ ’’میرے لائق کوئی خدمت ہو تو ضرور بتانا۔‘‘
’’وہ تو ابھی بتائے دیتا ہوں۔ آپ منظور کریں گے؟ میرا گھر یہاں سے صرف پانچ منٹ کے فاصلے پر ہے۔ ذرا چل کر میری ماں سے مل لیجیے، آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔‘‘ اوم پرکاش نے بلا تکلف کہہ دیا۔
بلراج جی اسی وقت اپنی رنگین اور پُرشباب پارٹی چھوڑکر دوستوں کے منع کرنے کے باوجود اس جوان کے ساتھ اس کی خوشی کے لیے اس کے گھر روانہ ہو گئے۔
بلراج جی کی زندگی میں اس قسم کے ہزاروں واقعات بھرے پڑے ہیں جن کو قلمبند کرنے کی نہ تو یہاں گنجائش ہے اور نہ ہی ضرورت۔ کیونکہ وہ ہر لحاظ سے ایک نیک دل اور سادہ لوح انسان تھے، اور ایسے ہی کردار انہوں نے فلمی پردے پر اپنی فنکارانہ صلاحیتوں سے اُجاگر کیے تھے۔
فلموں سے وابستہ ہوکر بھی بلراج ساہنی کی دیش بھگتی اور قوم پرستی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ انہوں نے اپنے ہم خیال لوگوں کے ساتھ مل کر عوام کے درمیان خدمت خلق کا کام جاری رکھا۔ ان کے ساتھیوں میں راجندر سنگھ بیدی، خواجہ احمد عباس، کیفی اعظمی اور رشی کیش مکرجی کے نام خاص طور پر لیے جا سکتے ہیں۔ بلراج ساہنی نے اُن دنوں ایسی ہی فلموں میں کام بھی کیا۔ ’گرم کوٹ، فٹ پاتھ، وقت‘ اور ’حقیقت‘ وغیرہ فلموں کی کہانی مکمل طور پر سچائی سے بھری زندگیوں کی ہی کہانیاں تھیں۔ اسی لیے ان فلموں کو نہ صرف ہندوستان میں بلکہ غیر ممالک میں بھی شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان فلموں کو فلم بینوں کے ہر طبقے نے سراہا۔ سماجوادی ممالک میں شاید پہلی بار ان ہی فلموں نے ہندوستان کی نمائندگی کی اور ان فلموں سے ہندوستان کی عزت افزائی ہوئی۔ حالانکہ ان فلموں میں سے کچھ نے تجارتی نقطہ نگاہ سے کوئی خاص کامیابی نہ بھی حاصل کی ہو، مگر بلراج ساہنی نے پھر بھی اپنی آخری سانسوں تک ہار نہیں مانی اور ہمیشہ اس کوشش میں لگے رہے کہ ایسی فلموں میں کام کریں جن میں دولت کمانے کا مقصد نہ ہوکر انسانیت کی قیمت اور اہمیت کو ترجیح دی گئی ہو۔
اس سلسلے میں ایک واقعہ اور یاد آیا۔ اُن دِنوں ترلوک جیٹھلی ’گودان‘ بنانے کی تیاری میں مصروف تھے۔ انھوں نے ہیرو کے کردار کے لیے بلراج ساہنی سے رابطہ قائم کرنا چاہا۔ اتفاق سے اُس وقت بلراج ساہنی شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ اُن کی غیرموجودگی میں سکریٹری نے یہ پیش کش ٹھکرادی۔ ہار کر جیٹھلی نے کسی دوسرے اداکار کو اس کردار کے لیے سائن کر لیا۔
بلراج جی جب واپس آئے تو انھیں اس بات کا علم ہوا۔ ان کو بہت افسوس ہوا۔ دراصل بلراج ساہنی کو پریم چند کے ناول ’گودان‘ کا یہ کردار ’ہوری‘ بہت پسند تھا۔ اس کردار کے ساتھ بلراج جی نے ہندوستان کے غریب عوام اور ان کی تڑپ کو دل سے محسوس کیا تھا۔
بلراج ساہنی اپنی آمدنی کا ایک مخصوص حصہ ہمیشہ غریبوں اور ضرورتمندوں میں تقسیم کیا کرتے تھے۔ بلراج جی کے فلمی کرداروں میں بھی ورائیٹی ملتی ہے۔ ’دو بیگھہ زمین‘ میں رکشہ چلانے والے کا کردار، ’تلاش‘ میں ایک کروڑپتی تجارتی آدمی کا کردار اور ’سنگھرش‘ میں گنپتی پرساد کا کردار، جس کی آنکھوں میں ہر وقت نفرت اور بدلے کی آگ بھڑکتی رہتی ہے، ’کابلی والا‘ کا بھولا بھالا پٹھان جس کی نگاہیں محبت اور خلوص وہمدردی سے ہمیشہ بوجھل رہتی ہیں۔ ’گرم ہوا‘ میں جوتے بنانے والے ایک مسلم کاریگر کا کردار کون بھلا سکتا ہے۔ ’حقیقت‘ میں میجر کا کردار اور اسی طرح کے بہت سے مختلف کردار جن کو بلراج ساہنی نے زندگی بخشی۔ وہ اپنے آپ کو کردار میں اتنا جذب کر لیا کرتے تھے، کہ بلراج ساہنی کا پردے پر کہیں نام ونشان نہیں ملتا تھا اور صرف کردار ہی رہ جاتا تھا۔
بلراج ساہنی کی شخصیت کا ایک روشن پہلو یہ بھی ہے کہ وہ ایک بہترین اور سلجھے ہوئے ترقی پسند مصنف بھی تھے۔ انہوں نے ہندی، انگریزی اور پنجابی ادب کو بہت یادگار تخلیقات بخشی ہیں۔ ’’میری غیرجذباتی ڈائری، یوروپ کے واسی، میرا پاکستانی سفرنامہ‘‘ اور’یادیں‘ کافی مقبول کتابیں ہیں۔ فلم اور اسٹیج کے موضوع پر بھی انھوں نے ’سنیما اور اسٹیج‘ اور ’میری فلمی آتم کتھا‘ تصنیف کیں۔
1949 میں بلراج ساہنی کو ان کی کتاب ’میرا روسی سفرنامہ‘ کے لیے سوویت نہرو ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 1969 میں بلراج ساہنی کو حکومت ہند کی طرف سے پدم شری کے اعزاز سے نوازا گیا۔ بلراج ساہنی نے دیوآنند کے لیے فلم ’بازی‘ کی کہانی بھی لکھی تھی جس کو گرودت کی ہدایت میں بنایا گیا۔
13اپریل 1973 کو صرف ساٹھ برس کی عمر میں بلراج ساہنی کا دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہو گیا۔ اِس سے کچھ عرصہ قبل ہی ان کی بیٹی شبنم کا انتقال کم عمری میں ہو گیا تھا، جس کی وجہ سے وہ بہت دل برداشتہ اور رنجیدہ تھے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ بلراج ساہنی اداکاری کی دنیا میں ایک ایسا خلاء چھوڑ گئے ہیں جس کو پُر کرنا برسوں تک ہندوستانی فنکاروں کے بس کی بات نہیں۔ 

Anees Ahmad
R-232/10, 3rd Floor
Ramesh Park, Laxmi Nagar
Delhi - 110092
Mob.: 9811612373





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں