30/1/19

قانونی ادب اردو کی بقا کا ضامن مضمون نگار:۔ خواجہ عبدالمنتقم



قانونی ادب اردو کی بقا کا ضامن
خواجہ عبدالمنتقم

اصحاب علم ودانش اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ کوئی بھی زبان جو کسی بھی دور حکومت میں دفتری یا قانونی زبان رہی ہو وہ کبھی نہیں مٹ سکتی البتہ نظام حکومت یا ملک کی جغرافیائی صورت حال بدلنے کے سبب زمانۂ مستقبل میں اس کی اہمیت کم یا زیادہ ہوسکتی ہے، وہ عارضی طور پر آنکھوں سے اوجھل ہوسکتی ہے اور وہ بھی محض اس وقت جب آنکھوں پر پردہ پڑجائے یا اس کی طرف سے ارادتاً آنکھیں موند لی جائیں مگر یہ کام بھی آسان نہیں۔ یہی کہانی ہے اردو کے عدلیہ سے ناقابل انقطاع رشتے کی جو کئی صدیوں تک خاص کر 19ویں اور 20ویں صدی میں لازم وملزوم کے طور پر قائم رہا اور عوام نے بھی اس کی شیرینی سے متاثر ہو کر اس رشتے کو ایک دوستانہ ماحول میں بہ رضا ورغبت پرتپا ک ڈھنگ سے اس طرح قبول کیا اور قائم رکھا جیسے کہ طبّی زبان میں یہ کوئی مقوی ومفرح دوا یا مشروب ہو۔ دراصل یہ طبی مواد یعنی اردو کو دفتری یا قانونی درجے کا حصول بہ اعتبار اصول قانونی ایک ایسی قانونی حقیقت ہے جس سے انکار کیا ہی نہیں جاسکتا۔ متذکرہ بالا تقریباً دو صدیوں کے درمیان تکمیل شدہ دستاویزات کو، جب تک ملک میں کوئی بھی نظام حکومت قائم رہے گا تب تک، دستاویزی شہادت کے طور پر پیش کیا جاتا رہے گا۔ کیا جموں و کشمیر میں سموت1989 میں ڈوگرا دور حکومت میں اردو میں وضع کیے گئے 1932 میں نافذرنبیر پینل کوڈ کا، جو تعزیرات ہند کا فی الواقع نقش ثانی ہے ،تقریباً آ ٹھ دہائی کا عرصہ گزر جانے کے باوجود وہاں کی عدالتوں میں حوالہ نہیں دیا جاتا؟ کیا اردو میں تحریر کی گئیں دستاویزات مثلاًدستاویز بیع وشریٰ، دستاویزمثنیٰ، دستاویز قبولیت، دستاویزانتقال، دستاویزفارغ خطی، دستاویز اہتمام ، دستاویزصلح، دستاویزبرأت ، دستاویز عاق یا دستاویز محروم الارثی (Deed of disheritance)، دستاویز انفساخ شراکت یا تولیت نامہ، ہبہ نامہ، رہن نامہ، گروی نامہ، پٹہ نامہ، تقسیم نامہ، شراکت نامہ، وقف نامہ، حقیت نامہ (Title deed) جیسی اہم دستاویزات کوان حقوق کو ثابت کرنے کے لیے جن کا ان میں احاطہ کیا گیا ہے، دستاویزی شہادت کے طور پر پیش نہیں کیا جائے گا؟ کیاان دستاویزات کو پڑھنے، سمجھنے اور ان کے صحیح ترجمہ وتعبیر کے لیے مترجمین ومعبرین کی ضرورت نہیں پڑے گی؟ اسی طرح مغلیہ یا برطانوی ادوار حکومت میں جاری فرمانوں، احکامات، فیصلہ جات اور تکمیل شدہ مالگزاری دستاویزات کو متعلقہ حقوق کو ثابت کرنے کے لیے عدالتوں میں پیش نہیں کیا جائے گا؟ کیا درج ذیل فرمان میں قلم بند حقائق مندرجہ جائیداد کی نوعیت کا معتبر ثبوت نہیں؟ مان لیجیے اگر سنبھل جیسے تاریخی شہر یا سنبھل سرکار کی تاریخ لکھنی ہو اور اسے گجرولہ میں واقع چوپالہ علاقے کی تفصیل درج کرنی ہو تو کیا درج ذیل فرمان کا اقتباس جو ایک معتبر ذریعہ پر مبنی ایک معتبر ویب سائٹ کے تحت دیا گیا ہے معتبر مشمولہ تاریخی مواد کا حصہ نہیں بنے گا؟
)Discovering Mughal, Rajput & Mauryan History_ Farman of Wali Nimat Mariam-Uz-Zamani Begum with Scan of Original Persian Document_files(
مغلیہ دور میں اس طرح کی دستاویزات ابتداءً فارسی میں لکھی جاتی تھیں۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ یہ دستاویزات اردو کے ارتقاء کے دوران فارسی و اردو یعنی ملی جلی زبان میں لکھی جانے لگیں۔ اس کے بعد وہ دور آیا جب یہ دستاویزات صرف اردو میں لکھی جانے لگیں لیکن اردو میں لکھی جانے والی دستاویزات میں بھی بیشتر الفاظ عربی و فارسی کے ہی رہے اور آج بھی ہماری عدالتوں میں مدعی،مدعا علیہ، عرضی، عرضی دعویٰ، جواب دعویٰ، جواب الجواب، عدالت، شہادت، شکایت، سماعت، تفتیش، تعمیل، تکمیل، مثل، دریافت، ترمیم، استغاثہ بیع نامہ، رہن نامہ، منظوری، خارج، حکم، فیصلہ، ہدایت، نقشۂ مرگ، فرد مقبوضگی آلۂ جرم، فرد مقبوضگی پارچات خون آلود، وغیرہ جیسے سیکڑوں الفاظ عدالتوں میں اور ہندوستان کی مختلف زبانوں میں آج بھی استعمال کیے جارہے ہیں اور پولس عملے کو اس ضمن میں پولس ٹریننگ مراکز میں باقاعدہ تربیت بھی دی جاتی ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر بے محل نہ ہوگا کہ ہماری اردو اکادمیاں بھی اس سلسلے میں ان تربیتی پروگراموں میں ضروری امداد بہم پہنچا رہی ہیں اور کبھی کبھی خود بھی اس طرح کے تربیتی پروگراموں کا انعقاد کرتی ہیں۔ آئیے اب اردو کے عدلیاتی سفر پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
ہم سب اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ کئی صدیوں تک ہندوستان میں فارسی عدالت کی زبان رہی اور ترکوں، پٹھانوں اور مغلوں نے اسے سرکاری زبان کا درجہ عطا کیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے نہ صرف اردو بلکہ دیگر مقامی زبانوں (Vernaculars) کوبھی پوری پوری اہمیت دی تاکہ وہ مختلف علاقوں کے لوگوں کی کم از کم زبان کے حوالے سے خوشنودی حاصل کرسکیں، ان سے بہتر روا بط قائم کرسکیں اور انگریزی عدلیاتی افسران دعوؤں کے نفس موضوع، متنازع فیہ موضوع یا امر متنازعہ و پیش کی گئی دستاویزی شہادت کی قدر پیمائی و قانونی پرکھ کے بعد صحیح فیصلہ دے سکیں اور انصاف رسانی کے عمل میں بھی تیزی آئے۔ 1793 اور 1797 کے بنگال ضوابط تعدادی iv اور ixکی رو سے ایسٹ انڈیا کمپنی نے دعویداروں کو اس بات کی اجازت دی تھی کہ وہ اپنے دعوے اپنی اپنی زبان میں پیش کرسکیں۔ اسی طرح انھیں اس بات کی بھی اجازت دے دی گئی تھی کہ وہ گواہان کے بیانات اپنی زبان میں درج کراسکیں۔ فارسی چونکہ ایک غیرملکی زبان تھی اور اس زبان میںیہاں کے لوگوں کو اپنے دعوے پیش کرنا اور عدالت کو اپنی بات سمجھانا آسان کام نہیں تھا اس لیے کمپنی کے لیے کوئی نہ کوئی ایسا راستہ نکالنا ضروری تھا جس سے فارسی میں درج کارروائی اور دستاویزات کا انگریزی میں ترجمہ کرانے کی ضرورت نہ پڑے اور انصاف رسانی کے کام میں تاخیر نہ ہو۔ دراصل کمپنی کی کوشش تو بتدریج انگریزی ہی کو عدالتی زبان کا درجہ دینے کی تھی اور یہی وجہ ہے کہ 1832تک تمل، تیلگو، کنڑ اور ملیالم زبانوں کے ساتھ ساتھ جزوی طور پر انگریزی کا استعمال بھی شروع کردیا گیا۔ اسی طرح بمبئی میں (جس کا اب نیا نام ممبئی ہے) فارسی مکمل طور پر ختم کردی گئی اور گجراتی ومراٹھی نے اس کی جگہ لے لی۔ بعد ازاں حکومت ہند نے بنگال اور آگرہ کی حکومتوں سے بھی صدر عدالتوں اور عدلیاتی افسروں سے مشورہ لینے کے بعد اس سلسلے میں اپنی رائے ظاہر کرنے کے لیے کہا۔ بنگال پریزیڈینسی میں 60سے زائد افسران سے مشورہ لیا گیا۔ ان میں سے 30افسران نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ فارسی کو ہی عدالت کی زبان رکھا جائے جب کہ 5افسران نے یہ سفارش کی کہ اس کی جگہ اردو یاعام طور پر بولی جانے والی ہندوستانی زبان کو عدالتی درجہ دیا جائے۔ 24افسران نے اپنی اس رائے کا اظہار کیا کہ فارسی کی جگہ مقامی زبان کو عدالتی زبان کا درجہ دیا جائے۔ صرف 4افسران ایسے تھے جنھوں نے انگریزی کو عدالتی درجہ دینے کی خواہش ظاہر کی۔ شمالی۔ مغربی صوبوں میں صورت حال اس سے کافی مختلف رہی۔ 33افسران نے فارسی کی جگہ ہندوستانی کی ہی حمایت کی اور 29افسران نے مخالفت کی۔ اسی دوران یہ مانگ بھی کی جانے لگی کہ ہندوستانی کے لیے رومن یادیوناگری رسم الخط اختیار کیا جائے۔ ساگراور نرمدا ڈویژن کے کمشنر Shoreنے توعدالتوں میں دیوناگری رسم الخط میں ہندی کا استعمال بھی شروع کردیا چونکہ وہ فارسی اور رومن رسم الخط دونوں کا ہی مخالف تھا۔ ہندوستانی کو رومن رسم الخط میں لکھے جانے کے حامیوں کا یہ کہنا تھا کہ ایسا کرنے سے انگریزی کو قومی رنگ عطا کرکے مقامی وقومی زبان بنانے کے عمل میں مدد ملے گی۔ مختلف علاقوں میں اس ضمن میں، جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے، الگ الگ رائیں دی جاتی رہیں اور مختلف علاقوں میں مختلف آرا کے اظہار کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1837 میں ایکٹ xxix وضع کیا گیا اور اس ایکٹ میں گورنر جنرل کواس بات کا اختیار دیا گیاکہ وہ عدالتی یا مالگذاری کی کارروائیوں میں فارسی زبان ختم کرکے کوئی بھی زبان یا رسم الخط اختیار کرنے کے احکامات جاری کرسکتے ہیں۔ اس ایکٹ میں گورنر جنرل ان کونسل کو یہ اختیار بھی دیا گیا کہ وہ اپنے اختیارات کسی ذیلی اتھارٹی کو بھی تفویض کرسکتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شمالی۔مغربی صوبوں کی عدالتوں میں ہندوستانی نے فارسی کی جگہ لے لی اور صوبۂ بنگال میں مقامی زبانوں نے۔ یہ ہندوستانی دراصل فارسی رسم الخط میں لکھی جانے والی اردو زبان ہی تھی اور اس طرح اردو کو شمالی۔مغربی صوبوں میں نئی عدالتی زبان کا باقاعدہ درجہ حاصل ہوگیا۔ 
اگرچہ صوبۂ بنگال میں ضلع عدالتوں میں مقامی زبانوں کے استعمال کی اجازت دے دی گئی تھی لیکن صدر عدالت میں Language of record کا درجہ فارسی رسم الخط میں لکھی جانے والی اردو کو ہی دیا گیا۔ مختصر یہ کہ فارسی عدالت کی زبان نہیں رہی۔ اردو کو یہ درجہ حاصل ہونے سے لسانی صورت حال میں ایک تبدیلی یہ اور آئی کہ انگریزی کو بتدریج زیادہ اہمیت ملتی رہی اورانگریزی کے حمایتی انگریزی کوزیادہ اہمیت دینے کے لیے برابر زور دیتے رہے تاکہ انگریزی بیرسٹروں اور انگریزی جاننے والی ہندوستانی Eliteکلاس کو انگریزی میں صدر عدالتوں میں بحث کرنے میں آسانی ہو۔اس طرح وہ وقت آہی گیا جب عدالتوں میں اردو کی حیثیت ثانوی ہوگئی اور انگریزی نے اسے مغلوب کرلیا۔ چارٹرایکٹ 1853 کے منظور ہوجانے کے وقت Sir Frederick James Halliday KCB (1806 150 1901)نے، جو برطانوی سول سروینٹ تھا اور بنگال کاپہلا لیفٹیننٹ گورنر، برٹش پارلیمنٹ کی سلیکٹ کمیٹی کے روبرو جو بیان دیاتھا اسے انگریزی میں نیچے ہو بہو نقل کیا جارہا ہے تاکہ قارئین کو یہ بھی معلوم ہوسکے کہ اس زمانے میں ہندوستانی زبانوں و علاقوں کو انگریزی میں کس طرح لکھا جاتا تھا۔
"I may say that English has been introduced as the language in the administration of justice in the Sudder Court, somewhat in this way: the nominal language of the court is Oordu but the records of the appeal cases from the various courts come up in the language of the court in which they have been tried; Bengalee from Bengal, Oordu or Hindustanee from Bihar, Oria from Cuttock, and so on. The language, in which the pleadings are supposed to be conducted, if there are oral pleadings and oral discussion in Sudder Court, is Oordu or Hindustanee, but a rule has been made that whenever the Vakeels, who answer to the Barristers, on both sides understand English and are willing that the business should be conducted in English, it may be so conducted. The effect of that and of the gradual coming in to the Court of English Barristers from the Supreme Court and of natives, who understand English better than anything else, has been to make the use of English in the Sudder Court the rule, and the use of Hindustanee the exception, and Hindustanee is fast going out as the language in use in the Sudder Court, with very marked advantage."
متذکرہ بالا اقتباس میں کئی ایسے الفاظ ہیں جن کی انگریزی Spellings بھی بدل چکی ہیں۔ ابOordu کو Urduلکھا جارہا ہے،Sudder Courtکو Sadar Court لکھا جاتا ہے حالانکہ اب یہ عدالتی نظام ختم ہوچکا ہے۔ اسی طرح اب Cuttockکو Cuttack لکھا جاتا ہے۔
19ویں و 20ویں صدی میں ایک طویل عرصے تک یوپی میں عدلیہ وعاملہ کی واحد زبان اردو تھی۔ یہی وجہ تھی کہ سبھی لوگ اپنے بچوں کو اردو میڈیم سے تعلیم دلانا چاہتے تھے تاکہ وہ کوئی باوقار ملازمت حاصل کرکے عصری قومی دھارے میں شامل ہوکر ایک خوش حال زندگی گزار سکیں۔ یہ کسی ایک فرقے کی زبان نہیں تھی۔ کتنے ہی ہندو بچے اردو میڈیم اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔ 1860-61 اور 1873-74 کے درمیان شمالی۔ مغربی صوبوں میں اردو سیکھنے والے طلبا کا تناسب اس وقت اسکولوں میں مسلم طلبا کے تناسب سے کہیں زیادہ تھا۔ 1873-74 میں ان صوبوں کے ورناکلراسکولوں میں مڈل اور اس سے نیچے کی جماعتوں میں مسلم طلبا 16.2فیصد تھے جب کہ سرکاری اسکولوں میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے اردو طلبا کا تناسب 35فیصدی تھا۔ 1872 میں اودھ کے چیف کمشنر کے سکریٹری نے یہ رپورٹ دی تھی کہ اس وقت صوبے میں ہندوؤں کی آبادی مسلمانوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی لیکن رائج الوقت نصاب کا بیشتر حصہ ہندی، سنسکرت نہ ہوکر اردو، فارسی پر مشتمل تھا۔ اس وقت سرکاری اسکولوں میں 22,074 طلبا اردو، فارسی یا عربی پڑھ رہے تھے جب کہ ہندی یا سنسکرت پڑھنے والے طلبا کی تعداد صرف 4ہزار 959تھی۔
مندرجہ بالا تجزیے سے منطقی طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ تعلیم اور روزگار کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور جب کوئی زبان ایک بار سرکاری زبان کا درجہ حاصل کرلیتی ہے تو ملک کے نقشۂ السنہ پر اس کے نقوش ہمیشہ ہمیشہ باقی رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تقسیم ہند کے وقت اپنے جغرافیائی قتل کے بعد اردو آج بھی زندہ ہے اور جب تک ہندوستان کا قانونی وعدلیاتی نظام، جسے معاصر دنیا کے نظام ہائے قوانین میں ایک منفرد حیثیت حاصل ہے اور جو تاریخ کے مختلف ادوار میں بدلتا تو رہا مگر اس پر کبھی قدغن نہیں لگا، قائم ہے، اپنی ہزارہاسال کی مثالی وروایتی درجہ بندی اور واضعین قوانین کی بلند نظری، وسیع خیالی، وسیع ظرفی اور فیاضیانہ جذبات واحساسات کو درگزر کرتے ہوئے اردوجو کئی صدیوں تک عملی طور پر عدلیہ کی زبان رہی ہے اور عدل گستری کا کبھی یکتا تو کبھی دیگر زبانوں کے ساتھ ذریعہ رہی ہے، کس طرح نظرانداز کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے جیسے عوام میں قانونی بیداری پیدا کرنے کے لیے سرکاری، نیم سرکاری ونجی اداروں کی جانب سے کی جانے والی کوششوں میں تیزی آرہی ہے ویسے ویسے قانونی ادب کو قدرے اہمیت دی جانے لگی ہے۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو بھی قانون سے متعلق تقریباً ایک درجن کتابیں شائع کرچکی ہے اور وزارت قانون کے تعاون سے اس نے کئی سو مرکزی قوانین کا اردو ترجمہ شائع کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے اور کتنے ہی مرکزی قوانین کا مستند متن شائع ہوچکا ہے جو کونسل کے شعبۂ فروخت میں رعایتی قیمت پرباآسانی دستیاب ہیں۔ ویسے بھی حکومت کی یہ ذمے داری ہے اور مشن بھی کہ مفاد عامہ کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے عوام میں قانونی بیداری پیدا کی جائے۔ اس ضمن میں ہماری عدلیہ بھی ایک فعال کردار نبھاتی رہی ہے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل دہلی ہائی کورٹ نے حکومت ہند کو یہ ہدایت دی تھی کہ جنسی جرائم سے متعلق قوانین میں شامل التزامات کو عام کیا جائے۔ اسی طرح تحفظ حقوق صارفین سے عوام کو باور کرانے کے لیے کماحقہ تشہیر پر زور دیا جاتا رہا ہے۔ تحفظ حقوق صارفین سے متعلق حکومت ہند وقتاً فوقتاً اشتہارات جاری کرتی رہتی ہے۔ دہلی ہائی کورٹ نے متذکرہ بالا اس امر سے متعلق فیصلے کی روشنی میں کہ جنسی جرائم سے متعلق پوسٹر، پمفلیٹ وکتابچے شائع کیے جائیں تاکہ خواتین ودیگر متعلقین کو جنسی جرائم سے متعلق قوانین میں جو حال ہی میں ترامیم کی گئی ہیں ان سے باور کرایا جاسکے، حکومت کی جانب سے متعلقہ محکموں کو بھی ایسا کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔ ان ہی ہدایات کا نتیجہ ہے کہ جنسی جرائم سے متعلق لٹریچر مختلف زبانوں میں تیار کرکے عوام تک پہنچایا جارہا ہے۔ حال ہی میں این سی پی یو ایل نے جنسی جرائم سے متعلق کتاب بعنوان ’خواتین سے متعلق جنسی ودیگر جرائم‘ شائع کی ہے۔ اس کے علاوہ آر ٹی آئی، خواتین کے خلاف خانگی تشدد ودیگر اہم قوانین بعد از اشاعت منظر عام پر آچکے ہیں اور یہ ہمیشہ ہمیشہ قانونی ادب کا جزولاینفک رہیں گے۔
کچھ ریاستوں میں عدلیاتی ونیم عدلیاتی اداروں، محکمۂ پولس وغیرہ میں اردو الفاظ کی جگہ ہندی یا علاقائی زبانوں کے الفاظ استعمال کرنے کی ہدایات وقتاً فوقتاً جاری کی جاتی رہی ہیں مگر تاہنوز ان ریاستوں میں بھی ان الفاظ کا استعمال برابر جاری ہے۔ جس طرح روم کی تعمیر ایک دن میں نہیں ہوسکتی تھی اسی طرح روم کا انہدام بھی ایک جھٹکے میں نہیں ہوسکتا۔ ویسے بھی ایسا کرنا قرین مصلحت نہیں چونکہ آئین کی دفعہ 351جو ہندی زبان کو فروغ دینے سے متعلق ہے خود اس میں یہ بات کہی گئی ہے کہ دوسری زبانوں میں استعمال ہونے والی تراکیب، اسلوب اور اصطلاحات کو اپناتے ہوئے اور سنسکرت و دوسری زبانوں سے الفاظ اخذ کرکے ہندی کو مالا مال کیا جائے۔


Khwaja Abdul Muntaqim
H-3, Dharma Apartments,
2-I.P. Extn., Delhi-110092







قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں