30/1/19

جدید نظم کا وجودی سیاق. مضمون نگار:۔ آفتاب احمد آفاقی




جدید نظم کا وجودی سیاق

آفتاب احمد آفاقی
اردو کی کلاسیکی شعری اصناف مثلاََ مثنوی ، مرثیہ ، قصیدہ اور ہجویہ میں قصّے ، کہانی یا واقعات کو بیان کرنے کی بے پناہ صلاحیتیں موجود ہیں۔ مثنوی اور قصیدہ نگاری میں موضوعات کے تنوع کے ساتھ عنوان بندی کے تحت اپنے عہد کی سیاسی، سماجی اور عوامی زندگی کو پیش کرنے کی ایک متمول روایت اردو میں موجود ہے۔ان اصناف کے تعلق سے اس اعتراف میں کوئی باک نہیں کہ یہ جس عہد میں وجود میں آئیں وہ زبان و ادب کی سطح پر متمول بھلے ہو لیکن عصری اور جدید تقاضوں کے لحاظ سے ان اصناف میں ایک حد تک تشنگی کا احساس پایا جاتا ہے۔ ہماری غزلیہ شاعری میں زندگی کے آثار تو تھے لیکن ان میں گل و بلبل اور خواب و خیال کے قصّے زیادہ تھے۔ نظمیں روایتی حدود کی پابند تھیں ان میں عہد تو سانس لے رہا تھا لیکن ان میں زندگی کو تبدیل کرنے اور حرکت پیدا کرنے کا عمل مفقود تھا ۔اردو نظم میں موضوع نگاری کا رواج اس وقت عمل میں آیا جب کرنل ہالرائیڈ ، محمد حسین آزاد اور مولانا حالی کی کوششوں سے انجمن پنجاب لاہور کے زیر اہتمام 1874 میں پہلا مشاعرہ منعقد کیا گیا، جسے بجا طور پر جدید طرزکا نظمیہ مشاعرہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ وہی جدید شاعری کا فیض تھا کہ مولانا محمد حسین آزاد اور مولانا الطاف حسین حالی نے سرکاری مدارس کے تقاضوں کے پیش نظر متعدد عنوانیاتی نظمیں تخلیق کیں ،جو آگے چل کر روایتی طرز نظم کے بمقابل اجتہاد کی صورت اختیار کر تی گئیں ۔ یہ روایتی شاعری کے مقابلے اس لحاظ سے بھی نئی تھیں کہ ان میں معاشرتی ، اد بی ، سائنسی اور سیاسی فکر و شعور کی کار فرمائی واضح طور پر نظر آتی ہے۔ سرسید اور ان کے نامور رفقاء نے جس طرح اردو نثر کو جدید ذائقے اور تقاضے سے آشنا کیا ،اردو شاعری بھی ان ادبا کے فکر و نظر سے اچھوتی نہ رہ سکی۔ شعر و ادب میں ہونے والی یہ تبدیلی عوامی خواہشات ، عصری تقاضوں اور مطالبات کا ثمرہ ہی کہی جائے گی۔ اس لیے کہ1857 کے بعد اردو شعرو ادب میں مدّعا نویسی کی داغ بیل پڑ چکی تھی۔ 
اردو کی ابتدائی نظمیہ شاعری کے حاوی رجحان کی جو تثلیث بنتی ہے وہ اخلاقی اور قومی و فطری نظموں پر مشتمل ہے ۔ اسماعیل میرٹھی ، شبلی، وحید الدین سلیم، نظم طبا طبائی اور چکبست کی نظمیں اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔ البتہ ترجمہ نگاری کی روایت نے اردو نظم کے مزاج کومزید صیقل کیا۔ اقبال کے اولین شعری مجموعے ’بانگ درا‘ کے ابتدائی حصے پر اس کے واضح پرتو دیکھے جا سکتے ہیں جہاں مقامی خطابت اور مغربی مقامت کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ 
اردو میں وجودیت کے تناظر میں شعر و ادب کا مطالعہ آزادی کے بعد ہی شروع ہوا۔ البتہ وجودی تصور اور فلسفے کی وہ شقیں جو اس کے فلسفے کو اعتبار بخشتی ہیں ، ہر زمانے کی شاعری میں تلاش کی جا سکتی ہیں۔ علما کے نزدیک وجودیت کا تصور مغربی سلسلہ ہائے فکر کا ردِ عمل ہے جس کے عناصر کی بنیاد تعقل Rationality پر رکھی گئی ہے اور جس کا مرکز و محور ’ کائنات میں انسانی وجود کا اعلان ہے ‘ جسے خود آگہی و خود شعور ی Self-Conciousness ‘بھی تصوّر کیا جاتا ہے۔ 
وجودیت کا سب سے اہم پہلو تصوّر حیرت تسلیم کیا جاتا ہے جو اس روایتی اندازِ فکر کے خلاف ایک شدید ردِ عمل ہے جس نے انسان کو مادیت ، حقیقت ، تجربیت اور مذہبیت کے جال میں پھنسا کر اس کی آزادی پر قد غن لگا دیا ہے جس کے نتیجے میں جیتا جاگتا انسان محض ایک شے ’Object‘ بن کر رہ گیا ہے۔وجودیت اصلاً خود آگہی اور اپنی ذات کے اثبات کی تلاش کا نام ہے جو کسی بھی فرد کے لیے ایک اہم مسئلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔یہ امر مسلّم ہے کہ خود آگہی اس وقت جنم لیتی ہے جب بیگا نگی کا احساس پیدا ہو۔فرد کے اطراف و جوانب میں سیاسی و سماجی بحران کے نتیجے میں ا قدار کی ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری ہو جائے تو زندگی ایک مہیب سنّاٹے سے دو چار ہوتی ہے اور زندگی بے مزہ معلوم ہونے لگتی ہے ایسے میں موت کا خوف ہونا ایک فطری بات ہے۔لیکن انسان کی ایک اہم خواہش اپنے جذبوں کی روشنی میں دنیاکو منوّر دیکھنے کے لیے،اسے ہمیشہ فعال ، متحرکّ اور سرگرداں رکھتی ہے ۔اسی چاہت کے وسیلے سے وہ اثباتِ ذات کا احساس بھی کرتا ہے۔بہ قول حالی:
حملہ اپنے پہ بھی اک بعد ہزیمت ہے ضرور
رہ گئی ہے یہی ایک فتح و ظفر کی صورت 
وجودیت کے فلسفے کی ایک شِق انسان کی وجودی بے بسی اس کی بے چینی کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی اور کائنات کو بے معنی تصوّر کرنا ہے۔ دنیا اور حیاتِ انسانی کو بے حیثیت اور ان سے دل نہ لگانے کی تاکید اردو فارسی کے صوفی شعرا کے یہاں کثرت سے ملتی ہے۔ بعض شعرا اپنے متصوفانہ کلام میں اس بے ثباتی دنیا اور زندگی کو نہ صرف ہیچ قرار دیتے ہیں بلکہ اس دنیا کو مایا جال تصوّر کرکے فرار کی سبیل بھی نکال لیتے ہیں۔ ہماری کلاسیکی ادبی تاریخ فکری اور شخصی سطح پر وجودیت کے تصور سے خالی نہیں بلکہ یہ عملی، فکری، لفظی اور ہیئتی تینوں سطح پر نمایاں ہے۔ البتہ تقسیم ہند کے بعد زندگی کی شکست و ریخت ، لہو لہان معاشرہ ، مہاجرت ، لسانی معاشرت ، تہذیبی و علاقائی تصادم، مذہبی اجتہادات، روز مرّہ کی تبدیل ہوتی ہوئی اقدار ، سیاسی و معاشرتی کشمکش نے انسانی وجود اور اس کی اہمیت پر واقعتاَ شبَ خون مارا۔ نتیجتاً انسان کی ذات دنیاوی بکھیڑوں میں ایسی مستغرق ہو گئی کہ اس کے وجود کو ہی خطرہ لاحق ہو گیا۔ 
اپنے وجود کے تحفظ اور اس کی عظمت و برتری کو قائم و دائم رکھنے کی چاہت انسان کی فطرت کا خاصّہ ہے ۔ اس ضمن میں وہ محض باہری عناصر سے نبرد آزما نہیں ہوتا بلکہ اپنے باطن میں پوشیدہ طاقتوں سے بھی برسرِ پیکار ہوتا رہتا ہے۔ فکری تضادات اور عمل و ردِ عمل کی مسلسل کاوشیں اس کی زندگی کو انگیز کرنے اور ترقی کی راہیں تلاش کرنے کا جواز فراہم کرتی ہیں۔ 
اک اضطراب مسلسل غیاب ہو کہ حضور
میں8 خود کہوں تو مری داستاں دراز نہیں
اقبال نے آزادی سے قبل جہاں قومی و ملی اتحاد پر توجہ دی وہیں فرد واحد میں پوشیدہ قوتوں و صلاحیتوں کی نشان دہی بھی کی اور عظمت انسانی پر خصوصی توجہ دی۔ خودی ،مرد مومن ، شاہین وغیرہ جیسی علامتیں اصلاََ فرد واحد کے اعتبار اور زندگی کی سا لمیت کے امکان کی بین مثالیں ہیں۔ 
اقبال کو عام طور پر شاعرِ اسلام اور ان کے کلام کو قران کی تفہیم تصوّر کیا جاتا ہے اور ہر مکتبۂ فکر کے ادبا اپنی استطاعت کے مطابق ان سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ خدا، اور کائنات کے تعلق سے جو بے چینی اور اضطراب اقبال کے یہاں پائی جاتی ہے وہ اصلاً وجودی تصّور کی غمّاز ہے جس کے پسِ پردہ انسانی جبلّتیں،سماجی تضادات،فکری تذبذب اور انسانی زندگی کے فنا ہو جانے کا خوف بدرجۂ اتم موجود ہے۔ شاعر اپنی بے چینی اور پریشانی کے اسباب و علل کی تلاش میں ہر لمحہ زخمی ذوقِ جستجو رہتا ہے۔ تلاش و جستجو کا یہ عمل اسے تازہ دم رکھتا ہے اور قوت و توانائی بھی عطا کرتا ہے۔ کبھی وہ خود بیں ہوتا ہے کبھی خدا بیں اور کبھی کائنات میں پھیلے قدرتی مناظر سے مکالمہ پر مجبور ہوتا ہے:
میں نے پوچھا اس کرن سے ’’ اے سراپا اضطراب‘‘
تیری جانِ نا شکیبا میں ہے کیسا اضطراب
یہ تڑپ ہے یا ازل سے تیری خو ہے ، کیا ہے یہ
رقص ہے آوارگی ہے، جستجو ہے کیا ہے یہ 
اقبال کے یہاں اس اضطرابی کیفیت کے بظاہر جو اسباب نظر آتے ہیں ان کا تعلق ان کی معاشی اور ازدواجی زندگی کی نا آسودگی سے ہے۔ لیکن اقبال جیسے عظیم المرتبت شاعر کے ضمن میں یہ معمولی اور فروعی باتیں ہی ٹھہرتی ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اقبال نے مذہبی، سماجی اور سیاسی نظام کی آویزش میں الجھے اپنے ذاتی اضطراب کو فلسفیانہ سطح پر دریافت کیا اور پھر اسی دریافت کی روشنی میں اپنے وجود کو تلاش کرتے پھرے ۔ اقبال کا ظاہری وجود ہماری طرح دکھ اٹھاتا ہے۔
امید و بیم کے بھنور میں پھنسا ہے ،تنہائی اور لاوارثی اس کا مقدر ہے اندیشے اور واہمے اس کے تعاقب میں ہیں۔ اقبال ان تمام خدشات کے سمندر میں اپنے انفرادی وجود کو اجتماعی وجود سے واصل کرنے کی کوشش میں لگے ہیں۔ اس گرداب فنا میں اقبال کی حالت اس مضطرب ذی روح کی ہے جو تحفظ کے لیے ہاتھ پاؤں مارتا ہے۔ طوفان کی دہشت اور موت کے خوف سے کپکپاتا ہے اور وجود کی اکائی کو کسی مضبوط وجود سے متواصل کرکے ہمیشہ زندگی کا خواہش مند ہے۔ یہیں وہ موت کے خوف اور زندگی کے تسلسل پر غور کی عادت ڈالتے ہیں۔ 
موت اک چبھتا ہوا کانٹا دل انساں میں ہے
اقبال نے متعدد جگہوں پر زندگی اور موت کے رشتوں اور موت کے ہاتھوں زندگی کی شکست پر اظہار خیال کیا ہے۔ ’شمع پروانہ ، سید کی لوح تربت ، عشق اور موت، رخصت اے بزم جہاں وغیرہ اس کی بین مثالیں ہیں۔مسجد قرطبہ اور ساقی نامہ جیسی نظموں میں اقبال نے یہاں تک لکھا ہے کہ :
’’ زندگی خود موت کی گھات میں ہے اور عشق موت کا تریاق ہے‘‘۔ لیکن اس کامطلب یہ ہرگز نہیں کہ وجودیت کی وہ شق جس کا تعلق منفی رویوں اور بے چہرگی و نا امیدی سے ہے ،اقبال اس کے موید یا حمایتی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ وجودیت کو انقلاب،تغیر ، بحران ، انحراف ، انکار اور انفرادیت کے فلسفے کے قالب میں ڈھالا جائے تو اقبال کا فلسفۂ خودی ، وجودی تصوّر کی بہترین مثال ہے۔ 
فرد کی آزادی اور اس کے امکان کی تلاش و جستجو وجودیوں کے فلسفے کا بنیادی نکتہ ہے جہاں آزادی رائے اور آزادی اظہار کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ یہ آزادی انسانی وجود کی علامت اور اس کو محترم وممتاز بناتی ہے۔یہی آزادی آدمِ خاکی کے مرتبے کا تعین اور دوسری مخلوق پر تفوق عطا کرتی ہے۔ اقبال کا یہ بند ملا حظہ ہو:
آزادی کی اک آن ہے محکوم کا اک سال
کس درجہ گراں سیر ہیں محکوم کے اوقات
آزاد کا ہر لحظہ پیامِ ابدیت
محکوم کا ہر لحظہ نئی مرگِ مفاجات
یہ امر ملحوظِ خاطر رہے کہ جدید نظم مزاجی اور زمانی دونوں لحاظ سے نئی فکر و بصیرت کی زائیدہ تھی۔ اس دور میں سیاسی و تہذیبی سطح پر بھلے ہی غیر یقینی کا ماحول ہو لیکن تخلیقی سطح پر یہ نئے تجربے کا زمانہ ضرور تھا۔بیسویں صدی کے نصف اوّل میں ہندوستانی تاریخ جس سیاسی و سماجی اتھل پتھل سے دو چار تھی وہ اہلِ نظر سے پوشیدہ نہیں، اس دورمیں قومی اور بین الاقوامی سطح پرنو آبادیاتی نظام،ظلم وزیادتی اور تفریق کی بدولت انگریزی حکومت کے استحکام کی حکمتِ عملی کے نتیجے میں ایشیا ،افریقہ اور دوسرے علاقوں کے علاوہ ہندوستان میں جو بے اطمینانی ، بے چینی، غم و غصّہ کے علاوہ احتجاج و مزاحمت کی صورت پیدا ہوئی وہ بالکل فطری تھی۔اس غیر یقینی،اداسی اور مایوسی نے فردindividual))کے انفرادی تجربے، مشاہدے،نفسیات، مسائل، مایوسی اور خوابوں نے جدید نظم پر اپنے داخلی و خارجی اثرات ثبت کیے۔ اس تذبذب، بے یقینی،مسائل کی فراوانی اور غیر یقینی سیاسی نظام کے دلدل سے نجات پانے کی چاہت نے ایک ایسی قوت کی آرزو کو جنم دیا جو پوشیدہ اور غیبی مددکی مشروط کمک کی توقع کی شکل میں سامنے آئی۔ اس سلسلے میں ایک اہم نام میرا جی کا ہے جن کے وجود کا دائرہ بیرونی و خارجی کے بجائے اندرونی اور داخلی طور پر نمو پذیر ہوا ہے۔انھوں نے خود ساختہ زندگی اختیار کی تھی لیکن اس سے بر آمد ہونے والی لا حاصلی پر کوئی رنج وملال نہیں۔وہ ایک دائرۂ الجھن کے گرداب میں گھو متے ہیں۔وہ نہ تو خوفِ مرگ کی اذیت میں مبتلا ہیں نہ خدا اور سماج سے اخلاقی جنگ فتح کرنے پر مصر ہیں۔وہ تو خود شعوری کے ایسے گرداب کے اسیر ہیں جو ان کی ظاہری و باطنی صورت کو تبدیل کیے ہوئے ہے۔ ان کی شخصی تصویر سے ایک کراہت، امتلا،اعصابی تشنج ،نیم دیوانگی اورادھورے پن کی صورت ابھرتی ہے۔ وہ کسی روایتی اخلاقیات کو قبول نہیں کرتے۔وہ صرف اپنی ذات کے شاعر ہیں اور پہلی محبت کی ناکامی اور عشق کی محرومی نے ان کے ذہن و نفس پر ایسا اثر قائم کیا کہ انھیں خود کی بھی پروا نہ رہی۔میرا جی شخصی دہشت کا شکار تھے اور اپنے داخلی تجربے اور فیصلے کے باعث عوام الناس سے بھی بیگانہ ہو گئے۔
ن م راشد کے پیش رو اقبال کی اردو نظموں میں مرد مومن، مردکامل، مردِ حر،شاہین وغیرہ کاوجودی استعارہ اصلاً انہی خواہش کی تکمیل کے ذرائع ہیں۔اقبال کامذہبی تیقن فردِ واحد کی عظمتوں اور قوتوں کے اعتراف کے باوجود’فرد پرستی ‘سے باز رکھتا ہے۔خودی حقیقتاً عرفانِ ذات کا عمل ہے جو اطاعتِ خداوندی کی تابع ہے۔اس کے برعکس راشدکے یہاں زندگی کی بے معنویت وبے رنگی انتقام کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔بہ الفاظِ دیگرراشد زندگی کی بے معنویت کو ختم کرنے کی بجائے زندگی کو روپ دینے والے عناصر سماجی و مذہبی حد بندیوں سے نبرد آزما ہوتے ہیں۔راشد کا یہ ردِّ عمل سیاسی، معاشی اور مذہبی ہرسطح پر ظاہر ہے،یہاں تک کہ وہ خدا کے وجود پر بھی سوالیہ نشان قائم کرنے سے گریز نہیں کرتے۔
الہی تیری دنیا جس میں ہم انسان رہتے ہیں
غریبوں، جاہلوں،مردوں کی بیماروں کی دنیا ہے
یہ دنیا بے کسوں کی اور لا چاروں کی دنیا ہے
ہم اپنی بے بسی پر رات دن حیران رہتے ہیں
راشدکے پہلے شعری مجموعہ’ماورا‘کی نظم ’خواب کی بستی‘ بیگانگی اور بے چہرگی کے تاثرات سے مزیّن ہے اور بڑی حد تک ہائیڈگر اور کافکا کے وجودی احساسِ کرب کی ترجمان کہی جائے گی:
مرے محبوب جانے دے، مجھے اس پار جانے دے
اکیلا جاؤں گا اور تیر کی مانند جاؤں گا
میں تنہا جاؤں گا اور تنہا ہی تکلیفیں اٹھاؤں گا
مجھے جانے دے اب رہنے دے میری جان جاتی ہے
بس اب جانے بھی دو اس ارضِ بے آباد سے مجھ کو
یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ صبحِ آزادی کی پہلی کرن ،تقسیمِ ہند کے ساتھ نمودار ہوئی ۔ یہ تقسیم محض جغرافیائی اور زمینی خطے کی نہ تھی بلکہ سیاسی، معاشی،معاشرتی کے علاوہ تہذیب کا بھی بٹوارہ تھا۔ کشت وخون کے بطن سے جنم لینے والی اس تقسیم کے نتیجے میں متعددمسائل بھی ابھرے۔دونوں ملکوں میں تارکینِ وطن کی چھوڑی ہوئی جائیدادوں،مکانات جاگیروں اور دولت پر مقامی شہ زوروں اور موقع پرستوں نے قبضہ کر لیا۔ آزادی کے بعد دونوں ملکوں میں نیا قانون بنا۔لیکن اس سے عوام کو خاطر خواہ فائدہ نہ پہنچ سکا۔غریبوں، کسانوں ، مزدوروں اور مہاجروں کے مقدر کو یہ قانوں بدل نہ سکا ۔دوسرے الفاظ میں پہلے یہ انگریز کے ظلم وزیادتی کے شکار تھے اب ان کی عزت و آبرو اپنے ملک کے امرا ، رؤسا اور اہلِ اقتدار کے ہا تھوں میں تھی۔بھوک وافلاس، بے روزگاری، لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت نے آزادی سے قبل مثالیت پسندی کے خواب کو شرمندۂ تعبیر نہ ہونے دیا۔ ترقی پسندوں کے اشتراکی سماج کا خواب محض خواب ثابت ہوا،دوسری طرف قیامِ پاکستان کے بعد مذہب کے سرفروش جس کامل مذہبی ریاست کا ڈول ڈالنا چاہتے تھے،اس کے آثار نمایاں نہیں تھے۔ٖفیض کی نظم صبحِ آزادی کو اسی تناظرمیں دیکھا جا سکتا ہے۔اسی طرح ان کی نظم ’تنہائی‘ کومحبوب کی محبت اور رومانی وفور کی بجائے اس دور کی تاریکی میں داخلی اورخارجی نقصان کے تصادم کا اعلامیہ تصوّر کیا جا سکتا ہے۔غور سے دیکھا جائے تو پوری نظم اپنے عہدکی مایوسی ، بے تعلقی اور بے چہرگی کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ 
گل کرو شمع بڑھا دو مئے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفّل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا
یہ مایوسی اور اداسی اصلاََ اس نئے معاشرے میں ابھرتی ہے جہاں نفسا نفسی، افرا تفری اور مفاد پرستوں کی بالا دستی ہے اور جہاں امیرانہ ثقافت ، محنت کش ثقافت کو تہس نہس کرنے کے درپے ہے ۔ مختلف نا آسودگیوں اور مظالم کے درمیان ابھرنے والے مکالمے میں خدا کا درجہ بھی ایک وجود اور ایک موجودگی کی علامت تھا۔ ہر چند کہ اقبال کے یہاں ’من و تو‘ کی دوئی مٹانے کا رجحان ملتا ہے۔ احمد ندیم قاسمی بھی انھیں خیالات کو اپنی نظم میں اس طرح پیش کرتے ہیں:
اگر نجوم میں تو ہے تو چاند میں ہے کون
ترے جمال کی تقسیم ہو نہیں سکتی 
حرم میں تو ہے تو آخر کنشت میں ہے کون
ایک ذات تو دو نیم ہو نہیں سکتی 
جو قوتیں ہیں تری منتشر تو سچ کہہ دوں
اس جہان کی تنظیم ہو نہیں سکتی
ہند و پاک کے جاگیردارانہ نظام ، امرا اور رؤسا کی بالا دستی کے پہلو بہ پہلو بعض نام نہاد مذہبی رہنما خلق خدا کی اس مذہبی روح کو تبدیل کرنے پر آمادہ تھے جس میں مساوات اور انسانیت کی اقدار کی تقدیس کا احترام تھا ۔ مذہبی جبر اور قابضانہ وابستگی نے خدا کے بارے میں لوگوں کے دلوں میں منفی اور انتقامی جذبات ابھارے اور بے درد سنگ دل دنیا میں زندہ رہنے کی بے روح کیفیات کو انکار کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی جس سے خود دریافتی کی صورت پیدا ہوئی۔ احمد ندیم قاسمی کی نظم کا یہ ٹکڑا دیکھیے:
آسمانوں کی طرف مت دیکھو
آسمانوں میں تو اتنی سی حقیقت بھی نہیں
کہ کس لمس کو ممنون کریں
اور انسان جسے چھو نہیں سکتے
اسے تسلیم کہاں کرتے ہیں
آسمانوں سے پرے ہے حد امکانِ رسائی ان کی
آسماں کچھ بھی نہیں
تم زمیں پر ہو تو اس حد تک حد امکانِ رسائی پھیلاؤ
اس کی مخلوق کو دیکھو جو چہروں میں دماغوں میں
دلوں اور ضمیروں میں کئی رنگ کے افلاک لیے پھرتی ہے
( افلاک زمینی)
فیض اور احمدندیم قاسمی دونوں خدا اور رسول اور ان کے احکام پر یقین رکھنے کے باوجود دونوں نے اجتماعی سطح پر قائم بالذات رہنے کا حوصلہ انکار سے حاصل کیا ہے۔ یہ وجودی طریقِ حیات ہی ہے کہ منفی رویّوں کو ردّ کرکے ایک ایسے معاشرے کی تعمیر و تشکیل کی آرزو رکھتے ہیں جہاں فرد، اس کے فکر و عمل اور زندگی کا ہر لمحہ آزاد ہے ۔ ترقی پسندوں کے یہاں فردی وجودیت اور اجتماعی وجودیت میں کوئی بُعد نہیں اس لیے کہ فرد کی اجتماعیت سے ہی معاشرہ تعمیر پاتا ہے اس لحاظ سے اس کی حیثیت ایک اکائی کی ہے۔ 
وزیر آغا کے یہاں کائناتی جبر سے نظم ارتقا پذیر ہوتی ہے۔ ان کے یہاں انسانی وجودگی کی بے ثباتی اور ناپائیداری کا خوبصورت نقشہ بہ آسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ شہری دنیا کے مصائب ، گاؤں کی اجنبیت اور مشینوں کی زد میں رہنے والا یہ وجود نا معتبر ، سیہ فام بلڈوزر کی زد میں ،بستیاں اور کارخانے آباد ہو رہے ہیں ۔ اونچے اونچے مکان بن رہے ہیں جن کی ہیئت وزیر آغا کے بنیادی استعارے ’رات‘ کی صورت میں جلوہ گر ہوتی ہے ۔ وہ اس رات کے جبر کو بڑی بے دردی سے بے نقاب کرتے ہیں ۔ آخری شب ، اکیلا، رت جگا، سفر کا دوسرا مرحلہ اس سلسلے کی نظمیں بہ طور مثال پیش کی جا سکتی ہیں۔ 
1960 کے بعد کی نظمیہ شاعری موضوع اوراسالیب کی سطح پر تا زہ کاری کا تاثر فراہم کرتی ہے۔ ن م راشد اخترالایمان، اور مجید امجد جیسے پیش رو شعرا سے قطع نظربعد کے شعرا میں عمیق حنفی،محمد علوی،خلیل مامون،وحید اختر،زبیر رضوی،ندا فاضلی ان کے بعد صلاح الدین پرویز،عنبربہرائچی، جینت پرمار،ارشد عبدالحمید اور نعمان شوق وغیرہ کے یہاں حالات کے بدلتے تیور کے ساتھ فکرو اسالیب میں تبدیلی نمایاں ہے۔یعنی یہ شعرا زمانی اور فکری دونوں سطح پر اپنے پیش روؤ ں سے مختلف ہیں۔ان کی شاعری بیانیہ ہونے کے با وجود ایک قوت رکھتی ہے جس سے ما قبل کی بیشتر شاعری عاری تھی۔البتہ ہماری اس دور کی شاعری کا دائرہ ایک خاص محور و مرکز تک ہی مرتکز ہے ۔ یہ عہد اس لحا ظ سے بھی ایک علاحدہ تقا ضا رکھتاہے کہ یہاں خودکی اہمیت کا زیاں ہونے کا احسا س صرف بے چین ہی نہیں کرتا بلکہ اپنی قوت و طاقت کی از سرِ نو یافت بھی اس کی بے اطمنانی کی وجہ ہے۔ہما رے معاشرے میں جس طرح سرِ عام زنا کاری، آتش زنی اور تشدد کی وارداتیں عام ہیں اور جس طرح مذہبی بنیاد پرستی اور تہذیب پرستی کا رجحان بڑھا ہے اس سے نہ صرف ہماری مشترکہ تہذیب متاثر ہوئی ہے بلکہ انسانی اقدار کے فروغ کی راہیں بھی مسدود ہو رہی ہیں۔ان سب کا برملا اظہار جدید نظم گو شعرا نے بدیہی طور پر کیا ہے۔ بطور نمونہ زبیر رضوی کی نظم کا یہ بند دیکھیے:
پہلے کی جنگ اور تھی آج کی جنگ اور ہے
پہلے محاذ اور تھے آج محاذ اور ہیں
سنگ بنام دشمناں، پھول بنام دوستاں
زیرِ زمیں تجربے ایٹمی بم کے زلزلے
آگ ہوا میں بھر گئے
ساری فضا ئیں نیلگوں کالے دھوئیں سے اٹ گئے
ساتھ اگر کوئی نہ دے خیمہ اقتدار کی حکم عدولی گر کر ے 
اس کو سزائے موت ہے
عمیق حنفی کے یہاں روایت اور تاریخ سے اخذ و اکتساب کا عمل زیادہ ہے اور ان کا تخلیقی وجدان ماضی اور حال کو نئے نئے ربط دینے میں ہمیشہ سر گرم رہا ہے۔وہ تخلیق کو الفاظ و آواز کا طلسم تصوّر کرتے ہیں جس میں مشینوں کے غل غپاڑے، انسانی ہجوم کے شور و غوغا ،برق رفتار سواریوں کی پاگل دوڑ،نوٹ چھاپنے کی دھن میں لگے ہوئے جذبۂ احساس،اخلاقی و جمالیاتی قدروں سے بے نیاز اورانسانیت سے عاری آدم زادوں کے جوڑ توڑ اور برق و مقناطیس کے جادوئی شکنجوں میں پھنسی ہوئی تہذیب کی چیخ صاف سنائی دیتی ہے۔ وہ ایک مسلسل نا آسودگی اور نا رسائی کے اذیت ناک احساس سے بھی دو چار ہوتے ہیں۔ جب کہ مجید امجد کے یہاں انسانیت کی بے توقیری، فرد کی بے بضاعتی اور عدم تحفظ کے احساس نے تنہائی اور کرب کو جنم دیا۔ مجید امجد اس دور کی پیداوار ہیں جب معاشرتی قدروں کے انہدام سے پھیلنے والی بے چینی، بیقراری، منافقت، خود غرضی اور مفاد پرستی نے انسان کو بالکل تنہا اور اکیلا کر دیا۔مجید امجد کی نظمیں اپنے عہد کے فرد کی بے بسی اور محرومیوں کا کو لاژ ہے:
عشق پیتاہے جہاں خوں نا بۂ دل کے ایاغ
آنسوؤں کے تیل سے جلتا ہے الفت کا چراغ
جس جگہ روٹی کے ٹکڑے کو ترستے ہیں مدام
سیم و زر کے دیوتاؤں کے سیہ قسمت غلام
جس جگہ حب وطن کے جذبے سے ہو کر تپاں
سولی کی رسّی کو ہنس کر چومتے ہیں نو جواں
جس جگہ انسان ہے وہ پیکر بے عقل و ہوش
نوچ کر کھاتے ہیں جس کی بوٹیاں مذ ہب فروش
جس جگہ یوں جمع ہیں تہذیب کے پرور دگار
جس طرح سڑتے ہوئے مردار پر مردار خوار 
( یہی دنیا)
مجید امجد کی نظموں کی ایک خاصیت کسی جان دار یا بے جان شے کو علامت کے طور پر استعمال کرنا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ انھوں نے مکمل وجود کے اظہار کے لیے محض کسی ایک جذبے یا احساس یا قدر کو علامت کے طور پر پیش کیا ہے،جس سے ان کی شاعری میں ایک فلسفیانہ عمق پیدا ہو گیا ہے ۔گدلے پانی،دروازے کے پھول، اے ری چڑیا، صاحب کا فروٹ فارم اور ان خار زاروں میں جیسی نظموں سے فرد کی بے کراں ذات کی تفہیم پوری طرح مترشح ہو جاتی ہے۔
جب کہ منیر نیازی کی نظمیں تعشقِ ذات کے معصومانہ تجربات کا مرقع تصوّر کی جاتی ہیں۔ ان کے کلام میں محبت اور حیرت کی ملی جلی کیفیت پائی جاتی ہے۔وہ اپنے من میں ڈوبتے ہیں اور اپنے وجود کی پرتیں کھولنے کی کوشش کرتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ منیرنیازی کے یہاں انسانی تلاش میں شاعرکی ذات کے گم ہوجا نے کا خوف اوراپنے آپ کو پہچاننے کاتجربہ انہیں اختصاص عطاکرتاہے۔
روز ازل سے وہ بھی مجھ تک آنے کی کوشش میں ہے
روزازل سے میں بھی اس سے ملنے کی کوشش میں ہوں
لیکن میں اور وہ ..... ہم دونوں
اپنی اپنی شکلوں جیسے لاکھوں گورکھ دھندوں میں
چپ چپ اور حیران کھڑے ہیں
کون ہوں میں
اور کون ہے تو
سب اس درد میں کھوئے ہوئے ہیں
صبح کو ملنے والے سمجھیں
جیسے یہ تو روئے ہوئے ہیں
محسوس کیاجاسکتا ہے کے طالب ومطلوب ،فاعل ومفعول،عشق وحسن،عاشق و محبوب اپنی اپنی ذات کے اثبات وانکارکی پیچیدگیوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ یہ تکلیف دہ صورت حال وہ پشیمانی ہے جو قصّے کے انجام میں المیہ بن جا تی ہے ۔کھوجانے اور رو دینے، کی کیفیت اسی کشمکش کا مظہر ہے۔ 
احمد ہمیش کی نظمیں تجرید اور ابہام کے امتزاج سے خلق ہوتی ہیں۔ تخلیقی سطح پر ان میں جو سوالات قائم کیے گئے ہیں وہ سماج اور حالات کی کج روی اور نا ہمواری سے متعلق ہیں جو پیچیدہ اور بے ساختہ ہیں:
عادتیں اور عمریں ہمارے ملک کے پرانے غلاموں کی طرح 
اپنا اپنا حصّہ لینے کو کھڑی تھیں
یعنی ہم نہیں جانتے کہ ہم کیوں روشنیوں میں بٹ گئے
یعنی ہم نہیں جانتے کہ ہم کیوں اندھیروں میں محلول بنے
احمد ہمیش کے یہاں قدیم اساطیر نئی ترجیحات کے ساتھ ایک خاص طرز کے لسانی اسلوب اور منظر نامے میں ڈھلتے ہیں جن کا پوری طرح ابلاغ نہیں ہوتا ، ایک مبہم سی شعوری لہر نظم کی ترکیب پر دھندلا سا پردہ ڈال دیتی ہے۔ ان کے یہاں دنیاوی کاروبار کے نتیجے میں ابھرنے والی کراہت اور تلخی ان کی ذات اور شاعری کو اختصاص عطا کرتی ہے۔ اپنی ذات اور گرد و نواح میں پھیلی ہوئی کائنات کی آگاہی انسانی فکر کا بنیادی نقطہ ہے۔ آگہی کی یہ چاہت فرد کو کائنات سے اس طرح جوڑتی ہے کہ انسان مختلف نظام حیات کی دوئی کو مٹانے کی کوشش کرنے لگتا ہے۔ تاہم ان سے رشتہ استوار کرنے میں بھی وقت ، جغرافیائی حد بندی اور لسانیاتی تضادات اور کبھی کبھی سیاسی اور سماجی بندشیں مانع آتی ہیں۔ 
خلیل مامون کے یہاں ذہنی اور تخلیقی آزادی پر نسبتاََ زور ،زیادہ ہے۔ ان کے یہاں تاریخ کی ہولناکی اور زندگی کی بے بسی نیز نا آسودگی سے جو غم و غصہ جنم لیتا ہے وہ احتجاج کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ بلکہ بسا اوقات اضطراب اور بے چینی اور روحانی اضمحلال کبھی کبھی راشد سے زیادہ شدید نظر آتا ہے۔ 
ڈوبتے نیلے آسمان پر رات کا وار
سڑکوں، شاہراہوں اور ایوانوں میں 
قہروں غضب کی ہاہا کار 
ایسا ہے جیون اپہار 
قحبہ خانوں، بازاروں میں گھر سنسار
ایسے کیوں زندہ ہو لوگوں ! مر جاؤ
شام ہوئی اب دریا پار اتر جاؤ
( بڑھ گئے سائے)
وجودی سیاق میں متذکرہ نظموں کے مطالعے کے بعد یہ کہنے میں کو ئی باک نہیں کہ جدید نظم کا ہر شاعر موضوع کے برتنے میں کسی فارمولے کا پابند نہیں۔ جدید نظم نگاروں کے یہاں ذاتی تجربے اور روییّ میں بھی اظہار کے سانچوں میں امتیاز و فرق واضح ہے۔بہ قول عتیق اللہ :
’’ یہ شاعری منصوبہ بند آئیڈیو لوجی کے بر خلاف ان تجربات کی حامل ہے جو عہدِ حاضر اور اس کے انسانوں کے ساتھ مشروط ہونے کے با وجود شاعر کے انفرادی ردّ عمل کی مظہر ہے۔ان نظموں میں سمبلا ژ اور مونتاژ کے عمل سے بھی کام لیا گیا ہے جو بیان محٗض میں یکساں روی کے تاثر کو ابھارنے سے باز رکھتا ہے۔یہ نظمیں اپنے عہد سے عدم اطمینانی کی مظہر بھی ہیں اور اپنے عہد کی بے مرکزیت کے خلاف ایک شکوہ اور احتجاج کا حکم رکھتی ہیں اور انھیں مزاحمتی شاعری کے ذیل میں بھی رکھا جا سکتا ہے۔‘‘ (بیانات، ص: 228)
اردو کی جدید نظمیہ شاعری میں حریت و فکر نظر کو بہ طور خاص اہمیت دی گئی ہے۔ یہ آزادی صرف منفی رویّوں نیز برائی اور بدی کے خلاف ہی نہیں بلکہ اچھائی اور نیکی کے انتخاب میں بھی کلیدی رول ادا کرتی ہے۔ ان نظموں میں اثبات ذات اور وجود کے لیے آزادی بے حد ضروری ہے۔ ٹھیک اُسی طرح جس طرح وجودیوں کے یہاں آزادی کے بغیر وجودیت کا اثبات ممکن نہیں ۔ یہاں انسانی ذات کی ٹوٹتی اور بکھرتی اقدار سے رنج و غم تو پیدا ہوتے ہیں لیکن اس کے جوش و عمل اور آگہی ،روحِ انسانی کو ایک نئے جہان امکانات سے آشنا کرتے ہیں، جو انسانی وجود کے اثبات کو ایک وقار و معیار عطا کرنے کے لیے لازمی عناصر ہیں۔ 

Mr. Aftab Ahmad Aafaqui
Department of Urdu, 
Banaras Hindu University, Varanasi, (UP), Mob:- 09450527733







قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں