30/1/19

1980کے بعد کی نظموں کا اسلوب مضمون نگار:۔ کوثر مظہری





1980کے بعد کی نظموں کا اسلوب
کوثر مظہری
کسی بھی فن پارے کا اسلوب اس کے مشن کے اندرون سے تشکیل پاتا ہے۔متن بنتا ہے لفظوں سے۔ اسلوب اظہار پر گفتگو کرنے کے لیے Text oriented تجزیے سے کام لینا پڑتا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے کہ اسلوبی مطالعے میں اقداری فیصلے (Value Judgement) سے احتراز برتنا پڑتا ہے۔ اقداری فیصلے صادر کرنے کا کام قدیم اور روایتی طریقہ تنقید کا رہا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ جب ارتکاز نقد متن پر ہوگا تو Value Judgement بھی ازخود ہوتا جائے گا۔ دراصل متن کو مطالعے کا محور و مرکز بنانا اقداری فیصلے صادر کرنے کی بہ نسبت ذرا مشکل کام ہے۔
اردو نظم جس کی 1980 کے آس پاس شناخت بنی یا پھر جس نے اسی زمانے میں اپنے وجود کا احساس دلایا، ماضی میں اس کی ایک بڑی تاریخ رہی ہے۔ نظم کی یہ تاریخ اپنے اظہار کی سطح پر آزاد، حالی، شبلی، سرور جہان آبادی، چکبست سے لے کر اقبال، احسان دانش، حفیظ جالندھری، جمیل مظہری، جوش ملیح آبادی، سردار جعفری، مجاز، ساحر، فیض، مخدوم تک پھیلی ہوئی ہے۔ اسی ترقی پسند تحریک کے زمانے میں اخترالایمان، ن م راشد، میراجی نے بھی اپنی نظموں سے ادب کے دامن کو مالامال کیا۔ اگر ان تمام شعرا میں اسلوب کی سطح پر پہچانے جانے والے متون کی بات کریں تو صرف حفیظ جالندھری، جوش، فیض، اخترالایمان، ن م راشد اور میراجی کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلوب بنانے میں لسانی در و بست کی اہمیت ہوتی ہے۔ ان شعرا کے سامنے بھی غالب اور اقبال جیسے شاعروں کا اسلوب اظہار پہاڑ بن کر کھڑا تھا۔ استعاراتی لحاظ سے بھی اور علامتی لحاظ سے بھی۔ اقبال کے اسلوب اظہار کا عکس لطیف ایک نئے کینوس پر، جمیل مظہری، ن م راشد، مختار صدیقی، سردار جعفری، اخترالایمان، مجید امجد وغیرہ کے یہاں دیکھا جاسکتا ہے۔ ذرا آگے بڑھ کر دیکھتے ہیں تو نظم نگاروں میں وحید اختر، خلیل الرحمن اعظمی، منیب الرحمن، شاذ تمکنت، وزیر آغا، عمیق حنفی، کمارپاشی، مظہرامام، بلراج کومل، شہریار، شفیق فاطمہ شعریٰ، قاضی سلیم، سلیمان اریب، باقر مہدی، ندا فاضلی، زبیر رضوی، بشر نواز وغیرہ کے نام سامنے آتے ہیں۔ ان میں بھی جن کے یہاں الفاظ و تراکیب کے برتنے اور اسلوب اظہار کے طور پر انفرادیت نظر آتی ہے ان میں وحید اختر، شاذ تمکنت اور شفیق فاطمہ شعریٰ کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ اردو نظم نگاری میں جس اسلوب کو، ن۔ م۔ راشد، یوسف ظفر، مختار صدیقی، ضیا جالندھری نے پروان چڑھایا، اسی کو وحید اختر اور شفیق فاطمہ شعریٰ نے آگے بڑھایا۔ ان شعرا نے اقبال کا اثر سب سے زیادہ قبول کیا۔ شفیق فاطمہ شعریٰ کا نظمیہ اسلوب ملاحظہ کیجیے مگر اسے حتمی تصور نہ کیا جائے کہ ان کے یہاں اس اسلوب کے علاوہ دوسرے مختلف اسالیب اظہار بھی ملتے ہیں۔ آئیے ان کے یہاں اقبال کے اسلوب کی روح کو محسوس کرتے ہیں:
اک نوائے غم گسار جیسے ناقۂ تتار
پھوٹ کر مہک اٹھے وادیوں میں چار سو
اک کرن کی کیا بساط، پھر بھی ابر تہہ بہ تہہ
اس کی راہ کا غبار، بن کے نوردر سبو
آتش چنار نے آسماں کو چھو لیا
میرے شعلہ بلند اک جہاں کو تو بھی چھو
یوں ترنگ بن کے ناچ قلب روزگار میں
پیکر بہار میں جیسے نشۂ نمو
میری خاک میں ہے جذب عصر عصر کا نچوڑ
اور میری خاک کی فصلِ سروقد ہے تو
ہر طرف ثمر لٹا خوشہ ہائے زر لٹا
دشت کے شکوہ میں اپنا کروفر لٹا

(ارض نغمہ: گلۂ صفورہ)
شفیق فاطمہ شعریٰ کے بعد وحید اختر کے نظمیہ اسلوب کی ایک مثال پیش کی جاتی ہے:
نیند کے در پہ ہوئی دستک سی/ کس نے زنجیر خیالات کو جنبش دی ہے
جگمگانے لگے احساس کے آئینوں میں رنگیں اوراق/ بول اٹھیں جاگتی سوتی ہوئی تصویریں بھی
مطلع ذہن سے پھوٹی شفقِ نور آثار/ خواب نادیدہ نے آنکھوں سے ہٹا دی چلمن
ماضی و حال نے آیندہ زمانوں کی حدوں میں جھانکا/ پاؤں کی چاپ سے گونج اٹّھا سراپردۂ خواب
کھنچ گئیں پھیلی فضاؤں کی، خلاؤں کی طنابیں اک بار/ چشم سیار و ثوابت سے لڑی ارض کی چشم بیدار
رقص افلاک بھی اب دسترسِ شوق میں ہے/ خواب ہی خواب میں ہر سو رقصاں
جل گئے شہپر جبریل کہیں سدِرہ پر/ اب ہے خود شوق سفر جادہ طراز و رہبر
(معراج : پتھروں کا مغنّی 1966)
مذکورہ بالا دونوں نظموں کے ٹکڑوں سے جو آہنگ اور اسلوب تشکیل پاتا ہے وہ 1980 کے آس پاس آکر ہمارے شعرا میں کچھ کے یہاں دیکھا اور پرکھا جاسکتا ہے۔ اس پر شکوہ اسلوب میں لہجہ کہیں دھیما اور کہیں تند نظر آتا ہے۔ ایسے اسلوب میں داستانی رنگ اور ایک طرح کا مافوق فطرت طرز اظہار نظر آتا ہے۔ عبدالاحد ساز، شاہد کلیم، عنبربہرائچی، فرحت احساس، عین تابش، حمید الماس، سلیم شہزاد کے نام اس لحاظ سے اہم ہیں۔ عبدالاحد ساز کی ایک نظم عوج بن عُنُق ہے جو اساطیری اسلوب کو پیش کرتی ہے۔ اس داستانی اور اساطیری نظم کا یہ حصہ دیکھیے:
ناف اس کی۔۔۔مرکزِ ثقلِ زمانہ/ پیٹ اس کا۔۔۔ پیٹ بھرنے کے وسائل کا خزانہ
وہ گھروں سے، دفتروں سے، راستوں سے/ رینگتے بونے اٹھاتا/ اپنی کہنی اور کلائی پر چلاتا
حسب منشا ذائقے کے طور پر ان کو چباتا جارہا تھا۔۔۔
جان لیکن اس قوی ہیکل کی اس کے گردن و سر میں نہ تھی
جان تھی ٹخنوں میں اس کی/ اُس کے ٹخنے/ سرد اور محفوظ تہہ خانے کی تہہ سے تھوڑا اوپر
دور تک پھیلے ہوئے بے روح ساحل پر عیاں تھے/ اور وہیں اک دل زدہ بیزار موسیٰ
شہر کے سب سے بڑے ہوٹل کی چھت کو چھو نہ سکنے سے خفیف
نابلد ٹخنوں کی کمزوری سے دیوِ عصر کی/ اپنے امکاں اور ارادے کے عصا کی ضرب سے ناآشنا
نیم مردہ ’سرد‘ بے حس ریت پر سویا ہوا تھا
دنیا کی بڑی طاقتوں کی حماقتوں اور جبر کو ساز نے اسطوری تمثیل کے اسلوب میں پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اسی طرح ایک یاس انگیز پینٹنگ ملاحظہ کیجیے جو کہیں نہ کہیں داستانی اسلوب کو فروغ بخشتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ایسا اسلوب جیسے قصہ گوئی سے لطف اندوز ہورہے ہوں:
رات کی بوجھل اداسی اور یاد رفتگاں
سینۂ دریا پہاڑوں کے نگر سوئے ہوئے
بجھ رہے ہیں چاند تارے جل رہے ہیں جسم و جاں
دشت کے پہلو میں دیوانوں کے گھر سوئے ہوئے
بحر و بر پر چھا رہا ہے نم اندھیروں کا دھواں
سایۂ ظلمت تلے اُجڑے بشر سوئے ہوئے
(چندر بھان خیال : رات کی بوجھل اداسی : شعلوں کا شجر : 1979)
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلوب اظہار کے حوالے سے لفظوں اور ترکیبوں کے در و بست اور استعارہ سازی کے عمل پر بحث کی جاتی ہے۔ آج کل جو شاعری ہورہی ہے اس میں لفظوں کے انتخاب اور پیکرتراشی کی کسی کو فرصت نہیں لیکن جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ کچھ نئے شاعروں نے ن م راشد، یوسف ظفر، شاذ تمکنت، وحید اختر، شفیق فاطمہ شعریٰ وغیرہ کے اسلوب کی حرمت کو بحال رکھنے میں دل چسپی دکھائی ہے۔ ساجد حمید نے اپنی نظموں کی بافت کو مستحکم کرنے میں کافی محنت کی ہے جس کے سبب ان کا اسلوب اظہار گٹھا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ ان کی کئی نظمیں، انتشار صنعت، کورچشماں، میں پرانا ہوا، ملگجی شام کے سمندر میں، لہو منظری وغیرہ اس ذیل میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ نظم کورچشماں دیکھیے اس کے کچھ مصرعے حذف کردیے گئے ہیں:

طلسم ذات میں گھری ہے کائنات شور و شر
سکوں کا ذائقہ چکھے ہوئے صدی گزر گئی
سماعتیں ہیں یخ زدہ/ لہو لہو میں برف ہے
فنا بقا کے درمیاں یہ جھولتا ہوا ہجومِ شہرزرد زرد ہے
کہ زندگی سے زندگی کی ہر ادا نبرد ہے/ ہوائے تازہ سرد ہے
برہنگیِ روح کے ہیں نقش پا خلاؤں میں نفس نفس پکارتے
سراب در سراب کھوگئی ہے آنکھ باوضو/ صلیب فکر پر چڑھا ہوا ہے خواب آرزو
سمندروں میں ڈوب کر ابھر رہی ہیں کشتیاں/ وہ کشتیاں کہ جن پہ استخواں ہیں جسم و روح کی
یہ کس کی آرزو میں کور چشم ہوگئی ہے شب
(کورچشماں از ساجد حمید)
اس نظم میں ساجد حمید نے لفظوں کے برتنے کا جس طرح اہتمام کیا ہے وہ لائق تحسین ہے۔ منظرکشی ہے لیکن خارجی عوامل کے بجائے اپنے وجود اور وجود کے اندرون کی صورتِ حال بیان کی گئی ہے۔ کچھ ایسے فقروں اور مرکب الفاظ و تراکیب سے کام لیا گیا ہے کہ ایک خوبصورت صوتی آہنگ پیدا ہوگیا ہے جیسے: کائنات شور و شر، سماعتیں ہیں یخ زدہ، فنا بقا کے درمیاں، ہجوم شہر زرد ہے، ہر ادا نبرد ہے، ہوائے تازہ سرد ہے، نفس نفس پکارتے، سراب در سراب وغیرہ۔
80کے بعد کے نظمیہ افق پر، عنبر بہرائچی، فرحت احساس، حمید الماس، شین کاف نظام، صدیق عالم، جاوید اکرم، سلیم انصاری،ف س اعجاز،عین تابش، مرغوب علی، ریاض لطیف، جینت پرمار، نعمان شوق، جمال اویسی، شکیل اعظمی کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ ان شاعروں نے اپنے اپنے طور پر اردو نظم نگاری کے فروغ میں حصہ لیا ہے۔ ہر ایک کا اپنا لہجہ اور آہنگ ہے۔ لیکن میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ن م راشد نے جو مفرس نظمیہ اسلوب خلق کیا تھا اس کو آگے لے کر چلنے والوں میں عبدالاحد ساز، ساجد حمید، کے علاوہ عین تابش، فرحت احساس اور جمال اویسی کے نام اہم ہیں۔ اس کے علاوہ جینت پرمار کے یہاں دلت اور دیہی فکر پر مشتمل نظمیں ملتی ہیں جو اپنا ایک منفرد اسلوب رکھتی ہیں۔ دوسروں کے یہاں بھی اس اسلوب کی عکاسی مل جاتی ہے لیکن بہت واضح نہیں۔ کچھ کو تو نثری نظم کی بُری لت نے خراب کیا اور پھر انھوں نے نظم کے اسلوب کو خراب کیا۔ کھردرے اسلوب کی بھی اپنی اہمیت ہے لیکن یہ کھردرا اُسلوب معرا اور آزاد ہیئتوں میں بھی اپنایا جاسکتا ہے۔
اپنے اسلوب اظہار کو جمال اویسی نے راشد کے آس پاس رکھا ہے۔ اویسی نے اپنے مجموعہ نظم ’نظم نظم‘ میں راشد کے اسلوب کو برتنے کا پورا اہتمام کیا ہے۔ وہ ماورائی اور Metaphysical expression سے بھی کام لیتے ہیں اور داستانی فضا بھی قائم کرتے ہیں۔ ایک روحانی سفر کی روداد، دل کی موت، اے زماں، اے لامکاں، زندگی: سراب آفریں، مری روح سے نہ حذر کرو، تحیّر، ماضی کی طرف، لفظوں کے سمندر جاگ ذرا، خودکُشی، مستقبل کا خوف، چراغوں کا مدفن، آگ کا رزمیہ وغیرہ ایسی ہی نظمیں ہیں جن کے آہنگ میں ایک مستحکم اسلوب کی گونج سنائی دیتی ہے۔ نظم اے زماں اے لامکاں کے یہ حصے دیکھیے:
اے زماں اے لامکاں/ تاریخ تیری صید ہے
چاروں طرف باندھی ہوئی حالات کی ٹٹّی/ تیرے کار تغیّر کی دلیل
اک طرف قعر جہاں حامد ترا/ اور/ ثابت و سیّار سب تیرے غلام/ اک طرف خوف اجل سے
دہشت و عرفان میں انسان غرق/ زندگی محکوم ہے تیری ازل سے/ تو خدا کی طرح سے چھایا ہوا ہے
مشرق و مغرب تری پہنائی میں گم/ اور زمیں پر/ لوگ یہ سمجھے ہوئے ہیں/ اک خدا ہے
روز محشر جس کو لینا ہے حساب/ اے زماں اے لامکاں۔ 
(نظم نظم : ص 83)
مذکورہ بالا نظموں کے علاوہ جمال اویسی نے احمد الاحمد سیریز کی نظمیں بھی کہی ہیں۔ یہ نظمیں پڑھ کر ذہن داستانی تصور میں کھو جاتا ہے۔ راشد کے علاوہ زبیررضوی کی ’پرانی بات ہے‘ سیریز کی نظمیں اسی داستانی اسلوب کو استحکام بخشتی ہیں۔ آج نثری اور ادھ کچری نظموں نے نظم کے سنجیدہ مزاج کو بگاڑ دیا ہے۔ لیکن کچھ نوجوان دوستوں کے سنجیدہ متون کو پڑھ کر قدرے طمانیت سی ہوتی ہے کہ انھوں نے نظم کے بیانیہ، اساطیری، داستانی، عجمی اور ہندی اسلوب کو پورے آب و تاب کے ساتھ اپنی تخلیقی حسّیت کا ناگزیر حصہ بنا رکھا ہے۔ جمال اویسی کی احمد الاحمد سیریز کی ایک نظم کا یہ حصہ بھی دیکھیے:
احمدالاحمد/ ترے کشکول میں اک سانپ/ پھن کاڑھے ہوئے بیٹھا ہوا ہے
اور تو/ دنیا کے کسی گوشے میں جاکر چھپ گیا ہے/ درک میں آتا نہیں
احمدالاحمد/ ترے کشکول پر صدیوں کے جالے پڑ گئے ہیں/ وقت کا تاریک سایہ کھا چکا ہے/ ایک تاریخ عظیم
احمدالاحمد/ تری وہ مثنوی کیا ہوگئی/ جس نے کئی اقبال پیدا کردیے تھے/ اور
تیری داستان غزلیہ سے/ مشرق و مغرب کے دل میں/ عشق کی گرمی ہوئی پیدا/ بتوں میں جان آئی
احمدالاحمد/ ترے کشکول میں رکھی ہوئی/ ان عظمتوں کا کیا ہوا؟
اوپر کی مثالوں کی روشنی میں یہ کہہ سکتے ہیں Subject matter ہی اسلوب وضع کرنے میں معاون ہوتا ہے۔ نظم میں موضوع کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ نئے نظم نگاروں میں کچھ نے اپنے پیش رو نظم نگاروں کی پیروی کی ہے۔ یہ پیروی محض نقالی نہیں بلکہ اپنے عہد کے کرب کو بھی سابقہ اسلوب میں پیش کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ مذکورہ بالا نظموں کے ٹکڑوں سے موضوع اور مواد سے اسلوب کی ہم آہنگی کا پتہ بھی چلتا ہے۔ نظم میں عنوان اور اس کے ذیل میں آنے والے Subject matter سے اسلوب کا گہرا رشتہ ہوتا ہے۔ نظم کی شناخت کے حوالے سے John Crowe Ransom نے اپنے مضمون Poetry : A note in ontology کے پہلے جملے ہی میں لکھا ہے:
A Poetry may be distinguished from a Poetry by virtue of Subject-matter, and Subject matter may be differentiated with respect to its ontology, or the reality of its being. 
(Twentieth Century Criticism, Ed. by Willian J Hardy, Max Westbrook, New York, 1974, p-43)
نظم کے وجود میں اس کے اسلوب کا خاصا عمل دخل ہوتا ہے۔ لیکن یہ اسلوب آسانی سے نہیں بنتا۔ راشد اور میراجی دونوں کے یہاں مکالماتی انداز ملتا ہے۔ یہ انداز علامہ اقبال سے مستعار ہے۔ نئے شاعروں میں بھی یہ انداز کبھی خودکلامی تو کبھی کرداروں کے درمیان گفتگو کے طور پر ملتا ہے۔ اوپر جمال اویسی کی نظم میں اے زماں اے لامکاں یا احمدالاحمد پڑھ کر ایک طرح کی ڈرامائی فضابندی کا احساس ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سی نظمیں ہیں جو یوں شروع ہوتی ہیں:
مجھے اے زندگی/ تجھ سے/ گلہ کچھ بھی نہیں ہے،
تجھے اے زندگی/ محسوس کرکے جی رہا ہوں/ تجھے اے زندگی صدیاں لگیں گی،
اے خدا/ خواب کی تعبیر کی آسودگی دے، کون ہو تم مرے قریب آؤ، لفظوں کے سمندر جاگ ذرا۔ 
گویا جمال اویسی نے اس طرزِتخاطب سے ایک طرح کا حرکیاتی نظام وضع کرنے کی کوشش کی ہے۔
1980 کے آس پاس اور اس کے بعد کی نظم نگاری میں عین تابش کا بھی ایک اہم نام ہے۔ ان کی نظموں کا مجموعہ ’اس خوشبو کا یہ قصہ ہے‘ کے نام سے 1991 میں منظرعام پر آیا تھا۔ صرف نظموں کے مجموعے بہت کم شائع ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ محض منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے نظمیں کہتے ہیں اور خود کو نظم نگار سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ نظم نگاری بہت ہی اذیت ناک تخلیقی ریاضت کا نام ہے۔ عین تابش کی نظموں میں اسلوب کی سطح پر اور اپنے ماقبل نظمیہ متون سے انسلاک پیداکرنے کے لحاظ سے ایک مستحکم رویہ نظر آتا ہے۔ ان کی نظم ’خس و خاشاک کے ملبے پر الحمرا‘ معرکہ، بوسیدہ قبا میری، مدینہ کہاں کھوگیا، راستہ دیکھ زلیخا ماہین، ماریہ! دیکھ میں کس قدر تھک گیا وغیرہ نظموں میں کہیں قصہ پن، کہیں اساطیری رنگ اور کہیں ماضی کے المیہ و طربیہ نقوش دیکھے اور محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ دو نظموں کا رنگ ملاحظہ کیجیے:
راستہ دیکھ زلیخا ماہین/ خیمۂ شرق میں مجبور زلیخا ماہین
راستہ دیکھ بیابان کے شہزادے کا/ آئے گا موسم گل رنگ/ تشکر کی قبا پہنے ہوئے مست خرام
اوس کی بوند سا چمکے گا محبت کا پیام/ حلقۂ تنگ سے باہر نہ نکل
شہر میں دور تک فتح کا جشن ہے/ شادیانوں میں کھوئی ہوئی صبح ہے/ روشنی سے چمکتی ہوئی رات ہے
فتح کے جشن کی کامرانی کے اعلان کی/ چار سمتوں میں تکریم ہے
گمرہی کے کھنکتے ہوئے جام ہونٹوں سے چمٹے ہوئے/ اک سرور تماشائے وحشت کی تصویر ہیں
قریۂ فسق میں نشّۂ کامرانی سے مسرور چہرے/ ادھر دیکھتے ہیں جدھر خیمۂ صبر میں بیکراں رات ہے
اہل صدق و صفا سر کی قربانیاں دے چکے/ سوگئے بستر خاک پر/ اب کسی جسم پر سر نہیں
بیبیاں جن کے حصے میں چادر نہیں/ خیمۂ صبر میں سر چھپائے ہوئے
اپنے بچوں کو آوازۂ العطش کی ردائیں اوڑھاتے ہوئے/ سوچتی ہیں مدینہ کہاں کھوگیا
(مدینہ کہاں کھوگیا)
نظم کے مذکورہ بالا متون میں استعاراتی اور تاریخی تہذیب سے کام لے کر عین تابش نے جو داستانی اور عجمی فضابندی کی ہے وہ تحسین کے لائق ہے۔ یہاں الگ الگ استعاروں اور علامتی پہلوؤں پر گفتگو کا موقع نہیں۔ البتہ منتخب لفظیات سے اس نظام اسلوب کو سمجھا جاسکتا ہے، جیسے:
زلیخا ماہین، خیمہ شرق، شہزادہ، فتح کا جشن، شادیانہ، قریہ فسق، خیمۂ صبر، اہل صدق و صفا، بستر خاک، بیبیاں، چادر، آوازہ العطش اور مدینہ وغیرہ۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ لفظ کوئی جامد شے نہیں اور اگر جامد ہے بھی تو شعر یا نظم کا حصہ بنتے ہی تحرک کی چاک پر آجاتا ہے۔ ہرلفظ ایک تہذیبی نشان (Cultural Code) ہوتا ہے۔ اگر کوئی شاعر بغیر سوچے سمجھے لفظوں کا بے جا استعمال کرے تو اس کے بودے تخلیقی سروکار پر مہر لگائی جاسکتی ہے۔ لفظ کو صرف ہیئت کے لیے یا خاکے کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ معنی برداری کے فرض کے ساتھ ساتھ لفظ ازخود ایک پیغام ہوتا ہے کیوں کہ اسی میں تہذیبی قدریں جاگزیں ہوتی ہیں۔ بارتھ نے یونہی نہیں کہا تھا:
The Medium is the message.
لفظ اگر ذریعہ اظہار ہے تو پیغام بردار بھی ہے۔ لفظ کے ہٹتے ہی پیغام نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے بجا طور پر لکھا ہے کہ:
’’میں اسلوب اور معنی کا مطالعہ الگ الگ نہیں کرتا۔ بلکہ صوت، لفظ، کلمہ، ہیئت، معنی مجموعی طور پربہ یک وقت کارگر رہتے ہیں اور اگر کسی نکتے کو واضح کرنے یا اس کا سراغ لگانے کے لیے کسی ایک لسانی سطح کو الگ کرنے کی کوئی خاص ضرورت پیش نہ آئے تو میرا ذہنی ردعمل کلّی ہوتا ہے، جزوی نہیں۔‘‘(ادبی تنقید اور اسلوبیات: ص26)
یہ بات کہتے ہوئے پروفیسر نارنگ نے Stanley Fish کے اسلوبیاتی مطالعے کو اپنے پیش نظر رکھا ہے۔
ہمارے تمام نظم نگاروں نے اپنی نظموں کے ذریعہ تہذیبی و ثقافتی نشانات تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ پروفیسر ابوالکلام قاسمی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
’’اگر ہم اس طریق مطالعہ کا استعمال کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ گذشتہ نصف صدی میں ایسی نظمیں بھی لکھی گئی ہیں جو ثقافت کو شعوری یا غیرشعوری طور پر ہمہ جہت انداز میں نشان زد کرتی ہیں۔ ان کے دائرۂ عمل میں علامات، اساطیر، تلمیحات اور آرکی ٹائپ بھی شامل ہیں، جن کے وسیلے معاصر ثقافت سے لے کر ماضی بعید تک کی ثقافتوں کے نشانات ڈھونڈے جاسکتے ہیں۔‘‘ (شاعری کی تنقید، ص 252)
بات یہ سمجھ میں آئی کہ نظموں کے ذریعے تہذیبی و ثقافتی نشانات تک پہنچنا مشکل نہیں۔ میرے خیال سے کوئی ایسا ادب پارہ نہیں جس کا کوئی نہ کوئی تہذیبی و ثقافتی سیاق نہ ہو۔ کہیں بہت واضح ہوتا ہے اور کہیں متن کے باطن میں پیوست ہوتا ہے۔ قاری یا ناقد اس کی تہوں میں ڈوبتا اور پھر تہذیبی انسلاکات کی جستجو کرتا ہے۔ معاصر نظموں میں چندربھان خیال کی ’ہاں وے مسلمان ہیں‘ اکرام خاور کی ’ہاں میں مسلمان ہوں‘ جینت پرمار کی نظم ’منو‘ فرحت احساس کی نظم ’فساد زدہ شہر‘ پیغام آفاقی کی نظم ’درندہ‘ نعمان شوق کی نظم ’کئی طرح کے سانپ‘ وغیرہ ایسی نظمیں ہیں جن میں وقت کے بدلے ہوئے تیور نے شدید تشنّج پیدا کردیاہے جس کے سبب اس کے آہنگ و اسلوب میں Loudness پیدا ہوگئی ہے۔ جدید عہد میں سیاسی و سماجی اتھل پتھل نے شعری اسلوب اور فکری ڈھانچے کو بھی متزلزل کردیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ شاعری کے لیے ایک طرح کا ابہام ضروری ہے لیکن ایسا بھی نہ ہو کہ معنی تک رسائی مشکل ہوجائے اور ترسیل کی ناکامی کے دفاع میں ہم لچر تاویلات پیش کرنے لگ جائیں۔ خدا کا شکر ہے کہ آج کی نظمیہ شاعری میں چیستاں بیانی اور زولیدہ خیالی کے لیے جگہ نہیں اور اگر اکّا دکّا اس کارِعبث میں ملوث ہوں گے بھی تو وہ سیدھی راہ پر آجائیں گے اور خدا نہ خواستہ نہیں بھی آئے تو اردو شاعری کا کیا بگڑ جائے گا؟
اردو نظم کے منظرنامے پر عنبر بہرائچی نے ہندی اور دیہی زندگی کو پیش کرنے کے لیے جس لہجے اور اسلوب کو نکھارا اور سنوارا ہے وہ قابلِ غور ہے۔ انھوں نے غزلیں بھی کہی ہیں لیکن ان کی نظمیہ شاعری غزل پر ہر طرح سے غالب نظر آتی ہے۔ یوں تو ان کی غزلوں میں بھی یہ رنگ نظر آتا ہے، لیکن نظموں میں انھیں پورا موقع ملا ہے کہ وہ اپنے خاص ہندوستانی رنگ کے اسلوب کو واضح طور پر ابھار سکیں۔ میں پہلے کچھ مصرعے، فقرے پیش کرنا چاہتا ہوں جن سے عنبربہرائچی کے دھانی دھانی اسلوب کا رنگ سمجھ میں آسکتا ہے:
گلابی چونچ میں کیڑے لیے اڑتی ہے گوریا
وہ جل کمبھی کی نیلی اوڑھنی اوڑھے ہوئے چپ چاپ لیٹی تھی / ہمارے گاؤں کی وہ جھیل
کنواری مانگ میں سندور کی لالی ابھر آئی
ریت کے چمکیلے دریا میں/ وہ گھونگھے چنتا رہتا ہے
نیم کے سائے میں اساڑھ کی بھری دوپہری تھرک رہی ہے
سنہرے گندم کی بالیاں بھی مہکتے کھیتوں میں ہنس رہی ہیں
رات بھر مہوے کی خوشبو دور تک پھیلی رہی
دودھ میں گوندھے ہوئے گیتوں کی کچی خوشبوئیں
گھڑے کولھوں پہ رکھ کر اک نویلی/ کسی پنگھٹ کی جانب چل پڑی
تم تو کہتے تھے اجلے کبوتر اڑیں گے مرے گاؤں میں
ٹوکری، اوکھلی، کھیت کی کیاریاں
ایسے اور بھی بہت سے کلیدی فقرے اور مصرعے عنبر بہرائچی کی نظموں میں موجود ہیں جن کے ذریعے ان کے اسلوب کی شناخت ہوسکتی ہے۔ جی چاہتا ہے کہ ان کی ایک پوری نظم ’نہائی ہوئی ہے پسینے میں لیکن‘ یہاں پیش کروں۔ نظم آخر نظم ہے غزل نہیں کہ ایک شعر سے کام چل جائے گا۔ ملاحظہ کیجیے:
ہوئی صبح کاذب/ دھندلکے بھرے نورزاروں نے شب رنگ فرغُل اتارے
بہکتی ہواؤں کے شانوں سے خوشبو نے گجرے لٹائے
وہ پاکیزہ جذبے کو جاں سے لپیٹے ہوئے باوضو، اک چٹائی پہ اللہ کے سامنے
سر بہ سجدہ ہوئی/ پھر سکوں ریز اک کیفیت سے نکل کر بڑی خوش دلی سے
ہر اک بھینس کا دودھ دُہنے لگی ہے/ اُدھر صبح صادق نے اجلے پہاڑوں پہ سونا لٹایا 
اٹھی دودھ دُہ کر مشقت کی پیکر/ انڈیلا کنول رنگ مٹکی میں وہ دودھ شائستگی سے
جو کنڈے جلا کر وہ مٹکی دہکتے الاؤ پہ رکھی/ وہ سوندھی مہک اڑ چلی، دور تک زندگی تھرتھرائی
لگی کوٹنے اوکھلی میں نیا دھان مسرور ہوکر/ نکل آئے شفاف چاول، چمکنے لگے موتیوں سے
اُنھیں سوپ میں بھر لیا اور پچھورا/ نہائی ہوئی ہے پسینے میں لیکن/ جگالی میں مصروف بھینسوں کو کھولا
انھیں ایک چرواہے کے ہاتھ سونپا/ کیا غسل، ٹوٹی چٹائی پہ آکر تلاوت میں گم ہے
(سوکھی ٹہنی پر ہریل)
اس نظم کو پڑھتے ہوئے مجھے یوں لگا جیسے میں نے پورا ایک ناول پڑھ لیا۔عنبر بہرائچی کی فکری اساس ہندوستانی رنگ پر قائم ہے۔ اس لیے ان کی بیشتر نظموں کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم گاؤں اور قصبے کی سیر کرتے ہوئے گزررہے ہیں۔ انھوں نے اپنا ایک خاص اسلوب وضع کرلیا ہے جو ان کے Subject-matter کے عین مطابق ہے۔ پروفیسر ابوالکلام قاسمی کے بقول:
’’انھوں نے اردو شاعری کی ہند ایرانی روایت اور لفظیات کے بجائے خالصتاً ہندوستان کے تہذیبی اور ثقافتی عناصر کو ترجیح دی ہے اور ان ہی عناصر کی بنیاد پر اپنے اسلوب کا تعین کیا ہے۔‘‘ (سرورق پُشت: سوکھی ٹہنی پر ہریل)
عنبر بہرائچی کی شاعری اور اس کے اسلوب کو دیکھتے ہوئے میں انھیں ایک ایسا قصہ گو سمجھتا ہوں جو شہر کی چکاچوند اور بھاگ دوڑکی زندگی اور نئی تہذیب کی چمک دمک میں رہ کر اپنے دل کی چوپال میں معصوم علامتوں اور عوامل کی مدد سے کہانی سنا رہا ہے۔ یہ اسلوب بہت زیادہ مانوس اور عام نہیں تھا کیوں کہ اردو شاعری فارسی زدہ اسلوب کے زیر نگیں پروان چڑھی تھی۔ لیکن چوں کہ ہماری ذہنی ساخت ہندوستانی پس منظر کی پروردہ ہے اس لیے میراجی کے اسلوب کی توسیع سے فوراً ہمارا رشتہ استوار ہوگیا۔ مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ عنبربہرائچی کا نظمیہ اسلوب اپنے ہم عصروں کے ساتھ ساتھ آئندہ آنے والے شاعروں کے لیے بھی ایک چیلنج ہے۔ میرے خیال سے میراجی کے ہندستانی اور دیومالائی اسلوب کو بطور چیلنج کے عنبربہرائچی نے قبول کیا اور اس اسلوب کو مزید صیقل کرنے کی کوشش کی۔ اسی لیے ان کے یہاں قدرے رواں اور سبک اسلوب ملتا ہے۔ میراجی کے یہاں ماضی اور اس کی تاریکی، قدیم روایات، رسوم و قیود، پیرہن اور ملبوسات، اجتماعی دیومالا اور بالخصوص جنسی میلان کا ادراک زیادہ نظرآتا ہے۔
80کے بعد جینت پرمار نے بھی خالص نظمیہ شاعری سے اپنی شناخت قائم کی ہے۔ ان کی تخلیقی حسّیت کا اظہار بہ یک وقت برش اور رنگوں کے ذریعے بھی ہوتا ہے اور صفحۂ قرطاس پر قلم کے ذریعے بھی۔ ان کی نظموں میں باپ، ماں، نانی اماں اور ایسے ہی دوسرے رشتوں کا تقدس بھی ملتا ہے اور مذموم سیاست سے پیداشدہ ہندستان کا کریہہ چہرہ بھی۔ دکھوں اور غموں کی جھیل میں وہ سنگ مار کر لہریں پیدا کرتے ہیں اور یہ لہریں انسانی دلوں کے ساحلوں کو چھوتی اور بھیدتی رہتی ہیں۔ احمدآباد، کالا سورج، منو، اچھوت، تخلیق، موت (’اور‘ سے)، مجھے یقیں ہے، شہر، فیاض علی خاں کا مزا، ہزاروں ہاتھ وغیرہ نظموں میں ان کے شدید احساس کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ دلت مسائل کو پیش کرنے کے لیے انھوں نے اپنی نظموں کو وسیلہ اظہار بنایا ہے۔ وہ لفظوں کا بے جا خرچ نہیں کرتے۔ وہ مفرس زبان و اسلوب کے بجائے آس پاس کے الفاظ اور روزمرہ کو اپنی نظموں میں استعمال کرتے ہیں۔ پروفیسر نارنگ نے لکھا ہے:
’’سامنے کا لفظ، سامنے کا بولتا ہوا رنگ۔ فارسی نژاد الفاظ مرکب بھاری بھرکم الفاظ اور اضافتوں سے گریز جینت پرمار کے اسلوب کی مخصوص پہچان ہیں۔ بہت کم الفاظ میں ماورائے الفاظ معانی خلق کرنے کا فن جینت پرمار کی مخصوص قوت کے پہلو ہیں۔  
(پیش لفظ، پنسل اور دوسری نظمیں: ص۔32)
پروفیسر نارنگ نے جینت پرمار کی شاعری پر تفصیل سے لکھا ہے۔ ان کی شاعری میں زمینی تہذیب اپنے دیسی لہجے میں بات کرتی نظر آتی ہے۔ آئیے اس دیسی پن اور دلت فکر کی شدّت کو نظم کے اس حصے میں محسوس کریں:
صبح سویرے/ کرن کے سوکھے پتے/ آنگن میں جھڑنے میں/ کاگا شور مچاتا ہے
تھوہڑ پر بیٹھے مرغ کی/ آخری چیخیں سنتا ہوں/ گھر کے اک کونے میں/ کھانس رہا ہے نانی کا کمبل
دھوپ نے چھت پر پانو دھرا/ مکئی کی روٹی اور مِرچ/ رہ تکتی ہے باپو کا
ٹوٹی پھوٹی چرپائی پر باپو کو/ بستی کے کچھ لوگ اٹھا لے آتے ہیں
اونچی ذات کے لوگوں نے بے رحمی سے/ ان کومارا ہے
(کالا سورج : اور، ص 67)
جینت پرمار کے یہاں جو پیکر بنتے ہیں وہ ہمیں محاکاتی سطح پر ہلکے رنگوں کی پینٹنگز کی طرف لے جاتے ہیں۔ وہ دیوار پرٹنگی ہوئی کسی پینٹنگ کو جیسے اپنے تخلیقی ناخن سے کھرچنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ ان کی ایک ایسی ہی معصوم پینٹنگ کے چہرے پر ان کے ناخنوں کی خراشیں محسوس کی جاسکتی ہیں:
سورج اگنے سے پہلے/ جلا رہی تھی چولھا/ دھواں سانس میں جاتے ہی/ کھانس پڑا تھا چندا
چرپائی سے جاگ پڑا میں / کٹیا میں گھستے ہی دیکھا/ چولھے میں لکڑی کی جگہ ماں جلتی تھی
(ماں : پنسل اور دوسری نظمیں، ص 45)
نظم میں ماں کے تقدس اور اس کے ایثار کو پیش کرنے کا یہ ایک نیا انداز ہے۔ ان کی ایسی ہی ایک اور چھوٹی سی نظم ہے جس کا لہجہ اسی طرح معصوم اور سیدھا سچا ہے:
کبھی چارپائی پہ/ بستر بچھاتے ہوئے/ ماں کو دیکھا بھی ہے؟
کھینچتی ہے/ کبھی سیدھا کرتی ہے/ چدّر کو کیسے!/ کہ اک آدھ سِلوٹ
تمھارے بدن میں کہیں چبھ نہ جائے
(ماں کی چنتا : پنسل اور دوسری نظمیں ص 47)
عنبربہرائچی کے پیش روؤں میں ندا فاضلی، زبیررضوی، عتیق اللہ، صادق، صلاح الدین پرویز کے نام لیے جاسکتے ہیں جنھوں نے ہندوستانی رنگ سے ایک اسلوب وضع کیا ہے۔ ان میں بھی ندا فاضلی اور صلاح الدین پرویز کے یہاں اس کے نقوش حاوی اور واضح طور پر ملتے ہیں۔ صلاح الدین کی نظمیہ شاعری کا زیادہ تر متن 1980کے بعد ہی منظرعام پر آیا۔ اس لحاظ سے انھیں اس عہد میں شامل کرنے میں قباحت نہیں۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ1980 کے بعد جن شاعروں کے مجموعے آئے ان سب کو شامل کرلیا جائے۔ بہرحال صلاح الدین پرویز کی نظموں کی بافت میں نئے پرانے اسلوب کی کارفرمائی نظرآتی ہے۔ بیشتر نظموں میں روایتی طرز سے انحراف کا رویہ نظر آتا ہے۔ ان کے ڈکشن میں ہندی، سنسکرت، دیہی، فارسی اور دکنی زبانوں اور بولیوں سے پیدا ہونے والا آہنگ دیکھا جاسکتا ہے۔ وہ لفظوں کے برتنے میں بہت سے Conventions کو توڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جدید نظم کے جو دو واضح اسالیب بنے تھے یعنی ن م راشد اور میراجی کے ذریعے، ان سے اپنی مشکل تخلیق روشن کرنے والوں میں اوپر کچھ شعرا کا ذکر ہوا۔ میراجی والی صف میں انحراف و اعتراف کے ساتھ صلاح الدین پرویز کو رکھ کر دیکھ سکتے ہیں۔
پرویز نے انسانی عشق اور جبلّی خواہشات کو شبدوں میں پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ انھوں نے نسوانی جذبات کو بھی بارہ ماسے میں پیش کیا ہے۔ بارہ ماسے سے ایک چھوٹا سا ٹکڑا دیکھیے:
کھٹ کھٹ کھٹ کھٹ/ دروجّے پہ کون ہے/ اتنی رات گئے کنڈی دیتا ہے
سوتے سوتے نیناں اٹھیں/ اندھیارے میں ٹک دور چلیں
سپنوں کے سِل بٹے سے ٹکرائیں/پھر بھی دوجے سے کنڈی لہرائیں
دُم دُم دَمن رہی چمک، جگنو رہے چمک/ جھیں جھیں جھینگر جھنکارے، پی پی پپیہرا بولے
میرا من رہ رہ ڈولے، رادھے،/ بھادوں کہاں لے جاؤں
(پرماتما کے نام آتما کے پتر، ص : 134)
ہندوستانی موسموں، پھولوں، تہواروں، رنگوں، رشی منیوں، صوفی سنتوں سے رشتہ جوڑ کر اور پھر انسانی عشق کے اندرون میں اتر کر صلاح الدین پرویز نے شاعری کی ہے۔ رادھے اور کرشن آتما اور پرماتما سے انھو ں نے اپنی تخلیقی آنچ کو مزید تیز کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ایک طویل نظم سے یہ دو ٹکڑے دیکھیے:
رادھے،/ تم اسنان کے بعد/ اپنے کالے کالے کیسوں میں
جو اک ڈھیلی ڈھالی گانٹھ لگا لیتی ہو!/ ایک ہوا کے جھونکے سے/ یہ گانٹھ اکثر کھل جاتی ہے
رادھے،/ ہوا کے جس جھونکے سے/ گانٹھ اکثر کھل جاتی ہے/ وہ جھونکا میں ہی ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رادھے/ سینگ کی ایک کنگھی سے/ سیدھی مانگ پاٹ کے/ تم جو روزانہ اس میں چٹکی بھر سیندور پروتی ہو/ وہ سندور بھی میں ہی ہوں
فرحت احساس نے جس شدت کے ساتھ اردو غزل کو اپنے وجود سے ہم آہنگ رکھا ہے اسی طرح نظموں سے بھی پیار کیا ہے۔ ان کے یہاں راشد اور میراجی دونوں آپس میں (اسلوب کی سطح پر) گلے ملتے نظر آتے ہیں۔ دو نظموں سے دو ٹکڑے ملاحظہ کیجیے:
اندھیاری، رینا ہُنکارے روم روم ڈرجاؤں/کیسے کیسے سپنے دیکھوں لاج سے بھر بھر جاؤں/میں یَوون سنکوچ کی ماری دیہہ لتا پرجاؤں/اس کی پریم شکھا روشن ہو تن من سے ور جاؤں/چُمبن آلنگن کا سونا چاندی سب دھر جاؤں/جس کی چوری کا ڈر ہوتا ہے ارپن کرجاؤں۔ (نظم: وہ آئے تو میں گھر جاؤں، میں رونا چاہتا ہوں: فرحت احساس، ص 59)
۔۔۔
چہروں کے سارے خط و خال بڑھتے گئے شجر ہوئے/ایک شجر کہ ایک شاخ ہجر ہے، اک وصال ہے/ ایک میں بے پنہ خوشی، شاخِ دگر ملال ہے/ کاش کہ یہ شجر چلے/ دھند کی رہ گزار سے/ ٹھوس زمیں سے آلگے/ پھر مری آنکھ میں کھلے ایسا جہانِ دو جہاں/ جس میں وہ سارے لوگ ہوں/ دید سے اور ندید سے/ جس میں تمام گھر سفر اور تمام بحر و بر/جس میں تمام دین و دہر اور تمام دشت و شہر/ سبزۂ یک نگاہ ہوں/ پھر مرے خاک آئینے، نور کی عکس گاہ ہوں
(نظم:کھوئے ہوؤں کے نقش پا، میں رونا چاہتا ہوں: فرحت احساس، ص 124)
اوپر کے پہلے نظمیہ حصے پر میرا جی اور دوسرے پر ن م راشد کے اسلوب کا پر تو دیکھا جاسکتا ہے۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اردو نظم کے منظرنامے پر ن م راشد اور میراجی کے جو دو اسالیب نمایاں طور پر ابھرے تھے ان کی پیروی کرنے والے آج بھی کررہے ہیں۔ ایسے شاعروں کی تعداد آج کم ہے جنھیں ہم ان کے اسالیب سے پہچان سکیں۔ ساتھ ہی ایک المیہ یہ بھی ہے کہ غزل کی سفاک نزاکتوں نے نظم کی نازک کھردراہٹوں کو بار بار ہر زمانے میں کاٹا اور آلودہ کیا ہے۔ پھر بھی ہم نظم کے صاف ستھرے اور توانا اسلوب سے بالکل مایوس بھی نہیں۔

Prof. Kausar Mazhari
Department of Urdu,Jamia Millia Islamia
New Delhi - 110025, Mob:- 09818418524








قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں